پند از لطائفِ ذخیرۂ حقائق
1۔ ایک طالب نے عبادت میں کسل و سستی کا علاج پوچھا، تحریر فرمایا کہ سستی کا علاج چستی ہے۔
2۔ ایک طالب نے غلبۂ خشیت میں لکھا، مجھے سخت خطرہ ہے۔ تحریر فرمایا کہ یہ خطرہ بحرِ معرفت کا قطرہ ہے، اللہ تعالیٰ اس کو بڑھا کر دریا کرے۔
3۔ حضرت خواجہ صاحب نے ایک عریضہ میں کسی باطنی پریشانی کے سلسلہ میں لکھا تھا کہ سخت الجھن ہوتی ہے۔ اس پر فرمایا کہ یہ الجھن مقدّمہ ہے سُلجھن کا۔ ﴿اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا﴾ (الشرح: 6)۔
؎ چونکہ قبض آمد تو در وَے بسط بِیں
4۔ فرمایا کہ یہ امر بسہولت یاد رکھنے کے لیے کہ شیخ کے ساتھ طالب کو کیا معاملہ رکھنا چاہیے، بس ان ہم قافیہ الفاظ کو یاد رکھے: اطّلاع اور اتّباع، اِعتقاد و اِنقیاد۔
5۔ ایک بار فرمایا کہ اس طریق میں خودرائی نہ کرے بلکہ خود کو رائی کرے۔ یعنی اپنے کو حقیر و ذلیل سمجھے۔
6۔ ایک صاحب کو خیال ہو گیا تھا کہ وہ ابدال ہو گئے۔ فرمایا کہ ہاں پہلے گوشت تھے، اب دال ہو گئے۔ یعنی اس عُجب سے وہ گَھٹ گئے۔
7۔ شملہ کے سفر کے بعد وہاں کی برائیاں جو غالب ہیں، بیان فرما کر فرمایا کہ ہم تو سنا کرتے تھے کہ شملہ بمقدارِ علم ہو گا (یعنی اچھی جگہ ہو گی)، لیکن وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ شملہ بمقدارِ جہل ہے (یعنی بری جگہ ہے)۔
8۔ ایک طالب کا خط فضول مضمون سے لبریز تھا اور آخر میں لکھا تھا کہ مضمون طویل ہونے سے تکلیف ضرور ہوئی ہو گی، معاف فرمائیں۔ حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے یہ جواب تحریر فرمایا کہ طویل ہونے سے تو تکلیف نہیں ہوئی، مگر لا طائل (یعنی بے مقصد) ہونے سے ہوئی۔
9۔ فرمایا کہ آج کل لوگوں کی مال پر تو نظر ہے مآل پر نہیں۔
10۔ فرمایا کہ درستی تو درشتی ہی سے ہوتی ہے۔
11۔ ایک بار کسی سے اظہارِ خفگی کے وقت فرمایا کہ میں بھی بشر ہوں، اور بشر بھی وہ جس میں با جارّہ ہے، فا کلمہ نہیں۔
12۔ فرمایا کہ آج کل کے اکثر مدّعیانِ توکّل، اہلِ توکّل کیا اہلِ تَأَکُّل ہیں۔
13۔ فرمایا کہ آج کل بعض طلباء کی دستار بندی تو ہو جاتی ہے لیکن ان میں دس تار تو کیا، ایک تار بھی علم و عقل کا نہیں ہوتا۔
14۔ فرمایا کہ محبت کی عینک خورد بین کی خاصیّت رکھتی ہے، جس سے چھوٹی چیزیں بھی بڑی نظر آنے لگتی ہیں۔ اور جس طرح ایک محبّت کی خورد بین ہوتی ہے جس سے چھوٹا ہنر بڑا نظر آتا ہے۔ اسی طرح ایک نظر خوردہ بین بھی ہوتی ہے، جس سے چھوٹا عیب بھی بڑا دکھائی دیتا ہے۔
15۔ منصبِ اِفتاء کی ذمّہ داریوں کا تذکرہ تھا، فرمایا مفتی ہونا بھی قیمتی کا کام ہے، مفتی کا نہیں۔
16۔ فرمایا کہ طالبینِ اصلاح کے ساتھ نرمی سے پیش آنے کا مشورہ تو ایسا ہی ہے، جیسے کوئی کہے کہ مُسہِل طلب مرض کا مُفرِحات سے علاج کرو، یا جس دُنبَل کے اندر مادۂ فاسدہ بھرا ہوا ہو اور آپریشن کی ضرورت ہو، وہاں یہ کہا جائے کہ نہیں صرف اوپر ہی اوپر مرہم لگا دو۔ پھر وہ مادۂ فاسدہ اندر ہی اندر پھیل کر سارے جسم کو سڑا دے۔
17۔ فرمایا کہ سیاست کی اس طریق ہی میں کیا ہر جگہ ضرورت پڑتی ہے۔ چنانچہ میاں جیون کا اپنے شاگردوں کو اور ماں باپ کا اپنی اولاد کو تادیب کے لیے مارنا پیٹنا اور حاکموں کا اپنے محکومین مجرمین کو سزائیں دینا۔ اور محض فہمائش کو کافی نہ سمجھنا، عام طور پر بلا نکیر معمول ہے۔
مرضِ بد نظری کا ایک علاج:
ایک مجازِ مخصوص مبتلائے مرضِ بد نظری کا علاج یوں فرمایا کہ جب ایسی کوتاہی ہو دو مہینے تک میرے پاس خط بھیجنے کی اجازت نہیں۔ اور ہر بار کی معیاد جداگانہ شروع ہو گی۔ مثلاً اگر ایک ہی دن میں چھ بار ایسی کوتاہی ہو گئی تو سال بھر تک خط و کتابت بند۔ چونکہ خط و کتابت کی ممانعت بوجہ خصوصیتِ تعلّق بغایت شاق تھی، اس لیے انہوں نے یہ تہیّہ کر لیا کہ ان شاء اللہ تعالیٰ عمر بھر کبھی ایک مرتبہ بھی اس سزا کی نوبت نہ آنے دی جائے گی۔ چنانچہ جس جرم کا ترک محال نظر آ رہا تھا اس ممانعت کے بعد اس کا ارتکاب محال نظر آنے لگا، اور اتنے بُرے اور بڑے مرض کا ایسا آسانی کے ساتھ استیصالِ کلّی ہو گیا۔
صفتِ سیاست کی تائید:
(عَنْ عَلِیٍّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: رَحِمَ اللہُ عُمَرَ یَقُوْلُ الْحَقَّ وَ إِنْ کَانَ مُرًّا، تَرَکَہٗ الْحَقُّ وَ مَا لَہٗ مِنْ صَدِیْقٍ) (سنن ترمذي، رقم الحديث: 3714) اللہ تعالیٰ رحمت (خاص) نازل فرما دے عمر (رضی اللہ عنہ) پر وہ حق بات کہہ دیتے ہیں اگرچہ (کسی کو عقلاً یا کسی کو طبعًا) تلخ (و نا گوار) معلوم ہو (یعنی ان میں یہ صفت ایک خاص درجہ میں غالب ہے۔ اس درجہ کی حق گوئی نے ان کی یہ حالت کر دی) کہ ان کا کوئی (اس درجہ کا) دوست نہیں رہا (جیسا تسامح و رعایت کی حالت میں ہوتا ہے)۔
ف۔ ترجمہ کے درمیان توضیحات سے تین شبہے رفع ہو گئے: ایک یہ کہ کیا دوسرے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم میں یہ صفت حق گوئی کی نہ تھی۔ دوسرا شبہ یہ کہ کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا کوئی دوست نہ تھا۔ تیسرا شبہ یہ کہ کیا اس مجمعِ خیر میں حق بات کے تلخ سمجھنے والے موجود تھے۔
اول شبہ کا جواب یہ ہے کہ اصل صفت سب صحابہ رضی اللہ عنہم میں مشترک تھی، لیکن یہ اختصاص غلبہ کے ایک خاص درجہ کے اعتبار سے ہے۔ اور یہی توجیہہ ہے خاص خاص حضرات کے لیے خاص خاص فضائل کا حکم فرمانے کی۔ اور اس غلبہ کا مصداق یہ ہے کہ حق کے درجات متفاوت ہوتے ہیں، ایک درجہ یہ ہے کہ اس کا اظہار واجب ہے، دوسرا درجہ یہ ہے کہ اولیٰ یا مباح ہوتا ہے۔ سو پہلا درجہ تو سب صحابہ رضی اللہ عنہم میں بلکہ سب اہلِ حق میں مشترک ہے، اور دوسرے درجہ کے اعتبار سے بزرگوں کے حالات مختلف ہوتے ہیں بعض مروّت یا تسامح کو مصلحت پر ترجیح دے کر سکوت فرماتے ہیں، بعض مصلحت کو مروّت پر ترجیح دے کر کہہ ڈالتے ہیں۔ پہلا درجہ نفسِ انصاف کا ہے اور دوسرا درجہ غلبہ کا ہے۔
دوسرے شبہ کا جواب یہ ہے کہ دوستوں کے ایک خاص درجہ کی نفی مقصود ہے یعنی اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ مروّت کو مصلحت پر غالب رکھ کر طرح دے جاتے، تو اس حالت میں ان کے جیسے دوست ہوتے ویسے اب نہیں رہے۔
تیسرے شبہ کا جواب یہ ہے کہ طبعی تلخی و ناگواری اور اس کے مقتضا پر عمل نہ ہونا، یہ خیریت کے منافی نہیں۔ باقی ایسے لوگ بھی ہر زمانہ میں ہوتے ہیں جن کو عقلی تلخی بھی ہوتی ہے، اگرچہ اس وقت ایسے اقلِّ قلیل تھے۔
کوئی حدیث کی کتاب دیکھئے، اس میں جہاں اور ابواب ہیں وہاں کتاب الحدود، کتاب القصاص، کتاب التعزیرات بھی ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہ بھی حضور ﷺ کے اخلاق ہیں کہ ضرورت کے مواقع پر سیاست کا استعمال اور جرائم کے ارتکاب پر سزاؤں کی تنفیذ کی جائے۔
اپنے نفس کے ساتھ سوءِ ظن رکھنا:
حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت والا اپنے نفس کے ساتھ ہمیشہ سوءِ ظن رکھتے ہیں۔ اور گو مواقعِ ضرورت و مصلحت میں سیاست کا استعمال فرماتے ہیں، لیکن ہر واقعہ کے بعد بار بار اظہارِ افسوس و ندامت بھی حالاً و قالاً و عملاً فرماتے ہیں، یہاں تک کہ بعض مرتبہ تو اسی رنج و افسوس میں رات رات بھر نیند نہیں آئی۔ اور بعض مواقع پر حضرت والا کو معافی مانگتے ہوئے اور بعض صورتوں میں مالی تدارک فرماتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ اور یہ تو ہمیشہ دیکھا بلکہ اس کا خود بھی ذاتی تجربہ کیا کہ حضرت والا کی خفگی مفتاحِ عنایات و توجّہات و دعواتِ خاصّہ زائدہ ہو جاتی ہے۔ اور اسی سوءِ ظن بنفسہٖ کی وجہ سے حضرت والا نے معترضین کے مقابلہ میں کبھی رد کی کوشش نہیں فرمائی، بلکہ ان کے اعتراضوں پر بھی بالخصوص جہاں مظنّہ نیک نیتی کا تھا، اس نیت سے نظرِ ثانی فرمائی کہ اگر ان اعتراضات میں کوئی امر واقعی قابل قبول ہو تو اس کو قبول کر کے اس پر عمل کیا جائے۔
بے ادبی شیخ کی، زیادہ مضرّ ہے معصیت سے:
فرمایا کہ اہل اللہ کے دل دُُکھانے والے اور ان کے ستانے والوں کا اکثر یہی انجام ہوتا ہے کہ وہ مبتلائے آلام و مصائبِ ظاہری و باطنی کر دیئے جاتے ہیں، جس کا بعض اوقات خود ان کو بھی احساس ہونے لگتا ہے، اور پھر ان میں سے بعض متنبّہ ہو کر تائب بھی ہو جاتے ہیں۔ بالخصوص تعلّقِ ارادت قائم کر لینے کے بعد پھر گستاخی اور بے ادبی کرنا تو خاص طور سے زیادہ موجبِ وبال ہوتا ہے۔ چنانچہ اس تعلّق میں بعض اعتبارات سے معصیت اتنی مضرّ نہیں جتنی بے ادبی مضرّ ہو جاتی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ معصیت کا تعلق تو حق تعالیٰ سے ہے اور چونکہ وہ تاثیر و انفعال سے پاک ہیں اس لیے توبہ سے فورًا معافی ہو جاتی ہے، اور پھر اللہ تعالیٰ کے ساتھ ویسا ہی تعلق پیدا ہو جاتا ہے۔ بخلاف اس کے کہ بے ادبی کا تعلّق شیخ سے ہے اور وہ چونکہ بشر ہے اس لیے طالب کی بے ادبی سے اس کے قلب میں کدورت پیدا ہو جاتی ہے، جو مانع ہو جاتی ہے تعدیۂ فیض سے۔
شیخ کے قلب کا تکدّر طالب کے قلب کو تِیرہ و مکدّر کر دیتا ہے:
حضرت والا نے حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی ایک مثال بیان فرمائی کہ اگر کسی چھت کی میزاب کی مَخرج (پرنالے کے سوراخ) میں مٹی ٹھونس دی جائے، تو جب آسمان سے پانی برسے گا تو گو وہ چھت پر تو نہایت صاف و شفّاف حالت میں آئے گا، لیکن جب میزاب میں ہو کر نیچے پہنچے گا تو بالکل گدلا اور میلا ہو کر۔ اسی طرح شیخ کے قلب پر جو ملاء اعلیٰ سے فیوض و انوار نازل ہوتے رہتے ہیں ان کا تعدیہ ایسے طالب کے قلب پر، جس نے شیخ کے قلب کو مکدّر کر رکھا ہے، مکدّر صورت ہی میں ہوتا ہے۔ جس سے طالب کا قلب بجائے منوّر و مصفّا ہونے کے تِیرہ و مکدّر ہوتا چلا جاتا ہے۔
تکدّرِ شیخ طالب کے داعیۂ عمل کا مُفوِّت اور دنیوی وبال کا لانے والا ہے:
حضرت والا یہ بھی فرمایا کرتے ہیں کہ اپنے شیخ کے قلب کو مکدّر کرنے اور مکدّر رکھنے کا طالب پر یہ وبال ہوتا ہے کہ اس کو دنیا میں جمعیتِ قلب کبھی میسّر نہیں ہوتی اور وہ عمر بھر پریشان ہی رہتا ہے، لیکن چونکہ یہ ضروری نہیں کہ ہر فعل موجبِ تکدّرِ شیخ معصیت ہی ہو، اس لیے ایسی صورت میں اس فعل سے براہ راست تو کوئی دینی ضرر نہیں پہنچتا، لیکن بواسطہ وہ اکثر سبب ہو جاتا ہے دینی ضرر کا بھی۔ جس کی ترتیب یہ ہوتی ہے کہ اول شیخ کے قلب کا تکدّر سبب ہوتا ہے طالب کے انشراحِ قلبی کے زوال کا۔ اور پھر یہ عدمِ انشراح اکثر سبب ہو جاتا ہے کوتاہیِ اعمال کا، اور پھر یہ کوتاہیٔ اعمال سبب ہو جاتی ہے دینی اور اخروی وبال کا۔ گو عدمِ انشراح کی حالت میں بھی اگر وہ اپنے اختیار اور ہمت سے برابر کام لیتا رہے اور اعمالِ صالحہ کو بہ تکلّف جاری رکھے تو پھر کوئی بھی دینی ضرر نہ پہنچے۔ لیکن اکثر یہی ہوتا ہے کہ انشراح کے فوت ہو جانے سے اعمال میں بھی کوتاہیاں ہونے لگتی ہیں اور اس طرح بواسطہ دینی ضرر کا بھی اکثر تحقق ہو ہی جاتا ہے۔ کیونکہ جو داعیہ عادیہ تھا یعنی انشراح، وہ تو جاتا رہا اور بلا داعیہ اکثر کو عمل بہت دشوار ہوتا ہے۔
حکمِ بالا معتقد فیہ میں ہے:
حضرت والا یہ بھی فرمایا کرتے ہیں کہ گو میں خود کوئی چیز نہیں، لیکن جب کسی نے کسی شخص کو اپنا معتقد فیہ بنا لیا اور پھر بلا وجہ اس کے ساتھ خلافِ اعتقاد معاملہ کر کے اس کو مکدّر کر دیا، تو اس صورت میں بھی ویسی مضرّتیں پہنچیں گی جیسی کاملین و مقبولین کو مکدّر کرنے سے پہنچتی ہیں۔
عرفی اخلاق مانعِ خدماتِ دینیہ ہیں:
حضرت والا نے اکثر فرمایا کہ اگر میرے یہاں عُرفی اخلاق ہوتے تو اس قدر ہجوم ہوتا کہ جو کچھ میں نے دینی خدمت کی ہے اور کر رہا ہوں، وہ ہرگز ممکن نہ ہوتی۔ نیز اس ہڑبونگ میں آنے والوں کو کوئی موقع ہی خاص نفع حاصل کرنے کا نہ مل سکتا۔ نیز مخلصین و غیرمخلصین میں بالکل امتیاز نہ رہتا، اب جتنے ہیں بفضلہٖ تعالیٰ وہ قابلِ اطمینان تو ہیں، کیونکہ ایسا ویسا تو میرے یہاں ٹھہر ہی نہیں سکتا۔
رخصت کے وقت حضرت والا کی بشاشت و سیاست:
اکثر دیکھا کہ حضرت والا رخصت کرتے وقت بہت بشاشت کے ساتھ پیش آتے ہیں، بجز اُُن مواقع کے جن میں سیاست کا مقتضا اس کے خلاف ہو، ایسے مواقع پر تو رخصت کے وقت بالقصد یاد دلاتے ہیں کہ دیکھو تم مجھ کو اپنی حرکتوں سے اذیّت دے کر جا رہے ہو، اس کو یاد رکھنا تاکہ آئندہ کسی کو نہ ستاؤ۔
حضرت والا کو بارہا فرماتے ہوئے سنا کہ نیک کاموں میں دل کے چاہنے نہ چاہنے پر مدارِ کار نہ رکھنا چاہیے، ہمّت اور اختیار سے کام لینا چاہیے۔
سفر میں شیخ کی معیت:
فرمایا کہ اگر موقع ملے تو طالب کو کبھی کبھی شیخ کے ساتھ سفر بھی کرنا چاہیے۔ کیونکہ سفر میں زیادہ معیت رہتی ہے اور مختلف قسم کے سابقے پڑتے ہیں، جس سے دل کھل جاتا ہے اور مل جاتا ہے اور باہم مناسبت پیدا ہو جاتی ہے، اور مناسبت ہی پر فیض کا دار و مدار ہے۔ نیز ایک مصلحت یہ بھی ہے کہ معیتِ سفر اصلاح میں بہت معین ہوتی ہے، کیونکہ سفر میں شیخ کو طالب کے مختلف قسم کے حالات و معاملات کے مشاہدہ کا موقع ملتا ہے، جن پر وہ روک ٹوک کر سکتا ہے۔ یہ موقع حَضر میں مستبعد ہے۔ اسی طرح سے طالب کو بھی شیخ کے بعض ایسے معاملات سے سبق حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے جس کا اتفاق حضر میں نہیں ہوتا۔ اگر ہجومِ وساوس کی یا محض میلان الی المعاصی بلا عمل و عزم عمل کی شکایت کرتا ہے، تو سب سے پہلے حضرت والا یہی ضابطہ کا سوال فرماتے ہیں کہ اس میں دینی ضرر کیا ہے۔
بقائے فیض کی شرط بعدِ تکمیل:
فرمایا کہ تکمیل کے بعد بھی بقائے فیض کی شرط یہ ہے کہ اپنے شیخ کے ساتھ عمر بھر اعتقاد اور امتنان کا تعلّق قائم رکھا جائے۔ ہاں تکمیل کے بعد تعلیم کی حالت البتہ نہیں رہتی۔
فرمایا کہ کسی کیفیت کا طاری ہونا اور چندے جاری رہنا، یہ بھی بسا غنیمت ہے، ہمیشہ رہنے کی چیز تو صرف عقل اور ایمان ہے۔ باقی سب میں آمد و رفت لگتی رہتی ہے۔
تعلّق مع اللہ سرمایۂ تسلّی ہے:
حضرت خواجہ صاحب فرماتے ہیں کہ ایک بار احقر حضرت والا سے رخصت ہوتے وقت بہت دلگیر ہونے لگا، تو نہایت شفقت کے لہجہ میں فرمایا کہ دلگیر ہونے کی کوئی وجہ نہیں، کیونکہ الحمد للہ سرمایۂ تسلّی ہر وقت پاس ہے، یعنی تعلّق مع اللہ۔
حضرت خواجہ صاحب کا شعر ہے ؎
بتایا ہے جو گُر حضرت نے اِستحضار و ہمت کا
عجب یہ نسخۂ اکسیر ہے اصلاحِ امّت کا
واقعی اگر اپنے عیوب کا استحضار رکھا جائے اور وقت پر ہمّت سے کام لیا جائے، تو کسی گناہ کا صدور ہی نہ ہو۔ اور ہمّت کے متعلق حضرت والا نے فرمایا: جس ہمّت کے بعد کامیابی نہ ہو وہ ہمّت ہی نہیں، بلکہ ہمّت کی محض نیّت ہے۔
ف: ''سُبْحَانَ اللہِ'' ہمّت کی کیا نفیس اور قابلِ استحضار حقیقت ظاہر فرمائی۔
معمولات کی پابندی بڑی رحمت ہے:
ایک صاحب نے لکھا کہ معمولات تو بفضلہٖ تعالیٰ جاری ہیں، لیکن قلب میں فرحت نہیں پیدا ہوتی۔ تحریر فرمایا کہ خدا کا شکر کیجئے رحمت تو ہے، فرحت نہیں ہے نہ سہی۔ فرحت تو محض اس کی لونڈی ہے، ان شاء اللہ وہ بھی اپنی باری میں حاضر ہو جائے گی۔
غلبۂ ذکر مُزیلِ خیالاتِ فاسدہ ہے:
ایک بی بی نے شکایت کی کہ دورانِ ذکر اِدھر اُدھر کے فضول خیالات بہت پریشان کرتے ہیں۔ فرمایا کہ ایسے خیالات کا کچھ غم نہ کریں بلکہ مباح خیالات کو غنیمت سمجھیں، کیونکہ وہ وقایہ ہو جاتے ہیں معاصی کے خیالات کے۔ اگر ان سے دل بالکل خالی ہو جائے تو پھر معاصی کے خیالات آنے لگیں گے۔ البتّہ جب اللہ تعالیٰ اپنے ذکر کا غلبہ نصیب فرمائیں گے تب یہ بھی جاتے رہیں گے۔
محبّت اَقرب طریقِ وصول ہے:
فرمایا کہ سالک کو تسلّی دینے سے جس قدر سلوک طے ہوتا ہے کسی سے نہیں ہوتا، کیونکہ اس سے حق تعالیٰ کے ساتھ محبّت کا تعلّق پیدا ہو جاتا ہے اور محبّت ہی اقرب طریق ہے۔ اسی لیے مجھ کو بڑا اہتمام رہتا ہے کہ طالبین کے قلوب میں اللہ تعالیٰ کی محبّت پیدا کی جائے۔
جس کے سر پر اللہ ہو اس کا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے:
ایک صاحب سے جو وساوس سے سخت پریشان تھے، مفصّل مضامینِ تسلّی بیان کر کے فرمایا کہ میاں بھلا جس کے سر پر اللہ ہو پھر اس کا کیا فکر، شیطان اس کا کیا بگاڑ سکتا ہے؎
دشمن اگر قویست نگہبان قوی تر است
خود اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿إِنَّهُ لَيسَ لَهٗ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَلٰى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ﴾ (النحل: 99)
کارِ خود کُن، کارِ بے گانہ مکُن:
ایک مخلص دیندار نے مدرسہ دیوبند کے موجودہ فتنہ و فساد کے سلسلہ میں بعض علماء و ممبرانِ مدرسہ کے خلاف بدظنّی کے وساوس پیدا ہونے کی بہت طویل داستان لکھی کہ چونکہ ان سب حضرات سے بوجہ خاص دیوبندی خیال اور سلسلۂ امدادیہ میں داخل ہونے کے پختہ عقیدت مندی ہے, اس لیے کسی صاحب کی طرف سے بھی بدگمانی کا خیال نہیں ہو سکتا۔ اور گو یہ سیہ کار اس قابل کہاں جو بزرگانِ دین کی رائے اور مصلحت میں دخل دے سکے، لیکن میرا ناقص خیال جس طرف یقین کے ساتھ جھکتا ہے، اس طرف سے ہٹنا دشوار ہو جاتا ہے۔ لہٰذا مجبوری ہے اور سخت خلجان میں ہوں۔ احقر کا اطمینان فرمایا جائے۔
حضرت والا نے اس کا حسبِ ذیل مختصر مگر نہایت تسلّی بخش اور جامع مانع جواب اِرقام فرمایا، جو یہ ہے کہ آپ نے اپنے دین کی درستی کے لیے بہت محنت کی، ان شاء اللہ اس کا اجر ملے گا۔ چونکہ ہر مریض کے لیے جدا نسخہ نافع ہوتا ہے، اس لیے جو نسخہ آپ کے لیے نافع ہے، لکھتا ہوں۔ وہ یہ ہے ؎
کارِ خود کُن، کارِ بے گانہ مکُن
زبان و قلم و قلب سے سکوت رکھیں، پریشانی پر صبر کریں۔ نہ کسی کے معتقد رہیں، نہ کسی سے بد اعتقاد۔ کیونکہ یہ دونوں چیزیں ایذاء دہ ہیں۔ قیامت میں اس کی پوچھ گچھ بھی آپ سے نہ ہو گی۔ والسّلام
فرمایا کہ حدیث شریف میں ہے کہ اخیر زمانہ میں دین کا سنبھالنا ایسا مشکل ہو گا جیسے چنگاری کو ہاتھ میں پکڑنا۔ اس زمانہ میں اگر کوئی ایک عمل نیک کرے گا تو اس کو پچاس عاملوں کا ثواب ملے گا۔ حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم نے سوال کیا کہ ''یَا رَسُوْلَ اللہِ أَ مِنَّا أَوْ مِنْھُمْ؟'' یعنی: ہم میں سے پچاس یا اُن میں سے پچاس؟ ارشاد فرمایا: ''مِنْکُمْ'' یعنی: تم میں سے پچاس۔ (الترغیب و الترھیب، الرقم: 3172)
پھر فرمایا: اسی لیے تو میں کہا کرتا ہوں کہ اگر اس وقت کوئی ایک نیک کام کرے تو اس کو پچاس ابوبکر رضی اللہ عنہ کے برابر ثواب ملتا ہے۔
ایک طالبِ اصلاح نے کشاکشِ نفس کی شکایت کی تو نہایت شفقت کے ساتھ فرمایا کہ جب دو پہلوانوں میں کشتی ہوتی ہے تو یہ نہیں ہوتا کہ ایک تو زور لگائے جائے اور دوسرا اپنے ہاتھ پاؤں ڈھیلے ہی ڈال دے اور اپنے مقابل کو خود موقع دیدے کہ وہ آسانی سے اس کو پچھاڑ سکے۔ یہ تو نفس سے کُشتی ہے، اپنا سارا زور لگانا چاہیے، پھر اگر پورا غلبہ نہ حاصل ہو تو کم از کم یہ تو ہو کہ کبھی تم نے اس کو پچھاڑ دیا، کبھی اس نے تم کو پچھاڑ دیا، لیکن ہمت کسی حال میں نہ ہارنا چاہیے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ دیکھیں گے کہ یہ بیچارہ اپنا سارا زور لگا رہا ہے، تو غلبہ بھی عطا فرمائیں گے۔ غرض نہ ہمّت ہارنا چاہیے، نہ مایوس ہونا چاہیے۔
مکتوب مُلقّب بہ تسہیل الطّریق:
خود مشقت میں پڑنے کا شوق ہی ہو تو اس کا تو علاج ہی نہیں، باقی راستہ بالکل صاف ہے کہ غیر اختیاری کی فکر میں نہ پڑیں، اختیاری میں ہمت سے کام لیں۔ اگر کوتاہی ہو جائے ماضی کا استغفار سے تدارک کر کے مستقبل میں پھر تجدیدِ ہمّت سے کام لینے لگیں اور ہمت کے ساتھ دعا کا بھی التزام رکھیں، اور بہت لجاجت کے ساتھ۔
حال: ایک صاحب نے لکھا کہ وساوس و خطرات کا اس قدر ہجوم ہوتا ہے اور وساوس و خطرات بھی وہ کہ شاید کسی دہریہ کو بھی نہ آتے ہوں۔ اس وقت دل چاہتا ہے کہ کسی ترکیب سے خود کشی کر لوں۔ اس لیے عرض پرداز ہوں کہ خاص توجّہ مبذول فرمائیں، اور دعا سے اِمداد فرمائیں۔
تحقیق: دعا سے کیا عذر ہے مگر یہ حالت مذموم ہی نہیں، جس کو ایسا مہتمّ بالشّان سمجھا جائے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم سے اکمل و افضل تو کسی کی حالت نہ تھی، حدیثوں میں مصرّح ہے کہ ان کو ایسے وساوس آتے تھے کہ وہ جل کر کوئلہ ہو جانا زیادہ محبوب سمجھتے تھے ان کو زبان پر لانے سے، اور طبیبِ کامل ﷺ نے اس کو صریح ایمان کی علامت قرار دیا۔ بس جو امر علامتِ ایمان ہو، اس پر اگر مسرّت نہ ہو تو غم کے بھی کوئی معنی نہیں۔
ف: حضرت والا جذباتِ انسانی کے ایسے ماہر اور امراضِ روحانی کے علاج میں ایسے حاذق ہیں کہ طالبِ مذکور جو اس درجہ غم میں مبتلا تھے کہ خود کشی پر آمادہ تھے، اس کا مشورہ نہیں دیا کہ اس حالت پر مسرور ہوں کیونکہ تکلیف ما لا یُطاق ہوتی اور مشورہ مفید نہ ہوتا۔ ''سُبْحَانَ اللہِ''! حکیم الامّت کی یہی شان ہونی چاہیے۔ جس طرح حضرت فرمایا کرتے ہیں کہ جب کسی کے یہاں کوئی موت ہو جاتی ہے اور وہاں ضرورت وعظ کی ہوتی ہے، تو معتد بہٖ زمانہ گذرنے کے بعد کہتا ہوں، ورنہ تازہ غم میں اگر وعظ کہا جائے تو بالکل بیکار ہو جائے۔
تمنّا اور شوق کا فرق:
ایک طالب کچھ دن کے لیے مقیمِ خانقاہ ہوئے تھے، انہوں نے کبھی حضرت والا کو کسی گفتگو کے سلسلہ میں حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا یہ ارشاد فرماتے سن لیا کہ "ایسی ہجرت سے کہ جسم تو مکّہ میں ہو اور دل ہندوستان میں، یہ اچھا ہے کہ جسم تو ہندوستان میں اور دل مکہ میں ہو"۔ اس کو انہوں نے اپنے قیامِ خانقاہ کی حالت پر منطبق کیا تو یہ سوچ کر سخت پریشان ہوئے کہ مجھ کو تو بیوی بچے بہت یاد آتے ہیں اور خیال لگا رہتا ہے کہ آج سے گھر جانے کے اتنے دن باقی ہیں۔ اس کی اطلاع انہوں نے حضرت والا کو بذریعہ عریضہ کی اور ''إِنَّا لِلہِ'' کے ساتھ یہ لکھا کہ کیا اس خیال کی بناء پر بفحوائے ارشاد حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ میرا یہاں خانقاہ حاضر ہونا ہی اکارت گیا؟
تحقیق: فرمایا کہ یہ یاد آنا اور خیال لگا رہنا امورِ طبعیہ اور عیال کے حقوقِ شرعیہ سے ہے اور محمود ہے۔ جو مرتبہ مذموم ہے وہ یہ ہے کہ ہجرت پر ایک گونہ تاسّف ہو کہ میں سب کو چھوڑ کر یہاں چلا آیا، غرض تمنّا اور چیز ہے جو مضر ہے، اور شوق اور چیز ہے جو مضر نہیں۔ روزہ میں کھانے پینے کا شوق ہوتا ہے کہ کب افطار کا وقت آئے گا، اور تمنّا نہیں ہوتی کہ میں روزہ نہ رکھتا تو اچھا ہوتا۔
کشش اور میلان الی المعاصی کا حتمی و تحقیقی علاج:
ایک طالب نے شدید میلان الی الغِناء کی شکایت کی۔ اس کے جواب میں تحریر فرمایا کہ کشش اور میلان کا بالکلیہ زائل ہو جانا تو عادةً ممتنع ہے، البتہ تدبیر سے اس میں ایسا ضعف اور اضمحلال ہو جاتا ہے کہ مقاومت صعب نہیں رہتی۔ اور وہ تدبیر صرف واحد میں منحصر ہے کہ عملاً اس کشش کی مخالفت کی جائے۔ گو کلفت ہو، برداشت کی جائے۔ اسی سے کسی کو جلدی کسی کو دیر میں علیٰ اختلاف الطبائع اس کشش میں ضعف و اضمحلال ہو جاتا ہے، اور کفّ کے لیے قصد و ہمّت کی ہمیشہ ضرورت رہتی ہے۔ مگر اس ضعف کے سبب اس قصد میں بسہولت کامیابی ہو جاتی ہے۔ اور اس سے زیادہ توقّع رکھنا اُمنیّہ محضہ(محض خواہش) ہے ''إِلَّا أَنْ یَّکُوْنَ مِنَ الْخَوَارِقِ''۔ اس اصل سے تمام فطریات میں کام لینے سے پریشانی ''ہَبَاءً مَنْثُوْراً'' ہو جاتی ہے۔ ''فَتَبَصَّرْ وَ تَشَکَّرْ''۔
شوق و اُنس کے آثار کا تفاوت:
فرمایا کہ بُعد میں شوق کا غلبہ ہوتا ہے، اور قُُرب میں اُنس کا۔ شوق میں جوش و خروش ہوتا ہے، اور اُنس میں سکون۔
ایک مجاز کی تسلّی:
ایک صاحبِ اجازت نے دورانِ قیامِ خانقاہ اپنے آپ کو کورا سمجھ کر اس کی شکایت لکھی۔ حضرت والا نے ان کی اس عنوان سے تسلّی فرمائی کہ آفتاب کے سامنے چاند بے نور معلوم ہوتا ہے، مگر در اصل وہ بے نور نہیں ہوتا بلکہ وہ آفتاب سے برابر کسبِ نور کرتا رہتا ہے۔ البتہ آفتاب کے سامنے اس کو اپنا نور محسوس نہیں ہوتا۔
مراقبہ حق تعالیٰ کے حاکم و حکیم ہونے کا:
ایک سخت ناگوار واقعہ پر فرمایا کہ ''اَلْحَمْدُ لِلہِ''! اللہ تعالیٰ نے اپنے حاکم و حکیم ہونے کا مراقبہ قلب میں ایسا پختہ کر دیا ہے کہ بڑے سے بڑے حادثہ کے وقت بھی، خواہ وہ ظاہر کے متعلق ہو یا باطن کے، جس کو پریشانی کہتے ہیں وہ لاحق نہیں ہوتی۔ بس بفضلہٖ تعالیٰ یہ اچھی طرح ذہن نشین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ حاکم بھی ہیں اور حکیم بھی۔ حاکم ہونے کے حیثیت سے تو انہیں پورا اختیار و حق حاصل ہے کہ اپنی مخلوق میں جس وقت چاہیں اور جس قسم کا چاہیں تصرّف فرمائیں، ظاہر میں بھی اور باطن میں بھی، کسی کو ذرا بھی مجال چون و چرا نہیں۔ اور حکیم ہونے کی بناء پر اطمینان ہے کہ ان کا جو تصرّف ہوگا سراسر حکمت ہی ہوگا، پھر پریشانی کی کوئی وجہ نہیں۔
ف: ''سُبْحَانَ اللہِ''! کیا اعلیٰ درجہ کا مراقبہ ہے۔ اگر اس کو پختہ کر لیا جائے تو ظاہری یا باطنی کسی قسم کی بھی پریشانی لاحق نہ ہو۔
علاج الخیال:
فرمایا کہ ایک سالک مبتلائے امراضِ باطنہ خیالیہ کو تحریر فرمایا کہ اس کا سہل علاج یہ ہے کہ جب ایسے تخیّلات کا ہجوم ہو، اپنے قصد و اختیار سے کسی نیک خیال کی طرف فوراً متوجّہ ہو جانا اور متوجّہ رہنا چاہیے، اس کے بعد بھی اگر تخیّلات باقی رہیں یا نئے آئیں، ان کا رہنا یا آنا یقیناً غیر اختیاری ہے، کیونکہ مختلف قسم کے دو خیال ایک وقت میں اختیاراً جمع نہیں ہو سکتے، بس اشتباہ رفع ہو گیا۔ اور اگر بالاختیار اچھے خیال کی طرف توجّہ کرنے میں ذہول ہو جائے، تو جب تنبیہ ہو ذہول کا تدارک تو استغفار سے کیا جائے اور پھر اسی تدبیرِ استحضار سے کام لیا جائے۔
سب مریدوں کے ساتھ یکساں برتاؤ کی ضرورت نہیں:
حضرت والا نے فرمایا کہ پہلے مدّتوں میں اس غلطی میں رہا کہ سب کے ساتھ یکساں برتاؤ کرنا چاہیے، جس کی وجہ سے بہت تنگیاں اٹھائیں، لیکن پھر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر یہ حقیقت منکشف فرما دی کہ اس کی ضرورت نہیں، کیونکہ خود حضرتِ اقدس ﷺ کا جو معاملہ خصوصیت کا حضراتِ شیخین کے ساتھ تھا، وہ دوسرے حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ نہ تھا۔ چنانچہ حضور ﷺ حضراتِ شیخین رضی اللہ عنہما کو اپنی مجلس شریف میں دیکھ کر خوش ہوا کرتے تھے اور تبسّم فرمایا کرتے تھے۔ اور اسی طرح وہ دونوں حضرات بھی حضور ﷺ کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے اور تبسّم فرمایا کرتے۔ اس سے ثابت ہوا کہ واجبات میں یکساں برتاؤ ضروری ہے، مستحبّات میں نہیں۔
تصوّرِ شیخ کب مناسب ہے؟
فرمایا کہ اگر بے اختیار تصوّرِ شیخ پیدا ہو جائے تو مضائقہ نہیں، بلکہ نافع ہے۔ ورنہ حق تعالیٰ ہی کا تصوّر رکھے، کیونکہ وہی مطلوب و مقصودِ اصلی ہے، حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی یہی تعلیم تھی۔
متوسّط اور مُنتہی کی عجیب مثال:
ایک بار فرمایا کہ متوسّط کی حالت تو اس ہرے بھرے کھیت کی سی ہے جو دیکھنے میں تو نہایت خوش منظر ہے لیکن حالتِ موجودہ میں وہ سوائے اس کے اور کسی کام کا نہیں کہ بس کاٹ کر بیلوں کو کھلا دیا جائے، یعنی صرف مویشیوں کا چارہ ہے اور بس۔ بر خلاف اس کے منتہی کی حالت اس گیہوں کے کھیت کی سی ہے جو پک کر خشک ہو گیا ہو، دیکھنے میں تو بالکل بے رونق روکھا پھیکا سُوکھا ساکھا ہو، لیکن اس میں دانہ پڑا ہو اور غلّہ بھرا ہو، جو کاشت کا اصلی مقصود ہے۔ جب چاہو اس سے غلّہ حاصل کر لو اور غذا کے کام میں لے آؤ، یعنی انسان کی غذا ہے۔ اسی طرح متوسّط میں محض کیفیات ہی ہوتی ہیں، جو عام نظر میں بہت با وقعت ہوتی ہیں اور بزرگی کی علامات میں سے سمجھی جاتی ہیں۔ بر خلاف اس کے منتہی گو کیفیات سے بظاہر بالکل خالی نظر آتا ہے، لیکن وہ اصلی دولت سے مالا مال ہوتا ہے۔
ف: ''سُبْحَانَ اللہِ''! کیسی منطبق مثال ہے۔
مواجید و احوال عبدیّتِ مَحضہ کے خلاف ہیں:
فرمایا کہ میں پھولدار کپڑا پسند نہیں کرتا، گو میں خود اس میں مبتلا ہوں لیکن الحمد للہ میں اپنے ابتلاء کی وجہ سے اس کو اچھا نہیں بتلاتا۔ پھر فرمایا کہ حضور ﷺ کی خدمت میں ایک پھولدار چادر ہدیہ آئی، آپ ﷺ نے نماز کے بعد اس شخص سے دوسری چادر منگوائی اور اس کو علیحدہ کر دیا اور فرمایا کہ قریب تھا کہ اس کے نقش و نگار میرے قلب کو مشغول کر لیتے۔ جب نبی ﷺ کو مشغولی کا احتمال ہوا، تو آج ہم میں سے ایسا کون ہے جو دعوٰی کر سکے کہ ہمارا قلب نقش و نگار میں مشغول نہیں ہو سکتا۔ پھر فرمایا کپڑوں پر نقش و نگار کیا پسند کرتے، جو محقّقین ہیں وہ کہتے ہیں کہ قلب بھی بے نقش و نگار ہونا چاہیے۔ اور قلب کے نقش و نگار وہ ہیں جن کا نام مواجید و احوال ہیں، قلب ان سب قصّوں سے خالی ہونا چاہیے۔ پس عبدیّتِ محضہ خالصہ ہونا چاہیے۔ مبتدیوں کو مواجید و احوال سے بہت رغبت ہوتی ہے اور محققین کو اس سے نفرت ہوتی ہے۔
ذکر کے وقت ثمرات کا منتظر نہ رہے:
ایک بار عام گفتگو کے سلسلہ میں فرمایا کہ ذکر کے وقت ثمرات کا منتظر نہ رہے، نہ کوئی کیفیت یا حالت اپنے لیے ذہن میں تجویز کرے، بس اپنی تجویز کو مطلق دخل ہی نہ دے، سارے احوال کو حق تعالیٰ کے سپرد کر دے۔ پھر جو اس کے حق میں بہتر اور اس کے استعداد کے مناسب ہو گا وہ خود عطا فرما دیں گے۔
؎ کہ خواجہ خود روشِ بندہ پروری داند
بس ذکر کے وقت معتدل توجّہ ذکر کی طرف یا اگر آسانی سے ہو سکے تو مذکور کی طرف کافی ہے۔ اور معتدل کی قید اس لیے لگائی گئی کہ توجّہ میں زیادہ مبالغہ کرنے سے قلب و دماغ ماؤف ہو جاتے ہیں، جس سے پھر ضروری توجّہ میں بھی خلل پڑنے لگتا ہے۔ نیز یہ بھی ضروری ہے کہ طبیعت میں ثمرات کا تقاضا نہ پیدا ہونے دے، کیونکہ اس سے علاوہ تشویش کے جو مخلِّ جمعیت ہے۔ اور جمعیت ہی اس طریق میں مدارِ نفع ہے، بعض اوقات یاس تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔
رخصت پر عمل:
ایک سلسلہ گفتگو میں فرمایا کہ میں بعض احوال میں رخصت پر عمل کرنے کو بہ نسبت عزائم پر عمل کرنے کے اصلح سمجھتا ہوں، کیونکہ جو شخص عزائم پر عمل کرتا ہے اس کو ہمیشہ اپنے عمل پر نظر ہوتی ہے، اور جو کچھ عطا ہوتا ہے اس کو بمقابلہ اپنے عمل کے کم سمجھتا ہے، اس کے دل میں یہ شکایت پیدا ہوتی ہے کہ دیکھو میں اتنے دن سے ایسی مشقّت زہد و تقوٰی کی اٹھا رہا ہوں اور اتنا عرصہ ذکر و شغل کرتے ہوگیا اور اب تک کچھ نصیب نہ ہوا، یہ کس قدر گندا خیال ہے۔ بر خلاف اس کے رخصت پر عمل کرنے والے کی نظر میں ہمیشہ حق تعالیٰ کی عطاؤں کا پلّہ بمقابلہ خود اس کے اعمال کے بھاری رہتا ہے، جس سے طبعًا اس کو حق تعالیٰ کے ساتھ محبّت پیدا ہو جاتی ہے اور یہ کتنی بڑی نعمت ہے۔
ف۔ تنبیہ: یہ بات خوب یاد رکھنے کے قابل ہے صرف بعض احوال میں رخصت پر عمل کرنے کو اصلح سمجھتا ہوں، باقی فی نفسہٖٖ عزائم پر عمل کرنا ہی افضل ہے، جیسا کہ ظاہر ہے۔
زہد کی حقیقت:
ایک سلسلۂ گفتگو میں فرمایا کہ زُہد ترکِ لذّات کا نام نہیں، بلکہ محض تقلیلِ لذّات زہد کے لیے کافی ہے۔ یعنی لذّات میں اِنہماک نہ ہو کہ رات دن اسی کی فکر رہے کہ یہ چیز پکنی چاہیے، وہ چیز منگانی چاہیے، کہیں کے چاول اچھے ہیں تو وہاں سے چاول آ رہے ہیں، کہیں کی بالائی مشہور ہے تو کہہ رہے ہیں کہ بھائی وہاں سے بالائی لیتے آنا۔ غرض کہ نفیس نفیس کھانے اور کپڑوں ہی کی فکر میں لگے رہنا یہ البتّہ زہد کے منافی ہے۔ ورنہ اگر بِلا تکلّف اور بِلا اہتمامِ خاص کے لذّات میسّر آ جائیں، تو یہ حق تعالیٰ کی نعمت ہے شکر کرنا چاہیے۔ اسی طرح بہت کم کھانا بھی زہد نہیں ہے، نہ یہ مقصود ہے۔ کیونکہ ہمارے کم کھانے سے نعوذ باللہ کوئی خدا تعالیٰ کے خزانہ میں تو وہ چیز تھوڑا ہی جمع ہو جائے گی، یہ تھوڑا ہی سمجھا جائے گا کہ بڑے خیر خواہِ سرکار ہیں کہ پوری تنخواہ بھی نہیں لیتے۔ وہاں ان باتوں کی کیا پرواہ ہے؟ ہاں اتنا بھی نہ کھائے کہ پیٹ میں درد ہو جائے، عبادت مشکل ہو جائے۔ ہمارے حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا تو یہ مذاق تھا کہ نفس کو خوب آرام سے رکھے، لیکن اس سے کام بھی خوب لے۔
؎ کہ مزدورِ خُوش دل کُنَد کارِ بیش
فرمایا کہ کیفیات سے خالی تو منتہی بھی نہیں ہوتا، لیکن اس کی کیفیات میں نہایت لطافت ہوتی ہے جیسی بھاپ میں۔ اور لطافت اس لیے ہوتی ہے کہ وہ روحانیت سے ناشئ ہوتی ہیں۔ بر خلاف اس کے متوسّط کی کیفیات میں شورش اور سوزش ہوتی ہے۔ نیز زوال کے کبر کے بھی آثارِ غیرمتخلّفہ پوچھے تھے۔ تحریر فرمایا کہ یہ سب امورِ ظنّیہ ہیں، جیسی صحتِ بدنیہ ظنّی ہے، مگر اقناع ہی کو اس باب میں مثلِ یقین کہا جاتا ہے۔ سو امرِ اوّل میں آثار ہیں، دوامِ طاعت و مشابہتِ اعمالِ اختیاریہ بہ امورِ طبعیہ و شذوذِ مخالفت۔ اور بعد مخالفتِ اتّفاقیہ کے قلقِ شدید و تدارکِ بلیغ اور غلبۂ ذکرِ لسانی و قلبی یعنی استحضار، اور امرِ ثانی میں اصلی وجدان ہے معالج کا، اور آثار سے اس کی تائید ہو جاتی ہے۔ یعنی واقعاتِ کِبر کا عدمِ صُدور و غلبۂ آثارِ شِکستگی و ندامتِ شدید بر صدورِ افعالِ مُوہِمۂ کِبر۔
ایک طالب نے لکھا اعمال میں تو فرق نہیں آتا مگر معلوم ہوتا ہے کہ دل محبّت سے خالی ہے۔ تحریر فرمایا کہ کون سی محبت سے خالی ہے؟ اعتقادی و عقلی سے یا انفعالی اور طبعی سے؟ اگر شقِّ ثانی ہے تو مضرّ نہیں کیونکہ غیر اختیاری ہے۔ اور اگر شقِّ اوّل ہے تو اس میں خالی ہونے کا افسوس نہیں ہوا کرتا۔ اور آپ کو افسوس ہے، یہ افسوس خود دلیل ہے کہ آپ اس سے خالی نہیں۔
ایک طالب نے لکھا کہ حالت جیسی چاہیے ویسی بالکل نہیں ہے۔ جواب تحریر فرمایا کہ وہ دن ماتم کا ہو گا جس دن یہ سمجھو گے کہ جیسی حالت چاہیے تھی ویسی ہو گئی، کیونکہ اس درگاہ میں تو حضرت انبیاء علیھم السّلام بھی اپنی حالت کے متعلق یہی فیصلہ کرتے ہیں کہ جیسی حالت چاہتے ہیں ویسی نہیں ''مَا عَبَدْنَاکَ حَقَّ عِبَادَتِکَ'' کا حال ہوتا ہے۔
بد نظری کا علاج:
ایک طالب نے لکھا نظرِ بد کے تقاضا کے وقت بندہ دل کو یہ تسلّی دیتا ہے کہ جس گناہ سے کچھ فائدہ حاصل نہ ہو اس کو کرنے سے کیا حاصل۔ تحریر فرمایا کہ نہایت نافع اور موثّر مراقبہ ہے۔
ایک طالب نے لکھا کہ چلتے پھرتے اگر کسی لڑکے یا عورت پر نظر پڑ جاتی ہے تو بندہ فوراً نظر کو ہٹا لیتا ہے۔ اب دریافت کرنا ہے کہ نظر اوّل معصیت ہے یا نہیں؟ تحریر فرمایا کہ اس نظرِ اوّل میں قصد ہوتا ہے یا نہیں؟ اگر حُُدوث میں قصد نہ ہو تو اس کے اِبقاء میں قصد ہوتا ہے یا نہیں؟ اور اگر اِبقاء میں بھی قصد نہ ہو تو اس نظر سے جو صورت ذہن میں پیدا ہوتی ہے اس کے اِبقاء یا اس سے اِلتذاذ میں قصد ہوتا ہے یا نہیں۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ نظر ہٹانے کے بعد اس کی صورت ذہن میں ایک قسم کی تصویر ہو جاتی ہے، مگر بعض وقت اس صورت کو ذہن میں آتے ہی فوراً دفع کرنا یاد نہیں رہتا۔ اس پر حضرت والا نے تحریر فرمایا کہ یاد رکھنے کا اہتمام ضروری ہے اگر دل سے یاد نہ رہے ایک پرچہ پر اس کی وعید لکھ کر وہ پرچہ اپنے کلائی یا بازو پر باندھ لیا جائے۔ حضرت والا نماز پڑھنے کی حالت میں کسی کو پنکھا جھلنے ہی نہیں دیتے، جس کی وجہ یہ ہے کہ نماز میں بھی مخدومیّت کی شان بنانا حضرت والا کو غلبۂ عبدیّت کے اثر سے طبعًا سخت گراں ہوتا ہے۔
فرمایا کہ ہزار ریاضات و مجاہدات سے بھی وہ بات پیدا نہیں ہوتی جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایک جذبہ میں پیدا ہو جاتی ہے۔ جیسے ہزار پنکھے ایک طرف اور قدرتی ہوا کا ایک ٹھنڈا جھونکا ایک طرف۔
خواجہ صاحب جب منتخب کردہ اشارات کو بنظرِ اصلاح حضرت والا کے سامنے پڑھتے، تو نہ صرف حاضرینِ مجلس بلکہ خود حضرت والا بھی متاثّر ہوتے، اور بے اختیار فرماتے کہ بھلا یہ مضامین میں اپنی معلومات سے لکھ سکتا تھا۔ ہرگز نہیں یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ طالبین کی اصلاح کے لیے میرے قلم سے بوقتِ ضرورت ایسے مضامینِ نافعہ لکھوا دیئے۔
موت سے وحشت ہونا:
ایک طالب نے لکھا کہ مجھ کو موت سے بہت وحشت و نفرت ہے حالانکہ وہی ذریعہ خدا تعالیٰ سے ملاقات کا ہے۔ تحریر فرمایا کہ بعض مسلم بزرگوں کو میں نے موت سے ایسا ہی ڈرتا ہوا دیکھا ہے۔ منشاء اس کا ضعفِ قلب ہے، جو بالکل مذموم نہیں۔
بدعتی سے نفرت:
فرمایا کہ بدعتی سے نفرت کِبر نہیں۔ البتہ اگر وہ توبہ کرے اور پھر بھی اس سے نفرت رہے یہ کِبر ہے، ورنہ بغض فی اللہ ہے۔
سلف کی مخالفت نہ کرے:
ایک طالب نے کلام مجید کی تلاوت کی فضیلت دیکھ کر چاہا کہ سوائے تلاوت کے اور سب وظائف و اوراد ترک کر دوں۔ تحریر فرمایا کہ یہ بھی خبر ہے کہ کسی چیز کی طرف زیادہ کشش اسی وقت ہوتی ہے جب دوسری چیزیں بھی ہوں، ورنہ اس سے طبیعت اُکتا جاتی ہے۔
؎ گر نیست غیبتے نہ دہد لذّت حضور
اس کی بڑی دلیل یہ ہے کہ سلف نے ایسا نہیں کیا۔
حصولِ نسبت کے آثارِ غیر متخلّفہ:
ایک سالک نے دریافت کیا کہ حصولِ نسبت کے آثار غیر متخلّفہ ؟ جیسے دھوئیں میں کیونکہ وہ نفسانیت (بمعنی طبعیت) سے ناشئ ہوتی ہیں۔
بد نظری کا علاج جس میں فاعل اپنے کو مجبور سمجھتا تھا:
ایک طالبِ علم زیرِ تربیّت نے بد نظری کی شکایت لکھ کر دعا اور علاج کی آسان صورت کی درخواست کی تھی اور یہ بھی لکھا تھا کہ با وجود نیچی نظر کر لینے کے پھر نظر اٹھ جاتی ہے۔ حالانکہ حضرت والا کے فرمان کے بموجب عذابِ دوزخ وغیرہ کو سوچتا ہوں، لیکن طبعیت کچھ ایسی مجبور ہوتی ہے جس کا رکنا دشوار اور شاقّ نظر آتا ہے، اور معلوم ہوتا ہے کہ دل کے اندر سے کوئی پکڑ کر دل کو ابھار رہا ہے۔ اس فعلِ بد سے نہایت ہی مجبور ہو گیا ہوں۔ اس کا حسبِ ذیل جواب تحریر فرمایا: حرفاً حرفاً پڑھا، غیر اختیاری مصائب پر تو اجر ملتا ہے ان کے ازالہ کی دعا بھی کرتا ہوں، لیکن مصائبِ اختیاریہ یعنی معاصی پر نہ اجر ملتا ہے اور نہ اس کے ازالہ کی دعا ہو سکتی ہے، کیونکہ اس کا ازالہ تو عبد کا فعل ہے۔ البتہ توفیق کی دعا ہو سکتی ہے، وہ بھی جب کہ فاعل اسباب جمع کرے، اور اعظم اسباب قصد و ہمّت ہے اور اس کے متعلق جو عذر لکھا ہے وہ بالکل غلط ہے۔ سوچو کہ ایسے موقع پر کہ نفس میں تقاضا شدید ہو، تمہارا کوئی بزرگ موجود ہو جو تمہاری اس نظر اٹھانے کو دیکھ رہا ہو، تو کیا اس وقت تم ایسی بے حیائی کر سکتے ہو؟ اگر کر سکتے ہو تو تم لاعلاج ہو۔ اور اگر نہیں کرسکتے، تو معلوم ہوا کہ نظر ازخود نہیں اٹھتی، نہ مجبوری ہوتی ہے نہ رکنا شاق ہوتا ہے نہ کوئی ابھارتا ہے، سب کچھ تم ہی کرتے ہو۔ تو تم اس کے خلاف پر بھی قادر ہو، سو تمہارا یہ عذر ویسا ہی بے ہودہ عذر ہے جیسے ایک شاعر نے بکواس کی ہے ؎
بے خودی میں لے لیا بوسہ، خطا کیجئے معاف
اس دلِ بیتاب کی ساری خطا تھی، میں نہ تھا
جھوٹ بولنے کا علاج:
ایک طالب نے حضرت والا کے اس استفسار پر کہ جھوٹ اختیار سے بولتے ہو یا بالاضطرار، یہ لکھا کہ یہ جھوٹ بولنا، ہے تو اختیاری، لیکن کثرتِ انہماک سے اضطراری جیسا ہو چکا ہے، اس کا علاج فرماویں۔ اس پر تحریر فرمایا کہ جب ہمّت و اختیار سے چھوڑ دو گے، بہ تکلّف عادت کر لو گے، تو اسی طرح عدمِ صدور اضطراری جیسا ہو جائے گا۔ یہی علاج ہے۔