حصہ 2 باب 1 ملفوظ 1: متفرق مباحث و واقعات

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّيْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

انفاسِ عیسیٰ حصہ دوم

عیوب و مفاسد و خبائثِ نفس پر مطلع ہونے کی تدبیر:

اس کے لیے اکثر "اربعین" کے مطالعہ کا مشورہ دیا کرتا ہوں، لیکن صرف مطالعہ کو کافی نہ سمجھا جائے بلکہ عیوب پر مطلع ہو کر اپنے مصلح سے مشورہ لیا جائے۔ اس کے ساتھ اس کی بھی ضرورت ہے کہ اپنے جن محاسن پر نظر پڑے ان کے متعلق غور کیا جائے کہ جس ہیئت سے یہ محمود یا مامور بہ ہیں، آیا اس ہیئت سے مجھ میں پائی جاتی ہیں؟ اگر ہیئتِ موجودہ و ہیئتِ مطلوبہ کی تحقیق کی جائے گی تو اس وقت منکشف ہوگا کہ محاسنِ مزعومہ، محاسنِ حقیقی کی نقل بھی نہیں، تو وہ نظر بھی کالعدم ہو جائے گی۔

بیعت کب کرنا چاہیے:

بیعت کا موقع اس وقت ہے جب اپنے خادمِ دینی سے اس درجہ تعلق و محبت طبعی ہو جائے کہ وہ سراپا نقص ہی نقص بن جائے تب بھی خواہ اس سے اعتقاد نہ رہے، اضعف ہو جائے لیکن اس سے انقباض نہ ہو۔ اور جب تک اس کی تعلیم دل کو لگتی رہے تعلیم کا سلسلہ اس کے ساتھ جاری رکھے اور اگر تعلیم دل کو نہ لگے تو تعلیم بھی ترک کر کے اطلاع کر دی جائے تاکہ وہ غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو۔ اور دوستی کا علاقہ پھر بھی اس کے ساتھ باقی رکھے، گو معصیت میں اس کی طاعت نہ کرے بشرطِ بقائے ایمان۔

اتفاقی استماعِ غنا کا اختیاری و غیر اختیاری درجہ:

عبد جتنے کا مکلّف ہے وہ چنداں دشوار نہیں، یعنی اس وقت بہ تکلف قلب کو دوسری طرف متوجہ کر دیا جائے۔ اس توجہ کے ساتھ جو التفات إلی الغنا ہو گا وہ غیر اختیاری ہو گا۔

شیخ کی نظر میں محمود و ممدوح ہونے کی کوشش:

یہ بھی ملحق بالإصلاح ہے کہ وہ خوش ہو کر اصلاح کی طرف توجہ زیادہ کرے گا۔

علامتِ رسوخ:

صدور میں کشا کشی بھی نہ ہو تو یہ علامت ہے رسوخ کی۔

نسبت و مقام کی تعریف:

ایک غلبۂ ذکر کہ غفلت میں وقت کم گذرے، دوسری دوامِ طاعت کہ نافرمانی بالکل نہ ہو۔ اصل مامور بالتحصیل یہی چیزیں ہیں اور اسی کے لیے سب مجاہدات اور معالجات اختیار کیے جاتے ہیں جن پر حسبِ سنتِ اللہ وہ مقصود مترتب ہو جاتا ہے۔ اولاً قدرے تکلف ہوتا ہے، بعد چندے (جس کی مدت معین نہیں، استعداد پر ہے) مثل امر طبعی کے ہو جاتا ہے۔ گو احیاناً ضد کا تقاضا بھی ہوتا ہے مگر ادنیٰ توجہ سے وہ ضد مغلوب ہو جاتی ہے، اس رسوخ و ثبات کو مقام کہتے ہیں۔ پس یہ فی نفسہٖ غیر اختیاری ہے لیکن باعتبار اسباب کے اختیاری ہے۔ اور یہی رسوخ و ثبات اس حیثیت سے کہ غلبۂ ذکر و دوامِ طاعت کا ملزوم ہے، نسبت کہلاتا ہے (یعنی حضرتِ حق سے ایسا تعلق قوی جس پر غلبۂ ذکر اور دوامِ طاعت کا ترتب لازم ہو) اور اس نسبت من العبد پر ایک دوسری نسبت من الحق موعود ہے، یعنی رضا و قرب۔ پس اہل طریق جب لفظ نسبت کا اطلاق کرتے ہیں، مراد ان ہی دو نسبتوں کا مجموعہ ہوتا ہے، نہ صرف ملکۂ یاد داشت جس میں بہت سے غیر محقق دھوکہ میں ہیں۔

مراقبہ برائے دفعِ وساوس:

اپنی تمام طاعات صلوٰۃ و تلاوت و اذکار بلکہ افعالِ مباحہ میں بھی اس کا تصور رکھے کہ یہ سب عنقریب حق تعالیٰ کے اجلاس میں پیش ہوں گے تو ان میں کوئی ایسا اختیاری خلل نہ ہو جس سے پیشی کے قابل نہ ہوں۔

مجاہدۂ اضطراریہ کا نفع و ادب:

جس طرح وضو کا بدل تیمُّم ہے اور اجر میں اس سے کم نہیں، اسی طرح مجاہدۂ اختیاریہ یعنی اعمال و اوراد کا بدل مجاہدۂ اضطراریہ یعنی تشویشات و بلیات ہیں اور اجر میں ان کے برابر، بلکہ منافع میں ان سے اقویٰ ہیں۔ ان کو نعمت سمجھ کر اطمینان سے کام میں بقدر وسع مشغول رہنا چاہیے۔ البتہ دعا کرتے رہیں کہ وہ مبدل بہ راحت و جمعیت ہوں کہ دعا مسنون ہے۔ غرضیکہ جب تک وہ تشویشات و بلیات باقی رہیں تفویض تو فرض ہے اور دعا مسنون ہے، اور جب وہ زائل ہو جائیں شکر واجب ہے۔ اور دونوں حالتوں میں بقدر وسع مشغول رہنا ادبِ طریق ہے۔

عدمِ زوالِ پریشانی و مصیبت کا علاج:

تنگی اور مصائب کے دور ہونے کا ارادہ ہی چھوڑ دیا جائے بلکہ موجودہ پریشانی ہی کے لیے اپنے کو آمادہ کر لیا جائے۔ پس دو چیزوں کا التزام کر لیا جائے، دعا زوالِ مصیبت کی اور استغفار، اور ثمرات کو آخرت میں سمجھا جائے۔ بس یہ علاج ام العلاج ہے جس میں علاج ہی مقصود ہے، صحت مقصود نہیں۔

نمازوں میں حرکتِ فکریہ کے قطع کرنے کی تدبیر:

جماعت کی حالت میں اور بالخصوص سرّی نمازوں میں سورۂ فاتحہ کے خیالی الفاظ کا استحضار کیا جائے جس کو کلام نفسی کہا جاتا ہے۔

واحد اور جمع دونوں صیغوں سے دعائیں منقول ہونی کی مصلحت:

واحد کے صیغہ میں الحاح کی مصلحت زیادہ ہے اور جمع کے صیغے میں دوسروں کے شریک کر لینے سے اقربیت إلی الإجابہ کی مصلحت زیادہ ہے، جس وقت جس کیفیت کا غلبہ زیادہ ہو اس کا اتباع کیا جائے۔ اور میرا ذوق یہ ہے کہ اول ہر دعا میں منقول کا اتباع کیا جائے کہ اقرب إلی الأدب ہے، پھر اس دعا کے تکرار میں ذوقِ وقتی کا اتباع کرے کہ دونوں مجتمع ہو جائیں۔

طبعی تسلی و قرار کی کوئی صورت نہ ہونے کا علاج:

مطلوب و مامور بہ عقلی و اعتقادی قرار ہے اور یہی تفویض ہے جس کو عبادت سمجھ کر اختیار کیا جاتا ہے، نہ کہ ذریعۂ راحت سمجھ کر۔ بلکہ عارفین کاملین نے جب تفویض میں لذت طبعیہ محسوس کی تو نہایت ابتہال کے ساتھ اس لذت سے پناہ مانگی۔ ایک یہ کہ شوبِ لذت سے شبہ ہوتا ہے اخلاص کی کمی کا، کہ حظِ نفس کے واسطے تفویض کو اختیار کیا، حق تعالیٰ کا حق سمجھ کر اختیار نہیں کیا۔ دوسرے جہاں دینی و دنیوی کامیابی و ناکامی کے متعلق حدیثوں میں تصریح ہے کہ اول میں اجرِ ناتمام اور ثانی میں اجرِ تام عطا ہوتا ہے، اسی طرح تفویض میں راحت طبعیہ ہونے سے اجرِ غیر کامل اور راحت نہ ہونے سے اجرِ کامل ملتا ہے اور اجرِ آخرت ہی مقصود ہے۔ پس ان دو رازوں کی وجہ سے عارفین نے لذت سے پناہ مانگی ہے۔ لیکن ہم ضعفاء کے لیے اتنی ترمیم ہے کہ ہم کو پناہ مانگنا بھی مناسب نہیں۔ بلکہ تفویض کے ساتھ اس میں لذت و راحت کی بھی دعا مانگے اور جب تک عطا نہ ہو اس عطا نہ ہونے کی حقیقت پر صبر اور اس عطا نہ ہونے کے ثمرہ پر کہ کمالِ اجر و تشبیہ بالقبولین ہے، شکر کیا جائے۔ اور اسی کو وظیفۂ دائمہ بنائے۔

بناءِ قبولِ ہدیہ:

حضرت والا بدونِ تعارف ہدیہ قبول نہیں فرماتے، لیکن تیقُّنِ اخلاص کے وقت عدمِ تعارف مانع نہیں ہوتا۔ اور اس تیقن کا ادراک وجدانِ غیر مشوب بالغرض سے ہوتا ہے۔ البتہ عدمِ تیقن یعنی تردُّد کے وقت عدمِ تعارف مانعِ قبول ہوتا ہے۔

سیاست کے باب میں علم و عمل کی تحقیق:

اس کے بارے میں فرمایا کہ جو چیز فرضِ عین نہ ہو اس کے درپے ہونا ہی کیا ضروری ہے؟

ناکامیوں پر عدمِ سکون کا علاج:

تدبیر تو ازالۂ مذموم کے لیے ہوتی ہے، نہ کہ ازالۂ محمود کے لیے۔ اگر نصوص میں اور اقوالِ اہلِ خصوص میں غور کیا جائے تو معلوم ہو جائے کہ دنیا کی ناکامیابی خود شعار ہے مقبولین کا اور تواتر کامیابی خصوصاً معاصی کے ساتھ شعار ہے مخذولین کا۔ سورۂ بقرہ کی آیت: ﴿أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ۔۔۔۔﴾ (البقرۃ: 214) اور سورۂ احزاب کی آیت ﴿إِذْ جَآءُوْکُمْ مِّنْ فَوْقِکُمْ وَ مِنْ أَسْفَلَ مِنْکُمْ...﴾ (الاحزاب: 10)۔ کامیابیٔ دنیوی سے مقبولیت پر استدلال کا کفار کا طریقہ ہونا سورۂ فجر میں منصوص ہے ﴿فَأَمَّا الْإِنْسَانُ إِذَا مَا ابْتَلَاہُ رَبُّہٗ۔۔۔﴾ (الفجر: 15) مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے:

؎ زا ں بلا ہا کانبیاء برداشتند

سربہ چرخِ ہفتمیں افراشتند

گر مرادت را مذاق شکر است

بے مرادی نے مراد دلبر است

باقی دعا ہر حال میں کرنا سنت اور وظیفۂ عبدیت ہے۔ دعا کی برکت سے فہم و رضا و تحمُّل نصیب ہو جاتے ہیں۔

ردّ و قبول منجانب اللہ ہے:

اس میں اسباب و اکتساب کا دخل نہیں۔

کوئی عمل پاس نہ ہونے کا خیال:

یہ اعتقاد کہ میرے پاس کوئی عمل نہیں، کیا تھوڑا عمل ہے؟

عقلی تفویض و ذہنی تجویز کا جمع ہونا:

عقلی تفویض ذہنی تجویز سازیوں اور ان کے لیے عملی دوا دوش کے ساتھ بھی جمع ہو سکتی ہے لیکن دو شرط سے: ایک وہ تجویزیں مشروع ہوں، دوسرے اگر وہ تجویزیں ناکام ہوں تو اعتقاداً اس ناکامی کو خیر سمجھے، گو اس کے ساتھ غیر اختیاری ضیق بھی ہو تو وہ اس کے منافی نہیں۔ حضور کے لیے اس غیر اختیاری ضیق کو ثابت فرمایا ہے: ﴿وَ لَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيْقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُوْلُوْنَ﴾ (الحجر: 97)۔ اور اختیاری ضیق سے نہی فرمائی ہے: ﴿وَ لَا تَكُ فِيْ ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُوْنَ﴾ (النحل: 127) اور اس سے حضور اقدس سے اختیاری ضیق کے وقوع کا توہُّم نہ کیا جائے کیونکہ نہی کا تعلق ماضی سے نہیں ہوتا، مستقبل سے ہوتا ہے۔

قدرتِ حقیقی پر نظر ہر عمل میں ہمت دلانے کے لیے کافی ہے:

چونکہ قدرت حقیقی کی نسبت تمام مقدورات کے ساتھ یکساں ہے اس لیے ان کی توفیق سے استعانت کر کے ہر عمل مطلوب کی ہمت کرنا چاہیے۔ اور تیسیر کا ان ہی سے سوال کرنا چاہیے۔ اگر نباہ نہ ہوگا، ندامت اور استغفار کر لیں گے۔

ایک درجہ إجمال فی الطلب کا ہے:

یعنی ایسے اعتدال کے ساتھ کہ جس میں نہ ذلت ہو نہ تعب، مصالحِ حالیہ یا استقالیہ پر نظر کر کے سعی کی جائے، یہ نہ مذموم ہے نہ سلف کے خلاف۔ اور ایک درجہ مبالغہ کا ہے جس میں محذوراتِ مذکورہ ہوں یا دوسرے محذورات، جیسے ایسا انہماک جس سے ضروریاتِ دنیویہ یا دینیہ مختل ہونے لگیں، غفلت کا غلبہ ہو جائے۔ یہ اگر معصیت بھی نہ ہو مگر مُفضِی إلی المعصیت یا سنت سے بعید ضرور ہے۔

انتظار مسبِّبُ الأسباب سے مستقل مطلوب ہے:

لیکن جب غرض تدبیر کی محمود ہو اس کے لیے جاننے والوں سے مشورہ کرنا، خود بھی کچھ کام کرنا، کام لینا قیودِ مذکورہ کے ساتھ (کہ نہ تعب ہو، نہ ذلت، نہ انہماک) غلو نہیں ہے۔ چنانچہ تجارت کی ترغیب سنت میں وارد ہے جس کا حاصل نموِّ مال کی تدبیر ہے۔

دعا کی حقیقت:

ہم کو قدر کا علم نہیں اس لیے اپنے زعم میں جو مصلحت ہو اس کے مانگنے کی اجازت ہے۔ اگر قدر اس کے خلاف ہو گی اس پر راضی رہنے کا حکم ہے۔ رہا اصرار، اس کا تو حکم ہے: "إِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُلِحِّیْنَ فِي الدُّعَاءِ" (کتاب الدعاء للطبرانی، باب: ما جاء فی فضل لزوم الدعاء و الإلحاح فیہ، رقم الحدیث: 20) اور اس کا راز یہ ہے کہ اس سے اپنا ضعف و عجز و احتیاج و انکسار ظاہر ہوتا ہے جو عبدیت کا مقتضیٰ ہے اور اسی لیے مطلوب ہے۔

قبض و ہیبت کا علاج:

سلوک میں قبض و ہیبت کی حالت بے حد نافع ہے اور کوئی سالک اس سے خالی نہیں ہوتا الا نادرًا۔ کوئی ابتدا میں کوئی انتہا میں اور خود بخود متبدل ہو جاتا ہے۔ بجز دعا و تفویض کے اس کی کوئی تدبیر نہیں۔

ایسا کام جس سے لوگ بڑا سمجھنے لگیں:

بدوں مصلح کی اجازت کے شروع نہ کرنا چاہیے۔

تعدیلِ خشیت:

خشیتِ حق مبارک حالت ہے البتہ اس کی تعدیل کے لیے مراقبۂ رحمت و تقویتِ رجا ضروری ہے۔ اس کے بعد بھی اگر پریشانی رہے تو وہ ظنی و طبعی مرض ہے جس کے لیے طبیب سے رجوع کیا جائے۔

وحشت عن الخلق مطلوب کی شرائط:

بدوں کسی عارضِ طبعی کے وحشت کا منشا انس مع الحق ہے۔ اور وہ محمود ہے اس شرط کے ساتھ کہ کسی کا حقِ ضروری ضائع نہ کیا جائے، خواہ حقِ ظاہری ہو جس کو سب جانتے ہیں، یا حقِ باطنی مثلاً کسی کو حقیر نہ سمجھا جائے۔ باقی غیر اختیاری گرانی پر ملامت نہیں۔ حتی الامکان اس کا لحاظ رہے کہ دوسرے کو محسوس نہ ہو جس سے دل شکنی کا احتمال ہو۔ وہمِ غیر ناشی عن دلیل میں مشغول نہ ہونا چاہیے۔ اگر اس قسم کا وہم ہو تو اپنے لیے اور جس کی اذیت کا شبہ ہو اس كے لیے طلبِ مغفرت کی دعا کافی ہے۔

"سَدِّدُوْا وَ قَارِبُوْا"، "وَ لَنْ تُحْصُوْا" کی توضیح:

معمولات کا ہوتا رہنا اور کبھی ناغہ ہو جانا کسی ضرورت سے پھر تلافی کی کوشش کرنا "سَدِّدُوْا وَ قَارِبُوْا" (سنن الترمذی، أبواب القدر، باب: ما جاء أن اللہ کتب کتابا لأھل الجنۃ و أھل النار، رقم الحدیث: 2141) ہے اور گاہ گاہ کمی ہو جانا "لَنْ تُحْصُوْا" (سنن ابن ماجه، کتاب الطھارۃ و سننھا، باب المحافظۃ علی الوضوء، رقم الحدیث: 277) ہے۔

کلفتِ وساوس کا ایک علاج:

جب گناہ نہیں محض کلفت ہے تو یہ احکام میں مثل امراضِ طبعیہ کے ہوا، جس میں اجر ملتا ہے تو نافع ہی ہوا۔

حدیثِ نفس میں کاوش کا علاج:

معتدل فکر سے جو چیز اختیاری معلوم ہو مقاومت کرے۔ جب عاجز یا کالعاجز ہو جائے تو دونوں احتمالوں کا (اختیاری ہے یا غیر اختیاری) حق ادا کرے۔ غیر اختیاری ہونے کے احتمال پر تو صبر کرے کہ مجاہدہ ہے، اور اختیاری ہونے کے احتمال پر استغفار اور دعائے قوت و ہمت کرے۔ اور اس کی نظیر فقہیات میں ماءِ مشکوک سے وضو کے ساتھ تیمّم کا جمع کرنا ہے۔ کاوش میں غلوّ منہی عنہ بھی ہے کَمَا قَالَ عَلَیْہِ السَّلَامُ: "مَنْ شَاقَّ شَاقَّ اللہُ عَلَیْہِ" (سنن أبی داؤد، کتاب الأقضیۃ، باب: من القضاء، رقم الحدیث: 3635) حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی فرماتے ہیں:

؎ گفت آساں گیر بر خود کارہا کز روئے طبع

سخت می گیرد جہاں بر مردمانِ سخت گوش

تغیراتِ غیر اختیاریہ کا علاج:

ایسے تغیرات اکثر اسباب سے اور احیاناً بلا اسباب بھی لوازمِ عادیہ طریق سے ہیں مگر اس کی پرواہ نہ کی جائے۔ ملتزماتِ اختیاریہ (اوراد وغیرہ) کو جاری رکھا جائے، بتدریج سب حالات حسبِ دل خواہ ہو جاتے ہیں۔ جس کی مدت کی تعیین اختلافِ استعداد کے سبب نہیں ہو سکتی۔

حقیقتِ تصوف:

حقیقت تصوف کی صرف علم با عمل ہے اور عمل وہی جو رسول اللہ نے تعلیم فرمایا ہے اور جو سالک کے اختیار میں ہے۔ اس کے علاوہ سب چیزیں زائد ہیں، اگر وہ عطا ہو جائیں اور شیخ ان کو محمود بتلا دے نعمت ہے اور قابل شکر، اور اگر عطا نہ ہوں اور عطا ہو کر زائل ہو جائیں تو ان کی تحصیل کی فکر یا ان کے زوال پر قلق طریق میں ناجائز اور باطن کے لیے سخت مضر، خواہ وہ کچھ ہی ہو۔

حدودِ فرضِ منصبیٔ شیخ:

شیخ کو اطلاع تو سب حالات کی ضروری ہے۔ اپنی رائے سے کسی خواب یا وارد کی بنا پر کوئی کام کرنا طریق میں جائز نہیں۔ شیخ صرف اس کی تدبیر کرتا ہے جس کا تعلق امر و نہی سے ہے، بقیہ کی تدبیر اس کے ذمہ نہیں۔ اسی طرح اگر کوئی مرض یا کوئی اثر واقعی یا خیالی تکلیف دہ یا کوئی آفت داخلی یا خارجی عارض یا لازم ہو جائے، وہ بھی شیخ کے فرضِ منصبی کے حدود سے خارج ہے۔

سالک کے لیے غذا و دوا کا اہتمام:

اصلاحِ نفس سے اصلاحِ بدن کو کافی دخل ہے، اس لیے بقدرِ وسعت و ضرورت غذا و دوا کا اہتمام بھی عبادت اور سنت ہے۔ "إِنَّ لِنَفْسِکَ عَلَیْکَ حَقًّا" (سنن أبی داؤد، أبواب قیام اللیل، باب: ما یؤمر بی من القصد فی الصلٰوۃ، رقم الحدیث: 1369) "إِنَّ لِجَسَدِکَ عَلَیْکَ حَقًّا" (الصحیح للبخاری، کتاب الصوم، باب حق الجسم فی الصوم، رقم الحدیث: 1975) حدیث ہے۔

سالک کے لیے ادائیگیٔ حقوق کا اہتمام:

اہلِ حقوق کے حقوقِ شرعیہ مقدورہ میں غفلت یا کوتاہی کرنا معصیت ہے، جو مقصود کے لیے رہزن ہے۔ "إِنَّ لِزَوْجِکَ عَلَیْکَ حَقًّا" (الصحیح للبخاری، کتاب الصوم، باب: حق الضیف فی الصوم، رقم الحدیث: 1974)

تعلقِ اہلِ حقوق کی حقیقت:

(اولاد وغیرہ سے) تعلق رکھنا مقصود بالذات نہیں جس کا نقصان یا فقدان موجب تشویش ہو۔ تعلق ادائے حقوق کے لیے مقصود ہے، اسی میں (یعنی ادائے حقوق میں) کمی نہ ہونا چاہیے۔ اور قساوت کا حاصل جرأت علی المعاصی ہے۔ تعلق اور تأثر کی کمی قساوت نہیں بلکہ ایک درجہ میں مطلوب بھی ہے۔

اولادِ نابالغ کے حقوق کی کمی کی تلافی:

دعائے عطائے درجات سے ہو سکتی ہے۔

فلم کمپنی کا آلۂ لہو و لعب ہونا ظاہر ہے:

اور آلاتِ لہو کو مقاصدِ دینیہ میں برتنا سخت اہانت و استخفاف ہے دین کا۔ (مسئلہ فقہ)

ناز کرنا اپنے کسی کمال پر بڑی ہی بری بلا ہے:

ہماری تو کیا حقیقت ہے خود حضور کو خطاب ہے: ﴿لَئِنْ شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِيْ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ...﴾ (الإسراء: 86) جس سے علم پر ناز کرنے کی جڑ اکھڑتی ہے اور ارشاد ہے: ﴿وَ لَوْلَا أَنْ ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدتَّ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيْلًا﴾ (الإسراء: 74) اس سے عمل پر ناز کرنے کی جڑ اکھڑتی ہے۔

علامتِ محرومیت نیاز پیدا کرنا:

نیاز پیدا کرنے کی کوشش کرو۔ پہلا قدم اس طریق میں فنا ہونا اور اپنے کو مٹا دینا ہے۔ اگر یہ بات پیدا نہ ہوئی تو وہ شخص محروم ہے۔

مشورہ کی مصلحت:

اگر کسی کا شیخ زندہ نہ ہو وہ بھی مشکلات میں اپنی رائے سے فیصلہ نہ کرے، بلکہ اس کو اپنے چھوٹوں سے مشورہ کرنا چاہیے۔ غرض چھوٹے بڑوں کا اتباع کریں اور بڑے چھوٹوں سے مشورہ لیں، اس امت کے چھوٹے بڑے سب کام کے ہیں۔ اس رائے کا ماخذ حق تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿وَ شَاوِرْهُمْ فِيْ الْأَمْرِ…﴾ (آل عمران: 159) حضور کو صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ کرنے کا حکم ہے، لیکن یہ حکم نہیں کہ ان کے مشورہ پر عمل کریں۔ بلکہ عمل کے متعلق ارشاد ہے: ﴿فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَی اللهِ...﴾ (آل عمران: 159) کہ مشورہ کے بعد آپ کا جو ارادہ ہو جائے اللہ پر توکل کر کے اس پر عمل کر لیجئے، اہلِ شوریٰ کی رائے کا اتباع ضروری نہیں۔ مشورہ کا حکم محض اس لیے ہے کہ اس کی برکت سے حق واضح ہو جاتا ہے، خواہ مشورہ دینے والوں کی رایوں میں سے کسی ایک کا حق ہونا واضح ہو جائے، یا سب رایوں کے سننے سے کوئی اور صورت ذہن میں آ جائے جو حق ہو۔

شیخ کی ناراضی و تکدُّر:

شیخ کی ناراضی و تکدُّر سے گو آخرت میں مؤاخذہ نہ ہو کیونکہ وہ نبی نہیں ہے جس کی ناراضی سے گناہ ہو، مگر تجربہ یہ ہے کہ ایسے شخص کو دنیا میں کبھی چین نصیب نہیں ہوتا۔ چنانچہ حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ حسین بن منصور حلاج سے ناراض تھے (کیونکہ وہ اسرار کو ظاہر کر دیتے تھے، ضبط نہیں کرتے تھے، وہ اپنے کو ضبط سے عاجز سمجھتے تھے مگر حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ جانتے تھے کہ یہ ضبط سے عاجز نہیں ہیں، اگر ہمت کریں تو ضبط کر سکتے ہیں) ان کو بھی چین نصیب نہ ہوا، عمر بھر پریشان رہے یہاں تک کہ ''أَنَا الْحَقُّ'' کہنے پر فتویٰ کفر کا لگایا گیا، کیونکہ ابن منصور سے علماء نے گفتگو کی تھی، اس سے ان کا مجنون و مختل الحواس ہونا ظاہر نہ ہوتا تھا پھر فتویٰ قتل کا دے دیا۔

الہام کی مخالفت سے دنیوی ضرر ہوتا ہے:

الہام کی مخالفت سے آخرت میں مؤاخذہ نہ ہو گا مگر تجربہ یہ ہے کہ دنیا میں نقصان ضرور پہنچتا ہے۔ چنانچہ ایک مقامی بزرگ کسی نو وارد مسافر بزرگ سے ملنے کو اٹھے، الہام ہوا نہ جاؤ۔ یہ بیٹھ گئے۔ پھر خیال ہوا یہ الہام نہیں خیال ہو گا، آخر ان سے ملنے میں کیا حرج ہے۔ چنانچہ پھر اٹھے، پھر الہام ہوا نہ جاؤ، یہ بیٹھ گئے، تیسری مرتبہ اٹھے، پھر وہی الہام ہوا، مگر یہ نہ رکے اور چل کھڑے ہوئے، دو چار قدم چلے ہونگے کہ گر پڑے اور ٹانگ ٹوٹ گئی۔

"اَلْغِنَاءُ رُقِیَّۃُ الزِّنَا":

یعنی غناء زنا کا منتر ہے۔

سماعِ جائز بھی فقہاء کے نزدیک بدعت ہے:

حضرت سلطان جی رحمۃ اللہ علیہ کا سماع ناجائز نہ تھا کیونکہ وہ آداب و حدود کی رعایت کے ساتھ تھا، مگر فقہاء اس کو بھی بدعت کہتے ہیں کیونکہ رسول اللہ سے ثابت نہیں اور عوام کو اجازت دینے میں مفسدہ ہے۔

بدعتی کی کرامت:

بدعتی سے ظاہر میں کرامت بھی صادر ہو تو وہ کرامت نہیں شعبدہ ہے۔

بزرگوں کی پیروی دین و دنیا کی راحت ہے:

بزرگوں کا نمونہ بننے ہی میں دین کی حفاظت ہے اور دنیا کی عزت ہے۔ جب بزرگ سے محبت ہوتی ہے تو ان کی ہر ادا سے محبت ہوتی ہے۔ اول اول یہ شخص بہ تکلف ان کی اداؤں کو اختیار کرتا ہے پھر اللہ تعالیٰ ان کو سچ مچ مشابہ کر دیتے ہیں، حتیٰ کہ بعض اوقات صورت و شکل اور چہرہ مہرہ بھی ان ہی کی طرح ہو جاتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ اپنے بزرگوں کے نمونہ پر چلنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ جہاں رہو ان ہی کے طرز پر رہو، اس سے ایک قدم نہ ہٹو، اسی میں دین کی حفاظت ہے اور دنیا کی بھی عزت ہے۔ تمہاری گفتار، رفتار، نشست و برخاست، چال ڈھال سب اپنے بزرگوں کے نمونہ پر ہو، اس کا پورا اہتمام کرو۔

امام عادتاً اگر کوئی لفظ غلط پڑھتا ہے تو مقتدیوں کی نماز ہو جائے گی:

امام فضلی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ جس شخص کو غلط لفظ پڑھتے پڑھتے اس کی عادت ہو گئی تو وہ اس کا لغت ہو جائے گا، لہٰذا ایسے شخص کے پیچھے صحیح قرآن پڑھنے والے کی نماز صحیح ہو جائے گی۔ چنانچہ حضرت مولانا قاسم صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور ہمارے حضرت مولانا کا بھی اسی پر عمل ہے، چنانچہ ایک مرتبہ مکہ معظّمہ میں ایک ترکی امام کے پیچھے حضرت مولانا قاسم صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اور کئی علماء نے نماز پڑھی، ترکی ’’ک‘‘ کی جگہ ’’چ‘‘ پڑھتے ہیں، امام نے بھی ﴿إِیَّاکَ نَعْبُدُ﴾ کی جگہ ''إِیَّاچَ نَعْبُدُ'' پڑھا، سب لوگوں نے نماز لوٹائی مگر مولانا قاسم صاحب نے نہیں لوٹائی اور یہی ارشاد فرمایا۔

شانِ کمالِ بزرگ:

بزرگ کی شانِ کمال یہ ہے کہ کسی کو حقیر نہ سمجھے۔

مربّی کی تعریف:

حضرت محیی الدین عربی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ مربّی وہ ہے جس میں یہ تین صفتیں موجود ہوں: (1) دین انبیاء کا سا ہو، (2) تدبیر اطبّاء کی سی ہو، (3) سیاست بادشاہوں کی سی۔ اول سے مراد ہے کہ انبیاء کا دین جس طرح دنیوی اغراض سے پاک ہوتا ہے۔ اور یہ مراد نہیں کہ انبیاء کا سا کامل ہو۔

اعمال کا ترک کسی وقت مناسب نہیں:

حال: حضرت! بندہ کو مشکوٰة شریف کے آخری حصہ کے مطالعہ کی توفیق ہوئی، مگر کتاب الآداب اور کتاب الرقاق کی احادیث سے دل بالکل گھبرا گیا، اور معلوم ہوتا ہے کہ بندہ کے اندر سارے عیوب موجود ہیں، اور بندہ مجمع الأمراض ہے۔ اور ''بَابُ الرِّیَاءِ وَ السُّمْعَۃِ'' کی احادیث سے پورا یقین ہو گیا کہ گذشتہ عبادت سب بیکار ہے۔

تحقیق: دعا کرتا ہوں۔ اور اس گھبراہٹ سے اجر ملتا ہے۔ بس تسلی کے لیے یہی اعتقاد کافی ہے اور ساتھ ساتھ اصلاح کا اہتمام اور اس کے لیے دعا بھی۔ اور اعمال کو کسی وقت نہ چھوڑا جائے۔

تدبیر و دعا ہر حال میں محمود ہے:

اللہ تعالیٰ کو چونکہ اجر دینا ہے، اس لیے اس کا طریق اپنی حکمت سے وہی متعین فرماتے ہیں۔ پھر جب تبدیل طریق میں حکمت ہوتی ہے اس کو بدل دیتے ہیں۔ اس لیے تدبیر و دعا ہر حال میں محمود و مطلوب ہے۔

تحقیق: کسی کی انگلیاں بے کار ہو گئی تھیں، مٹھی بند نہ ہوتی تھی اور ڈاکٹروں کا مشورہ تھا کہ پھر سے بٹھایا جائے۔ اس پر حضرت والا نے تحریر فرمایا: "علم الہٰی میں جو خیر ہو اس پر قلب منشرح فرمائیں، چلتے پھرتے کبھی یاد آ جائے، ایک جلسہ میں تین بار "اَللّٰھُمَّ خِرْ لَنَا وَ اخْتَرْ لَنَا" کہہ لیا کیجئے۔

حال: دیگر احباب سے درخواستِ دعا کے لیے حضرت نے جو ہدایت فرمائی، الحمد للہ اسی پر اس درجہ تک عامل ہوں کہ اپنے نوکر سے بھی یہی درخواست کرتا ہوں۔

خشوع و عجز ہی اس طریق میں معتبر ہے:

اسلا م نے یہی عبدیت سکھلائی ہے اور بڑی دولت ہے۔ ''وَ لِلہِ دُرُّ الْعَارِفِ الرُّوْمِيِّ فِيْ قَوْلِہٖ'':

؎ جز خشوع و بندگی و اضطرار

اندریں حضرت نہ دارد اعتبار

حال: حضرت! بیمار آزار دنیا میں کون نہیں ہوتا، اپنے جاننے والوں میں بہتوں کا حال اپنے سے بد تر پاتا ہوں۔

تحقیق: یہ اعتقاد اور اس کا استحضار ایک مراقبہ ہے جو ایک نعمت ہے۔

حال: پھر ایسے کتنے ہوتے ہیں جن کو معمولی تدبیر و علاج تک کی مقدرت نہیں ہوتی۔

تحقیق: یہ دوسرا مراقبہ ہے جو دوسری نعمت ہے۔

حال: ساتھ ہی یہ بھی ایمان ہے کہ مؤمن کے کانٹا چبھنا بھی ضائع نہیں جاتا۔

تحقیق: نقصِ طبعی و اضطراری مضر نہیں۔ یہ ایک تیسرا مراقبہ اُن دونوں سے اعظم ہے۔ ان مراقبات کے ہوتے ہوئے اگر تحمل میں جس کا ذکر فرمایا گیا ہے کچھ نقصان بلکہ فقدان بھی ہو، مضر نہیں۔ یہ مجموعہ اس نقص کا کافی تدارک ہے، خصوصاً جب کہ یہ مراقبات اعمالِ اختیاریہ ہوں اور وہ نقص طبعی و اضطراری۔

حال: مگر خدا جانے حضرت! میری کمزوری و بزدلی کس حد تک پہنچ گئی ہے کہ جسمانی تکلیف کا تحمل روز بروز گھٹتا جاتا ہے۔ کاش ایمان ہی اتنا قوی ہوتا کہ صبر و رضا ہی کا اجر حاصل کر سکتا۔

تحقیق: عدمِ تحمل قوتِ ایمان کے منافی نہیں، کیا خدا نا کردہ یہ ضعفِ تحمل ایمان کے قوی نہ ہونے کی علامت ہے؟ اس وقت ایک حدیث ترمذی کی بے ساختہ ذہن میں آ گئی جس کو جمع الفوائد باب فضل الشہادة والشہداء سے نقل کرتا ہوں۔ حضور اقدس نے شہداء کی ایک تقسیم فرمائی ہے، اس قسم ثانی کے باب میں ارشاد ہے: "قَالَ: وَ رَجُلٌ مُؤْمِنٌ جَيِّدُ الْإِيْمَانِ لَقِيَ الْعَدُوَّ فَكَأَنَّمَا ضُرِبَ جِلْدُهٗ بِشَوْكِ طَلْحٍ مِّنَ الْجُبْنِ أَتَاهٗ سَهْمٌ غَرْبٌ فَقَتَلَهٗ" (سنن الترمذي، أبواب فضائل الجھاد، باب: ما جاء فی فضل الشھداء عند اللہ، رقم الحدیث: 1644) اس میں خود ایمان اور جبن کو مجتمع فرمایا ہے، جس میں صاف دلالت ہے کہ عدمِ تحمل اور قوتِ ایمان جمع ہو سکتا ہے۔ البتہ اس قسم کے شہید کو درجہ ثانیہ میں اس لیے فرمایا گیا ہے کہ اس سے فعل اختیاری یعنی قتال کا بوجہ جبن صدور نہیں ہوا۔ اور جہاں فعل اختیاری کا صدور بھی ہو وہاں درجہ بھی کم نہ ہو گا۔ سو یہ آپ کے اختیار میں ہے، اور ''اَلْحَمْدُ لِلہِ'' اس اختیار سے کام بھی لیا جا رہا ہے کہ معترضانہ شکایات کا ارتکاب نہیں کیا جاتا، اور خود عاجزانہ شکایات بھی خلاف قوت ایمان نہیں۔ کَمَا قَالَ یَعْقُوْبُ عَلَیْہِ السَّلَامُ: ﴿إِنَّمَآ أَشْكُوْ بَثِّيْ وَ حُزْنِيْ إِلَى اللهِ وَ أَعْلَمُ مِنَ اللهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (يوسف: 86) ''بَعْدَ قَوْلِہٖ'': ﴿یَا أَسَفٰی علٰی یُوْسُفَ﴾ (یوسف: 84) اور وسوسہ تو کوئی معتد بہ وجود ہی نہیں رکھتا۔ فَزَالَ بِحَمْدِ اللہِ کُلُّ إِشْکَالٍ۔

اجرت طے کر کے تراویح پڑھانا:

حال: اس مرتبہ تراویح ایک ایسے حافظ کے پیچھے پڑھنا پڑ رہی ہے جنھوں نے عمداً اپنی اجرت پہلے ہی طے کر لی ہے، کراہت معلوم ہوتی ہے، کیا کروں؟

تحقیق: امام کا اجرت لے کر تراویح پڑھنا مقتدیوں کے لیے مضر نہیں۔ یہ کراہتِ اجارة علی الطاعۃ امام سے نا پسند کرنے والے مقتدیوں کی طرف متعدی نہیں ہوتی کہ وہ نہ اس کے سبب ہیں نہ مباشر، اور تیسری کوئی علت نسبت کی نہیں۔

قلقِ طبعی و معمولات کی کمی:

حال: ایک عرصہ سے بعض اشعار اور بعض مضامین و رسائل لکھنے کی وجہ سے معمولات کا نظام بگڑ رہا ہے۔ بہت ہمت باندھ کر پوری مقدار اور پابندی کرنا چاہتا ہوں مگر سستی یا تساہل کا غلبہ ہو کر خلل ہو جاتا ہے۔ اسی کشمکش میں ایک عرصہ سے عریضہ پیش نہیں کیا کہ نسخہ ہی استعمال نہ ہو تو حال کیا کہا جا سکے۔ نماز، تلاوت، ذکر، دعا، استغفار کسی کا بھی شوق پہلا سا نہیں رہا، اسی وجہ سے معمولات میں کمی پڑی ہے۔

تحقیق: قلقِ طبعی معینِ تجدیدِ عمل ہے۔ ایسے تغیرات و اسبابِ تغیرات سب کو پیش آتے ہیں۔ اکابر بھی اس سے خالی نہیں، جس کا تدارک اعادۂ توجہ و عمل ہے، اسی طرح قوت ضبط بڑھ جاتی ہے اور تمکین نصیب ہو جاتی ہے، اس لیے بد دل نہ ہونا چاہیے۔ قلق طبعی مضر نہیں بلکہ معین ہے تجدید عمل کا، لیکن اختیاری قلق اور اس میں انہماک کے ساتھ اشتغال یہ مضر ہے۔ اس سے اعراض کر کے مستقبل کا انتظام درست کر لیا جائے، اگرچہ تکلیف سے ہو، اگرچہ نشاط سے خالی ہو۔ چند روز میں پھر اکثر تو حالت دلخواہ ہو جاتی ہے اور نہ بھی ہو تب بھی مقصود حاصل ہے یعنی طاعات عاجلاً اور اجر آجلاً۔

کبر کا علاج:

حال: علاجِ امراض میں کبر کا علاج مراقبۂ عیوب و معاصی سے بحمد اللہ فائدہ مند ہے۔ اب اکثر اپنے کو اپنی حیثیت میں سمجھتا ہوں، کسی کی تحقیر و تذلیل بلکہ گالیوں سے بھی پہلا سا اثر بحمد اللہ نہیں ہوتا۔ غصہ بھی بہت کم آتا ہے۔ آتا بھی ہے تو بہت جلد زائل ہو جاتا ہے۔ ''فَالْحَمْدُ لِلہِ عَلٰی ذَالِکَ''۔

تحقیق: اللہ تعالیٰ ثبات و رسوخ عطا فرما دے۔

حفظِ عفت کے لیے ریل سے کود پڑنا خود کشی نہیں:

حال: ایک بی بی ڈاک گاڑی میں سفر کر رہی تھیں، شام کا وقت تھا، یہ زنانہ درجہ میں تنہا تھیں، گاڑی میں ایک لمبا تڑنگا مرد چڑھ آیا اور ان کو دھمکانا شروع کیا۔ خدا تعالیٰ نے ان کو بھی ہمت دی، انھوں نے بھی اس کو ڈانٹا۔ اور خطرہ کی زنجیر کھینچ لی۔ گاڑی ٹھہری اور وہ شخص کود کر بھاگ گیا اور تاریکی میں غائب ہو گیا۔ ان بی بی نے ارادہ کر لیا تھا کہ اگر گاڑی نہ ٹھہری تو میں گاڑی سے کود جاؤں گی تو سوال کیا گیا کہ اگر ایسا ہوتا تو کیا یہ خود کشی ہوتی؟

تحقیق: عفیف بیبیوں کو اس وقت حیا و عفت کا اکثر اتنا غلبہ ہوتا ہے کہ وقوعِ ہلاکت یا بتقدیرِ وقوعِ ذم ہلاکت کی طرف التفات بھی نہیں ہوتا۔ اس لیے ایسی حرکت بطریق اضطرار کے ہوتی ہے۔ نیز ہلاکت یقینی بھی نہیں ہوتی، بہت لوگ اس طرح کود کر بچ بھی گئے ہیں، البتہ چوٹ ضرور لگی ہے۔ سو ایسے غلبہ کے وقت حق تعالیٰ کی رحمت سے امید ہے کہ معذور ہوں گی، اس لیے اس کو خود کشی نہ کہا جائے گا۔ "وَ قَرِیْبًا فِیْ ھٰذَا أَجَابَ أُسْتَاذِيْ مَوْلَانَا مُحَمَّدُ یَعْقُوْبُ حِیْنَ سُئِلَ عَنِ النِّسْوَةِ اللَّاتِيْ أَلْقَیْنَ أَنْفُسَھُنَّ فِي الْبِئْرِ حِیْنَ خِفْنَ عَلٰی عِفَّتِھِنَّ فِي الزَّمَانِ الْمَعْرُوْفِ بِالْغَدَرِ لٰکِنْ إِذَا فَاتَ الشَّرْطُ فَاتَ الْمَشْرُوْطُ" یعنی شعور و اختیار کے رہتے ہوئے بقدرِ قدرت مدافعت و مقاومت کرے۔

''اَلْہَیْئَۃُ فِيْ حَدِّ الْبَیْعَۃِ'':

حال: جو لوگ کہ پیری مریدی کو فرضِ عین بتاتے ہیں اور آیت ﴿وَابْتَغُوْا إِلَیْہِ الْوَسِیْلَةَ...﴾ (المائدۃ: 35) پیش کرتے ہیں۔ آیا پیری مریدی کی اصل کیا ہے؟ فرضِ عین ہے کہ واجب ہے یا کہ سنت مؤکدہ ہے یا کہ مستحب ہے؟ اور جو لوگ آیتِ مذکورہ کو پیش کر کے فرضِ عین یا واجب بتاتے ہیں اس پر شرعاً کیا حکم ہے؟

تحقیق: بیعت کی حقیقت و صورت اور اس کا درجہ: بیعت کی ایک حقیقت ہے ایک صورت۔ حقیقت اس کی ایک عقد ہے درمیان مرشد و مسترشد کے۔ مرشد کی طرف تعلیم کا اور مسترشد کی طرف اتباع کا۔ پھر اگر مرشد اور مسترشد کے درمیان نبی اور امتی کا تعلق ہے تو نبی کی طرف سے تبلیغ اور امتی کی طرف سے ایمان، جس میں سب احکام کا التزام ہے۔ اس حقیقت کی تحقیق کے لیے کافی ہے اور یہی محمل ہے اس قول کا اگر ثابت ہو: "مَنْ لَا شَیْخَ لَہٗ فَشَیْخُہُ الشَّیْطٰنُ" (البھجۃ السنیۃ فی آداب الطریقۃ العلیہ النقشبندیۃ، صفحۃ: 47، داع الکتب العلمیۃ بیروت)، مگر کوئی مسلمان اس کا مصداق نہیں، اور یہ بیعت فرض ہے۔ اور اس کے بعد بھی اگر کسی خاص حکم کا یا احکام کا عہد لیا جائے، وہ اس عہدِ مذکور کی تجدید ہے۔ "کَمَا فِيْ حَدِیْثِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَ حَوْلَہٗ عِصَابَةٌ مِّنْ أَصْحَابِہٖ "بَایَعُوْنِيْ" إِلٰی قَوْلِہٖ فَبَایَعْنَاہٗ عَلٰی ذَالِکَ" (مشکوٰة المصابیح، کتاب الإیمان، رقم الحدیث، 20)۔ اور اگر مرشد اور مسترشد دونوں امتی ہیں جیسا بعد عہد نبوت کے، اور یہی وہ بیعت ہے جس کا لقب اس وقت پیری مریدی ہے تو وہ بھی مثل صورتِ ثانیہ کے تقویت ہے عہدِ اسلامی کی۔ اور یہ اتباع ہے اس سنت کا جس کو اوپر تجدیدِ عہد کہا گیا ہے۔ اور چونکہ اس کا فرض یا واجب یا سنت مؤکدہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں اور حضرت نبوة سے دین کی حیثیت سے منقول ہے لہٰذا یہ بیعت مستحب ہو گی۔ اور جس نے اس کے فرض یا واجب ہونے پر آیتِ مذکورہ سے استدلال کیا ہے محض بے دلیل اور تفسیر بالرائے ہے۔ صحیح تفسیر "وَ ابْتَغُوْا إِلَیْہِ الْقُرْبَ بِالطَّاعَاتِ" ہے۔ اسی طرح جب حضور سے اس پر مداومت ثابت نہیں، ہزاروں مؤمن اس خاص طریقہ پر اس زمانہ میں حضور سے بیعت نہیں لائے، اس لیے اس کو سنت مؤکدہ بھی نہیں کہیں گے۔ یہ سب تفصیل اس کی حقیقت میں ہے۔ اور ایک اس کی صورت میں ہے یعنی معاہدہ کے وقت ہاتھ پر ہاتھ رکھنا یا کپڑا وغیرہ ہاتھ میں دے دینا تو یہ عمل مباح ہے، لیکن مامور بہ کے کسی درجہ میں نہیں۔ حتیٰ کہ اس کے استحباب کا بھی حکم نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ حضور سے جو منقول ہے وہ بطور عبادت اور دین کے نہیں بلکہ بطور عادت کے ہے، کیونکہ عرب میں معاہدہ کے وقت یہ رسم تھی۔ چنانچہ اسی عادت کی بنا پر صفقہ بھی کہا جاتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ بیعت معتادۂ صلحاء حقیقت کے اعتبار سے مستحب سے زیادہ نہیں اور اس کی خاص ہیئت مباح سے زیادہ نہیں، لہٰذا اس کا درجہ علماً یا عملاً بڑھانا مثلاً اس کو شرطِ نجات قرار دینا یا تارک پر طعن کرنا یہ سب غلوّ فی الدین اور اعتداءِ حدود ہے۔ اگر کوئی شخص عمر بھر بھی بطریقِ تعارف کسی سے بیعت نہ ہو، در خود علمِ دین حاصل کر کے یا علماء سے تحقیق کر کے اخلاص کے ساتھ احکام پر عمل کرتا رہے وہ ناجی اور مقبول اور مقرب ہے، البتہ تجربہ سے یہ کلیاً یا اکثراً مشاہدہ ہو گیا ہے کہ جو درجہ عمل اور صلاح کا مطلوب ہے وہ بدوں اتباع و ترتیب کسی کامل بزرگ کے بلا خطر اطمینان کے ساتھ عادةً حاصل نہیں ہوتا۔ مگر اس اتباع کے لیے بھی صرف التزام کافی ہے، بیعت متعارف شرط نہیں۔ ''وَلیَکُنْ ھٰذَا آخِرَ الْکَلَامِ وَ اللہُ أَعْلَمُ''۔

افراط، تفریط سے بچنا ہی اعتدال ہے:

صفتِ بخل اپنی ذات میں مذموم نہیں، اگریہ مادہ انسان میں نہ ہو تو انتظام نہیں ہوسکتا، ہاں کسی چیز کا اعتدال سے بڑھ جانا یہ مذموم ہے۔ افراط تفریط سے بچنا یہی اعتدال ہے۔

انگریزی تعلیم:

اسی تعلیم انگریزی کی بدولت الحاد اور نیچریت کا غلبہ زیادہ ہو گیا ہے۔ یہ کالج کیا ہیں؟ فالج ہیں، کہ دین کے حسن کو بالکل تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔ ان کے تعلیم یافتہ اکثر بد دین ملحد ہوتے ہیں، دماغوں میں خناس بھر جاتا ہے۔

بڑے ہونے کا معیار:

سنیوں اور شیعوں میں بڑا مسئلہ یہی زیرِ بحث ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بڑے ہیں یا شیخین رضی اللہ عنہما؟ اس کا بہت سہل ایک فیصلہ ہے کہ اس وقت کے لوگ کس کو بڑا سمجھتے تھے وہی بڑا ہے۔ جو بڑا ہو گا بالاضطرار اس کے ساتھ بڑوں کا سا برتاؤ ہو گا، خواہ مخواہ لوگ زوائد میں پڑ کر اوقات ضائع کرتے ہیں۔ روایاتِ فضیلت کو دیکھنے کی بھی ضرورت نہیں، اصل چیز یہ ہے، اس کو دیکھو۔

دَبنا اور چیز ہے اور رعایت اور چیز ہے:

جو ضابطہ سے اپنا متبوع نہ ہو اس سے دبنا بے غیرتی ہے۔ مثلاً استاد ہو کر شاگرد سے دبے بے غیرت ہے، پیر ہو کر مرید سے دبے بے غیر ت ہے۔ بادشاہ ہو کر رعایا سے دبے بے غیرت ہے۔ خاوند ہو کر بیوی سے دبے بے غیرت ہے، ہاں رعایت اور چیز ہے وہ دبنا نہیں ہے، اس کو محبت و شفقت کہیں گے۔

تحقیق: ہمیشہ اپنے دوستوں کو مشورہ دیا کرتا ہوں کہ تم کبھی کسی الجھن میں مت پڑو، جہاں الجھن دیکھو ایک دم اس کام کو چھوڑ کر الگ ہو جاؤ۔ انسان ہے، نفس ہے، نفسانیت آ ہی جاتی ہے۔

یکسوئی قابلِ قدر چیز ہے:

ان قصوں اور جھگڑوں سے ایک بہت بڑی چیز برباد ہو جاتی ہے جس کی ہمیشہ اہل اللہ و خاصانِ حق سلف صالحین نے حفاظت کی ہے وہ یکسوئی ہے۔ اگر یہ یکسوئی اپنے پاس ہے تو پھر چاہے اپنے پاس ایک سوئی بھی نہ ہو مگر اس کی یہ حالت ہو گی:

؎ اے دل آں بہ کہ خراب از مئے گلگوں باشی

بے زر و گنج بصد حشمتِ قاروں باشی

ہر کام میں مقصود رضاءِ حق و قربِ حق ہو:

تحقیق: مقصود تو ان لوگوں کا کچھ اور ہی ہوتا ہے کہ جھگڑا ہو گا، فتنہ ہو گا، ذرا تصادم میں مزا آئے گا۔ اللہ کا شکر ہے، اپنے بزرگوں کی دعا کی برکت سے، خصوصی حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی عنایتوں سے اللہ تعالیٰ نے ان قصوں سے پاک صاف ہی کر دیا۔ اور کنج و کاوش کی الجھن میں پڑنے کی ضرورت ہی نہ رہی۔ نظر ہمیشہ مقصود پر ہونا چاہیے۔ پس جب کہ مدرسہ مقصود نہیں بلکہ رو برو رضائے حق ہے اور قربِ حق ہے سو وہ دین کے دوسرے کاموں سے بھی حاصل ہو سکتا ہے۔ پھر کیوں خواہ مخواہ قلب کو مشَوِّش کیا اور فتنہ و فساد کو مول لیا کسی اور کام میں لگ جاؤ۔

کام کرنے کا سہل طریقہ:

تحقیق: یہ بات ہمیشہ یاد رکھنے کی ہے کہ غیر اختیاری کاموں کے پیچھے پڑنے سے وقت خراب ہوتا ہے اور کام نہیں ہوتا۔ اور ہو بھی کیسے، وہ تو غیر اختیاری ہے۔ انسان اختیاری کام کو کرے، غیر اختیاری کو چھوڑ دے۔ یہی کام کرنے کا سہل طریق ہے، اختیاری اور غیر اختیاری کے مسئلے میں نصف سلوک ہے۔ بلکہ اور ترقی کر کے کہتا ہوں کہ کل سلوک ہے۔ حقیقت کی بے خبری کے سبب لوگ مشکلات اور دشواریوں میں پڑ گئے۔ چنانچہ ایک شبہ اس کا غیر اختیاری کے درپے ہونا ہے حالانکہ تصوُّف سے سہل اور آسان کوئی چیز بھی نہیں۔

معصیت کے نتائج:

تحقیق: معصیت کمبخت نہایت بری اور مہلک چیز ہے، اس سے اجتناب کی سخت ضرورت ہے۔ وہ ذلت اور وہ گھڑی بندہ کے واسطے نہایت ہی مبغوض اور منحوس ہے جس میں یہ اپنے خدا کا نافرمان ہوتا ہے۔ اگر حس ہو تو فوراً معصیت کرنے کے بعد قلب پر ظلمت محسوس ہوتی ہے۔ اور بعض نافرمانی کا یہ بھی اثر ہوتا ہے کہ آئندہ کے لیے عمل کی توفیق سلب کر لی جاتی ہے۔ بڑے خوف کی بات ہے۔ اور معصیت میں ایک اور خاصیت بھی ہے کہ اس کے محکوم اس کی نافرمانی کرنے لگتے ہیں۔ ایک بزرگ گھوڑے پر سوار ہوئے وہ شوخی کرنے لگا، فرمایا: "آج ہم سے کوئی گناہ ہوا ہے جس کی وجہ سے یہ ہماری نافرمانی کرتا ہے"۔

؎ تو ہم گردن از حکمِ داور مپیچ

کہ گردن نہ پیچد ز حکمِ تو ہیچ

ہر کہ ترسید از حق و تقویٰ گزید

ترسد ازویے جن وانس و ہر کہ دید

اور ایک خاصیت معصیت کی سب سے اشدّ ہے وہ یہ کہ کبھی بے خبری اور بے حیائی سے صغیرہ سے کبیرہ صادر ہو جاتا ہے۔ اور وہ سبب کفر کا بن جاتا ہے۔ اس لیے انسان کبھی گناہ کر کے بے فکر نہ ہو، توبہ استغفار کرتا رہے۔ مگر یہ بھی نہیں کہ اسی کو مشغلہ بنا لے اور اسی مراقبہ میں رہا کرے۔ بلکہ ایک بار خوب باقاعدہ توبہ کر کے کام میں لگے۔ اور اس کے بعد پھر جب کبھی خیال آ جایا کرے، "اَللّٰهُمَّ اغْفِرْلِيْ" کہہ کر پھر آگے چلے، کام میں لگے۔

قبولیتِ توبہ کی علامت:

تحقیق: توبہ کے قبول ہونے کے متعلق حضرت سلطان نظام الدین قُدِّسَ سِرُّہٗ نے ایک عجیب بات فرمائی کہ اگر کوئی شخص یہ معلوم کرنا چاہے کہ فلاں گناہ کر لینے کے بعد جو توبہ کی تھی وہ قبول ہو گئی یا نہیں، اس کا معیار یہ ہے کہ یہ دیکھے کہ اس گناہ کے یاد آنے سے نفس میں حظ پیدا ہوتا ہے یا نفرت؟ اگر نفرت ہوئی تو توبہ قبول ہو چکی، اگر حظ ہوتا ہے تو ابھی توبہ قبول نہیں ہوئی، پھر توبہ کرے۔ بڑی عجیب بات ہے مگر یہ علامت ظنی ہے۔

حوادث کے بعد سب قبضے قبضِ طبعی کے سبب بن جاتے ہیں:

تحقیق: انسان کا وجود اور ہستی ہے ہی کیا چیز؟ ہر چیز حق تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہے، خواہ مخواہ انسان اپنی ٹانگ اڑاتا ہے۔ اور یہ دعویٰ ترقی کا نتیجہ ہے، مگر واقعات سے حق تعالیٰ دکھا دیتے ہیں اہل ترقی کو کہ کوئی چیز تمہارے قبضہ میں نہیں سب ہمارے قبضہ میں ہیں۔ حوادث کے بعد سب قبضے قبض طبع کے سبب بن جاتے ہیں، تحقیقات اور انتظامات کچھ کام نہیں آتے۔ چنانچہ سیلاب سے ہزاروں لاکھوں مخلوق غرق ہو گئی، مگر کوئی کچھ نہ بنا سکا۔

پریشانی کا علاج رضائے خالق کی سعی ہے:

تحقیق: اگر انسان وحی کو عقل پر ترجیح دے تو سمجھ میں آ جائے کہ پریشانی کا سبب ہمیشہ مصیبت ہوتی ہے، جس کی حقیقت خدا کی نافرمانی ہے۔ اگر خدا کو راضی کرنے کی سعی کی جائے تو اس بد تری اور پریشانی سے نجات ہو سکتی ہے ورنہ کوئی اور چیز اس سے نجات نہیں دلا سکتی۔ اس لیے خدا کو راضی کرنے کی فکر ہونا چاہیے۔

روپیہ کی ذات سے حظ ہونا مرض ہے:

تحقیق: بعض لوگوں کو تو ضرورت کی وجہ سے روپیہ کی تلاش ہوتی ہے اور بعض کو خود روپیہ کی ذات سے تعلق ہوتا ہے۔ مگر یہ ایک مرض ہے، ان کو روپیہ سے حظ مقصود ہوتا ہے کہ میں اتنے روپے کا مالک ہوں۔ روپیہ سے تعلق اور حظ پر ایک بنیے کی حکایت یاد آئی کہ وہ بیمار تھا، روپیہ کثرت سے پاس تھا مگر علاج نہ کراتا تھا۔ دوست احباب کے زور دینے پر بمشکل علاج پر آمادہ ہوا، مگر اس طرح کہ لوگوں سے پوچھا، پہلے علاج کا تخمینہ کرا لو، کیا خرچ ہوگا۔ چنانچہ تخمینہ کرایا گیا۔ طبیب کو بلا کر نبض دکھلائی، نسخہ تجویز ہوا، مدتِ استعمال کا تخمینہ ہوا، قیمت کی تحقیق کی گئی اور حساب لگا کر بتلایا گیا کہ اس قدر صرف ہوگا۔ کہا کہ اب دیکھو کہ مرنے پر کیا صرف ہوگا۔ وہ بتلایا گیا اس قدر صرف ہوگا، تو کہتا ہے کہ بس اب تو یہی رائے ہوتی ہے کہ مر جائیں کیونکہ علاج میں روپیہ زائد صرف ہوگا اور مرنے میں کم۔

ذہانت کب نعمت ہے؟

تحقیق: ذہانت بھی خدا داد چیز ہے اور بڑی نعمت ہے بشرطیکہ حدود میں رہ کر محل پر صرف کی جائے، ورنہ خرابی اس سے زیادہ پیدا ہوتی ہے۔

واردات کی مخالفت مُوجِبِ خسران ہے یا حرمان:

تحقیق: واردات کی مخالفت معصیت تو نہیں مگر اس مخالفت سے دنیاوی ضرر کچھ ضرور ہوتا ہے۔ پھر ممکن ہے کہ یہ ضرر کبھی مُفضِی ہو جائے ضررِ دینی کی طرف۔ مثلاً پہلے معاصی کے مواقع میں ہمت مقاومت کی ہوسکتی ہے، مگر طبعی کسل ہو گیا جو محض ضررِ بدنی ہے، اس کسل سے طاعات کو جی نہیں چاہتا اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عمل سے باز رہا۔ اگر وہ عمل واجب تھا تو خسران ہوا اور اگر واجب نہ تھا تو حرمان ہوا۔

سکون کا بہترین اور سہل طریقہ:

تحقیق: سکون کا بہترین اور سہل طریقہ تسلیم و تفویض و افتقار و انکسار ہے، جس کو مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

؎ فہم و خاطر تیز کردن نیست راہ

جز شکستہ می نگیرد فضلِ شاہ

ہر کجا پستی است آب آنجا رود

ہر کجا مشکل جواب آنجا رود

ہر کجا دردے دوا آں جا رود

ہر کجا رنجے شفا آں جارود

علم میں خیر و برکت سلب ہو جانے کی وجہ:

تحقیق: آج کل استادوں کا ادب اور احترام بالکل ہی جاتا رہا تو ویسی ہی علم میں خیر و برکت رہ گئی۔ عادةُ اللہ یہ ہے کہ استاد خوش اور راضی نہ ہو تو علم نہیں آ سکتا۔ اور استاد ہی کی کیا تخصیص ہے، اب تو وہ زمانہ ہے کہ نہ باپ کا ادب ہے نہ پیر کا ادب ہے، اور اگر ہے بھی تو رسمی ادب، باقی حقیقی ادب کا تو نام و نشان نہیں۔ اور یہ بھی یاد ر کھو کہ تعظیم کا نام ادب نہیں، ادب نام ہے راحت رسانی کا۔

بڑی دولت امتی کے واسطے دین کی محبت اور عظمت ہے:

تحقیق: سب سے بڑی دولت امتی کے واسطے یہ ہے کہ قلب میں دین کی محبت ہو، عظمت ہو، چاہے عمل میں کوتاہی ہو۔

استاد صاحبِ محبت ہونا چاہیے:

شروع ہی میں اس کی ضرورت ہے کہ استاد بھی صاحبِ محبت ہو تاکہ شاگردوں کے جذبات اور خیالات پر ان کا اثر ہو اور شروع ہی سے صحیح تربیت اور اصلاح ہو۔

کبر کا منشا ہمیشہ حمق ہے:

تحقیق: کبر ہمیشہ حمق سے پیدا ہوتا ہے۔ اگر حمق نہ ہو تو اپنی بڑائی کا انسان کو کبھی وسوسہ بھی نہیں ہو سکتا۔ نہ خیال آ سکتا ہے۔ اس مرض میں قریب قریب عوام اور خواص سب کو ابتلا ہے۔ اور اس کے بچنے کا صرف ایک ہی طریق ہے وہ یہ کہ کسی کامل کی جوتیوں میں جا پڑے۔ وہاں دماغ سے یہ خنّاس نکل جائے گا۔ آج کل ہر شخص اپنے آپ کو مجتہدِ مطلق سمجھتا ہے۔ یہ سب حماقت کے کرشمے ہیں۔

کسی مسلمان کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہ کرنا چاہیے:

تحقیق: مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک بار علماء سے فرمایا کہ تم یہ کیا کفر کے فتوے لگاتے ہو کہ فلاں کافر ہے؟ خدا کی قسم قیامت کے دن دیکھو گے کہ بعض ایسے لوگوں کی مغفرت ہو رہی ہے جو دنیا میں پورے کافر سمجھے جاتے تھے۔ پھر فرمایا: ”اس کا مضائقہ نہیں کہ دھمکانے کے لیے انتظام کے طور پر کسی کو کافر کہہ دیا جائے، جیسے حدیث میں تارکِ صلوٰۃ کو کافر کہا گیا ہے۔ مگر یہ مت سمجھو کہ جس پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا ہے وہ سچ مچ کافر ہو گیا“۔ الغرض کسی مسلمان کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہ کرنا چاہیے۔

؎ کوئے نا امیدی مرو امید هاست

سوئے تاریکی مرو خورشید هاست

پردہ قید نہیں بلکہ بہ نظرِ حقیقت آزادی ہے:

تحقیق: کیونکہ قید کا مفہوم تو یہ ہے کہ کسی شخص کو بند کیا جائے اور اس کو بند کرنا ناگوار ہو، اور وہ بھاگنا چاہتا ہو پھر اس پر پہرہ، چوکی قائم کرنا ہو۔ حالانکہ کسی مسلمان کے گھر پر پہرہ چوکی نہیں دیکھا جاتا۔ معلوم ہوا کہ عورت کو پردہ میں رکھنا قید نہیں بلکہ ان کو باہر نکالنا قید ہے، کیونکہ وہ ان کی طبیعت کے خلاف ہے۔ اگر بالفرض ہم ان کو باہر جانے کو کہیں تو وہ اندر کو بھاگیں تو اصول کی رو سے یہ پردہ آزادی اور بے پردگی قید ہے۔ غرضیکہ یہ پردہ قید نہیں بلکہ حیا ہے جو انگریزوں کی عورتوں میں نہیں۔

صدق و خلوص کامیابی کا مدار ہے:

تحقیق: فرمایا کہ صدق و خلوص بڑی چیز ہیں، بدوں اس کے کام چلنا یا بننا مشکل ہی ہوتا ہے۔ یہ آج کل جو اکثر ناکامی ہوتی ہے، اس کا سبب عدمِ خلوص ہی ہے۔ اگر خلوص ہو تو بڑے سے بڑا کام اور سخت سے سخت کام سہل بن جاتا ہے۔ حضرت مولانا دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک حکایت بیان فرمائی کہ ایک شخص نے حج کا ارادہ کیا، ایک پیسہ پاس نہ تھا اور اس میں تمام کمالوں میں صرف ایک کمال یہ تھا کہ گدھے کی بولی بولنا جانتا تھا۔ ایک سنیہ نے بولتے ہوئے سن لیا، اپنی تفریح کے لیے سفرِ حج میں اس کو ہمراہ لے لیا۔ بعد فراغِ حج اسی کمال کی بدولت بدوں سے ریل پیل ہو گیا، ان کی محبت میں مدینہ منورہ پہنچ گیا۔ دیکھ لیجئے! ارادۂ حج خلوص سے کیا، حق تعالیٰ نے سب آسان نہیں کر دیا؟

؎ تو مگو ما را بداں شہ بار بست

با کریماں کار ہا دشوار نیست

اپنے معتقد بنانے کی تدبیر کرنا غیرت کی بات ہے:

فرمایا کہ مجھ کو تو اس سے غیرت آتی ہے کہ لوگوں کو معتقد بنانے کی تدبیر یا ترغیب دی جائے۔ اپنے دوستوں کو بھی میری تاکید ہے کہ وہ کبھی ایسا نہ کریں۔ ہاں ایک اور صورت ہے جس میں ایک مسلمان کی امداد ہے اور ثواب بھی ہے کہ طالب کو چند جگہوں کے نام بتلائے اور مشورہ دیا جائے کہ اپنے حالات سب جگہ لکھو، جہاں کے جوابات سے سکون اور تسلی ہو وہاں سے تعلق پیدا کر لو۔

دنیا کو مقدم اور دین کو تابع بنانا گمراہی ہے:

تحقیق: اگر دین کو مقدم رکھیں اور پھر حصولِ دنیا کی فکر کریں، بشرطیکہ حدودِ شرعیہ سے تجاوز نہ ہو تو پھر کامیابی بھی بہت قریب ہے۔

تحقیق: فرمایا کہ اصل چیز اس طریق میں شیخ کی محبت اور اتباع ہے۔ پھر اس میں بھی اساس محبت ہے، اتباع عادةً اس پر مرتب ہو جاتا ہے، اس لیے کہ محبّ محبوب کے خلاف نہیں کر سکتا۔ باقی بیعت وہ محض ایک برکت کی چیز ہے، اس پر نہ تعلیم موقوف ہے اور نہ نفع۔ مگر آج کل کے پیروں نے اس بیعت کو لوگوں کے پھنسانے کا اچھا خاصہ آلہ بنا رکھا ہے۔ لوگوں کے عقائد بیعت کے متعلق درجۂ منکَر تک پہنچ گئے ہیں کہ اس کو فرض واجب سمجھتے ہیں۔ علماءِ اہل حق کو اس طرف متوجہ ہو کر اصلاح کرنے کی ضرورت ہے جیسے اور بدعتوں کی اصلاح کرتے رہتے ہیں۔ یہ بھی تو بدعت اور قابل اصلاح ہے، آخر فرق دونوں میں کیا ہے؟

بیعت میں عدمِ تعجیل کی حد:

تحقیق: فرمایا کہ جب تک میرے چالیس وعظ اور رسائل نہ دیکھ لو، بیس مرتبہ خط و کتابت نہ کر لو، دس مرتبہ ملاقات اور مجالست نہ کر لو اس وقت اس کی حد ہے۔

وظائف کے ذریعہ حضور کی زیارت:

ایسا ارادہ کرنا بڑی ہی ناواقفی کی بات ہے۔ اگر ایسا ہی ذوق شوق ہے تو اتباع کرو۔ اس پر بھی اس مقصود کا ترتُّب لازم نہیں، مگر بہ نسبت اوراد کے، پھر اس میں توقع زیادہ ہے۔

ہمارے اعمال کی جزا محض عطا و انعام ہیں:

تحقیق: فرمایا کہ ہمیں تو ہر وقت ان کی رحمت اور ان کے فضل کی ضرورت ہے۔ جو کچھ ملے گا وہ محض انعام ہے، گو نام کو جزائے اعمال ہے مگر ہمارے اعمال ہی کیا جس پر جزا کا استحقاق ہو۔ بلکہ خود ان اعمال کو اعمال میں شمار کرنا یہ بھی انعام ہی ہے، ورنہ ہمارے اعمال تو حسنات کہنے کے بھی قابل نہیں، بلکہ وہ اپنے فضل سے ان کو حسنات بنا دیں گے۔ چنانچہ بعض اہل لطائف نے ﴿فَأُوْلٰـئِكَ يُبَدِّلُ اللهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ...﴾ (الفرقان: 70) کی یہی تفسیر کی ہے۔ پھر ایک بڑی رحمت یہ ہے کہ ہمارے اعمال محدود اور جزاء غیر محدود۔ اور میں نے جو کہا ہے کہ وہ جزاء برائے نام ہے ورنہ محض عطا ہی ہے اس کی دلیل خود قرآن میں ہے ﴿جَزَاءً مِّن رَّبِّكَ عَطَاءً حِسَابًا﴾ (النبأ: 36) اس تقریر سے اس شبہ کا بھی جواب ہو گیا کہ اگر وہ جزاء ہے تو عطا کیسی اور اگر عطا ہے تو پھر حساب کیسا؟ جواب یہ کہ جزاء صورۃً اور عطا حقیقۃً۔ اور حساب جزاء یا عطا کے لیے نہیں، بلکہ خود اہلِ عطا میں تفاوت کے لیے حساب ہو گا۔ باقی عطا بغیر حساب ہی ہو گا۔

اپنے بزرگوں کا طرز:

تحقیق: فرمایا کہ ہمارے بزرگوں میں ایک خاص بات یہ تھی کہ خود داری کا نام و نشان نہ تھا۔ ملے جلے، ہنستے بولتے رہتے تھے مگر دل میں ایک انگارہ دہک رہا تھا، بقولِ شیفتہ:

؎ تُو اے افسردہ دل زاہد یکے در بزمِ رنداں شو

کہ بینی خندہ بر لب ہا و آتش پارہ در دل ہا

میں نے اس ہنسنے پر ایک مثال تجویز کی ہے کہ جیسے تو ہنستا ہے مگر ہاتھ لگا کر کوئی دیکھے، پتہ چل جائے گا کہ کیسے ہنستا ہے۔ ان کے قلب میں خدا کی محبت کی ایک آگ بھری تھی، ہر وقت خشیت کا غلبہ رہتا تھا، شب و روز آخرت کی فکر لگی تھی۔

نقشبندی و چشتی بزرگان کے طرز کا تفاوت:

تحقیق: فرمایا کہ بعض نقشبندی حضرات کی رائے ہے کہ شیخ کو وقار و تحمّل کے ساتھ رہنا چاہیے تاکہ طالبین کے قلب میں عظمت ہونے سے ان کو نفع زائد ہو۔ مگر چشتیوں سے یہ ہو نہیں سکتا، ان کا وقار اور تحمّل یہی ہے کہ کوئی وقار و تحمّل نہ ہو۔ ان کی تو بس یہ شان ہوتی ہے:

؎ نباشد اہلِ باطن در پے، آرائشِ ظاہر

بہ نقاش احتیاجے نیست دیوار گلستاں را

دلفریباں نباتی ہمہ زیور بستند

دلبر ماست کہ باحسن خداداد آمد

زیر بار اندر درختاں کہ ثمر ہا دارند

اے خوشا سرو کہ از بند غم آزاد آمد

کسی کے برا بھلا کہنے سے برا ماننا طرز عشق کے خلاف ہے:

تحقیق: اس سے بگڑتا کیا ہے؟ معاملہ تو اللہ کے ساتھ ہے مخلوق سے کیا لینا ہے؟ اگر کسی کو اس کی فکر ہے تو یہ اچھی خاصی مخلوق پرستی ہے۔ یہ فکر خود ایک مستقل اور بڑا عذاب ہے کہ فلاں برا نہ کہے، فلاں بھلا نہ کہے، سمجھ لے کہ برا بھلا کہنے والوں نے تو نہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑا، نہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑا، نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو چھوڑا، نہ ائمہ مجتہدین کو چھوڑا۔ بعد کے علماء اور بزرگانِ دین تو بھلا کس شمار میں ہیں۔ ایسے موقع کے متعلق ذوق نے خوب کہا ہے:

؎ تو بھلا ہے تو برا ہو نہیں سکتا اے ذوق!

ہے برا وہ ہی کہ جو تجھ کو برا کہتا ہے

اور اگر تو ہی برا ہے تو وہ سچ کہتا ہے

پھر برا کہنے سے کیوں اس کے برا مانتا ہے

؎ عاشقِ بدنام کو پروائے ننگ و نام کیا

اور جو ناکام ہو اس کو کسی سے کام کیا

بیعت کی حقیقت:

تحقیق: فرمایا کہ بیعت کا حاصل یہ ہے کہ ایک طرف سے التزام ہو اتباع کا، اور ایک طرف سے التزام ہو تعلیم کا۔ بس اصل بیعت یہ ہے۔ خواہ اس کی ظاہری صورت نہ ہو۔

کلامِ الٰہی عملیات کے لیے موضوع نہیں:

تحقیق: لیکن اگر کوئی اسی کے لیے استعمال کرے تو برکت ضرور ہوتی ہے۔ جیسے قلم لکھنے کے لیے ہے، اگر کوئی کان کا میل اس سے نکالے تو اس میں بھی کام آ جاتا ہے۔

مرضِ مزمن کا علاج:

تحقیق: فرمایا کہ بزرگوں سے سنا ہے کہ صبح کی نماز کے بعد اکتالیس بار الحمد شریف پڑھ کر پانی پر دم کر کے مریضِ مزمن کو پلایا جائے تو امید نفع کی ہے۔

مدرِّس کی مدرسہ کے کام کے وقت باتیں کرنا خیانت ہے:

تحقیق: عرض کیا گیا جو اس وقت ہو چکا یا آئندہ اتفاقاً پھر ایسا ہو جائے تو کیا اس کا کوئی بدل ہو سکتا ہے؟ فرمایا: "سوائے توبہ کے اور کوئی بدل نہیں"۔ عرض کیا گیا کہ خارج اوقات میں کام کر دیا جائے؟ فرمایا: "یہ بھی اس کا بدل نہیں، فرضوں کے قائم مقام نفلیں تھوڑا ہی ہو سکتی ہیں، کام کے وقت کام کرنا چاہیے اور لوگوں کو منع کر دینا چاہیے"۔

عورتوں کے زیادت عقیدت کی وجہ:

تحقیق: فرمایا کہ عورتوں میں بمقابلہ مردوں کے عقیدت زیادہ ہوتی ہے، وجہ اس کی یہ معلوم ہوتی ہے کہ ایک تو ان کا دل نرم ہوتا ہے، دوسرے صاحب الرائے نہیں ہوتیں۔

عذر میں استحضارِ ما یمکن ہی کامل ہے:

تحقیق: فرمایا کہ حالتِ مرض میں قلب کے اس (مرض) کی طرف مشغول ہونے کی وجہ سے استحضارِ معتاد میں اگر کمی ہو جائے تو اس وقت جس قدر استحضار ہے وہی کامل ہے۔ اس کو یوں سمجھ لیا جائے کہ جیسے مرض کی وجہ سے کوئی شخص کھڑے ہو کر نماز نہیں پڑھ سکتا، بیٹھ کر پڑھتا ہے تو اس کی وہی نماز جو بیٹھ کر پڑھی ہے کامل ہے۔ یا جیسے ایک شخص مرض کی وجہ سے وضو نہیں کر سکتا، تیمُّم کرتا ہے، تو اس کی وہی طہارت کامل ہے۔ حاصل یہ ہے کہ جتنا جتنا اس وقت مامور بہ ہے وہی کامل ہے، ناقص نہیں۔

جلال کے مراقبہ سے جمال کا مراقبہ انفع ہے:

تحقیق: فرمایا کہ حق تعالیٰ کا مراقبہ جلال کا تو نافع ہے ہی مگر جمال کا اس سے زیادہ نافع ہے۔ خصوص ضعفاء کو جمال کا مراقبہ زیادہ کرنا چاہیے، اس سے محبت بڑھ کر بہت جلد کامیابی ہو جاتی ہے۔

غیر اختیاری عارض سے عمل کا ثواب کم نہیں کیا جاتا:

تحقیق: یہ ان کی رحمت ہے اور جو بظاہر اعمال میں کمی ہوتی ہے وہ صورۃً کمی ہے، حقیقۃً کمی نہیں۔ اس وقت اس کا مراقبہ کرے کہ میرے لیے یہی بہتر ہے جو اُس طرف سے تجویز ہوئی ہے۔

شیخ سے مناسبت پیدا کرنے کا طریقہ:

تحقیق: پہلے کچھ دنوں مجلسِ شیخ میں خاموش بیٹھنے سے، پھر بکثرت مکاتبت کرنے سے، پھر اکثر ملنے جلنے سے مناسبت پیدا ہو جاتی ہے۔

بے محل جان دے دینا شجاعت نہیں:

تحقیق: فرمایا کہ جان اپنی مِلک نہیں کہ اس میں جو چاہو تصرُّف کرو، دیکھئے! اگر جان اپنی ہوتی تو خود کشی کیوں حرام ہوتی؟ ہاں جہاں یہ معلوم ہو جائے کہ یہاں جان دینا طاعت ہے تو وہاں کمزور مسلمان بھی قوتِ ایمانی سے بہادر ہو جائے گا، کیونکہ شجاعت میں کمی تردُّد سے ہوتی ہے۔ بے موقع محل بدون اذن شرعی کے جان دینا کوئی بہادری نہیں بلکہ بزدلی ہے۔

شجاعت اور تدبیر میں منافات نہیں:

تحقیق: فرمایا کہ شجاعت اور تدبیر ایک جگہ جمع ہو سکتی ہیں۔ دیکھئے! شیر جیسا بہادر اور شجاع جانور چھپ کر شکار کرتا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ تدبیر کو شجاعت کے خلاف سمجھنا غلط ہے۔

مشغولی بغیرِ حق نہ ہو:

تحقیق: فرمایا کہ بزرگوں کے ملفوظات کے یاد کرنے کا اہتمام نہ کرو، بلکہ اس کی کوشش کرو کہ تم ایسے ہو جاؤ کہ تمہاری زبان سے بھی وہی نکلنے لگے جو ان کی زبان سے نکلا۔ اس کی ایسی مثال ہے کہ ایک قلعہ ہے، اس میں رسد جمع کرنا ہے تو پانی کا ایک بہت بڑا حوض تیار کرایا اور اس کو بیرونی پانی سے بھر لیا۔ مگر اس سے اچھا یہ ہے کہ ایک چھوٹا سا کنواں اندر کھود لو، گو پانی تھوڑا ہوگا مگر آتا رہے گا۔ برابر خرچ کرتے رہو نکالتے رہو کمی نہ ہو گی، اسی طرح اپنے اندر کنواں کھود لو۔

تحقیق: فرمایا کہ عورت کو مطیع بنانے کی یہی ایک تدبیر ہے کہ اس کو خوش رکھے اور یہی خاوند کو راضی رکھنے کی تدبیر ہے۔

تحصیلِ قناعت کا طریقہ:

تحقیق: فرمایا کہ قناعت بھی جب ہی ہو سکتی ہے جب کہ اپنے حوائج کو محدود رکھے، اور حدود سے آگے بڑھ جانے میں پھر قناعت بھی مشکل ہے۔

غیر مقلد کے متبع سنت ہونے کی تحقیق:

تحقیق: ایک صاحب نے عرض کیا کہ حضرت! یہ غیر مقلد بظاہر تو متبعِ سنت معلوم ہوتے ہیں۔ فرمایا: جی ہاں، یہاں تک کہ سنت کے پیچھے بعضے فرائض کو بھی چھوڑ بیٹھتے ہیں۔ اکابرِ امت کی شان میں گستاخی کرنا کیا یہ فرض کا ترک نہیں؟

شیخ کے حقوق کی رعایت کا اہتمام:

تحقیق: فرمایا کہ حضرت سلطان جی مرید ہیں حضرت شیخ فرید شکر گنج رحمۃ اللہ علیہ سے۔ ایک بار فصوص کا ذکر آ گیا، شیخ فرید رحمۃ اللہ علیہ کی زبان سے نکلا کہ فصوص کے نسخے اکثر غلط ہیں۔ سلطان جی کی زبان سے نکل گیا کہ حضرت! فلاں شخص کے پاس صحیح نسخہ ہے۔ شیخ نے فرمایا کہ جی ہاں بدوں صحیح نسخہ کے مطلب سمجھ میں نہیں آتا۔ بات آئی گئی ہوئی۔ جب سلطان جی مجلس سے اٹھے، حضرت شیخ کے صاحبزادہ نے کہا: خبر بھی ہے حضرت شیخ نے کیا فرمایا؟ وہ خالی الذہن تھے، کہنے لگے: میں تو کچھ نہیں سمجھا۔ صاحبزادہ نے کہا: حضرت شیخ نے اپنی ناراضی ظاہر کی، گویا تم نے حضرت شیخ کی استعدادِ علمی پر حملہ کیا کہ بدوں صحیح نسخہ کے وہ کتاب کو نہیں سمجھ سکتے، اس لیے صحیح نسخہ کا پتہ بتلایا گیا۔ اتنا سننا تھا کہ سلطان جی دم بخود رہ گئے اور حاضر ہو کر معافی چاہی، شیخ راضی نہیں ہوئے، صاحبزادہ نے سفارش کی تو راضی ہوئے۔ لوگ آج کل تشدّد تشدّد گاتے پھرتے ہیں۔ ان حضرات کو دیکھئے، یہ تو سب فانی تھے، پھر کتنی بعید دلالت پر کیسی تادیب فرمائی۔ حضرت سلطان جی فرماتے ہیں کہ گو حضرت رحمۃ اللہ علیہ راضی ہو گئے، مگر میرے دل میں ساری عمر کانٹا سا کھٹکتا رہا کہ میں نے شیخ سے ایسی بات کیوں کہی جس سے حضرت کو تکلیف پہنچی۔ دیکھئے! شیخ کے حقوق کی رعایت کا قلب میں کس قدر اہتمام تھا۔ جب شیخ کی یہ عظمت تھی تو یہ حضرات اللہ و رسول کے حقوق کو تو کیسے فراموش فرماتے؟

مناسبتِ شیخ کی علامت:

تحقیق: فرمایا کہ میں تعظیم کو تو پسند نہیں کرتا، البتہ محبت سے جی خوش ہوتا ہے۔ مگر طریق میں وہ بھی ضروری نہیں، ہاں مناسبت ضروری ہے۔ اور علامت مناسبت کی یہ ہے کہ شیخ کی کسی بات پر کوئی اعتراض بدرجۂ انقباض نہ ہو۔ اور اسے یہ تردُّد بھی نہ ہو کہ ایسی حالت میں اس سے تعلق رکھوں یا نہ رکھوں۔ اگر اس شان کا اعتراض پیدا ہو تو کسی اور سے تعلق پیدا کر لے، اس لیے کہ جب شیخ سے کھٹک ہے تو نفع ہرگز نہ ہو گا، ہر وقت کھٹک حجاب رہے گی اور نفع کے لیے مناسبت اصل شرط ہے۔ اور اس کا یہ مطلب نہیں کہ ناجائز امر کو شیخ کے لیے جائز سمجھے، بلکہ باوجود ناجائز سمجھنے کے اعتراض و تردّد بقیدِ مذکور نہ ہو۔

اصولِ صحیحہ کا اتباع شیخ و مرید دونوں کو چاہیے:

تحقیق: فرمایا: میں نے اپنے بزرگوں کی دعا اور توجہ کی برکت سے طریق کی حقیقت کو واضح کر دیا ہے۔ منجملہ اور مسائل کے ایک مسئلہ یہ بھی ظاہر کر دیا کہ اصولِ صحیحہ کا اتباع تم بھی کرو اور شیخ بھی کرے۔ مراد اصولِ صحیحہ سے اصولِ شرعیہ و مسائلِ شرعیہ ہیں۔ پیر پرستی، شیخ پرستی تو مخلوق پرستی ہے، اس کو چھوڑو، خدا پرستی اختیار کرو۔ اور میں نعوذ باللہ مخلوق پرستی تو کیا گوارا کرتا، آنے والوں سے خدمت لینے تک کو نہیں پسند کرتا۔

وحدتِ مطلب کی تاکید:

تحقیق: شیخ کی تعلیم ہوتے ہوئے دوسرے کو تعلیم کی طرف توجہ مضر ہے، ہاں تعظیم و ادب و اعتقاد سب شیوخ کا ضروری ہے۔ نیز فرمایا کہ شیخ کی تعلیم پر ذرا چوں و چرا نہ کرے ورنہ محروم رہے گا۔ وہ جو مناسب سمجھتا ہے، تعلیم کرتا ہے۔ جیسے طبیبِ حاذق جو مناسب سمجھتا ہے تشخیص کے بعد تجویز کرتا ہے۔ ہاں طالب کو بیشک اس کا حق ہے کہ اس شیخ کو چھوڑ دے۔ مگر یہ حق نہیں کہ تعلق رکھ کر پھر اس کی تجویز میں چوں و چرا کرے یا دخل کرے۔

تحقیق: فرمایا کہ لوگوں کو دوسروں کی فکر ہے مگر اپنی فکر نہیں کہ نفسانیت سے دین تباہ ہو رہا ہے۔

؎ تجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تُو

سختی کی حقیقت مع مثال:

تحقیق: فرمایا کہ لوگ مجھے سخت گیر بتلاتے ہیں حالانکہ میں دعویٰ سے نہیں کہتا، مگر واقعہ ہے کہ میں نرم ہوں۔ بات یہ ہے کہ ایک صورت تو یہ ہے کہ اصول اور قواعد سخت ہوں، وہ بے شک سختی ہے۔ اور ایک صورت ہے کہ اصول اور قواعد تو نہایت نرم اور راحت کے ہیں مگر ان کا پابند بنایا جاتا ہے سختی سے۔ سو اس میں تشدُّد کہاں ہوا؟ بلکہ یہ تو راحت اور نرمی ہی کی تقویت ہے۔ دیکھئے! نماز کس قدر سہل چیز ہے؟ مگر اس کی پابندی کس سختی سے کرائی جاتی ہے، اور اس کے ترک پر کس قدر سزا ہے؟ گو اس سزا میں اختلاف ہے مگر اس میں سب کا اتفاق ہے کہ اس پر سخت سزا ہے۔ بعض نے قتل تک کا فتویٰ دیا ہے۔ تو دیکھئے! نماز تو سہل ہے مگر اس کا پابند بنایا جاتا ہے سختی سے، تو کیا نماز کو سخت کہیں گے؟ سختی تو یہ تھی کہ یہ کہا جاتا کہ پندرہ گھنٹے نماز میں کھڑے رہو، یہ سختی تھی۔ اب تو یہ ہے کہ الحمد شریف کے بعد ﴿قُلْ ھُوَ اللہُ﴾ ہی پڑھ کر قیام کو ختم کردو۔ اور اگر کسی کو یہ بھی یاد نہ ہو تین تین مرتبہ ''سُبْحَانَ اللہِ'' پڑھ کر رکوع میں چلے جاؤ۔

اپنی طرف سے کسی پر کسی طرح کا دباؤ نہ ڈالا جائے:

تحقیق: فرمایا کہ ''اَلْحَمْدُ لِلہِ'' میں خود کسی پر اپنی طرف سے بار ڈالنا نہیں چاہتا۔ آپ کو سن کر تعجب ہو گا کہ اوروں پر تو کیا بار ڈالتا، اپنے گھر والوں کے ساتھ ایسا برتاؤ رکھتا ہوں کہ میری وجہ سے ان پر ذرہ برابر گرانی اور بار نہ ہو۔ تنخواہ دار ملازموں کے ساتھ یہی برتاؤ ہے اور مسلمان کا تو مذہب یہ ہی ہونا چاہیے:

؎ بہشت آں جا کہ آزارے نہ باشد

کسے را با کسے کارے نہ باشد

مثلاً عرض کرتا ہوں کہ میں چھینک کر زور سے ''اَلْحَمْدُ لِلہِ'' نہیں کہتا کہ دوسروں کو اس کے جواب کا اہتمام نہ کرنا پڑے۔ پھر اگر ایسے شخص کو دوسروں کی موذی حرکت پر تغیُّر ہو جائے کہ ہم تو ان کی راحت کا اتنا خیال کرتے ہیں، انھوں نے ہماری راحت کا کیوں نہیں خیال کیا، تو اس کو اس شکایت کا حق ہے۔ مگر میں تو اس پر بھی صبر کرتا ہوں اور کبھی اس نیت سے مؤاخذہ نہیں کرتا کہ مجھ کو ستایا ہے۔ مگر پھر بھی ان کی مصلحت ہی سے ایسا کرتا ہوں کہ کسی طرح ان کی اصلاح ہو جائے۔ اور بظاہر گو میں کہتا ہوں کہ تمہاری اس حرکت سے تکلیف اور اذیت پہنچی، مگر اکثر اس کا منشا بھی یہی ہوتا ہے کہ دوسروں کو تکلیف اور اذیت نہ پہنچائیں۔

قلب کے اندر عدل کا ہونا بھی بڑی نعمت و راحت ہے:

تحقیق: فرمایا کہ میں تو خدا کی نعمتوں اور راحتوں کا شکر ادا نہیں کر سکتا۔ یہ بھی خدا کی ایک بہت بڑی نعمت ہے کہ قلب کے اندر عدل رکھا ہے۔ ایک شخص کے واقعہ سے دوسرے کے معاملہ پر اثر نہیں ہوتا، یہ کیا اس کا تھوڑا فضل ہے؟

ناز کا انجام ہلاکت ہے، ہر وقت نیاز کی ضرورت ہے:

تحقیق: فرمایا ہم تو مشین ہیں، وہی ہادی ہیں اور محافظ ہیں۔ کسی کو ناز کس بات پر ہو، ہمارا وجود اور ہماری ہستی ہی کیا ہے؟ ہر وقت نیاز ہی کی ضرورت ہے، ناز کا انجام محض ہلاکت ہے۔

؎ ناز را روئے بباید ہمچو ورد

چوں نہ داری گرد بد خوائی مگرد

مربِّی کے ساتھ تحقیر یا عرفی تعظیم کا برتاؤ:

تحقیق: فرمایا کہ مربِّی کے ساتھ ایسا برتاؤ کرے کہ اس کی حرکت سے تحقیر کا شبہ نہ ہو، اس سے سخت مضرت کا اندیشہ ہے۔ بلکہ میرا مذاق تو یہ ہے کہ عرفی تعظیم کا بھی شبہ نہ ہو، اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کو بنا رہا ہے، اور یہ بھی مضرت سے خالی نہیں۔ غرض دونوں چیزیں اخلاص اور محبت کے خلاف ہیں۔

ذکر و شغل کا درجہ صرف اعانت ہے:

تحقیق: فرمایا کہ ذکر و شغل سے اصلاح نہیں ہو سکتی، اصلاح اعمال سے ہوتی ہے۔ اعمال سے جو چیز قلب میں پیدا ہوتی ہے ذکر و شغل اس کا معین ہوتا ہے۔ مگر آج کل کے جاہل صوفیوں میں احکام کی پابندی یا اہتمام بالکل ہی ندارد۔

ہدیہ کا ایک ادب:

تحقیق: فرمایا کہ ہدیہ کے آداب میں سے یہ ہے کہ ہدیہ دینے کے وقت ہدیہ کی قیمت نہ پوچھی جائے۔

رزق کا معاملہ مشیت پر ہے نہ کہ دانش پر:

تحقیق: رزق کے بارے میں مشیت کے ایسے کھلے ہوئے واقعات ہیں کہ اس سے عقلاً بھی انکار نہیں کر سکتے۔ بمبئی میں بڑے بڑے سیٹھ ہیں کہ وہ نام لکھنا بھی نہیں جانتے مگر بڑے بڑے بی . اے ان کے یہاں نوکر ہیں۔ یہ رزق کا معاملہ عجیب ہے:

؎ اگر روزی بدانش درفزودے

زناداں تنگ روزی تر نبو دے

بنا داں آں چناں روزی رساند

کہ دانا اندریں حیراں بماند

حبِ مال و جاہ سخت بری چیز ہے:

تحقیق: حبِ جاہ و مال ایسی بری چیز ہے کہ یہ انسان کو کسی حال میں چین سے رہنے نہیں دیتی۔ ایک ڈپٹی صاحب تھے، وہ بیچارے رات بھر تسبیح لیے کوٹھے پر ٹہلتے تھے اور مال کی فکر میں سوتے نہ تھے۔ بس ساری خرابی بڑائی کی ہے، اس کے لیے آدمی مال ڈھونڈھتا ہے۔ اگر آدمی چھوٹا بن کر رہے اور تھوڑے پر قناعت کرے، پھر کچھ بھی فکر نہیں، شیخ سعدی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

؎ نہ بر اشتر سوارم نہ چو اشتر زیربارم

نہ خداوند رعیت نہ غلام شہر یارم

؎ چشمہاؤ اشکہاؤ چشمہا

برسرت ریزد چو آب ازمشکہا

؎ خویش را رنجور سازی زار زار

تا ترا بیروں کنند از اشتہار

کہ اشتہارِ خلق بندِ محکمست

در رہِ ایں از بندِ آہن کی کمست

ذلت کی حقیقت:

تحقیق: ذلت کہتے ہیں عرضِ احتیاج کو۔ اگر آدمی کچھ سوال نہ کرے تو کچھ ذلت نہیں۔ انگریز بڑے بڑے امراء کی عزت نہیں کرتے اور ادنیٰ ادنیٰ مولویوں کی عزت کرتے ہیں۔

اخبار کی ضرورت کی دلیل:

تحقیق: "کَانَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ یَتَفَقَّدُ أَصْحَابَہٗ" (مجمع الزوائد، کتاب علامات النبوۃ، باب صفتہ صلی اللہ علیہ وسلم، رقم الحدیث: 14026) اس سے اخبار کی ضرورت مفہوم ہو سکتی ہے کہ مسلمانوں کی بگڑی حالت پر اصلاح اور ضرورت کی اطلاع پر امداد کر سکیں۔

تعلیمِ حسنِ ظن اور حسنِ تربیت:

تحقیق: فرمایا کہ عام لوگوں میں سے تو اگر کسی کے اندر نناوے عیب ہوں اور ایک بھلائی ہو تو میری نظر بھلائی کی طرف جاتی ہے اور ان ننانوے عیبوں پر نہیں جاتی۔ اور جس نے اپنے کو تربیت کے واسطے میرے سپرد کیا ہو تو اس میں اگر ننانوے بھلائیاں ہوں اور ایک عیب ہو تو میری نظر اس عیب پر جاتی ہے، ان ننانوے بھلائیوں پر نہیں جاتی۔ ''سُبْحَانَ اللہِ''! اس سے حضرتِ والا کا عامۃ الناس کے ساتھ حسنِ ظن اور اپنے غلاموں کے ساتھ حسنِ تربیت ظاہر ہے۔

مواقعِ مشتبہ میں حق و باطل کا معیار:

تحقیق: جو چیزیں نئی ایجاد ہوں اس میں یہ دیکھو کہ اس کے مُوجِد کون ہیں، عوام یا علماء صلحاء؟ تو جس چیز کے علماء صلحاء مُوجِد ہوں جیسے مدرسہ، خانقاہ اور دارالافتاء وغیرہ کہ ان کا بنانا علماء کے دل میں آیا، یہ دین ہے۔ اور جس کے مُوجِد عوام ہوں جیسے عرس، فاتحہ، دسواں، چالیسواں، وغیرہ وغیرہ کہ ان کا اجراء عوام کے ذریعہ ہوا، یہ غیرِ دین ہے۔ یہ ایسا معیار ہے کہ ہر نئے کام کے حکم کو اس معیار پر جانچ سکتے ہیں۔

دعا کا ایک ادب اظہارِ عجز و نیاز ہے:

تحقیق: فرمایا کہ دعا کا ایک ادب یہ ہے کہ بندہ خود اپنی زبان سے اظہارِ حاجات کرے، اگرچہ خدا تعالیٰ کو سب کچھ معلوم ہے۔ اگر بندہ اپنی زبان سے اظہار نہ کرے تو بندہ کا عجز و نیاز کیسے ظاہر ہو؟ حالانکہ دعا میں زیادہ تر یہی مقصود ہے۔

عجز و نیاز عجیب چیز ہے:

تحقیق: ایک بزرگ بی بی کا واقعہ ہے کہ لوگ بارش کی دعا کے لیے ان کے پاس حاضر ہوئے تو انھوں نے اٹھ کر اپنے چبوترہ کو جس پر وہ نماز پڑھا کرتی تھیں اپنے سر کے بال کھول کر جھاڑو دینا شروع کی، جب جھاڑو دے چکیں تو آسمان کی طرف منہ اٹھا کر عرض کیا: جھاڑو میں نے دے دی، چھڑکاؤ آپ کر دیجئے۔ پس یہ کہنا تھا کہ موسلا دھار بارش ہونا شروع ہو گئی۔

اکبر کا کلام ایک کامدار کلام ہے:

تحقیق: حیدر آباد میں اینٹھ کے ایک پیر ہیں، انہوں نے ایک کامدار جوتا خرید رکھا ہے۔ جو رئیس ان کے پاس آتا ہے، بس چار پانچ اس کے رسید کرتے ہیں۔ وہ لوگ خوش ہوتے ہیں کیونکہ وہ پہننے کا نہیں ہے۔ ایسے ہی اکبر کا کلام ان لوگوں کے لیے اُن پیر صاحب کے کامدار جوتے کے مشابہ ہے، سننے میں تو مزیدار لیکن عمل کے لیے خاک بھی نہیں۔

ادب کی ترغیب:

تحقیق:

؎ از خدا جوییم توفیقِ ادب

بے ادب محروم گشت از فضلِ رب

بے ادب تنہا نہ خود را داشت بد

بلکہ آتش در ہمہ آفاق زد

شفائے غیظ کے لیے سزا دینا بھی جائز ہے:

تحقیق: مگر خود تجویز نہ کریں بلکہ علماء سے استفتاء کریں۔ جب پتھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کپڑے لے کر بھاگا ہے تو آپ علیہ السلام نے اس کو مارا تھا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جو صاحبِ شعور نہیں اور بے حس ہو، اس سے بھی شفائے غیظ کا معاملہ جائز ہے۔

ایک مسئلۂ کفر کی تحقیق:

تحقیق: فرمایا کہ اگر ایک شخص نے بیس برس تک ایک مقام پر امامت کی اور پھر یوں کہنے لگا کہ میں کافر تھا۔ تو اس موقع پر فقہاء نے لکھا ہے کہ پچھلی نمازیں سب کی ادا ہو گئیں اور اس کلمہ سے وہ اب کافر ہو گیا۔ اس وجہ سے اب اس کا اعتبار بھی نہ کیا جائے گا، کیونکہ ممکن ہے کہ مسلمانوں کے پریشان کرنے کے لیے کہتا ہو، اور بیس برس پہلے سے وہ کافر نہ ہو، مسلمان ہو، اور ابھی کافر ہوا ہو۔

عدمِ تکبُّر امریکہ کی بھی منتہائے تہذیب ہے:

تحقیق: فرمایا کہ یہ شریعت کا احسان ہے کہ امریکہ کی جو منتہائے تہذیب ہے، اسلام نے اس کا سبق سب سے پہلے پڑھایا کہ تکبُّر نہ کیا کرو، گھر کے کام اپنے ہاتھ سے کر لیا کرو۔ چنانچہ حضور اکرم اکثر کام اپنے دستِ مبارک سے کر لیا کرتے تھے۔ دودھ خود دوہ لیتے تھے، نعل مبارک میں تسمہ خود لگا لیتے تھے، ترکاری خود تراش لیتے تھے۔

عقیدے میں اپنے فہم کے موافق مکلّف ہونا:

تحقیق: چنانچہ ایک نبّاش نے مرنے کے وقت اپنے لڑکوں کو وصیت کی تھی کہ اگر میں مر جاؤں تو مجھے جلا دینا اور آدھی راکھ ہوا میں اڑا دینا اور آدھی پانی میں بہا دینا، اگر اللہ تعالیٰ مجھ پر قادر ہو گیا تو پھر خوب ہی سزا ہو گی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے قدرت میں شک تھا اور پھر بھی اس کی مغفرت ہوئی۔ بات یہ ہے کہ ہر شخص کا علم و فہم جدا ہوتا ہے، وہ شخص مطلق قدرت کو تو مانتا تھا مگر اس کا کوئی خاص درجہ اس کے علم میں نہ تھا۔ اور پھر خشیت بھی تھی جبھی تو اس نے یہ تدبیر کی۔ مگر یہ مسئلہ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ حق تعالیٰ ہوا اور راکھ کو جدا کر کے بھی موجود کر سکتے ہیں۔ وہ بیچارہ یہی سمجھا کہ شاید اس عمل سے بچ جاؤں۔ خشیت کی وجہ سے اس کی مغفرت ہوئی۔

دو شقوں میں غیبت کا عدمِ تحقق:

تحقیق: فرمایا کہ کہنے والے کو اگر یہ یقین ہو جائے کہ جو تذکرہ میں (کسی کی نسبت) کر رہا ہوں اگر بعینہٖ اسے پہنچا دیا جائے تو وہ ناراض نہ ہوگا تو یہ غیبت نہیں۔ یا اس تذکرہ سے اصلاح کا تعلق ہو اور بطور حزن کے تذکرہ کیا جائے، یہ غیبت نہیں ہے۔

مبادئ سلوکِ ضروریہ:

تحقیق: فرمایا کہ سلوک شروع کرنے سے پہلے ضرورت اس کی ہے کہ چند یوم شیخ کی خدمت میں رہے تاکہ اس کی عادات و حالات سے آگاہی ہو جائے۔ کیونکہ یہ معرفت مبادی میں سے ہے اور جب تک مبادی کسی فن کے ذہن میں نہ ہوں مقاصد میں چل نہیں سکتا۔

اقوالِ معرفت:

تحقیق: ایک بزرگ کا قول ہے:

(1) ؎ مبارک معصیتے کہ مرا بعذر آرد

زنہار از طاعتے کہ مرا بعجب آرد

(2) ؎ بر ہوا پری مگسے باشی

بر آب روی خسے باشی

بگذر از گیاہ حیوانے

دل بدست آرتا کسے باشی

(3) ؎ نماز بسیار گذاردن کار پیر زنان است

روزہ بسیار داشتن صرفہ نان است

حج بسیار گزاردن سیر جہان است

دل بدست آوردن کار مردان است

حرارت، برودت کیفیاتِ وجدیہ:

تحقیق: اب لوگ ذکر و شغل میں کیفیتِ وجدیہ اور حرارت و برودت کو مقصود سمجھتے ہیں۔ حالانکہ حرارت و برودت تو ادویہ کے استعمال سے بھی ہو سکتی ہے، اور کیفیتِ وجدیہ حیوانوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ چنانچہ سنا ہے کہ سانپ بین کی آواز سے اور شیر و دیگر حیوانات گانے سے مست ہو جاتے ہیں، پھر بھلا جو کیفیت انسان اور حیوان میں مشترک ہو اس میں بھی کوئی کمال ہے؟

کیفیاتِ روحانیہ مقصود، کیفیاتِ نفسانیہ غیر مقصود:

تحقیق: جن کیفیات میں مادہ شرط ہے وہ نفسانی ہیں اور جن کیفیات میں مادہ شرط نہیں وہ روحانی ہیں۔ پس جو کیفیت جوانی کی بڑھاپے میں بدل جائے تو سمجھو کہ وہ نفسانی۔ استغراق وغیرہ کی حکایات متأخرین اولیاءُ اللہ کی زیادہ تر دیکھی جاتی ہیں، صحابہ رضی اللہ عنہم کی نہیں دیکھی جاتیں۔ بات یہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو کیفیاتِ روحانی زیادہ حاصل تھیں اور متأخرین اولیاء کو کیفیاتِ نفسانی۔

تجارت میں صدق کی اہمیت:

تحقیق: فرمایا کہ حدیثوں میں آیا ہے تاجرِ صادق قیامت کے دن شہیدوں کے ساتھ اٹھیں گے اور دغا باز فریبی تاجر کا حشر فجار کے ساتھ ہو گا۔ دینی فروغ تو اس سے ظاہر ہے اور دنیوی فروغ بھی اسی سے ہوتا ہے۔ گو شروع شروع میں کچھ تکلیف اٹھانی پڑتی ہے، مگر بعد میں بہت برکت ہوتی ہے۔ چنانچہ کانپور میں ایک بانس والے تھے، ان کے پاس جو شخص بانس لینے آتا وہ کہہ دیتے کہ یہ بانس اتنے دن رہے گا، یہ سن کر سب چھوڑ کر چلے جاتے۔ لوگوں نے ان سے یہ بھی کہا، یہ کام ایسے نہیں چلتا۔ اس نے جواب دیا کہ فروخت ہوں یا نہ ہوں میں تو سچ ہی بولوں گا۔ دوسری جگہ جب پہونچتے تو وہ دوکاندار بڑی تعریف کرتے، لوگ انہی کی دکان سے خریدتے، تھوڑے دنوں بعد جب دوسروں کے بانس جلدی جلدی خراب ہونے لگے، اب رجوعات ان کی طرف ہوئیں کیونکہ یہ جو کہہ دیتے بانس ویسا ہی نکلتا، سب کی دوکانداری پھیکی پڑ گئی۔ بس شروع میں تھوڑی سی دقت پڑتی ہے، جب لوگوں کو اطمینانِ کامل ہو جاتا ہے تو پھر یہ دقت بھی رفع ہو جاتی ہے۔

اس طریق میں قیل و قال سخت مضر ہے:

تحقیق: جس شخص سے تعلیمِ ذکر و شغل کا تعلق ہو اس سے ایسے مسائل فقہیہ نہ دریافت کرے جس میں قیل و قال ہو، اس طریق میں قیل و قال بہت مضر ہے۔ چنانچہ میں نے احباب کو لکھ دیا ہے کہ باطنی حالات کے ساتھ مسائل فقہیہ نہ لکھا کرو۔

امورِ طبعیہ فطریہ کا ازالہ نہ چاہیے بلکہ امالہ چاہیے:

تحقیق: فرمایا کہ امورِ طبعیہ فطریہ بدلتے نہیں، ہاں اس میں اضمحلال ہو جاتا ہے، اور اہلِ تحقیق بھی اپنے مریدوں کے فطری امر کو بدلتے نہیں، کیونکہ اصل مربِّی تو حق تعالیٰ ہیں، نہ معلوم کس کس مصالح کی بنا پر اس کے اندر وہ امورِ فطریہ رکھے گئے ہیں۔ اس لیے ان کے بدلنے کی کوشش نہ کرنا چاہیے، صرف تعدیل کر دی جائے اور مصرف بدل دیا جائے۔

موتیٰ کو زندوں کے فعل کی اطلاع:

تحقیق: ایک شخص نے کہا کہ فلاں شخص مرنے والے کو کنوئیں کی تمنا تھی، اب وہ بن گیا تو کیا اس کو اس کا پتہ چل گیا ہو گا؟ فرمایا کہ نہیں، روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ موتیٰ کو اپنے عزیز کے نیک و بد کا پتہ چلتا ہے، اس سے زیادہ ثابت نہیں۔ اور روح تو وہاں ایسے کام میں مستغرق ہے کہ اسے ان خرافات کی کیا پرواہ ہے۔

افعال کے منشا پر نظر کر کے مؤاخذہ چاہیے:

تحقیق: فرمایا کہ لوگوں کی بے ہودہ حرکتیں فی نفسہٖ اس قدر گراں نہیں ہوتیں، لیکن چونکہ ان کا منشا میری نظر میں آ جاتا ہے اور وہ سخت قبیح ہوتا ہے، کہیں کبر، کہیں بے فکری، کہیں اہلِ دین اور دین کی بے عظمتی، اس لیے وہ حقیقتِ امر مجھ کو زیادہ بری معلوم ہوتی ہے۔ جس پر لوگوں کو تعجب ہوتا ہے کہ یہ تو اتنی غصہ کی بات نہ تھی۔ لوگ صرف ناشی کو دیکھتے ہیں اور میں منشا کو دیکھتا ہوں۔

عوام اور علمائے عرب کا غلُوّ:

تحقیق: فرمایا کہ عوامِ عرب میں شرک بہت ہے، وہاں کے علماء بھی شرک کو توسُّل کہتے ہیں۔ اسی لیے تو قدرت کی طرف سے نجدیوں کا تسلط ہوا، جن کی یہ زیادتی ہے کہ توسُّل کو بھی شرک کہتے ہیں۔

جُبّہ شریف کی زیارت کا حکم:

تحقیق: فرمایا کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کو لکھا کہ جلال آباد کے جُبّہ شریف کی زیارت کو جی چاہتا ہے، کیا حکم ہے؟ جواب آیا کہ ہرگز دریغ نہ کریں، اگر تنہائی میں بدوں منکرات کے موقع ملے، ضرور زیارت کریں۔

وہمیات کا علاج:

تحقیق: ایک صاحب نے عرض کیا کہ ایک شخص اس قدر وہمی ہے کہ ظہر کا وضو بارہ بجے سے شروع کرتا ہے اور سارے مسجد کے لوٹوں سے کرتا ہے۔ اور غسل صبح سے ظہر تک کرتا ہے اور جسم کو ٹٹول ٹٹول کر دیکھتا ہے کہ کوئی بال خشک تو نہیں رہ گیا۔ اس پر فرمایا کہ یہ دماغ کی خشکی ہے، قوت متخیلہ میں فساد ہو گیا ہے، تدبیر اس کی یہی ہے کہ اس کے مقتضیٰ پر عمل نہ کرے۔

کتابوں کی رجسٹری کا حکم:

تحقیق: فرمایا کہ کتابوں کی رجسٹری کرانا ناجائز ہے، ہاں طبعِ اول میں کچھ صورت جواز کی ہو سکتی ہے کیونکہ اس میں صرفہ و محنت زیادہ پڑتی ہے۔ اور ما بعد کی رجسٹری میں دفعِ مضرّت نہیں بلکہ جلبِ منفعت ہے۔

پڑوسی کی رعایت کا حکم:

تحقیق: فرمایا کہ پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت میں حدیثوں میں بڑے حکم آئے ہیں، اگر پڑوسی تمہاری دیوار میں میخ گاڑنے لگے تو منع نہ کرو، کیونکہ اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں۔ گو بوجہِ ملکیت تمہیں منع کرنے کا حق ہے مگر پڑوسی کا بھی تو کچھ حق ہے۔ اسی طرح اگر پڑوسی کے مکان کی طرف روشندان کی ضرورت ہو تو بہت اوپر رکھا جائے جس سے اس کی بے پردگی نہ ہو۔

پڑوسی کے مکان کی طرف روشندان بنانا:

تحقیق: فقہائے متأخرین نے لکھا ہے کہ اپنی دیوار میں پڑوسی کے مکان کی طرف روشندان جائز نہیں ہے۔ لیکن متقدمین کہتے ہیں کہ جائز ہے، اپنی زمین میں ہر قسم کا تصرُّف کر سکتا ہے۔ متأخرین نے جواب دیا ہے کہ اپنی زمین کا وہ تصرُّف کر سکتا ہے جس سے دوسرے کو نقصان نہ پہنچے۔ پھر متقدمین نے اس کا جواب دیا ہے کہ جب اسے بالکل ہی دیوار اٹھا دینے کا اختیار ہے تو روشندان رکھنے کا اختیار کیسے نہ ہو گا؟ پھر متأخرین نے اس کا جواب دیا ہے کہ دیوار نہ اٹھانے کا تو اس کا اختیار ہے، کیونکہ اس سے اتنا ضرر نہیں کہ وہ اپنے پردہ کا بندوبست خود کر لے گا اور روشندان میں روشندان سے تو چھپ کر بھی دیکھ سکتے ہیں جو کسی کو پتہ بھی نہ چلے۔ اور اگر سامنے بالکل دیوار نہ ہو تو دیکھنے والے کی بھی جرأت نہ ہو گی اور گھر والے بھی احتیاط سے رہیں گے ''فَافْہَمْ''۔ حاصلِ تقریر کا یہ ہوا کہ دیوار اٹھائے تو روشندان اس میں پڑوسی کے مکان کی طرف نہ رکھے، اور اگر دیوار اٹھائے تو یہ جائز ہے۔

خواصِ اشیاء کے علم کی وسعت:

تحقیق:

(1) دیکھو گدگدی ایک فعل ہے، اگر اس کو اپنے ہاتھ سے کیا جائے تو کچھ بھی معلوم نہیں ہوتی اور جو دوسرے کے ہاتھ سے کیا جائے تو معلوم ہوتی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے کہ فعل دونوں جگہ ایک اور اثر دو طرح؟

(2) مشہور ہے کہ بعضوں کا ذبح کیا ہوا کم تڑپتا ہے اور بعضوں کے ہاتھ کا ذبح کیا ہوا زیادہ تڑپتا ہے۔ یہاں بھی دونوں جگہ فعل ایک اور اثر دو طرح۔

(3) ہاتھ سے کھانے میں تو لذت معلوم ہوتی ہے اور ہاضمہ کی قابلیت پیدا ہوتی ہے اور کانٹے سے کھانے میں دونوں باتیں نہیں حاصل ہوتیں۔ یہاں بھی دونوں جگہ فعل ایک اور اثر مختلف۔

بدعت کی حقیقت:

تحقیق: بعض خدمت صورۃً خدمت ہوتی ہے لیکن در حقیقت خدمت نہیں ہوتی، کیونکہ خدمت سے مقصود ہے راحت و رضا مندئ مخدوم۔ جب وہ اس خدمت سے راضی ہی نہیں تو اس خدمت سے کیا فائدہ؟ بلکہ رضا تو در کنار اس پر تو گرفت اور مؤاخذہ کا اندیشہ ہوتا ہے۔ اس سے بدعت کی حقیقت پوری معلوم ہو گئی کہ وہ عبادت ہی نہیں، کیونکہ جس کی عبادت کی جاتی ہے وہ اس سے راضی ہی نہیں، ''لِتَجَاوُزِہٖ عَنِ الْحُدُوْدِ الشَّرْعِیَّۃِ''۔

تقریری امتحان کی وجوہِ ترجیح تحریری امتحان پر:

تحقیق: فرمایا: آج کل جو تحریری امتحان رائج ہے میں تو اس کا مخالف ہوں، اس میں طلباء پر بڑی مشقت و گرانی پڑتی ہے۔ امتحان سے مقصود تو استعداد کا دیکھنا ہے، سو طالب علمی کے زمانہ میں اس قدر استعداد کا دیکھنا کافی ہے کہ اس کتاب کو اچھی طرح سمجھ گیا یا نہیں۔ سو یہ بات کتاب دیکھ کر امتحان دینے سے بھی معلوم ہوتی ہے۔ باقی رہا حفظ ہونا، یہ پڑھنے پڑھانے سے خود ہو جاتا ہے۔ بلکہ طالب علمی کے زمانے کا حفظ یاد بھی نہیں رہتا اور دماغ مفت خراب ہوتا ہے۔ میرے یہاں کانپور میں ہمیشہ تقریری امتحان ہوتا تھا اور شرح و حواشی دیکھ کر بھی اجازت تھی، جس سے طلباء دعا دیتے تھے۔ پس اس قدر دیکھ لے کہ یہ طالب علم مطالعہ سے یا حواشی و شرح کی اعانت سے حل بھی کر سکتا ہے یا نہیں؟ اس سے زیادہ بکھیڑا ہے اور اس رائے کو میں نے دوسرے مدارس میں بھی پیش کیا، مگر "آمَنَّا" تو ہے لیکن "عَمِلْنَا" نہیں ہے۔

حضرتِ والا کی سرپرستی کے معنیٰ:

تحقیق: میں سرپرست بمعنی مشیر کے ہوں، یعنی مجھ سے جن امور میں پوچھا جائے گا جواب دے دوں گا۔ اور جن میں نہ پوچھیں گے خود اس کا مطالبہ نہ کروں گا کہ کیوں نہیں پوچھا۔ اور مشورہ دینے کے بعد بھی عدم پابندی پر مؤاخذہ نہ کروں گا، ہاں عمل کا انتظار ضرور ہو گا۔ اور رائے تو مجھ سے دیگر مدارس کے مہتممین بھی لیتے ہیں مگر اس کے لیے اس میں دیوبند کا استثناء یہ ہے کہ دیگر مدارس میں تو جب وہ پوچھتے ہیں تب رائے دیتا ہوں اور دیوبند بلا پوچھے بھی اگر کوئی بات سمجھ میں آئے گی تو دریغ نہ کروں گا، خواہ اس پر عمل ہو یا نہ ہو۔

بغرضِ اصلاح مکاتیب کے اخراجات طاعت ہے:

تحقیق: کارڈ تو صرف دریافتِ خیریت یا طلبِ دعا کے لیے ہو سکتا ہے، اور مضمون کی اس میں گنجائش نہیں۔ لوگ اپنی اصلاح میں بھی بخل کرتے ہیں۔ حالانکہ یہ خرچ بھی طاعت ہے، رائیگاں تو نہیں جاتا، جو مصلح لوگوں کو اس قدر تکلیف پہنچاتے ہیں۔

بد نظری کا سبب اور اس کا علاج:

تحقیق: فرمایا کہ نظرِ بد فعل اختیاری ہے اس لیے اس سے بچنا بھی اختیاری ہے، گو اس میں تکلیف ہو۔ لوگوں سے تکلیف نہیں اٹھائی جاتی مگر دوزخ کا عذاب اس سے زیادہ ہے۔ میں نے ایک مبتلائے نظرِ بد سے پوچھا کہ اگر تمہاری بدنظری کو اس کا خاوند بھی دیکھ رہا ہو کیا تب بھی دیکھ سکتے ہو؟ کہا: نہیں۔ میں نے کہا خدا کی عظمت تمہارے قلب میں اس کے خاوند کے برابر بھی نہیں؟ کیونکہ حق تعالیٰ بھی ہر وقت ہماری حالت دیکھ رہے ہیں۔ بات یہ ہے کہ لوگوں کو خدا کے ساتھ اعتقاد تو ہے کہ وہ ہر وقت ہماری اچھی بری حالت دیکھ رہے ہیں مگر اس کا حال نہیں، اگر حال ہو جائے تو ایسی جرأت نہ ہو۔

تعویذ، تعبیر، مشورہ سے حضرت والا کو مناسبت نہیں:

تحقیق: فرمایا: مجھے تین چیزوں سے زیادہ تعب ہوتا ہے، ایک تو تعویذ سے، ایک تعبیر سے، ایک مشورہ سے، کیونکہ مجھے ان تینوں سے مناسبت نہیں، ہاں مجھے مناسبت بس اس سے ہے کہ کوئی محبوب کا تذکرہ کیا جائے۔

؎ ماہر چہ خواندہ ایم فراموش کردہ ایم

الا حدیثِ یار کہ تکرار می کنیم

؎ ما قصۂ سکندر و دارا نخواندہ ایم

از ما بجز حکایتِ مہر و وفا مپرس

؎ بس کہ در جاں فگار و چشم بیدارم توئی

ہر کہ پیدا می شود از دور پندارم توئی

؎ بس اب تو ہمنشیں ایسی جگہ کوئی کہیں ہوتی

اکیلے بیٹھے رہتے، یاد ان کی دلنشیں ہوتی

تصوّف فقہُ الفقہ ہے:

تحقیق: فرمایا کہ لوگ یہاں آ کر مجھ سے فقہ کے مسائل پوچھتے ہیں، میں ان سے کہتا ہوں کہ بھائی فقہ تو دوسری جگہ بھی پوچھ لو گے، یہاں مجھ سے فقہُ الفقہ پوچھو، جس کا دوسری جگہ اہتمام نہیں۔

تعلقِ مشائخ کی ضرورت عوام کے لیے:

تحقیق: فرمایا کہ بعض طبائع جو ضعیف ہیں، وہ بعض فیوض بلا واسطہ نہیں لے سکتے، اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے اپنے اور ہمارے درمیان رسول کو واسطہ بنایا کہ ہم اللہ تعالیٰ تک بلا واسطۂ رسول نہیں پہنچ سکتے۔ اسی طرح ہمارے اور رسول کے درمیان وسائط ہیں، کہ بلا ان وسائط کے ہم ان فیوض کو حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ رہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کا توافق بالوحی ہونا، جس سے تلقّئ فیض بلا واسطۂ رسول متوہم ہوتی ہے، تو یہ بڑا اشکال ہے کہ جو بات رسول کے ذہن میں بھی نہ تھی اس کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بتلا دیا۔ اس کا جواب اہلِ ظاہر نے جو دیا ہے اس کا حاصل صرف یہ ہے کہ غیرِ نبی کو بھی نبی پر فضل جزوی ہو سکتا ہے، لیکن اصل جواب یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی وہ علم حضور ہی کے واسطے سے حاصل ہوا اور وہ شق بھی حضور کے ذہن میں تھی، مگر بعض دفعہ اقتضاءِ وقت کے لحاظ سے حضور کی نظر ایک طرف زیادہ ہوتی تھی اور دوسری طرف نہ ہوتی تھی، اس طرف بھی وقت پر خادموں کے ذریعے سے حاضر کر دی جاتی تھی۔ اس کی ایسی مثال ہے جیسے ایک استاد جو صاحب تصنیف بھی ہو وہ اپنے کسی شاگرد کے رو برو کسی مقام کو حل کر رہا ہو اور شاگرد اس موقع پر متنبہ کر دے کہ حضرت آپ نے تو فلاں جگہ اس کو دوسری تقریر سے حل کیا ہے۔ اور فوراً اس کی نظر اس کی طرف چلی جائے تو اس کو یوں نہ کہا جائے گا کہ شاگرد استاد سے بڑھ گیا، بلکہ یوں کہا جائے گا کہ یہ استاد ہی کا ظل ہے جو اس کو یاد آگیا اور اس نے متنبہ کیا۔ ایسے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اندر مشکوٰۃِ نبوت ہی کے انوار و برکات تھے کہ وہ شق حاضر ہو گئی جس کو توافق بالوحی ہو گیا۔ تو حقیقتاً وہ بھی حضور ہی کی رائے تھی۔

قرأت کا پسندیدہ طریقہ:

تحقیق: فرمایا کہ قاری عبداللہ صاحب کا پڑھنا مجھ کو بے حد پسند تھا کہ بے تکلف پڑھتے تھے۔ وہ میرے استاد بھی ہیں۔ ایک مرتبہ مجھ سے فرمایا کہ قرآن شریف میں کسی لہجہ کا قصد نہ کرنا چاہیے، مخارج و صفات کی رعایت کرنا چاہیے، اس سے جو لہجہ پیدا ہوگا وہ حسین ہوگا۔ بس ادائے مخارج و صفات کے ساتھ جو لہجہ بنتا چلا جائے، پڑھتا جائے، کوئی خاص قصد لہجہ کا اپنی طرف سے نہ کر ے۔

بیعت کی ایک بڑی شرط:

تحقیق: فرمایا کہ بیعت سنت ہے لیکن ہر سنت کی کچھ شرائط بھی ہیں جن کے بغیر وہ ناتمام رہتی ہے۔ جیسے اشراق، چاشت پڑھنا سنت ہے، مگر وضو اس کے لیے بھی شرط ہے۔ اسی طرح بیعت کی بھی کچھ شرطیں ہیں۔ ایک بڑی شرط یہ ہے کہ طالب اور شیخ میں ہر ایک کو دوسرے پر اطمینانِ کامل ہو۔

عمل بالسنّۃ کی تحریص:

تحقیق: فرمایا کہ آنحضرت کے ارشاد میں بعض منافع و مصالح معاشیہ بھی ہیں، مگر ہم کو اس نیت سے عمل نہ کرنا چاہیے بلکہ سنت سمجھ کر کرنا چاہیے۔ ایک شخص نے کہا: میرے گھر کدو پکا تھا، میں نے پوچھا کہ کیا شام کو بھی کدو ہی پکے گا؟ کہا: ہر روز نہیں پکاتے، جب موسم آتا ہے تو سنت سمجھ کر ثواب کے لیے بھی کبھی پکا لیتے ہیں۔ حضرت نے فرمایا: "سُبْحَانَ اللہِ''! ہم کو یہ نیت کبھی بھی نصیب نہ ہوتی۔

تعویذِ مستعملہ دوسرے کو بھی نافع ہے:

تحقیق: ایک شخص نے پوچھا کہ اگر تعویذ سے فائدہ ہو جائے تو دوسرے کو دیدے؟ فرمایا: ہاں، باسی تھوڑا ہی ہو جائے گا۔

عقل کا امتیاز اور اس کی شرطِ مقبول:

تحقیق: فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو دوسروں پر ممتاز بنایا ہے تو صرف دولتِ عقل ہی کی وجہ سے بنایا ہے، اس سے کام لینا چاہیے، مگر وحی کی تابع بنا کر۔

حرم کی خاصیت رحم کی سی ہے:

تحقیق: فرمایا کہ حرم کی خاصیت رحم کی سی ہے کہ جس طرح بچہ جتنا بڑا ہوتا جاتا ہے، اسی قدر رحم میں وسعت ہوتی جاتی ہے۔ اسی طرح مکہ میں جس قدر بھی حاجی ہوتے ہیں سب حرم شریف میں سما جاتے ہیں۔

شاہی خاندان کو داڑھی کی قدر:

تحقیق: ثریا بیگم جب لندن پہنچی ہے تو ملکۂ جارج پنجم سے بھی بال کٹوانے کو کہا۔ اس نے جواب دیا کہ ہمارے شاہی خاندان میں عورتوں کا بال کٹوانا، اور مردوں کا ڈاڑھی منڈانا عیب ہے۔

بلاؤں کے نزول کی وجوہ اور ان وجوہ کی شناخت کا طریقہ:

تحقیق: فرمایا بلاؤں کا نزول اعمالِ بد سے بھی ہوتا ہے، لیکن کبھی امتحان بھی مقصود ہوتا ہے اور کبھی رفع درجات کے لیے بھی ہوتا ہے، جیسے انبیاء علیہم السلام پر مصائب کا نزول ہوا۔ ایک فائدہ بتلاتا ہوں جو بہت کام کا ہے اور وہ یہ ہے کہ جس مصیبت کے بعد قلب کو پریشانی ہو تو وہ اعمال کے سبب ہے۔ اور جس مصیبت کے بعد قلب کو پریشانی نہ ہو بلکہ رضا و تسلیم ہو تو رحمت ہے۔ اور اگر اس میں بھی کچھ پریشانی ہو تو وہ حقیقت ناشناسی (کی وجہ) سے ہے۔ پھر بھی پہلی سی پریشانی نہیں ہوتی۔ حقیقت ناشناسی سے پریشانی ہونے کی ایسی مثال ہے جیسے بچہ اگر آپریشن کی حقیقت کو سمجھ جائے تو ناراض نہیں ہوتا، گو ایک درجہ کا الم پھر بھی ہوتا ہے۔ اور اگر نہ سمجھے تو ہائے واویلا کرتا ہے۔ اور اس میں بھی ایک فرق ہے کہ جو قوی ہوتے ہیں اور طاقت ضبط ہوتی ہے تو ان کو اپریشن کے وقت ٹوپی سنگھا کر آپریشن کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی کاملین اور متوسّطین کا حال ہے کہ اولیائے کاملین کو تو تکلیف بھی ہوتی ہے اور دل اندر سے راضی بھی ہوتا ہے اور اولیائے متوسّطین کو تکلیف ہی نہیں ہوتی کیونکہ ان پر حال طاری کر دیا جاتا ہے۔ اور اگر ان پر حال طاری نہ کیا جائے تو وہ اپنے کو ہلاک کر لیں، جیسے کمزور کو اگر بلا ٹوپی سنگھائے آپریشن کر دیا جائے تو چونکہ وہ تکلیف کی برداشت نہیں کر سکتا، ممکن ہے کہ ہلاک ہو جائے۔ تو جیسے قوی آدمی کو آپریشن کے وقت ٹوپی سنگھانے کی ضرورت نہیں، ایسے ہی اولیائے کاملین پر بھی حال طاری کرنے کی ضرورت نہیں، وہ ویسے ہی ہر چیز کا پورا پورا حق ادا فرماتے ہیں۔ طبیعت کا بھی، جس کا اثر حساً معلوم ہوتا ہے اور عقل کا بھی، چنانچہ دل سے وہ کہتے ہیں:

؎ ناخوش تو خوش بود بر جانِ من

جاں فدائے یارِ دل رنجانِ من

شیطان کو ضمائر کی خبر نہیں وہ عالم الغیب نہیں:

تحقیق: فرشتوں کو بھی جب آدمی پختہ ارادہ کرتا ہے تب خبر ہو جاتی ہے ورنہ نہیں ہوتی۔ اور بعض امور کی خبر پختہ ارادہ کے بعد بھی نہیں ہوتی۔ جیسے ذکرِ خفی کی نسبت ایک حدیث میں ہے کاتبینِ اعمال کو بھی اس کا پتہ نہیں۔

شیطان کو بھی دھوکہ ہوتا ہے:

تحقیق: اسے اپنے کیے کا انجام معلوم نہیں ہوتا، پس وسوسہ تو ڈالا تھا ضرر کے لیے، وہاں الٹا مجاہدہ کا نفع ہو کر ثواب عطا ہو گیا۔ چنانچہ ایک دفعہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی تہجد کی نماز قضا کرا دی، صبح کو اٹھ کر آپ روئے۔ دوسرے دن تہجد کے وقت حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو خود جگانے آیا تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے وجہ پوچھی تو بڑی حیص بیص کے بعد بتلایا کہ کل میں نے جو آپ کی تہجد کی نماز قضا کرا دی تھی جس پر آپ بہت روئے تو آپ کو اس رونے سے تہجد پڑھنے سے زیادہ ثواب مل گیا، اور مراتب بڑھ گئے۔ اس لیے میں نے سوچا کہ جتنے ہیں اتنے ہی رہیں، بڑھیں تو نہیں۔ غرض انجام کی اسے بھی خبر نہیں ورنہ نماز کیوں قضا کراتا؟ اپنا وقت کیوں ضائع کرتا؟ دوسرے کام میں لگ جاتا، وہ تو بڑا یورپین ہے، وقت کو خراب نہیں کرتا۔

مرتے وقت وسوسوں سے مطلق خوف نہ کرنا چاہیے:

تحقیق: بعضے لوگ کہتے ہیں کہ شیطان مرنے کے وقت پیشاب پلاتا ہے۔ میں کہتا ہوں اگر مؤمن جانتا ہے تو پئے گا کیوں؟ اور اگر نہیں تو ضرر کیا ہے؟ بلکہ مرتے وقت ایمان بہت زیادہ قوی ہو جاتا ہے، وسوسہ سے زائل نہیں ہوتا۔ اس لیے ایسے امور سے ہرگز پریشان نہ ہونا چاہیے کیونکہ دو حال سے خالی نہیں، اگر انسان کے ہوش و حواس درست ہیں تو مؤمن کفر کو کیوں پسند کرے گا؟ اگر درست نہیں تو مرفوع القلم ہے، معاف ہے۔ نہ معلوم لوگ اس کمبخت شیطان سے کیوں اس قدر ڈرتے ہیں، یہ کوئی ڈرنے کی چیز نہیں ہے:

فَإِنَّ فَقِیْھًا وَّاحِدًا مُّتَوَرِّعًا

أَشَدُّ عَلَی الشَّیْطَانِ مِنْ أَلْفِ عَابِدٍ

محبوب کی عنایات پر عاشق کا ہیجان:

تحقیق: چنانچہ حضرت نے حضرت اُبَی بن کعب رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا کہ مجھ کو حق تعالیٰ نے ''سُوْرَۃُ لَمْ یَکُنْ'' تم کو سنانے کا حکم دیا ہے۔ حالانکہ حکم صاف تھا، مگر فرطِ جوش میں مکرر دریافت کرتے ہیں: "یَا رَسُوْلَ اللہِ! اَللہُ سَمَّانِیْ؟" تو آپ نے فرمایا: "اَللہُ سَمَّاکَ" (الصحیح للبخاری، کتاب التفسیر، سورۃ: لم یکن، باب: بلا ترجمۃ، رقم الحدیث: 4960) بس بے تاب ہو کر رونا شروع کر دیا۔ سچ ہے:

؎ نوک غمزہ کی ہو جس دل میں چبھی

اس سے پوچھے چاشنی اس درد کی

وہ جانے اس تڑپنے کے مزہ کو

گذر جس دل میں حضرت عشق کا ہو

خلاصۂ طریق:

تحقیق: فرمایا کہ طریق کا مقصود رضائے حق ہے جو احکام شرعیہ کی پابندی سے حاصل ہوتی ہے۔ اب کوئی استغراق کو مقصود سمجھتا ہے، کوئی کیفیات و احوال کو، حالانکہ یہ کوئی چیز نہیں۔

تحقیق: فرمایا: اس طریق میں تعلقات جس طرح مضر ہیں ایسے ہی عزمِ تعلقات بھی مضر ہے، بلکہ اپنی رائے کو شیخ کی رائے میں فنا کر دینا چاہیے۔ پھر خواہ وہ خدمتِ خلق سپرد کر دے، خواہ خدمتِ مسجد، خواہ خدمتِ نفس۔ خود مرید کو تجویز کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

سفر میں سنتوں کا حکم:

تحقیق: فرمایا کہ سفر شرعی کے اندر اگر مشغولی زیادہ ہو یا ریل میں کثرت سے بھیڑ ہو تو سوائے فجر کی سنتوں کے باقی وقتوں کی سنتیں چھوڑ دینے کی بھی گنجائش ہے، مگر اطمینان کی حالت میں کبھی نہ چھوڑنا چاہیے۔ سخت مجبوری میں ایسا کرے۔

تحقیق: فرمایا کہ اگر اولاد غیر تندرست ہو جیسے اندھا، اپاہج ہو تو اس کا نان نفقہ ماں باپ کے ذمہ ہے۔ اگر ماں باپ نہ ہو تو عزیز و اقارب کے ذمہ ہے، چاہے کتنی ہی عمر ہو جائے۔

طریقِ باطن میں اعتراض:

تحقیق: طریقِ باطن میں اعتراض اس قدر برا ہے کہ بعض اوقات کبائر سے برکات منقطع نہیں ہوتیں مگر اعتراض سے فوراً منقطع ہو جاتی ہیں۔ اس طریق میں یا تو کامل اتباع اختیار کرے ورنہ علیحدگی اختیار کرے۔

؎ از خدا جوییم توفیقِ ادب

بے ادب محروم گشت از فضل رب

بے ادب تنہا خود را داشت بد

بلکہ آتش در ہمہ آفاق زد

ایک گر قابل عمل مسنون:

تحقیق: فرمایا کہ آنحضرت نے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یمن کا قاضی بنا کر بھیجا ہے تو یہ گر بتایا تھا کہ اے علی! جب تک دونوں فریق کے بیان نہ سن لو اس وقت تک کسی قسم کا فیصلہ نہ کرنا۔

مسلمانوں کو اپاہج بن کر نہ بیٹھنا چاہیے:

تحقیق: فرمایا کہ مسلمانوں کو اپاہج بن کر نہ بیٹھنا چاہیے، کھائے کمائے اور بچوں کے لیے بھی چھوڑ جائے، مگر حدود شرعیہ سے آگے نہ بڑھے اور نہ مال کو معبود بنائے، نہ کسی حال میں خدا سے غافل ہو۔ باقی کھیتی کرنا، باغ لگانا، تجارت کرنا اس کی فضیلت خود احادیث سے ثابت ہے۔

بدگمانی پر عمل کرنے کی سزا و علاج:

تحقیق: ایک صاحب نے لکھا کہ میرا روپیہ میز پر سے گم ہو گیا تھا، محض شبہ میں میں نے ایک بچہ کو مارا، بعد میں دوسرے کے پاس وہ چوری نکلی۔ مجھے سخت ندامت ہے، کیا کروں؟

تحریر فرمایا کہ اگر بالغ ہے تو اس سے معافی مانگو اور اگر نابالغ ہے تو اس کے سامنے اعتراف غلطی کا کرو۔ اور ایک مدت تک اس کی دلجوئی کرو اور اس سے پوچھ پوچھ کر اس کی فرمائش پوری کرو۔

طاعات میں نفس کو لذت:

یہ خوشی کی بات ہے، رہی کمی بیشی، یہ امر طبعی ہے۔ ہر طبیعت کا خاصہ جدا ہے اس پر ملامت نہیں۔

سفارشوں سے کوفت:

تحقیق: میرے یہاں تو اگر کوئی آئے تو طالب بن کر آئے اور مجھ کو ذمہ دار شفا کا نہ سمجھے۔

حضرتِ والا کا مسلک:

تحقیق: فرمایا کہ میں بڑی مشکل سے کسی سے بدگمان ہوتا ہوں، بڑی چشم پوشی کرتا ہوں۔ اور جب کسی پر خفا ہوتا ہوں، محض اصلاح کے لیے ہوتا ہوں، بغض اس وقت بھی نہیں ہوتا۔ یہ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی برکت ہے۔

شیخ کے ساتھ گستاخی کی بے برکتی:

تحقیق: شیخ کے ساتھ گستاخی سے پیش آنے والا برکاتِ باطنی سے محروم ہو جاتا ہے۔ ایک شخص نے عرض کیا کہ شیخ کے ساتھ جو نسبت ہے، کیا وہ بھی قطع ہو جاتی ہے؟ فرمایا کہ ہاں، شیخ کے ساتھ جو نسبت ہے وہ بھی قطع ہو جاتی ہے۔ گستاخی بڑی خطرناک چیز ہے، گو معصیت نہیں ہے مگر خاص اثر اس کا معصیت سے بھی زیادہ ہے۔ اس طریق میں سب کوتاہیوں کا تحمل ہو جاتا ہے مگر اعتراض اور گستاخی کا نہیں ہوتا۔

؎ ہر کہ گستاخی کند اندر طریق

گرد و اندر وادئ حسرت غریق

؎ ہر کہ بے پاکی کند در راہ دوست

رہزن مرداں شد و نا مراد اوست

کسی کے درپے ہونا مناسب نہیں:

تحقیق: فرمایا کہ حالات میں اصلاح متردِّد کی ہوتی ہے۔ اور جو کسی خاص خیال میں جزم کیے ہو اس کی نہیں ہوتی۔ اس لیے ہم کسی کے پیچھے کیوں پڑیں؟ جب حق واضح ہو گیا، کتابیں چھپ گئیں، اب کچھ ہی ہو۔

آدمی کو چاہیے کہ خدا سے صحیح تعلق پیدا کرے:

تحقیق: پھر اللہ تعالیٰ بڑے متکبروں اور فرعونوں کی گردنیں اس کے سامنے جھکا دیتے ہیں۔

الہام کی مخالفت کا حکم:

تحقیق: فرمایا کہ الہام کی مخالفت سے بھی دنیا میں مؤاخذہ ہو جاتا ہے۔ مثلاً کسی بیماری میں مبتلا ہو جائے یا اور کوئی آفت آ جائے۔ مگر آخرت میں نہیں ہوتا، کیونکہ الہام حجتِ شرعیہ نہیں، اس لیے اس کی مخالفت معصیت نہیں جس سے آخرت میں مؤاخذہ ہو۔ اور وحی کی مخالفت سے آخرت میں بھی مؤاخذہ ہوتا ہے۔

تکبر کی حقیقت اور اس کا علاج:

تحقیق: تحریر فرمایا کہ تکبر کی حقیقت یہ ہے کہ کسی کمال میں اپنے کو دوسروں سے اس طرح بڑا سمجھے کہ اس کو حقیر و ذلیل سمجھے۔ علاج یہ ہے کہ اگر یہ سمجھنا غیر اختیاری ہے تب تو اس پر ملامت نہیں بشرطیکہ اس کے مقتضیٰ پر عمل نہیں یعنی زبان سے اپنی تفضیل اور دوسرے کی تنقیص نہ کرے نیز دوسرے کے ساتھ برتاؤ تحقیر کا نہ کرے۔ اور اگر قصداً ایسا سمجھتا ہے، یا سمجھنا تو بلا قصد ہوا لیکن اس کے مقتضیٰ مذکور پر بقصد عمل کرتا ہے تو مرتکب کبر کا اور مستحقِ ملامت اور عقوبت ہے۔ اور اگر اس علاج کے ساتھ زبان سے بھی اس کی مدح و ثنا کرے اور برتاؤ میں اس کی تعظیم کرے تو یہ اعون فی العلاج ہے۔

زیادہ عمل کی توفیق سے غوائلِ عجب کا اندیشہ ہے:

تحقیق: ایک صاحبِ علم نے عرض کیا کہ حضرت! دنیاوی ارادے بھی اکثر ٹوٹتے رہتے ہیں اور دینی تو کوئی مشکل سے پورا ہوتا ہے۔ پانچ وقت کی الٹی سیدھی نماز کے علاوہ جماعت و تہجد تک کا التزام نہیں قائم رہتا۔ برسوں سے یہی حال ہے، اب ہمت بالکل ٹوٹتی جا رہی ہے۔ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ حکیم و رحیم ہیں، بندوں کی مصلحت کو ان سے زیادہ کون جان سکتا ہے؟ زیادہ عمل کی توفیق سے دیگر غوائل کا اندیشہ ہو سکتا تھا، مثلاً عجب کا۔ پھر اس میں اللہ تعالیٰ کے تصرّف و قدرت اور اپنے عجز و عبدیت کا مشاہدہ ہوتا رہتا ہے۔ اذکار و اشغال اور تمام فضائلِ عمل کی بڑی غایت مشاہدۂ حق و استحضار ہے، ''اَلْحَمْدُ لِلہِ'' وہ اس طرح بھی حاصل ہے۔

تحقیق: انہیں صاحبِ علم نے لکھا کہ دینی امور میں ارادوں کے اس ٹوٹتے رہنے سے کبھی کبھی اپنی زندگی کا خیال آتا ہے۔ ارشاد فرمایا کہ یہ خیال صحیح نہیں، بُعد اور راندگی کی علامت غفلت و بے پروائی ہے جیسا کہ اس قسم کے لوگوں میں مشاہدہ ہوتا رہتا ہے، نہ کہ کوتاہیوں کا احساس اور صدمہ و قلق۔

ارادہ اور نیت پر بھی اجر ملتا ہے:

تحقیق: ان ہی صاحبِ علم نے عرض کیا کہ ارادوں کی اس بے بسی سے بعض اوقات جی چاہتا ہے کہ بس ارادہ کیا ہی نہ کروں لیکن پھر بھی قدرت نہیں۔ ارشاد فرمایا: ارادہ و نیت کا اجر تو بہرحال حاصل ہوتا ہے اس کو مفت کیوں ضائع کیا جائے؟ عمل کی کوتاہیوں پر استغفار کرتے رہنا چاہیے لیکن استغفار کے بعد پھر کام میں لگ جانا چاہیے۔ ہر وقت کوتاہیوں کا مراقبہ مضر ہے۔ مایوسی و پست ہمتی پیدا ہوتی ہے۔ حضرت شیخ اکبر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ توبہ اور استغفار کے بعد معاصی کا ذہول قبولِ توبہ کی علامت ہے۔ اس زمانہ میں خاص کر رجا کا غلبہ بھی مفید ہے۔ میں تو احیاء العلوم میں کتاب الخوف کا جو حصہ ہے اس کے مطالعہ سے منع کرتا ہوں۔

دوسرے شیخ سے رجوع کرنے کی حد:

تحقیق: فرمایا کہ اگر کسی کو اپنے شیخ سے نفع یا مناسبت نہ ہو تو دوسرے سے رجوع کر سکتا ہے لیکن اپنے شیخ سے بدعقیدہ ہرگز نہ ہونا چاہیے۔ بلکہ اگر اس کی ناراضی کا اندیشہ ہو تو دوسرے کے ساتھ تعلق کی اطلاع نہ دینی چاہیے۔

خشوعِ مطلوب کی حد:

تحقیق: فرمایا کہ نماز میں جی لگتا نہیں، لگانا مطلوب ہے، اس پر بھی نہ لگنا مجاہدہ و مشقت کے اجر کو زائد کرتا ہے۔ خشوع کو مثال سے یوں سمجھنا چاہیے کہ ایک شخص کو نہایت پختہ عمدہ کلامِ مجید یاد ہے اور دوسرے کو خام، اس دوسرے کو نسبتاً سوچ سوچ کر اور ذرا توجہ سے پڑھنا پڑتا ہے، بس خشوعِ مطلوب اس درجہ کی توجہ ہے۔ باقی وساوس اور خطرات کا سرے سے نہ آنا، یہ صرف استغراق میں ہوتا ہے جو حال ہے نہ کمال ہے۔

حال: اذکار سے قلب کی حالت میں کچھ تغیر نہیں کہ جس سے شوق و محبت میں اضافہ ہو یا قلب میں کچھ رقت پیدا ہو گئی ہو، اگر یہ حالت غیر محمود ہے تو علاج تحریر فرمایا جائے۔

شوق و محبت و رقتِ قلب زائد عن المقصود ہیں:

تحقیق: یہ حالت بالکل غیر محمود نہیں، مقصودِ اصلی اجر و رضا ہے۔ یہ چیزیں زائد علی المقصود ہیں، ان کا فقدان ذرہ برابر موجبِ قلق نہیں۔

حال: سفر میں تو عموماً اور حضر میں کبھی کبھی معمولات کل یا بعض ناغہ ہو جاتے ہیں، ان کی قضا کیسے کروں؟

تحقیق: تھوڑی مقدار میں کر لیا کیجئے۔

علمِ عظیم:

(1) فرمایا کہ مدارِ نہی فی الواقع فسادِ عقیدہ ہی ہے، لیکن فسادِ عقیدہ عام ہے، خواہ فاعل اس کا مباشر ہو خواہ اس کا سبب ہو، پس فاعل اگر جاہل عامی ہے تو خود اسی کا عقیدہ فاسد ہوگا اور اگر وہ خواص میں سے ہے تو گو وہ خود صحیح العقیدہ ہو مگر اس کے سبب سے دوسرے عوام کا عقیدہ فاسد ہوگا اور فساد کا سبب بننا بھی ممنوع ہے۔ اور گو تقریر سے اس فساد پر تنبیہ عوام کی ممکن ہے، مگر کُل عوام کی اس سے اصلاح نہیں ہوتی اور نہ سب تک اس کی تقریر پہنچتی ہے، پس اگر کسی عامی نے اس خاص کا فاعل ہونا تو سنا اور اصلاح کا مضمون اس تک نہیں پہنچا، تو یہ شخص اس عامی کے ضلال کا سبب بن گیا، اور ظاہر ہے کہ اگر ایک ضلالت کا بھی کوئی شخص سبب بن جائے تو برا ہے۔ اور ہر چند کہ بعض مصلحتیں بھی فعل میں ہوں، لیکن قاعدہ یہ ہے کہ جس فعل میں مصلحت اور مفسدہ دونوں مجتمع ہوں اور وہ فعل شرعاً مطلوب بالذات نہ ہو، وہاں اس فعل ہی کو ترک کر دیا جائے گا۔ پس اس قاعدہ کی بنا پر ان مصلحتوں کی تحصیل کا اہتمام نہ کریں گے بلکہ ان مفاسد سے احتراز کے لیے اس فعل کو ترک کر دیں گے۔ البتہ جو فعل ضروری ہے اور اس میں مفاسد پیش آئیں وہاں اس فعل کو ترک نہ کریں گے بلکہ حتی الامکان ان مفاسد کی اصلاح کی جائے گی۔

(2) اول یہ کہ سالک حتی الوسع اپنے قلب کی تقویت اور تفریح کے لیے مقویات اور مفرحات کا استعمال اور اسبابِ مشوّشۂ قلب سے حتی الامکان اجتناب رکھے، تاکہ قلب میں قوت رہے اور ایسے احوال کا تحمل کر سکے۔

خطرہ کی حقیقت:

اول: خطرہ کی حقیقت بلا اختیار نفس کا کسی بری چیز کی طرف متوجہ ہو جانا ہے۔

دوم: چونکہ غیر اختیاری ہے اس لیے مطلق معصیت نہیں، ہاں مکلّف ضرور ہے۔ اس کے انسداد کی اس سے بہتر کوئی تدبیر نہیں کہ ان کی طرف التفات ہی نہ کرے۔ یہاں تک کہ بقصدِ دفع بھی التفات نہ کرے، بلکہ ذکر میں توجہ کے ساتھ مشغول ہو جائے۔ لیکن توجہ میں بھی مبالغہ اور تندہی نہ کرے ورنہ کاوش کرنے سے طبیعت تھک کر ملول ہو جائے گی اور پھر خطرات کا اثر ہونے لگے گا۔ پھر ذکر میں مشغول ہو جانے کے بعد اس کا منتظر نہ رہے کہ خطرات بند ہوئے یا نہیں، کیونکہ باوجود ایک طرف توجہ قائم ہو جانے کے بھی دوسرے خیالات اگر بلا قصد آئیں، وہ مخل یا منافی یکسوئی کے نہیں۔ کیونکہ خزانۂ خیال میں تو بہت سی اشیاء ہوتی ہیں، وہ ضرور سامنے آئیں گی۔ جیسے کوئی شخص بہت سے نقطوں میں سے ایک مرکزی نقطہ پر نظر جمائے رکھے تو نظر کی شعاعیں ادھر ادھر ضرور پھیلیں گی اور جو پاس والے نقطے ہیں وہ بھی بلا قصد نظر کے سامنے ضرور آئیں گے، لیکن مستقل طور پر نظر اسی ایک مرکزی نقطہ پر قائم رہے گی۔

سوم: کسی اہم واجب یا مباح یا طاعت میں قلب کو مشغول کر دیا جائے، چنانچہ کلمۂ استرجاع کی تعلیم سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کیونکہ اس کا حاصل ایک مراقبۂ خاص ہے۔ اور ایک عارف کا مقولہ بھی اس کا صریح مؤید ہے: "کَمَا قَالَ فِي الطَّبَقَاتِ الْکُبْرٰی عَنِ الْحَسَنَیْنِ بْنِ عَبْدِ اللہِ الضَّجِّيِّ قَالَ: "لَا یَقْطَعُکَ شَيْءٌ مِّنْ شَيْءٍ إِلَّا إِذَا کَانَ الْقَاطِعُ أَتَمَّ وَ أَکْمَلَ وَ أَعْلٰی عِنْدَکَ فَإِنْ کَانَ مِثْلَہٗ أَوْ دُوْنَہٗ فَلَا یَقْطَعُکَ فَالْحُکْمُ لِمَا غَلَبَ عَلٰی قَلْبِکَ"۔

چہارم: ترکِ مشاغلِ مباحہ میں مبالغہ نہ کرے اور بالکل یکسوئی اختیار نہ کرے، تاکہ قلب میں ایسی چیزیں بھی مہیا رہیں جو اس قسم کے خطرات کو آنے سے روکیں بفحوائے"انائے کہ پرشد گر چوں پرد". جیسے اگر کوئی شخص بوتل کو ہوا سے خالی کرنا چاہے تو اس کی سہل صورت یہ ہے کہ اس کو پانی سے بھر دے پھر اس کے اندر ہوا نہ رہے گی۔ نہ ہوا کا گذر ہو سکے گا۔ لیکن مشاغلِ مباحہ میں تعلقاتِ حبی کا بڑھانا داخل نہیں کہ وہ بھی مضر ہیں، صرف تعلقاتِ انتظامی و تفریحی کافی ہیں۔ مثلاً انتظاماتِ معاش، سیر و تفریح، مطالعۂ تواریخ وغیرہ۔ واقعۂ غم و عشق کو بقصد سوچنا اور اس میں خوض و فکر کرنا، یا اس کا بکثرت تذکرہ کرنا اس سے بھی قلب ایک متعدد درجہ میں متاثر ہو کر مشوّش اور مضمحل ہو جاتا ہے، اس لیے اس کا انسداد بھی تدبیر نمبر سوم سے کرنا لازم ہے۔

واقعۂ حزن سے حزنِ طبعی ہونا:

ایسے موقع پر حزن غیر اختیاری ہے جو مضر بھی نہیں، لیکن اس کا بار بار یاد کرنا اختیاری ہے اور مضر بھی ہے۔ چنانچہ اسی بنا پر ﴿لَا تَحْزَنْ...﴾ (التوبۃ: 40) اور ﴿أَلَّا تَحْزَنِيْ...﴾ (مریم: 24) وارد ہے کیونکہ منہی عنہ ہونا دلیل ہے اختیاری ہونے کی۔ اور جس طرح اس کا احداث یا ابقاء اختیاری ہے اسی طرح اس کا ازالہ بھی اختیاری ہے، جس کا طریقِ تجربہ بتائید بالنص تدبیر نمبر سوم میں مذکور ہوا۔

واقعۂ غم کے تذکرہ کا اعتدال اور اس کی تائید بالنص:

واقعۂ غم کا بالکل تذکرہ نہ کرنا اور ضبط میں مبالغہ کرنا بھی تجربہ سے مضر ثابت ہوا ہے، کہ سب غبار اندر ہی اندر رہنے سے طبیعت گھٹ جاتی ہے اور اس کی قوت تحمل گھٹ جاتی ہے۔ اس لیے مصلحت یہ ہے کہ شروع شروع میں گاہ گاہ اپنے کسی دیندار ہمدرد سے اعتدال کے ساتھ حدودِ شرعیہ میں رہ کر اس واقعۂ غم کا کسی قدر تذکرہ بھی کر لیا کرے۔ اس کی تائید بھی نص سے ہوتی ہے کہ حضرت اقدس اپنے فرزند حضرت ابراہیم کی وفات پر روئے بھی اور یہ بھی ارشاد فرمایا: "إِنَّا بِفِرَاقِکَ یَا إِبْرَاھِیْمُ لَمَحْزُوْنُوْنَ" (الصحیح للبخاری، کتاب الجنائز، باب: قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم: إنّا بک لمحزونون، رقم الحدیث: 1303)

ہمدردی کی حدِ معتدل:

زیادہ ہمدردی اور ترحّم سے بھی قلب کو تکلیف و تشویش ہوتی ہے۔ بلکہ بعض اوقات خلافِ تسلیم اور تفویض خیالات پیدا ہونے لگتے ہیں جو سخت اندیشہ کی بات ہے۔ اس لیے دوسرے کے ساتھ اپنی ہمدردی کو بھی حد کے اندر رکھے۔ اور وہ حد یہ ہے کہ دوسرے کو نفع تو پہنچ جائے لیکن اپنے کو ضرر نہ پہنچے۔ اس کے لیے بس عقلی ہمدردی کافی ہے۔ اور طبعی ہمدردی کو صرف اسی حد تک رہنے دیا جائے جس حد تک عقلی ہمدردی کے مؤثر ہونے کے لیے ضروری ہو۔

وارداتِ قلب منجانب اللہ ہیں:

حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے میرے ایک عریضہ کے جواب میں فرمایا کہ جو کچھ قلب پر وارد ہو، من جانب اللہ خیال کرو۔ جو واردات مضر ہوں گے اس مراقبہ سے سب دفع ہو جائیں گے۔

صاحبِ مقام کی حیثیت:

فرمایا کہ صاحبِ مقام ہو جانے کے یہ معنی نہیں کہ سالک تغیراتِ احوال سے بالکل ہی خالی ہو جاتا ہے، کیونکہ تغیراتِ عارضی تو بر بناءِ مصالح، لوازم سلوک سے ہیں جو رسوخِ کامل اور تمکینِ تامّ کے حصول کے بعد بھی سالکین کے احوال میں گاہ گاہ واقع ہوتے رہتے ہیں، لیکن ان میں استبداد و امتداد و اعتداد نہیں ہوتا۔ جیسے صحتِ کاملہ کے حاصل اور اعتدالِ مزاج قائم ہو جانے کے بعد بھی موسم کے بدلنے اور دیگر اسباب خارجی سے احیاناً کبھی زکام ہو جاتا ہے، کبھی طبیعت کسل مند ہو جاتی ہے، کبھی بخار ہو جاتا ہے، مگر اس قسم کی عارضی شکایات صحتِ طبیہ کے منافی نہیں ہوتیں۔ غرض اعتبار غالب حالت کا ہے۔ اگر سالک میں آثار مقام غالب ہیں تو وہ صاحب مقام ہے، گو احیاناً اس میں آثار حال کا بھی ظہور ہو، اور اگر آثار حال غالب ہیں تو وہ صاحب حال ہے، گو احیاناً اس میں آثار مقام بھی پائے جائیں۔ غرض کاملین پر بھی کبھی کبھی غلبۂ حال ہو جاتا ہے لیکن وہ منافی کمال نہیں ہوتا۔ بلکہ حضرات انبیاء علیہم الصلٰوۃ و السلام پر بھی کبھی کبھی ان حضرات کی شان کے موافق غلبہ طاری ہوا ہے، چنانچہ یومِ بدر میں حضور سرورِ عالم سردارِ انبیاء نے جس ابتہال کے ساتھ دعا فرمائی تھی وہ غلبۂ حال سے ناشی تھا۔ بلکہ گاہ گاہ فرشتوں سے بھی غلبہ منقول ہے، حالانکہ ان میں انفعالِ بشری بھی نہیں ہوتا، چنانچہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کا فرعون کے منہ میں کیچڑ ٹھونسنا روایتِ ترمذی میں مذکور ہے، لیکن صاحبِ مقام پر جو غلبۂ حال ہوتا ہے اس میں وہ حدود سے خارج نہیں ہوتا۔ بخلاف صاحبِ حال کے، کہ وہ کبھی حدود سے خارج ہو جاتا ہے۔ مگر اس کو گناہ نہیں ہوتا کیونکہ بوجہ مغلوبیت وہ اس وقت مرفوعُ القلم ہوتا ہے۔

قبضِ شدید معینِ حصولِ مقامِ عبدیت ہے:

اصطلاحِ صوفیہ میں ابتلاءِ شدید کو ہیبت سے تعبیر کرتے ہیں جو قبض کی اعلیٰ ترین قسم ہے، جس کا طریان کاملین ہی پر ہوتا ہے۔ ایسے شدید قبض میں ثابت قدم رہنے کے بعد سالک بعونِ اللہ تعالیٰ مقامِ عبدیت میں (جو اعلیٰ ترین مقامِ سلوک ہے) نہایت متمکن اور راسخُ القدم ہو جاتا ہے۔ کیونکہ متصرفِ حقیقی کے تصرفاتِ عظیمہ کو خود اپنے اندر مشاہدہ کر لینے کے بعد اس کو اپنا ہیچ در ہیچ لاشئِ محض ہونا روزِ روشن کی طرح مشاہد ہو جاتا ہے۔ اور اس مشاہدۂ عجز کی بدولت وہ بفضلہٖ تعالیٰ نزولِ کامل سے (جو ترقّیاتِ باطنہ کی انتہائی منزل ہے) مشرف و ممتاز اور سربلند و سرفراز ہو جاتا ہے۔ نیز چونکہ تغیراتِ احوالِ قلب کا اس کو خوب اچھی طرح اور ذاتی طور پر تجربہ ہو چکا ہوتا ہے، اس لیے عدمِ غلبۂ ہیبت کی حالت میں بھی وہ عظمت و جلالِ خداوندی اور شوکت و ہیبت، قضا و قدرِ الٰہی سے ہمیشہ ترساں و لرزاں ہی رہتا ہے۔ اور اچھی سے اچھی باطنی حالت کو بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہوئے اس کو کبھی عجب و ناز کا واہمہ بھی نہیں ہوتا۔ کیونکہ بر بناءِ تجربۂ سابق وہ اس حالت کو حدوثاً محض موہبتِ خدا اور بقا، ہر وقت زیرِ تصرُّفِ رب العلاء یقین کیے ہوتا ہے۔ غرض استحضارِ عظمتِ حق اس کا حالِ دائمی اور غایتِ ادب و احترام حضرتِ ذو الجلال و الاکرام اس کا اقتضائے طبعی اور تفویضِ کامل و فناءِ تامّ اس کا شعارِ زندگی ہو جاتا ہے۔ یا بطورِ حاصل یوں کہئے کہ عبدیتِ محضہ اس کی صفتِ لازمہ اور بندگی و سرافگندگی اس کی طبیعتِ ثانیہ بن جاتی ہے۔