حصہ 2 باب 1 ملفوظ 2: عبدیت

چند واقعاتِ عبدیّتِ حضرت والا

(1) بار بار قسم کھا کھا کر فرمایا کہ میں اپنے کو کسی مسلمان سے، حتیّٰ کہ اُن مسلمانوں سے بھی جن کو لوگ فسّاق و فجّار سمجھتے ہیں فی الحال، اور کفّار سے بھی احتمالاً فی المآل، افضل نہیں سمجھتا۔ اور آخرت میں درجات حاصل ہونے کا کبھی مجھے وسوسہ بھی نہیں آتا، کیونکہ درجات تو بڑے لوگوں کو حاصل ہوں گے۔ مجھے تو جنّتیوں کی جوتیوں میں بھی جگہ مل جائے تو اللہ تعالیٰ کی بڑی رحمت ہوگی، اس سے زیادہ کی ہوس ہی نہیں ہوتی، اور اتنی ہوس بھی بر بناءِ استحقاق نہیں، بلکہ اس لیے کہ دوزخ کے عذاب کا تحمّل نہیں۔

(2) فرمایا کہ یہ جو بضرورتِ اصلاح زجر و توبیخ کیا کرتا ہوں تو اس وقت یہ مثال پیش نظر رہتی ہے جیسے کسی شہزادے نے جرم کیا اور بھنگی جلّاد کو حکمِ شاہی ہوا ہو کہ اس شہزادے کو درّے لگائے۔ تو کیا اس بھنگی جلّاد کے دل میں درّے مارتے وقت کہیں یہ بھی وسوسہ ہو سکتا ہے کہ میں اس شہزادے سے افضل ہوں۔

(3) فرمایا کہ کوئی مؤمن کیسا ہی بد اعمال ہو میں اس کو حقیر نہیں سمجھتا، بلکہ فوراً یہ مثال پیشِ نظر ہو جاتی ہے کہ اگر کوئی حسین اپنے منہ پر کالک مَل لے تو اس کو جاننے والا کالک کو برا سمجھے گا، لیکن اس حسین کو حسین ہی سمجھے گا، اور دل میں کہے گا کہ جب کبھی بھی صابون سے منہ دھو لے گا، پھر اس کا وہی چاند سا منہ نکل آئے گا۔ غرض یہ کہ مجھ کو صرف فعل سے نفرت ہوتی ہے فاعل سے نفرت نہیں ہوتی۔

(4) فرمایا کہ بھلا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے لائق کیا کوئی عمل پیش کیا جا سکتا ہے پھر ''لَیلَۃُُ اللَّبَن'' والی حکایت بیان فرمائی۔

(5) فرمایا کہ خدا ہی محفوظ رکھے تو انسان محفوظ رہ سکتا ہے، ورنہ ہمارا ہر قول فعل، حال قال سب ہی پُر اَز خَطر ہے۔ تو یہ شعر اکثر یاد آیا کرتا ہے ؎

من نگویم که طاعتم بپذیر

قلمِ عفو بر گناهم کَش

(6) فرمایا کہ بہت ہی نازک بات ہے اور بہت ہی ڈرنے کا مقام ہے، اپنی کیسی ہی اچھی حالت ہو ہرگز ناز نہ کرے، اور دوسرے کی کیسی ہی بری حالت ہو ہرگز اس پر طعن نہ کرے، کیا خبر ہے کہ اپنی حالت اس سے بھی بد تر ہو جائے۔

(7) ایک بار نہایت خشیّت کے لہجہ میں فرمایا کہ دِیا سِلائی کی طرح سارے موادِ خبیثہ نفس میں موجود ہیں بس رگڑ لگنے کی دیر ہے، اللہ تعالیٰ نے جب تک رگڑ سے بچا رکھا ہے بچے ہوئے ہیں۔ فرعون و ہامان کو نہیں بچایا، ان میں وہ مادے سُُلگ اٹھے۔ اللہ تعالیٰ ہی محفوظ رکھے تو انسان محفوظ رہ سکتا ہے ورنہ ہر وقت خطرہ ہے۔

(8) فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ کا قہر ہوتا ہے تو باطل چیزیں بھی حق نظر آنے لگتی ہیں اور اوہامِ باطلہ بھی حقائق کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔

(9) ایک مجمع سے مصافحہ کرنے کے بعد فرمایا کہ میں نے تو اس نیّت سے مصافحہ کیا ہے کہ کیا اتنے سارے محبّت کرنے والے مسلمانوں میں سے کوئی بھی خدا کا مقبول و مرحوم بندہ نہ ہو گا۔ اگر ایک بھی مرحوم ہوا تو کیا مجھ کو دوزخ میں جلتا ہوا دیکھ کر رحم نہ آئے گا اور اللہ میاں سے سفارش کر کے وہ مجھ کو دوزخ سے نہ نکلوا لے گا۔

(10) بارہا فرمایا کہ یہ جو اصلاحِ نفس کی سہل سہل اور نافع تدابیر اللہ تعالیٰ ذہن میں ڈال دیتے ہیں یہ سب طالبین ہی کی برکت ہے میرا کوئی کمال نہیں، اللہ تعالیٰ کو منظور ہے کہ میرے بندوں کی اصلاح ہو اور نفع پہنچے، لہٰذا ایک ناکارہ سے خدمت لے رہے ہیں۔ ماں یہ ناز نہ کرے کہ میں بچہ کو دودھ پلاتی ہوں، بلکہ اللہ تعالیٰ ہی کو منظور ہے کہ بچہ کی پرورش ہو اس لیے اس نے گوشت میں بھی دودھ پیدا کر دیا ہے، اگر ماں بچہ کو دودھ پلانا چھوڑ دے تو پھر دودھ ہی خشک ہو جائے۔ اسی طرح اگر کنویں میں ڈول نہ ڈالا جائے اور پانی نہ نکالا جائے تو نیا پانی آنا بند ہو جائے گا۔ غرض شیخ اگر اِلقاء چھوڑ دے تو تلقّی بھی بند ہو جائے۔ اس لیے شیخ کو بھی ناز کا حق نہیں۔

(11) فرمایا کہ میرے اندر نہ علم ہے نہ عمل ہے نہ کوئی کمال ہے، لیکن الحمد للہ اپنے خلوّ کا اعتقاد تو ہے، اللہ تعالیٰ بس اسی سے فضل فرمائے گا ان شاء اللہ۔

(12) فرمایا کہ امرِ اصلاح میں نہ میرے علم کو دخل نہ فہم کو۔ خدا نے ایک کام میرے سپرد کیا ہے وہ میری مدد کرتے ہیں، میرا کچھ کمال نہیں۔

(13) فرمایا کہ مجھ میں تو سراسر عیوب ہی عیوب بھرے پڑے ہیں، میری اگر کوئی برائی کرتا ہے تو یقین جانئے مجھے کبھی وسوسہ بھی نہیں ہوتا کہ میں برائی کا مستحق نہیں، بلکہ اگر کوئی تعریف کرتا ہے تو و اللہ تعجّب ہوتا ہے کہ مجھ میں بھی بھلا کون سی تعریف کی بات ہے جو اس کا یہ خیال ہے، اس کو دھوکہ ہوا ہے۔ حق تعالیٰ کی ستاری ہے کہ میرے عیوب کو پوشیدہ کر رکھا ہے۔ اس لیے مجھ کو کسی کا برا بھلا کہنا مطلق نا گوار نہیں ہوتا۔

(14) فرمایا کہ اگر کوئی میری ایک تعریف کرتا ہو تو اسی وقت اپنے دس عیوب پیش نظر ہو جاتے ہیں۔

(15) فرمایا کہ میں مدّت سے یہ دعا مانگ رہا ہوں، اور اب تازہ کر لیا کرتا ہوں، کہ اے اللہ میری وجہ سے اپنی کسی مخلوق پر مؤاخذہ نہ کیجئے، جو کچھ کسی نے میرے ساتھ برائی کی ہو یا آئندہ کرے، سب میں نے دل سے معاف کی۔

پھر فرمایا کہ اگر میں معاف نہ کر دیا کروں اور دوسرے کو عذاب بھی ہو تو مجھے کیا نفع حاصل ہوا۔

(16) کئی بار فرمایا کہ گو میں اعمال میں بہت کوتاہ ہوں لیکن الحمد للہ اپنی اصلاح سے غافل نہیں، ہمیشہ یہی ادھیڑ بن لگی رہتی ہے کہ فلاں حالت کی یہ اصلاح کرنی چاہیے، فلاں حالت میں یہ تغیّر کرنا چاہیے۔

(17) گو میں نجات کو اعمال پر منحصر نہیں سمجھتا، محض فضل پر سمجھتا ہوں، لیکن بندہ کے ذمّہ یہ اللہ تعالیٰ کا حق ہے کہ اس کے اوامر کو بجا لائے اور نواہی سے اجتناب رکھے۔ اس لیے مجھ کو اپنے اعمال کی کوتاہی پر سخت ندامت ہے اور ہمیشہ اپنی اصلاح کی فکر رہتی ہے۔

(18) اپنے کسی مُنتسِب کی دینداری اور تقویٰ کے حالات سن کر فرمایا کرتے ہیں کہ وہ باپ بڑا خوش قسمت ہے جس کی اولاد کمالات میں اس سے بڑھ جائے۔

یہ بھی فرمایا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو میرا نیک نام کرنا منظور ہے کہ جو پہلے ہی سے نیک ہیں ان ہی کو میرے پاس بھیج دیتے ہیں، اور میں مفت میں نیک نام ہو جاتا ہوں؎

نے دامِ خُوش نہ دانہ خُوش امّا زِ اتّفاق

ہر بار شاہباز در اُفتد بہ دامِ ما

عارف کا اپنے کمالات کی نفی کرنا:

فرمایا کہ عارف کی جتنی بصیرت بڑھتی جاتی ہے عظمتِ حق کا انکشاف روز افزوں ہوتا چلا جاتا ہے، اور آدابِ عبودیت کے روز بروز نئے نئے دقائق پیشِ نظر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی عبادت و طاعات کو، گو وہ کتنے ہی کامل ہوں، حقوقِ عظمتِ حق کے لحاظ سے ہیچ در ہیچ سمجھتا ہے۔ اور اس کا یہ سمجھنا بالکل حق بجانب ہوتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کا حق کسی طرح ادا ہی نہیں ہو سکتا۔ اسی وجہ سے عارف کو اپنی کسی درجہ کی حالت پر بھی قناعت نہیں ہوتی، اور کسی درجہ کی بھی اصلاح پر اطمینان نہیں ہوتا۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہ قسمیں کھا کھا کر اپنے کمالات کی نفی کرتا رہتا ہے۔

شفقت علی المریض:

حضرت والا کو مریض پر اس قدر شفقت ہوتی ہے کہ اس کی درخواست کو حتّی المقدور ضرور پوری فرماتے ہیں۔

مبتلائے قبض و هیبت:

مبتلائے قبض و ہیبت کو تکلیف تو بے شک سخت ہوتی ہے لیکن قطعِ طریق میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔

حکمِ حالتِ قبض و هیبت:

1۔ اس شخص کو کبھی عُجب نہیں ہوتا، سمجھتا ہے کہ میں بدحال ہوں۔

2۔ ہمیشہ ترساں رہتا ہے، اپنے علم و عمل پر ناز نہیں ہوتا، سمجھتا ہے کہ میرا علم و عمل، حال کیا چیز ہے۔ اس کی حقیقت دیکھ چکا ہوں۔

3۔ اگر یہ عقبہ پیش آ چکتا ہے تو شیطان کے مقابلہ میں اس میں قوّت پیدا ہو جاتی ہے، اس سے ڈرتا نہیں، کہ بس اس سے زیادہ کیا کر لے گا۔ اور بدون اس کے گذرے ہوئے، لطیف الطّبع کو ہر مضرِّ صحبت تک سے اندیشہ رہتا ہے۔

4۔ مرتے وقت دفعتاً اگر یہ حالت پیش آتی، تو پریشان ہو کر خدا جانے کس کس خیال میں مرتا۔ اگر یہ عقبہ گذر جائے تو اس کے تحمّل کی قوّت ہو جاتی ہے، اگر اس وقت بھی ایسا ہوا تو پریشان اور حق تعالیٰ پر بدگمان نہ ہو گا۔ اطمینان و محبتِ حق میں جان دے گا۔

5۔ یہ شخص محقِّق ہو جاتا ہے، دوسرے مبتلا کی دستگیری آسانی سے کر سکتا ہے۔

6۔ ہر وقت اپنے اوپر حق تعالیٰ کی رحمت دیکھتا ہے کہ ایسے نالائق کو ایسی نعمتیں عطا فرماتے ہیں۔

7۔ اس حدیث کے معنی بِرَأْیِ الْعَیْن دیکھتا ہے، کہ مغفرت عبد کی عمل سے نہ ہو گی رحمت حق سے ہو گی۔ "وَ غَیْرُ ذَالِکَ مِمَّا لَا یُحْصٰی"۔

8۔ فرمایا کہ سالک کو خطراتِ منکَرہ سے پریشان نہ ہونا چاہیے، نہ ان کی بناء پر اپنے کو مردود سمجھنا چاہیے۔ اکثر عادةُ اللہ یہی ہے کہ بعد وصولِ تام، خطرات فنا ہو جاتے ہیں۔ اگر بمقتضائے اسباب و مصالحِ خاصہ پھر بھی فنا نہ ہوں تب بھی کچھ غم نہ کرے، کیونکہ خطراتِ غیر اختیاریہ پر مطلق مؤاخذہ نہیں، نہ وہ معصیت ہیں۔ البتہ اذیّت و کلفت ضرور ہوتی ہے، مگر اس پر بھی اجر ملتا ہے اور درجے بڑھتے ہیں۔

9۔ فرمایا کہ خطرات کی خاصیّت بجلی کے تار کی سی ہے، کہ اگر اس کو اپنی طرف کھینچنے کی نیّت سے ہاتھ لگایا جائے تب بھی وہ لپٹتی ہے اور اگر ہٹانے کی نیت سے ہاتھ لگایا جائے تو بھی وہ لپٹتی ہی ہے۔ بس خیریت اسی میں ہے کہ اس کو ہاتھ ہی نہ لگایا جائے نہ جلباً نہ سلباً۔ اسی طرح خطرات و وساوس سے امن کی صورت یہی ہے کہ ان کی طرف التفات ہی نہ کیا جائے، نہ جلباً نہ دفعاً۔

10۔ فرمایا کہ قلب کی مثال شاہی سڑک کی سی ہے جس پر امیر، غریب، شریف، رذیل سب چلتے ہیں کسی کو حق نہیں کہ ایک دوسرے کو روکے۔ اگر چمار اور بھنگی بھی چل رہے ہیں تو حرج ہی کیا ہے، وہ اپنے راستے جا رہے ہیں یہ اپنے راستے چلتا ہے۔ اسی طرح قلب کی ساخت ہی من جانب اللہ اس طرح کی واقع ہوئی ہے کہ اس میں اچھے برے سبھی قسم کے خیالات کا ورود ہوتا رہتا ہے۔ کسی کو اس مطالبہ کا حق نہیں کہ میرے قلب میں اچھے ہی اچھے خیالات آیا کریں، برے خیالات بالکل آئیں ہی نہیں۔ اگر بلا اختیار برے خیالات آتے ہیں تو کیا ڈر ہے۔ ہاں قصداً برے خیالات نہ لائے، نہ قصداً ان کو باقی رکھے، اور پھر اطمینان و سکون کے ساتھ اپنے کام میں لگا رہے، خطراتِ منکَرہ کی طرف التفات ہی نہ کرے۔

خطرات پر مغموم ہونا:

اس سے قلب میں ضُُعف عارض ہوتا ہے، اور خطرات کا زیادہ ہجوم ہوتا ہے، اور سخت اذیت پہنچتی ہے۔ اس لیے ان کی طرف التفات ہی نہ کیا جائے۔ کیونکہ حدیث سے ثابت ہے کہ یہ سوءِ اعتقاد سے ناشی نہیں، بلکہ اس کو ''ذَالِکَ صَرِیْحُ الْإِیْمَانِ'' (مسندِ أحمد، رقم الحدیث: 9694)فرمایا ہے۔ پس بجائے مغموم ہونے کے خطرات کو علامتِ ایمان سمجھ کر اس پر عقلاً مطمئن اور مسرور رہے کہ بحمد اللہ میرے عقائد تو صحیح ہیں، اور بے فکری اور اطمینان کے ساتھ اپنے ذکر و طاعت اور ضروریاتِ دینیہ اور دنیویہ میں بلا لحاظِ دلچسپی و عدمِ دلچسپی مشغول رہا جائے، بلکہ حسب تحقیقِ حضرت والا امورِ مُباحہ کا بھی قدرے شغل رکھا جائے کہ وہ بھی وِقایہ ہو جاتے ہیں خطراتِ مُنکَرہ کا۔

دفعِ خطرات کا نہایت قویّ الاثر مراقبہ:

خیال کے بدل جانے سے بھی خطرات دفع ہو جاتے ہیں، اس لیے حضرت والا سالک کے لیے اس مراقبہ کا،کہ اللہ تعالیٰ کو مجھ سے محبت ہے، بے حد نافع ہونا بتاکید فرمایا کرتے ہیں، بلکہ یہاں تک فرمایا کرتے ہیں کہ اگر اپنی حالت اللہ تعالیٰ کی محبت کے قابل نہ ہو تب بھی حسبِ بشارت "اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِيْ بِيْ" (صحیح بخاری، رقم الحدیث: 7405) یہی نیک گمان رکھے کہ اللہ تعالیٰ کو مجھ سے محبّت ہے اور محبّتِ حق کے آثار بھی موجود ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان بنایا اور دین کی فکر عطا فرمائی اور خطراتِ مُنکَرہ پر طبعی غم نصیب فرمایا، جو صریح علامت ہے ایمان کی۔ اس مراقبہ میں علاوہ اور منافع باطنیہ کے یہ بھی بڑا نفع ہے کہ یہ مراقبہ خطرات کے دفع کا نہایت قویّ الاثر اور مجرّب بلکہ ضروری علاج ہے۔

خطرات کے اندر خوض کرنا ہی غضب ہے:

اس سے بجائے شفا ہونے کے اور زیادہ پریشانی بڑھتی ہے اور خطرات کا بہت ہجوم ہونے لگتا ہے۔ اور گو ان کا ہجوم دین کے لیے مطلقاً مضر نہیں، کیونکہ بوجہ غیر اختیاری ہونے کے معصیت نہیں لیکن ان سے اذیّت بے حد ہوتی ہے، اور ان سے نجات پانے کی جو تدابیر بتائی جاتی ہیں وہ بھی دفعِ اذیّت ہی کے لیے بتائی جاتی ہیں۔ کیونکہ اپنے آپ کو بلا ضرورت مشقّت اور پریشانی میں ڈالنا بھی تو مناسب نہیں۔

خطرات کے اسباب:

فرمایا: کبھی خطرات کا سبب لطافتِ طبع اور ذکاوتِ حِسّ ہوتی ہے، کبھی عوارضِ طبعیہ کبھی رذائلِ نفسانیہ، کبھی تصرّفاتِ شیطانیہ، کبھی معاصی، اور کبھی حق تعالیٰ کی جانب سے طلب کا امتحان ہوتا ہے، اور کبھی تحمّل سے زیادہ کام کرنا۔ اور کبھی ان اسباب میں سے ایک سے زائد اسباب بھی جمع ہو جاتے ہیں، لیکن ہر صورت میں علاوہ معالجاتِ خاصّہ کے سب کا مشترک علاج یہی ہے کہ التفات نہ کرے اور خوض نہ کرے، نہ خطرات میں نہ ان کے اسباب میں۔ اور اس صورت میں کہ سبب تشخیص نہ ہو سکے علاوہ علاجِ مشترک (عدمِ التفات) کے سب معالجاتِ خاصّہ کو بھی جمع کر لیا جائے۔

مَلَکاتِ رذیلہ:

فرمایا کہ مَلکاتِ رذیلہ پر مؤاخذہ نہیں کہ وہ غیر اختیاری ہیں، ہاں افعال پر مؤاخذہ ہے جو اختیاری ہیں۔ بس مَلکاتِ رذیلہ کے مُقتضا پر عمل نہ ہونے دے، باقی اس فکر میں نہ پڑے کہ مَلکاتِ رذیلہ زائل ہو جائیں، کیونکہ وہ زائل نہیں ہوا کرتے، البتہ مجاہدات اور تکرارِ مخالفتِ نفس سے مُُضمحل ہو جاتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ وہ جِبِلّی ہیں اور جِبِلّت بدلا نہیں کرتی۔ البتہ افعال جِبِلّی نہیں ان پر اختیار ہے ہی، بس ان کا صدور نہ ہونے دے۔ اور نہ اس غم میں پڑے کہ میری جِبِلّت ہی کیوں ایسی ہے، کیونکہ حق تعالیٰ خالق بھی ہیں اور حکیم بھی ہیں، ان کی اس میں سینکڑوں حکمتیں ہیں۔

رذائلِ نفس:

فرمایا کہ نفس کی ساخت ہی ایسی رکھی گئی ہے کہ رذائل سے خالی نہ ہو، چنانچہ کم و بیش رذائل سب میں موجود ہیں، الّا ما شاء اللہ، لیکن جب تک وہ رذائل قوّت سے فعل میں نہ لائے جائیں، اور ان کا ظہور بذریعہ صدورِ اعمال نہ ہو، کوئی مواخذہ نہیں۔ جیسے دِیا سِلائی میں سب مادّے جل اٹھنے اور بھڑک اٹھنے کے موجود ہیں، لیکن اگر اس کو رگڑا نہ جائے تو چاہے جیب میں لیے پھریئے کوئی اندیشہ نہیں۔ ہاں اس کی ہر وقت سخت احتیاط رکھنی ضروری ہے کہ رگڑا نہ لگنے پائے۔

مراقبہ حق تعالیٰ کے حاکم و حکیم ہونے کا:

فرمایا کہ اپنی طرف سے اس پر بالکل آمادہ رہا جائے کہ اگر ساری عمر بھر خطرات سے نجات نہ ملے تب بھی کچھ پرواہ نہیں، جو کام ہم کو بتایا گیا ہے بس وہ ہم کر رہے ہیں، اس سے زیادہ کے ہم مکلّف ہی نہیں۔ اور ہر حال میں اس امرِ واقعی اور عقیدۂ واجبہ کا استحضار رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ حاکم بھی ہیں اور حکیم بھی، حاکم ہونے کی بناء پر تو ان کو مخلوق کے اندر ہر قسم کے تصرّفات کرنے کا پورا حق اور کامل اختیار حاصل ہے، وہ اپنے بندوں کے اندر جو چاہیں تصرفات فرمائیں، کسی کو مجال چون و چرا نہیں۔ اور حکیم ہونے کی بناء پر بندہ کو ان کے ہر تصرّف کے متعلق اجمالاً یہ اعتقاد رکھ کر بالکل مطمئن رہنا چاہیے کہ یہ تصرّف میرے حق میں سراسر حکمت ہے، گو اس کی تفصیلی حکمتیں معلوم نہ ہوں۔

قبض بسط سے اَرْفَع ہے:

محقّقین نے قبض کو بسط سے ارفع کہا ہے، کہ اس سے اخلاقِ رذیلہ کا مُعالجہ زیادہ ہوتا ہے۔ تمام ذاکرین کو قریب قریب یہ حالت پیش آتی ہے پھر اس سے نجات بھی ہو جاتی ہے، اور اس کے بعد اور ترقّی ہوتی ہے۔

سالک اکثر جس شوق و ذوق، سوز و گداز کو کمال سمجھتا ہے، نہ وہ کمال ہوتا ہے اور جس خشکی اور وسوسہ کو نقصان سمجھتا ہے، نہ وہ نقصان ہے۔

فرمایا کہ یہ کلّیہ سمجھ لیا جائے کہ جو افعال اختیاری ہیں، ان میں اللہ و رسول صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ کے خلاف نہ کیا جائے تو پھر احوال خواہ کچھ ہی ہوں، وہ چونکہ غیر اختیاری ہیں، ان کی کچھ پرواہ نہ کرنا چاہیے، آپ محروم نہیں۔ ایک وقت میں یہ امر تحقیقاً معلوم ہو جائے گا اب تقلیداً مان لیجئے۔

فرمایا کہ میری تمنائے دلی اپنے متعلّقین کے لیے حالتِ قبض کے طاری ہونے کی بشرط البصیرت و الاستقلال ہوا کرتی ہے، اور اس کے منافع اس قدر ہیں کہ اِحصاء میں نہیں آتے، جن سب کا خلاصہ فناءِ تام ہے، اور اس کے بعد جو بسط ہوتا ہے وہ بے نظیر ہوتا ہے۔

حالتِ قبض کا دستور العمل:

فرمایا کہ عین قبض کے وقت گو اس کے منافع معلوم نہ ہوں مگر بعد میں اکثر معلوم بھی ہو جاتے ہیں، اور اگر معلوم بھی نہ ہوں تب بھی حاصل تو ہوتے ہیں، اور حصول ہی مقصود ہے نہ کہ اس حصول کا علم۔ ہرگز پریشان نہ ہوں، ذکر جس قدر ہو سکے کر لیا کریں، اگرچہ کسی قدر تکلیف کرنا پڑے، اور اگرچہ اس میں دلچسپی بھی نہ ہو۔ اور جس میں زیادہ کلفت ہو تخفیف کر دیں، اور استغفار کی قدرے کثرت رکھیں، اور جب تک یہ حالت رہے ہفتہ میں ایک دو بار اطلاع دیتے رہیں۔

قبض پیش خیمۂ عبدیّت ہے:

فرمایا کہ تغیّراتِ احوال طبعی و نفسانی ہیں، نہ کہ روحانی و قلبی۔ سو ایسے تغیّرات مضرّ تو کیا نافع ہوتے ہیں۔ عبدیّت کی حقیقت کا اس میں مشاہدہ ہوتا ہے۔ فنا و تہی دستی رَأْیَ الْعَیْن ہو جاتی ہے۔ اختیاری کام کی پابندی ایسے ہی وقت دیکھنے کے قابل اور محلِ امتحان ہے۔ اگر اس امتحان میں پاس ہو گیا اعلیٰ درجہ کے نمبر کا مستحق ہو گا۔

قبض کی ایک بڑی مصلحت:

فرمایا کہ حالتِ قبض و ہیبت میں سالک یہ دیکھ کر پریشان ہوتا ہے کہ میرے لیے چاروں طرف سے راستے بند کر دیئے گئے ہیں، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی اس میں یہ مصلحت ہوتی ہے کہ سب طرف سے مایوس ہو کر میری طرف رجوع ہو۔ اور اس سدِّ باب سے مقصود اپنے سے محجوب کرنا نہیں ہوتا، بلکہ شیطان سے بچا کر خود اپنی پناہ میں لینا مقصود ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سالک کو اس تنگی میں اس لیے مبتلا کرتے ہیں کہ مہلکاتِ باطنی عُجب و کِبر سے محفوظ رہے۔ اور اگر اس کے ساتھ ایسا معاملہ نہ کیا جاتا تو رذائلِ نفس کے پنجہ میں جا پھنستا، ہلاک ہو جاتا۔ چنانچہ حضرت مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ اسی حالتِ قبض اور اس کے معالجہ میں فرماتے ہیں؎

اے حریفاں راہہا را بَست یار

آہُوئے لنگیم و اُو شیرِ شکار

جز که تسلیم و رضا کُو چارۂ

در کفِ شیرِ نرے خونخوارۂ

ہیبت و حزن کا دستور العمل مسنون:

فرمایا کہ ہیبت اور حزن مبارک اور رفیع حالات میں سے ہے، اگر اس میں ختم ہو جائے شہادتِ کبرٰی ہے، مگر سنّت کا مقتضا یہ ہے کہ جہاں تک اپنا علم و قدرت کام دے اعتدال و تعدیل کو اپنا مستقرِّ اصلی بنائے، ہیبت کے ساتھ اُنس، اور حُُزن و سوءِ ظن کے ساتھ رجا و رحمت، اور فنا کے ساتھ بقا، اور نیستی کے ساتھ ہستی، اور مبالغہ فی التّواضع کے ساتھ مشاہدۂ نعمت کا اہتمام و استحضار کرے۔

غلبۂ ہیبت کے وقت کا مراقبہ:

ایک طالب کو تحریر فرمایا کہ اگر آپ کو آثارِ ہیبت اور سوءِ ظن بنفسہٖ کا زیادہ غلبہ ہوا کرے، تو سوچا کیجئے کہ بیش بریں نیست (اس سے زیادہ کچھ نہیں) کہ ہم ہر حالت میں ناقص اور عاصی ہیں، تو خدا تعالیٰ کے یہاں جس طرح کاملین کی نجات ہو گی اسی طرح تائبین کی بھی ہو گی۔ اگر صدر نشین نہ ہوں گے تو صفِ نعال ہی میں جگہ مل رہے گی۔ اگر اولیت نہ ہو گی تو جوتیاں لگنے کے بعد ہی سہی۔ بس یہ سمجھ کر "اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِيْ" کی کثرت کرنی چاہیے۔

غلبۂ قبض کا علاج:

فرمایا کہ قبض کے غلبہ کی حالت میں اکسیر ہدایت ترجمۂ کیمیائے سعادت میں یا ثلاثین ترجمۂ اربعین میں کتاب الرجاء، یعنی خدا کی رحمت کی امید کا مضمون بار بار دیکھنا چاہیے۔

شوق کا فقدان سالک کو مضر نہیں:

ایک طالب علم کو تحریر فرمایا کہ مذموم حالت دو ہیں: ایک معصیت، دوسری غفلت۔ رہا غلبہ (جوش و خروش) اور شوق، یہ حالتِ عارضہ میں سے ہے، اس کا فقدان سالک کو مضرّ نہیں، اور نہ یہ کیفیت بعینہٖ قائم و دائم رہ سکتی ہے۔ حجابات کا آپ کو شبہ ہو گیا ہے، وہ محض وہم ہے اور کچھ نہیں۔ اپنے کام میں سہولت اور راحت سے لگے رہئے، پریشانی سے البتہ قلب ضعیف ہو جاتا ہے جس میں مضرّ ہونے کا احتمال ہے۔

ایک طالب کو تحریر فرمایا کہ نہ آپ مریض نہ علاج کے محتاج، البتہ فن کے نہ جاننے سے اپنی صحت کی خبر نہیں، سو یہ بھی کوئی ضرر کی بات نہیں۔

قبض کا ایک سبب امتحان ہے:

ایک طالب کو تحریر فرمایا کہ قبض کے اسباب مختلف ہیں اور معالجات بھی مختلف۔ اگر آپ سے کوئی معصیت نہیں ہوئی اور غیرِ جنس لوگوں سے اختلاط بھی نہیں ہوا، تو اس کا سبب امتحان ہے۔ توکّل اور صبر سے کام لیجئے، استغفار کی کثرت رکھئے، اور میرے مواعظ اور ترتیب السّالک دیکھئے، کہ رحمتِ حق متوجّہ ہو۔

غیر اختیاری امور کا علاج تفویض ہے:

ایک طالب کو فرمایا کہ جتنے کام اختیار میں ہیں کئے جائیں، اور جو امرِ غیر اختیاری پیش آئے اس میں ذرا جُنبش نہ کریں، نہ کچھ تجویز کریں، بس خدا کے سپرد کر کے خاموش رہیں۔

وساوس سے پریشانی کا علاج:

فرمایا کہ وساوس کوئی پریشانی کی چیز نہیں، پریشانی سے قلب ضعیف ہو جاتا ہے، جس سے دونا ہجوم ہو جاتا ہے۔ بجز بے پرواہی اور بے التفاتی کے اور کوئی تدبیر نہیں، بلکہ بہتر ہے کہ اس پر خوش ہو، اس سے قلب کو قوّت ہوتی ہے، اور وساوس کو قبول نہیں کرتا، بہت جلد قطع ہو جاتے ہیں۔ اور حقیقت میں جب اس میں گناہ نہیں تو پھر پریشانی کیوں ہو۔ گو طبعی حزن و غم مذموم نہیں بلکہ یہ ایمان کی علامت ہے، لیکن عقلًا بے فکری کو بہرحال غالب رکھنا چاہیے، تاکہ وہ حزنِ طبعی مُضمحل ہو جائے اور مُوجبِ پریشانی نہ ہو۔

تخیّلاتِ فاسدہ کا علاج:

تخّیلاتِ فاسدہ کا تو سہل علاج یہ ہے کہ جب ایسے تخیلات کا ہجوم ہو اپنے قصد و اختیار سے کسی نیک خیال کی طرف متوجّہ رہنا چاہیے۔ اس کے بعد بھی اگر تخیّلات باقی رہیں یا نئے آئیں، ان کا رہنا یا آنا یقیناً غیر اختیاری ہے۔ کیونکہ مختلف قسم کے دو خیال ایک وقت میں اختیاراً جمع نہیں ہو سکتے۔ اور اگر بالاختیار اچھے خیال کی طرف توجّہ کرنے میں ذہول ہو جائے، جب متنبّہ ہو، ذہول کا تدارک تو استغفار سے کرے اور پھر اسی تدبیرِ استحضار سے کام لیا جائے۔ یہ طریقِ عمل اس قدر سہل ہے کہ اس سے سہل کوئی چیز ہی نہیں، اس کو دستور العمل بنا کر بے فکر ہو جانا چاہیے۔

فرمایا کہ سالک کو خطراتِ مُُنکَرہ کی بناء پر اپنے کو مردود نہ سمجھنا چاہیے، کیونکہ ان خطرات کو تو شیطان قلب میں ڈالتا ہے، لہذا سالک بے چارے کا کیا قصور۔ بلکہ اس کو تو جو ناگواری کی وجہ سے اذیّت ہو رہی ہے اس کا اس کو اجر ملے گا۔ غالب عادةُ اللہ یہی ہے کہ بعد وصولِ تامّ خطرات فنا ہو جاتے ہیں۔ اگر بمقتضائے اسباب و مصالحِ خاصّہ پھر بھی فنا نہ ہوں، تب بھی کچھ غم نہ کرے، کیونکہ خطراتِ غیر اختیاریہ پر مطلق مؤاخذہ نہیں۔

فرمایا کہ خطرات داخلِ قلب میں واقع نہیں ہوتے، بلکہ حوالیِ قلب میں رہتے ہیں۔ اور جو چیز داخلِ قلب میں متوہّم ہوتی ہے، وہ خطرات نہیں ہوتے بلکہ ان کا اثر اور محض انعکاس ہوتا ہے۔ کیونکہ داخلِ قلب میں واقع ہونے کی چیز تو صرف عقیدۂ راسخہ ہوا کرتا ہے نہ کہ خطرہ، جو ایک محض وہمی اور سطحی چیز ہے اور کچھ نہیں۔

فرمایا کہ شیطان اسی قلب میں وسوسے ڈالتا ہے جس میں ایمان ہوتا ہے۔ جیسے چور وہیں گھستا ہے جہاں مال و متاع ہوتا ہے۔ بس یہ سمجھنا چاہیے کہ خطرات مؤمنین و مقبولین ہی کو پیش آتے ہیں کافرین و مردودین کو پیش نہیں آتے۔

فرمایا کہ خطراتِ مُنکَرہ کو عقلاً مُنکَر سمجھا جائے اور اپنے اختیار کو ان سے ہرگز متعلق نہ ہونے دیا جائے، نہ حُدوثاً نہ بقاءً۔ نہ ان کے مقتضا پر عمل کی نوبت آنے دی جائے، اور بجائے مغموم ہونے کے خطرات کو علامتِ ایمان سمجھ کر اس پر مطمئن اور مسرور رہے کہ بحمد اللہ میرے عقائد تو صحیح ہیں۔ اور دستور العمل مرقوفہ نمبر ۳۱ کو معمول بنا کر بے فکری اور اطمینان کے ساتھ اپنے کو ذکر و طاعت اور ضروریاتِ دینیہ اور دنیویہ میں بلا لحاظِ دلچسپی و عدمِ دلچسپی مشغول رکھا جائے۔ بلکہ جیسا نمبر ۲ جزو سوم و چہارم میں تجویز کیا گیا ہے امورِ مُباحہ کا بھی قدرے شُغل رکھا جائے کہ وہ بھی وِقایہ ہو جاتے ہیں خطراتِ مُنکَرہ کا۔

فرمایا کہ وساوس سے ایک گُونہ ظلمت طبعی ہوتی ہے، مگر ہر تاریکی مانعِ قطعِ مسافت نہیں، جب کہ وسائط صحیح ہوں۔ چنانچہ ریل کبھی تاریکی میں بھی چلتی ہے، اس طرح کہ اس کی کھڑکیاں بند ہوتی ہیں۔ بس ڈرائیور کا صاحبِ نور ہونا کافی ہوتا ہے، اور ریل کا لائن پر ہونا۔

ان سب مذکورہ معالجوں کی شرائطِ نفع یہ ہیں کہ ان معالجات کو معالجہ سمجھ کر اور دفعِ خطرات کی نیّت سے ہرگز نہ کیا جائے، بلکہ مستقل اعمالِ مفیدہ سمجھ کر اختیار کیا جائے، اور نتیجۂ خاص یعنی اندفاعِ خطرات کا بھی انتظار نہ کیا جائے، ورنہ اس انتظار سے تعجیل، اور تعجیل سے تقاضا، اور تقاضے سے تشویش پیدا ہو گی۔ اور بھلا تشویش کے ہوتے ہوئے خطرات کیسے دفع ہو سکتے ہیں۔

امورِ تربیت میں شیخ سے مزاحمت:

فرمایا کہ امورِ تربیّت میں میری رائے میں کسی کو مزاحمت نہ کرنا چاہیے۔ پس میں جس کے ساتھ جو معاملہ کروں میرے سب احباب کو بھی یہی سمجھ لینا چاہیے کہ وہ شخص اس معاملہ کا اہل ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ کام میرے سپرد فرما رکھا ہے، اس لیے وہی میری دستگیری فرماتے ہیں، ورنہ میں کیا چیز ہوں۔

بیعت بحالتِ سفر:

حضرت والا کا عموماً سفر میں معمولِ بیعت نہیں تھا، لیکن مریضوں اور عورتوں کی درخواستِ بیعت کو منظور فرما لیتے تھے۔ کیونکہ مریض تو مرض کی وجہ سے واجب الرّحم ہوتے ہیں، اور عورتیں اہل الرّائے نہیں ہوتیں، ان بیچاریوں کا اعتقاد بالکل سیدھا سادھا اور سچّا ہوتا ہے۔

انتظارِ کیفیاتِ طبعیّہ حَسَنہ:

فرمایا کہ کیفیاتِ طبعیّہ حَسَنہ غیر اختیاریہ محمود تو ہیں مقصود نہیں۔ لہٰذا دعا کا تو مضائقہ نہیں، لیکن ان کا منتظر رہنا خلاف مقصود ہے اور بوجہ مخلِّ یکسوئی اور شاغل عن المقصود ہونے کے مضرّ ہے۔

اقتضائے عقلی و صدورِ اعمال:

فرمایا کہ عقلی احوال بھی طبعی کیفیات سے بالکل خالی نہیں ہوتے، ورنہ محض اقتضائے عقلی صدورِ اعمال کے لیے عادةً کافی نہیں۔ اسی طرح بالعکس۔ البتّہ ایک صورت میں عقلیت غالب ہوتی ہے اور طبیعت مغلوب، اور دوسرے میں برعکس۔

شیخ سے عدمِ مناسبت کی ایک علامت:

فرمایا کہ جو طالب اپنے کام میں باقاعدہ لگا ہوتا ہے اس کو ہر وقت اپنے اندر شیخ کی معنوی کرامتوں کا کھلی آنکھوں مشاہدہ ہوتا رہتا ہے۔ لہٰذا اس کو اپنے شیخ کی حِسّی کرامتیں دیکھنے کی ہوس نہیں ہوتی، اور اگر مدّتِ طویلہ تک ایسا مشاہدہ نہ ہو تو اس کو چاہیے کہ کوئی دوسرا شیخ تلاش کرے۔ کیونکہ یہ دلیل ہے اس کی کہ اس کو شیخ سے مناسبت نہیں۔

شیخ کی مجلس میں توجّہ کس طرح رکھے:

فرمایا کہ شیخ کی مجلس میں شیخ کے قلب کی طرف متوجّہ رہے، خواہ وہ کسی کام میں مشغول ہو۔ اور یہ تصوّر رکھے کہ اس کے قلب سے میرے قلب میں انوار آ رہے ہیں۔

مذاقِ طبعی حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ:

فرمایا کہ مذاق تو میرا یہی ہے کہ اپنی ہی حالت میں محو و مستغرق رہوں، اور خاموش بیٹھا رہوں، لیکن کیا کروں اہلِ مجلس اور اہلِ ضرورت کی خاطر سے بولنا پڑے۔

حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کا تصوّف:

ایک بار کسی سلسلہ کلام میں فرمایا کہ یہاں تو مُلّا پن ہے، ہم نہیں جانتے کہ درویشی کیا چیز ہے۔ طالب علم ہیں صاحب علم نہیں۔ بس قرآن و حدیث پر عمل کرنا بتاتے ہیں، پھر اس میں جو کچھ کسی کو ملنا ہوتا ہے مل جاتا ہے۔ اور الحمد للہ ایسا ملتا ہے ''مَا لَا عَیْنٌ رَّأَتْ وَ لَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَ لَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ''۔ مگر ظاہر میں کچھ نہیں، نہ وہ حق ہے، نہ وجد و حال ہے، نہ کشف و کرامت ہے۔

توجّہ کا مأثور طریق:

فرمایا کہ مجھے تو اپنی توجّہ کو سب طرف سے ہٹا کر ایک خاص شخص کی جانب جو مخلوق ہے، ہمہ تن متوجّہ ہو جانے میں غیرت آتی ہے۔ یہ تو حق خاص اللہ تعالیٰ ہی کا ہے کہ سب طرف سے توجّہ ہٹا کر بس اسی ایک ذاتِ واحد کی طرف ہمہ تن رہا جائے۔ البتہ دل سوزی اور خیر خواہی کے ساتھ تعلیم کرنا، اور دل سے یہ چاہنا کہ طالبین کو نفع پہنچے اور ان کی دینی حالت درست ہو جائے، یہ توجّہ کا مأثور طریق ہے۔ اور یہی حضرات انبیاء علیہم السلام کی سنّت ہے، اور یہ نفع اور برکت میں توجّہِ متعارف سے بڑھ کر ہے کیونکہ اس کے اثر کو بقاء ہے۔ بخلاف توجّہِ متعارف کے، کہ اس کا اثر بس اسی وقت ہوتا ہے پھر کچھ نہیں۔ اور فرمایا کہ مجھے تو باوجود جائز سمجھنے کے توجّہِ متعارف سے طبعی توحّش ہے۔ جیسے اوجھڑی سے، کہ گو حلال ہے لیکن طبیعتیں اس کو قبول نہیں کرتیں۔

شیخ کے قویّ النسبت اور صاحبِ برکت ہونے کی علامت:

فرمایا کہ یہ شبہ نہ کیا جائے کہ بغیر قصداً توجّہ کیے ہوئے اثر کیسے ہوتا ہے۔ بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض قلوب ہی کے اندر تعدیہ کی خاصیت رکھی ہے۔ جیسے کہ آفتاب کا یہ قصد نہیں ہوتا کہ اس کا نور دوسروں تک پہنچے، لیکن پھر بھی اسکا نور دوسروں کو پہنچتا ہی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر صفت ہی رکھی ہے کہ جو شئے اس کے مقابل میں آ جاتی ہے منوّر ہو جاتی ہے۔ بلا قصد ہی فیض کا پہنچنا شیخ کے زیادہ کمال کی بات ہے، اور اس کے نہایت قویّ النسبت اور صاحبِ برکت اور مقبول ہونے کی علامت ہے۔

انسان کا کمال:

فرمایا کہ انسان کا کمال تو یہی ہے کہ معاصی کا میلان ہو اور پھر بھی اپنے آپ کو روکے رہے، اور معاصی کا صدور نہ ہونے دے۔

پرانے معمولات کو چُھڑانا نہ چاہیے:

فرمایا کہ جس ذکر سے دلچسپی ہوتی ہے، اس پر مداومت بھی آسان ہوتی ہے۔ اور اس کے دوران جمعیت و یکسوئی بھی رہتی ہے، جو معین مقصود ہے۔ اسی واسطے میں پرانے معمولات کو نہیں چھڑاتا، کیونکہ پرانے معمولات سے اُنس ہو جاتا ہے اور ان سے دلچسپی بھی زیادہ ہوتی ہے، نیز معمولات میں مداومت کی بدولت ایک خاص برکت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔

حضرت والا کو اگر بعض مجتہدین کے اقوال پر بھی کسی ملازمت کے جواز کی گنجائش ملتی ہے تو اس عام ابتلاء اور ضعفِ ہِمَم کے زمانے میں اس گنجائش کی بناء پر اجازت دے دیتے ہیں۔ کیونکہ تنگیِ معاش میں اس سے اشدّ دینی ضرر کا اندیشہ ہے۔

شیخ کی حقیقی کرامت:

طالبین کے اندر اہتمامِ دینی اور فکرِ جائز و نا جائز پیدا کر دینا ہی تو شیخ کی حقیقی کرامت، اور اس کے صاحبِ فیض و برکت ہونیکی بیّن علامت ہے۔

صاحبِ اجازت کے لیے ظاہری وجاہت کی شرط:

فرمایا کہ مصالحِ دینیہ کا مقتضا یہ ہے کہ صاحبِ اجازت میں کسی نہ کسی قسم کی کچھ ظاہری وجاہت بھی ہو، دینی یا دنیوی۔ مثلاً اہلِ علم ہو یا کسی معزّز طبقہ کا ہو، تاکہ اس کی طرف رجوع کرنے میں کسی کو عار نہ آئے، اور طریق کی بے وقعتی نہ ہو۔

علامتِ محبوبیّت عند اللہ، حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ:

یہ بارہا ہزارہا کا مشاہدہ ہے کہ حضرت کو دیکھتے ہی خالی الذہن کے قلب کے اندر حسنِ عقیدت پیدا ہو جاتی ہے اور بے اختیار کشش ہونے لگتی ہے، جو علامت ہے محبوبیت عند اللہ کی۔ چنانچہ ایک موقع پر خود حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جس کسی سے میں ملتفت ہو کر دو باتیں کر لیتا ہوں وہ ایسا مسخّر ہو جاتا ہے گویا اس کا دل مٹھی میں آ گیا۔

اعزہ کی تربیتِ باطنی سے عذر مناسب ہے:

فرمایا کہ بعد تجربہ بس اسلم صورت یہی سمجھ میں آئی کہ اعزہ کی تربیتِ باطنی سے عذر ہی کر دیا جائے۔ چنانچہ اب میں اکثر صورتوں میں یہی کیا کرتا ہوں۔ کیونکہ ادھر ان کی بھی خصوصیت کی توقع ہوتی ہے اور ادھر خود مجھ کو بھی خصوصیت برتنے کا طبعی تقاضا ہوتا ہے۔ اور اگر طبعی تقاضا پر دینی مصلحت کو ترجیح دی جائے اور سختی ہی کا برتاؤ کیا جائے، تو پھر ناگواری کا اثر واسطہ در واسطہ تک پہنچتا چلا جاتا ہے۔

امنِ باطنی کے لیے سیاست بدرجۂ اولیٰ ضروری ہے:

فرمایا کہ شیخِ کامل کے اندر مُلوک کی سی سیاست ہونا ضروری ہے، کیونکہ عام طبائع کے اعتبار سے عادت اکثر یہی ہے کہ بدون سختی کے اصلاح نہیں ہوتی۔ اسی لیے اس کی ضرورت سب عقلاء کے نزدیک مسلّم ہے اور ہر متمدّن جماعت نے حسبِ ضرورت اپنے اپنے اصولِ سیاست مقرر کر رکھے ہیں۔ بلکہ نظامِ عالَم ہی اصولِ سیاست پر قائم ہے۔ جب امنِ ظاہری کے لیے سیاست ضروری ہے، تو امنِ باطنی کے لیے بدرجۂ اولیٰ ضروری ہو گی۔ کیونکہ فسادِ ظاہری کی اصلاح اتنی دشوار نہیں جتنی فساد باطنی کی۔ پھر تعجّب ہے کہ رذائلِ نفس کے ازالہ کے لیے سیاست کی ضرورت ہی نہیں سمجھی جاتی۔

غصّہ کی بات پر غصّہ نہ آنا اور معافی چاہنے پر عفو نہ کرنا مذموم ہے:

فرمایا کہ اگر کوئی ایسا بے حِس ہو کہ اس کو غصّہ کی بات پر بھی غصّہ نہ آتا ہو، تو اس کے متعلق امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا فتوٰی سنئیے: "مَنِ اسْتُغْضِبَ فَلَمْ یَغْضَبْ فَھُوَ حِمَارٌ وَ مَنِ اسْتُرْضِیَ فَلَمْ یَرْضَ فَھُوَ شَیْطَانٌ" یعنی جس کو غصّہ دلایا جائے (مراد یہ کہ اس کے ساتھ ایسا معاملہ کیا جائے جو فطرتِ سلیمہ کے اقتضاء سے غصہ کا موجب ہو) اور پھر بھی اس کو غصہ نہ آئے تو وہ حِمار ہے، اور جس کو راضی کیا جائے (یعنی اپنی کوتاہی کا تدارک کر کے اس سے معافی چاہی جائے) اور وہ پھر بھی راضی نہ ہو تو (چونکہ یہ علامت ہے غایتِ تکبّر کی، اس لیے) وہ شیطان ہے۔

شدّت بمصلحتِ اصلاح محمود ہے:

فرمایا کہ حق تعالیٰ نے اپنے بندوں کو مختلف المزاج پیدا کیا ہے، پھر اس کے بعد بعض کو مقبول بنا دیا، تو مقبولیت کے بعد مزاجِ فطری تو نہیں بدلتا۔ اس لیے بعض مقبولین نرم ہوتے ہیں، بعض تیز ہوتے ہیں، لیکن نیّت سب کی اصلاح ہی کی ہوتی ہے۔ آگے مزاج کے اختلاف سے رائے کا اختلاف ہو جاتا ہے۔ ایک کے نزدیک نرمی طریقہ ہے اصلاح کا، دوسرے کے نزدیک سختی طریقہ ہے اصلاح کا۔ کیونکہ شدّت علی الاطلاق مذموم نہیں، بلکہ جو شدّت بلا ضرورت و بلا مصلحت ہو وہ مذموم ہے (وہ تو بقول حضرت والا شدّت نہیں قَساوت ہے) اور جو شدّت بضرورتِ سیاست اور بمصلحتِ اصلاح ہو وہ سراسر محمود ہے۔ کیونکہ وہ تو بقول حضرت والا شدّت نہیں حِدّت ہے۔ جو اقتضائے ایمان ہے۔ تشدّد نہیں تسدّد ہے، درشتی نہیں درستی ہے، جو عرصہ دراز کے تجربوں کے بعد قائم کئے گئے ہیں۔

اصولِ صحیحہ اصل میں مسائلِ شرعیہ ہیں:

فرمایا کہ میرے اصولِ صحیحہ اصل میں مسائلِ شرعیہ ہیں، جس میں بیشمار مصالحِ دینیہ و دنیویہ مضمر ہیں۔ اور اصولِ صحیحہ کی پابندی کو سختی کہنا سراسر زیادتی ہے، کیونکہ جو قانون اپنی ذات میں تو سہل ہو، مگر اس کی پابندی سختی سے کرائی جائے اس کو سخت نہیں کہا جاتا۔ جیسے نماز، کہ اس کے سارے ارکان بہت ہی سہل ہیں، اور بحالتِ عذر تو اس میں اور بھی سہولتیں اور گنجائش رکھ دی گئی، لیکن اس کی پابندی بہت سختی کے ساتھ کرائی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ بعض ائمہ کے نزدیک تو تارکِ صلوٰۃ واجب القتل ہے۔

سختی و مضبوطی کا فرق:

فرمایا: اگر اصول تو ہوں نرم، لیکن ان کی پابندی سختی کے ساتھ کرائی جائے، تو یہ سختی نہیں بلکہ مضبوطی ہے۔ جیسے ریشم کا رسّہ، نرم تو ایسا کہ چاہے اس میں گرہ لگا لو، لیکن ساتھ ہی مضبوط اتنا کہ اگر اس سے ہاتھی کو باندھ دیا جائے تو وہ اس کو توڑ نہیں سکتا۔

اصولِ صحیحہ کو مقتضائے طبعی بنانے کی ترغیب:

فرمایا کہ میں فقط دوسروں ہی کو اصولِ صحیحہ کا پابند نہیں بناتا بلکہ اپنے آپ کو بھی پابند کرتا ہوں، اور بہ تکلّف و تصنّع نہیں بلکہ اللہ کا شکر ہے کہ اصولِ صحیحہ کی پابندی میرا مقتضائے طبعی ہو گیا ہے۔ گو اس میں کسی قدر مشقّت بھی ہو، اور گو اس کا تعلّق میرے محکومین اور تابعین ہی سے ہو، کیونکہ اصولِ صحیحہ بہرحال قابلِ احترام ہیں۔ یہاں تک کہ اکثر اہلِ معاملہ کو میری رعایتِ اصول کا علم بھی نہیں ہوتا، لیکن میرے قلب کو تو تسلّی رہتی ہے کہ میں نے اصولِ صحیحہ کی رعایت کی، کسی کو جتلانا تھوڑا ہی مقصود ہے۔ ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ جب کبھی مجھ کو اپنا حال حکیم محمد ہاشم صاحب مرحوم سے کہنا ہوتا (با وجود اس کے کہ ان کو مجھ سے بہت ہی تعلّق تھا، یہاں تک کہ آخر میں مجھ سے بیعت بھی ہو گئے تھے) تو خود ان کے گھر جا کر اپنا حال کہتا۔ وہ بہت شرمندہ ہوتے لیکن میں کہہ دیتا کہ اس میں شرمندگی کی کوئی بات نہیں، محتاج کو محتاج الیہ کے پاس آنا چاہیے، نہ کہ بر عکس۔ البتہ جب گھر میں کسی کی نبض دکھانی ہوتی تو پھر بلا تکلّف ان کو بلا لیتا، کیونکہ وہ موقع مجبوری کا تھا، وہاں اصولِ صحیحہ کا یہی مقتضا تھا۔

محکومین کا بھی احترام چاہیے:

فرمایا کہ گھر میں کھانا کھا کر میں کبھی نہیں کہتا کہ برتن اٹھا لو، بلکہ یہ کہتا ہوں کہ برتن اٹھوا لو۔ گو وہ محکوم ہیں لیکن ان کی حاکمیت کا، جو ان کو گھر میں اپنے محکومین پر حاصل ہے، لحاظ رکھتا ہوں۔ کیونکہ محکومین کا بھی احترام کرنا چاہیے۔ پھر چاہے وہ خود اٹھا لیں یا کسی اور سے اٹھوا لیں۔ میں نوکرانی سے بھی خود کسی کام کے لیے نہیں کہتا، بلکہ میں تو گھر میں کہتا ہوں اور وہ نوکرانی سے کہتی ہیں، کیونکہ نوکرانی براہ راست انہی کی محکوم ہے، اس میں بھی ان کی حاکمیت کو محفوظ رکھتا ہوں۔ نیز اجنبی عورت سے بلا ضرورت خطاب بھی ایک درجہ میں خلافِ حیا ہے۔

ملازمین کی سہولت و توقیر کا لحاظ:

فرمایا کہ میں نوکروں کو دو کام ساتھ نہیں بتاتا، پہلے ایک بتلاتا ہوں، جب اس سے فراغت ہو جاتی ہے پھر دوسرا، تاکہ یکدم بار نہ پڑے اور یاد رکھنے کو زحمت نہ ہو۔ یاد رکھنے کی زحمت کو خود برداشت کرتا ہوں، ان پر بوجھ نہیں ڈالتا۔ اگر کوئی الجھن کا کام ہوتا ہے تو اس میں خود بھی شریک ہو جاتا ہوں، تاکہ انہیں کچھ سہولت ہو جائے۔

ملازموں کو بھی تنخواہ توقیر کے ساتھ دیتا ہوں، ان کے سامنے رکھ دیتا ہوں، پھینک کر نہیں دیتا، جیسا کہ متکبّرین کا شعار ہے۔

جب گھر کے لوگ نہیں ہوتے اور صبح کو ملازم کے ساتھ گھر سے باہر جانا ضروری ہوتا ہے تو ملازم کے بیدار ہونے کے بعد میں قصداً کسی کام میں مشغول ہو جاتا ہوں تاکہ وہ باطمینان اپنی ضروریات سے فارغ ہو لے، اور میرا تہیّہ اور اثر دیکھ کر اس کو عجلت نہ ہو۔

اہلِ خصوصیت کو بھی جوابی خط لکھنا:

اگر اہلِ خصوصیت کو بھی اپنے کسی کام کے لیے کچھ لکھتا ہوں تو جوابی خط بھیجتا ہوں۔

مہمان کو ٹھہرانے میں اصرار نہ کرنا:

کوئی کیسا ہی محبوب مہمان ہو اور اس کے ٹھہرانے کو کتنا ہی جی چاہتا ہو، کبھی اس کی مرضی کے خلاف اصرار نہیں کرتا۔ اور جب جانے کو کہتا ہے تو نہایت فراخدلی سے کہہ دیتا ہوں کہ جیسی مرضی ہو اور جس میں راحت ہو۔

بڑوں کے حقِ عظمت کو ادا کرنا:

فرمایا کہ میرے چھوٹے گھر میں کے والد پیر جی ظفر احمد صاحب میرے ساتھ اپنے پیر کا سا برتاؤ کرتے ہیں، لیکن قلب میں ان کی ویسی ہی عظمت ہے جیسی خُسر کی ہونی چاہیے، اور جیسی اپنے بڑے خُسر صاحب کی تھی، لیکن پیر جی صاحب کو اس کا علم بھی نہیں۔ نہ مجھ کو یہ اہتمام ہے کہ ان کو اس کا علم ہو، مجھے تو اپنی تسلّی کرنی ہے کہ میں ان کا حقِ عظمت ادا کر رہا ہوں، ان پر کوئی احسان تھوڑا ہی رکھنا ہے۔

گھر میں رات کو سوتے وقت احتیاطاً لوٹے میں پانی بھر کر رکھ لیتی ہیں، اگر کبھی مجھے پانی کے استعمال کرنے کی ضرورت پڑ جاتی ہے تو میں لوٹے کو پھر بھر کر اسی جگہ رکھ دیتا ہوں، تاکہ اگر ان کو ضرورت ہو تو لوٹا بھرا ہوا ہی ملے، دوبارہ ان کو بھرنا نہ پڑے۔

حتّی الوسع اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرنا سنّت ہے:

فرمایا کہ ایک غیر مقلّد یہاں آئے تھے، انہوں نے یہاں سے جا کر ایک صاحب سے کہا کہ ہم لوگوں میں تو اتّباعِ سنت کا فقط دعویٰ ہی دعویٰ ہے۔ اتّباعِ سنّت تو ہم نے وہاں دیکھا۔ ایک کتاب کی ضرورت ہوئی تو خود اٹھ کر کتب خانہ سے لائے، کسی سے کہا نہیں کہ لے آؤ۔ اپنا کام خود کیا، دوسرے کو تکلیف نہ دی۔ سبحان اللہ! کیا اتّباعِ سنّت ہے اور کتنی تواضع ہے کہ بلا تکلّف خود اٹھ کر لائے۔

فرمایا کہ میزبان کے نوکر سے اگر کوئی چیز مانگنا ہو، تو حاکمانہ لہجہ میں پانی نہیں مانگنا چاہیے۔ بلکہ اخلاق کے ساتھ کہنا چاہیے کہ ذرا پانی دیجئے گا۔ تھوڑا پانی عنایت کیجئے گا۔

حدیث میں ہے: "اَلْحِدَّةُ تَعْتَرِيْ خِیَارَ اُمَّتِيْ" (المعجم الکبیر للطبراني، رقم الحدیث:11471) یعنی تیز مزاجی میری امّت کے نیک لوگوں کو پیش آتی ہے۔ اور اس کی حقیقت حق پر غیرت ہے، اور اس کے ظاہر کرنے کی حقیقت ترکِ تکلّف ہے۔

شیخ و طالب میں توافقِ طبائع کا ہونا شرطِ نفع ہے:

فرمایا کہ عدمِ مناسبت کی صورت میں، جو میں قطعِ تعلق کر دیتا ہوں، اس کی وجہ یہ ہے کہ بدون مناسبت کے شیخ سے کچھ نفع نہیں ہوتا۔ ہے تو فحش مثال لیکن مثال تو محض توضیح کے لیے ہوتی ہے اس لیے نقل کرنے میں کچھ مضائقہ نہیں، وہ یہ کہ اطبّاء کا اس پر اتفاق ہے کہ جب تک توافقِ انزالین نہ ہو حمل نہیں قرار پاتا، اگرچہ زوجین دونوں تندرست اور قوی ہوں۔ اسی طرح اگرچہ شیخ اور طالب دونوں صالح ہوں، لیکن باہم توافقِ طبائع نہ ہو تو پھر تعلّق ہی عبث ہے، اور اس کا قطع کر دینا ہی مناسب ہے۔ کیونکہ اجتماع بلا تناسب نہ صرف غیر مفید بلکہ موجبِ تشویشِ جانیبن ہوتا ہے۔ یہ بھی فرمایا کہ یہ ضروری نہیں کہ کسی خاص شیخ سے عدم مناسبت طالب کے نقص ہی کی دلیل ہے، کیونکہ طبائعِ فطری مختلف ہوتی ہیں، بعض کو کسی سے مناسبت ہوتی ہے بعض کو کسی سے۔ لیکن ہر حال میں مدارِ نفع مناسبت ہی پر ہے۔ اس لیے یہ ہو سکتا ہے کہ مختلف الطبائع پیر اور مرید دونوں کی استعدادیں اپنی اپنی جگہ کامل ہوں اور دونوں متّقی ہوں، لیکن پھر بھی بوجہ عدمِ تناسبِ طبائع ان کا اجتماع موجبِ تشویشِ جانبین ہو جائے۔

علامتِ مناسبتِ شیخ و مرید اور تردّد و خطرہ کا فرق:

فرمایا کہ بعضوں نے مجھ سے سوال کیا کہ شیخ کے ساتھ مناسبت ہونے نہ ہونے کی علامت کیا ہے؟ تو میں نے ان سے کہا کہ گو یہ امر ذوقی ہے، لیکن میں الفاظ میں اس کی تعبیر کئے دیتا ہوں، مناسبت کی علامت یہ ہے کہ شیخ کے کسی قول یا فعل پر اس کے (شیخ کے) خلاف طالب کے قلب میں کوئی اعتراض یا شبہ، جزم یا تردّد (یعنی احتمالِ صحتِ جانبین کے ساتھ) پیدا نہ ہو (خطرہ کا، جس میں جانبِ مخالف کے بطلان کا تیقّن ہوتا ہے، اعتبار نہیں) یہاں تک کہ اگر اس کے کسی قول یا فعل کی تاویل بھی سمجھ میں نہ آئے (کیونکہ اوّل تاویل ہی کرنی چاہیے) تب بھی دل میں اس کی طرف سے انکار پیدا نہ ہو، بلکہ اپنے آپ کو یوں سمجھائے کہ آخر یہ بھی تو بشر ہی ہے۔ اگر اس کا کوئی قول یا فعل گناہ بھی ہو تب بھی کیا ہوا، توبہ سے یا محض فضل سے اس کی معافی ہو سکتی ہے۔

عدمِ مناسبت کے وقت کا دستور العمل:

فرمایا کہ اگر شیخ کے خلاف اعتراضات اور شبہات پیدا ہوتے ہوں، تو سمجھ لے کہ مجھ کو اس سے مناسبت نہیں، اور اس کو بِلا اس کی دل آزاری کئے چھوڑ دے۔ کیونکہ نفع کا مدار یکسوئی اور شیخ کے ساتھ حسنِ اعتقاد پر ہے، اور اعتراضات اور شبہات کی صورت میں کہاں۔ لہٰذا اس کو چھوڑ دینا مناسب ہے۔ لیکن گستاخی عمر بھر نہ کرے، کیونکہ اوّل اوّل راہ پر تو اسی نے ڈالا ہے، اور اس معنی کو وہ محسن ہے۔ یہاں تک کہ اگر وہ ایسے امور کا بھی مرتکب ہو جو بظاہر خلاف سنّت ہوں، لیکن اس میں اجتہاد کی گنجائش ہو، خواہ بعید ہی سہی، پھر بھی گستاخی نہ کرے۔

جسے کسی سے مناسبت نہ ہو اس کا طریقۂ نجات:

فرمایا کہ ایسا شخص جس کو کسی سے مناسبت نہ ہو، ضروری احکام کا علم حاصل کرتا رہے، خواہ مطالعہ سے خواہ اہل علم سے پوچھ پوچھ کر۔ اور سیدھے سیدھے نماز، روزہ کرتا رہے۔ اور جو امراضِ نفس اس کو اپنے اندر محسوس ہوں، ان کا علاج جہاں تک ہو سکے اپنی سمجھ کے مطابق بطورِ خود کرتا رہے، اور جو موٹے موٹے گناہ ہیں ان سے بچتا رہے، اور بقیہ سے استغفار کرتا رہے اور دعا بھی کرتا رہے، کہ " اے اللہ! ان کا بھی مجھے احساس ہونے لگے اور ان کے معالجات بھی میری سمجھ میں آنے لگیں، اگر مجھ میں سمجھنے کی استعداد نہ ہو تو بلا اسباب ہی محض اپنے فضل سے ان عیوب کی اصلاح کر دے "۔ اس سے زیادہ کا وہ مکلّف نہیں۔

قوّتِ فکریہ:

فرمایا کہ قوّتِ فکریہ ہی سے انسان، انسان ہے۔ انسان اور حیوان میں بس یہی تو فرق ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے قوّتِ فکریہ عطا فرمائی ہے اور حیوان کو نہیں۔ انسان کو احتمالات سوجھتے ہیں اور حیوان کو نہیں۔ علماء نے تو انسان کی یہ تعریف کی ہے کہ وہ ایک حیوانِ ناطق ہے، لیکن میرے نزدیک انسان کی یہ تعریف ہونی چاہیے کہ وہ ایک حیوانِ متفکّر ہے۔ غرض جو انسان اپنی قوّتِ فکریہ سے کام نہ لے، اور احتمالات نہ سوچے، وہ انسان نہیں حیوان بصورتِ انسان ہے، جیسے بن مانس اور جل مانس ہوتے ہیں۔

استاد کی عظمت ہونی چاہیے:

ایک طالبِ علم جو پانی پت سے خانقاہ میں قرآن کی تعلیم کے لیے آیا تھا، اس سے فرمایا کہ اپنے استاد سے اجازت لے کر آئے ہو؟ ان کو ناراض کر کے تو نہیں آئے؟ کہا ان سے اجازت لے کر آیا ہوں، فرمایا کہ ان کی اجازت کا خط منگوا سکتے ہو؟ کہا جی ہاں منگوا سکتا ہوں، فرمایا اچھا ان کا خط اس مضمون کا کہ ہاں یہ میری اجازت سے گئے ہیں منگوا دو۔ پھر فرمایا کہ استاد کی اجازت اس لیے منگوائی ہے کہ اپنے افعال و اعمال میں آزاد نہ ہوں، جو کام کریں اپنے بڑوں سے پوچھ پوچھ کر کریں، نیز اساتذہ کی عظمت بھی قلب میں پیدا ہو۔

سالک مبتلائے قلّتِ فکر و اِعجابِ نفس سے خطاب:

ایک صاحب نے، جن کو حضرت والا سے پرانا تعلق تھا، حاضرِ خانقاہ ہو کر بذریعہ عریضہ عرض کیا، کہ میں نے مواعظ کا بھی مطالعہ کیا، رسالہ تبلیغِ دین بھی دیکھا، لیکن مجھے تو اپنے عیوب ہی نظر نہیں آتے ہیں۔ اس غرض سے کہ مجھے اپنے عیوب نظر آئیں حضرت کی خدمت میں رہنا بھی چاہتا ہوں، لیکن بال بچوں کا نفقہ میرے ذمّہ واجب ہے اور میں مزدوری پیشہ آدمی ہوں، اس لیے قیام کی صورت بھی مشکل معلوم ہوتی ہے۔

اس پر حضرت والا نے تحریر فرمایا کہ میرے پاس رہنے سے تو کوئی زائد بات پیدا نہ ہو گی، کیونکہ مجھ کو تو کسی کے عیوب کی تلاش نہیں، اور تم کو اپنے عیوب نظر آتے نہیں، تو ایسی حالت میں رہنا نہ رہنا برابر ہے۔ اور یہ بھی تحریر فرمایا کہ جب تمہیں اپنے عیوب نظر ہی نہیں آتے تو تم معذور ہو، بس دعا کیا کرو۔

اس تحریری جواب کے بعد جب صبح کی مجلس منعقد ہوئی تو حضرت والا نے سب کے سامنے ان کو اس کے کہنے پر کہ مجھے اپنے عیوب ہی نظر نہیں آتے، جس کا منشاء قرائنِ قویّہ سے قلّتِ فکر و اِعجابِ نفس معلوم ہوا، زبانی سخت زجر و توبیخ فرمائی اور ایسی ڈانٹ پلائی کہ ہوش درست ہو گئے اور دماغ صحیح ہو گیا، جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے۔

خلاصۂ تقریرِ پُر تاثیر:

فرمایا کہ حیرت ہے تمہیں اپنے عیوب ہی نظر نہیں آتے، حالانکہ و اللہ! اگر آدمی کی حِس صحیح ہو تو گناہ تو گناہ، اس کو تو اپنی طاعات بھی معاصی نظر آنے لگیں۔ پھر نہایت خوشی کے ساتھ تین بار قسم کھا کر فرمایا کہ مجھ کو تو اپنی نماز، اپنے روزے اور اپنے ہر عمل، بلکہ اپنے ایمان تک میں شبہ عدمِ خلوص کا رہتا ہے۔ اور ہم لوگ تو کیا چیز ہیں، صحابہ رضی اللہ عنہم سے بڑھ کر کون مخلص ہوگا۔

حدیث میں وارد ہے کہ اصحابِ بدر میں سے ستّر حضرات ایسے تھے جن کو اپنے اوپر نقائص کا شبہ تھا، کہ کہیں ہم منافق تو نہیں۔ حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی تو یہ حالت، اور اِن حضرت کو اپنے اندر کوئی عیب ہی نظر نہیں آتا، کیا ٹھکانہ ہے اس بے حسی کا۔ اس پر انہوں نے عرض کیا کہ یہ تو میں جانتا ہوں کہ میرے اندر عیب ہیں، لیکن یہ نہیں معلوم ہوتا کہ کیا ہیں۔ فرمایا کہ سبحان اللہ! اس کی تو ایسی مثال ہوئی کہ یہ معلوم ہے کہ میرے جسم میں درد ہو رہا ہے، لیکن یہ پتہ نہیں کہ کہاں ہو رہا ہے، اور کس قسم کا درد ہے، آیا پیٹ کا درد ہے یا سر کا یا ہاتھ پاؤں کا، یہ کیا حماقت کی بات کہی۔ جس کو درد کا احساس ہو رہا ہو گا کیا اس کو یہ پتہ نہ چلے گا کہ کہاں ہو رہا ہے، یہ تو بے حسی سے بھی بڑھ کر ہے۔ یہ بھی فرمایا کہ میں نے جو تمہارے پرچے کے جواب میں یہ لکھا ہے کہ جب تمہیں اپنے عیب ہی نظر نہیں آتے تو تم معذور ہو، یہ تو علی سبیل التّسلیم محض ضابطہ کا جواب ہے۔ نری کتابیں دیکھنے سے عیوب نظر نہیں آتے۔

یہ بھی فرمایا کہ تم نے جو مجھ کو یہ لکھا ہے کہ میں نے مواعظ کا بھی مطالعہ کیا، رسالہ تبلیغ دین بھی دیکھا، لیکن پھر بھی اپنے عیب نظر نہیں آتے۔ تو عیب کہیں محض مطالعہ سے نظر آیا کرتے ہیں؟ نری کتابوں کے دیکھنے سے کیا ہوتا ہے؟ جب تک کہ ان کتابوں کا اثر نہ لیا جائے۔

یہ تو ایسا ہی ہے جیسے پریس میں قرآن شریف بھی چھپتا ہے، حدیث شریف بھی چھپتی ہے۔ لیکن اس پر سوائے اس کے کہ محض نقوش مرتسم ہو جائیں معانی کا کچھ بھی اثر نہیں ہوتا۔

پھر فرمایا کہ اگر کسی کو اپنے اوپر مسلّط کر لیا جائے، کہ جو عیب دیکھے متنبّہ کر دیا کرے، تو یہ بھی کلّیتًا کافی نہیں۔ کیونکہ اکثر تو یہی ہے کہ اگر وہ محبّ ہوا تو اس کو عیب ہی نظر نہ آئیں گے، اور اگر معانِد ہوا اس کو ہنر بھی عیب نظر آئیں گے۔

مراقبہ نافع برائے دفعِ قلّتِ فکر و اِعجابِ نفس:

پھر فرمایا کہ کسی کو اپنے افعال و احوال پر ناز ہو اور ان میں کوئی نقص ہی نظر نہ آتا ہو، تو ذرا یہ مراقبہ کر کے تو دیکھے کہ میں اللہ تعالیٰ کے حضور میں حاضر ہوں، اور وہ میرے سارے افعال و احوال کو دیکھ رہے ہیں، اور پھر یہ غور کرے کہ آیا میرے سارے افعال و احوال ایسے ہیں کہ ان کو بلا تردّد اللہ تعالیٰ کے حضور میں پیش کیا جا سکتا ہے؟ اس وقت اس کو اپنے اعمال کی حقیقت نظر آ جائے گی۔ واللہ! جو پھر ایک بھی ایسا نکل سکے جو دربارِ خداوندی میں پیش کئے جانے کے قابل ہو۔ ایک نماز ہی کو دیکھ لیجئے کہ ہم لوگ اس کا کیا حق ادا کر رہے ہیں۔ اس خشوع و خضوع کو تو جانے دیجئے جس میں کچھ دشواری ہے۔ جس استحضار میں کوئی دشواری نہیں اس میں بھی تو ہم لوگ کوتاہی کرتے ہیں۔

پھر آخر میں ان سے فرمایا کہ اب تمہیں نہ کبھی حالات کا خط لکھنے کی اجازت ہے نہ یہاں آنے کی، جب تک تمہیں اپنے عیب نظر نہ آنے لگیں۔ اور عیب بھی ایک دو نہیں بلکہ بہت زیادہ تعداد میں۔ گو جب معالجہ چاہو گے، تو اس میں ایک ہی ایک عیب کا علاج بتاؤں گا، لیکن علاج جب شروع کروں گا، جب ایسے بہت سے عیوب کی فہرست اور تفصیل لکھو گے۔ اس درمیان میں بس صرف دریافت اور طلبِ دعا کے لیے خط لکھنے کی اجازت ہے اور کسی تعلّق کی اجازت نہیں۔

نتیجۂ تقریر:

پھر ان صاحب نے لکھا کہ گذارش یہ ہے کہ جس روز سے تھانہ بھون سے آیا ہوں اس روز سے برابر غور و فکر کے ساتھ ہر کام میں اپنے نفس کے ساتھ محاسبہ کر رہا ہوں، اور جس مراقبہ کو مجلسِ مبارک میں ذکر فرمایا تھا کہ یوں سوچے کہ یہ کام یا یہ بات حق تعالیٰ کے سامنے ہوں تو کر سکتا ہوں یا نہیں۔ تو اس مراقبہ سے معلوم ہوا کہ میری جتنی باتیں اور کام ہیں سب بے کار ہیں۔ میری کوئی بات اور میرا کوئی کام اس قابل نہیں کہ باری تعالیٰ کے سامنے پیش کیا جا سکے۔ پہلے جو اپنی غلطیاں نظر نہیں آتی تھیں تو اس کی وجہ محض بے پروائی اور بے توجّہی تھی۔ اس تنبیہ کے قبل میں اپنے قلب کو مثل ایک صندوقچی کے سمجھتا تھا، جس پر وارنش کیا ہو، اور جس کے اندر عجیب عجیب اشیاء رکھی ہوں۔ مگر جناب کی تنبیہ کے بعد جو اب اس صندوقچی کو کھول کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس کے اندر گوہ در گوہ ہو رہا ہے۔ لہٰذا احقر نے اپنے پہلے خیال سے کہ مجھ کو اپنا کوئی عیب نظر ہی نہیں آتا تھا توبہ کی، اور حضور کی تنبیہ کا یہ اثر ہوا کہ اب مجھ کو اپنے عیوب اس قدر صاف نظر آنے لگے کہ میں اپنے عیوب پر بڑی سے بڑی قسم کھا سکتا ہوں۔ اور اب اس کی اجازت چاہتا ہوں کہ میں اپنے عیوب پیش کر کے ان کے علاج دریافت کروں۔ جس پر یہ جواب حضرت والا کا گیا: "مبارک ہو! یہ گوہ خاکساری کی خاک سے مل کر کھاد کا کام دے گا، اور ایسی اجناس پیدا ہوں گی کہ روحانی غذا پیدا ہو جائے گی۔ دعا کرتا ہوں اور عیب پیش کرنے کی اجازت دیتا ہوں، مگر ایک خط میں ایک بات سے زیادہ نہ ہو"۔