باب چہارم
ارشادات
"لَیُغَانُ عَلٰى قَلْبِيْ" کا مطلب:
ارشاد: حدیث میں جو ہے: "لَیُغَانُ عَلٰی قَلْبِيْ" (سنن أبي داوٗد، کتاب الصلٰوۃ، باب في الاستغفار، رقم الحديث: 1515) وہ غین یہی توجہ الی الخلق للارشاد ہے، کہ وہ عین توجہ الی الحق، بواسطۂ مرآةِ الخلق ہے، کہ عاشق بے صبرئ طبعی سے اس کو حجاب سمجھتا ہے۔
شرطِ عادی سلوک کی تفرّغ ہے:
ارشاد: اگر باقاعدہ سلوک طے کرنا ہے جس کے لیے تفرّغ شرطِ عادی ہے، تب تو نکاح مناسب نہیں۔ اور اگر بعضِ اشتغال بالمامور بہ و اعتزال عن المنتہی عنہ مقصود ہے تو نکاح اس میں مُخِل نہیں۔ پھر اس شق پر تفصیل یہ ہے کہ اگر ادائے حقوقِ نفقات وغیرہ کی استطاعت ہو تب تو جائز ہے، ورنہ ممنوع۔
کرامت کے بعد بھی اتباعِ شریعت کی فکر:
ارشاد: صدورِ کرامت کے بعد ولی کو بے فکر نہ ہونا چاہیے۔ بلکہ حکمِ شرعی معلوم کر کے حکمِ شریعت کا اتباع کرنا چاہیے۔
استراحت در مسجد بنیتِ اعتکاف:
سوال: بغرضِ تنہائی مسجد میں سوتا ہوں، اور اعتکاف کی نیت کر لیتا ہوں۔ حیلۂ مذکور سے مسجد میں سونا جائز ہے یا نہیں؟
ارشاد: اس مصلحت سے جائز ہے۔
قیود و عملیات کا حکم سالک کے لیے:
سوال: سورۂ واقعہ پڑھتا ہوں اور اس کے ضمن میں نیت دفعِ فاقہ کی بھی ہوتی ہے۔
ارشاد: کچھ حرج نہیں، دفعِ فاقہ کا قصد اس لیے کرنا کہ اطمینانِ رزق سے دین میں اعانت ہو گی، دین ہے۔ اور حضورﷺ کا یہ خاصیت بیان فرمانا اس کی محمودیت کی دلیل ہے۔ البتہ جو عملیات خاص قیود کے ساتھ پڑھے جاتے ہیں اور عامل ان کی دلیل سے زائد مؤثر سمجھ کر گویا اثر کو اپنے قبضہ میں سمجھتا ہو، وہ عملیات طالبِ حق کی وضع کے خلاف ہیں۔
افعال و طریق اور نصائح مفیدہ:
ارشاد: ترکِ معاصی و کثرتِ ذکر و اطلاعِ حالات بمرشد اس کا طریق ہے، گو حضور نہ ہو (بخدمتِ مرشد)۔
ارشاد: حبِ رسول ﷺ اور حبِ شیخ مفتاحِ سعادت ہے۔
ارشاد: عمر بھر اس کی ضرورت ہے کہ اپنے نفس کی نگہداشت رکھے اور علاج معالجہ میں لگا رہے۔ کاملین بھی اس سے فارغ نہیں، صرف ضعف و قوت کا فرق ہے۔ نہ یاس ہونا چاہیے نہ فراغ۔ اور بے فکری کا قصد یا طمع کرنا ناممکن ہے۔
ارشاد: استقامت علی الاعمال خود ایک رفیع حالت ہے جو سب کیفیات سے راحج ہے۔
ارشاد: ثمرات پر نظر کرنا سبب ہے پریشانی کا۔
ارشاد: انسان صرف مکلّف اس کا ہے کہ اخلاقِ رذیلہ کے مقتضیات پر عمل نہ کرے۔ رہا یہ کہ اقتضاءات ہی زائل یا ضعیف ہو جائیں، اس کا انسان نہ مکلّف، نہ یہ بسہولت میسر ہو سکتا ہے۔
بسیار سفر باید تا پختہ شود خامی:
ارشاد: بقدرِ تحمّل کام کرنا چاہیے، اپنے کو زیادہ مقید کرنا بلا ضرورت نہ چاہیے کہ انجام پریشانی ہے۔
ترکِ تکلّم کا حکم:
ارشاد: ترکِ تکلّم بمسلم پر جو وعید ہے کہ نماز روزہ اس کا مقبول نہیں، "حَتّٰی یَصْطَلِحَا" (مسند أبی داؤد الطیالسی، باب: أسند أبو ہریرۃ، رقم الحدیث: 2525) سو اس میں وہ مہاجرت مراد ہے جس کا سبب محض دنیوی ہو۔ جو مہاجرت کسی مصلحتِ دینیہ سے ہو وہ اس میں داخل نہیں۔
معیّتِ ذاتیہ:
ارشاد: معیّتِ ذاتیہ ایک قربِ خاص ہے جو وجداناً مدرِک ہوتا ہے اور جو حضور و یاداشت کا ثمرہ ہے، نہ کہ اس کا عین۔
نہایت و تمکین کی تعریف:
تعلیم: سالک کو احوالِ تکوینیہ، ولولہ و جوش وغیرہ کے بعد جو یہ حالت پیش آتی ہے کہ اپنے کو محض عام مسلمانوں کی طرح سمجھتا ہے، نہ وہ ولولہ و جوش ہوتا ہے نہ کوئی دوسرا امرِ امتیاز، یہ حالتِ نزول ہے جو انتہا کے بعد عطا ہوتی ہے۔ اور یہ وہی ہے جس کو حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ نے اس سوال کے جواب میں کہ ”مَا النِّہَایَۃُ؟“ فرمایا تھا: ”اَلْعَوْدُ إِلَی الْبِدَایَۃِ“۔
عقلاً حبِ حق ہی کو ترجیح ہے حبِ شیخ پر:
ارشاد: بعض اوقات فرطِ محبّتِ شیخ سے شبہ ہو جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت مغلوب ہے۔ منشا اس کا ناواقفی ہے، ورنہ واقع میں محبت خدا تعالیٰ ہی کی غالب ہوتی ہے۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ اگر کوئی شخص یہ بات پیش کرے کہ ان دو محبتوں میں سے ایک رہ سکتی ہے جس کو پسند کرو۔ اُس وقت یقیناً حق تعالیٰ ہی کی محبت کو ترجیح دی جائے گی۔ یہ صریح دلیل ہے حق تعالیٰ کی محبت کے غالب ہونے کی۔ مگر یہ محبت باوجود طبعی ہونے کے مشابہ عقلی کے ہے، اس کے آثار لطیف ہیں جس سے شبہ ضعف کا ہوتا ہے، ورنہ قوی یہی ہے اور انسان مامور بہ اس حبِ عقلی کا ہے۔ علاوہ بریں خود حبِ شیخ بھی حبِ حق ہی ہے، کیونکہ للحق ہے۔ "کَانَ الشَّیْخُ وَاسِطَتَہٗ إِلَیْہِ وُصُوْلًا فَاللہُ تَعَالٰی وَاسِطَتُہٗ فِي الثُّبُوْتِ، یُحِبُّ الشَّیْخَ فَکَانَ الْمَحْبُوْبُ الْأَوَّلُ ھُوَ اللہُ تَعَالٰی وَ الشَّیْخُ مَحْبُوْباً بِالْعَرْضِ وَ الْمَوْصُوْفُ بِالذَّاتِ أَقْوٰی مِنَ الْمَوْصُوْفِ بِالْعَرْضِ"۔
حصولِ فراغِ قلب کا طریقہ:
ارشاد: قلب کو ہر وقت ما سوا اللہ سے فارغ رکھنا چاہیے۔ (یعنی دل کسی اور چیز سے لگا ہوا نہ رہے) یہ نہات نافع ہے۔ اس کی تحصیل کا طریقہ یہ ہے کہ جو بات اور جو کام ضروری نہ ہو نہ اس کو دیکھو، نہ سنو، نہ اس کا تصور کرو۔ خواہ یہ چیزیں ماضی کے متعلق ہوں یا مستقبل کے۔
ارشاد: حبِ موت علامتِ ولایت سے ہے۔
ملقِّن کی کن خرابیوں کا اثر ملقَّن پر ہوتا ہے:
ارشاد: دوسرے شخص پر ملقِّن کی ہر خرابی کا اثر نہیں ہوتا، بلکہ ایک تو اُس کا جو بیِّن (واضح) طور پر غیر مشروع ہو اور بکثرت ہو یا قلت سے ہو اور ندامت اور تدارُک نہ ہو۔ یا کوئی عقیدہ و نیت میں خلل ہو، مثل تلبیس و حبِ جاہ و مال وغیرہ۔ ورنہ حسنِ ظن کا اثر غالب اور مدارِ نفع رہتا ہے۔ اسی لیے یہ خدمت سب کر رہے ہیں۔ گو اپنی حالت کو کوئی اچھا نہیں سمجھتا۔
بڑھاپے میں شہوت کا اثر زیادہ ہونے کی وجہ:
ارشاد: بڑھاپے میں جو بعض وجوہ سے شہوت کا اثر زیادہ ہوتا ہے اس کی وجہ ضعفِ تحمّل ہے۔
حفاظتِ نفس کا طریقہ:
ارشاد: جو شخص اپنے نفس پر سوءِ ظن اور اپنی اصلاح و حفاظت کا مراقبہ مع توکُّل علی اللہ رکھتا ہے، وہ محفوظ رہتا ہے۔
افطارِ تحرّی پر قضا لازم نہیں:
ارشاد: اگر شک ہو کہ قبلِ غروب افطار ہو گیا ہے تو مسئلۂ شرعی یہ ہے کہ اگر افطار تحری پر ہوا ہے تو قضا نہیں، لیکن اگر مزید اطمینان کے لیے کوئی قضا رکھ لے تو خرابی نہیں۔
اپنے مال کا انتظام و تحفظ بھی عبادت ہے:
سوال: بھائی کا انتقال ہو گیا ہے، یتامیٰ کی نگرانی میرے سر ہو گئی ہے، ساری جائیداد کا انتظام مجھ پر آ پڑا ہے، حالانکہ اس کے حساب و کتاب سے بالکل نابلد ہوں۔ ان پریشانیوں سے اوراد کی پابندی نہیں ہوتی۔
ارشاد: اپنے مال کی حفاظت بھی عبادت ہے۔ خصوصاً جب کہ دوسرا طریقۂ معاش نہ ہو، اور بدوں انتظام معاش کے دل جمعی نہ ہو، اور بدوں دلجمعی کے طاعت نہ ہو، جیسا کہ اس وقت عام طبائع ضعیفہ کی یہی حالت ہے۔ نیز یتامیٰ کی نگرانی بھی عبادت ہے، جبکہ ان کا کوئی نگران نہ ہو۔ جب یہ سب عبادت ہے تو عبادت سے کیا گھبرانا؟ رہی پریشانی، سو اس کا سبب ناواقفی ہے اور یہ عارضی ہے اور عارضی بھی سریع الزوال ہے۔ پس ایسی سریع الزوال پریشانی جو سبب ہو جائے جمعیتِ دائمہ کی، قابلِ تحمُّل ہے۔ اور اس عارض کے سبب جو ناغہ وغیرہ ہو جائے، قابلِ گواری ہے۔ پس جب تک کام قابو میں نہ آوے ضرور اس میں دخل دیں اور توجہ رکھیں۔ اور ناواقفی کا تدارک کسی واقف خیرخواہ کو شریک کرنے سے کر لیں۔ جب کام قابو میں آ جائے پھر مناسب انتظام کر کے تفرّغ للعبادت کی صورت نکال لیں اور ایسے تفرّغ کے میسر ہونے تک اوراد میں اختصار کو گوارا کر لیں۔ مگر مداومت کی کوشش کریں اور اہل اللہ کے ملفوظات اور حالات کا مطالعہ کبھی ناغہ نہ کریں۔ خواہ روزانہ پانچ ہی منٹ کے لیے ہو۔
ادب کا طبعی ہو جانا:
ارشاد: ادب کا طبعی ہو جانا حالتِ مطلوبہ ہے۔
اعزاء کی عدمِ محبت بھی نعمت ہے:
ارشاد: اگر اعزاء محبت نہ رکھیں تو اس سے راحت ہونا چاہیے کہ خدا تعالیٰ نے غیر اللہ سے دل برداشتہ ہونے کا سامان فرمایا۔
طبیبِ باطن کی تجویز سے صحتِ باطنی معلوم ہوتی ہے:
ارشاد: طبیبِ باطن کسی مرض کو بھی لاعلاج نہیں کہتا۔ یوں تو اصل فنِ طب کی رو سے کوئی صحیح نہیں، اسی طرح اصل فنِ تربیت کے اعتبار سے کوئی مہذّب نہیں، لیکن ماہرِ فن کا حکم مقدم ہے استدلال بالکلیات پر۔ اور لِم (وجہ) اس کی یہ ہے کہ ہر شخص کی صحت اس کے خاص مزاج کے اعتبار سے ہے، پس جس طرح ایک ماہر طبیب کا کسی کی نبض اور قارورہ دیکھ کر تندرست بتلانا معتبر ہے، اسی طرح طبیبِ باطن کی تجویز کسی کی صحتِ باطنی کے متعلق صحیح و معتبر سمجھی جائے۔
طبِ جسمانی و روحانی کی کتابوں کا حکم:
ارشاد: طب، خواہ جسمانی ہو، یا روحانی، کی کتابیں اطباء کے لیے ہیں، نہ کہ مریضوں کے لیے۔ مریضوں کے لیے تو طبیب کا قول بھی کتاب ہے۔ مبتدی کے ذمہ یہ ہے کہ محض کتابوں پر عمل نہ کرے، بلکہ اپنے حالات کسی مصلح کے سامنے پیش کر کے علاج پوچھے۔ البتہ اگر مصلح خود کوئی کتاب دیکھنا تجویز کردے، اُس وقت وہ کتاب بھی بمنزلہ مصلح کے خطاب کے ہے۔
اصل مقصود توجہ الی الحق ہے:
ارشاد: اصل مقصود توجہ الی الحق ہے، خواہ ذکر سے خواہ تلاوت سے۔
تجلئ ذاتی و تجلئ مثالی کی تعریف:
ارشاد: تجلئ ذات اصطلاحی لفظ ہے، اس کے معنی ہیں: "إِلْتِفَاتٌ إِلَی الذَّاتِ مِنْ غَیْرِ الْتِفَاتٍ إِلَی الصِّفَاتِ وَ الْأَفْعَالِ"۔ بخلاف تجلئ مثالی کے، وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کو مثالاً دیکھے۔
سلوک کا اصل علاج قدرت و ہمت کا استعمال کرنا ہے:
ارشاد: اگر کوئی قدرت و ہمت کا استعمال ہی نہ کرے تو اس کا کیا علاج ہے؟ اس سے تو بس یہ کہہ دے کہ اصل علاج قدرت و ہمت کا استعمال کرنا ہے۔ اگر ہماری تعلیم صحیح نہ ہو اور کہیں جائیے۔ (یعنی اس سے استغنا برتے)۔
کدورت کا تدارک استغفار سے کرنا چاہیے:
ارشاد: ضروریات کے سبب کدورت کو بھی قبول کرے، اور اس کے تدارک کے لیے استغفار بھی کرے۔ یہ عین سنت کے موافق ہے اس کی دلیل یہ ہے: "لَيُغَانُ عَلٰى قَلْبِيْ وَ إِنِّيْ لَأَسْتَغْفِرُ اللهَ" (سنن أبي داوٗد، کتاب الصلٰوۃ، باب فی الاستغفار، رقم الحديث: 1515)۔ مثلاً اگر کسی کو کسبِ معاش میں مشغولی ہو اور اس وجہ سے ذکر کا موقع کم ملے تو استغفار سے اس کا تدارک کرے۔
آثار انتہائے طریقِ سلوک:
ارشاد: (1) یقین کالمشاہدہ کا حاصل ہو جانا، (2) اپنا و اغیار کا وجود چشمِ باطن میں فنا کالعدم ہوجانا، (3) بالکل یکسو ہو کر قلب کا ذکر و مذکور کی طرف مائل و متوجہ ہوجانا، (4) جمیع تعلقات و جملہ حالات کا باطن سے غائب و فنا ہوجانا، (5) مدام (ہمیشہ) باہوش و صاحبِ فکر رہنا، (6) اپنی و اغیار کی ذات بلکہ ہر دو جہاں اور جملہ ما سوا سے بالکل قلب کا آزاد و فارغ ہو جانا، (7) رضا و تسلیم کا عادی و خوگر بن جانا، (8) جملہ حالات و جمیع معاملات میں مشیّت و مرضئ مولا پر بدِل و جان راضی و خوش رہنا۔
ورد و عمل کا حصہ مطالعۂ کتب سے زیادہ ہونا چاہیے:
ارشاد: ورد و عمل کا حصہ زیادہ ہونا چاہیے بہ نسبت مطالعۂ کتب کے۔ اکثر شوقِ مطالعہ کا سبب حظِ مضمون ہوتا ہے، نہ کہ حبِّ ذکر۔
مجذوب کی خدمت اور ان کی دی ہوئی چیز کا حکم:
ارشاد: مجذوب کی خدمت اگر ہو سکے کر دے، لیکن توجہ کا ان سے ہرگز طالب نہ ہو۔ اور اگر ان کے حواس کی درستی میں شبہ ہو تو ان کی دی ہوئی چیز کو بھی نہ لے۔ اگر لے لے تو اس سے لُقطہ (راہ سے اٹھائی ہوئی چیز) کا معاملہ کرے۔
کسل و تعطُّل عبدیت نہیں:
تعلیم: ترکِ عمل کسل و تعطُّل کو عبدیت نہ سمجھ لیا جائے، عبدیت کے لیے حرکت فی العمل لازم ہے۔ عبدیت یہ ہے کہ چلائیں تو چلیے، ٹھرائیں تو ٹھہریے، نہ اس کی تمنا ہو، نہ اس سے انکار ہو، پھر ایسے علوم عطا ہوں گے کہ ان کے سامنے علمِ اسرار بھی کچھ نہیں۔
اعمال کا اثر باقی رہتا ہے:
ارشاد: اعمال کے انقضا سے ان کا اثر منقضی نہیں ہوتا، بلکہ جمع رہتا ہے۔ جیسے ایک نوکر جو کام کرتا ہے کام تو ختم ہو جاتا ہے، مگر تنخواہ چڑھ جاتی ہے مگر مہینے کے ختم پر ملے گی۔
نسبت إلی الاسباب عوام کے لیے رحمت ہے:
ارشاد: عوام جو اسباب کی طرف واقعات کی نسبت کرتے ہیں اس میں ایک بڑی غیبی مصلحت ہے، وہ یہ کہ اکثر عوام کے قلب میں حق تعالیٰ کا عشق کم ہے اور بعض حوادث طبعاً ناگوار ہوتے ہیں، اگر ان لوگوں کی نظر اسباب پر نہ ہو اور براہِ راست حق تعالیٰ کی طرف نسبت کریں تو حق تعالیٰ کی طرف سے قلب میں ناگواری و کراہت پیدا ہو۔ تو نسبت الی الاسباب وقایہ ہے، اس کی یہ بڑی حکمت ہے۔ اس حکمت پر نظر کر کے عوام کی اس نسبت کو رحمت اور غنیمت سمجھنا چاہیے۔
رزقِ بے فکری کی حقیقت:
ارشاد: دنیا میں رزق بے فکری سے ملنے کی حقیقت وہ ہے جس کو حق سبحانہٗ تعالیٰ نے اس آیت میں "خَالِصَۃً" سے تعبیر فرمایا ہے: ﴿قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِيْنَةَ اللهِ الَّتِيْ أَخْرَجَ لِعِبَادِهٖ وَ الطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ هِيَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَّوْمَ الْقِيَامَةِ...﴾ (الأعراف: 32) یعنی دنیا میں بے فکری کا رزق وہ ہے جس پر کوئی وبال یا کسی قسم کا مؤاخذہ آخرت میں نہ ہو۔
مجاہدہ کی توفیق علامتِ وصول ہے:
ارشاد: اگر خدا تعالیٰ نے مجاہدہ کی توفیق دے رکھی ہو تو سمجھ لے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ ضرور رسائی ہوگی۔ کیونکہ مجاہدہ پر رسائی کا وعدہ ہے اور وعدہ خلافی کا احتمال نہیں۔
عروج و نزول کی شناخت:
ارشاد: اسماء کو چھوڑ کر مسمیٰ کی طرف توجہ کرنا عروج کے آثار میں سے ہے۔ اور نزول اس سے بھی اکمل ہے، وہ یہ کہ ہمارا مرتبہ اتنا نہیں جو توجہ الی المسمیٰ بلاواسطہ اسماء کے قابل ہوں، اسی راز کی وجہ سے ﴿وَ اذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ...﴾ (المزمل: 8) فرمایا گیا۔
اخفا و اظہارِ عمل کے کمال ہونے کا معیار:
ارشاد: ظاہر میں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اخفاءِ عمل عمدہ حالت ہے، مگر کمال یہ ہے کہ اظہار ہو (بغرضِ تحدیث بالنعمۃ یا ارشادِ متعلمین) مگر دعویٰ نہ ہو۔ اور اس سے بڑھ کر کمال یہ ہے کہ اگر دعویٰ بھی ہو مگر اپنے اوپر نظر نہ ہو۔
عاشق کو ملامتِ اغیار مانعِ محبت نہیں:
ارشاد: عاشق کو ملامتِ اغیار محبت سے مانع نہیں ہوتی، بلکہ ملامت سے تو عشق کی گرم بازاری ہے۔
عشاق کا ہر مشکل کام کے لیے تیار ہو جانے کا راز:
ارشاد: عشاق ہر مشکل سے مشکل کام کے لیے تیار ہو جاتے ہیں، کیونکہ وہ سمجھے ہوئے ہیں کہ ہمارا کام تو طلب ہے، اور اپنی ہمت کے موافق عمل شروع کر دینا، آگے پورا ہونا نہ ہونا ہمارے قبضے میں نہیں، یہ تو اسی معشوقِ حقیقی کے قبضہ میں ہے۔
؎ ملنے کے اور نہ ملنے کے مختار آپ ہے
پر تجھ کو چاہیے کہ تگ و دو لگی رہے
صاحبِ تصرُّف کے مقتول کا حکم:
ارشاد: اگرصاحبِ تصرّف سے کسی کا قتل ہو گیا ہو تو صاحبِ تصرّف قاتلِ شبہ عمد ہے۔ شبہ عمد کا کفارہ واجب ہے۔ یعنی ایک غلام مؤمن آزاد کرنا، یہ نہ ہو سکے تو دو مہینے پے در پے روزے رکھنا اور اللہ تعالیٰ سے توبہ استغفار کرنا۔ کیونکہ قتل حق اللہ اور حق العباد دونوں میں سے ہے۔ البتہ اگر وہ شخص (مقتول) مباح الدم تھا، تو کچھ گناہ نہیں ہوا۔
بد دعا سے ہلاکت کا حکم:
ارشاد: اگر بد دعا سے کوئی ہلاک ہوا تو اگر وہ بد دعا کا اہل تھا تو کچھ گناہ نہیں ہوا، اور اگر بد دعا کا محل نہ تھا تو بد دعا کا گناہ ہوا جس سے توبہ و استغفار لازم ہے، کفارۂ قتل لازم نہیں۔
تصرُّفِ حرام کی ایک قسم:
ارشاد: ایسا تصرف جس سے دوسرے شخص کی آزادی سلب ہو جائے اور خواہ مخواہ صاحبِ تصرّف کا کہنا مان لے، حرام ہے۔
ارادہ یقینی الوجود ہوتا ہے:
ارشاد: ارادہ و اختیار ایسی چیز نہیں کہ اس میں شاید کی گنجائش ہو، وہ تو یقینی الوجود ہوتا ہے۔
نحوست کی حقیقت اور تشویشاتِ کونیہ کا علاج:
ارشاد: نحوست کی حقیقت بجز معصیت کے اور کچھ نہیں، اس کے لیے غیر معاصی علامتِ نحوست ہو ہی نہیں سکتے۔ واقعات و حوادث و تشویشاتِ کونیہ کا علاج صرف توکُّل اور تفویض اور اپنی خیالی تجویزوں کا ترک کر دینا ہے، نہ کہ تدبیروں کا۔
حضرات انبیاء علیہم الصلوۃ و السلام کے صالحین ہونے کے معنیٰ:
ارشاد: حضرات انبیاء علیہم السلام میں فطرةً ہی اخلاق مذمومہ نہیں ہوتے، جن کا تقاضا درجہ عزم تک پہنچ سکے۔ وہ حضرات صالحین ہوتے ہیں، نہ کہ مصلَحین بفتح اللام۔
مطالعۂ مواعظ کا اثر باقی رہتا ہے:
ارشاد: مواعظ وغیرہ پڑھ کر اگر مضمون یاد بھی نہ رہ جائے تو بھی کچھ ضرر نہیں، کیونکہ اثر باقی رہتا ہے۔ جس طرح یہ تو یاد نہیں رہتا کہ میں نے کسی وقت کیا کھایا تھا، مگر ان غذاؤں کا جو اثر ہے (یعنی قوت) وہ باقی رہ جاتی ہے۔
عزیمت و رخصت کا محل:
سوال: ایک دوست جن کے بچے میری نگرانی میں ہیں، وہ اپنے بچوں کے کھانے کے متعلق اتنی رقم دیتے ہیں کہ یقیناً ان کا کچھ بچ رہتا ہوگا۔ مگر اشتراک میں حساب کا رکھنا سخت دشوار ہے، اس لیے رخصت پر عمل کیا، جس پر وہ دوست دل سے راضی ہیں۔
جواب: عزیمت اور رخصت کے دو درجے وہاں ہوتے ہیں جہاں صاحبِ حق یہ دو درجے خود مقرر کر دے۔ اور جب اس دوست کی طرف سے یہ تقسیم نہیں تو جس کو آپ رخصت سمجھتے ہیں وہ عزیمت ہی ہے، یعنی جائز نہیں۔
حبس للزائر مجاہدہ و طاعت ہے:
ارشاد: کسی کی دل جوئی کے لیے اپنے کو محبوس کرنا مجاہدہ اور طاعت ہے، خواہ امیر ہو یا غریب، مگر کیفیت دل جوئی کی ہر شخص کی جدا ہے اُس (زائر) کی حالت و طبیعت و عادت کے تفاوت سے۔ یعنی امراء کی مجموعی حالت و طبیعت و عادت ایسی ہے کہ جب تک زیادہ توجہ ان کی طرف نہ کی جائے وہ خوش نہیں ہوتے۔ اور غرباء تھوڑی توجہ سے راضی ہو جاتے ہیں۔ اس لیے دونوں کی دلجوئی کے طریق میں ایسا تفاوت مذموم نہیں۔ البتہ غرباء کو یا تو اٹھایا نہ جائے، خود اٹھ جائے کسی بہانہ سے اور اگر اٹھانا ہی پڑے تو بہت نرمی سے، مثلاً یہ وقت میرے آرام کا ہے، آپ بھی آرام کیجئے ''وَ مِثْلُ ذَالِکَ''۔
جذب فضل کا طریق:
ارشاد: اطلاع و اتباع کا سلسلہ نہ چھوڑا جائے، گو بے انتظامی ہی سے سہی، اس کے ساتھ دعا اور التجاء کا بھی خاص اہتمام چاہیے۔ ان شاء اللہ فضل ضرور ہو گا۔
برکتِ اعمالِ مسنونہ:
ارشاد: انتہائے سلوک کے بعد تو اعمالِ مسنونہ ہی میں نسبت احسان کی حاصل ہونے لگتی ہے۔ اور خلافِ سنت حجاب معلوم ہونے لگتا ہے۔
نجات و قرب فکرِ تکمیل پر موعود ہے نہ کمال پر:
ارشاد: پورا کامل بجز انبیاء علیہم السلام کے کوئی نہیں۔ اور وہ کاملین کبھی اپنے کو کامل نہیں سمجھتے، سب کو اپنے نقص نظر آتے ہیں، خواہ وہ نقص حقیقی ہو یا اضافی۔ اور نقص نظر آنے سے مغموم بھی ایسے ہوتے ہیں کہ اگر ہم جیسوں پر وہ غم پڑجائے تو کسی طرح جانبر نہیں ہو سکتے۔ پس کمال کی تو توقع ہی چھوڑنا واجب ہے، ہاں سعی کمال کی توقع بلکہ عزم واجب ہے۔ اور نجات بلکہ قرب بھی کمال پر موقوف نہیں، بلکہ محض فکرِ تکمیل پر موعود ہے ﴿إِنَّ اللہَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ﴾ (الرعد: 31)۔ بس اسی فکرِ تکمیل میں عمر ختم ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے، وَ ھٰذَا ھُوَ مَعْنٰی مَا قَالَ الرُّوْمِيُّ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ:
؎ اندریں رہ می تراش و می خراش
تا دمِ آخر دمے فارغ مباش
تا دمِ آخر دمے آخر بود
کہ عنایت با تو صاحب سر بود
چنانچہ میں بھی اسی کشمکش میں مبتلا ہوں، مگر اس کو مبارک سمجھتا ہوں، جس کا اثر یہ ہے کہ یہ سمجھ نہیں سکتا کہ خوف کو غالب کہوں یا رجا کو، مگر مضطر ہو کر اس دعا کی پناہ لیتا ہوں، "اَللّٰھُمَّ کُنْ لِّيْ وَ اجْعَلْنِيْ لَکَ"۔
غمِ دین سنت ہے:
ارشاد: دین کی فکر میں مغموم رہنا عین سنت ہے۔ "کَانَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ مُتَوَاصِلَ الْأَحْزَانِ دَائِمَ الْفِکْرَةِ" (مجمع الزوائد، کتاب علامات النبوۃ، باب: صفتہ صلی اللہ علیہ وسلم، رقم الحدیث: 14026)
خلوت پسندی سنت ہے:
ارشاد: خلوت پسندی بھی عین سنت ہے۔ فِيْ حَدِیْثِ الْوَحْيِ: "حُبِّبَ إِلَیْہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ الْخَلَاءُ" (الصحیح للبخاری، باب بدء الوحی، رقم الحدیث: 3)
کاوش لا یطاق نہ چاہیے:
ارشاد: جو بات باوجود اہتمام کے سمجھ میں نہ آئے انسان اس کا مکلّف نہیں، اس لیے کاوش نہ کرے۔
عہدیداران خلاف شرعی سے تسامح کیوں کر لیا جائے:
سوال: بعض سرکاری عہدے ایسے ہیں کہ ان سے تعلق رکھ کر شریعت کی پابندی ناممکن ہے، بعض حکام کو پھانسی تک کا مدار ان کے حکم پر ہے، جس میں اُن سے قانونِ شرعی کی رعایت یقیناً ناممکن ہے۔ پس ایسے لوگ اگر اصلاح کا تعلق پیدا کریں، تو اس باب میں کیا مشورہ دیا جائے؟ کیونکہ ایسے عہدوں سے مسلمانوں کا دست بردار ہو جانا بھی بہت سے مصالح کے خلاف معلوم ہوتا ہے۔ کیا ایسوں سے اس باب میں چشم پوشی کی جائے؟ مگر جب خود ہی استفسار کریں تو بجز اس کے کیا کہا جا سکتا ہے کہ ہاں عالی ہمتی کا مقتضا بالکلیہ اس عہدہ سے علیحدہ ہو جانا ہے کیونکہ:
؎ زند عالم سوز را با مصلحت بینی چہ کار
ارشاد: چشم پوشی اظہارِ حقیقت سے کرنا اس کی تو کوئی وجہ نہیں، خصوصاً جب وہ خود استفسار کریں، البتہ اگر ان پر حقیقت پہلے سے ظاہر و واجب نہیں، لیکن اشتراط میں تسامح کرنا اس طور پر کہ اگر سب امراض زائل نہ ہوں، بعض کا ہی زائل ہوجانا غنیمت ہے مضائقہ نہیں۔
ایمانِ حاصل پر جب تک اس کی ضد طاری نہ ہو وہ حاصل ہے:
ارشاد: ایمانِ حاصل پر جب تک اس کی ضد طاری نہ ہو وہ حاصل ہے، ہر وقت اس اعتقاد کا استحضار شرط نہیں۔ جب وہ حاصل ہے تو اس کے سب لوازمات نجات وغیرہ اس پر مرتب ہوں گے۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ کسی چیز سے ذہن کا خالی ہونا مستلزم اس چیز کی نفئ ذات یا صفات کو نہیں۔
سالک کے واجبات:
ارشاد: سالک کے لیے بزرگوں کی اطاعت و ادب اور علم اور لباس میں سادگی اور ترک وضع اہلِ باطل کی ضروری ہے۔
حکم گناہِ تاخیرِ حج:
ارشاد: حدیث میں ہے: "مَنْ أَرَادَ الْحَجَّ فَلْیَتَعَجَّلْ" (سنن ابن ماجه، كتاب: المناسك، باب الخروج إلى الحج، رقم الحديث: 2883) جو حج کا قصد کر لے اس کو جلدی کرنا چاہیے۔ ہمارے آئمہ تصریح کرتے ہیں کہ حج میں تاخیر کرنے سے ایک دو سال تک تو گناہِ صغیرہ کا گناہ ہوتا ہے اور اس کے بعد اصرار میں داخل ہو کر گناہِ کبیرہ ہو جاتا ہے، مگر جب حج کر لے گا تو یہ تاخیر کا گناہ بھی معاف ہو جائے گا۔ کیونکہ اس میں گناہ اسی لیے تھا کہ فوت کا خطرہ تھا۔
خطرۂ حج اور اس کا علاج:
ارشاد: حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ حجرِ اسود کسوٹی ہے، اس کے چھونے سے انسان کی اصلی حالت ظاہر ہو جاتی ہے۔ اگر واقعی فطرةً صالح ہے تو حج کے بعد اعمالِ صالحہ کا غلبہ اس پر ہوگا، اور اگر فطرةً طالع ہے، محض تصنّع سے نیک بنا ہوا ہے تو حج کے بعد اعمال سیئہ کا غلبہ ہوگا۔ اسی لیے حاجی کی حالت خطرناک ہے اور اس خطرہ کا علاج یہ ہے کہ حاجی زمانۂ حج میں اللہ تعالیٰ سے اپنی اصلاح کی خوب دعا کرے۔ اور دل سے اعمالِ صالحہ کے شوق کی دعا کرے اور حج کے بعد اعمالِ صالحہ کا خوب اہتمام کرے۔
نا اہل کے عہدہ کو تسلیم کرنا اور اس کی جاہ کی اعانت کرنا ناجائز ہے:
ارشاد: جس انجمن کا سیکرٹری نا اہل ہو اس میں شرکت کرنا سیکرٹری کی جاہ بڑھانا ہے اور نا اہل کی جاہ بڑھانا اور اس کے عہدہ کو تسلیم کرنا خود ناجائز ہے، ہاں اگر کوئی اس واسطے شرکت کرے ایسے نا اہلوں کو معزول کرنے میں سعی کرے تو جائز ہے۔
عورت کی معافی کو قبول نہ کرنا:
ارشاد: غیرت کا مقتضا یہی ہے کہ عورت کی معافی کو قبول نہ کرو، بلکہ تم اس کے ساتھ خود احسان کرو۔
ادبِ ہدیہ:
ارشاد: ایک ادب ہدیہ کا یہ ہے کہ اس طرح پیش کرے کہ مہدی الیہ کو گرانی نہ ہو۔ اسی طرح ایک ادب یہ ہے کہ مہدی کو گرانی نہ ہو۔
آج کل کے ولولۂ حمایتِ اسلام کا منشا:
ارشاد: آج کل جو لوگوں کو اسلامی درد ہے یا حمایتِ اسلام کا ولولہ ہے وہ محض قوم پرستی اور ہمدردی قومی اور طلبِ جاہ سے ناشی ہے، طلب رضائے حق سے ناشی نہیں، ورنہ احکام کا اتباع ضرور ہوتا ہے۔
عبدیت کی تعریف:
ارشاد: عبدیت تو اسی کا نام ہے کہ احکام شرعیہ کا اتباع کرے اور مصالح کی پرواہ نہ کرے۔ انجن کو کیا حق ہے کہ راستہ میں ڈرائیور کے ٹھہرانے کے بعد نہ ٹھہرے۔ بلکہ اس کو ڈرائیور کے ٹھہرانے کے بعد فوراً ٹھہر جانا چاہیے۔
عدمِ رضائے حق کے ساتھ بقائے سلطنت مطلوب نہیں:
ارشاد: ہم کو تو رضائے حق مطلوب ہے، بقائے سلطنت مطلوب نہیں۔ اگر قانونِ اسلام رائج کرنے سے سلطنت جاتی رہے گی، بلا سے جاتی رہے۔ کیونکہ اس صورت میں اللہ تعالیٰ تو ہم سے راضی رہیں گے۔ اور دوسرا قانون جاری کرنے سے فرض کر لو، سلطنت باقی رہے گی مگر خدا تعالیٰ ہم سے ناراض ہو جائیں گے تو ایسی سلطنت تو فرعون کو بھی حاصل تھی۔
آدابِ مہمان و میزبان:
ارشاد: (1) جس کے یہاں مہمان ہو اس کو اپنے معمولات کی پہلے ہی اطلاع کردے، دستر خوان پر بیٹھ کر اپنے معمولات بیان کرنا تہذیب کے خلاف ہے۔ (2) میزبان مہمان کے اوپر مسلط ہو کر نہ بیٹھے، بلکہ اس کو آزاد چھوڑ دے کہ جس طرح چاہے کھائے۔ (3) میزبان کے ہاتھ شروع میں پہلے دھلائے جائیں اور کھانا بھی اول میزبان کے سامنے رکھا جائے۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے مہمان ہوئے تو امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے خادم سے فرمایا کہ پہلے میرے ہاتھ دھلاؤ، اور میرے سامنے کھانا پہلے رکھو۔ کیونکہ مقصود مہمان کو راحت دینا ہے اور مہمان کو راحت اسی میں ہے کہ پہلے میزبان ہاتھ دھوئے اور کھانا شروع کردے، اس سے مہمان بے تکلّف ہو جاتا ہے۔
جاہل صوفی کی مثال:
ارشاد: جاہل صوفی کی مثال اگرچہ وہ تر ہے، مگر جمنا کی بھنور کی مانند ہے کہ لوگوں کے ایمان کو غرق کرتا ہے۔ اور عالمِ خشک کی مثال جمنا کی ریت کی مانند ہے کہ گو خشک ہے، مگر اس میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔
فضیلتِ علم:
ارشاد: فضیلتِ علم کا منشا یہ ہے کہ وہ شرطِ عمل ہے، کیونکہ عبادت بدوں علم کے نہیں ہوسکتی اور جو ہوتی ہے وہ عبادت کی محض صورت ہوتی ہے، حقیقت نہیں ہوتی۔ باوجود اس کے لوگ علم کی طرف توجہ نہیں کرتے، اگر کسی کو دین کی طرف توجہ کی توفیق ہوتی ہے تو وہ مسجد بنواتا ہے، مسجد میں رقم لگاتا ہے، مدارس کی امداد نہیں کرتا۔ چنانچہ لوگ مسجد میں تو تیل بہت دیتے ہیں مگر طلبہ کی خدمت نہیں کرتے۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے "فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَی الْعَابِدِ کَفَضْلِيْ عَلٰی أَدْنَاکُمْ" (سنن الترمذي، أبواب العلم عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، باب: ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ، رقم الحديث: 2685 )۔
بھلائی ہی پر ہمیشہ جمے رہنا چاہیے:
ارشاد: فرمایا کہ تم بھلائی سے کیوں باز نہیں آتے ہو جب وہ برائی سے باز نہیں آتا؟ مطلب یہ کہ وہ تو بُرائی پر جما ہوا ہے اور تم سے بھلائی پر بھی جما نہیں جاتا، حالانکہ بھلائی ایسی چیز ہے کہ اس پر ہمیشہ جما رہنا چاہیے۔
مریض کی اصلاح کا احسن طریقہ:
ارشاد: مصلح اگر مریض کی بات کو مان کر اصلاح کرے تو مریض کا دل بڑھتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نماز کی گرانی کو تسلیم کر کے گرانی کا علاج بتا دیا ہے۔ حالانکہ نماز میں کوئی گرانی کی بات نہیں۔ ﴿إِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ﴾ (البقرة: 45)
تعلق مع اللہ کی خاصیت:
ارشاد: تعلق مع اللہ کی خاصیت تو یہ ہے:
؎ آں کس کہ ترا شناخت جاں راچہ کند
فرزند و عیال دخا نماں را چہ کند
زانگہ کہ یافتم خبر از ملکِ نیم شب
من ملک نیم روز بیک جونمی حرام
فیضِ جاریہ میں مدرسہ کو ترجیح ہے:
ارشاد: چونکہ خانقاہ کے اندر بعد میں بدعات (مثلاً عُرس، قوالی، گدی نشینی وغیرہ کا قصہ) ہونے لگتی ہیں، اس لیے فیضِ جاریہ کے لیے بجائے خانقاہ کے مدرسہ بنانا مناسب ہے، جس میں اخلاق اور تعلیم اور سلوک کا کام کیا جائے کہ وہی مدرسہ بھی ہو گا، وہی خانقاہ بھی ہو گی، کیونکہ حقیقی مدرسہ وہ ہے جس میں علم کے ساتھ عمل کی بھی تعلیم اور نگہداشت ہو۔ بعض لوگ صرف تعلیم کی امداد کو صدقہ جاریہ کہتے ہیں یہ غلط ہے، بلکہ مدرسہ کی تعلیم اور طلباء کے کھانے پینے، کپڑے کی امداد سب صدقاتِ جاریہ ہیں، کیونکہ سب سے تعلیم ہی کو امداد پہنچتی ہے۔
قرآن مطب روحانی ہے:
ارشاد: قرآن مطب روحانی ہے اور مطب میں ترتیبِ نسخہ جات ضروری نہیں، قرآن کا طرز مصنفین کا نہیں، بلکہ معالجین کا سا طرز ہے۔
رفع شبہِ تکلّمِ اعضاءِ انسان:
ارشاد: اگر کسی کو شبہ ہو کہ اعضاء غیر ذی شعور ہیں، ان کو اعمال و افعال کی کیا خبر اور وہ کس طرح بولیں گے؟ تو سمجھ لو کہ فوٹو گراف بھی تو غیر ذی شعور ہوتے ہیں، ان میں آواز کیسے پیدا ہو جاتی ہے؟ وہ کس طرح بولتا ہے؟ اسی طرح ممکن ہے کہ حق تعالیٰ نے اعضاءِ انسانی میں بھی یہ خاصیت رکھی ہو کہ سارے اعمال اُن میں منقش ہو جاتے ہیں۔ پھر بھی جب حق تعالیٰ ان میں نطق کی قوت پیدا کر دیں گے تو فوٹو گراف کی طرح سب باتوں کو ظاہر کر دیں گے۔
اعمال مؤثِّر بہ تاثیر حقیقی نہیں:
ارشاد: ہمارے اعمال محض علامات میں سے ہیں، ان کو دیکھ کر ظنی طور پر یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس کو نوازنا منظور ہے اور دوسروں کو نکالنا منظور ہے۔ باقی یہ اعمال مؤثر بہ تاثیر حقیقی ہرگز نہیں، اور قرآن جو جا بجا ﴿جَزَاءً بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ﴾ (السجدة: 17) فرمایا ہے یہ ہمارا جی خوش کرنے کے لیے ہے۔
سنگدل اور قوی دل کا فرق:
ارشاد: تجربہ ہے کہ شجاع یعنی قوی دل ہمیشہ رحم دل ہوتا ہے۔ سنگدلی اکثر بزدلوں میں ہوتی ہے۔ بس عورتیں مردوں سے زیادہ رحم دل نہیں بلکہ ضعیف القلب ہیں اور مرد سنگدل نہیں ہیں بلکہ قوی القلب ہیں۔
"اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ":
ارشاد: عارفین رحمۃ اللہ علیہم دنیا کو قید خانہ سمجھتے ہیں اور ان کو یہاں سے نکلتے ہوئے وہی خوشی ہوتی ہے جو جیل خانہ سے نکلتے ہوئے ہوتی ہے۔
؎ عجب کیا مگر مجھے عالم بہ ایں مقصود زنداں ہو
میں وحشی بھی تو وہ ہوں لامکاں جس کا بیاباں ہے
؎ خرم آں روز کزیں. ویراں بردم
راحت جاں طلبم و زپئے جاناں بردم
نذر کر دم کہ گوآید بسر ایں غم روزے
تا در میکدہ شاداں و غزل خواں بردم
؎ مفلسا نیم آمدہ در کوئے تو
''شَیْئًا لِّلہِ'' از جمال روئے تو
دستِ بکشا جانب زنبیل ما
آفریں بردست و بر بازوئے تو
عارف کے لیے در حقیقت موت کا دن خوشی کا دن ہے بلکہ ترقی کر کے کہتا ہوں کہ محرم بھی مسلمان کے لیے خوشی کا دن ہے، کیونکہ دنیا مصیبت کدہ ہے تو جو شخص مرتا ہے اس کی مصیبت کے دن کٹ رہے ہیں، اب آخرت میں جا کر راحتِ کاملہ حاصل ہو گی۔ اگر گنہگار مسلمان کو کچھ دن جہنم میں رہنا پڑے تو وہ بھی راحت ہے کیونکہ مسلمان کے لیے جہنم میں جانا تزکیہ ہے عذاب نہیں ہے۔ جیسے یہاں حمام کا دخول تنظیف کے لیے ہوتا ہے گو اس میں کچھ تکلیف بھی ہوتی ہے یا یوں سمجھئے کہ مسہل اور آپریشن میں کیسی تکلیف ہوتی ہے بعض لوگ رونے لگتے ہیں، مگر خوش بھی ہوتے ہیں کہ اس آپریشن کا انجام صحت و راحت ہے اسی طرح گنہگار مسلمان کو بھی موت پر خوش ہونا چاہیے اور یہ سمجھ لے کہ اگر جہنم میں جانا بھی ہوا تو تزکیہ اور آپریشن کے لیے جانا ہو گا جس کا انجام صحت و راحت اور عافیت ہے۔
اولاد کے مرنے پر عارف کے رونے اور راضی رہنے کی حکمت:
ارشاد: عارف کے نزدیک اولاد کا یہ بھی حق ہے کہ اس کے مرنے پر رویا جائے اور اس کے ساتھ حق تعالیٰ کا بھی حق ادا کرتا رہے کہ دل میں راضی رہتا ہے، کیونکہ اس واقعہ کی حکمت اس پر منکشف ہو چکی ہے کہ اس سے میری تربیت منظور ہے کہ صفتِ رحم فنا نہ ہو بلکہ باقی رہے۔
ذاتِ حق کی تجلی کا اثر:
ارشاد: جس پر ذات حق کی تجلی ہوگی، وہ یقیناً سراپا احتیاج اور سراپا غلام بن کر کھانا کھائے گا۔ اس کے ہاتھ سے اگر لقمہ گر پڑے گا تو فوراً ہاتھ سے صاف کر کے کھا لے گا اور ہرگز اس کو پڑ ہوا نہ چھوڑے گا۔
احکامِ شرعیہ کی مصالح و حِکم دریافت کرنے کا طریقہ:
ارشاد: شفیق باپ اپنے بچہ کو حکمتیں نہیں بتلایا کرتا، بلکہ جس کام میں اس کی مصلحت دیکھتا ہے، اس کا امر کرتا ہے، چاہے بیٹا حکمت سمجھے یا نہ سمجھے، اور اگر وہ سعادت مند ہے اور باپ کی احکام کی تعمیل کرنے لگا تو عمل کے بعد اس کو خود ہی ان احکام کے مصالح و حِکم معلوم ہو جائیں گے۔ اسی طرح احکامِ شرعیہ کے مصالح و حِکم دریافت کرنے کا یہ طریقہ نہیں کہ پہلے حکمتیں معلوم کرو، پھر عمل کرو۔ بلکہ عمل شروع کر دو، عمل ہی سے تم کو حکمتوں کا علم بھی ہو جائے گا۔
احکامِ شرعیہ طبعی تقاضا کے موافق:
ارشاد: احکامِ شرعیہ عین تقاضائے طبعی کے موافق ہیں۔ صرف حدود میں طبعی منازعت رہتی ہے، مگر یہ منازعت بے جا ہے، کیونکہ ہر کام کے لیے حدود کا ہونا ضروری ہے، بدوں حد کے کوئی شئ مستحسن نہیں، خصوصاً جب کہ یہ دیکھا جائے کہ حدودِ شرعیہ سے آگے ہلاکت ہے۔ یہیں سے معلوم ہوگا کہ احکامِ شرعیہ کی مخالفت سے دنیا کی بھی بے حلاوتی ہے، کیونکہ یہ مخالفت کرنے والا خود اپنی طبیعت کے خلاف کام کر رہا ہے اور اس سے بڑھ کر کیا بے حلاوتی ہوگی کہ طبعی تقاضا کو مردہ کیا جائے۔ اور یہ بھی معلوم ہوگا کہ مطیعین کی زندگی شاہانہ زندگی ہے کہ ان کا ہر کام طبیعت کے موافق ہے۔
اثرِ عشق:
ارشاد: عشق میں بس اس کا ضابطہ تو رہ جاتا ہے کہ شرعی حدود پر رہے، باقی سب رخصت۔
مضامینِ ملہَمیہ کا ورود جنگل میں:
ارشاد: مضامین ملہَمیہ کا ورود جنگل میں زیادہ ہوتا ہے، شہر میں کم ہوتا ہے۔ شائد اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں قلب کو فراغ زیادہ ہوتا ہے، یا یہ کہ وہاں معاصی کا صدور کم ہوتا ہے۔
تجلیات و انوارات قابلِ التفات نہیں:
ارشاد: "کُلُّ مَا خَطَرَ بِبَالِکَ فَہُوَ ھَالِکٌ وَّ اللہُ أَجَلُّ مِنْ ذَالِکَ"۔ تمہارے دل میں جو کچھ بھی خطرہ آئے (جس میں تجلیات و انوارات سب داخل ہیں) وہ سب فانی ہیں ادھر مشغول نہ ہو۔
رؤیتِ حق:
ارشاد: حضور ﷺ کو جو معراج میں رؤیت ہوئی ہے وہ رؤیت دنیا میں نہ تھی بلکہ آخرت میں تھی، کیونکہ عرش و سماوات مکانِ آخرت سے ہیں، ہاں قیامت میں البتہ ادراک ہوگا، قلب کو بھی، بصر کو بھی۔ اور وہاں بھی تمہاری قابلیت کی وجہ سے ادراک نہ ہوگا بلکہ جب وہ مرئی ہونا چاہیں گے، اس وقت قابلیت عطا کر دیں گے۔
؎ داد او را قابلیت شرط نیست
بلکہ شرط قابلیت داد اوست
مدعیانِ قوم کے نزدیک وقف علی الاولاد کا منشا:
ارشاد: بعض مدعیانِ خیر خواہی قوم کے مسئلہ وقف علی الاولاد کی تحریک پر مولانا محمد یعقوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ایسا خیال حرام ہے، بلکہ سلبِ ایمان کا اندیشہ ہے، کیونکہ اس شخص کے اس خیال کا منشا صرف یہ ہے کہ مسئلہ میراث کو جو منصوصِ قطعی ہے مضرِ قوم اور خلافِ حکمت سمجھا جاتا ہے۔ چنانچہ اس وقت خیر خواہانِ قوم نے اس مسئلہ کے پاس کرنے کے لیے جن وجوہ کو پیش کیا تھا ان میں ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس طرح جائیداد حصے بخرے ہونے سے محفوظ رہتی ہے اور میراث کا سہام جاری ہونے سے جائیداد کے ٹکڑے ہو جاتے ہیں۔
مسئلہ میراث کو خلافِ حکمت سمجھنے کا راز:
ارشاد:
؎ چوں طمع خواہد زمن سلطان دیں
خاک بر فرقِ قناعت بعد ازیں
یہ عقل کے پَورے (یعنی احمق) مسئلہ میراث کو محض اس لیے خلافِ حکمت کہتے ہیں کہ اس سے جائیداد کے ٹکڑے ہوتے ہیں۔ ارے عقلمندو! اگر حق تعالیٰ کو یہی مقصود ہو کہ مسلمان زمیندار نہ بنیں اور ان کے پاس مال و دولت جمع نہ ہو، اور جہاں کچھ سرمایہ اور جائیداد جمع ہو جائے اس کو ٹکڑے کر کے متفرق کر دیا جائے تاکہ مال و دولت کی کثرت سے مسلمان آخرت سے غافل نہ ہوں، تو تم اس کے حصے بخرے ہونے سے بچانے والے کون ہو؟ حق تعالیٰ تو یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان ہمیشہ یوں سمجھتے رہیں: ﴿وَ الْآخِرَةُ خَيْرٌ وَّ أَبْقٰى﴾ (الأعلٰی: 17) اور اس پر نظر کر کے دنیا کے زیادہ جمع کرنے کی فکر نہ کریں۔
شریعت نے مقصوداً مال جمع کرنے سے منع کیا ہے:
ارشاد: شریعت نے مقصوداً مال جمع کرنے سے منع کیا ہے اور اس کو مسلمانوں کے لیے مضر بتلایا ہے، ''إِلَّا مَنْ قَالَ ھٰکَذَا وَ ھٰکَذَا'' (مگر جو اِدھر اُدھر تقسیم کرتا رہے)۔ علماء نے لکھا ہے کہ اطمینانِ قلب کے لیے بھی مال جمع کرنا جائز ہے، مگر جواز سے اس کا مطلوب و مقصود ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ اصل مقصود تو آخرت کی طرف مسلمان کو متوجہ ہونا ہے۔ اگر کسی کو بدوں مال جمع کیے اطمینان نہ ہوتا ہو تو اس وقت دین ہی کی مصلحت سے جمع مال کی اجازت دی گئی ہے۔ کیونکہ بدوں اطمینان کے دین کا کام بھی نہیں ہو سکتا۔ اور جب جائیداد حسبِ میراث شرعی تقسیم ہو کر دس گھروں میں پہنچے گی تو دس آدمیوں کو اطمینان نصیب ہو گا۔ بخلاف اس کے کہ اگر ساری جائیداد ایک ہی گھر میں رہتی تو صرف اسی گھر کو اطمینان و دل جمعی ہوتی لہٰذا مسئلہ میراث خلافِ حکمت ہرگز نہیں۔
تراویح میں قرآن سنانا:
ارشاد: تنہا پڑھنے سے حفظ باقی نہیں رہتا، کچھ تراویح میں سنانے کو خاص دخل ہے حفظ میں۔
درجۂ مرادیت:
ارشاد: جب طالب درجۂ مرادیت پر پہنچ جاتا ہے تو اگر فرض چھوڑ کر بھی سو جائے گا تو حق تعالیٰ اس کو نہیں چھوڑتے، فوراً خواب میں تنبیہ کرتے ہیں، وقت کے اندر اندر اس سے نماز پڑھوا لیتے ہیں۔
اس طریق میں نفع کی شرط:
ارشاد: نفع اس طریق میں اس طرح ہوتا ہے کہ لذت و نفع پر نظر نہ کرے، بلکہ کام ہی کو مقصود سمجھے۔ میں تو ایسے لوگوں سے جو ذکر میں مزا نہ آنے کی شکایت کرتے ہیں کہہ دیتا ہوں کہ میاں مزا تو مذی میں ہے، یہاں مزا کہاں، یہ تو لوہے کے چنے ہیں، اگر لوہے کے چنے چبانے ہوں تو آؤ، اور اگر یہ منظور نہیں تو عشق کا نام نہ لو:
؎ عاشقی چیست بگو بندۂ جاناں بودن
دلِ بدستِ و گرے دادن و حیراں بودن
صوفیہ رحمۃ اللہ علیہم کی اصطلاح میں فانی کو کافر اور باقی کو مسلمان کہتے ہیں:
ارشاد: فانی کو کافر کہتے ہیں، یعنی کافر بالطاغوت۔ صُوفیہ رحمۃ اللہ علیہم کے نزدیک ہر غیرِ حق طاغوت ہے جس کو وہ صنم اور بُت وغیرہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ پس کافر وہ ہے جو غیرِ حق سے نظر قطع کر چکا ہو۔ اور ان کی اصطلاح میں باقی کو مسلمان کہتے ہیں۔ اور کفر و اسلام فنا و بقا کے اسی معنی کو حضرت امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
؎ کافر عشقم مسلمانی مرا در کار نیست
ہر رگِ من تار گشتہ حاجت زنّار نیست
شریعت عقل و طبع دونوں کی رعایت کرتی ہے:
ارشاد: شریعت عقل و طبع دونوں کی رعایت کرتی ہے۔ مثلاً کسی چیز کے فوت ہونے سے رنج پہنچے تو عقل رنج کرنے سے منع کرتی ہے کہ رنج کرنے سے وہ شئ واپس نہیں آ سکتی، تو رنج فضول ہے۔ اور طبیعت رنج کا تقاضا کرتی ہے، مگر شریعت کہتی ہے کہ حزن بھی ہو، مگر اس کو غالب نہ کرو، اسی طرح عقل کا مقتضا یہ ہے کہ فنائے دنیا سے کبھی غفلت نہ ہو، مگر طبیعت غفلت کو مُقتضِی ہے، کیونکہ فنائے دنیا سے بار بار دیکھتے مساوات سی ہو جاتی ہے اور جس چیز کی مساوات سی ہو جاتی ہے اس سے غفلت ہو جاتی ہے، مگر شریعت دونوں کی رعایت کر کے کہتی ہے کہ غفلت کا تو مضائقہ نہیں، مگر اتنی غفلت نہ ہو کہ احکامِ عقلیہ بالکل برباد ہو جائیں۔
﴿مَا عِنْدَ کُمْ یَنْفَدُ وَ مَا عِنْدَ اللہِ بَاقٍ﴾ کے معنی:
ارشاد: ﴿مَا عِنْدَ کُمْ یَنْفَدُ وَ مَا عِنْدَ اللہِ بَاقٍ﴾ (النحل: 96) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو تمہارے پاس ہے وہ تو غیر کی چیز ہے، یعنی امانت چند روزہ ہے، جو ایک وقت میں تم سے چھین لی جائے گی یا موت کے بعد وارثوں کو ملے گی۔ اور جو ہمارے پاس ہے، واقع میں وہ تمہاری چیز ہے جو ہمیشہ تمہارے پاس رہے گی۔
یادِ موت کی علامت:
ارشاد: موت کی یاد یہ ہے کہ زیوروں کی کثرت سے نفرت ہو جائے، گھر میں زیادہ سامان بکھیڑا اور ناگوار معلوم ہونے لگے، جیسے سفر میں زیادہ اسباب برا معلوم ہوتا ہے۔
اس طریق میں ناکامی بھی حقیقةً کامیابی ہے:
ارشاد:
؎ گر مرادت را مزاق شکر است
بے مرادی نے مراد دلبر است
اس شعر کی توضیح میں فرمایا کہ یہاں ناکامی کو بے مرادی کہنا بھی عامل کے گمان کے اعتبار سے دنیا میں ہے۔ اور وہاں آخرت میں تو اس کو پوی مراد ملے گی۔ افسوس کہ ہم لوگ دنیا کے لیے ہر طرح کی تدبیر و سعی کرتے ہیں جہاں ناکامی سراسر خسارہ ہے اور آخرت کے لیے سعی نہیں کرتے جہاں ناکامی بھی کامیابی ہے۔
عمل بدونِ حال کی مثال:
ارشاد: بدوں حال کے محض عمل قابل اطمینان نہیں، عمل بلا حال کی ایسی مثال ہے جیسے ریل گاڑی کو مزدور دھکیل کر لے جائیں اور حال کے ساتھ عمل کی ایسی مثال ہے جیسے انجن ریل گاڑی کو لے جائے.
؎ صنما! رہِ قلندر سزدار بمنِ نمائی
کہ دراز و دور دیدم رہ و رسم پارسائی
طاعت بلا منازعت سے طاعت بمنازعت افضل ہے:
ارشاد: طاعت بلا منازعت سے طاعت بمنازعت افضل ہے بوجہ مجاہدہ کے، اور یہ منازعت ابتدا ہی میں ہوتی ہے۔ بعد رسوخ کے یہ منازعت بھی باقی نہیں رہتی بلکہ احکامِ الٰہیہ امورِ طبیعیہ بن جاتے ہیں، مگر اللہ تعالیٰ کا معاملہ یہی ہے کہ ابتدائے منازعت کا مقابلہ کرنے کے بعد ثواب منازعت ہی کا ہمیشہ ملتا ہے، کیونکہ اس نے تو اپنی طرف سے مقاومتِ منازعت کے دوام کا قصد کر کے عمل شروع کیا ہے۔ چنانچہ ہر مسلمان جو روزہ نماز کا پابند ہے، اس کا ارادہ یہی ہے کہ ہمیشہ نماز پڑھوں گا، ہمیشہ روزہ رکھوں گا، خواہ نفس کو کتنا ہی گراں ہو۔
احکام میں منازعت کی وجہ عدمِ محبت نہیں بلکہ ناز ہے:
ارشاد: انسان کو فطرةً حق تعالیٰ سے محبت ہے۔ اور مبتدی کو جو احکام میں منازعت ہوتی ہے یہ خلاف محبت نہیں، بلکہ اس کا راز یہ ہے کہ محبت کی وجہ سے اس کو حق تعالیٰ پر ناز ہے، اور یوں کہتا ہے کہ ایسے رحیم کریم نے میرے اوپر مصیبت کیوں ڈالی۔ ان کو تو مجھے آرام دینا چاہیے۔
غیر مقصود کو مقصود بالذات بنانا عصیانِ باطنی ہے:
ارشاد: کیفیاتِ نفسانیہ ذوق و شوق محمود تو ہیں، مگر مقصود نہیں، اور غیر مقصود بالذات کو مقصود بالذات بنا لینا عصیانِ باطنی اور بدعتِ باطنیہ ہے۔
کمالِ علم سے علمِ جہالت ہوتا ہے:
ارشاد: جب کمالِ علم حاصل ہوتا ہے اس وقت معلوم ہوتا ہے کہ ہم جاہل ہیں، چنانچہ مولانا محمود الحسن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ عمر بھر پڑھنے پڑھانے کا یہ نتیجہ نکلا کہ ہم جہلِ مرکب سے جہل بسیط میں آ گئے۔
غیر مقلدوں کے خاص امراض:
ارشاد: غیر مقلدوں میں یہ دو مرض زیادہ غالب ہیں: ایک بدگمانی، دوسرے بدزبانی، اسی وجہ سے وہ آئمہ کو حدیث کا مخالف سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک تأویل و قیاس کے معنی ہی مخالفتِ حدیث ہیں۔ گو وہ مستنَد إلی الدلیل ہی ہوں۔ اور اگر ان ہی کے اصول کو مانا جائے تو "مَنْ تَرَکَھا مُتَعَمِّداً فَقَدْ کَفَرَ" (البحر الزخار، باب: حدیث أبی الدرداء رضی اللہ عنہ، رقم الحدہث: 4148) اور "لَا صَلٰوةَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَءْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ" (سنن الترمذي، أبواب الصلٰوة، باب: ما جاء أنه لا صلٰوة إلا بفاتحۃ الکتاب، رقم الحدیث: 247) ان حدیثوں میں کوئی تأویل نہ ہو گی۔ اور سارے حنفی تارکِ صلوٰة ہوئے اور تارک صلوٰة کافر ہے، تو سب حنفی کافر ہوئے، "نَعُوْذُ بِاللہِ مِنْ ھٰذَا الْجَھْلِ"۔
مشورہ کی برکت:
ارشاد: اگر بڑا اپنے چھوٹوں سے مشورہ کیا کرے تو ''إِنْ شَاءَ اللہُ'' غلطیوں سے محفوظ رہے گا، چہ جائیکہ چھوٹا اپنے بڑوں سے کرے، وہ تو بدرجۂ اولیٰ محفوظ ہوگا۔
افعالِ مذمومہ کا منشا جس قدر زیادہ خبیث ہوگا اسی قدر افعال کا ذم بڑھ جائے گا:
ارشاد: کفار میں ترک صلوٰۃ کا منشا کفر اور مسلمان میں اس کا منشا کسل ہے، اس لیے ترک صلوٰۃ میں وہ کافر نہیں ہوتا۔ اسی طرح کفار میں عدمِ اطعام کا منشا انکارِ جزا و اجر ہے اور مسلمان میں بخل و طمع۔ جیسا کہ افعال حسنہ کفار میں بھی ہوتے ہیں مگر ان کا منشا ایمان نہیں، اس لیے گو وہ دنیا میں ممدوح ہیں اور دنیا ہی میں ان کو ان پر اجر بھی مل جاتا ہے، مگر آخرت میں مقبول نہیں۔ اور اگر وہی افعال مسلمان سے صادر ہوں تو احسن ہیں کیونکہ ان کا منشا بھی حسن ہے۔ پس افعالِ مذمومہ جو کافروں سے صادر ہوتے ہیں وہ "کریلا اور نیم چڑھا" کے مصداق ہیں کہ فعل بھی مذموم اور منشا بھی خبیث۔
ارضاء خلق ایک مرض ہے:
ارشاد: ارضائے خلق بھی ایک مرض ہے، گو کفر و نفاق کے ساتھ نہ ہو۔
مجاہدہ کا فائدہ اور ضرورت:
ارشاد: شیخ کی تصدیق کے بعد اس کی ضرورت رہتی ہے کہ نفس کا امتحان کرتا رہے، بے فکر اور مطمئن نہ ہو جائے، کیونکہ مجاہدہ وغیرہ سے نفس شائستہ تو ہو جاتا ہے مگر شائستہ ہو جانے کے یہ معنی نہیں کہ کبھی شرارت ہی نہ کرے، آخر شائستہ گھوڑا بھی کبھی شرارت اور شوخی کیا کرتا ہے۔ ہاں مجاہدہ کا فائدہ یہ ہے کہ نفس کی شرارت پہلے سے کم ہو جاتی ہے اور اگر کبھی شرارت کرتا ہے تو ذرا سے اشارہ میں سیدھا ہو جاتا ہے۔
فنا کی حقیقت:
ارشاد: فنا کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ اپنے ارادہ اور تجویز کو فنا کر دے۔ یعنی اپنے ارادہ اور تجویز کو ارادۂ حق کے تابع کردے۔ اور فنائے ارادہ سے مطلق ارادہ کا فنا کرنا نہیں ہے، بلکہ اس ارادہ کا فنا کرنا مقصود ہے جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہو، یعنی جو ارادۂ حق کے خلاف اور تجویزِ حق کے مزاحم ہو۔
شائستہ عنوان کی تعلیم:
ارشاد: شریعت نے بھی الفاظ کے ادب اور شائستگی کی بہت تعلیم دی ہے کہ ایسے الفاظ استعمال نہ کرو جن میں بے ادبی و گستاخی کا ابہام بھی ہوتا ہو۔ چنانچہ "عَبْدِيْ" و "أَمَتِيْ" کہنے کی ممانعت ہے اس کے بجائے "فَتَائِيْ" و "فَتَاتِيْ" (الصحيح للبخاري، كتاب العتق، باب: كراهية التطاول على الرقيق و قولہ: عبدی أو أمتی، رقم الحدیث: 2552) کہنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ ﴿رَاعِنَا﴾ کہنے کی ممانعت ہے، ﴿اُنْظُرْنَا﴾ (البقرة: 104) کہنے کی تعلیم دی گئی ہے، اور عقل کا مقتضا بھی یہی ہے۔ مثلاً کسی بادشاہ سے جس نے خواب میں دیکھا تھا کہ میرے کل دانت گر گئے ہیں، معبِّر(تعبیر بتانے والے) کا کہنا کہ آپ کا کا سارا خاندان آپ کے سامنے مر جائے گا، اس کا نتیجہ جیل خانہ جانا ہو گا اور بجائے اُس کے (دوسرے معبِّر کا) یہ کہنا کہ حضور کی عمر اپنے خاندان میں سے سب سے زیادہ ہو گی، مُوجِبِ خلعت و انعام ہو گا۔
ادبِ سماع:
ارشاد: یہ بات آدابِ سماع میں سے ہے کہ جس شعر پر کسی کو وجد ہو گا، اسی کو مکرر پڑھتے رہیں جب تک کہ وجد کو سکون نہ ہو، ورنہ صاحبِ وجد کو قبض شدید ہو جاتا ہے، جس سے بعض دفعہ نوبت موت تک کی آ جاتی ہے۔ اور اسی وجہ سے یہ بھی آداب میں سے ہے کہ جب صاحبِ وجد کھڑا ہو تو سب کھڑے ہو جاویں تاکہ موافقت سے اس کو بسط ہو اور مخالفت سے قبض نہ ہو۔
سماع سے موت کے اقتران کی وجہ:
ارشاد: بعض وقت موت کا اقتران سماع سے صرف ظاہری ہوتا ہے اور حقیقت میں سببِ موت بسط نہیں ہوتا بلکہ ضعفِ قلب وغیرہ ہوتا ہے۔
موت کے وقت تفویض سے کام لینا کمال ہے:
ارشاد: بعض اہل محبت نے سماع میں موت آنے کی تمنا اس لیے کی کہ اس وقت محبت کو ہیجان ہو جاتا ہے اور موت لذت کے ساتھ آتی ہے، لیکن جو حضرات محقق اور مقتدا ہیں وہ ہر پہلو پر نظر رکھتے ہیں، اس لیے وہ اس کی تمنا نہیں کرتے، بلکہ ہمت سے کام لیتے ہیں اور خود کوئی صورت تجویز نہیں کرتے۔
حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے مکالمہ و مناظرہ کا رنگ:
تحقیق: حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے مکالمات و مناظرات کا رنگ یہی تھا کہ تکرارِ حق واضح ہو جاتا تھا، بحث و تمحیص کی ضرورت نہ ہوتی تھی، چنانچہ مناظرہ قتالِ مرتدّین اس کی دلیل ہے۔
ذوق و مناسبت ایک نعمت ہے لیکن شرطِ مقبولیت نہیں:
تحقیق: محبتِ طبعیہ کا دار و مدار مناسبتِ باطنی پر ہے اور مناسبت باطنی کسی کو اللہ تعالیٰ سے زیادہ ہے، کسی کو رسول اللہ ﷺ سے زیادہ ہے، "وَ ھٰذَا ھُوَ الْأَکْثَرُ فِي الْعَوَامِّ" اور بعض کو کسی سے بھی مناسبت نہیں، وہ محض خشک لکڑی ہیں جیسے نجدی، مگر ان کو بھی ناقص نہ سمجھو، کیونکہ ذوق و شوق شرطِ مقبولیت نہیں، ہاں نعمت ضرور ہے، کیونکہ اس سے عمل میں سہولت ہو جاتی ہے۔ جیسے حسنِ ظاہری نعمت تو ہے مگر شرطِ مقبولیت نہیں، گنجے بدصورت کو بھی قربِ حق ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ذوق و مناسبت ایک حسنِ باطنی ہے، اگر کسی کو حاصل ہوجائے تو نعمت ہے۔ لیکن اگر کسی کو حاصل نہ ہو تو کوئی نقص نہیں، کیونکہ قرب و رضائے حق کا مدار محبتِ عقیلہ پر ہے یعنی اطاعتِ احکام پر۔ اگر کسی کو ذوقِ باطن بالکل نہ ہو، لیکن احکام کو پوری طرح بجا لاتا ہو تو وہ ناقص نہیں بلکہ کامل ہے۔
طریقِ باطن کسے کہتے ہیں:
تحقیق: طریقِ باطن ذوق و شوق کا نام نہیں، بلکہ مداومت ذکر اور اطاعت احکام و ملکاتِ باطنہ، مشکل توکل و رضا و شکر کا نام ہے۔
دوامِ عمل داعیۂ جذبِ الٰہی سے ہوتا ہے:
تحقیق: عادة اللہ یہ ہے کہ جب مسلمان کسی عملِ شرعی کا اہتمام کرتا ہے تو (وہ عمل بحکمِ) حق تعالیٰ چند (چیزوں) سے محرومی کا سبب ہو جاتا ہے، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا امتحان کیا کرتے ہیں کہ اس کو ہم پر بھروسہ ہے یا اسباب پر نظر ہے، اس لیے بعض دفعہ ایسی چیز بھیجتے ہیں جس میں شبہ ہو، جس کے متعلق اس کے دل میں کھٹک ہو، اب اگر اس نے کھٹک کی وجہ سے اس کو واپس کر دیا تو حق تعالیٰ فتوحات کا دروازہ کھول دیتے ہیں، ورنہ باب مسدود ہو جاتا ہے۔ اگر انسان تقدیر پر نظر رکھے تو اس کے نزدیک جمع کرنا اور واپس کرنا یکساں ہوجائے۔ بلکہ خرچ کرنے کو زیادتِ رزق کا سبب سمجھے گا، تقلیل کا سبب نہ سمجھے گا۔
دعوت قبول کرنے کی شرط:
تحقیق: شبہ کا مال کبھی نہ لینا چاہیے، خصوصاً جہاں دعوت قبول کرنے میں علم کی توہین و تذلیل ہوتی ہو، وہاں تو ہرگز نہ جانا چاہیے۔
معیارِ صحتِ تأویل:
تحقیق: اگر کسی رقم سے دل میں کھٹک ہو اور اول ہی سے یہ نیت ہو کہ کسی طرح یہ مل جائے اور اس کا لینا جائز ہو جائے، اس کے بعد استفتاء کیا جائے تو اب چاہے کتنے فتوے جواز کے آ جائیں اس کو ہر گز نہ لو۔ اور اگر اول سے یہ نیت ہو کہ خدا کرے اس کا لینا جائز نہ ہو، اس کے بعد استفتاء کیا جائے تو اب اگر فتویٰ سے اجازت ہو جائے تو لے لو۔ یا کم از کم دونوں جانبین مساوی ہوں، نہ لینے کی نیت ہو نہ واپس کرنے کی، بلکہ نیت یہ ہو کہ فتویٰ جو ثابت ہو جائے گا، ویسا ہی کریں گے تب بھی لینا جائز ہے، اگر فتویٰ سے اجازت ہو جائے۔
کس مباح کا ترک واجب ہے:
تحقیق: جس مباح سے فسادِ عوام کا اندیشہ ہو اس مباح کا ترک واجب ہو جاتا ہے، خصوصاً ایسا مباح جس کے کرنے سے دین پر حرف آتا ہو جیسے کسی طوائف کی جائیداد کو مدرسہ میں لے لینا۔ گو کسی تأویل سے اس کا ہبہ جائز ہو۔
مدرسہ کے چلانے میں صرف رضائے حق کو مقصود سمجھو:
تحقیق: آج کل ہمارے مدارس نے مخترع ثمرات کو مطلوب سمجھ کر کہ ہمارا مدرسہ با رونق ہو، اس میں پانچ سو طلبا ہوں، پچاس مدرس ہوں اور ایسی عمارت ہو، اور ہر سال اس میں سے اتنے طلبا فارغ ہوں۔ اور یہ باتیں بدوں زیادہ رقم کے ہو نہیں سکتیں، تو اب ہر وقت ان کی نظر آمدنی پر رہتی ہے اور جہاں سے چندہ آتا ہے رکھ لیا جاتا ہے، یہ خیال ہوتا ہے کہ حرام اور مشتبہ مال واپس کرنا شروع کر دیں تو اتنی آمدنی کس طرح ہو گی جو اتنے بڑے کارخانے کو کافی ہو سکے۔ بس یہی جڑ ہے، اس جڑ کو اکھاڑ پھینکو اور ثمرات پر ہرگز نظر نہ کرو نہ زیادہ کام کو مقصود سمجھو، بلکہ رضائے حق کو مقصود سمجھو، مدرسہ رہے یا نہ رہے۔
اَلصُّوْفِيُّ لَا مَذْھَبَ لَہٗ کے معنی:
تحقیق: "اَلصُّوْفِيُّ لَا مَذْھَبَ لَہٗ" اس کا یہ مطلب نہیں کہ صوفی لا مذہب ہوتا ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ محتاط ہوتا ہے اور ہر مسئلہ میں احتیاط کی جانب کو اختیار کرتا ہے۔ ورع و تقوٰی اسی کا نام ہے، ہمارے فقہاء نے بھی اس کی تصریح کی ہے: "رِعَایَةُ الْخِلَافِ وَ الْخُرُوْجُ مِنْہُ أَوْلٰی مَا لَمْ یَرْتَکِبْ مَکْرُوْہَ مَذْھَبِہٖ" کہ اختلاف سے نکلنا مستحب ہے، جب تک اپنے مذہب کے کسی مکروہ کا ارتکاب نہ ہو۔
تأویلِ حق کی شناخت:
تحقیق: تأويلِ حق وہ ہے جو بے ساختہ قلب میں آ جائے اور اس کے لیے کوشش نہ کی جائے، اور کوشش کو جاری نہ رکھا جائے۔ اور جس تأویل کے لیے کوشش کرنا اور اس کو جاری رکھنا پڑے وہ تاویل نہیں بلکہ تعلیل ہے، یعنی دل کا بہلانا پھسلانا ہے۔
اذن بطِیبِ نفس کی حقیقت:
تحقیق: اذن بطیبِ نفس کی حقیقت یہ ہے کہ دوسرے کو عدم اذن پر بھی قدرت ہو۔ اور تجربہ یہ ہے کہ یہاں کے مرید پیر کے استیذان کے بعد عدمِ اذن پر قادر نہیں ہوتے، اس لیے یہ اذن معتبر نہیں، پس آج کل اذن پر بھی بدونِ شہادتِ قلب عمل نہ کیا جائے۔
امر و شفاعت کا درجہ:
تحقیق: امر و شفاعت کا درجہ یہ ہے کہ امر کی اطاعت واجب ہے، اور شفاعت میں قبول و عدم قبول کا اختیار ہے۔ مثال اس کی قصّۂ مغیث رضی اللہ عنہ و بریرہ رضی اللہ عنہا ہے۔
بعض دفعہ مشکوک رقم رکھ لینے سے رزق سے محرومی ہو جاتی ہے:
تحقیق: صاحبو! یاد رکھو! بعض دفعہ ایک روپیہ ایسا رکھنا جس سے دل میں کھٹک تھی، رزق کچھ روز کے بعد اس کو طبعی بنا دیتا ہے کہ دل میں ایک داعیہ ایسا پیدا ہو جاتا ہے جو اس سے بالاضطرار کام کراتا رہتا ہے۔ اور میری اس تحقیق سے کہ دوامِ عمل داعیۂ جذب الٰہی سے ہوتا ہے، عجب و کبر کی بھی جڑ کٹتی ہے۔ پس جو لوگ نماز و ذکر وغیرہ کے پابند ہیں وہ اس کو اپنا کمال نہ سمجھیں بلکہ خدا تعالیٰ کا فضل و انعام سمجھیں، کیونکہ بدوں اس داعیہ کے ہمارے ارادہ و اختیار میں اتنی قوت نہیں جو دواماً یہ اعمال صادر ہو سکیں۔
قلب کی اول ہی کھٹک پر عمل کرنا چاہیے:
تحقیق: قلب کا یہ قاعدہ ہے کہ اول وہلہ میں اس کو جس قدر کراہت و نفرت ہوتی ہے دوسری مرتبہ میں ویسی نفرت نہیں ہوتی۔ اور اس میں جو کھٹک اول وہلہ میں پیدا ہوتی ہے اگر اس پر عمل نہ کیا گیا بلکہ اس کو دبا دیا گیا تو پھر یہ کھٹک کمزور ہو جاتی ہے۔
استخارہ کن امور میں مشروع ہے:
تحقیق: استخارہ ان امور میں شروع ہے جس کی دونوں جانبین اباحت میں مساوی ہوں۔ اور جس فعل کا حسن و قبح دلائلِ شرعیہ سے متعین ہو ان میں استخارہ مشروع نہیں۔
؎ در کارِ خیرِ حاجتِ ہیچ استخارہ نیست
ہم در شرور حاجت ہیچ استخارہ نیست
تنبیہ و زجر بقدرِ ضرورت ہونی چاہیے:
تحقیق: تنبیہ و زجر بقدرِ ضرورت ہونی چاہیے، تین بار تنبیہ کرنا تو قدرِ ضرورت سے بھی زیادہ ہے۔ چنانچہ بلعم باعور کے قصّے میں تین دفعہ تک تو استخارہ میں تنبیہ ہوئی تھی، چوتھی دفعہ میں تنبیہ نہ ہوئی۔
"اَلْإِثْمُ مَا حَاکَ فِيْ صَدْرِکَ" کا عمل:
تحقیق: جب علماء کسی فعل کے جواز و عدم جواز میں اختلاف کریں اور کوئی اسے واجب اور ضروری نہ کہے تو ایمان کی سلامتی اسی میں ہے کہ اس کو ترک کر دے، کیونکہ اختلاف سے دل میں کھٹک ضرور پیدا ہو گی اور شریعت کا ایک قاعدہ یہ بھی ہے کہ "اَلْإِثْمُ مَا حَاکَ فِيْ صَدْرِکَ" (الصحیح لمسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب: تفسیر البر والإثم، رقم الحدیث: 2553) کہ گناہ وہ ہے جس سے تمہارے دل میں کھٹک پیدا ہو۔
حکم اجازتِ حزب البحر:
تحقیق: بعض لوگ نہایت اہتمام سے حزب البحر کی اجازت لیتے پھرتے ہیں، یہ بھی پیر جیون کے ڈھکوسلے ہیں۔ یہ اعمال مندوبات ہیں مگر اب تو یہ سب قابلِ ترک و منع ہیں، کیونکہ لوگ غلو کرنے لگے ہیں اور حد سے آگے بڑھنے لگے ہیں، چنانچہ عام طور پر قلوب میں اعتقاداً حزب البحر کی ایسی وقعت ہے کہ ادعیۂ ماثورہ کی وہ وقعت نہیں۔
جو کام کرو رضائے حق کے ساتھ کرو:
تحقیق: ایک زمانہ میں مدرسہ دیوبند کے خلاف دیوبند میں بڑی شورش تھی، اہلِ قصبہ کا مطالبہ تھا کہ ایک ممبر کا اضافہ ہماری مرضی کے موافق ہو۔ اور بعض اہل شوریٰ نے اس مطالبہ کے مان لینے کی تحریک بھی کی، لیکن حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہم کو مدرسہ مقصود نہیں، رضائے حق مقصود ہے اور نا اہل کو ممبر بنانا معصیت ہے جو خلافِ رضائے حق ہے، اس لیے ہم اپنے اختیار سے ایسا نہ کریں گے کیونکہ اس پر ہم سے مؤاخذہ ہو گا۔ اگر اہل شہر کے فتنہ سے مدرسہ بند ہو گیا تو اس کے جواب دہ قیامت میں وہ خود ہوں گے، کیونکہ ان کے ہی فعل کا یہ نتیجہ ہوگا، ہم سے اس کا مؤاخذہ نہ ہو گا۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے جس علم کی طرف اس تحریر میں اشارہ فرمایا ہے، وہ بہت بڑا علم ہے، جس کا عنوان یہ ہے کہ ثمرات مقصود نہیں، صرف رضائے حق مقصود ہے، نہ مدرسہ مقصود ہے، نہ طلباء کی کثرت مطلوب ہے، نہ عمارت مقصود ہے، صرف رضائے حق مطلوب ہے۔ اگر رضائے حق کے ساتھ یہ کام چلتے رہیں تو چلاؤ اور حسبِ ہمت اور طاقت اس میں کام کرتے رہو اور جو کام طاقت سے زیادہ ہو اس کو الگ کرو۔
ثمرات مقصود نہیں صرف رضائے حق مقصود ہے:
تحقیق: اسی طرح اگر کوئی بچہ بیمار ہو تو دوا دارو کرو مگر ثمرہ متعین نہ کرو کہ یہ اچھا ہی ہو جائے، بلکہ معالجہ محض رضائے حق کے لیے کرو کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد کا یہ حق رکھا ہے کہ بیماری میں ان کی خدمت کرو، علاج کرو، ثمرہ پر نظر نہ کرو۔ اسی طرح ذکر و شغل میں لگو تو رضائے حق پر نظر رکھو، لذت و شوق وغیرہ کو مطلوب نہ سمجھو، اگر قبض ہو تو خوش رہو، بسط ہو تو خوش رہو، کیفیات نہ ہوں تو خوش رہو، کیفیات ہوں تو خوش رہو۔
؎ زندہ کنی عطائے تو ور بکشی فدائے تو
دل شدہ مبتلائے تو ہرچہ کنی رضائے تو
؎ ناخوش تو خوش بود در جان من
جاں فدائے یار دل رنجان من
وقف علی الاولاد کے کفر ہونے کی صورت:
ارشاد: مسئلہ میراث کو خلافِ حکمت سمجھ کر وقف علی الاولاد کرنا کفر ہے۔ شیطان اسی واسطے تو کافر ہوا تھا کہ اس نے حکمِ خداوندی کو خلافِ حکمت سمجھا تھا۔ حالانکہ مسئلہ میراث میں بڑی راحت کی تعلیم ہے کہ تم مرنے کے بعد کی فکر نہ کرو، تم پاؤں پھیلا کر سو رہو، ہم تمہاری جائیداد وغیرہ کو اقارب میں خود مناسب طور پر تقسیم کر دیں گے چنانچہ: ﴿آبَاؤُكُمْ وَ أَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُوْنَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا...﴾ (النساء: 11) میں اس کی تصریح ہے۔
نفع لازم مقدم ہے نفع متعدی پر:
ارشاد: نفع متعدی نفع لازم سے افضل ہے۔ یہ قاعدہ اس شخص کے لیے ہے جو نفع لازم سے فارغ ہو گیا ہو اور نفع متعدی میں مشغول ہونا اس کے لیے نفع لازم میں خلل انداز نہ ہوتا ہو۔ جیسے پڑھانا اسی کے واسطے افضل ہے جو پڑھنے سے پوری طرح فارغ ہو چکا ہو اور اس کو اساتذہ کہہ دیں کہ اب تم اس لائق ہو کہ دوسروں کو پڑھاؤ۔ نفع متعدی میں فضیلت اسی واسطے ہے کہ وہ نفع لازم کا ذریعہ ہے۔ اسی لیے جس وقت نفع متعدی سے نفع لازم کا ذریعہ ہونے کی امید نہ ہو، اس وقت نفع متعدی کے ترک کا حکم ہے۔ اہل طریق کا اجماع ہے کہ جو شخص دوسروں کی تربیت کرتا ہو اس کو لازم ہے کہ ایک وقت اپنے لیے یکسوئی اور خلوت کا ضرور مقرر کرے ورنہ نسبت مع اللہ ضعیف ہو جائے گی۔ معلوم ہوا کہ اصل مقصود نفع لازم ہے اور نفع متعدی مقصود نہیں، بلکہ مقصود کا ذریعہ ہے۔
توحیدِ وجودی یا توحیدِ حالی مطلوب نہیں:
ارشاد: توحیدِ وجودی مطلوب کا کوئی درجہ نہیں۔ آج 65 سال کے بعد یہ بات معلوم ہوئی جس پر میں بے حد مسرور ہوں۔ عام طور پر لوگ وحدة الوجود کی حقیقت یہی سمجھتے ہیں کہ غیرِ حق کے وجود سے طبعی اثر بھی نہ پیدا ہو، مگر یہ بات نہیں ہے بلکہ وحدة الوجود (جس کو توحیدِ حالی بھی کہتے ہیں) کا اثر صرف یہ ہے کہ عقلاً متاثر نہ ہو اور اس کی وجہ سے عقلاً فکر و سوچ میں نہ پڑے، ورنہ طبعی تأثّر ضرور ہوتا ہے۔ سیدنا رسول اللہ ﷺ سے زیادہ مؤحد کامل کون ہوگا؟ مگر طبعی تأثّر آپ کو بھی ہوتا تھا، چنانچہ اپنے صاحبزادہ کے انتقال سے متاثر ہوئے جس کو خود ان الفاظ سے آپ ﷺ نے ظاہر فرمایا: "إِنَّا بِفِرَاقِکَ یَا إِبْرَاھِیْمُ لَمَحْزُوْنُوْنَ" (الصحیح للبخاری، کتاب الجنائز، باب: قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم : إنا بک لمحزونون، رقم الحدیث: 1303)
مبتدی و منتہی و متوسط کا فرق تأثّر و عدمِ تأثّر میں:
ارشاد: اگر کسی کو شبہ ہو کہ جب مبتدی کو بھی طبعی تأثّر ہوتا ہے اور کامل کو بھی تو پھر دونوں میں فرق کیا ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دونوں میں زمین و آسمان کافرق ہے، مبتدی کا تاثر تو ایسا ہے جیسے بچے کے ذرا زخم ہوجائے اور اس میں سے خون نکل پڑے تو گھبرا کر روتا ہے کہ ہائے خون نکل آیا اور سمجھتا ہے کہ بس اب جان نکل جائے گی۔ اور متوسط کی ایسی حالت ہے جیسے کسی کو کلورا فارم سنگھا کر آپریشن کیا جائے، وہ نشتر لگنے سے ظاہر میں متاثر نہیں ہوتا اور ناواقف سمجھتا ہے کہ بڑا بہادر ہے۔ اور منتہی کے دل کی ایسی مثال ہے جیسے کسی کا بدوں کلورا فارم سنگھائے آپریشن کیا جائے۔ اس کے منہ سے آہ نکلتی ہے اور نشتر لگنے سے متاثر ہوتا ہے، تکلیف کا احساس ہوتا ہے، لیکن فکر و سوچ نہیں ہوتی اور وہ اس سے گھبراتا بھی نہیں، بلکہ دل سے راضی اور خوش خوش نشتر لگواتا ہے۔
تصوف کا ہر شخص اہل ہے:
ارشاد: اس طریق کی استعداد اور مقصودِ تصوف کی قابلیت ہر مسلمان میں ہے۔ کیونکہ تصوف کا مقصود اصلی ادائے مامور بہ کا اختیاری ہونا ضروری ہے، اور ہر امرِ اختیاری کا ہر شخص اہل ہے۔
تصوف نام ہے مقامات کا:
ارشاد: تصوف لوٹنے پوٹنے کا نام نہیں ہے، بلکہ مقامات کا نام تصوف ہے۔ اور مقامات بھی ملکات ہیں، اخلاص و رضا تواضع وغیرہ۔ ان کو حاصل کرو اور ان کی اضداد ریا، کبر، اعتراض وغیرہ سے نکل جاؤ، بس صوفی ہو گئے۔
اسلامی شان و شوکت کے معنیٰ:
ارشاد: ایسے افعال کا بجا لانا جن میں عقل کو دخل نہ ہو یا کم ہو یا شان تعبدی زیادہ ہو، مُوجِبِ اطاعتِ زائدہ اور علامتِ عبدیتِ کاملہ ہے۔ اور جس قدر ہماری عبدیت کا ظہور ہوگا حق تعالیٰ کی عظمت کا انکشاف زیادہ ہو گا، ہم پر بھی دوسروں پر بھی، یہ بھی اسلامی شان و شوکت ہے۔ اسلامی شان و شوکت توپ خانہ اور سرخ جھنڈے سے نہیں، بلکہ عبدیت کے اظہار سے ہے کیونکہ اسلام کے معنی ہیں: "گردن بہ طاعت نہادن"۔ ظاہر ہے کہ اس معنی کی شان و شوکت تو یہی ہے کہ کمالِ عبدیت اور نہایتِ فنا کا ظہور ہو۔ اور یہ معنی حج و قربانی دونوں میں مشترک ہیں، اسی لیے یہ دونوں شعائرِ اسلام کہلاتے ہیں۔
حج و قربانی کی تعظیم کے معنیٰ:
ارشاد: حج کی تعظیم تو یہ ہے کہ رفث و فسوق وغیرہ سے اجتناب کیا جائے، یہ معنوی تعظیم ہے۔ اور اضحیہ کی تعظیم دو طرح ہے: صورةً بھی، معنیً بھی۔ معنوی تعظیم تو یہ ہے کہ اس میں اخلاص کا اہتمام کیا جائے، اور صوری تعظیم یہ ہے کہ قربانی کا جانور بہت اچھا اور عمدہ ہو۔
مکہ و مدینہ کی حقیقت:
ارشاد: مکہ کی حقیقت تجلی الوہیت اور مدینہ کی حقیقت تجلی عبدیت ہے، اور عارف ہر وقت اپنے اندر تجلی الوہیت اور تجلی عبدیت کا مشاہدہ کرتا ہے۔ وہ جہاں بیٹھے گا مکہ و مدینہ اس کے ساتھ ہے، مگر جو محقق ہے وہ صورت کو بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، بلکہ حتی الامکان صورت و معنی دونوں کے جمع کرنے کا اہتمام کرتا ہے۔
روح و صورتِ حج:
ارشاد: روحِ حج وصول الی اللہ ہے، جس کی صورت یہ حجِ بیت اللہ ہے۔
رمضان کے اعمال برائے تحلیہ و تخلیہ ہیں:
ارشاد: روزہ برائے تخلیۂ زوائل ہے، کیونکہ روزہ سے بہیمیت منکسر ہوتی ہے اور معاصی سے رکاوٹ ہوتی ہے اور دل میں رقت پیدا ہوتی ہے۔ صلوٰۃ و تراویح برائے تحلیہ ہے، کیونکہ تکثیرِ صلوٰۃ سے انسان کے اندر اخلاقِ حمیدہ پیدا ہوتے ہیں اور انوارِ طاعات زیادہ ہوتے ہیں اور قرآن کی تلاوت سے بھی قلب میں نور پیدا ہوتا اور زنگ دور ہوتا ہے۔
وقوفِ عرفات کی حقیقت:
ارشاد: حج اسی کا نام ہے کہ 9 ذی الحجہ کی نصف النہار کے بعد 10 ذی الحجہ کی صبح تک کسی ایک منٹ میں ایک قدم عرفات کے اندر رکھ دے۔ پس اسی وقتِ مذکورہ میں اگر کسی وقت بھی ایک قدم عرفات میں پڑ گیا، خواہ جاگتے ہوئے یا سوتے ہوئے، ہوش میں یا بیہوشی میں، تو حاجی بن گئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وقوفِ عرفات کی حقیقت حاضرئ دربارِ شاہی ہے، جب ہی تو اس میں اور کچھ شرط نہیں، صرف ایک قدم وہاں ڈال دینا شرط ہے۔
حکمت ابقاءِ نوعِ انسانی:
ارشاد: ابقاءِ نوعِ انسان سے ظہورِ اسماء و صفاتِ باری تعالیٰ مطلوب ہے۔
اصل مقصود عمل ہے، نتیجہ نہیں:
ارشاد:﴿يَا إِبْرَاهِيْمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا ۚ إِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ﴾ (الصافات: 104-105) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اصل مقصود عمل ہے، ترتُّب نتیجہ مقصود نہیں۔ یہ سالکین کے بہت کام کی بات ہے کیونکہ ابراہیم علیہ السلام کو حکم تھا ذبح کا، اور ذبح پر ثمرہ کا ترتُّبِ وقوع کہاں ہوا؟ صرف قصدِ ذبح اور سعی فی الذبح کا تحقق ہوا تھا مگر اس کے فعل کامل ہونے کی تصدیق کی گئی۔
مسلمان کا کمال:
ارشاد: مسلمان کا یہی بڑا کمال ہے باوجودیکہ ذبح کے وقت اس کے دل میں رقت ہے اور جانور کی صورت دیکھ کر دل پسیج جاتا ہے، پھر بھی وہ خاموش کھڑا ہو کر حق تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں مشغول ہے۔
وضع کی پابندی علامت وجودِ تکبیر کی ہے:
ارشاد: بعض لوگ جو وضع کے پابند ہیں ان کا دل بھی پابند ہوتا ہے کہ میدانِ عشق میں ترقی نہیں کرتا۔ اس کی وجہ ان لوگوں میں تکبر ہے جو سدِ راہ ہے۔ بعض لوگ وضع سوز ہوتے ہیں، ان کا دل تکبر سے پاک ہوتا ہے بشرطیکہ وضع سوز ہی ہوں، شرع سوز نہ ہوں۔
شوخی و متانت کی حقیقت:
ارشاد: شوخی علامت ہے روح کے زندہ اور نفس کے مردہ ہونے کی، اور متانت علامت ہے نفس کے زندہ اور روح کے مردہ ہونے کی۔
عشاق کا درجہ قرب میں عُمّال سے زیادہ ہے:
ارشاد: یاد رکھیے! عشاق کا درجہ قرب میں عمال سے بڑھا ہوا ہے، گو مَناصب عمال کے زیادہ ہیں، اس کی ایسی مثال ہے جیسے ایک تو ایاز تھا اور ایک حسن میمندی تھا، اختیارات حسن میمندی کے زیادہ تھے کیونکہ وہ وزیر تھا، مگر قربِ سلطان ایاز کو زیادہ تھا۔
عشق کے لیے امتیاز سدِّ راہ ہے:
ارشاد: عشق کے لیے امتیاز سدِّ راہ ہے، امتیاز سے شہرت ہوتی ہے اور شہرت بہت سی بلاؤں کا پیش خیمہ ہے۔
؎ اشتہارِ خلق بندِ محکم است
بند ایں از بندِ آہن کے کم است
احکامِ شرعیہ میں طبعی جذباتِ انسانی کی رعایت ہے:
ارشاد: امتیازِ طبعی خاصہ انسان کا ہے، اور طبعی جذبات کو بالکل فنا کر دینے سے تکلیف ہوتی ہے۔ سو حق تعالیٰ تکلیف دینا نہیں چاہتے اور طبعی جذبات کی رعایت کر کے احکامِ شرعیہ مقرر فرمائے ہیں۔
حج و قربانی کی روح:
ارشاد: قربانی کی غایت صرف خدا کے نام پر جان فدا کرنا ہے۔ پس روح قربانی کی نذر الی اللہ ہے، اسی طرح حج کی روح "دیوانہ شدن" ہے۔
علمِ مکاشفہ:
ارشاد: علمِ مکاشفہ، علم حکمت و اسرار کو کہتے ہیں۔
علاجِ امساکِ باراں:
ارشاد: اصل علاج امساکِ باران کا وہ ہے جس کو مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
؎ جُمْلۃُ التَّدْبِیْرِ تَبْدِیْلُ الْمِزَاجْ
یعنی اپنی حالت سے غفلت کو انابت الی اللہ سے بدلنا، اصل علاج یہ ہے۔ نری تمنا سے یا صدقہ سے کام نہیں چلتا، کیونکہ صدقہ ایک مستحب فعل ہے اور مستحب سے مقدم واجبات کا ادا کرنا ہے۔ پس تم نے جو لوگوں کی موروثی زمین دبا رکھی ہے، لڑکیوں، عورتوں کو میراث نہیں دیتے، شریکوں کا حق مار رکھا ہے، پہلے اس سے توبہ کرو اور موروثی وغیرہ کو چھوڑ دو، پھر مستحبات کے درپے ہونا۔
حیوانات، نباتات، سب اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں:
ارشاد: کوئی زبانِ قال سے سوال کرتا ہے، کوئی زبانِ حال سے بقصد اور کوئی زبانِ حال سے بلاقصد۔ شریعت میں بھی زبان حال سے قصداً سوال کرنے کی ایک نظیر موجود ہے، حدیث میں ہے: "مَنْ شَغَلَہُ الْقُرْآنُ عَنْ ذِکْرِيْ وَ مَسْئَلَتِيْ أَعْطَیْتُہٗ أَفْضَلَ مَا أُعْطِيَ السَّائِلِیْنَ" (سنن الترمذی، أبواب فضائل القرآن، باب: بلاترجمۃ، رقم الحدیث: 2926) یعنی جو شخص قرآن میں اس درجہ مشغول ہو کہ اسے ذکر و دعا کی بھی فرصت نہ ہو، یا دعا کی طرف التفات نہ ہو، تو حق تعالیٰ اس کو سائلین سے زیادہ عطا فرماتے ہیں، کیونکہ تلاوت میں مشغول ہونا یہ بھی سوال بزبانِ حال قصداً ہے۔ اور بلا قصد میں سب شامل ہیں، جمادات بھی اور ملحدین و متکبرین بھی، کیونکہ سب کی حالت حدث و امکان بتلا رہی ہے کہ یہ کسی بڑی ہستی کے محتاج ہیں، جس کے قبضے میں سب کا وجود و بقا ہے۔ چنانچہ ہر ملحد و متکبر کی حالت دیکھ لی جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ احتیاج میں سر سے پیر تک بندھا ہے، بس پورے طور سے ﴿يَسْئَلُهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِيْ شَأْنٍ﴾ (الرحمن: 29) کی صداقت ظاہر ہوتی ہے، یہاں پر "مَنْ" کا استعمال تغلیباً ہے۔ اور اگر اہلِ تحقیق کا قول لیا جائے تو پھر تغلیب کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ ان کے نزدیک جمادات و نباتات وغیرہ سب ذوی العقول ہیں، غیر ذوی العقول نہیں، گو ان کی عقل اس درجہ نہ ہو جو تکلیف بالاحکام کے لیے کافی ہو، مگر معرفتِ حق کے لیے ضرور کافی ہے۔ چنانچہ حیوانات و جمادات و نباتات سب کے سب خدا کو پہچانتے ہیں، بلکہ انبیاء، اولیاء تک کو پہچانتے ہیں۔
خدا سے سوال ضرور کرنا چاہیے:
ارشاد: کسی سے سوال نہ کرنے کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس کے خزانے میں کمی ہو، یا اس میں شفقت و رحم نہ ہو، یا سخاوت نہ ہو۔ اور جس میں یہ سب باتیں موجود ہوں کہ اس کے خزانے بھی بے انتہاء ہوں، شفقت و رحمت بھی کامل ہو، سخاوت بھی اعلیٰ درجہ کی ہو، اس سے سوال نہ کرنا تو بڑا غضب ہے، پس خدا تعالیٰ سے سوال ضرور کرنا چاہیے۔
عبادت کو عنوانِ دعا سے تعبیر کرنے کا نکتہ:
ارشاد: قرآن میں جا بجا عبادت کو عنوانِ دعا سے تعبیر کیا گیا ہے جس میں بتلایا گیا ہے کہ تم جو ہماری عبادت کرتے ہو، حقیقت میں ہم سے مانگتے ہو۔ اسی لیے نداءِ غیر اللہ حرام ہے کہ وہ عبادت کی فرد ہے اور عبادتِ غیر حرام ہے۔
سوال کی حقیقت، عبادت اور صورت دعا ہے:
ارشاد: ﴿يَسْئَلُهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْأَرْضِ...﴾ (الرحمن: 29) میں معنئ عبادت کو لفظِ سوال سے جو تعبیر کیا گیا ہے، اس میں نکتہ یہ ہے کہ مخلوق عبادت کر کے کچھ ہم پر احسان نہیں کرتی، بلکہ اپنا ہی بھلا کرتے ہیں کہ صورت سوال پیدا کر کے کچھ ہم سے لے لیتے ہیں۔ دوسرے اس میں اس پر بھی تنبیہ ہے کہ عبادت کے اندر سوال کی شان ہونی چاہیے۔ اور ظاہر ہے کہ سوال میں صورت بھی عاجزانہ ہوتی ہے دل میں بھی تقاضا اور طلب ہوتی ہے، اور جس سے سوال کرتے ہیں اس کی طرف آنکھیں بھی لگی ہوتی ہیں، دل بھی ہمہ تن متوجہ ہوتا ہے کہ دیکھئے درخواست کا کیا جواب ملے۔ تو یہی شان عبادت میں ہونی چاہیے، پس اس سے تکمیلِ عبادت کا طریقہ بھی معلوم ہو گیا کہ سوال کی حقیقت عبادت ہے اور صورت دعا ہے۔
تشریعی سہولت کا بیان:
ارشاد: تشریع میں دیکھئے کہ سب سے زیادہ ضروری ایمان ہے، اس میں اس قدر سہولت ہے کہ عمر بھر میں ایک بار کلمہ شریف کا اعتقاد کر لینا اور زبان سے کہہ لینا کافی ہے۔ البتہ کسی وقت پھر اس کی ضد کا اعتقاد و اظہار نہ ہو، گو ہر وقت اس اعتقاد کا استحضار اور تکرارِ اظہار مکمل ایمان ہے جس سے درجات میں ترقی ہو گی، باقی نجات مطلقہ کے لیے موقوف علیہ نہیں۔ بلکہ بعض کا قول یہ ہے اور وہی صحیح بھی ہے کہ محض تصدیقِ قلبی عند اللہ ایمان معتبر ہے، مگر باوجود قدرت کے عدمِ اظہار معصیت ہے جس کا گناہ ہوگا اور عند الناس یہ شخص احکام ظاہرہ میں کافر ہوگا، یعنی نہ اس کے جنازہ کی نمازیں پڑھیں گے نہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کریں گے، مگر عنداللہ یہ شخص مؤمن ہے گو عاصی بھی ہے، لیکن ایمان عند اللہ کے لیے صرف تصدیقِ قلبی کافی نہیں، بلکہ یہ شرط ہے کہ اماراتِ تکذیب سے احتراز کیا جاوے، مثلاً القاءِ مصحف فی القاذورۃ، ایذاءِ رسول، مقاتلۂ مسلمین وغیرہ۔
طریقۂ تکمیلِ صوم:
ارشاد: تکثیرِ ذکر بحالتِ صوم مُوجِبِ کمالِ صوم ہے۔
مسلمانوں کے افلاس کی وجہ:
ارشاد: کافر تو دنیا ہی کو جانتا ہے، آخرت کو نہیں مانتا، اس لیے وہ دنیا کا حریص نہ ہو تو اور کس چیز کا حریص ہو؟ بخلاف مسلمان کے، کہ وہ آخرت کو بھی مانتا ہے اس لیے وہ دنیا کا زیادہ حریص نہیں ہوتا۔ اسی لیے مسلمانوں میں افلاس زیادہ ہے، کیونکہ ان کو فکرِ کسب نہیں ورنہ کیا مسلمان کو کمانا نہیں آتا؟
خواصِ ایمان:
ارشاد: ایمان کا خاصہ ہے کہ خوراک کو کم کردیتا ہے، حرصِ مال بھی کم ہو جاتی ہے، نیز محبتِ دنیا کو سوختہ کردیتا ہے۔
حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلہ میں اتباعِ سنت زیادہ ہے:
ارشاد: اس زمانہ میں صوفیہ کے جس قدر سلاسل ہیں، قریب قریب سب بدعات میں مبتلا ہیں۔ صرف حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا سلسلہ ہی ایسا ہے جو اتباعِ سنت کے ساتھ ممتاز ہے۔ اور حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے خدام میں جو مبتدعین تھے، ان سے سلسلہ ہی نہیں چلا، یہ بھی اس کی دلیل ہے کہ وہ حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے طریق پر نہ تھے، ورنہ ضرور فیض چلتا۔
سہولتِ تکوینی و تشریعی:
ارشاد: جو امور تکویناً یا تشریعاً زیادہ ضروری ہیں وہ سب سے زیادہ سہل ہیں، تکویناً مثلاً ہوا، پانی اور غذا، اور تشریعاً جیسے ایمان، روزہ اور نماز وغیرہ۔
دینِ محمدی ﷺ میں تو راحت ہی راحت ہے:
ارشاد: دین کے اختیار میں تو راحت ہی راحت ہے، خصوصاً دینِ محمدی (ﷺ) کو، کہ وہ سب ادیان سے افضل و اکمل و اسہل ہے، اس میں تو دشواری ہے ہی نہیں، بلکہ اس کے ترک میں رنج و کلفت ہے۔ اور دیندار کو جو کلفت پیش آتی ہے تو اس کے ساتھ یہ بھی خیال ہوتا ہے کہ یہ محبوب کی طرف سے آئی ہے تو اس کو اس کلفت میں لذت آتی ہے۔
؎ از محبت تلخہا شیریں بود
معرفتِ اضطراری ایمان نہیں:
ارشاد: ﴿يَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا يَعْرِفُوْنَ أَبْنَاءَهُمْ...﴾ (البقرة: 146) میں معرفتِ اضطراریہ کا بیان ہے۔ اور معرفت اضطراریہ ایمان نہیں، بلکہ ایمان عمل اختیاری کا نام ہے۔ اس معرفتِ اضطراریہ کی ایسی مثال ہے جیسے دھوپ کو دیکھ کر ہر شخص اعتقادِ ضیا پر مضطر ہے۔ جس طرح اعتقاد توحید میں ہر شخص مضطر ہے، کوئی دہری، کوئی ملحد کوئی کافر اس سے خالی نہیں۔ اور یہ اثر ہے عہدِ الست کا، گو زبان سے وجود صانع کا منکر ہے، مگر دل سے ان کو بھی اقرار ہے۔
مرضِ معمولی بوجہ عدمِ اہتمام مہلک ہے:
ارشاد: اگر کسی مرض کو معمولی سمجھ کر ٹال دیا جائے اور اس کا علاج نہ کیا جائے، یا اہتمام سے نہ کیا جائے، تو وہی سخت خطرناک ہے، کیونکہ وہ اندر اندر جڑ پکڑ لے گا، پھر اخیر میں اہتمام و توجہ کرنے سے کچھ فائدہ نہ ہوگا۔ زکام، کھانسی اوّل معمولی درجہ کی ہوتی ہے، پھر وہی رفتہ رفتہ دق اور سل کی صورت اختیار کر لیتی ہے، جب کہ معمولی سمجھ کر ٹال دیا جائے۔
آخرت کی رغبت کی وجوہ:
ارشاد: ایک بات تو آخرت کی یہ قابلِ رغبت ہے کہ اس کی طلب بے کار نہیں جاتی، بلکہ ثمرہ ضرور مرتب ہوتا ہے۔ بخلاف دنیا کے، کہ وہاں اس کا وعدہ نہیں۔ پھر یہ کہ طالبِ آخرت کو طلب سے زیادہ ملتا ہے۔ چنانچہ ایک عمل کا دس گناہ ثواب تو ہر شخص کے لیے مقرر ہے۔ ﴿مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ أَمْثَالِهَا...﴾ (الأنعام: 160) اور بعضوں کو سات سو گنا بھی ملے گا جیسا کہ اس آیت میں ہے: ﴿كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِيْ كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِّأَةُ حَبَّةٍ...﴾ (البقرة: 261) پھر اس پر بھی نہیں بلکہ دوسری جگہ ارشاد ہے: ﴿فَيُضَاعِفَهٗ لَهٗ أَضْعَافًا كَثِيْرَةً...﴾ (البقرة: 245)
جنت کی وسعت و تنعُّم:
ارشاد: جنت میں اتنی وسعت ہے کہ سب سے ادنیٰ مسلمان کو بھی دنیا سے دس گنا رقبہ جنت میں ملے گا۔ نیز وہاں خدام اور اسبابِ تنعُّم بھی کثرت سے ملیں گے کہ تمام مکان پر ہوں گے، جن سے جی (دل) بالکل گھبرائے گا نہیں، بلکہ جی خوب لگے گا۔
مبالغه فی الاعمال مُوجِبِ تقلیلِ عمل ہے:
ارشاد: صوفیہ رحمۃ اللہ علیہم نے خوب سمجھا ہے، وہ کہتے ہیں کہ جہاں رسول اللہ ﷺ نے تکثیرِ عمل سے منع کیا ہے وہاں حقیقت میں تکثیر عمل سے ممانعت نہیں، بلکہ تقلیل عمل سے ممانعت ہے، کیونکہ اس مبالغہ کا انجام تقلیلِ عمل ہی ہے۔ اور بعض صوفیہ سے جو خود تکثیرِ عمل اور مجاہداتِ کثیرہ منقول ہیں تو اس کا راز یہ ہے کہ ان کے لیے عملِ صالح طبیعتِ ثانیہ اور غذا بن گیا تھا، جس کی تکثیر مُوجِبِ ملال اور تقلیل نہ تھی۔
طلبِ آخرت کی حقیقت:
ارشاد: طلبِ آخرت کی حقیقت یہ ہے کہ آخرت کا دھیان اور ذھن رہے، اور یہ کوئی مشکل بات نہیں۔ اور اس کے حصول کا سہل طریقہ یہ ہے کہ صحبتِ اہل اللہ اختیار کرو، گاہے گاہے اُن سے ملتے رہو، ان کے پاس بیٹھو، ان کی باتیں سنو، ان سے تعلق رکھو، اور اگر یہ میّسر نہ ہو تو تذکرۂ اولیاء اللہ اس کے قائم مقام ہے۔
کثرتِ ضحک:
ارشاد: "إِیَّاکَ وَ کَثْرَةَ الضِّحْکِ فَإِنَّہٗ یُمِیْتُ الْقَلْبَ" (الصحیح لابن حبان، کتاب البر والإحسان، باب: الصدق و الأمر بالمعروف و النہی عن المنکر، رقم الحدیث: 361) ہنسنا جائز ہے، لیکن اس کی کثرت دل کو مردہ کر دیتی ہے۔
؎ دل ز گفتن بمیرد و در بدن
گرچہ گفتارش درِ عدن
توجہ الی اللہ اصل مقصود ہے:
ارشاد: ہمارے حضرات اپنی طرف ہمیشہ یہی قصد رکھتے ہیں کہ توجہ الی اللہ سب سے زیادہ ہو۔ اور کوئی شئ اس سے مانع نہ ہو۔ بلا قصد کسی شئ کی طرف توجہ ہو جائے وہ اور بات ہے۔ توجہ للہ بجائے توجہ الی اللہ کے ہے، مگر عاشق کو کب گوارہ ہے قصداً غیر کی طرف متوجہ ہو؟ عاشق کا مزاج تو یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک دم بھی محبوب سے غافل ہونے کو گوارہ نہیں کر سکتا، اپنی طرف سے ہر دم ادھر ہی متوجہ رہتا ہے، خواہ محبوب متوجہ ہو یا نہ ہو۔
؎ ملنے کا اور نہ ملنے کا مختار آپ ہے
پر تم کو چاہیے کہ تگ و دو لگی رہے
؎ اندریں ره می تراش و می خراش
تا دمِ آخر دمے فارغ مباش
می تراش، می خراش؛ دھیان اور دھن ہی کا ترجمہ ہے۔
بدنظمی بھی ایک قسم کا دوام ہے قابل ترک نہیں:
ارشاد: اگر کوئی ایسا بد انتظام ہو جس سے نباہ کرنے سے کام نہ ہوتا ہو، کبھی تو توجہ الی اللہ زیادہ ہوتی ہو، کبھی کچھ بھی نہیں ہوتا، معمولات بھی پابندی سے نہیں ہوتے، تو وہ بھی گھبرائے نہیں، کیونکہ حضرت استاد علیہ الرحمۃ نے فرمایا ہے کہ ہر شخص کا دوام جدا ہے۔
؎ دوست دار و دوست ایں شگفتگی
کوشش بے ہودہ بہ از خفتگی
یعنی ترکِ کلی سے کوششِ بے ہودہ ہی اچھی۔
اللہ تعالیٰ سے تعلق کس طرح رکھنا چاہیے:
ارشاد: بدنظمی اور عدمِ دوامِ ذکر تو کیا، اگر گناہ بھی ہوجائے تو جب بھی یہ نہ سمجھو کہ مردود ہو گئے، بلکہ پھر بھی اللہ تعالیٰ ہی کو لپٹو اور سمجھو کہ گناہ کا علاج بھی وہی کر سکتے ہیں۔ حضرت موسٰی علیہ السلام پر ایک بار وحی آئی کہ اے موسٰی! میرا محبوب بندہ وہ ہے جو مجھ سے ایسا تعلق رکھے جیسا بچہ ماں سے رکھتا ہے، پوچھا، الٰہی! یہ تعلق کیسا ہوتا ہے؟ فرمایا کہ بچہ کو ماں مارتی ہے اور بچہ پھر بھی اسی کو لپٹتا ہے۔ پس گناہ کر کے بھی ان کو نہ چھوڑو بلکہ ان ہی سے لپٹو۔
دھیان اور دھن کی ضرورت:
ارشاد: افسوس کہ عوام تو کیا، علماء میں بھی نماز روزہ تو ہے، مگر دھیان اور دھن اور اللہ تعالیٰ سے تعلق، ان سے لوگوں کا لگنا، لپٹنا، محبت میں گھلنا یہ نہیں ہے۔ اور بدوں اس کے کام نہیں چلتا، کیونکہ بدوں اس کے نماز، روزہ پر استقامت خطرہ میں رہتی ہے، ہر وقت نفس سے منازعت رہتی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ منازعت کے ساتھ اول تو کام ہی خود دشوار ہوتا ہے، پھر اس پر دوام کی امید نہیں۔ اور تعلق مع اللہ کے ساتھ منازعتِ نفس ختم ہو جاتی ہے اور دوامِ عمل کی امید غالب قرب بہ یقین ہو جاتی ہے۔
؎ صنما! رہِ قلندر سزد ار بمن نمائی
کہ در ازو دور دیدم رہ و رسمِ پارسائی
رسمِ پارسائی سے مراد زہدِ خشک ہے اور رہ قلندر سے مراد طریقِ عشق ہے۔
دین بزرگوں کی نظر سے پیدا ہوتا ہے:
ارشاد: اہلِ عشق میں امراضِ قلب، تکبر و ریا وغیرہ نہیں ہوتا، کیونکہ عشق سب کو جلا پھونک کر فنا کردیتا ہے۔ اور زاہدانِ خشک میں تکبر وعجب و ریا وغیرہ بہت ہوتا ہے، اس لیے صحبتِ عشاق کی ضرورت ہے۔
؎ نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا
دین ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا
ایک قاعدۂ فقہیہ:
ارشاد: کسی مصلحت کے فوت ہونے یا کسی مفسدہ کے پیدا ہونے کے احتمال سے مباح و مستحب کو ناجائز کہنے کا ہر کسی کو حق نہیں، بلکہ یہ منصب خاص حضرات مجتہدین کا ہے۔ مثلاً حطیم کو خانہ کعبہ کے اندر داخل کرنا مستحب تھا، لیکن اس مفسدہ کی وجہ سے کہ عوام کو خیال ہو گا کہ کیسے نبی ہیں کہ کعبہ کو منہدم کر کے اس کی بے حرمتی کرتے ہیں، اس مستحب کے ترک کو گوارا فرمایا۔ اسی طرح حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے نکاح میں اسی مفسدہ کا احتمال تھا کہ یہ کیسے نبی ہیں کہ اپنے متبنّٰی (زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ) کی بیوی سے نکاح کرتے ہیں، لیکن حضور ﷺ کو حکم دیا گیا کہ آپ زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کر لیں، منافقین کے طعن کی پرواہ نہ کریں۔
شخصی حکومت کی تائید:
ارشاد: یہ قاعدہ ہی غلط ہے کہ کثرت رائے پر فیصلہ کیا جائے، بلکہ قاعدہ یہ ہونا چاہیے کہ صحیح رائے پر عمل کیا جائے، خواہ وہ ایک ہی شخص کی رائے ہو۔ کیونکہ قانونِ فطرت یہ ہے کہ دنیا میں عقلاء کم ہیں، اس لیے کثرتِ رائے پر فیصلہ اگر حماقت کا فیصلہ نہیں تو کم عقلی کا فیصلہ تو ضرور ہوگا۔ صحیح رائے پر عمل کرنا بدوں شخصی حکومت کے ممکن نہیں۔ اور جمہوری حکومت میں اکثر غلط رائے پر عمل ہوتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ جب تک صحیح رائے پر عمل نہ ہو گا اس وقت تک انتظام درست نہیں ہوتا۔ پس ثابت ہو گیا کہ انتظام بدوں شخصی حکومت کے نہیں ہو سکتا۔ البتہ اسلام میں جو شخصی سلطنت کی تعلیم ہے تو اس کے ساتھ یہ بھی حکم ہے کہ اے اہلِ حل و عقد! اور اے جماعتِ عقلاء! بادشاہ ایسے شخص کو بناؤ جو اتنا صاحب الرائے ہو کہ اگر کبھی اس کی رائے، رائے عالَم کے بھی خلاف ہو تو یہ احتمال ہو سکے کہ شاید اس کی رائے صحیح ہو۔ اور جس کی رائے میں اتنی رزانت نہ ہو، اس کو ہرگز بادشاہ نہ بناؤ، ایسے شخص کو بادشاہ بنانے ہی کی کیا ضرورت جس کے لیے ضمِ ضمیمہ کی ضرورت پڑے۔
توحید کی برکت:
ارشاد: موحِّد کو ایسا اطمینان ہوتا ہے کہ جیسا بچے کو ماں کی گود میں اطمینان ہوتا ہے۔ بچہ ماں کی گود میں جا کر بالکل بے فکر ہو جاتا ہے کہ بس اب کسی کا خوف نہیں۔
التزامِ کفر، کفر ہے اور لزومِ کفر، کفر نہیں:
ارشاد: التزامِ کفر، کفر ہے، لزومِ کفر، کفر نہیں۔
اتباعِ نفس کی علامت:
ارشاد: عارف کو موت کا اشتیاق ہوتا ہے، مگر وہ ڈینگیں نہیں مارا کرتا، اور ڈینگیں مارنا اتباعِ نفس کی علامت ہے۔
دینی کمال:
ارشاد: دین کا کمال تو یہ ہے کہ جہاں خدا کہے وہاں خوشی سے جان دو، ورنہ اپنی جان کو آرام دو۔
عقل کا کام اتنا ہے جتنا مشّاطہ کا:
ارشاد: عقل کا کام اتنا ہے جتنا مشّاطہ کا کام ہے کہ وہ دولہا دلہن میں وصال کراتی ہے اور دلہن کو بنا سنوار کر تیار کر دیتی ہے مگر وصال کے بعد الگ ہو جاتی ہے۔ اب اگر تانکے جھانکے تو جوتے کھائے گی۔ اسی طرح وصال کے ابتدائی مرحلے تک تو عقل ساتھ رہتی ہے مگر جب وصال شروع ہو گیا تو اس کے بعد عقل بے کار ہے، اب عشق ہی تنہا رہ جاتا ہے۔
درستگئ انتظام کا طریقہ:
ارشاد: آزادئ مطلق سے کبھی انتظام نہیں ہو سکتا، نہ دنیا کا نہ دین کا، بلکہ تابعیت اور متبوعیت ہی سے ہمیشہ انتظام درست ہوتا ہے۔
زوال سلطنت مغلیہ کا سبب اکبر ہے:
ارشاد: سلطنت کا زوال عالمگیر سے نہیں ہوا، بلکہ اکبر نے اس کو زائل کیا ہے۔ اس نے غیر قوموں کو سلطنت میں دخیل کار بنا کر ان کے ہاتھوں میں سلطنت کی باگ دے دی۔
سادگی کی تعلیم:
ارشاد: امتیازی شان نہ بنانا چاہیے، اسی لیے ہمارے بزرگ نہ عبا پہنتے ہیں، نہ چوغہ، نہ صدری کہ اس سے خواہ مخواہ آدمی دوسروں سے ممتاز معلوم ہوتا ہے۔ ہم نے اپنے اکابر کو صدری پہننے کا عادی نہیں دیکھا، یہ رواج عموم و لزوم کے ساتھ آج کل ہی نکلا ہے اور اس کو بھی لوگوں نے علماء کا خاص امتیازی شعار بنا لیا ہے۔
دین کی عزت پر سارا مال قربان:
ارشاد: واللہ لاکھوں اور کروڑوں روپیہ بھی ملتے ہوں مگر دین کی عزت اس کے لینے سے کم ہوتی ہو تو ایسے روپیہ پر لعنت بھیجنی چاہیے اور مانگنا تو در کنار۔
خلوت کی ضرورت ہر سالک کو ہے:
ارشاد: ہر سالک کے لیے ایک وقت خلوت کا ہونا ضروری ہے جس میں وہ یکسوئی کے ساتھ ذکر و فکر میں مشغول ہو، حضور ﷺ سے زیادہ کون ہو گا؟ آپ نے بھی اپنے لیے ایک وقت خلوت کا مقرر کر رکھا تھا۔ چنانچہ آپ ﷺ رات کو جب سب سو جاتے تھے، اٹھ کر نماز وغیرہ میں مشغول ہوتے تھے۔ جن لوگوں کا وقت خلوت کے لیے مخصوص نہیں ہوتا، رفتہ رفتہ ان کا قلب انوار سے بالکل خالی ہو جاتا ہے۔
"اَلْجَلِیْسُ الصَّالِحُ خَیْرٌ مِّنَ الْوَحْدَةِ" کے معنی:
ارشاد: بس ایک کو اپنا بزرگ بنا لو اور جم کر اس کے پاس رہو، اور اس کے پاس بھی زیادہ آمد و رفت نہ کرو، بلکہ ایک دفعہ بہت سا رہ لو پھر اپنے گھر بیٹھو، برس میں ایک دفعہ پھر مل لینا۔ اور ہر مہینہ بھی اس کے پاس نہ جاؤ۔ اس مشورہ کا راز یہ ہے کہ جلیسِ صالح سے ملنا صلاح کے لیے مقصود ہے تو جب تک اس اختلاط سے صلاح حاصل ہو اس وقت تک اس سے ملنا وحدت سے بہتر ہے۔ اگر کبھی بزرگوں کی زیارت سے صلاح حاصل نہ ہو بلکہ فساد بڑھنے لگے تو اس وقت اختلاطِ صالح سے بھی منع کر دیا جائے گا۔ مثلاً زیارت نام کو ہو اور مقصود سیر و سیاحت ہو، یا عمدہ کھانے کا ملنا ہو، اوراد میں خلل پڑتا ہو تو اپنے سفر کی وجہ سے معذور سمجھتے ہوں۔ حالانکہ مسافر وہی معذور ہے جو ضرورت کی وجہ سے سفر کرے۔ بعض دفعہ بزرگوں کی بعض حالت دیکھنے سے قلب میں انکار پیدا ہو جاتا ہے، جو سخت وبال کا باعث ہے جس سے بعض دفعہ ایمان بھی سلب ہو جاتا ہے۔
تعزیت کا طریقہ:
ارشاد: تعزیت میں ان خاص خاص عزیزوں کو جانا چاہیے جن سے وارثوں کو تسلی ہو، باقی لوگوں کو خط سے تعزیت کرنا چاہیے۔
حضور ﷺ کی مثال:
ارشاد: حضور ﷺ بشر تو ہیں مگر ایسے جیسے ایک بزرگ نے کہا ہے کہ "بَشَرٌ کَالْبَشَرِ بَلْ ھُوَ کَالْیَاقُوْتِ بَیْنَ الْحَجَرِ"۔
تاخیر مقصودِ حکمت:
ارشاد: حکمت کا مقتضا یہی ہے کہ مقصود جلدی عطا نہ کیا جائے اور علوم میں شیئاً فشیئاً تزاید ہوتا رہے، کیونکہ قاعدہ یہ ہے کہ مستقر پر پہنچنے کی قدر زیادہ اسی کو ہوتی ہے جس کو سفر میں زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔
؎ لیک شیرینی و لذاتِ مقر
ہست بر اندازۂ رنجِ سفر
اطاعت کی بھی ایک حد ہے:
ارشاد: اطاعت کی بھی ایک حد ہے، جب اس میں تجاوز ہو جائے تو وہ اطاعت باقی نہیں رہتی۔ اسی لیے فقہاء نے فرمایا ہے کہ جو شخص گیہوں کے ایک دانہ کی تشہیر کرے اس کو تعزیر کی جائے۔ کیونکہ اس تشہیر کا منشا غلو فی الورع و التقویٰ ہے۔
احداث فی الدین و احداث للدین کی شرح:
ارشاد: احداث فی الدین اور شئ ہے، اور احداث للدین اور شئ ہے۔ یعنی ایک تو یہ صورت ہے کہ نئی بات کو دین میں داخل کیا جائے، جیسے مولود، فاتحہ وغیرہ، یہ تو بدعتِ محرَّمہ ہے۔ اور ایک یہ صورت ہے کہ نئی بات دین کی حفاظت کے لیے ایجاد کی جائے، جیسے ہر زمانہ میں نئے نئے اسلحہ کی ایجاد۔ کیونکہ پرانے اسلحہ آج کل کار آمد نہیں، یا دین کی حفاظت کے لیے مدارس وغیرہ قائم کرنا یہ بدعت نہیں۔ کیونکہ ان کو دین میں داخل کر کے جزوِ دین نہیں بنا دیا گیا۔
اہل اللہ کی راحت کا راز:
ارشاد: اہل اللہ کسی مخلوق سے توقع نہیں رکھتے، نہ کوئی تجویز اپنے لیے قائم کرتے ہیں۔ یہی راز ہے ان کے کمالِ راحت و اطمینان کا۔ چنانچہ حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے خدام کو اس امر کی وصیت کی تھی کہ اگر راحت چاہتے ہو تو مخلوق سے توقع کو قطع کردو۔ حتیٰ کہ مجھ سے بھی کوئی امید نہ رکھو، تاکہ اگر نفع یا ارشاد میں کچھ کوتاہی اور کمی ہو تو تم کو رنج نہ ہو۔
اہل اللہ کے اشتیاقِ موت کی وجہ:
ارشاد: تعلقاتِ ماسویٰ اللہ کا انقطاعِ کلی موت سے ہوتا ہے۔ اس لیے اہل اللہ جو توحیدِ خالص کے عاشق ہیں، وہ تو موت کے مشتاق ہیں۔ کوئی طبعاً مشتاق، کوئی عقلاً مشتاق۔
محلِ جوازِ انتقالِ دلیل للمناظر:
ارشاد: مناظر کو ایک دلیل سے دوسری دلیل کی طرف انتقال جائز نہیں ورنہ مناظرہ کبھی ختم ہی نہیں ہوگا۔ یہ انتقال اپنی مصلحت سے ممنوع ہے، اور اگر مخاطب کی مصلحت سے ہو تو جائز ہے، جبکہ بلادتِ فہم کی وجہ سے دلیلِ اول کو نہ سمجھ سکے، جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کا واقعہ۔
تباکی سے مقصود بکا بالقلب ہے:
ارشاد: تباکی سے مقصود بکا بالقلب ہے، اور اس کے لیے تباکی اس لیے اختیار کیا گیا ہے کہ ظاہر کا اثر باطن پر بھی ہوتا ہے۔
ہدیۂ محبت سے قلب میں نور پیدا ہوتا ہے:
ارشاد: جب کوئی شخص محبت سے ہدیہ لاتا ہے تو اس کو کھا کر قلب میں نور پیدا ہوتا ہے۔
کاملین کو استعمال نعم مذکر نعماء جنت ہے:
ارشاد: کاملین اس لیے بھی نعمتیں کھاتے ہیں تاکہ نعماءِ جنت ہر وقت یاد رہیں۔
ترکِ لذائذ کا حکم:
ارشاد: ترکِ لذائذ مطلقاً رہبانیت نہیں، بلکہ جو اس کو عبادت سمجھے وہ راہب ہے۔ اور اگر عبادت نہ سمجھے بلکہ علاج سمجھ کر ترک کر دے، وہ راہب نہیں۔
دروغ مصلحت آمیز بہ از راستئ فتنہ انگیز:
ارشاد: ''دروغ مصلحت آمیز بہ از راستی فتنہ انگیز'' یہ عام نہیں ہے کہ ہر مصلحت میں جھوٹ بول دیا کرے، بلکہ جس دروغ میں دوسرے کو ضرر نہ ہو اور اپنا یا کسی اور کا اس سے ضرر دفع ہوتا ہو، شیخ نے اس کو مصلحت سے تعبیر کیا ہے۔ مثلاً ایک شخص 100 روپے قرض لینے آیا مگر یہ تجربہ نہیں کہ یہ شخص معاملہ کا کیسا ہے تو ہمیں اس گمان کرنے میں کچھ حرج نہیں کہ نہ معلوم یہ شخص دیندار ہے یا نا دہندہ، اگر ہم جھوٹ بھی بول دیں کہ روپیہ ہمارے پاس نہیں ہے تو بھی گناہ نہ ہوگا کیونکہ یہ شخص اپنے کو ضرر سے بچا رہا ہے دوسرے کو ضرر نہیں دے رہا۔ اس جھوٹ سے گناہ نہیں ہوتا۔
منافع مغصوب میں گناہ کی ادائیگی کی صورت:
ارشاد: منافع مغصوب پر ضمان لازم نہیں آتا، لیکن گناہ ہوگا اور گناہ کی ادائیگی کی صورت یہی ہے کہ اس کا بدل ادا کرے۔
دوسرے کا مال تلف کرنا اپنا ہی مال تلف کرنا ہے:
ارشاد: جب کسی کا مال تلف کرو گے تو تمہارا مال تلف ہوگا، خواہ دنیا میں یا آخرت میں۔ اس معنیٰ کو بھی دوسرے کا مال تلف کرنا اپنا ہی مال تلف کرنا ہے۔
رشوت کو بقا نہیں:
ارشاد: رشوت والے ہزاروں جمع کر لیتے ہیں مگر ایک دو پشت کے بعد کچھ بھی نہیں رہتا۔
برکت کی حقیقت:
ارشاد: ہر چیز ایک خاص کام کے لیے موضوع ہوتی ہے، اس کا اور کام میں آنا تو برکت ہے، اور اگر اس کام میں نہ آئے تو بے برکتی ہے۔ مثلاً روپیہ اس واسطے ہے کہ اس کے ذریعے سے کھائیں پہنیں، دنیا کی راحت حاصل ہو، تو اگر وہ کھانے پہننے کے کام آئے اور اپنے تن کو لگے تو برکت ہے اور اگر اس کام میں نہ لگے بلکہ فضول اڑ جائے تو بے برکتی ہے۔
جوش کی حالت کا چندہ ناجائز ہے:
ارشاد: ایسے جوش کی حالت میں جس میں آدمی مغلوب العقل ہو جائے اور بعد میں پچھتائے تو خود چندہ ہی لینا ناجائز ہے۔ جوش سے جب کوئی دے تو مت لو، جب ہوش درست ہو جائے اس وقت لو۔
آرام سے رہو، مگر حد سے نہ نکلو مختلف فیہ مسائل میں وسعت دو:
ارشاد: حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم لوگ عاشقانِ احسانی ہیں۔ یعنی ہم لوگوں کو جو خدا تعالیٰ سے محبت ہے وہ ان کے احسانات کی وجہ سے ہے۔ اس واسطے ہمارے حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے آرام سے رہو، مگر حد سے نہ نکلو، اس لیے مختلف فیہ مسائل میں وسعت دینی چاہیے۔ اس طرح ایک تو شریعت سے محبت ہو گی، دوسرے جو اس سے منتفع ہوگا آرام سے رہے گا۔
تقسیمِ ترکه فوراً کرنی چاہیے:
ارشاد: میری رائے ہے کہ ترکہ مرتے ہی تقسیم ہوجائے۔ بعد میں بڑے قصے پھیل جاتے ہیں۔
زمین بڑی قدر کی چیز ہے:
ارشاد: زمین بڑی قدر کی چیز ہے، اس سے عزت و جاہ کی حفاظت ہوتی ہے۔ اس لیے جائیداد کے متعلق حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ نہ ہو تو لو مت اور ہو تو دو مت، یہ امر مشاہَد ہے کہ جس کے پاس جائیداد ہوتی ہے اس کی عزت تو جائیداد سے ہوتی ہے، وہ اگر جائیداد بیچ دے گا اس کی وہ عزت ہر گز نہ رہے گی۔ اس لیے اس کو رکھنے کے واسطے فرمایا۔ یہاں تک کہ اگر کسی مصلحت سے فروخت کرے تو پھر دوسری فوراً لے لے۔ اور جس کے پاس جائیداد نہ ہو تو اس کی جو عزت ہوگی وہ ویسے ہی ہوگی، پھر جائیداد خرید کر کے کیوں جھگڑے میں پڑے؟
قیامت کے دن زمین کی روٹی کی لذت کی وجہ:
ارشاد: زمین میں انار بھی ہیں، انبہ (آم) بھی ہیں، انگور بھی، کھٹائی بھی، مٹھائی بھی سب چیزیں زمین کے اندر موجود ہیں، ہر طرح کا مادہ اس میں رکھا ہے۔ یہ وہی مادہ ہے جو ان رنگ برنگ صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے۔ قیامت کے روز اپنی قدرت کی مشین سے حق تعالیٰ تمام فضلہ کو الگ کردیں گے، پس اس سے جو روٹی تیار ہوگی، ظاہر ہے کہ اس میں ہزاروں قسم کے تو مزے اور ہزاروں قسم کی خوشبوئیں ہوں گی، لہٰذا اس روٹی سے زیادہ کون سی چیز مزیدار ہو سکتی ہے؟
دین کی عزت ہر وقت ملحوظ رکھنی چاہیے:
ارشاد: میرا جی یوں چاہتا ہے کہ کسی کا احسان رکھ کر مال نہ لیا جائے۔ ہمارے بزرگوں کا مذہب یہ ہے کہ اپنی کسی بات سے دین کی عزت میں ذرہ برابر فتور نہ آئے، جو بات کی جاتی ہے اس میں یہ نیت ہوتی ہے کہ دین کی عزت ہر طرح محفوظ رہے۔
اعزہ کے ساتھ سلوک نقدی چاہیے:
ارشاد: اعزہ کے ساتھ سلوک کرنا چاہے تو نقد دے دے، کھانے وغیرہ کا قصہ نہ پھیلائے، اس میں بڑی خرابیاں پیش آتی ہیں۔
اسلامی اصول پر چلنے سے ذلت نہیں ہوتی:
ارشاد: حقوقِ مالیہ کی حفاظت نہایت ضروری ہے، اسلامی اصول پر چلنے سے کبھی ذلت نہیں ہوتی۔
معرفتِ الٰہی کی لذّت:
ارشاد: معرفت ایسی لذیذ شئ ہے کہ عارفین کے نزدیک جنت اور حوروں میں بھی وہ مزہ نہیں۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ کو بچپن میں مر جانا اور خطرات سے محفوظ ہونا پسند ہے یا بالغ ہو کر خطرہ میں پڑنا پسند ہے؟ فرمایا: "مجھے بالغ ہو کر خطرہ میں پڑنا پسند ہے، بچپن کی موت پسند نہیں، کیونکہ بلوغ کے بعد معرفتِ حق عزّ و جلّ زیادہ ہوتی ہے، جو بچپن میں نہیں ہوتی"۔
ملائکہ و انسان کی عبادت کا فرق:
ارشاد: ملائکہ کو عبادت میں لذت حاصل ہے اور انسان عام طور پر لذت سے خالی ہیں، مگر ثواب زیادہ انسان ہی کو ہے بوجہ مجاہدہ و مزاحمت و خطرات کے۔
تعدیۂ مرض کے متعلق تین قول:
ارشاد: تعدیہ میں تین قول ہیں: (1) بدوں حق کا مرض لگتا ہے یہ تو کفر و زندقہ ہے۔ (2) مشیتِ حق سے لگتا ہے، مگر مشیت و حکمِ الٰہی ضروری ہے، یہ قول غلط و باطل ہے، گو کفر نہیں۔ (3) مشیت سے لگتا ہے اور مشیت ضرور نہیں، اگر مشیت ہوگی تو مرض نہیں لگے۔ اس میں زیادہ معذور نہیں، اگر کوئی اس کا قائل ہوجائے تو گنجائش ہے، مگر احادیث صحیحہ سے ظاہراً ترجیح اسی کو ہے کہ تعدیہ کوئی شئ نہیں اور ایک کا مرض دوسرے کو نہیں لگتا۔
اتباعِ سنت کے معنیٰ:
ارشاد: حضور ﷺ کا طرز و عادت وہ ہے جو غالب و مستمر ہو، اس کا اتباع کرنا اتباعِ سنت ہے، اتفاقی واقعات کے اتباع کا نام اتباعِ سنت نہیں۔ مگر یہاں ایک بات اہلِ علم کے سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ بعض دفعہ صورتاً عمل قلیل ہوتا ہے، لیکن معنیً کثیر و غالب، جیسے تراویح میں عمل تو تین رات ہوا ہے اور خشیتِ افتراض کی وجہ سے ترک زیادہ ہوا، لیکن یہ ترک عارض سے تھا اور عمل اصل، پس اس کو راجح کہیں گے اور تراویح کو سنت کہیں گے۔ اور عملِ صحابہ سے استمرار کا بدعت نہ ہونا اور بیس رکعت کا بدعت نہ ہونا ثابت ہے۔ خلاصہ یہ کہ کبھی عادت کا غالب ہونا کثرتِ وقوعِ عمل سے معلوم ہوتا ہے، اور کبھی غلبہ مقصودیت سے معلوم ہوتا ہے اور اس کے لیے تراویح کی نظیر کافی ہے۔
عمر بھر طلب ہی میں لگا رہے، اپنے کو فارغ اور کامل نہ سمجھ لے:
ارشاد: حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ جس کو تمام عمر کام کر کے ساری عمر میں یہ بات حاصل ہو جائے کہ مجھ کو حاصل نہیں ہوا، اس کو سب کچھ حاصل ہو گیا۔ مبارک ہے وہ شخص جو عمر بھر اسی ادھیڑ بن میں لگا رہے کہ میری حالت اچھی ہے یا بُری۔ صاحبو! طلب ہی مطلوب ہے، پس عمر بھر طلب میں ہی رہو، وصول مطلوب نہیں، کیونکہ وہ تمہارے اختیار میں نہیں۔ جس نے اپنے کو فارغ و کامل سمجھ لیا اور اپنی حالت پر مطمئن و بے فکر ہو گیا وہ برباد ہوا، گیا گذرا ہوا، مگر اس کے ساتھ یہ بھی سمجھے کہ اس وقت جو کچھ میری حالت ہے جیسی کچھ بھی ہے یہ سب خدا کا فضل ہے۔
؎ بلا بودے اگر ایں ہم نہ بودے
تاکہ تواضع و شکر دونوں جمع ہو جائیں۔
حضور ﷺ کی اتباع کے معنیٰ:
ارشاد: حضور ﷺ کی اتباع یہ ہے کہ جو افعال و صفات آپ کے اصلی دائمی ہیں، وہ تمہارے اندر بھی اصلی و دائمی ہوں کہ زیادہ غلبہ اور ظہور ان ہی کا ہو۔ اور جو صفات و افعال حضور ﷺ کے لیے عارضی ہیں، وہ تمہارے اندر بھی عارضی ہوں۔
مہذب سزاؤں میں قتل سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے:
ارشاد: دلیل عقلی کا مقتضا یہ ہے کہ قتل میں مرنے والوں کو کم تکلیف ہوتی ہے اور ان مہذب سزاؤں میں زیادہ تکلیف ہوتی ہے، کیونکہ موت نام ہے زہوقِ روح یعنی جان نکلنے کا اور جس طریق میں جان نکلنے کا راستہ پیدا کیا جائے یقیناً اس میں سہولت سے جان نکلے گی۔ اور جن صورتوں میں گھونٹ کر یا دبا کر جان نکالی جائے گی اس میں سخت تکلیف سے جان نکلے گی۔ چنانچہ پھانسی میں تڑپنے کی وجہ سے زبان باہر نکل آتی ہے اور صورت بگڑ جاتی ہے، پس پھانسی میں اتنی رعایت تو ہے کہ بھیانک منظر پیش نہیں ہوتا۔ لیکن واقع میں قتل سے زیادہ پھانسی میں تکلیف ہوتی ہے۔
ذبحِ حیوان رحم کے خلاف نہیں، ذبحِ حیوان و انسان کا فرق:
ارشاد: ذبحِ حیوان رحم کے خلاف نہیں بلکہ ان کے حق میں اپنی موت مرنے سے مذبوح ہو کر مر جانا بہتر ہے، کیونکہ خود مرنے میں قتل و ذبح کی موت سے زیادہ تکلیف ہے۔ رہا یہ سوال کہ پھر انسان کو بھی ذبح کر دیا جایا کرے، تاکہ آسانی سے مر جایا کرے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حالتِ یاس سے پہلے ذبح کرنا تو دیدۂ و دانستہ قتل کرنا ہے، اور حالتِ یاس کا پتہ چل نہیں سکتا، کیونکہ بعض لوگ ایسے بھی دیکھے گئے ہیں کہ مرنے کے قریب ہو گئے تھے پھر اچھے ہو گئے۔ اور یہ شبہ اگر حیوانات میں کیا جائے کہ ان کی تو یاس کا بھی انتظار نہیں کیا جاتا، جواب یہ ہے کہ انسان اور بہائم میں فرق ہے، وہ یہ کہ انسان کا ابقاء تو مقصود ہے، کیونکہ خلقِ عالم سے وہی مقصود ہے، چنانچہ اسی لیے تمام مخلوق کے موجود ہونے کے بعد انسان کو پیدا کیا گیا۔ اور جانور کا ابقاء مقصود نہیں اس لیے ان کے ذبح کی اجازت دی گئی۔ اس بنا پر کہ ذبح ہو جانے میں ان کو راحت ہے، اور ذبح کے بعد ان کا گوشت وغیرہ بقاءِ انسان میں مفید ہے جس کا ابقاء مطلوب ہے۔ اور یونہی مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے تو مردہ ہو کر اس کے گوشت وغیرہ میں سمیت (زہر) کا اثر پھیل جائے گا، اور اس کا استعمال انسان کی صحت کے لیے مضر ہوگا تو بقاءِ انسان کا وسیلہ نہ بنے گا۔ اور قصاص و جہاد میں چونکہ افناءِ بعض افراد بغرضِ ابقاءِ جمیعِ الناس ہے، اس لیے وہاں قتلِ انسان کی اجازت دی گئی۔
شریعتِ مقدسہ سے راحتِ موتِ انسان کا سامان:
ارشاد: تقریر بالا سے تو یہ لازم آتا ہے کہ چونکہ انسان کا ابقاء مقصود ہے اس لیے اس کے حق میں راحتِ موت کی رعایت نہیں کی گئی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ شریعتِ مقدسہ نے انسان کی راحتِ موت کا دوسرا سامان بتلایا:
(1) شہادتِ جہاد: جس میں زہوق روح کی شہید کو تکلیف نہیں ہوتی۔
(2) موت کے وقت "لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ" کی تلقین اور سورۂ یٰسین کی تلاوت: "فَإِنَّ لَھُمَا تَأْثِیْرًا فِیْ تَسْھِیْلِ النَّزْعِ"
(3) تعلق مع اللہ کا غالب کرنا: اس حالت میں شدتِ نزع سے بھی تکلیف نہیں ہوتی۔
عالِم کے چہرہ کی طرف دیکھنا عبادت ہے:
ارشاد: عالِم کے چہرے کے طرف دیکھنا بھی عبادت ہے، اس کا مطلب گھورنا و تکنا نہیں ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ کبھی کبھی اس کے چہرہ کی طرف دیکھ لیا جائے اور اس طرح دیکھا جائے کہ اس کو خبر بھی نہ ہو کہ مجھے کوئی تک رہا ہے، کیونکہ اس سے تکلیف ہو گی، دل پر گرانی ہو گی۔
مسلمان کو عذابِ جہنم کا احساس کم ہوگا:
ارشاد: میں مسلمانوں کو بشارت دیتا ہوں کہ ان کو عذابِ جہنم کا احساس کفار سے بہت کم ہوگا۔ جس کی حقیقت مسلم کی ایک حدیث میں ان لفظوں میں بیان کی گئی ہے۔ "أَمَاتَھُمْ إِمَاتَۃً" (الصحیح لمسلم، کتاب الإیمان، باب: إثبات الشفاعۃ و إخراج الموحدین من النار، رقم الحدیث: 306) کہ حق تعالیٰ ان کو جہنم میں ایک قسم کی موت دیدیں گے، حدیث میں تو اتنا ہے، شیخ ابنِ عربی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تفسیر کی ہے کہ مؤمنین کو جہنم میں ایک مدّت کے لیے ہلکی سی نیند آ جائے گی۔ حدیث: "اَلنَّوْمُ أَخُ الْمَوْتِ" (المعجم الأوسط للطبرانی، باب: الألف، من اسمہ أحمد، رقم الحدیث: 919) سے اس کی تائید بھی ہوتی ہے۔ "إِمَاتَۃً" بڑھانے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک خاص قسم کی موت مراد ہے جو موت کے مشابہ تو ہے لیکن حقیقی موت مراد نہیں۔ شیخ ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے بعد یہ فرمایا ہے کہ اس نیند کی حالت میں وہ یوں خواب دیکھے گا کہ میں جنت میں ہوں اور حوروں کے پاس ہوں۔ مگر مسلمان اس سے بے فکر ہو جائیں کہ بس جی جہنم میں جا کر مزے سے سو جائیں گے، کیونکہ اگر تھوڑی دیر کو جاگ بھی گئے تو نانی یاد آ جائے گی۔
بندہ کی مصالح کی رعایت حق تعالیٰ اس سے زیادہ فرماتے ہیں:
ارشاد: بخدا حق تعالیٰ سے زیادہ بندہ کی مصالح کی رعایت کوئی نہیں کر سکتا۔ خود بندہ بھی اپنے مصالح کی رعایت اتنی نہیں کر سکتا جتنی اللہ تعالیٰ مصالح کی رعایت فرماتے ہیں۔ مگر یہ کہ وہ تم کو بھی بتلا دیں اس کی کیا ضرورت ہے؟ اور اجمالاً بتلا بھی دیا: ﴿عَسٰى أَن تَكْرَهُوْا شَيْئًا وَّ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَ عَسٰى أَن تُحِبُّوْا شَيْئًا﴾ (البقرة: 216)
حق تعالیٰ کے استغناء کے معنیٰ:
ارشاد: حق تعالیٰ کے استغناء کے یہ معنیٰ نہیں کہ ان میں رحم نہیں، بلکہ یہ معنیٰ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی کے محتاج اور کسی سے عاجز نہیں۔ اسی قدرت عدمِ احتیاج پر نظر کر کے انبیاء علیہم السلام لرزاں و ترساں رہتے ہیں۔
عارف را ہمت نباشد کے معنیٰ:
ارشاد: خواجہ عبید اللہ احرار رحمۃ اللہ علیہ کا مقولہ ہے کہ ”عارف را ہمت نباشد“ یعنی عارف توجہ نہیں کرسکتا، اس کو غیرِ حق کی طرف اس قدر یکسوئی نہیں ہو سکتی کہ خدا کو بھی بھول جائے۔
اطاعت سے محبوبیتِ عامہ کے معنیٰ:
ارشاد: اطاعت کی خاصیت ہے کہ اس سے بندہ خدا کا محبوب ہو جاتا ہے، پھر مخلوق کے دلوں میں بھی اس کی محبت ڈال دی جاتی ہے۔ اور اس میں اعتبار ان لوگوں کا ہے جن کو کوئی غرض اس شخص سے وابستہ نہ ہو، نہ نفع کی نہ ضرر کی۔
نفس پر جرمانہ کرنے کا طریقہ:
ارشاد: نفس پر جرمانہ کرنے کا دستور العمل یہ ہونا چاہیے کہ اتنا ہو کہ نہ بہت گراں ہو جس کا دینا دشوار ہو، نہ اتنا کم ہو کہ بالکل گراں نہ ہو۔
حفاظتِ دین کے لیے کچھ پس انداز کرنا:
ارشاد: دین کی حفاظت کے لیے آج کل یہ ضرور ہے کہ مسلمان اپنے پاس کچھ رقم جمع رکھے۔
نذرِ مقید کی مذمت:
ارشاد: نذرِ مطلق خالص عبادت ہے، مثلاً یہ کہا کہ میں اللہ کے لیے روزہ کی نذر کرتا ہوں۔ اور نذرِ مقید و معلَّق مذموم ہے، جیسے یوں کہے کہ میرا بیمار اچھا ہو جائے تو اتنا صدقہ کروں گا۔
پردہ پر ایک اعتراض کا جواب:
ارشاد: عورتوں کا دنیا سے بے خبر ہونا ہی کمال ہے۔ یہ اعتراض کہ عورتیں پردہ ہی کی وجہ سے بہت سے منافع علمیہ و عملیہ سے محروم رہ جاتی ہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ پردہ کی وجہ سے جو نقائص رہ جاتے ہیں ان کی اصلاح آسان ہے اور پردہ دری میں جو مفاسد ہیں ان کی اصلاح بہت دشوار ہے۔
عورتوں کو علومِ زائد پڑھانا:
ارشاد: عورتوں کی اصلاح صرف علومِ دینیات پر اکتفاء کرنے ہی میں ہے، علومِ زائد پڑھانے میں ان کی سلامتی نہیں۔
شریعت پر عمل کرنے میں ہر طرح کی راحت ہے:
ارشاد: حضور ﷺ نے ہمارے سب مصالح و مضار کی رعایت فرما کر ایسی جامع مانع تعلیم ہم کو فرمائی جس میں مضرت کا نام و نشان نہیں، بلکہ راحت ہی راحت ہے۔ پس مسلمان اگر شریعت کی تعلیم پر مو بمو (ہو بہو) چلیں تو ہمہ تن راحت میں رہیں، روحانی راحت میں بھی جسمانی راحت میں بھی۔
اہلِ ترقی کی بے چینی کا راز:
ارشاد: امریکہ کے سائنسدانوں کا مقولہ ہے کہ ہم نے گو بہت ترقی کر لی ہے مگر پھر بھی ہم کو چین حاصل نہیں ہوا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے اندر بھی کمی ہے اور حصول راحت کا طریق وہ نہیں جو ہم نے اختیار کر رکھا ہے۔ اور یہ مضمون تحقیقی ہے کیونکہ راحت نصیب ہوتی ہے سکونِ قلب سے، اور سکون ضدِ حرکت ہے اور یہ اہل ترقی ہر وقت حرکت میں رہتے ہیں، کبھی چاند میں جانے کی فکر کرتے ہیں، کبھی مریخ میں۔ ان کی ترقی کا کوئی منتہا نہیں۔ تو ایسے شخص کو راحت کہاں؟ راحت تو اس کو ہے جس کا مقصود متعین ہے، وہ صرف اہل مذہب کو حاصل ہے۔ اور اہل مذاہب میں سے صرف اہل اسلام کو، کیونکہ دوسرے مذاہب میں بھی مقصود متعین نہیں گو ان کے نزدیک غایۃً مقصود معبود ہے، مگر چونکہ وہ کامل موحّد نہیں، اس لیے ان کے معبود بالمقصود چند در چند ہیں۔ اور تعدّدِ مطلوب کی صورت میں تشتّتِِ قلب لازم ہے۔
مثنوی میں تاثیرِ تعلق مع اللہ ہے:
ارشاد: واقعی مثنوی متبرک کلام ہے، اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق ضرور ہو جاتا ہے۔ اور مثنوی میں یہ اثر ہے تو کلام اللہ میں کیا اثر ہوگا، اس کو خود سمجھ لیا جائے۔
قوالی کا اثر:
ارشاد: قوالی میں جو اثر ہوتا ہے، اس کا اثر محض نفسانی قوت پر ہوتا ہے، روح پر اثر نہیں ہوتا، إِلَّا مَا شَاءَ اللہُ۔
اسلام کا خاصہ:
ارشاد: ایک امریکن نومسلم کا مقولہ ہے کہ اسلام سے میرے دل کو وہ چین حاصل ہوا جو کسی بادشاہ کو بھی نصیب نہیں۔ اب میں ہوں اور میرا خدا ہے، دنیا کی ہر چیز میری نظر میں خار ہے اور یوں جی چاہتا ہے کہ ایک گوشہ میں الگ پڑا رہوں اور اپنے خدا سے لو لگائے رہوں، اس لیے زیادہ خلوت میں رہتا ہوں۔
شریعت میں تمام مصالح و مضارّ کی رعایت ہے:
ارشاد: شریعت نے ہم کو ایسی تعلیم دی ہے جس میں تمام مصالح و مضار کی رعایت ہے۔ اس لیے ہمیں تجربہ کر کے ٹھوکریں کھا کے مصالح و مضار معلوم کرنے کی کچھ ضرورت نہیں، بلکہ صرف اس کی ضرورت ہے کہ شریعت کی تعلیم حاصل کر لیں، پھر ہمیں تہذیب و تمدن میں کسی قسم کی تقلید کی ضرورت نہیں۔
قرآن رونمائے حق ہے:
ارشاد: جو دنیا میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنا چاہے وہ قرآن میں خدا کو دیکھے، واقعی قرآن رونمائے حق ہے، یعنی اس کے ذریعے حق تعالیٰ کی صفاتِ کمال کا مشاہدہ ہوتا ہے۔
جنت میں بول و براز نہ ہونے کی وجہ:
ارشاد: جنت کی غذا میں چونکہ ثقلِ مطلق نہیں، سب غذا ہی غذا ہے، اس لیے وہاں بول و براز کی حاجت نہیں ہو گی۔
تقلیدِ یورپ کا ہیضہ:
ارشاد: افسوس ہے کہ تقلیدِ یورپ کا لوگوں کو اس قدر ہیضہ ہوا ہے کہ اسبابِ راحت بھی ان کی تقلید میں ترک کر دیتے ہیں اور اسبابِ زینت بھی۔
تحصیلِ علمِ دین کا طریقہ اور عورتوں کی تعلیم کا طریقہ:
ارشاد: حصولِ علم دین کے لیے توجہ سے سننا اور دوسرے کا زبانی تقریر کرنا کافی ہے، تو تم اتنا ہی کرو کہ اردو میں جو رسائل احکامِ شرعیہ کے لکھے گئے ہیں ایک وقت مقرر کر کے اپنی مستورات کو وہ رسائل پابندی سے سنا دیا کرو۔ زنانہ اسکولوں کے ذریعے سے یا زنانہ مدارس کے ذریعہ سے تعلیم دنیا سمّ قاتل ہے، عورتوں کو گھر میں رکھ کر تعلیم دو، گو اردو ہی میں ہو۔ رہا لکھنا تو یہ نہ واجب ہے نہ حرام ہے، اس کو لڑکیوں کی حالت دیکھ کر تجویز کیا جائے۔ جس لڑکی میں جھینپ اور حیا اور شرم ہو اس کو سکھلاؤ ورنہ نہ سکھلاؤ۔
عقلاء حقیقت میں وہ ہیں جو علم و عمل کے جامع ہیں:
ارشاد: علم و عمل ہی سے کمالِ شرعی حاصل ہوتا ہے اور اسی سے کمالِ دنیوی یعنی عقل حاصل ہوتی ہے۔ عقلاء حقیقت میں وہی ہوتے ہیں جو علم و عمل کے جامع ہیں، نہ کہ وہ جن کو تم عقلاء سمجھتے ہو۔ جو لوگ علمِ دین حاصل کر چکے ہیں ان کے سامنے بڑے بڑے انگریزی داں جنہوں نے علمِ دین حاصل نہ کیا ہو، بے وقوف ہیں، چنانچہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿فَبَشِّرْ عِبَادِ الَّذِيْنَ يَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُوْنَ أَحْسَنَهٗ ۚ أُولٰئِكَ الَّذِيْنَ هَدَاهُمُ اللهُ ۖ وَ أُولٰئِكَ هُمْ أُولُوْ الْأَلْبَابِ﴾ (الزمر:17-18) یعنی جو لوگ شریعت کا کامل اتباع کرتے ہیں، علماً و عملاً، وہی ٹھیک راستہ پر ہیں اور وہی عقلاء ہیں۔ مولانا محمد یعقوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے جب کوئی اہلِ یورپ کو عقلمند کہتا تو نہایت برہم ہوتے، اور فرماتے تھے کہ جو قوم خدا کو بھی نہ پہچانے وہ خاک عقلمند ہے؟ ہاں یوں کہو کہ چاقو قینچی بنانا جانتے ہیں، یعنی کاریگر اچھے ہیں۔ اور صنعت کو عقل سے کیا واسطہ؟ عقل کا کام تو علم و معرفت ہے۔
انسان ملائکہ سے نوعاً افضل ہے:
ارشاد: حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جس مخلوق کو میں نے اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، یعنی اپنی خاص عنایت و فضل سے، اس کو اور اس مخلوق کو کیسے برابر کردوں جس کو میں نے کلمۂ ''کُنْ'' سے پیدا کیا ہے؟ اس سے معلوم ہوا کہ انسان ملائکہ سے نوعاً افضل ہے۔
اہل سے نااہل اگر منازعت کرے تو کام اس پر چھوڑ دے:
ارشاد: اہل کے سامنے اگر کوئی نااہل دعوی کرنے لگے تو اس کو چاہیے کہ اس سے منازعت نہ کرے، بلکہ اپنا کام چھوڑ کر اس کے سپرد کر دے۔ اور تم یہ نہ سمجھو کہ نااہل پر کام چھوڑ دینے سے دین کا کام رک جائے گا، اس لیے تم بے فکر بیٹھے رہو، اللہ تعالیٰ خود اس نااہل کو نکال دے گا۔
اعمالِ شرعیہ میں مالا یطاق تکلیف برداشت کرنے کی ضرورت نہیں:
ارشاد: بیماری میں ایسی تکلیف برداشت کرنا کہ چار آدمی اس کو لے جا کر مسجد میں بٹھلائیں، میں تو پسند نہیں کرتا۔ ہاں اگر دوسروں کو بالکل مشقت نہ ہو یا (تنخواہ دیتا ہو) اور اس کو خود بھی مشقت نہ ہو، نہ عجب و شہرت کا اندیشہ ہو تو مضائقہ نہیں۔
جس وقت جس حالت کا جو مقتضا ہو اس کو بے تکلف ظاہر کردینا چاہیے:
ارشاد: کاندھلہ میں دو بھائی تھے، ایک عالم دوسرے درویش۔ ایک دفعہ عالم صاحب بیمار ہوئے، تو وہ تکلیف میں "اللہ اللہ" کر رہے تھے، درویش بھائی ان کی عیادت کو گئے تو کہا کہ بھائی صاحب! "آہ آہ" کرو تو اچھے ہو گے تاکہ عجز و ضعف ظاہر ہو۔ حالانکہ ظاہر میں "اللہ اللہ" کرنا افضل تھا، مگر اس میں اپنی قوت کا اظہار تھا کہ ہم بیمار ہو کر بھی ذکر کے پابند ہیں، اس لیے شیخ نے کہا "آہ آہ" کرو، کیونکہ حق تعالیٰ نے بیماری اسی لیے دی ہے تاکہ تمہارا عجز و ضعف ظاہر ہو، اس کے ظاہر ہونے کے بعد وہ جلدی اس کو دور کر دیں گے۔ غرض ہمیں تو یہی مذاق پسند ہے کہ جس وقت جس حالت کا جو مقتضا ہو اس کو بے تکلف ظاہر کیا جائے۔
ناکامی کی صورت میں پورا اجر آخرت میں ملے گا:
ارشاد: حدیث میں ہے کہ جس غزوہ میں غنیمت مل جائے اور صحیح سالم آ جائے تو دو ثلث اجر یہیں مل گیا، اور جس میں جان کا بھی نقصان ہو اور مال بھی کچھ نہ ملے تو اس کا پورا اجر آخرت میں جمع رہا، تو بتلاؤ یہ بات خوشی کی ہے یا نہیں؟ حدیث سے اور بزرگوں کے کشف سے بھی معلوم ہوا کہ جس عمل کا ثمرہ کچھ یہاں مل جاتا ہے تو اجر آخرت میں کمی ہو جاتی ہے، اس لیے یہاں اگر ناکامی ہو تو زیادہ خوش ہونا چاہیے کہ پورا اجر جمع ہے۔
حق تعالیٰ خود وصال سے مشرف کرنے کو حیلہ ڈھونڈتے ہیں:
ارشاد: حق تعالیٰ تو اپنے وصال سے مشرف کرنے کے لیے بہانہ ڈھونڈتے ہیں۔ فاسقوں کو بھی ذرا سی بات پر مشرف بوصال کردیتے ہیں تو عاشقوں کو تو کیسے محروم کر دیں گے؟
؎ رحمتِ حق بہانہ می جوید
موءودہ کے جہنم میں جانے کی حکمت:
ارشاد: "اَلْوَائِدَةُ وَ الْمَوْءُوْدَةُ فِي النَّارِ" (سنن أبی داؤد، کتاب السنۃ، باب: فی ذراری المشرکین، رقم الحدیث: 4717)۔ یہاں موءودہ کا جہنم میں جانا قصور کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ وائدہ کے عذابِ روحانی کے لیے جاوے گی تاکہ اس کو دیکھ کر ماں کی حسرت بڑھے کہ میں نے اس کے ساتھ کیسی بے رحمی کا برتاؤ کیا تھا جس کی وجہ سے آج یہ عذاب اور رسوائی ہو رہی ہے، تو وائدہ کو عذاب جسمانی بھی ہوگا، عذاب روحانی بھی، اور مؤودہ کا جہنم میں ہونا اس کے معذَّب ہونے کو مستلزم نہیں ہے۔ جیسے زبانیۂ جہنم دوذخ میں موجود ہیں، مگر معذَّب نہیں۔
کفر کی حکمتیں:
ارشاد: کفر اس حیثیت سے کہ مخلوق للحق ہے اس میں بھی حکمتیں ہیں، مثلاً یہ کہ اس سے صفتِ قہر و جلال و اسمِ منتقم کا ظہور ہوتا ہے، یا مثلاً اس سے یہ کہ ایمان اور مؤمنین کی رفعت ظاہر ہوتی ہے، کیونکہ اضداد ہی سے اشیاء کا ظہور کامل ہوتا ہے، یا مثلاً یہ کہ اس سے کارخانۂ دنیا کی رونق اور ترقی ہوتی ہے، کیونکہ دنیا میں پوری ترقی کافر ہی کر سکتا ہے جس کو آخرت کی کچھ فکر نہیں، مسلمان چونکہ آخرت کی فکر میں رہتا ہے وہ دنیا میں پوری طرح منہمک نہیں ہو سکتا۔ اور کفر میں اس حیثیت سے کہ مکسوب للعبد ہے کوئی حکمت نہیں، کیونکہ جو شخص کفر کر رہا ہے اس کو اپنے کفر سے کیا نفع ہے؟ کچھ بھی نہیں، بلکہ اس کا تو ضرر ہی ضرر ہے، گو اس کے ضرر سے مجموعہ عالَم کا نفع ہے مگر خاص اس کا تو سراپا ضرر ہی ہے کہ خدا تعالیٰ کا باغی ہوگا۔
سالک کو فصل عن الخلق کا اہتمام ضروری ہے:
ارشاد: لوگوں کو وصل کی تو کچھ فکر ہے، گو بے اصول سہی، لیکن فصل عن الخلق کا تو مطلق اہتمام نہیں حالانکہ رسول ﷺ تک کو حکم ہے: ﴿وَ تَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا﴾ (المزمل: 8) یعنی مخلوق سے کامل طور پر منقطع ہو کر حق تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو، ظاہر ہے کہ کامل توجہ بدوں تقلیلِ تعلقات کے ہر گز نہیں ہو سکتا۔
سالک کو کمال کی ہوس رہزن ہے:
ارشاد: اعمال تو وہی کرے جو مامور بہ ہیں، ایسا اخفاء نہ کرے کہ اعمال خلافِ شرع اختیار کرنے لگے۔ باقی احوال میں جو حال مل جائے اس پر راضی رہے، کمال کی ہوس نہ کرے۔ یہ بھی بڑا رہزن ہے کہ سالک کمال کی ہوس کرنے لگے۔
اہل اللہ کے تقلیل غذا کا راز:
ارشاد: اصلی غذا اور اصلی دوا فرحت و نشاط ہے، خواہ دوا سے ہو یا کسی اور چیز سے ہو۔ سو ذاکرین کو ذکر اللہ سے بے حد نشاط و فرحت حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے وہ ان کو غذا اور دوا کا کام دے جاتا ہے۔ اصل قوت کی چیز فرحت ہے، یہی تمام غذاؤں کی جڑ ہے اور یہی بعض دفعہ خود بھی غذا کا کام دیتی ہے، ورنہ اقل درجہ یہ تو ضروری ہے کہ بدوں اس کے کوئی غذا، غذا نہیں بنتی۔ یہی وجہ ہے بزرگانِ دین کے تقلیل غذا کی، کیونکہ ان حضرات کو ذکر اللہ سے ایسا نشاط ہوتا ہے کہ دنیا کی کوئی مفرحِ یاقوتی اور خمیرہ ایسا نشاط نہیں پیدا کر سکتا، اس لیے وہ ایک ایک بادام پر چالیس دن تک کفایت کر سکتے ہیں۔
سالک کی استقامت کا مدار محض لطفِ حق پر ہے:
ارشاد: اب جو لوگ اپنی ثابت قدمی پر نازاں ہیں وہ گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں کہ یہ ثابت قدمی اور استقلال اور پابندئ اوقات اور ضبطِ معمولات کس کی بدولت ہے؟ یہ محض خدا کا لطف ہے کہ انہوں نے آپ کے دل میں تقاضا پیدا کر دیا ہے، ورنہ کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ ایک تنکا ہمارے ہاتھ میں ہو اور آندھی میں ثابت قدم رہے اور اس ثبات پر نازاں ہو تو اس کی حماقت نہیں تو اور کیا ہے؟
رحیم و شفیق کے قبضہ میں رہنا ہی مفید ہے:
ارشاد: دوسرے کے قبضے میں ہونا جب مضر ہے جب کہ قبضہ والا رحیم و شفیق نہ ہو۔ اگر قابض رحیم و شفیق ہو تو پھر دوسرے ہی کے قبضے میں رہنا مفید ہے۔
آثارِ معاصی و طاعات:
ارشاد: کبھی گناہ کی وجہ سے دوسری طاعات بند ہو جاتی ہیں، ایسے ہی طاعات میں یہ اثر ہے کہ ان کی وجہ سے دوسری طاعات ہونے لگتی ہیں، بلکہ اس کا اثر اولاد میں بھی پہنچتا ہے۔ باپ کی طاعات سے اولاد کو بھی طاعات کی توفیق ہونے لگتی ہے، مگر گناہ کا اثر اولاد میں نہیں پہنچتا، ہاں دنیوی تکلیف کچھ پہنچ جاتی ہے۔ طاعات کا یہ اثر ہے کہ ان کی برکت سے گناہ کا سلسلہ بند ہو جاتا ہے بلکہ بعض دفعہ گناہ مقدر (بتقدیرِ معلق) بھی ٹل جاتا ہے۔
قبولیتِ عبادت کی علامت:
ارشاد: حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر ایک حاضری میں بادشاہ ناراض ہو جائے تو کیا دوسری بار وہ دربار میں گھسنے دے گا؟ ہرگز نہیں۔ پس جب تم ایک مرتبہ نماز کے لیے مسجد میں آ گئے اس کے بعد پھر توفیق ہو گئی تو سمجھ لو کہ پہلی نماز مقبول ہو گئی اور تم مقبول ہوئے۔
حق تعالیٰ ذرائع کو مقصود بنا کر تعلیم دیتے ہیں:
ارشاد: اللہ تعالیٰ کی تعلیم کا طریقہ یہی ہے کہ ذرائع ہی کو مقصود بنا کر سکھلاتے ہیں، تاکہ مخاطب ذریعہ کا پورا اہتمام کرے تو نتیجہ اس پر خود مرتب ہو جائے گا۔ یہی اصول صوفیہ نے قرآن سے سیکھا ہے، چنانچہ طالبین کو یہی تعلیم کرتے ہیں کہ مقصود عمل ہے، وصول مطلوب نہیں، کیونکہ عمل اختیاری ہے اور وصول غیر اختیاری ہے، تو تم عمل کے مکلّف ہو، اسی کو مقصود سمجھ کر بجا لاتے رہو، اس پر وصول خود مرتب ہو جائے گا۔
حافظ اجیر کے قرآن سے ﴿أَلَمْ تَرَ کَیْفَ﴾ تراویح افضل ہے:
ارشاد: جو حافظ اجرت لے کر قرآن سنائے اس کے پیچھے تراویح نہ پڑھیں اس سے افضل یہ ہے کہ ﴿أَلَمْ تَرَ کَیْفَ...﴾ (الفیل: 1) سے تراویح پڑھ لی جائے۔
قرآن و صوم کی شفاعت:
ارشاد: قرآن و صوم دونوں قیامت میں روزہ داروں کے شفاعت کریں گے، قرآن کہے گا: خداوند! میں نے اس کو نیند سے اور آرام سے روکا تھا، میری شفاعت اس کے حق میں قبول کیجئے۔ اور روزہ کہے گا کہ میں نے اس کو کھانے پینے اور شہوت پورا کرنے سے روکا تھا، میری شفاعت کو قبول کیجئے۔
صدقۂ فطر حقوق و آداب صوم کی کوتاہی کا کفارہ ہے:
ارشاد: روزہ کے حقوق اور آداب میں جو کچھ کوتاہی ہو جاتی ہے، صدقۂ فطر اس کا کفارہ ہو جاتا ہے۔
ضعیف ایمان کے نور کی قوت:
ارشاد: بعض عارفین کا قول ہے کہ ضعیف ایمان کا نور بھی اگر ظاہر ہو جائے تو زمین و آسمان سب کو چھپا لے۔
والدین کو اپنی راحت سے محبت ہوتی ہے:
ارشاد: والدین کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ ہم کو اولاد سے محبت ہے، بلکہ باپ کو اپنی راحت سے محبت ہے، ورنہ اولاد کے نقصان پر تو روتا ہے، نفع پر کیوں روتا ہے؟ مثلاً معصوم بچہ کا مر جانا خود بچہ کے لیے تو نافع ہے کیونکہ بالغ ہو کر نہ معلوم جنتی ہوتا یا دوزخی اور اب تو بلا شبہ جنتی ہے، مگر والدین روتے ہیں، اس سے معلوم ہوا کہ ماں باپ کو اپنی راحت سے محبت ہے بس۔
میثاقِ الست کا مقصود:
ارشاد: میثاقِ الست سے مقصود یہ تھا کہ وجودِ صانع اور توحیدِ صانح کا مضمون طبائع میں مرکوز ہو جائے، کیفیتِ تعلیم کا محفوظ ہونا مقصود نہ تھا۔
اصل چیز عمل ہے:
ارشاد: حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ کو کسی نے خواب میں دیکھا پوچھا کہ آپ کے ساتھ کیا معاملہ ہوا؟ فرمایا کہ ساری عبادتیں اور اسرار و نکات و اشارات ایک کام نہ آئے، بس وہ چھوٹی چھوٹی رکعتیں جو آدھی رات میں پڑھ لیا کرتے تھے کام آئیں۔ معلوم ہوا کہ اصل چیز عمل ہے۔
علمِ اعتبار کی حقیقت اور دوسرے فرقوں کی غلطیاں:
ارشاد: علمِ اعتبار کی حقیقت یہ ہے کہ ایک مشبہ کو دوسرے مشبہ سے واضح کیا جائے، ثابت نہ کیا جائے، بلکہ مشبہ ثابت بدلیل آخر ہے۔ اور یہ نہ مجاز میں داخل ہے خواہ مجاز مرسل ہو خواہ استعارہ، کیونکہ مجاز میں موضوع لہٗ کے مراد نہ ہونے پر قرینہ ہوتا ہے، اس لیے غیرِ موضوع لہٗ مراد ہوتا ہے۔ اور یہاں نہ موضوع لہٗ کے غیر ہونے کا کوئی قرینہ ہے نہ غیرِ موضوع لہٗ مراد ہے اور نہ یہ کنایہ میں داخل ہے، کیونکہ کنایہ میں معنیٰ موضوع لہٗ متروک نہیں ہوتے بلکہ کلام کا مدلولِ اصلی وہی موضوع لہٗ ہوتا ہے، مگر مقصود اس کا لازم یا ملزوم ہوتا ہے جیسے طویل النجاد، کہ اس میں مدلولِ وضعی متروک نہیں، مدلول کلام وہی ہے، مگر مقصود طویل القامۃ ہے، کیونکہ طویل النجاد کے لیے طویل القامۃ لازم ہے، اور اعتبار میں وہ معنیٰ نہ مقصود ہے نہ مدلول کلام ہے۔ پس یہ اعتبار گو قیاسِ تصرفی ہے اور مشابہ ہے قیاسِ فقہی کے، مگر عین قیاسِ فقہی نہیں، کیونکہ قیاسِ فقہی میں علتِ جامعہ مؤثر ہے حکم مقیس میں۔ اس لیے وہ حکم منسوب الی القیاس ہوتا ہے۔ یہاں یہ بھی نہیں، صرف مقیس، مقیس علیہ میں تشابہ ہے۔ اور اس مشابہت کو حکم میں کوئی اثر نہیں بلکہ وہ حکم خود مستقل دلیل سے ثابت ہے۔ یہ حقیقت ہے علمِ اعتبار کی۔ پس صوفیہ تو اس کی حدود سے نہیں نکلتے کیونکہ وہ معانئ منقولہ کی نہ مدلولیت کے منکر ہیں نہ مقصودیت کے منکر ہیں۔ اور جہلاء صوفیہ خود ان کی مدلولیت کے منکر ہیں، اور جدید تعلیم یافتہ مدلولیت کے تو منکر نہیں، مگر مقصودیت کے منکر ہیں۔ بلکہ مقصود معانئ سیاسیہ ہی کو سمجھتے ہیں ان سب فِرقوں کے فرقوں کو خوب سمجھ لو۔
سیر الی اللہ و سیر فی اللہ کے معنیٰ:
ارشاد: تعلق مع اللہ کے دو درجے ہیں: ایک سیر الی اللہ، یہ تو محدود ہے۔ ایک سیر فی اللہ، یہ غیر محدود ہے۔ سیر الی اللہ یہ ہے کہ نفس کے امراض کا علاج شروع کیا یہاں تک کہ امراض سے شفا ہو گئی اور ذکر و شغل سے تعمیر شروع کی۔ یہاں تک کہ وہ انوارِ ذکر سے معمور ہو گیا یعنی تخلیہ و تحلیہ کے قواعد جان گئے، موانع مرتفع کر دیے، معالجہ امراض سے واقف ہو گئے، نفس کی اصلاح ہو گئی، اخلاقِ رذیلہ زائل ہو گئے اور اخلاقِ حمیدہ سے، انوارِ ذکر سے قلب آراستہ ہو گیا، اعمال صالحہ کی رغبت طبیعت ثانیہ بن گئی، اعمال و عبادات میں سہولت ہو گئی، نسبت و تعلق مع اللہ حاصل ہو گیا تو سیر الی اللہ ختم ہو گئی۔ اس کے بعد فی اللہ شروع ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی ذات و صفات کا حسبِ استعداد انکشاف ہونے لگا، تعلق سابق میں ترقی ہوئی، اسرار و حالات کے ورود ہونے لگے، یہ غیر محدود ہے، یہ وہ تعلق ہے جس کی نسبت کہا گیا ہے:
؎ بحریست بحرِ عشق کہ ہیچش کنارہ نیست
اینجا جز اینکہ جان بسپارند چارہ نیست
نکاح سے کیا کیا سبق حاصل ہونا چاہیے:
ارشاد:(1) نکاح کا جو اثر زوجہ پر ہوتا ہے اس سے ہم کو بھی سبق لینا چاہیے کہ خدا سے تعلق رکھنے والوں کو یگانہ و آشنا سمجھو، اور جو اس سے بے تعلق ہو اس کو بے گانہ و نہ آشنا سمجھو، خدا کے دوستوں کو اپنا دوست اور اس کے دشمنوں کو اپنا دشمن سمجھو۔
(2) اس کا تصور کیا کرو کہ جیسے میاں بیوی میں شکر رنجی کے بعد بہت جلد صفائی ہو جاتی ہے، یوں ہی حق تعالیٰ سے تعلق کے بعد اگر کچھ کوتاہی ہو جائے تو بعد توبہ و معذرت کے وہ تعلق ویسا ہی بحال کر دیں گے۔
(3) بیوی کے تعلق میں ایک بات یہ ہے کہ بعض میاں کو بیوی کی جہالت اور نادانی سے تکلیف بھی ہوتی ہے، تو وہ تحمل کرتا ہے۔ خاص کر اگر بیوی محبوبہ بھی ہو تو اس کے ہر امتحان پر تحمل کیا جاتا ہے، اور اس کے ناز و نخروں کو برداشت کیا جاتا ہے پھر یہ کیا غضب کہ حق تعالیٰ کے امتحانات کا تحمل نہ کیا جائے، اگر کبھی وہ بیمار کر دیں یا مال کا نقصان کر دیں یا کسی عزیز کو موت دے دیں تو اس پر نا گواری ظاہر کی جاتی ہے۔
(4) ایک تکوینی راز نکاح کا یہ ہے کہ بندہ کا کمال یہ ہے کہ وہ مظہرِ اتم حق تعالیٰ کا بن جائے، سو بدوں نکاح کے یہ مظہریت اتم نہیں ہوتی، کیونکہ حق تعالیٰ کی ایک شان یہ بھی ہے کہ: ﴿إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ﴾ (يٰس: 82) کہ وہ جب کسی چیز کو بنانا چاہتے ہیں تو اس سے کہہ دیتے ہیں ”ہوجا“ وہ فوراً ہو جاتی ہے، یعنی اللہ تعالیٰ بدوں احتیاجِ اسباب کے محض ارادہ ہی سے جس چیز کو چاہتے ہیں پیدا کر دیتے ہیں۔ اور اس شان کا ظہور بندہ میں نکاح ہی سے ہوتا ہے کہ بچے کے پیدا ہونے میں بندہ بھی زیادہ اسباب کے اہتمام کا محتاج نہیں، بے مشقت ایک فعل کیا، اور اگر کوئی عارض نہ ہوا تو حمل رہ گیا، بچہ بن گیا۔ گو واقع میں یہاں بھی اسباب ہوتے ہیں، مگر وہ اسباب ایسے نہیں ہیں جن کی تلاش و فکر کی ضرورت ہو۔
حرام چیزوں سے حقیقی شفا ہوتی ہی نہیں:
ارشاد: جن چیزوں کو شریعت نے حرام کیا ہے۔ ان میں ضرر ہی غالب ہے، گو کسی خاص وقت میں ضرر کا ظہور نہ ہو۔ پس حرام سے جو شفا ہوتی ہے وہ حقیقت میں شفا ہی نہیں، بلکہ وہ ایک مرض کو دفع کرتی ہے اور دوسرے امراض جسم میں پیدا کرتی ہے۔
بے ساختگی و آزادئ کلام دلیل ہے قرآن کے کلام اللہ ہونے کی:
ارشاد: قرآن کریم کے کلام اللہ ہونے کی بڑی دلیل یہ ہے کہ وہ بے ساختہ کلام ہے، کسی تکلف کی اس میں پابندی نہیں، نہ قافیہ کی نہ سجع کی۔ اور اس میں ایک خاص بات یہ ہے کہ اس کو دیکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے متکلم پر کسی کا بھی اثر نہیں ہے، آزادی کے ساتھ جو چاہتا ہے جس کو چاہتا ہے کہہ دیتا ہے۔
اولاد کا ایک حق:
ارشاد: اولاد کا یہ بھی حق ہے کہ اس کے انتقال پر مفارقت کا رنج و صدمہ ظاہر کیا جائے۔
محبتِ اولاد و ازواج کی حکمت تسہیلِ ادائے حقوق پر ہے، اس پر اجر کا ملنا کمال لطف ہے:
ارشاد: ہمارے اندر محبت اولاد و ازواج کی حکمت تسہیلِ ادائے حقوق ہے۔ پھر اس حکمت کے بعد کمالِ عنایت یہ ہے کہ باوجودیکہ والدین اولاد کی تربیت، اور شوہر بیوی کے ساتھ الفت اپنے فطری جذبے سے مجبور ہو کر کرتا ہے، مگر اس پر اس کو ثواب بھی ملتا ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ بیوی کے منہ میں جو ایک لقمہ شوہر رکھ دے تو یہ بھی صدقہ ہے اس پر ثواب ملتا ہے۔ (الصحیح للبخاری، کتاب الإیمان، باب: ما جاء أن الأعمال بالنیۃ و الحسبۃ، ولکل امرئ ما نوی، رقم الحدیث: 56)
والدین کی خدمت و تربیتِ اولاد کی قدر حق تعالیٰ فرماتے ہیں، لیکن اولاد بے قدری سے ٹھکراتی ہے:
ارشاد: اللہ تعالیٰ باوجودیکہ انسان کے جذبات کو سب سے زیادہ جانتا ہے، وہ تو والدین کی خدمت و تربیت کی اتنی قدر فرماتے ہیں کہ ایک ایک لقمہ پر ان کو اجر دیتے ہیں، حالانکہ اس سے خدا کو کچھ نفع نہیں پہنچتا۔ اولاد جس کو والدین کے اس جذبہ سے پورا نفع پہنچتا ہے یہ کہہ کر اس کو ٹھکرا دیتی ہے کہ والدین نے ہمارے ساتھ کیا کیا، جو کچھ کیا اپنے جذبے سے مجبور ہو کر کیا۔
جاہل کو عدمِ افطارِ صوم جائز پر اجر ملے گا:
ارشاد: جس حالت میں افطارِ صوم جائز ہو اور کوئی جاہل روزہ نہ توڑے اور ہلاک ہو جائے تو گنہگار نہ ہوگا، بلکہ افطار نہ کرنے پر اجر ملے گا۔ کیونکہ وہ تو افطار کو ممنوع سمجھ کر روزہ پر اصرار کر رہا ہے۔ "إِنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ" (الصحیح للبخاری، کتاب بدء الوحی، باب: کیف کان بدء الوحی إلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، رقم الحدیث: 1) یہ اور بات ہے کہ اس کو جہل عن الاحکام کا گناہ ہوگا۔
ذکرِ وصیّت کے تقدیم علی الدین کا راز:
ارشاد: آیۃ المواریث میں وصیت کے ذکر کو دین سے مقدم کیا ہے، حالانکہ بالاجماع دین کا ادا کرنا وصیت سے مقدم ہے۔ علماء نے اس میں یہی وجہ بیان کی ہے اللہ تعالیٰ نے تقدیم وصیت میں ہم کو متنبہ کیا ہے کہ جس حق کو صاحبِ حق زور کے ساتھ وصول نہ کر سکے، اس کا مطالبہ سب سے پہلے ہم کریں گے۔ پس وصیت کو محض اس وجہ سے کہ تبرع ہے اور موصیٰ لہٗ کو بعض اوقات اس کی خبر بھی نہیں ہوتی، یا اس میں قوت نہیں ہوتی اس واسطے وہ مطالبہ نہیں کر سکتا، اور خبر و قوت بھی ہو تب بھی وہ مطالبہ سے شرماتا ہے کہ لوگ کہیں گے میاں کچھ تم نے دیا تھا جو تقاضا کرتے ہو؟ محض معمولی بات سمجھ کر مت ٹالنا، بلکہ نفاذ کا پورا اہتمام کرنا۔
میاں بیوی کی بے لطفی کا راز:
ارشاد: میاں بیوی کی ایسی زندگی میں کچھ لطف نہیں کہ چار دن ہنس بول لیے، اور دس دن کو لڑ جھگڑ لیے، لطف زندگی کا جب ہی ہے کہ جانبین سے ایک دوسرے کے حقوق کی پوری رعایت ہو۔
بیویوں کے حقوق کے وجوہِ ترجیح:
ارشاد: (1) بیوی کے بغیر گھر کا انتظام نہیں ہو سکتا اور انتظام بہت بڑی قدر کی چیز ہے۔ اگر بیوی کچھ بھی گھر کے کام نہ کرے صرف انتظام اور دیکھ بھال ہی رکھے تو یہ اتنا بڑا کام ہے، جس کی دنیا میں بڑی بڑی تنخواہیں ہوتی ہیں، اور منتظم کی بڑی قدر و منزلت کی جاتی ہے۔ (2) خصوصاً بچوں کی بڑی محنت سے پرورش کرتی ہیں۔ یہ وہ کام ہے کہ تنخواہ دار ماما کبھی بیوی کے برابری نہیں کر سکتی۔ (3) ہندوستان کی عورتیں خصوصاً ہمارے اطراف کی عورتیں تو واقعی جنّت کی حوریں ہیں، جن کی شان میں ﴿عُرُباً﴾ (الواقعۃ: 37) یعنی عاشقات للازواج آیا ہے۔ چنانچہ مردوں پر فدا ہیں، کہ مردوں کی ایذائیں ہر طرح سہتی ہیں، اور صبر کرتی ہیں۔ (4) ان حوروں میں ایک صفت اور بھی ہے یعنی ﴿قَاصِرَاتُ الطَّرْفِ﴾ (الصافات: 48، ص: 52، الرحمن: 56) چنانچہ ان کو اپنے شوہر کے سوا کسی کی طرف میلان نہیں ہوتا، اور اگر ان کو کسی غیر کا میلان اپنی طرف معلوم ہو جائے تو اس سے سخت نفرت ہو جاتی ہے، یہاں کی یہی تہذیب ہے۔
حقوقِ اولاد:
ارشاد: (1) والدین اولاد حاصل کرنے کے لیے شریف عورت تجویز کریں۔ (2) اور جب اولاد پیدا ہو ان کے نام اچھے رکھیں۔ (3) اور جب ان کے ہوش درست ہو جائیں ان کو تہذیب اور تعلیم دیں۔
نکاح کی حکمت:
ارشاد: ایک اجنبی مرد کے سامنے ایک اجنبی عورت کا اس طرح بے حجاب ہو جانا اور اس کے ساتھ مرد کا بے حجاب ہو جانا عقل کے نزدیک بالکل قبیح ہے، مگر عقل کی اس تجویز پر عمل کیا جاتا تو زیادہ فتنہ برپا ہوتا کہ اب تو ایک ہی اجنبی مرد و عورت بے حجاب ہو رہے تھے، پھر نہ معلوم کتنے مرد اجنبی عورتوں کے ساتھ بے حجاب ہوتے ہیں، اور کتنی عورتیں اجنبی مردوں کے ساتھ بے حجاب ہوتیں، کیونکہ نفس میں جو تقاضے پیدا ہوتے ہیں اگر ان کے پورے ہونے کے لیے ایک محل بھی تجویز نہ کیا جائے تو پھر انسان اپنے تقاضے کو ہر جگہ پورا کرے گا، اور اس کی بے حیائی کا عیب نمایاں ہو جائے گا۔ ان عواقب پر نظر کر کے شریعت سماویہ نے نکاح تجویز کیا کہ اس تقاضے کے پورا ہونے کا محل محدود و متعین ہو کر فتنہ نہ بڑھے۔
وجوہِ تشبیہ مرد و عورت بلباس:
ارشاد: ﴿هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ...﴾ (البقرة: 187)۔
(1) لباس میں ایک وصف اشتمال ہے، چونکہ زوجین میں تعلق و تواصل کے وقت اشتمال یک بدیگر ہوتا ہے اس لیے ہر ایک کو لباس سے تشبیہہ دی گئی، مگر شارع کا مقصود اس تشبیہہ سے محض اس اشتمالِ حسی کی طرف اشارہ کرنا نہیں بلکہ شدتِ تعلق کی طرف اشارہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ میاں بی بی کے درمیان ایسا تعلق پیدا کر دیتے ہیں۔ کہ اس سے زیادہ کوئی تعلق دنیا میں نہیں ہوتا۔
(2) لباس میں ایک وصف ستر ہے یعنی لباس میں ستر کی شان ہے، اسی طرح عورت مرد کے لیے ساترِ (عیوب) ہے اور مرد عورت کے لیے ساترِ (عیوب)۔ اس طرح کہ تقاضائے نفس ایک کا دوسرے سے پورا ہو جاتا ہے، اور دوسری جگہ بے حیائی کا عیب نمایاں نہیں ہوتا۔
(3) لباس میں ایک وصف اعانتِ حاجت ہے یعنی جیسے بدوں کپڑے کے انسان سے صبر نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح بدوں نکاح کے مرد عورت کو صبر نہیں آ سکتا، کوئی تقاضائے نفس ہی کی وجہ سے نہیں، بلکہ اعانت وغیرہ میں عورت اپنے خاوند کی محتاج ہے، اور خدمت و راحت رسانی میں مرد عورت کا محتاج ہے۔
(4) ایک وصف لباس میں زینت ہے، یعنی جس طرح لباس زینت ہے، اسی طرح زوجین میں عورت مرد کے لیے اور مرد عورت کے لیے زینت ہے۔ عورت سے مرد کی زینت تو یہ ہے کہ بیوی بچوں والا آدمی لوگوں کی نظر میں معزز ہوتا ہے۔ اگر کسی سے قرض مانگے تو اس کو قرض مل جاتا ہے، کیونکہ سب جانتے ہیں کہ اس کے آگے پیچھے اور بھی آدمی ہیں، یہ کہاں جا سکتا ہے۔ اور قرض میرا وصول ہو سکتا ہے، دوسرے یہ کہ لوگ بیوی والے کو سانڈ نہیں سمجھتے، اور جس کے بیوی نہ ہو اس سے اپنی عورتوں پر سب کو خطرہ ہوتا ہے۔ اور مرد سے عورت کی عزت یہ ہے کہ لوگ اس کے اوپر کسی قسم کا شبہ نہیں کرتے، میاں چاہے پاس رہے یا پردیس میں رہے، جتنے بال بچے ہوں گے، شوہر ہی کے سمجھے جائیں گے۔
(5) لباس کے معنیٰ کبھی عذاب و ضرر کے بھی آئے ہیں، جیسے: ﴿فَأَذَاقَهَا اللَّـهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَ الْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ﴾ (النحل: 112) اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں میں فتنہ و اضرار کی بھی شان ہے، چنانچہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں اپنی امت کے لیے عورتوں سے زیادہ خطرناک فتنہ کوئی نہیں سمجھتا۔ (الصحيح للبخاری، کتاب النکاح، باب: ما یتقی من شؤم المرأۃ، رقم الحدیث: 5096)
پردہ میں بے پردگی فتنہ کی وجہ ہے:
ارشاد: پردہ میں کچھ بے پردگی ہوتی ہے تب فتنہ ہوتا ہے، ورنہ کوئی وجہ فتنہ نہیں۔
پردہ کے تأکّد کی وجہ:
ارشاد: غیرت مند، حیادار طبیعت کا خود یہ تقاضا ہے کہ عورتوں کو پردہ میں رکھا جائے، کوئی غیور آدمی اس کو گوارا نہیں کر سکتا کہ اس کی بیوی کو تمام مخلوق کھلے منہ دیکھے۔ اور شریعت نے فطریات کا خاص اہتمام نہیں کیا، اس قاعدہ کا مقتضا یہ تھا کہ شریعت پردہ کے احکام سے بحث نہ کرے، لیکن پھر بھی شارع کا اس سے بحث کرنا دلیل اس کی شفقت اور پردہ کی تاکید کی ہے۔
مردوں کے تابع ہونے کی وجہ:
ارشاد: عورتیں فطرتاً اور قانوناً مردوں کے تابع ہیں۔ اور مرد محبت کی وجہ سے تابع ہو جاتے ہیں۔
اختصاصِ محبت مرد کی عورت کے ساتھ پردہ کی بنا پر ہے:
ارشاد: اور یہ مسئلہ عقلی ہے کہ یہ تابعیت (مرد کی) محبت کی بقا تک ہے، اور محبت کی بقا پردہ کی بقا تک ہے، چنانچہ ایک یورپین عورت نے لکھا ہے کہ عورتوں کے لیے جو بے پردگی کی کوشش کی جاتی ہے یہ عورتوں کے لیے سخت مضر ہے، کیونکہ اس وقت تو مردوں کو عورتوں کی راحت رسانی کا پورا اہتمام ہے، اور اس کا سبب محبت ہے اور محبت کا منشا اختصاص ہے، مشاہدہ ہے کہ جو چیز عام ہوتی ہے اس سے قوی تعلق نہیں ہوتا، اور یہ اختصاص پردہ سے قائم ہے، پس محبت کی بنا پردہ ہے۔
جوازِ تتبعِ عورات بضرورت:
ارشاد: بضرورت تتبعِ عورات جائز ہے، اس لیے مصلح کو واقعاتِ مرید دریافت کرنا جائز ہے۔
اسلام کو ذلت سے بچانا واجب ہے:
ارشاد: اسلام کو ذلت سے بچانے کے لیے کہ عدالت والے کہیں گے کہ توبہ توبہ! اسلام چوری اور بے ایمانی سکھاتا ہے، چونگی دے دو۔ اور چار پیسے کی بچت نہ کرو۔
طاعون کل مسلمانوں کے لیے نعمت و شہادت ہے:
ارشاد: طاعون عامہ مسلمین کے لیے نعمت و شہادت ہے۔ اور کفار اور بعض اہلِ معصیت کے لیے قہر ہے۔
اعمالِ شرعیہ کے مجاہدہ ہونے کا راز:
ارشاد: اعمالِ شرعیہ جتنے بھی ہیں سب مجاہدہ ہیں، دین کا ہر کام مجاہدہ ہے، کیونکہ مجاہدہ کہتے ہیں خلافِ نفس کو اور دین کا ہر کام نفس کی اصل حالت کے اعتبار سے نفس کے خلاف ہے۔ اس کا راز یہ ہے کہ دین میں تقیید ہے اور تقیید نفس کو گراں ہے۔
طاعون کا مزہ مبتلا سے پوچھو:
ارشاد: جو لوگ طاعون میں مبتلا ہو کر مر چکے ہیں ان سے ان کی قدر پوچھو، وہ جانتے ہیں کہ یہ بڑے مزے کی چیز ہے، ہم خواہ مخواہ اس سے گھبراتے ہیں۔
طاعون میں بھاگنا سوءِ تدبیر ہے:
ارشاد: طاعون میں بھاگنا دراصل تدبیر ہی نہیں، بلکہ سوء تدبیر ہے، کیونکہ بھاگنا جیسے ضعف قلب سے ناشی ہے اسی طرح وہ ضعف کا منشا بھی ہے۔ یعنی بھاگنے والا اس فعل سے ضعف کو اپنے قلب پر غالب کر لیتا ہے، طبی قاعدہ سے ایسے امراض ضعیف القلب پر سب سے پہلے قبضہ کرتے ہیں تو بھاگنے والے نے تو اسی وقت اپنے اوپر طاعون کو قبضہ دے دیا، اگر وہ یہاں نہیں مرا تو دوسری جگہ جا کر مرے گا۔ اسی طرح دوسری جگہ بھی یہ بھاگنے والے طاعون پھیلاتے ہیں، نہ بطریق عدوٰی، بلکہ اسی قاعدے سے کہ یہ وہاں جا کر قلوب میں وہم پیدا کر دیتے ہیں تو دوسری بستی کے لوگ ان بھاگنے والوں سے یوں کہتے ہیں کہ خدا خیر کرے، کہیں ہماری بستی میں بھی طاعون نہ ہو جائے۔ جس سے ان میں بھی قبول طاعون کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے۔
مسلمان اور کافر کے مرنے کے وقت کی حالت:
ارشاد: مسلمان جب مرنے لگتا ہے تو فرشتے اس کو رضوان و کرامت کی بشارت سناتے ہیں اس وقت وہ حق تعالیٰ کی لقاء کا مشتاق ہو جاتا ہے۔ اور کافر کو عذاب کی دھمکی دیتے ہیں، وہ اس وقت خدا کے پاس جانے سے گھبراتا ہے اور کراہت کرتا ہے۔
طاعون کا مرنے والا قتیلِ سیف کے برابر شہید ہے:
ارشاد: طاعون کا مرنے والا قتیلِ سیف کے برابر شہید ہے کیونکہ قیامت میں دیکھا جائے گا کہ ان کے زخم بالکل شہدا کے زخم کے مشابہ ہوں گے۔ "لَوْنُہٗ لَوْنُ دَمٍ وَّ الرِّیْحُ رِیْحُ مِسْکٍ" (الصحیح لابن حبان، کتاب الجنائز، فصل: فی الشھید، رقم الحدیث: 3185) علاوہ اس کے جو بات مجاہداتِ اختیاریہ سے برسوں میں حاصل ہوتی ہے، وہ ان مجاہداتِ اضطراریہ سے ایک دن میں حاصل ہو جاتی ہے۔
"خَیْرُ الصَّدَقَةِ جُھْدُ الْمُقِلِّ" و "مَا کَانَ عَنْ ظَہْرِ غِنًی" کی تطبیق:
ارشاد: "خَیْرُ الصَّدَقَۃِ جُہْدُ الْمُقِلِّ" (الصحیح لابن حبان، کتاب البر والإحسان، باب: ما جاء فی الطاعات و ثوابھا، رقم الحدیث: 361) یعنی بہتر صدقہ تنگدست کا صدقہ ہے کیونکہ جمع بین المجاہدتین ہے۔ اور ایک دوسری حدیث میں جو اس کے خلاف آیا ہے، "خَیْرُ الصَّدَقَۃِ مَا کَانَ عَنْ ظَہْرِ غِنًی" (الصحیح للبخاری، کتاب الزکٰوۃ، باب: لَا صَدَقَۃَ إِلَّا عَنْ ظَہْرِ غِنًی، رقم الحدیث: 1426) یعنی بہتر صدقہ وہ ہے جس کے بعد اپنے پاس غنا باقی رہے۔ سو تطبیق دونوں حدیث کی یوں ہے کہ اول تو اقویاء کے لیے اور ثانی ضعفاء کے لیے ہے۔
مشاہدۂ کاملہ یہ ہے کہ علماً و عملاً استحضار رہے:
ارشاد: اس طریق کا خلاصہ دو ہی چیزیں ہیں: ایک مجاہدہ، ایک مشاہدہ، اول وسیلہ ہے، ثانی مقصود ہے۔ مگر مشاہدہ کے معنیٰ رؤیت کے نہیں ہیں، بلکہ یہ اصطلاحی لفظ ہے، جس کے معنیٰ ہیں کہ حق تعالیٰ کی طرف توجۂ خاص علماً بھی عملاً بھی غالب رہے، ورنہ وہ مشاہدہ علمی جو عمل سے خالی ہے، بالکل ناقص ہے، اور محض ایک مشق کا درجہ ہے جو کافر کو بھی چند روز میں حاصل ہو سکتی ہے، اس کا نام نسبت و مشاہدہ نہیں بلکہ نسبت اس تعلق کا نام ہے، جو محبت مع اللہ کی وجہ سے جذر قلب میں پیوستہ ہو جائے، جس کے لیے عمل بالاحکام لازم ہے اور جو تعلق بدون عمل کے ہو وہ محبت سے خالی ہے۔ پس مشاہدۂ کاملہ یہ ہے کہ علماً استحضار رہے یعنی اس کے مقتضا پر عمل بھی ہو۔
ایمانِ کامل کی شناخت
ارشاد: ایمان اور یقین کے مختلف درجے ہیں، جس درجہ کا ایمان اور یقین ہو جاتا ہے اتنا ہی عمل میں اس کا اثر ظاہر ہوتا ہے، تو جب کسی کو حق تعالیٰ کی رؤیت و معیت کا عمل میں استحضار نہیں ہوا تو اس درجہ میں اس کو ایمان حاصل نہیں ہے۔ اس کو میں ایک مثال سے واضح کرتا ہوں، وہ یہ کہ ایک طبیب کے پاس دو مریض گئے اور دونوں کو اس کی نسبت یہ اعتقاد ہے کہ یہ شخص کامل طبیب ہے۔ دونوں نے اپنی نبض دکھائی، اور طبیب نے دونوں کو نسخہ لکھ کر دیا، مگر ایک شخص نے تو نسخہ پر عمل کیا اور استعمال کر کے صحتیاب ہو گیا، اور دوسرے نے نسخہ پر عمل نہیں کیا تو پہلے کا یقین کامل ہے، کیونکہ اس نے یقین کے مقتضا پر عمل کیا ہے۔ اور دوسرے کا ناقص ہے، اس یقینِ کامل کے حاصل کرنے کا طریقہ سوا اس کے کچھ نہیں کہ اس کے مقتضا پر ہمت کر کے عمل کرے۔ اول اول تو تعب ہو گا، پھر رفتہ رفتہ وہ حال راسخ ہو کر ملکہ بن جائے گا۔
علمی استحضار کے لیے عمل بالاحکام لازم ہے:
ارشاد: اگر علماً استحضار کامل ہو تو عملاً غیب ہونا محال ہے۔ اور ملکۂ یاداشت والوں کو جو استحضار ہوتا ہے وہ محض تصور ہے، غلبۂ استحضار نہیں۔
حضرت یحیٰی و حضرت عیسٰی علیہما السلام کا فیصلہ:
ارشاد: حضرت یحیٰی علیہ السلام پر خشیت کا بہت غلبہ تھا اور زیادہ وقت رونے میں گذرتا تھا۔ یہاں تک کہ روتے روتے رخساروں کا گوشت گل کر گر پڑا تھا۔ کیونکہ آنسوؤں میں ایک قسم کا تیزاب ہے، اس لیے آپ کی والدہ روئی کے پھائے رخساروں پر چپکا دیا کرتیں تاکہ بدنما داغ نہ معلوم ہوں۔ ایک مرتبہ حضرت عیسٰی علیہ السلام نے فرمایا کہ اے یحییٰ! تم اتنا روتے ہو گویا تم کو خدا تعالیٰ کی رحمت کی امید ہی نہیں۔ حضرتِ حق کی طرف سے فیصلہ صادر ہوا، وحی نازل ہوئی کہ اے یحیٰی! خلوت میں تو تم ایسے ہی رہو جیسے اب ہو، اور مخلوق کے سامنے ویسے رہو جیسے عیسٰی علیہ السلام ہیں یعنی ہنستے اور تبسم کرتے رہا کرو، بندوں کے سامنے زیادہ رویا نہ کرو کہیں ہمارے بندوں کا دل نہ ٹوٹ جائے، اور مایوس نہ ہو جاویں۔ اور حضرت عیسٰی علیہ السلام پر وحی آئی کہ اے عیسٰی! ہمارے بندوں کے سامنے تو تم ویسے ہی رہو جیسے اب تک ہو اور خلوت میں ویسے رہو جیسے یحیٰی علیہ السلام ہیں، یعنی خلوت میں ہمارے عذاب کو یاد کر کے رویا کرو۔
اتباعِ حکمت حضور ﷺ کی فطرت و طبیعت تھی:
ارشاد: حضور ﷺ طبیعت سے بھی بعض کام کرتے تھے مگر وہ طبیعت بالکل حکمت کے موافق تھی، اور خود اتباع حکمت آپ کی فطرت و طبیعت بن گئی تھی۔
انسان کو دنیا میں بھیجنے کی ضرورت:
ارشاد: ترقئ قربِ مقصود کے لیے محض روح کافی نہیں، ورنہ ہم عالمِ ارواح ہی میں رہتے دنیا میں کیوں آتے؟ کیا نعوذ باللہ حق تعالیٰ تمہارے بدخواہ ہیں جو خواہ مخواہ راحت سے نکال کر تم کو کلفت میں بھیجا؟ نہیں! بلکہ اس میں راز یہی ہے کہ جو درجہ قرب کا مقصود تھا، وہ اعمال خاصۃً صلوٰۃ و صوم وغیرہ پر موقوف تھا، اس لیے عالمِ ارواح میں رہ رہ کر تم کو حاصل نہ ہو سکتا تھا۔ اس لیے روح کی ترقی کے لیے جسم کی ضرورت ہوئی اور دنیا میں بھیجے گئے۔
صوتِ امرد و عورت کا حکم:
ارشاد: امرد اور عورت کی آواز بلا قصد بھی کان میں پڑے تو کانوں کو بند کر لے۔
مولویوں کا برتاؤ شریعت کے ساتھ:
ارشاد: مولویوں کو شریعت کی حفاظت کے سامنے اپنے بدنامی کی بھی پروا نہیں کرنی چاہیے۔
تشبّہ کا مسئلہ:
ارشاد: ایک شخص دکان پر یا دستر خوان پر شراب کی سی بوتلیں بھر کر رکھے گو ان میں پانی ہی ہو، شراب نہ ہو، وہ مجرم ہے اور شرعاً گنہگار ہے۔ کیونکہ اس نے شراب خوروں کے ساتھ تشبّہ کیا۔
محقق کے کلام کی خصوصیت:
ارشاد: محقق کے کلام کی خاصیت یہ ہے کہ اس کی بات نہ سمجھنے پر تو سب اس کے دشمن ہو جاتے ہیں اور سمجھنے کے بعد سب اس سے راضی ہو جاتے ہیں۔
اہلِ مولود کو مطلقاً برا سمجھنا اچھا نہیں:
ارشاد: اصل میں تخصیصِ اعتقادی ناجائز ہے۔ اور تخصیصِ عملی بوجہ تشبہ کے ناجائز ہے، مگر تخصیصِ اعتقادی کے برابر نہیں، تو اگر کوئی شخص محض تخصیصِ عملی میں مبتلا ہو اور اس کا اعتقاد درست ہو اس سے نہ الجھنا چاہیے۔ اور جو دونوں میں مبتلا ہو اس کے اعتقاد کی اصلاح کرنی چاہیے۔ پر مولود خواں سے فوراً بدگمان نہ ہونا چاہیے، ممکن ہے کہ اس کا اعتقاد درست ہو اور محبتِ رسول کی وجہ سے تخصیص عملی میں مبتلا ہو جس میں کسی قدر معذور ہو، اس لیے اہل مولود کو مطلقاً برا سمجھنا اچھا نہیں۔
قنوت صبح کی نماز میں سنتِ دائمہ نہیں:
ارشاد: میں آج کل نوازل کی وجہ سے صبح کی نماز میں قنوت پڑھتا ہوں مگر بعض دفعہ نہیں پڑھتا، کیونکہ حنفیہ کے نزدیک قنوت صبح کی نماز میں سنتِ دائمہ نہیں۔
قیامِ مولد کا حکم:
ارشاد: اگر کسی ایسے مولد میں پھنس جاویں جہاں قیام ہوتا ہو تو اس مجلس میں مجمع کی مخالفت نہ کریں، بلکہ قیام کر لیا کریں، کیونکہ ایسے مجمع میں ایک دو کا قیام نہ کرنا مُوجِبِ فساد ہے، ہاں جہاں ہر طرح اپنا اختیار ہو وہاں تمام قیود کو حذف کر دیا جاوے کیونکہ ایسے موقع میں خاموش رہنا گناہ ہے۔
لوحِ محفوظ کی نظیر:
ارشاد: لوحِ محفوظ کی نظیر تو خود اپنا دماغ ہے کہ ذرا سے دماغ میں اس قدر بے شمار واقعات و مضامین محفوظ رہتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ تھوڑے سے جسم میں جتنے چاہے واقعات محفوظ کر دیں۔ پس دیانند سرسوتی کا مسلمانوں سے یہ سوال کرنا بالکل لغو اور مبنی بر حماقت و جہل ہے کہ یہ جو مسلمان کہتے ہیں کہ لوحِ محفوظ میں اوّلِ خلقت سے قیامت تک کے واقعات لکھے ہوئے ہیں اور واقعات تو لا تعداد و لا تحصی ہیں تو وہ کتاب تو بہت بڑی ہو گی پھر وہ کہاں رکھی جاتی ہو گی؟
ہم لوگوں کا حضور ﷺ کے زمانہ میں نہ ہونا بھی رحمت ہے:
ارشاد: ہم لوگوں کا حضور ﷺ کے زمانے میں نہ ہونا اور اب ہونا بھی نعمت ہے، کیونکہ ہم لوگ اگر اس وقت بھی ہوتے تو ایسے ہی ہوتے جیسے اب ہیں۔ اور اب ہماری حالت یہ ہے کہ ہمارے اندر تکبر ہے اور اتباعِ علماء سے اعراض ہے تو اس وقت حضور ﷺ کے ساتھ یہ معاملہ ہوتا تو ایمان ہی نصیب نہ ہوتا۔ کیونکہ عادتِ مالوفہ یک لخت ترک کر دینا بڑی ہمت کی بات ہے۔
علماء کا استیصال تمام عالَم کا استیصال ہے:
ارشاد: جو لوگ علماء کے استیصال کی فکر میں ہیں وہ خود مسلمانوں کے بلکہ تمام عالَم کے استیصال کی فکر میں ہیں، کیونکہ بقاءِ عالَم علماء کی وجہ سے ہے۔ جس کی دلیل یہ ہے کہ حدیث میں ہے: "لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰی لَا یُقَالُ فِي الْأَرْضِ اللہُ اللہُ" (الصحيح لمسلم، کتاب الإیمان، باب: ذھاب الإیمان آخر الزمان، رقم الحديث: 234)۔
عالمِ بد عمل پر بھی اعتراض کا حق نہیں:
ارشاد: عالم اگر بد عمل بھی ہو جب بھی تم کو اس پر اعتراض کا حق نہیں، کیونکہ وہ مدعی علم کا ہے، نہ کہ عمل کا۔ طبیب اگر بد پرہیز ہو تو مریض کا کیا نقصان ہے؟
مادری و غیر مادری زبان کافرق:
ارشاد: قاعدہ یہ ہے کہ زبان داں کو اپنی مادری زبان میں گفتگو سنتے ہوئے اول التفات معانی کی طرف ہوتا ہے اور الفاظ کی طرف بعد میں التفات ہوتا ہے۔ اور غیر مادری زبان میں اول التفات الفاظ کی طرف ہوتا ہے، ثانیاً معانی کی طرف۔
وحدۃ الوجود کی حقیقت:
ارشاد: وحدة الوجود تو یہ ہے کہ اپنی ہستی کو مٹا کر خدا کی ہستی کا مشاہدہ کر لے، نہ یہ کہ خدا کی ہستی کو مٹا کر اپنی ہستی کا مشاہدہ کرے۔
لزومِ صوم شہوت کا علاج ہے نہ کہ مطلق صوم:
ارشاد: روزہ میں ابتداءً شہوت کا غلبہ ہوتا ہے کیونکہ اس سے طبیعت میں لطافت پیدا ہوتی ہے اور لطافت سے شہوت بڑھتی ہے، مگر زیادہ روزہ رکھنے سے پھر شہوت کم ہو جاتی ہے۔ اور حدیث میں لزوم صوم کو علاج فرمایا ہے، نہ کہ مطلق صوم کو، اور لزوم مُقتضِی ہے اعتیاد و تکرار کا، کیونکہ قاعدہ یہ ہے کہ جیسے زیادہ کثافتِ طبع سے شہوت کم ہو جاتی ہے اسی طرح زیادہ لطافت سے بھی کم ہو جاتی ہے۔
تعزیت کرنے کا طریقہ:
ارشاد: بھائی جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا، اب رونے دھونے سے مردہ تو زندہ ہونے سے رہا، نہ اس کا اس میں کچھ نفع۔ تم وہ کام کرو کہ اس کو بھی نفع ہو اور تم کو بھی۔ وہ یہ کہ قرآن لے کر بیٹھ جاؤ اور پڑھ پڑھ کر اس کو بخشو، نفلیں پڑھو اور اس کا ثواب اس کو بخشو، اللہ اللہ کرو اور اس کا ثواب اس کو پہنچاؤ، اس کے لیے دعائے مغفرت کرو اور یہ سوچو کہ وہ جنت میں گیا جہاں یہاں سے زیادہ راحت ہے اور کچھ دنوں میں ہم بھی وہاں پہنچ کر اس سے مل لیویں گے۔
مسلمانوں کی فلاح و ترقی کا طریقہ عمل بالشریعت ہے:
ارشاد: دنیا کی فلاح کا طریقہ بھی یہی ہے کہ اعمالِ شرعیہ کا اہتمام کیا جاوے، جس طرح ہر چیز کے پاک کرنے کا طریقہ مختلف ہے، اسی طرح ہر قوم کی فلاح و ترقی کا طریقہ الگ ہے، یہ ضروری نہیں کہ جو طریق ایک قوم کو نافع ہو وہ سب کو نافع ہو۔ اگر ہم مان بھی لیں کہ یہ تدابیر ہم کو بھی نافع ہیں تو ایسے نفع کو لے کر ہم کیا کریں گے جس کے ساتھ خدا کا غضب بھی ملا ہوا ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو وہی تدابیر اختیار کرنا چاہئیں جو شریعت کے موافق ہوں، یوں نفع تو شراب و قمار میں بھی ہے، لیکن نص ہے: ﴿وَ إِثْمُهُمَا أَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا...﴾ (البقرة: 219)۔
تدبیر کرو مگر علماء سے پوچھ کر:
ارشاد: علماء کا کام یہ ہے کہ جو تدبیر تم کرنا چاہو اول علماء سے استتفتاء کر لو کہ یہ جائز بھی ہے یا نہیں، وہ اس کے متعلق حکم شرعی بتلا دیں گے تم اس پر عمل کرو۔ تمام متمدن اقوام کا یہی طریقہ ہے کہ ان کا عملی محکمہ الگ ہوتا ہے، علمی محکمہ الگ ہوتا ہے۔
خدا کا وجود فطری ہے اور اس کی دلیل:
ارشاد: واقعی خدا کا وجود ایسا فطری ہے کہ طوفان کے وقت اضطراری طور پر ملحد کو بھی اس کا قائل ہونا پڑتا ہے، اور کافر و مشرک مؤحد ہو جاتا ہے۔ اس وقت سارے دیوتا، مہا دیو وغیرہ دل سے نکل جاتے ہیں اور خدا ہی خدا رہ جاتا ہے، مسلمانوں کو توبہ و انابت الی اللہ نصیب ہوتی ہے۔
آخرت کے مکان و زمان دونوں کی خاصیت دنیا سے الگ ہے:
ارشاد: جیسے زمان آخرت میں یہ خاصیت ہے کہ اس وقتِ تحمّلِ رؤیت پیدا ہو جائے گا ایسے ہی مکان آخرت میں بھی یہ خاصیت ہے کہ جو وہاں پہنچ جائے اس میں تحمّلِ رؤیت پیدا ہو جاتا ہے، گو وہ حیات دنیویہ ہی سے ملبس ہو، آخرت کے مکان و زمان دونوں کی خاصیت دنیا سے الگ ہے۔
جنتیوں کو اول زمین کا جوہر کھلایا جائے گا:
ارشاد: حق تعالیٰ اپنے مقبول بندوں کو اول زمین کا جوہر کھلائیں گے تاکہ جنت میں جانے سے پہلے دنیا کی ہر قسم کی لذائذ کا مزہ ان کو معلوم ہو جاوے، پھر جنت کی نعمتوں کو چکھ کر اندازہ کریں کہ یہ دنیا کی لذتیں ان کے سامنے کیا ہیں، کچھ بھی نہیں۔
بوڑھا چراغِ سحر ہے تو جوان چراغِ شام:
ارشاد: بوڑھے اور جوان سب کے سب چراغ ہی کی مثل ہیں، مگر کوئی چراغِ شام ہے اور کوئی چراغِ سحر، خطرہ سے کوئی بھی خالی نہیں۔
ہم کو اپنے فنا کا استحضار نہیں:
ارشاد: گو ہم کو فنا ہونے کا عقیدہ تو ہے لیکن اس وقت اس کا استحضار نہیں، اگر ہے بھی، زمانۂ مستقبل بعید میں ہے۔
حرکتِ زمانی و مکانی کا خاصہ:
ارشاد: حرکت کی دو قسمیں ہیں: ایک حرکتِ مکانی اور ایک زمانی، تو یہاں پر حرکتِ مکانی اور انتقالِ اینی تو بے شک نہیں ہے، کیونکہ ظاہراً ہم دیکھتے ہیں کہ آخرت میں پہنچنے کے واسطے اللہ پاک نے کوئی زینہ نہیں بنایا جس پر چڑھ کر ہم آخرت میں چلے جائیں۔ لیکن یہاں پر حرکتِ زمانی متحقق ہے یعنی اگرچہ ہم ساکن محض ہیں، لیکن زمانہ حرکت کر رہا ہے وہ حرکت کرتے کرتے ایک ایسی آخری ساعت پر پہنچ جائے گا کہ جس کے بعد ہم آخرت میں ہوں گے، یہی حرکت زمانی ہے جو بوجہ خارج از اختیار و کسب ہونے کے سببِ تغافل بنتی ہے۔ جس ساعت سے دنیا میں کوئی قدم رکھتا ہے اسی وقت سے اس کی عمر میں ہر ہر ساعت محسوب ہونے لگتی ہے اور اسی قدر عمر کا حصہ گھٹنے لگتا ہے جیسے برف ہوتا ہے کہ اس کو جس قدر رکھا جاوے اسی قدر وہ برابر گھلتی رہتی ہے۔
حیلہ نفس کی مثال:
ارشاد: نفس نے عجیب بہانہ تراش رکھا ہے، جب اس سے کہا جاتا ہے کہ سود مت لو تو کہتا ہے کہ ہندوستان دار الحرب ہے اور دار الحرب میں سود لینا بعض علماء کے مذہب میں جائز و حلال ہے۔ اور جب کہو کہ زکوٰة دو تو کہتا ہے بھائی ہمارا سارا مال حرام ہے، سودی ہے اور غیر کا حق ہے۔ اور حق غیر میں زکوٰة کہاں؟ نفس کی مثال بالکل شتر مرغ کی سی ہے۔
؎ چوں شتر مرغے شناس ایں نفس را
نے کشد بارو نہ پر دبر ہوا
گر بپر گویش گوید اشترم
ور نہی بارش بگوید طائرم
ریل میں اگر اشارے سے نماز پڑھے تو احتیاطاً دوہرا لیوے:
ارشاد: ریل میں جس طرح سے ممکن ہو نماز ضرور پڑھ لے۔ لیکن اس قسم کی نماز جس میں رکوع اور سجدہ کے بجائے ہجوم کی وجہ سے اشارہ کیا ہو، اس کا اعادہ علی سبیل الاحتیاط ضرور کر لینا چاہیے۔
مواقعِ رخصت میں رخصت ہی حکم اصلی ہے:
ارشاد: رخصت و عزیمت جبکہ اپنے موقع پر ہوں اجر میں برابر ہیں، یہ سخت غلطی ہے کہ بعض علماء رخصت کو اصل حکمِ شرعی نہیں سمجھتے۔ نیز اس کو موجب اجر قلیل خیال کرتے ہیں۔ حضرتِ والا فرماتے ہیں کہ اپنا تو یہ خیال ہے کہ خواص کو بھی مواقعِ رخصت پر بہ نسبت عزیمت کے رخصت ہی پر عمل کرنا اولیٰ ہے اور انسب ہے، اس وجہ سے کہ خواص کے طرزِ عمل کو عوام اپنے واسطے نقشۂ عمل سمجھتے ہیں۔ تو جبکہ خواص ایسے مواقعِ رخصت میں عزیمت پر عمل کریں گے اور عوام کو رخصت پر عمل کرنے کی تعلیم کریں گے تو عوام سمجھیں گے کہ اصل حکم شرعیت کا یہی ہے جس کو یہ لوگ کرتے ہیں، اور یہ سہل احکام بوجہ سہولت و آسانی کے ہم کو تعلیم فرماتے ہیں۔ حالانکہ مواقع رخصت میں رسول اللہ ﷺ نے رخصت ہی پر عمل کیا ہے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس پر عمل کرنے کو فرمایا ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ مواقعِ رخصت میں رخصت ہی حکمِ اصلی ہے۔ نیز رخصت پر عمل کرنے میں حق تعالیٰ کا احسان پیشِ نظر ہوتا ہے اور ہر رگ و پے و ہر سانس سے شکر ہی شکر خداوند تعالیٰ کا ادا ہوتا ہے اور اس شکر سے حق تعالیٰ کی محبت بڑھتی ہے۔
اصل سرور و نورِ حقیقی کی تعریف:
ارشاد: اصل سرور وہ ہے جو انسان کو حدودِ شرعیہ میں رہ کر عمل کرنے سے حاصل ہو اور اس پر فرحت بخش اثر پیدا ہو، وہی ہے نورِ حقیقی جس کو محبت الٰہی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
عمل بالسنۃ کے معنی:
ارشاد: عمل بالسنۃ کے معنی یہ ہیں کہ حضور ﷺ کے حکم کی مخالفت نہ ہو، باقی عمل میں پوری مطابقت کی عادات و معمولات کو بعینہا ادا کیا جائے لازم نہیں، مثلاً حضور ﷺ بلا چھنے ہوئے جو کے آٹے کی روٹی کھاتے تھے تو یہ لازم نہیں کہ ہم بھی بے چھنے جو کی روٹی کھاویں۔
"مَا أَنَا عَلَیْہِ وَ أَصْحَابِيْ" کے معنیٰ
ارشاد: "مَا أَنَا عَلَیْہِ وَ أَصْحَابِيْ" (سنن الترمذی، أبواب الإیمان، باب: ما جاء فی من یموت وَ ھُوَ یَشْہَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ، رقم الحدیث: 2641) "مَا'' کے تحت میں دو قسم کے امور داخل ہیں: ایک فعلی، یعنی جس پر تعامل آنحضرت ﷺ کا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا رہا ہے۔ اور ایک قولی یعنی جس پر عمل تو آپ ﷺ کا ثابت نہیں، لیکن ان کی اجازت صراحتاً آپ ﷺ نے دی ہے یا کسی کلیہ کے تحت میں داخل ہیں، بشرطیکہ کوئی دلیلِ شرعی حرمت کی موجود نہ ہو، پس اس اصل پر ہندوستانی جوتا تو اجازت کے تحت میں آ سکتا ہے، بخلاف انگریزی جوتے کے کہ اس میں تشبہ بالکفار علتِ حرمت موجود ہے۔
صحیح الاعتقاد وہ ہے جس کے اعتقاد کا اثر عمل میں بھی ظاہر ہو:
ارشاد: اگرچہ مسئلۂ قدر ان مسائل میں سے ہے جن کا علم مقصود بالذات ہے اور جن کا علم جزو ایمان ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ اس سے تکمیلِ صبر کا بھی مقصود ہونا نص سے ثابت ہے جو ایک عمل ہے۔ پس علومِ مقصودہ فی حد ذاتہا بھی تتمیمِ اعمال میں مؤثر ہیں اور ان کی تعلیم سے اصلاح اعمال بھی مقصود ہے۔ پس دراصل صحیح الاعتقاد وہ ہے جس کے اعتقاد کا اثر عمل میں بھی ظاہر ہو ورنہ وہ ناقص الاعتقاد ہے اور اصل معنی میں صحیح الاعتقاد نہیں۔
کنہِ ذات سے ناواقفیت نقصِ بشر نہیں:
ارشاد: اگر ہم ایک ذاتِ قدوس بعید عن الادراک، غائب عن النظر، غیر محدود الاوصاف کے ادراک سے جاہل و ناواقف ہیں تو کونسا ہماری شان میں بد نما داغ لگ جائے گا؟
دوام تحت المشیۃ کی تفسیر:
ارشاد: ﴿إِلَّا مَا شَآءَ رَبُّکَ…﴾ (ھود: 107) جو ﴿خَالِدِیْنَ فِیْھَا...﴾ (ھود: 107) کے بعد فرمایا ہے، اس سے مراد دوام تحت المشیئۃ ہے مطلب یہ کہ کہیں: ﴿خَالِدِیْنَ فِیْہَا...﴾ (ھود: 107) کے معنون دوام سے یہ نہ سمجھنا کہ ہم اب مساوی واجب کے ہو کر ممکنیت کے پیراہن سے خارج ہو گئے۔ نہیں، بلکہ تم ممکن ہی ہو اور ہم واجب ہی ہیں، دوام اگرچہ تمہارے حصہ میں آ گیا، لیکن یہ تمہارا دوام تو داخل تحت المشیئۃ ہے یعنی ہمارے ارادہ پر موقوف ہے کہ جب تک ہم چاہیں تم کو اس دوام میں رکھیں اور جب چاہیں کان پکڑ کر نکال باہر کریں۔ گو نکالیں گے نہیں، مگر پھر بھی تحت المشیئۃ ہے۔ بخلاف ہمارے دوام کے کہ ہمارا دوام مستقل بالذات ہے، کسی کی مشیت پر موقوف نہیں، کوئی احتمال اس دوام کے فنا ہونے کا نہیں ہے۔
مسئلہ تقدیر کا انکشاف آخرت میں بھی نہ ہوگا:
ارشاد: عرفاء نے کہا ہے کہ مسئلہ قدر کا انکشاف آخرت میں بھی نہ ہو گا، جیسا کہ یہاں نہیں ہوا، اس وجہ سے کہ یہ مسئلہ بھی راجع ہے ادراکِ کنہِ ذات و صفات کی طرف اور ذات و صفات کا علم بالکنہ نہ دنیا میں ہو سکتا ہے، نہ آخرت میں۔
تأکّدِ حق کی وجہ:
ارشاد: تأکّد حق کی وجہ کبھی عظمتِ صاحب حق ہے، کبھی حاجتِ صاحب حق۔
عزت بالذات و عزت بالعرض:
ارشاد: عزت بالذات تو بتمامہا اللہ ہی کے لیے اور عزت بواسطہ رسول اور مومنین کے لیے بھی ہے، غرض دونوں میں بالذات اور بالعرض کا فرق ہے۔
"حَقُّ الْعِبَادِ مُقَدَّمٌ عَلٰی حَقِّ اللہِ" کا مطلب:
ارشاد: "حَقُّ الْعِبَادِ مُقَدَّمٌ عَلٰی حَقِّ اللہِ" کا یہ مطلب نہیں کہ ''نَعُوْذُ بِاللہِ'' عظمت کی وجہ سے ایسا ہے، بلکہ احتیاج کی وجہ سے حق العبد کو حق اللہ پر مقدم کیا گیا ہے۔ چونکہ حق تعالیٰ نے خود حکم دیا ہے کہ بندوں کے حقوق ادا کرو، اس بنا پر یوں کہنا چاہیے کہ ایک حق اللہ دوسرے حق اللہ پر مقدم ہو گیا۔
صوفی کو کوئی جاہل کہہ دے تو وہ خوش ہوتے ہیں:
ارشاد: صوفی کو کوئی جاہل کہہ دے تو وہ خوش ہوتے ہیں کہ اچھا ہوا میں رجوعِ خلائق سے بچا ورنہ لوگ ہجوم کر کے خلوت مع المحبوب سے روک دیتے۔
"حَقُّ الْعِبَادِ مُقَدَّمٌ عَلٰی حَقِّ اللہِ" میں در حقیت ایثار کی تعلیم ہے:
ارشاد: "حَقُّ الْعِبَادِ مُقَدَّمٌ عَلٰی حَقِّ اللہِ" میں درحقیقت اس میں ایثار کی تعلیم ہے، کیونکہ حق اللہ وہ ہے جس کا نفع و ضرر اپنے نفس کو ہوتا ہے۔ اور حق العبد وہ ہے جس کا نفع و ضرر غیر کو ہوتا ہے۔ پس مطلب یہ ہوا کہ اپنے نفس کے حقوق پر غیروں کے حقوق کو مقدم کرنا چاہیے۔ فقہاء اس کو اس عنوان سے تعبیر کرتے ہیں اور صوفیہ اس کو ایثار سے تعبیر کرتے ہیں۔ فقہاء نے صرف معاملات میں ایثار کا اہتمام کیا ہے، اور صوفیہ نے ہر امر میں اس کی سعی کی ہے، حتیٰ کہ عبادات میں بھی۔ فرائض اور واجبات کے اندر تو نہیں، مگر مستحبات و فضائل میں وہ ایثار کرتے ہیں، چنانچہ اگر کبھی کوئی صوفی صفِ اول میں کھڑا ہو جاوے، اس کے بعد کوئی بزرگ آ جائیں، استاد یا شیخ، تو وہ پیچھے ہٹ کر اپنے بزرگ کو صفِ اول میں جگہ دے دیتے ہیں۔ اس پر فقہاءِ خشک اعتراض کرتے ہیں کہ تم نے صفِ اول کے ثواب کو چھوڑ دیا جس میں استغناء عن الثواب ہے۔ صوفیہ کہتے ہیں کہ ایک ثواب تو صفِ اول میں کھڑے ہونے کا ہے، اور دوسرا ثواب تعظیمِ اہل اللہ کا ہے جو اس سے بڑھا ہوا ہے۔ نیز اس حدیث پر عمل ہے: "لِیَلِیَنِيْ مِنْکُمْ أُوْلُو الْأَحْلَامِ وَالنُّھٰی" (سنن الترمذی، أبواب الصلٰوۃ، باب: ما جاء لیلینی منکم أولو الأحلام و النهى، رقم الحدیث: 228) ظاہر میں گو ہم ایک ثواب کے تارک ہیں، مگر باطن میں دوسرے ثواب کے جامع ہوئے، تو استغناء عن الثواب کہاں ہوا؟ علاوہ اس کے بقاعدۂ "اَلدَّالُّ عَلَی الْخَیْرِ کَفَاعِلِہٖ" (سنن الترمذی، أبواب العلم، باب: ما جاء الدال علی الخیر کفاعلہ، رقم الحدیث: 2670) اس شخص کو جو صف اول کی فضیلت ہماری وجہ سے حاصل ہو گی، اس کا ثواب بھی ہم کو ملے گا تو ہم ثوابِ صفِ اول سے بھی محروم نہ ہوئے اور اس کے ساتھ دوسرے ثواب کے جامع بھی ہو گئے۔
حقوق غیر کے مقدم ہونے کی شرط:
ارشاد: نفس پر حقوقِ غیر مقدم ہیں بشرطیکہ اپنی ہلاکت اور اپنے اہل بیت کی پریشانی کا اندیشہ نہ ہو۔
حق العبد کے اقسام:
ارشاد: "فَإِنَّ دِمَاءَکُمْ وَ أَمْوَالَکُمْ وَ أَعْرَاضَکُمْ عَلَیْکُمْ حَرَامٌ کَحُرْمَةِ یَوْمِکُمْ ھٰذَا فِيْ بَلَدِکُمْ ھٰذَا فِيْ شَھْرِکُمْ ھٰذَا" (الصحیح للبخاری، کتاب الحج، باب: الخطبۃ أیام منى، رقم الحدیث: 1739) معلوم ہوا کہ حق العبد کی تین قسم ہیں جان۔ مال اور آبرو۔
مولود شریف اور جگہ تو بدعت ہے لیکن کالج میں جائز، بلکہ حفاظتِ دین کا ذریعہ:
ارشاد: اگر کسی جگہ بدعت ہی لوگوں کے دین کی حفاظت کا ذریعہ ہو جاوے تو وہاں اس بدعت کو غنیمت سمجھنا چاہیے، جب تک کہ ان کی پوری اصلاح نہ ہو جاوے۔ جیسے مولود شریف اور جگہ تو بدعت ہے مگر کالج میں جائز بلکہ واجب ہے۔ کیونکہ اس بہانہ سے وہ کبھی رسول اللہ ﷺ کا ذکر شریف اور آپ ﷺ کے فضائل و معجزات تو سن لیتے ہیں۔ تو اچھا ہے اسی طرح حضور ﷺ کی عظمت و محبت ان کے لوگوں میں قائم رہے۔
حکام کو ناراض کرنے کی ممانعت:
ارشاد: ایسا کام نہ کرنا چاہیے جس میں حاکم کی ناراضی ہو، کیونکہ اس کا انجام قریبِ ہلاکت ہے اور مدت دراز تک مسلمانوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ اور ایسے خطرات سے حفاظتِ نفس شرعاً مطلوب ہے، مگر اتنا فرق ہے کہ عوام تو اپنی جان سمجھ کر اپنے نفس کی حفاظت کرتے ہیں اور اہل اللہ خدا کی امانت سمجھ کر حفاظت کرتے ہیں، حکام کو ناراض کرنا: ﴿لَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ...﴾ (البقرة: 195) میں داخل ہے۔
بچوں پر اگر زیادتی ہو جائے تو اس کی تلافی کی تدبیر:
ارشاد: اگر بچوں پر زیادتی ہو جاوے تو اس کی تلافی کی یہ تدبیر ہے کہ سزا کے بعد بچوں کے ساتھ شفقت کرو اور جس پر زیادتی کی ہے اس کے ساتھ احسان کرو، یہاں تک کہ وہ خوش ہو جائے۔ نیز سزا کے بعد بچوں کو خوش کرنے کی اس لیے بھی ضرورت ہے کہ ان کے دل میں معلّم سے بغض و عداوت نہ پیدا ہو جاوے جو علم سے محرومی کا سبب ہے۔
خدمتِ طفلاں کا حکم:
ارشاد: بچوں سے ایسی خدمت لینا جائز نہیں جس میں والدین کی رضا نہ ہو، اور اگر رضا بھی ہو تو جو خدمت بچوں کی طاقت سے باہر ہو یا خدمت خلاف سنت ہو (جیسے تیجے کے دانے پڑھوانا) وہ بھی جائز نہیں، میاں جیوں کو اس کا خیال رکھنا چاہیے۔
بدوں صفائی کے کسی چیز سے منتفع نہ ہو:
ارشاد: اگر قلی سے کام لینے سے پہلے صاف کہہ دیا جائے کہ ہم سرکاری نرخ نامہ کے موافق تم کو کرایہ یا مزدوری دیں گے اس سے زیادہ نہ دیں گے، اگر خوشی ہو قبول کر لو۔ اگر اس پر بھی سامان اٹھا لے تو پھر سرکاری نرخ کے مطابق کرایہ دینا جائز ہے۔ غرضیکہ بدوں صفائی کے کسی چیز سے منتفع نہ ہو۔
حاکم تنہا اپنی احیتاط سے نجات نہیں پا سکتا:
ارشاد: حاکم تنہا اپنی احتیاط سے نجات نہیں پا سکتا بلکہ اس کا انتظام بھی اس کے ذمہ ہے کہ متعلقین بھی ظلم نہ کرنے پائیں۔ جس کی صورت یہ ہے کہ عام طور سے اشتہار دے دے کہ میرے یہاں رشوت کا بالکل کام نہیں، اس لیے اگر میرے عملہ میں سے کوئی شخص کسی سے رشوت مانگے تو ہرگز نہ دے بلکہ ہم سے اس کی اطلاع کرے۔ پھر اطلاع کے بعد جس نے ایسی حرکت کی ہو اس سے رقم واپس کرائے اور کافی سزا دے۔ نیز جو شخص حاکم سے ملنے آئے اس کو خود جا کر دروازے سے باہر تک پہنچائے، تاکہ نکلتے ہوئے کوئی چپراسی وغیرہ اس کو تنگ نہ کرے، نیز حکام کو یہ بھی چاہیے کہ لوگوں کے تعلقات براہ راست اپنے سے رکھیں، کسی شخص کو واسطہ نہ بنائیں، کیونکہ یہ واسطے بہت ستم ڈھاتے ہیں۔ اگر کہو صاحب! یہ تو بڑا مشکل ہے تو حضرت حکومت کرنا آسان نہیں، یہ منہ کا نوالہ نہیں، ہر وقت جہنم کے کنارہ پر ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دورۂ شام:
ارشاد: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب شام کا دورہ کیا ہے تو آپ کے ساتھ کل یہ سامان تھا: ایک غلام تھا اور ایک اونٹ، اسی پر آقا اور غلام دونوں باری باری سوار ہوتے تھے۔ اور کھانے کے لیے ایک تھیلا ستو کا تھا اور ایک کھجوروں کا۔ بس سارا راستہ اسی کو گھول کر پی لیا، دو چار کھجوریں کھا لیں۔ ساتھ میں نہ خیمہ تھا، نہ گھوڑے تھے، نہ لاؤ لشکر تھا، پھر راستہ میں جہاں ٹھہرتے تھے وہاں استقبال کرنے کی ممانعت تھی۔ نہ کسی کا ہدیہ لیتے، نہ کسی گاؤں سے دودھ اور جنس منگاتے۔
لاپتہ کے حقوق مالیہ اور جسمانیہ کی ادائیگی کا طریقہ:
ارشاد: اگر کسی شخص نے کسی پر ظلم کیا ہو یا کسی سے رشوت لی یا کسی کی غیبت کی ہو اور اب وہ مر چکے ہوں یا لاپتہ ہوں، تو ان کے حقوق کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ اول تو پوری کوشش ان کے پتہ لگانے میں کرے، اگر پتہ لگ جاوے تب تو ان کا حق پہنچائے یا معاف کرائے۔ اگر معلوم ہو کہ وہ مر گئے ہیں تو مالی حقوق ان کے ورثاء کو پہنچاؤ یا ان سے معاف کراؤ، اگر ورثاء کا بھی پتہ نہ لگے تو جتنی رقم تم نے ظلم و رشوت سے لی ہے، اتنی رقم خیرات کرو اور نیت کر لو کہ یہ ہم ان کی طرف سے دے رہے ہیں۔ یہ تو حقوقِ مالیہ کا حکم ہے۔ اور غیبت، شکایت اور جانی ظلم کی تلافی کا طریقہ یہ ہے کہ اگر مظلوم مر گیا ہو یا لاپتہ ہو گیا ہو تو اس کے حق میں دعا کرو، نماز قرآن پڑھ کر اس کو ثواب بخشو، اور عمر بھر اس کے لیے دعا کرتے رہو، ''إِنْ شَاءَ اللہُ'' حق تعالیٰ ان کو تم سے راضی کر دیں گے، جس کی صورت قاضی ثناء اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے یہ لکھی ہے کہ قیامت میں مسلمانوں کو بڑے بڑے خوبصورت عالیشان محل دکھلائے جائیں گے اور حق تعالیٰ فرمائیں گے کہ ان محلات کا خریدار کوئی ہے؟ اور ارشاد ہو گا کہ ان کی قیمت یہ ہے کہ جس کا جو حق کسی کے ذمہ ہو اسے معاف کر دے اس وقت کثرت سے اہل حقوق اپنے حق معاف کر دیں گے۔ اگر یہ شبہ ہو کہ ساری عمر میں جو کثیر رقم حرام مال کی کھائی تھی آج ایک دن میں کیسے سب ادا کر دے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے یہاں کام کا شروع کردینا اور ادا کا عزم کر لینا بھی مقبول ہے، تم اول تو صاحبِ حق سے معافی کی درخواست کرو، اگر وہ خوشی سے معاف کر دے تب جلدی ہلکے ہوئے۔ اور اگر معاف نہ کرے یا خوشی سے معاف نہ کرے تو تھوڑا تھوڑا جتنا ہو سکے اس کا حق ادا کرتے رہو، مگر یہ ضروری ہے کہ اپنے فضول اخراجات کو موقوف کردو، بس ضروری ضروری خرچوں میں اپنی آمدنی خرچ کرو اور اس سے جتنا بھی بچے وہ حق داروں کو ادا کرو۔ اگر وہ مر گئے ہوں تو ان کے ورثاء کو دو۔ اگر ورثاء بھی نامعلوم ہوں تو ان کی نیت سے خیرات کرتے رہو۔ ''إِنْ شَاءَ اللہُ تَعَالٰی'' اول تو امید ہے کہ دنیا ہی میں سارا حق ادا ہو جائے گا، اگر کچھ رہ گیا تو حق تعالیٰ اس کو ادا کر دیں گے۔ حق تعالیٰ کے یہاں نیت کو زیادہ دیکھا جاتا ہے، جس کی نیت پختہ ہو کہ میں حق ادا کروں گا، پھر اس پر عمل بھی شروع کر دے حق تعالیٰ اس کو بری فرما دیں گے۔
مولویوں کا بیوی سے دبنے کا راز:
ارشاد: سچ کہا ہے کسی نے "یَغْلِبْنَ الْعَالِمَ وَ یَغْلِبُھُنَّ الْجَاھِلُ" لوگ یوں سمجھتے ہیں کہ مولوی بیویوں سے دبتے ہیں، خیر کوئی یوں ہی سمجھ لے مگر در حقیقت دبتے نہیں، بلکہ کمزور پر بہادری کرتے ہوئے غیرت کرتے ہیں۔
خدا تعالیٰ اور سمجھ کی تعریف:
ارشاد: خدا وہ ہے جو سمجھ میں نہ آوے، اور سمجھ وہ ہے جو خدا کو پاوے۔ یعنی خدا کی طلب میں رہے، اگرچہ اس کی ذات تک رسائی نہیں ہو سکتی۔
تعلیمِ قرآن کی شرعی حد:
ارشاد: اوّل سے آخر تک قرآن کا پڑھنا فرضِ عین نہیں، گو فرض کفایہ ضرور ہے۔ اور ایک آیت کا یاد کرنا فرض عین ہے۔ اور سورۂ فاتحہ اور ایک سورة کا سیکھنا گو چھوٹی ہی سورت ہو واجب علی العین ہے۔
ترقی و تعلیم اگر مضرِّ دین ہے تو چولہے میں جھونکنے کے قابل ہے:
ارشاد: اس ترقی و تعلیم کو لے کر ہم کیا کریں جس سے دین ہی برباد ہونے لگے؟ وہ تو چولہے میں جھونکنے کے قابل ہے، پھٹ پڑے وہ سونا جس سے ٹوٹے کان۔
عالمِ حقانی کی شناخت:
ارشاد: عالمِ حقانی وہ نہیں ہے جو تمہاری مرضی کے موافق فتویٰ دیا کرے، اس میں غرض کا قوی شبہ ہے کہ وہ عوام کو اپنے سے مانوس کرنا چاہتا ہے۔ جو شخص کسی کی مرضی کی رعایت نہ کرے، سمجھ لو کہ وہ صحیح احکام بیان کرتا ہے۔
تعلیمِ جدید کی تحصیل کی شرائط:
ارشاد: (1) اپنے مذہب کی تعلیم حاصل کرے۔ (2) کسی عالم کے مشورے سے کورس مقرر کرے، مطالعہ کرے۔ (3) علمائے حقانی کی کتابیں مطالعہ میں رکھے۔ (4) علمائے حقانی کی صحبت میں آمد و رفت رکھے۔ (5) غیر جنس کی کتابوں سے اعراض رکھے۔ اس کے بعد تعلیم جدید حاصل کرنے کا مضائقہ نہیں۔
اہلِ دنیا کا برتاؤ دین و دنیا کے کاروبار میں:
ارشاد: افسوس کہ دنیا کے کاروبار میں نقصان نہ ہونے کو بھی کامیابی سمجھا جاتا ہے اور دین کے کام میں نفع کی تاخیر کو بھی ناکامی سمجھا جاتا ہے۔
علمِ الفاظِ قرآن کی ضرورت:
ارشاد: جو لوگ شبہ کرتے ہیں کہ بے سمجھ قرآن پڑھنے سے کیا نفع؟ یہ محض ان کا بہانہ ہے، قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کرتے۔ دوسرے یہ کہ معانی الفاظ کے تابع ہیں، اور ضروری کا موقوف علیہ بھی ضروری ہوتا ہے، تو اس سے خود الفاظ کی ضرورت پر دلالت ہو رہی ہے۔ پس چونکہ یہ لوگ ظاہر میں مسلمان ہیں اس لیے زبان سے تو یہ کہہ نہیں سکتے کہ قرآن پڑھنے کو مطلقاً ہمارا جی نہیں چاہتا، ورنہ کفر کا فتویٰ لگ جاوے گا، اس لیے یہ قاعدہ غرضِ نفس کے موافق گھڑ لیا کہ جب معانی نہیں سمجھتے تو الفاظ سے کیا نفع۔ حالانکہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿تِلْكَ آيَاتُ الْكِتَابِ وَ قُرْآنٍ مُّبِيْنٍ﴾ (الحجر: 1) قرآن کے معنی ہیں "مَا یُقْرَءُ" اور کتاب کے معنی ہیں "مَا یُکْتَبُ" یعنی پڑھنے لکھنے کی چیز تو الفاظ ہی ہیں، معانی کو کون پڑھ سکتا ہے؟ اس سے بھی تائید ہوتی ہے کہ الفاظ خود بھی مطلوب و مقصود ہیں۔
خدا کی مرضی حفاظتِ قرآن میں ہے:
ارشاد: قرآن کے اس قدر حفاظ ہر زمانہ میں ہوتے رہتے ہیں، اس کا شمار و احصا دشوار ہے۔ معلوم ہوا کہ خدا کی مرضی اس کی حفاظت میں ہے تو ہم کو بھی مرضئ حق کی رعایت کرنی چاہیے۔
قرآن کے الفاظ آخرت کے سکے ہیں:
ارشاد: قرآن کے الفاظ کا ایک نفع یہ ہے کہ یہ آخرت کے سکے ہیں، جس کی ایک سورت سے آخرت کے بے شمار خزانے جمع ہو جاتے ہیں۔ جب وہاں جا کر آپ دیکھیں گے کہ ایک سورۂ فاتحہ اور ''قُلْ ھُوَ اللہُ'' سے اتنا بے شمار ثواب مل گیا تو بے ساختہ یوں کہیں گے:
؎ خود کہ باید ایں چنیں بازار را
کہ بیک گل می خرمی گلزار را
مسلمان کو ہر وقت تکلم مع اللہ کی دولت حاصل ہے:
ارشاد: عشاق کو محبوب سے باتیں کرنے میں عجیب مزہ آتا ہے، اور یہ دولت مسلمانوں کو گھر بیٹھے ہر وقت نصیب ہے کہ وہ جب چاہیں اللہ تعالیٰ سے باتیں کر لیں یعنی قرآن کی تلاوت کرنے لگیں۔ پھر حیرت ہے کہ قرآن کے بدوں سمجھے پڑھنے کو بے فائدہ بتلا دیا جاوے۔
الفاظِ قرآن کا نفع:
ارشاد: صاحبو! اس سے بڑھ کر الفاظ قرآن کا نفع اور کیا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ قرآن پڑھنے والے کی قرأت کی طرف بہت توجہ فرماتے ہیں اور نہایت توجہ سے سنتے ہیں۔
صورت کے بیکار نہ ہونے کی دلیل:
ارشاد: اگر یہ دعویٰ مان لیا جاوے کہ صورت محض بے کار ہے تو ان مدعیوں کو چاہیے کہ اپنی اولاد کا گلا گھونٹ دیا کریں، کیونکہ یہ تو محض صورت ہے اس کی کیا ضرورت ہے، بلکہ مقصود تو معنیٰ ہے یعنی روح اور وہ گلا گھوٹنے کے بعد بھی باقی رہتی ہے۔
بجائے اصل الفاظ کے صرف ترجمۂ قرآن پڑھنا عقلاً بھی مناسب نہیں:
ارشاد: الفاظ کی خاصیت متکلم کی عظمت و شوکت و صورت کا استحضار ہے اور یہ صرف قرآن ہی کے الفاظ کے ساتھ خاص ہے، کیونکہ اصلی کلامِ الٰہی کے برابر ترجمہ میں عظمت و شوکت ہو نہیں سکتی۔ اور عبادت سے مقصود معبود کی عظمت دل میں پیدا کرنا ہے، اس لیے نماز میں بجائے اصل الفاظ کے ترجمہ پڑھنا عقلاً بھی مناسب نہیں۔
پختہ مزارات اہل اللہ کے مذاق کے بالکل خلاف ہیں:
ارشاد: اہل اللہ کی تعظیم کچھ اس میں منحصر نہیں کہ ان کے مزارات پختہ بنائے جاویں، وہ تو کچی قبر میں بھی ویسے ہی معظم و محترم ہیں جیسے پکی قبر میں۔ بلکہ کچی قبروں پر بوجہ موافقت سنت کے انوار زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ پختہ مزارات تمام تر رؤساء اور امراء و سلاطین کے بنوائے ہوئے ہیں، ورنہ اہل اللہ کو اپنے بدن تک کی پرواہ نہیں ہوتی، پھر یہ چوچلے قبروں کے پختہ و آراستہ بنانے کے ان میں کہاں سے آ جاتے؟ ان کو اپنے اوپر قیاس نہ کرو کہ وہ بھی ان خرافات سے خوش ہوتے ہیں، غرضیکہ یہ پختہ مزارات اہل اللہ کے مذاق کے بالکل خلاف ہیں۔ پھر یہ قبر کی وضع کے بھی خلاف ہیں، کیونکہ زیارتِ قبور سے غرض یہ ہے کہ موت یاد آئے اور دنیا کے زوال و فنا کا نقشہ سامنے آ جائے تو یہ بات کچی اور شکستہ قبروں ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ اور شاہی قبروں سے موت تھوڑا ہی یاد آتی ہے، نہ زوال و فنائے دنیا پیش نظر ہوتا ہے، بایں ہمہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے حضور ﷺ کی پختہ قبر نہیں بنائی بلکہ کچی ہی رکھی۔
باقی رکھنے والی چیز اہل اللہ کی ولایت و کمالات، معرفت و محبت ہے:
ارشاد: پختہ قبر بنانا ہی بقا کا ذریعہ نہیں، بلکہ اصل باقی رکھنے والی چیز اہل اللہ کی ولایت اور ان کے کمالات، معرفت ومحبت ہیں، پس وہ آپ کی بقا کے محتاج نہیں۔ نیز نشانی باقی رکھنے کی یہ بھی تو صورت ہے کہ قبر کچی رکھو اور ہر سال اس کی لیپ پوت کرتے رہو۔
شرائط سماع:
ارشاد: حضرت سلطان جی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سماع کی چار شرطیں ہیں۔ (1) سامع از اہلِ ہویٰ و شہوت نباشد۔ (2) مستمع مرد تمام باشد، زن و کودک نباشد۔ (3) مسموع ہزل و فحش نباشد۔ (4) آلۂ سماع مثل چنگ و رباب درمیان نباشد۔
پختہ قبر بنانے سے شریعت کی ممانعت:
ارشاد: پکی قبر بنانے سے جو شریعت نے منع کیا ہے حقیقت میں ہم پر بڑا احسان کیا ہے، کیونکہ ابتدا سے اگر اس وقت تک سب قبریں پختہ ہی پختہ ہوتیں تو آدمیوں کو رہنے کے لیے جگہ بھی نہ ملتی نہ زراعت کے لیے زمین ملتی، کیونکہ مردے اس قدر گذر چکے ہیں کہ کوئی حصہ زمین کا مردوں سے خالی نہیں۔
طاعات کی جزا نقد بھی ہے ادھار بھی:
ارشاد: اللہ تعالیٰ نے طاعات کی ساری جزاء ادھار پر نہیں رکھی، آخرت میں تو ان کی جزاء ملے گی ہی، دنیا میں بھی جزاء ملتی ہے۔ وہ یہی راحت و اطمینان اور عزت و عظمت ہے۔
حرام کو حرام سمجھ کر کرنا معصیت ہے:
ارشاد: حرام کا حلال سمجھنا کفر ہے قطعی یا ظنی، اگر حرام سمجھ کر کریں گے تو کفر کا خطرہ نہ رہے گا، صرف معصیت رہ جاوے گی، یہ کفر سے اہون ہے۔ دوسرے جب آپ اس کو حرام سمجھتے رہیں گے تو کیا عجب ہے کہ کسی وقت توبہ کی توفیق ہو جائے۔
قلندر اور ملامتی کی تعریف:
ارشاد: قلندر اس کو کہتے ہیں جو ظاہری عبادت میں تقلیل کرے یعنی جس پر ذکر و فکر نوافل و مستحبات سے زیادہ غالب ہوں۔ ملامتی وہ ہے جو اعمال میں تکثیر تو کرتا ہے مگر ان کے اخفاء کا اہتمام کرتا ہے، جس سے عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ دوسروں سے زیادہ کچھ بھی نہیں کرتے۔
عاشق کے فانی ہونے کے معنیٰ:
ارشاد: عاشق ہمیشہ فانی ہوتا ہے کہ اپنی عزت و آبرو کو محبوب پر نثار کر دیتا ہے۔
؎ عاشقِ بد نام کو پروائے ننگ و نام کیا
اور جو خود ناکام ہو اس کو کسی سے کام کیا
امامت کا حُکم:
ارشاد: علماء کو لازم ہے کہ ان کی امامت سے اگر ایک شخص کو بھی کراہت ہو تو فوراً اس سے علیحدہ ہو جائیں، پھر ''إِنْ شَاءَ اللہُ'' بہت جلد وہ الگ کرنے والے ہی ان کے آگے ہاتھ جوڑیں گے۔
مسلم عاصی کے لیے بھی موت تحفہ ہے:
ارشاد: گنہگار مسلمان کے لیے بھی موت تحفہ ہے، گو کچھ دنوں کے لیے اس کو عذاب بھی بھگتنا پڑے، کیونکہ موت ہی کے ذریعہ سے اس کو کسی وقت خدا کا قرب حاصل ہوگا۔ دوسرے یہ کہ مسلمانوں کے لیے دوزخ جیل خانہ اور حوالات نہیں، بلکہ مثل حمام کے مطہر ہے، تیسرے یہ کہ مسلمانوں کو دوزخ کے عذاب کا بہت زیادہ احساس بھی نہ ہو گا کیونکہ حدیث مسلم میں ہے: "أَمَاتَھُمْ إِمَاتَةً" (الصحیح لمسلم، کتاب الإیمان، باب: إثبات الشفاعۃ و إخراج الموحّدین من النار، رقم الحدیث: 306) کہ اللہ تعالیٰ جہنم میں مسلمانوں کو ایک قسم کی موت دیں گے جو نیند کے مشابہ ہو گی۔ چوتھے یہ کہ اگر عذاب بھی ہو تو قاعدہ یہ ہے کہ جس نعمت کے زوال کی ہر دم توقع ہو وہ اس نعمت سے افضل ہے جس کے زوال کا ہر وقت اندیشہ ہو۔ پس مسلمان کے لیے موت ہر حال میں اچھی ہے، کیونکہ دنیا کے زوال کا خطرہ لگا ہوا ہے اور آخرت کی تکلیف کے منقطع ہونے کی ہر دم توقع ہے، پس موت ناگوار چیز نہیں۔
ہم کو اپنے نبی ﷺ کے وسیلہ کی بہت کچھ امید ہے:
ارشاد: ہماری بڑی خوش قسمتی ہے کہ حق تعالیٰ نے ہم کو ایسا محبوب نبی عطا فرمایا کہ جس کے راضی کرنے کا حق تعالیٰ کو اس قدر اہتمام و رعایت ہے کہ پچاس نمازوں کی بجائے پانچ نماز امت کے لیے باقی رکھیں۔ پھر آپ اس وقت تک تھوڑا ہی راضی ہوں گے جب تک سب مسلمان جنت میں نہ پہنچ جائیں۔ اس لیے ہم کو بہت کچھ امیدیں ہیں۔
ہماری حسنات حقیقت میں سیئات ہیں:
ارشاد: ہماری حسنات حقیقت میں سیئات ہیں، مگر حق تعالیٰ کا کرم ہے کہ ان کو طاعات میں شمار کر لیتے ہیں۔
فنا و بقا کی تعریف:
ارشاد: یہاں تم جو اپنی جان پیش کرتے ہو، سڑی ہوئی ہے، کیونکہ صفات رذیلہ سے متصف ہے اور حق تعالیٰ اس کے عوض میں تم کو ایسی جان عطا فرماتے ہیں جو لطیف و شفیف ہے، کیونکہ اب وہ متصف بصفات الہٰیہ ہو جاتی ہے۔ اسی کا نام فنا و بقا ہے۔ اس کی بالکل ایسی مثال ہے جیسے کیمیاوی طریقہ سے تانبے کو سونا بنا دیا جاوے۔
حقیقت میں واصل اللہ تعالیٰ ہیں:
ارشاد: حقیقت میں وصول انسان کے چلنے سے نہیں ہوتا، بلکہ حق تعالیٰ سالک کی طلبِ صادق کو دیکھ کر خود آ کر اس سے مل جاتے ہیں۔ تو دراصل واصل وہ ہیں، یہ واصل نہیں ہے، مگر یہ بھی ان کی رحمت ہے کہ وہ طالب کو واصل کا لقب دیتے ہیں۔
شارع کا مقصد سمجھ لینا تفقہ ہے:
ارشاد: فضیلت اس سے حاصل ہوتی ہے کہ شارع کا مقصد سمجھ لیا جاوے، اسی کا نام فقہ ہے اور یہی وہ چیز ہے جس میں اکابر سلف ممتاز تھے۔ گو وسعتِ نظر میں متاخرین بڑھے ہوئے ہیں، مگر عمقِ نظر میں متقدمین بدرجہا افضل ہیں۔ امام ابوحنیفہ اور امام شافعی وغیرہ اسی عمقِ فہم کی وجہ سے امام ہیں۔
حضور ﷺ کے فضائل کا بیان:
ارشاد: حضور ﷺ کا مذاق یہ تھا کہ آپ ﷺ کو اتباع احکام کا سب سے بڑھ کر اہتمام تھا۔ حضور ﷺ نے اپنے فضائل کو زیادہ ترغیبِ اتباع کی نیت سے بیان فرمایا ہے۔
عقائد جس طرح مقصود بالذات ہیں اسی طرح مقصود للاعمال ہیں:
ارشاد: عقیدۂ تقدیر کو اصلاحِ اعمال میں بڑا دخل ہے کیونکہ اس سے حزن و بطر رفع رہو جاتا ہے، اور حزن جڑ ہے تعطلِ ظاہر کی اور تکبر و بطر اصل ہے تعطلِ باطن کی۔ یعنی غمگین و پریشان آدمی ظاہر میں تمام دین و دنیا کے کاموں سے معطل ہوتا جاتا ہے اور متکبر آدمی کا دل خدا کے تعلق سے معطل ہو جاتا ہے، جب تک تکبر نہ نکلے خدا کے ساتھ دل کو لگاؤ نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح عقیدۂ توحید سے مخلوق کا خوف و طمع زائل ہو جاتا ہے، اسی طرح رسول اللہ ﷺ کی فضیلت کے اعتقاد کو آپ کی اتباع میں دخل ہے۔ پس عقائد جس طرح مقصود بالذات ہیں اسی طرح مقصود للاعمال بھی ہیں۔
تاخیرِ حسنات الیٰ رمضان پر بحث و تحقیق :
ارشاد: اللہ و رسول کو تاخیرِ طاعات مطلوب نہیں بلکہ تسارع و تسابق الی الخیر مطلوب ہے، چنانچہ جا بجا ﴿فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَاتِ…﴾ (البقرۃ: 148)۔ ﴿یُسَارِعُوْنَ فِي الْخَیْرَاتِ...﴾ (آل عمران: 114) نص میں وارد ہے۔ اسی طرح حدیث تضاعفِ ثواب فی رمضان کا مطلب تعجیلِ اعمال فی رمضان ہے، نہ کہ تاخیر اعمال الیٰ رمضان۔ یعنی رمضان کے اندر طاعات کے اندر جلدی کی جاوے۔ یعنی جن طاعات کی ہمت ہو سکے اور جس عمل صالح کی توفیق ہو سکے اس کو جلدی رمضان ہی میں کر دو۔ رمضان کے بعد کے لیے مؤخر نہ کرو۔ کیونکہ رمضان میں ثواب زیادہ ہے پس اگر 28 شعبان کو زکوٰۃ کا سال پورا ہوتا ہو تو 28 شعبان کو زکوٰة ادا نہ کرنا بلکہ رمضان کے لیے اس کو ملتوی کرنا عدمِ تفقہ اور مقصد شارع نہ سمجھنے کی دلیل ہے۔ ارے تم کو کیا خبر ہے کہ مساکین پر کیا گذر رہی ہے، تم کو یکم رمضان کا انتظار ہے اور اس غریب کی روح کو ایک ایک گھڑی کا انتظار ہے۔ علاوہ اس کے انفاق فی رمضان میں کمیۃً ثواب بڑھتا ہے اور تعجیل و سبقت فی الخیر میں کیفیۃً ثواب زیادہ ہوتا ہے۔ اور کیفیت میں کمیت سے زیادہ مطلوبیت ہے۔ چنانچہ اس کی نظیر علماء کے کلام میں بھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ حدیث میں جو ہے کہ محلّہ کی مسجد میں نماز پڑھنے سے 25 نمازوں کا ثواب ملتا ہے اور جامع مسجد میں 500 نمازوں کا مگر محلّہ والوں کو یہ جائز نہیں کہ محلّہ کی مسجد کو چھوڑ کر جامع مسجد نماز پڑھنے جایا کریں، اگر ایسا کرو گے تو گناہ ہوگا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ جامع مسجد کی نماز کا ثواب اس شخص کے حق میں کمیۃً زیادہ ہے، مگر محلّہ کی مسجد کا ثواب کیفیۃً زیادہ ہے۔ کیونکہ اس کے ذمہ اسی مسجد کی آبادی واجب ہے۔ تو یہ شخص مسجد میں نماز بھی پڑھتا ہے اور واجب عبادت کو بھی ادا کرتا ہے اور جامع مسجد میں نماز پڑھنے سے واجب عبادت ادا نہ ہو گا، کیونکہ اس کے ذمہ اس مسجد کی عبادت و آبادی واجب نہیں بلکہ یہ واجب جامع مسجد کے محلہ والوں کے ذمہ ہے۔
بحث تاخیرِ حسنات الیٰ رمضان کا تتمہ:
ارشاد: اوپر جو بحث تاخیرِ حسنات الیٰ رمضان کی ہے اس کے تتمہ میں یہ بھی سمجھ لیجئے کہ کیا عجب ہے کہ اس وقت ضرورت کے وقت جو مسکین کو سہارا مل گیا ہے اس کی دعا عرش سے کتنی اوپر گئی ہوگی اور اس دعا سے تم کو کیا کچھ ملا ہوگا۔ اور مان لو کہ اس وقت رمضان سے کم ہی ثواب ملا تو تم کو کیا خبر ہے کہ رمضان تک تم زندہ رہو یا نہ رہو، اگر کہو کہ ہم وصیت کر جائیں گے کہ رمضان میں اتنی رقم دے دی جاوے تو وصیت کا ثواب اپنے ہاتھ سے دینے کے برابر نہیں، دوسرے کا کیا بھروسہ کہ ورثاء ادا بھی کریں گے۔
مجبور کے لیے ادائیگی حقوق کا طریقہ:
ارشاد: اگر کوئی شخص عمر بھر اس فکر میں لگا رہے کہ میرے ذمہ جو حقوق دوسروں کے ہیں کسی طرح ادا ہو جائیں، مگر افلاس یا اور کسی عذر کی وجہ سے مجبور رہا تو اس صورت میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ہم خود حقوق ادا کر دیں گے اور اس شخص پر اصلاً مؤاخذہ نہ ہوگا۔
بچہ کے ہاتھ سے خرچ کراوے مگر خرچ کو اباحۃً دے:
ارشاد: باپ کو مناسب ہے کہ بچہ کے ہاتھ سے بھی کبھی کبھی خرچ کرایا کرے کبھی اس کے ہاتھ سے فقیر کو دلوا دیا۔ کبھی مدرسہ میں دلوا دیا، تاکہ اس کا حوصلہ بڑھے اور مال کی حرص نہ پیدا ہو دوسرے یہ کہ جب بچوں کے ہاتھ سے کسی دوسرے کو رقم دلواؤ، خواہ فقیر کو یا مدرسہ کو، تو اس وقت یہ رقم بچہ کو ہبہ نہ کرو۔ بلکہ اباحت کے طور پر دو ورنہ وہ اس کی مِلک ہو جائے گی، پھر ہبۂ صبی حرام ہوگا۔ اور اگر غلطی سے ایسا ہو جاوے تو فقیر سے یا مدرسہ والوں سے یہ رقم واپس نہ لو، بلکہ بچہ کو اس کے عوض رقم دے دو۔ جس میں نیتِ عوض کی قید ضروری ہے، ورنہ یہ مستقل ہبہ ہوگا، پہلے کا عوض نہ ہوگا۔
عورتوں سے چندہ لینے میں احتیاط چاہیے:
ارشاد: عورتوں سے چندہ لینے والوں کو بڑی احتیاط چاہیے کیونکہ یہ اکثر بدوں شوہر سے پوچھے شوہر ہی کے مال میں سے سخاوت کرتی ہیں۔
انسان میں صفتِ اختیار کا ہونا دلیل کا محتاج نہیں:
ارشاد: انسان میں صفتِ اختیار کا ہونا دلیل کا محتاج نہیں، بلکہ یہ وجدانی امر ہے، ہر شخص وجدان سے اس کو محسوس کرتا ہے کہ ہاں میرے اندر اختیار ہے۔ دیکھئے! مرتعش (جس کے ہاتھ میں رعشہ ہو) اور کاتب کی حرکتِ ید میں فرقِ بیّن ہے، پہلا شخص حرکت میں مجبور ہے، دوسرا مجبور نہیں اور یہ ایسا فرق ہے جس کو حیوانات بھی جانتے ہیں۔ اگر آپ کتے کو لاٹھی مار دیں تو وہ لاٹھی پر حملہ نہ کرے گا۔ بلکہ آپ پر حملہ کرے گا، وہ بھی جانتا ہے کہ لاٹھی کی خطا نہیں، وہ تو مجبور ہے، خطا آدمی کی ہے جو اختیار سے ہم کو ستا رہا ہے۔ پس انسان کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے تو حقیقت پر نظر رکھے کہ اپنی جان کو اپنی جان نہ سمجھے، نہ اپنے کمالات کو اپنے کمالات سمجھے، بلکہ سب کو عطا ہائے حق سمجھتا رہے اور بندوں سے معاملہ کرتے ہوئے شریعت پر نظر رکھے۔
سالکین کی طلبِ سہولت امانتِ اختیار کے خلاف ہے:
ارشاد: آج کل بعض سالکین کو سہولت کی بہت تلاش ہے جس کی وجہ صرف راحت طلبی ہے، صاحبو! راحت کی جگہ تو عالمِ آخرت ہے اور وہاں بھی جو راحت حاصل ہوگی وہ بھی دنیا کی جہد کا ثمرہ ہے، ہم کو شرم نہیں آتی کہ دنیا مردار کے لیے تو اتنی عمر برباد کریں اور مشقت برداشت کریں، اور طلبِ خدا کے لیے یہ چاہیں کہ تھوڑی ہی مدّت میں کامیابی ہو جاوے۔ علاوہ اس کے جس امانت سے تمام عالَم گھبرا گیا وہ تکلیف ہی ہے، جس سے مراد عمل مع الاختیار ہے۔ حاصل غرضِ امانت کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق سے یہ فرما دیا تھا کہ ہمارے کچھ احکام تشریعیہ ہیں، ان کا مکلّف بالاختیار کون ہوتا ہے؟ یعنی جو شخص ان کا تحمل کرے گا اس کو صفت اختیار مع عقل کے عطا کی جاوے گی۔ یعنی اس کی قوت ارادیہ ان احکام پر عمل کرنے کے لیے مجبور نہ ہو گی۔ بلکہ عمل و عدم عمل دونوں پر قدرت دی جائے گی۔ پھر جو اپنے اختیار سے احکام کو بجا لاوے گا اس کو مقرب بنا لیا جائے گا اور جو اپنے اختیار سے احکام میں کوتاہی کرے گا اس کو مطرود کردیا جائے گا۔ تمام مخلوق ڈر گئی، انسان اس کے لیے آمادہ ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو مکلّف بنا دیا، یعنی اس کو صفت اختیار مع عقل کے عطا کر دی گئی۔ باقی مخلوقات میں یہ صفتِ اختیار و عقل نہیں ہے، وہ جن احکامِ تکوینیہ یا عبادت کو بجا لاتے ہیں وہ ان کے لیے طبعی ہیں، یعنی ان کی قوتِ ارادیہ اس کے خلاف کی طرف مائل ہی نہیں ہوتی، بخلاف انسان کے کہ جن احکام کا یہ مکلف ہے وہ اس کے لیے طبعی نہیں، بلکہ اس کی قوت ارادیہ عمل و عدمِ عمل دونوں کی طرف مائل ہوتی ہے۔ اب اس کی تکلیف کے معنی ہی یہ ہیں کہ یہ اپنے اختیار سے ایک جانب کو ترجیح دے، یعنی جانب عمل کو مامورات میں ترجیح دے اور جانبِ عدمِ عمل کو منہیات میں۔ اسی کا نام تحصیلِ عمل ہے۔ پس اس سے بھی معلوم ہوا کہ جب انسان اس تکلیف کا مکلّف بنا دیا گیا تو سہولت کی طلب کہ بس ہم کو اپنے ارادہ و اختیار سے کچھ کرنا ہی نہ پڑے ظلم ہے۔ اور جو شخص امانت الٰہیہ اختیار کرے اور ایسی بڑی امانت کو ضائع کرے جس میں انسان تمام مخلوق میں ممتاز ہے، اس سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا؟
لذائذِ دنیا کی حکمت:
ارشاد: لذائذِ دنیا کی حکمت یہ ہے کہ یہ نمونہ ہیں لذائذ آخرت کے۔ پس اگر کوئی صوفی کھانا کھاتے ہوئے لذیذ شوربے میں پانی کا پیالہ بھر کر ڈال دے تاکہ نفس کو لذت نہ آئے تو وہ طفلِ طریقت ہے، یہ اس تجلی الٰہی کو برباد کرتا ہے۔ (وہ تجلی الٰہی یہی ہے کہ وہ مذکِّر ہے نعمائے آخرت کی) جو لذیذ طعام کے ساتھ متعلق ہے اور اس حکمت کو برباد کرتا ہے جو لذائذ دنیا میں رکھی گئی ہے۔
دعوتِ مشتبہ کی قبولیت کی صورت:
ارشاد: بھرے مجمع میں داعی کو ذلیل کرنا اس طرح کہ پوچھے دودھ کہاں سے آیا؟ گوشت کس طرح لیا گیا؟ یہ تقویٰ کا ہیضہ ہے۔ اگر کسی شخص پر اطمینان نہ ہو تو یا تو اس کی دعوت ہی منظور نہ کرے، لطیف پیرایہ سے عذر کر دے، یہ نہ کہے کہ آپ کی آمدنی حرام ہے، اس لیے دعوت قبول نہیں کر سکتا، کیونکہ اس عنوان سے اس کی دل شکنی ہو گی۔ اگر امر بالمعروف کا خیال ہو تو امر بالمعروف میں بھی یہ شرط ہے کہ ایسا وقت اور موقع تجویز کرے جس میں مخاطب کے قبول کی امید ہو۔ اگر کوئی شبہ داعی کی آمدنی کی حرمت کا ہو تو بہترین صورت یہ ہے کہ مجمع کے سامنے تو بلاشرط قبول کرلے پھر تنہائی میں لے جا کر ان سے کہہ دے کہ ذرا کھانے میں اس کی رعایت رکھی جاوے کہ تمام سامان تنخواہ کی رقم سے کیا جاوے۔
اہل اللہ نے حق تعالیٰ کی ذرا ذرا سی تجلیات کی بے حد قدر کی ہے اور ان کی حکمتوں کے ابطال کو ممنوع فرمایا ہے:
ارشاد: ایک بار حضرت غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ وعظ فرما رہے تھے کہ درمیان میں دفعۃً ساکت ہو گئے، کچھ دیر تک ساکت رہ کر پھر بیان شروع فرمایا اور کہا کہ اس وقت میرے سکوت کی یہ وجہ ہوئی کہ ایک بزرگ ابھی شام سے بغداد ایک قدم میں بطور کرامت کے آئے تھے، میں نے ان کو متنبہ کیا ہے کہ اس تصرف میں حکمتِ عطائے قدم کا ابطال ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قدم اس لیے دیے ہیں تاکہ ان سے مشی کا کام لیا جاوے، جب بطور کرامت کے راستہ طے کیا جاوے گا تو اس میں یہ حکمت باطل ہو گی وہ بزرگ اس سے توبہ کر کے واپس گئے۔ (مطلب یہ کہ از خود ایسا تصرف نہ کرنا چاہیے اور اگر بلا قصد کے کبھی حق تعالیٰ طویل راستہ کو قصیر کر دیں تو وہ کرامت غیر اختیاریہ ہے جو نعمت ہے) اس سے معلوم ہوا کہ جب اہل اللہ نے حق تعالیٰ کی ذرا ذرا سی تجلیات کی اس قدر عظمت کی ہے اور ان کی حکمتوں کے ابطال کو ممنوع فرمایا ہے تو بتلائیے اتنی بڑی امانت کا ابطال جس پر تکلیف کا مدار ہے (سہولت طلبی ہے کہ بس اپنے ارادہ و اختیار سے کچھ کرنا ہی پڑے) کیونکر ممنوع ہو گا؟
تم تحصیلِ عمل کے مکلّف ہو تم کو طلبِ تسہیل کا حق نہیں:
ارشاد: تم تحصیلِ عمل کے مکلّف ہو کہ اپنے اختیار کو صرف کر کے عمل کرو، تم کو طلب تسہیل کا کوئی حق نہیں۔ ہاں صرف اتنا حق ہے کہ عمل تمہارے اختیار و قدرت سے خارج نہ ہو، اس کا شریعت میں پورا لحاظ ہے کہ امورِ غیر اختیاریہ کا مکلّف نہیں کیا۔ اگر کسی جگہ شریعت خود تسہیل کا لحاظ کرے یہ اس کی عنایت ہے، مگر تم کو اس کے مطالبہ کا حق نہیں۔ مثلاً انفاق میں حق تعالیٰ نے تسہیل کا طریقہ بیان فرمایا ہے: ﴿تَثْبِیْتًا مِّنٌ أَنْفُسِھِمْ…﴾ (البقرۃ: 265) یعنی تم انفاق اس نیت سے کرو کہ اس سے نفس میں قوت پیدا ہوگی اور انفاق سہل ہو جائے گا۔ بار بار اسی نیت سے انفاق کرو تو یہ مادہ راسخ ہو جائے گا، کیونکہ تکرارِ عمل سے ہر عملِ صعب سہل ہو جاتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے: "یَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ! مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمُ الْبَاءَةَ فَلْیَتَزَوَّجْ فَإِنَّہٗ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَ أَحْصَنُ لِلْفَرْجِ" (الصحيح لمسلم، کتاب النکاح، باب: استحباب النكاح لمن تاقت نفسه إليه، و وجد مؤنه، واشتغال من عجز عن المؤن بالصوم، رقم الحديث: 1400) اصل حکم تحصینِ فرج و غضِ بصر کا ہے، مگر نکاح کا امر محض تسہیلِ مطلوب کے لیے فرمایا۔
طاعاتِ رمضان کو تسہیلِ اعمال میں بڑا دخل ہے:
ارشاد: طاعاتِ رمضان کو بھی مثل تکرارِ انفاق کے تسہیلِ اعمال میں بڑا دخل ہے۔ یعنی رمضان میں یہ خاصیت ہے کہ اس ماہ میں جن طاعات پر مداومت کر لے، سال بھر تک ان پر مداومت سہل رہتی ہے۔ اور جن گناہوں سے بچنے کا اہتمام کر لے سال بھر ان سے بچنا آسان ہو جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ رمضان کی ایسی برکت ہے کہ اس میں گناہوں کو اہتمام سے چھوڑ کر بعد میں اس برکت سے کام لینا چاہو تو گناہوں کا چھوڑنا آسان ہو گا۔
صوم ایک ایسا عمل ہے جس میں تضاعفِ اجر کی کوئی حد نہیں:
ارشاد: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ: "کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ یُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِھَا إِلٰى سَبْعِمِائَةِ ضِعْفٍ قَالَ اللہُ تَعَالیٰ: إِلَّا الصَّوْمَ فَإِنَّہٗ لِيْ وَ أَنَا أَجْزِيْ بِہٖ یَدَعُ شَھْوَتَہٗ وَ طَعَامَہٗ مِنْ أَجْلِيْ" (الصحيح مسلم، کتاب الصیام، باب: فضل الصیام، رقم الحديث: 1151) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایک عمل ایسا بھی ہے جس کا اجر ہمیشہ بڑھتا رہے گا اس کے تضاعفِ اجر کی کوئی حد نہیں۔ اور وہ صوم ہے۔
قرآن میں منشائے ریب کچھ نہیں:
ارشاد: قرآن میں منشائے ریب کچھ نہیں، کفار جو شبہ کرتے تھے اس کا منشا خود ان کے اندر تھا۔ یعنی حسد و عناد و جہل وغیرہ۔ جیسے یرقان والا ہر چیز کو زرد دیکھتا ہے، لیکن منشاء صفرت کا رائی (یعنی دیکھنے والے) میں ہے، نہ کہ اشیاء میں۔
امورِ ظنیہ کو قطعی سمجھ لینا محتمل سوءِ خاتمہ کا ہے:
ارشاد: امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ سوءِ خاتمہ کا سبب ایک یہ بھی ہوتا ہے کہ بعض لوگ علومِ ظنیہ کے ایسے معتقد ہوتے ہیں کہ ان پر کامل جزم کر لیتے ہیں۔ پھر مرتے وقت بعض ایسے امور کا غلط ہونا مکشوف ہو جاتا ہے، اس وقت شیطان مقائسہ سے دوسرے عقائد پر شبہ ڈالتا ہے کہ دیکھو! اس کو قطعی سمجھتے تھے اور غلط نکلا، شاید تمہارے اور عقائد بھی ایسے ہی ہوں جیسے یہ علوم تھے۔ بس اب اس شخص کو توحید و رسالت وغیرہ سب میں شبہ ہو جاتا ہے، پھر یہ بے ایمان ہو جاتا ہے۔ اس لیے علومِ ظنیہ کا جزم ہرگز نہ کرنا چاہیے۔ اس مرض میں صوفیہ و علماء بہت مبتلا ہیں۔ علماء اپنے بہت سے علمی نکات کے جو محض اقناعی ہوتے ہیں، ایسے معتقد ہوتے ہیں کہ گویا قطعی سمجھے ہوئے ہیں۔ اور صوفیہ اپنے بہت سے کشفیات و الہامات پر جزم کیے ہوئے ہیں، خصوصاً ان کے مریدین تو شیخ کے خواب و کشف کو وحی سمجھتے ہیں۔
حق تعالیٰ نے کلام اللہ میں ہمارے جذبات کا بہت لحاظ فرمایا ہے:
ارشاد: حق تعالیٰ نے کلام اللہ میں ہمارے جذبات کا بہت لحاظ فرمایا ہے۔ چنانچہ ارض کو سارے قرآن میں مفرد لائے ہیں، حالانکہ نص سے معلوم ہوتا ہے کہ ارض بھی مثل سماوات کے متعدد ہیں۔ اس کا یہی جواب دیا گیا ہے کہ حق تعالیٰ نے سماوات و ارض کا ذکر اثبات توحید کے لیے مقام استدلال میں فرمایا ہے اور اہل عرب کو سماوات کا تعدد تو معلوم تھا، زمین کا تعدد معلوم نہ تھا۔ اگر ارض کو بصیغۂ جمع لایا جاتا تو اس میں شور و شغف شروع ہو جاتا اور مقدمات ہی میں خلط مبحث ہو جاتا اور ہدایت میں تاخیر ہوتی۔ ''سُبْحَانَ اللہِ''! کتنی بڑی عنایت ہے کہ زائد باتوں میں ہدایت کو مؤخر کرنا نہیں چاہیے۔
﴿مَا دَامَتِ السَّمٰوَاتُ وَ الْأَرْضُ﴾ محض دوام کو مفید ہے:
ارشاد:﴿مَادَامَتِ السَّمٰوَاتُ وَ الْأَرْضُ…﴾ (ھود: 107) عام بول چال اور عام محاورہ کے اعتبار سے دوام ہی کو مفید ہے، گو اہل معقول کے نزدیک مفید نہ ہو۔
قرائن سے سزا دینا جائز نہیں:
ارشاد: قرائن سے سزا دینا صحیح نہیں، ہاں متاخرین نے تعزیرِ مہتمم کو جائز کہا ہے لیکن اس میں بھی اول جلس کا حکم ہے، جرمانہ اور ضرب نہیں ہے۔ اس کے بعد جب ثبوت ہو جاوے تو سزا دینے کا حکم ہے۔
وحدة الوجود تو ایمان ہے لیکن الحادِ وجود کفر ہے :
ارشاد: محققین ممکنات سے مطلقاً نفی وجود نہیں کرتے، بلکہ وجود حقیقی کامل کے سامنے ان کے وجود کو کالعدم اور لا شئ سمجھتے ہیں۔ اسی لیے ان کا قول ہے کہ وحدة الوجود تو ایمان ہے اور الحادِ وجود کفر ہے۔
افعالِ اختیاریہ میں حدوث کے وقت ارادہ ضروری ہے:
ارشاد: افعال اختیاریہ میں حدوث کے وقت ارادہ ضروری ہے، اور اسی پر فعل کا اختیاری ہونا موقوف ہے۔ باقی بقا میں ارادہ کی ضرورت نہیں۔
نماز کو حضور ﷺ اور روزہ کو حق تعالیٰ سے خصوصیت کے معنی:
ارشاد: رسول اللہ ﷺ سر تا پا جامعِ شانِ عبدیت ہیں۔ یہ معنیٰ ہیں نماز کو حضور سے خصوصیت ہونے کے۔ اور روزہ میں تشبہ بالحق ہے، کیونکہ حق تعالیٰ اکل و شرب سے منزہ ہیں۔ پس روزہ میں ایک شانِ صمدیت و استغناء ہے۔ یہ معنیٰ ہیں اس کو اللہ تعالیٰ سے خصوصیت ہونے کے۔
نماز میں شان عبدیت کی وجہ:
ارشاد: واقعی نماز میں شانِ عبدیت اس سے زیادہ کیا ہو گی کہ اشرف الاعضاء یعنی وجہ (چہرے) کو اخس الاشیاء یعنی زمین پر رکھا جاتا ہے۔ چہرہ کا اشرف الاعضاء ہونا تو ظاہر ہے کہ اعضاءِ رئیسہ دماغ و سمع و بصر سب اسی میں ہیں اسی لیے حدیث میں منہ پر مارنے کی ممانعت آئی ہے۔ اور زمین کا اخس و ارذل ہونا اس سے ظاہر ہے کہ سب اس پر ہگتے، موتتے اور جو چاہتے ہیں تصرف کرتے ہیں۔ اس پر چہرہ کو رکھنا غایتِ عبودیت ہے۔
عطائی اور طبیب میں فرق:
ارشاد: عطائی اور طبیب میں فرق یہ ہے کہ طبیب سے آخرت میں مؤاخذہ نہ ہو گا۔ کیونکہ وہ فن سے واقف ہونے کے بعد علاج کر رہا ہے، اور عطائی سے مؤاخذہ ہو گا کیونکہ وہ ناواقف ہو کر پیش قدمی کر رہا ہے۔ رہی شفا و موت یہ خدا کے قبضہ میں ہے۔ نہ عطائی کے، نہ طبیب کے قبضہ میں ہے۔ اس لیے اس پر مؤاخذہ کا مدار نہیں۔
مسائلِ منصوصہ و اجتہادیہ کا فرق:
ارشاد: جو مسائل منصوص صاف صاف شریعت کے ہیں ان کی تبلیغ صرف علماء سے خاص نہیں، ہر شخص با آواز بلند کہہ سکتا ہے۔ امور اجتہادیہ سے خطاب کرنا البتہ علماء کے ساتھ خاص ہے کہ عوام اس میں غلطی کریں گے۔
کمالِ دین کا موقوف علیہ:
ارشاد: دین کا کمال دو باتوں پر موقوف ہے: ایک اپنی تکمیل، پھر دوسروں کی تکمیل اور دوسروں کی تکمیل تواصی اور تبلیغ سے ہوتی ہے۔
تمام اعمال کا مغز نفس کی تقیید ہے:
ارشاد: تمام اعمال کا مغز یہ ہے کہ نفس کو جانوروں کی طرح آزاد نہ چھوڑا جاوے، بلکہ اس کو پابند کیا جاوے۔ اسی کو صبر کہتے ہیں۔ اسی کی تاکید ﴿وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴾ (العصر: 3) میں ہے۔
سالک پر قبض و بسط کا تعاقب ضروری ہے:
ارشاد: جس طرح تعاقبِ لیل و نہار حکمت پر مبنی ہے، اسی طرح تعاقبِ قبض و بسط میں بھی حکمتیں ہیں۔ جیسے لیل و نہار کا تعاقب ناگزیر ہے کہ بدوں اس کے عالَم کا انتظام درہم برہم ہو جانے کا اندیشہ ہے، اسی طرح سالک پر قبض و بسط کا تعاقب ضروری ہے۔
مؤمن کے لیے ایمان کی دولت ہر وقت باقی ہے اور کافر کا کوئی وقت معصیت سے خالی نہیں:
ارشاد: مسلمان کے پاس ایمان کی دولت ایسی ہے کہ ہر وقت باقی رہنے والی ہے۔ ایک دفعہ ایمان کو اختیار کر لینے سے جب تک معاذ اللہ اس کی ضد کا اعتقاد نہ ہو، ایمان قائم رہے گا، اور یہ ہر وقت میں مؤمن ہو گا۔ سوتے ہوئے بھی چلتے پھرتے بھی، کھاتے پیتے ہوئے بھی۔ غرض کوئی وقت اور کوئی ساعت مسلمان کی طاعت سے خالی نہیں گذرتی۔ اگر اس سے اور بھی کوئی عمل صادر نہ ہو تب بھی ایمان تو ایسی طاعت ہے جو ہر وقت اس سے صادر ہوتی رہتی ہے۔ اسی سے کافر کا خسارۂ عظیمہ میں ہونا بھی معلوم ہو گیا کہ اس کا کوئی وقت معصیت سے خالی نہیں گذرتا۔
مؤمن ہر وقت نفع میں ہے کافر ہر وقت خسارہ میں ہے:
ارشاد: تمام دنیا جانتی ہے کہ نفع اور خسارہ زمانہ ہی میں ہوتا ہے، پس اس شخص سے بڑھ کر کوئی خسارہ میں نہیں جس کا کوئی وقت، کوئی سیکنڈ خسارہ سے خالی نہیں (اور یہ کافر ہے)۔ اور اس شخص سے بڑھ کر کوئی نفع میں نہیں جس کا کوئی وقت کوئی سیکنڈ حالتِ نفع سے خالی نہیں (اور وہ مؤمن ہے) اور ہر چند کہ مسلمان کا نفع صرف ایمان ہی سے ہر وقت بڑھ رہا ہے، مگر پورا نفع جب بڑھے گا جبکہ ایمان کے ساتھ عملِ صالح بھی ہو، کیونکہ عملِ صالح سے ایمان قوی ہوتا ہے اور گناہوں سے کمزور ہوتا ہے۔ پس مؤمن فاسق کا ہر وقت نفع کا بڑھنا ایسا ہے جیسے شخص کو ہر سیکنڈ میں ایک پیسہ کا نفع بڑھتا ہو اور مؤمن صالح کا ہر وقت نفع بڑھنا ایسا ہے جیسے کسی کو ہر سیکنڈ میں ہزار روپیہ کا منافع بڑھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ پورا نفع اس کا بڑھ رہا ہے جس کو سیکنڈ میں ہزار روپیہ کا نفع ہوتا ہے۔ پس گناہوں سے بچنے کا اہتمام نہایت ضروری ہے اور عملِ صالح اختیار کرنا لازم ہے، تاکہ ہر سیکنڈ میں ہزاروں کی ترقی ہو اور ہزار روپے سے کمی ہو کر ایک پیسہ ہی نہ رہ جاوے کہ نفع عظیم کے مقابلہ میں یہ بھی خسارہ ہے، گو کافر کے خسارہ کے مقابلے میں نفس ایمان کا نفع بھی لاکھ درجہ افضل ہے۔ اور اگر معاملہ یہیں تک رہتا تب بھی کوئی یہ کہہ سکتا تھا کہ ہم کو ہزار کا نفع نہ سہی ایک پیسہ ہی کا سہی، مگر مصیبت اور خطرہ تو یہ ہے کہ گناہوں کی وجہ سے بعض دفعہ ایمان بھی سلب ہو جاتا ہے۔
اعمالِ صالحہ جوہرِ ایمان کے محافظ ہیں:
ارشاد: اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ عملِ صالح اور تواصی بالحق اور تواصی بالصبر کو جو بڑھایا اس کی وجہ یہی ہے کہ اعمالِ صالحہ جوہرِ ایمان کے محافظ ہیں اور گناہ و معاصی اسی دولت کے دشمن ہیں۔ جو شخص خود گناہ کرتا ہے یا دوسروں کو گناہ میں مبتلا دیکھ کر نصیحت نہیں کرتا، رفتہ رفتہ اس کے دل سے گناہوں کی نفرت کم ہو جاتی ہے، پھر زائل ہو جاتی ہے اور وہ گناہ کو ہلکی معمولی بات سمجھنے لگتا ہے اور یہی کفر ہے۔
اسلام کام سے پھیلا ہے جو خلوص کے ساتھ ہو:
ارشاد: اسلام نام و نمود سے نہیں پھیلا، بلکہ کام سے پھیلا ہے اور کام بھی وہ جو خلوص کے ساتھ محض اللہ واسطے تھا۔
عقائد کی تعلیم تکمیلِ اعمال کا آلہ ہے:
ارشاد: جملہ خبریہ سے محض خبر مقصود نہیں بلکہ انشاء مقصود ہے۔ یہ مت سمجھو کہ عقائد سے صرف اعتقاد ہی مطلوب ہے، بلکہ اس کی تعلیم سے یہ مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت اپنے دل میں جماؤ۔ اور دوسرا مقصود یہ ہے کہ اس عظمت کے مقتضا سے کام لو۔ خلاصہ یہ کہ عقائد کو تکمیلِ اعمال کا آلہ بنایا ہے۔
مجاہدہ کی حقیقت اور پیدائش سے مقصود:
ارشاد: مجاہدہ ہی مقصود ہے انسان کی پیدائش سے اور اعمال ہی میں مجاہدہ ہے۔ پس اعمال ہی مقصود ہیں پیدائش سے۔ اور مجاہدہ کی حقیقت ہے مخالفتِ نفس فی المعاصی۔
نورِ ایمان سارے غموم و ہموم کا سالب ہے:
ارشاد: "جَزْ یَا مُؤْمِنُ فَإِنَّ نُوْرَکَ قَدْ أَطْفَأَ نَارِیْ" (إحیاء العلوم، کتاب الخوف و الرجاء، باب: بیان معنی سوء الخاتمۃ، جلد: 4، رقم الصفحۃ: 173، دار المعرفۃ بیروت) جب نورِ ایمان میں یہ خاصیت ہے کہ دوزخ کی آگ کو بھی بجھا دیتا ہے تو دنیا کے غموم و ہموم و احزان کی تو حقیقت ہی کیا ہے؟ اگر یہ نور حاصل ہو جائے تو واللہ دنیا و آخرت کی راحتیں ہمارے ہی واسطے ہیں، پھر ہمارے پاس غم و رنج کا نام و نشان بھی نہ رہے۔ ہاں ایک غم رہے گا خدا کی لقاء و رضا کا، سو یہ غم لذیذ ہے اور ایسا لذیذ ہے کہ اگر یہ حاصل ہو جائے تو آپ ہفتِ اقلیم کی سلطنت پر لات مار دیں گے۔
نورِ ایمان کی تحصیل کا طریقہ:
ارشاد: نورِ ایمان کی تحصیل کا طریقہ ذکر و فکر ہے۔ فکر کا طریقہ یہ ہے کہ ہر کام میں سوچ لو کہ اس سے ہم پر کوئی بلا تو نازل نہ ہوگی، جس کی برداشت نہ ہو سکے اس کے بعد آپ کی زندگی بہت پُر لطف ہوگی۔ غرضیکہ خلاصہ دستور العمل کا یہ ہے کہ ہر کام اور ہر بات سوچ کر کرو۔ دوسرے اپنے اعمال کا حساب کتاب کیا کرو، اپنی نافرمانیوں کو سوچو اور ان سے توبہ کرو اور عذاب کو یاد کرو، اس سے حیا و خوف پیدا ہوگا، اور جنت کی نعمتوں کو سوچو اس سے محبت و شوق پیدا ہو گا۔
خلودِ مؤمن اس کے ایمان کا بدلہ ہے:
ارشاد: بعض نے خلود پر یہ اشکال کیا ہے کہ عمل متناہی پر ثواب غیر متناہی عقل کے خلاف ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ تم بے وقوف ہو، انعام چاہے جتنا بھی زیادہ ہو اس کو خلافِ عقل کوئی نہیں کہہ سکتا۔ دوسرے ہم کو بھی مسلم نہیں کہ عمل متناہی ہے، کیونکہ خلود ایمان کا بدلہ ہے اور ہر مؤمن کی نیت یہ ہے کہ میں ہمیشہ مؤمن رہوں گا، خواہ ہزار سال کی عمر ہو یا ایک لاکھ برس کی، کوئی مسلمان زوال ایمان کا وسوسہ بھی نہیں لاتا "وَ نِیَّةُ الْمُؤمِنِ أَبْلَغُ مِنْ عَمَلِہٖ"۔
غیرِ مقصود کے درپے ہونا تجاوز عن الحد ہے:
ارشاد: آج کل کی ترقی کا حاصل یہ ہے کہ کوئی شئ حد پر نہ رہے، بس جس چیز کے درپے ہوتے ہیں اس میں بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ مثلاً سلطنت کا شوق ہوا تو اب بعض اہل سائنس چاند میں جانے کا ارادہ کر رہے ہیں بغرض سلطنت۔ حالانکہ سلطنت سے مقصود یہ ہے کہ جہاں تک ہمارے تعلقات وابستہ ہیں وہاں تک ہم دوسروں سے مامون رہیں تاکہ اطمینان سے زندگی بسر ہو اور نظام تمدن قائم رہے۔ اور خود اہل سائنس کا اقرار ہے کہ کرۂ قمر ویران ہے، تو اس صورت میں وہاں جا کر کس پر سلطنت کریں گے؟ اور اگر یہ کہا جاوے کہ چاند میں جانے سے محض تحقیق علمی مقصود ہے تب بھی یہ تجاوز عن الحد ہے، اس لیے کہ یہ شمس و قمر سے جو مصالح متعلق ہیں وہ ان تحقیقات پر موقوف نہیں، بدوں اس تحقیق کے بھی وہ منافع پہنچ رہے ہیں۔ غرضیکہ یہ ہوسِ ترقی نہیں بلکہ ترقی کا ہیضہ ہے، کیونکہ غیر مقصود کے درپے ہونا تجاوز عن الحد ہے۔
فضول تحقیقات کے پیچھے جان دینا حماقت ہی حماقت ہے:
ارشاد: آج کل اس پر بھی فخر ہے کہ ہم نے جدید تحیققات میں جانیں تک دے دی ہیں، حالانکہ فضول باتوں میں جان دینا ایک فضول حرکت ہے۔ تمہارے جان دینے پر جب کوئی ثمرہ مرتب نہ ہوا تو اس پر فخر کرنا ایسا ہوا جیسے کوئی سنکھیا کھا کر جان دے اور فخر کرے کہ میں بڑا بہادر ہوں۔ مگر ظاہر ہے کہ یہ پوری حماقت ہے، اسی طرح ان فضول تحقیقات کے پیچھے جان دینا حماقت ہی حماقت ہے۔
دوستوں سے باتیں کرنا عبادت ہے:
ارشاد: دوستوں سے باتیں کرنا بھی عبادت ہے۔ کیونکہ تطییبِ قلبِ مؤمن بھی عبادت ہے۔
مزاح کا طریقہ و مقصودِ شرع:
ارشاد: خلافِ وقار صرف وہ مزاح ہے جس میں کوئی مصلحت و حکمت نہ ہو۔ اگر مزاح سے مقصود اپنا یا مخاطب کا انشراحِ قلب و رفعِ انقباض ہو تو وہ عین مصلحت ہے۔ مزاح سے خوف وہاں زائل ہوتا ہے جہاں مزاح کرنے والے میں شانِ رعب کم ہو اور وہ مزاح بکثرت کرے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام و خضر علیہ السّلام کے علم کا فرق:
ارشاد: حضرت موسیٰ علیہ السلام کے علم کے سامنے خضر علیہ السلام کا علم ایسا ہے جیسے وائسرائے کے علم کے سامنے کوتوال کا علم، کہ جزئیات وقائع کا علم تو کوتوال کو وائسرائے سے زیادہ ہوتا ہے، مگر اصول سلطنت اور کلیات قانون کے علم میں وائسرائے کے برابر کوئی حاکم نہیں ہوتا۔
جس شئ میں نفع موہوم اور خطرہ غالب ہو تو وہ حرام ہو گی:
ارشاد: چاند کے سفر میں نفع تو موہوم اور غیر ضروری اور خطرہ غالب تو یہ سفر حرام ہوگا۔ ﴿وَ لَا تَقْتُلُوْا أَنفُسَكُمْ إِنَّ اللهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيْمًا﴾ (النساء: 29)۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس میں یہ نفع ہے کہ ہمارا نام ہوگا۔ بھلا ان سے پوچھو کہ اس سے تم کو کیا نفع ہوا؟ تم تو ہلاک ہو کر نہ معلوم جہنم کے کس طبقہ میں رہو گے، پیچھے اگر نام بھی ہوا تو تم کو کیا فائدہ؟ جیسے بعض لوگ جائیداد وغیرہ حرام حلال سے جمع کر کے چھوڑ جاتے ہیں تاکہ اولاد کے کام آئے، لیکن اولاد کے کام آنے سے تم کو کیا فائدہ ہو گا؟ تم جہنم میں جلتے ہوگے اور اولاد گل چھرے اڑاتی ہو گی۔ بخلاف اس کے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو نیک نام کی تمنا کی ہے اس کا منشا یہ تھا کہ میرے اقوال و افعال بھی اس طرح محفوظ رہیں گے اور میرا اتباع زیادہ کیا جاوے گا تو ثواب بھی مجھے زیادہ ملے گا اور قرب و درجات میں بھی ترقی ہو گی۔
تشبہ بالکفار کا حکم:
ارشاد: تشبہ بالکفار امورِ مذہبیہ میں تو حرام ہے، اور شعارِ قومی میں مکروہ تحریمی ہے۔ باقی جو چیز کفار ہی کے پاس ہو اور مسلمانوں کے یہاں اس کا بدل نہ ہو اور وہ شئ کفار کی شعارِ قومی یا امرِ مذہبی نہ ہو تو اس کا اختیار کرنا جائز ہے جیسے بندوق، توپ، ہوائی جہاز، موٹر وغیرہ۔
شرائطِ جوازِ ایجادات:
ارشاد: اسلام ایجادات تو نہیں سکھاتا لیکن اصولِ ایجادات کی تعلیم دیتا ہے۔ مثلاً یہ کہ کسی ایجاد کو اس طرح اختیار نہ کرو جس سے دین میں خلل ہو یا جان کا خطرہ ہو، یا یہ کہ بے ضرورت ایجادات کے درپے ہو کر ضروری کاموں کو ضائع نہ کرو اور ضروری ایجادات میں بھی اس کا لحاظ رکھو کہ موہوم منفعت کے لیے خطرۂ قویہ کا تحمل نہ کرو۔
اسلام میں تعصب نہیں غیرت ہے:
ارشاد: اسلام میں تعصب نہیں، ہاں غیرت ہے کہ جو چیز مسلمانوں کے پاس بھی ہے اور کفار کے پاس بھی ہے، صرف وضع قطع کا فرق ہے۔ اس میں اسلام نے تشبہ بالکفار سے منع کیا ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے: "نَظَرَ (صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ) إِلٰى قَوْسٍ عَرَبِيَّةٍ، فَقَالَ:عَلَيْكُمْ بِهٰذِهٖ وَ أَمْثَالِهَا وَ رِمَاحِ الْقَنَا؛ فَإِنَّ بِهٰذِهٖ يُمَكِّنُ اللهُ لَكُمْ فِي الْبِلَادِ، ويُؤَيِّدُ لَكُمْ فِي النَّصْرِ" (المھذب فی اختصار السنن الکبیر للذھبی، کتاب ما یحل أو یحرم من الحیوانات، رقم الحدیث: 15268) اس میں علاوہ گناہ کے ایک بے عزتی بھی تو ہے کہ بلاوجہ اپنے کو دوسری قوموں کا محتاج ظاہر کیا جاوے۔
عورتوں کو آزادی دی جاوے تو پھر ان کی روک تھام مشکل ہے:
ارشاد: اگر عورتوں کو آزادی دے دی جاوے تو پھر ان کی آزادی کی روک تھام بہت دشوار ہے۔ (جیسا کہ اہلِ یورپ کو دشواریاں پیش آ رہی ہیں) کیونکہ اول تو آزادی کی روک تھام عقل سے ہوتی ہے، اور عورتوں میں عقل نہیں، ان کا ناقص العقل ہونا مشاہَد ہے۔ دوسرے طبعی قاعدہ یہ ہے کہ جو قوت ایک زمانہ تک بند رہی ہو جب اس کو آزادی ملتی ہے تو ایک دم سے ابل پڑتی ہے۔
شریعت کو تکثیر نہیں بلکہ کمال مطلوب ہے:
ارشاد: قاعدۂ عقلیہ ہے کہ حدود و قیود موجبِ تقلیل محدود ہیں، مگر شریعت کو تکثیر مطلوب نہیں، بلکہ کمال مطلوب ہے گو قلت ہی کے ساتھ ہو۔
طالب علموں کے لیے مفید دستور العمل:
ارشاد: طالب علم تین باتوں کا لحاظ رکھے اور ہمیشہ کے لیے ان پر دوام رکھے، ''إِنْ شَاءَ اللہُ تَعَالٰی'' اس کی استعداد اچھی ہوگی۔ ایک یہ کہ سبق سے پہلے مطالعہ کرے، دوسرے سبق کو سمجھ کر پڑھے، بدون سمجھے آگے نہ چلے، تیسرے یہ کہ سبق پڑھنے کے بعد ایک بار اس کی تقریر کر لیا کرے، خواہ تنہا یا جماعت کے ساتھ۔ تکرار کر کے۔ اس سے زیادہ محنت کی ضرورت نہیں کیونکہ زیادہ محنت کا انجام اچھا نہیں۔
اسماءِ الٰہیہ توقیفی ہیں:
ارشاد: علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ اسمائے الٰہیہ توقیفی ہیں جو سماع پر موقوف ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ کو شافی کہنا جائز ہے، لیکن طبیب کہنا جائز نہیں۔
مل کر کام کرنے کے معنی:
ارشاد: مل کر کام کرنے کے معنیٰ یہ ہیں کہ جس طرح بڑھئی اور معمار مل کر تعمیر کا کام کرتے ہیں کہ وہ الگ اپنا کام کرتا ہے وہ الگ، اسی طرح لیڈر علماء سے استفتاء کر کے کام کریں۔ یہ نہیں کہ مولوی صاحب بھی لیڈروں کے ساتھ جھنڈا لے کر پہنچ جاویں۔ ہر قوم کے لیے تقسیمِ خدمات ضروری ہیں، بدوں اس کے کام نہیں چل سکتا۔ پس مطالبِ قرآن و حدیث اور احکام لیڈروں کو علماء سے پوچھنا چاہئیں اور ترقئ قومی کے اسباب و وسائل لیڈروں کو سوچنا چاہئیں۔
مقصودِ شریعت اعتدال و اقتصاد ہے:
ارشاد: مقصودِ شریعت اعتدال و اقتصاد ہے اور یہ بدوں حفظِ حدود کے حاصل ہو نہیں سکتا، کیونکہ اعتدال کے لیے افراط و تفریط سے احتراز لازم ہے۔
واجبات کی تقدیم مستحبات پر لازم ہے:
ارشاد: ہر کام کی تکمیل کا قاعدہ ہے کہ پہلے ان کوتاہیوں کو پورا کیا جاوے جن پر ان کی صحت اور مقبولیت موقوف ہے، پھر اگر خدا ہمت دے تو ان کے مستحبات اور نوافل اور زوائد کو بھی پورا کیا جاوے جن سے اس کا حسن دوبالا ہو جاتا ہے۔
حضور ﷺ کے لیے تعددِ ازواج میں مصلحت:
ارشاد: حضور ﷺ کے لیے تعددِ ازواج میں مصلحت تھی اشاعت احکام کی، کہ دوسری عورتیں ازواج کے واسطے سے سوال با آسانی کر لیا کریں، اور جو بات ان کی سمجھ میں نہ آوے ازواجِ مطہرات کے ذریعہ سے بخوبی سمجھ لیا کریں۔
ناپاکئ وہمیہ کا حکم:
ارشاد: فقہاء فرماتے ہیں کہ جب تک قسم کھا کر یہ نہ کہہ سکے کہ میرا وضو ٹوٹ گیا اس وقت تک وہ باوضو ہے۔ اسی طرح کپڑوں کا حکم ہے کہ جب تک یقین نہ ہو جائے کہ ان میں ناپاکی لگ گئی ہے، اس وقت تک کپڑوں کو پاک سمجھنا چاہیے۔ خواہ کیسے ہی جہاز کے پاخانے غلیظ ہوں، احتیاط کر کے بیٹھو اور احتیاط سے اٹھو، جب ناپاکی کپڑوں پر نظر نہ آئے ان کو پاک ہی سمجھو۔ اگر چکر آتا ہو کھڑا نہ ہو سکتا ہو تو نماز بیٹھ کر یا لیٹ ہی کر پڑھ لے۔ اور اگر دورانِ سفر کی وجہ سے کپڑوں کے پاک کرنے اور دھونے کی طاقت نہ ہو، نہ کوئی رفیق یہ کام کر سکتا ہو، نہ زیادہ کپڑے اس کے پاس ہوں تو اسی ناپاک کپڑے سے نماز پڑھ لے۔
کسی کے معاملہ میں خود دخل دینا مناسب نہیں:
ارشاد: میری عادت نہیں کہ خود کسی معاملہ میں دخل دوں، میرے اوپر غیرت کا غلبہ زیادہ ہے، اس لیے خود کسی معاملہ میں دخل دینے کو جی نہیں چاہتا۔ یہ خیال ہوتا ہے کہ میرا تو کام نہیں میں کیوں دخل دوں، کسی کو لاکھ دفعہ غرض پڑے اپنی اصلاح کا طریقہ دریافت کرے، ورنہ میری جوتی کو غرض پڑی ہے کہ اپنے آپ تو کسی کو اپنی اصلاح کا قصد نہ ہو اور میں اس کے پیچھے پڑتا پھروں۔ اگر کسی وقت شفقت کا غلبہ ہوتا ہے تو میں خود بھی نرمی سے کہہ دیتا ہوں۔
حج کے سفر میں لڑائی جھگڑے کا راز:
ارشاد: حج کے سفر میں زیادہ تر لڑائی جھگڑا اس لیے پیش آتا ہے کہ ایک کو دوسرے سے توقع ہوتی ہے، پھر جب اس توقع کے خلاف برتاؤ ہوتا ہے تو جھگڑے پیش آتے ہیں۔ اسی لیے فقہاء نے لکھا ہے کہ سفرِ حج کے زاد میں کسی کو شریک نہ کرے۔ اس شرکت کی وجہ سے ہر شریک کو دوسرے سے امداد و راحت رسانی کی توقع ہوتی ہے، اور سفر کی حالت میں بعض دفعہ انسان اپنی بھی امداد نہیں کر سکتا تو دوسرے کی کیا خاک امداد کرے گا۔ اس لیے ضرورت اس کی ہے کہ ہر شخص اپنا سامان کھانے پینے کا جدا رکھے اور انتظام پکانے کا بھی الگ کرے، دوسرے کسی سے کچھ توقع نہ رکھے۔ اس کے بعد اگر کسی سے ذرا سی بھی راحت پہنچ جائے گی تو اس کی قدر ہوگی اور نہ پہنچے گی تو شکایت نہ ہوگی۔
تقویٰ کا ہیضہ:
ارشاد: فقہاء نے لکھا ہے کہ جو شخص گیہوں کا ایک دانہ لیے پھرے تشہیر کے لیے، اس کو سزا دینی چاہیے۔ کیونکہ یہ تقویٰ کا ہیضہ ہے، اس کا انجام ابتلاء فی المعصیت ہے۔
حجرِ اسود میں کسوٹی کی خاصیت ہے:
ارشاد: محققین نے لکھا ہے کہ حجرِ اسود میں کئی خاصیتیں ہیں، یعنی اس میں یہ خاصیت ہے کہ استلام کے بعد جیسا شخص ہوتا ہے وہ اپنی اصل خلقت میں ظاہر ہو جاتا ہے۔ پس جس کی حالت حج کے بعد پہلے سے اچھی ہو جائے، سمجھو کہ اس کا حج قبول ہوا اور جس کی حالت پہلے سے بھی بدتر ہو جاوے اس کا حج قبول نہ ہونے کا اندیشہ ہے۔
سفر حج میں ناگواری کا راز:
ارشاد: حج میں کلفت کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اپنے کو بہت کچھ سمجھتے ہیں، اسی لیے سفر میں جب کوئی بات اپنی شان کے خلاف پیش آتی ہے تو اس سے نا گواری ہوتی ہے، پھر اس سے دوسروں سے جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں۔ اگر ہر شخص اپنے آپ کو مٹا دے اور عزت و آبرو کو بالائے طاق رکھ دے اور اپنے کو سب کا خادم سمجھے تو یہ باتیں پیش ہی نہ آئیں۔
حج نہ کرنے میں سوءِ خاتمہ کا اندیشہ ہے:
ارشاد: اگر حج نہ کیا تو سوءِ خاتمہ کا اندیشہ ہے، اور حج کرنے میں تو صرف یہی اندیشہ ہے کہ قلعی کھل جاوے گی، وہ اس وقت جبکہ اس کے آداب و شرائط کا لحاظ نہ کیا جاوے۔ ورنہ اکثر یہی ہوتا ہے، شوق و محبت سے جو حج کیا جاتا ہے اس سے دینداری میں ترقی ہی ہو جاتی ہے۔
ضعفاء کا تھوڑا سا عمل اقویاء کے عمل کثیر سے بڑھ جاتا ہے:
ارشاد: اگر عورتیں ذرا صبر و تحمل سے کام لیں تو ان کو مردوں سے زیادہ ثواب ملے، کیونکہ یہ ضعیف و کمزور ہیں اور ضعفاء کا تھوڑا سا عمل بھی قوی آدمی کے بہت سے اعمال سے بڑھ جاتا ہے۔
کامل الایمان کی شناخت:
ارشاد: تم میں کامل الایمان وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ خُلق و لطف سے پیش آوے۔
سلوک جذب سے مقدم ہوتا ہے:
ارشاد: مقتضائے حکمت یہی ہے کہ سلوک جذب سے مقدم ہو، تاکہ جذب کا تحمل ہو جاوے۔
مجذوب گو مقبول، مگر کامل نہیں:
ارشاد: مجذوب گو مقبول ہیں، مگر کامل نہیں۔ کیونکہ وہ اعمال سے محروم ہیں اور ترقی اعمال ہی سے ہوتی ہے۔ ورنہ ارواح کو عالمِ ارواح سے عالم اجسام میں نہ بھیجا جاتا، کیونکہ عالم ارواح میں ارواح حاملِ احوال تھیں مگر حاملِ اعمال نہ تھیں۔ چنانچہ ارواح میں محبت اس درجہ تھی کہ اس محبت ہی کی وجہ سے حملِ امانت پر آمادہ ہو گئیں، اس کا منشا محبت و عشق ہی تھا۔
ارواح کے عالَمِ اجسام میں بھیجے جانے کی حکمت:
ارشاد: ارواح کو عالَمِ اجسام میں بھیجنے سے مقصود قرب خاص ہے، یعنی وہ قرب جو اعمال سے حاصل ہوتا ہے۔ کیونکہ بہت سے اعمال وہاں یعنی عالَمِ ارواح میں ممکن نہ تھے۔ کیونکہ بعض اعمال کا تعلق جسد سے ہے، مثلاً روزہ کیسے رکھا جاتا وہاں بھوک ہی نہ تھی، حج کیسے ہوتا وہاں مال ہی نہ تھا، اور مصائب پر صبر کیسے ہوتا وہاں بیماری اور موت ہی نہ تھی؛ اس لیے حکمت حق مُقتضِی ہوئی کہ ارواح کو عالَمِ اجسام میں بھیجا جاوے۔
نماز میں ہمارے اور حضور ﷺ کے سہو کی علت:
ارشاد: نماز میں سہوِ نبوی کی علت بھی عدمِ استحضارِ افعال صلوٰۃ ہے، لیکن ہماری عدمِ توجہ الی الصلٰوة کا منشا تو یہ ہے کہ ہم کو ایسی چیز کی طرف توجہ ہوتی ہے جو نماز سے ادنیٰ ہے، یعنی دنیا۔ اور حضور ﷺ کی عدمِ توجہ الیٰ الصلٰوۃ کا منشا یہ ہے کہ آپ کو ایسی چیز کی طرف توجہ ہوتی تھی جو نماز سے اعلیٰ ہے، یعنی ذات حق۔ خوب سمجھ لو۔
حق تعالیٰ ہم کو راحت دینا چاہتے ہیں:
ارشاد: مصائب میں "إِنَّا لِلہِ" کی تعلیم بتلا رہی ہے کہ حق تعالیٰ ہم کو راحت دینا چاہتے ہیں اور پریشانی میں رکھنا نہیں چاہتے۔ غرضیکہ احکام سے، معاملات سے، صفاتِ رحمت اور شفقت و رأفت کے غلبہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہمارے لیے آسانی چاہتے ہیں۔
شقِ اہون کے اختیار میں عبدیت کا اظہار ہے کہ میں عاجز ہوں:
ارشاد: رسول مقبول ﷺ ہمیشہ آسان صورت اختیار فرماتے تھے جب دو باتوں کا اختیار دیا جاتا۔ اس میں ایک لطیف حکمت یہ ہے کہ حضور ﷺ میں شانِ عبدیت کا بہت غلبہ تھا اور یہی آپ کا سب سے بڑا کمال تھا۔ اور قوی شق کے اختیار کرنے میں گویا قوت کا دعویٰ ہے اور شقِ اہون کے اختیار کرنے میں عبدیت کا اظہار ہے کہ میں عاجز ہوں۔
حکیم ہونے کا معیار:
ارشاد: شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے حکیم کا معیار یہ لکھا ہے کہ صوفی بھی ہو، فقیہ بھی ہو اور محدث بھی ہو۔
خوشگوار دنیا دین ہی کے ساتھ میسر ہوتی ہے:
ارشاد: خوشگوار دنیا دین ہی کے ساتھ میسر ہوتی ہے، اور یہ دنیا، دین کے ساتھ مثل سایہ کے ہے۔ پرندہ کو پکڑ لو سایہ اس کے ساتھ ساتھ ہے اور تنہا سایہ کو پکڑنا چاہو تو یہ ممکن نہیں۔ پس مسلمانوں کو تو شریعت سے الگ ہو کر دنیوی ترقی نصیب نہیں ہو سکتی۔
مجاہدہ کی حقیقت:
ارشاد: شریعت نے تو ہم کو مشقت اور پریشانی سے ہر طرح بچایا ہے، اس لیے مشقت اور پریشانی میں قصداً پڑنا خلاف مرضیِ الٰہی ہے اور مجاہدہ نہیں، بلکہ مجاہدہ صرف وہ مشقت اور پریشانی ہے جس میں ہمارے قصد و اختیار کو دخل نہ ہو۔
حق تعالیٰ کو اعمالِ باطنہ میں بھی یسر ہی مطلوب ہے:
ارشاد: حق تعالیٰ کو اعمالِ ظاہری کی طرح اعمالِ باطنہ میں بھی یُسر ہی مطلوب ہے، عسر مطلوب نہیں۔ مثلاً ذکر میں نیند غالب ہو گئی تو اول تو توجہ الی الذکر سے اس کو دفع کرو، اگر دفع ہو گئی تو سمجھ لو کہ وہ نوم کاذب تھی۔ اور اگر دفع نہ ہو تو پڑ کر سو رہو اور مشقت برداشت کر کے نہ جاگو، ورنہ مرض لگ جائے گا۔ "عَلَیْکُمْ مِّنَ الْأَعْمَالِ مَا تُطِیْقُوْنَ فَإِنَّ اللہَ لَا یَمَلُّ حَتّٰی تَمَلُّوْا" (الصحيح للبخاري، کتاب التھجد، باب: بلا ترجمۃ، رقم الحديث: 1151) حدیث بھی ہے۔
اصلاحِ قلب کے لیے قطعِ علائق ضروری ہے:
ارشاد: اصلاحِ قلب بدوں تمام علائق قطع کیے نہیں ہو سکتی۔ اور قطعِ تعلقات سے مراد تقلیل غیر ضروری تعلقات کی ہے۔ اور ضروری تعلقات کی تکثیر مطلق مضر نہیں، مثلاً اگر ایک کنجڑا صبح سے شام تک ”لے لو امرود!“ کی صدا لگاتا پھرے تو رائی برابر بھی ضرر نہ ہوگا، نہ نورِ قلب میں کمی آئے گی، کیونکہ یہ ضرورت کی وجہ سے ہے۔ اور اگر ایک دفعہ بھی بے ضرورت کام کیا تو سارا نورِ قلب برباد ہو جائے گا۔
تعلقاتِ غیر ضروریہ میں پھنسنا دراصل حظِ نفس کے لیے ہے:
ارشاد: بعض لوگ تعلقاتِ غیر ضروریہ کو اس لیے اختیار کرتے ہیں کہ ان کو اس میں حظِ نفس آتا ہے۔ ان کا جی چاہتا ہے کہ یہ کام بھی کر لیں، وہ بھی کر لیں، مگر اس کا نام ایثار و خدمت خلق رکھ لیا ہے۔ مگر حقیقت میں اپنی خواہشیں پورا کرنے کے لیے ایک بہانہ ڈھونڈ لیا ہے۔
حضور ﷺ کے عملِ غالب کی دو قسمیں ہیں:
ارشاد: عمل غالب کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ جو وقوعاً کثیر ہو، دوسرے وہ جو مقصوداً کثیر ہو، گو عملاً قلیل ہو۔ جیسے تراویح کی نماز گو عملاً سوائے چند راتوں کے حضور ﷺ کے ساتھ تراویح پڑھنا ثابت نہیں، مگر احادیث کے اندر غور کرنے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آپ نے عذر کی وجہ سے اس پر مواظبت فرمائی، لیکن مواظبت آپ کو مطلوب ضرور تھی۔
دل کے تباہ ہونے کی علامتیں:
ارشاد: مبصر شیخ یہ ادارک کر لیتا ہے کہ تمہارے فعل کا منشا حظِ نفس ہے یا اتباع سنت، وعظ کر کے دل خوش ہو، تعلقات ما سوی اللہ میں دل پھنسا ہو، یکسوئی سے کورا ہو، نماز پڑھنے میں حظ نہ آتا ہو، ہاں وعظ چاہے جتنا کہلوا لو اس میں حظ آتا ہو، جلسوں میں شرکت کے لیے فوراً تیار ہو جاتے ہیں، یہ حالت دل کے تباہ ہونے کی علامت ہے۔
مشورہ کی خاصیت:
ارشاد: مشورہ میں خاصیت ہے کہ اللہ تعالیٰ مدد فرماتے ہیں۔ "یَدُ اللہِ عَلَی الْجَمَاعَةِ"(سنن الترمذی، أبواب الفتن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، باب: ما جاء فی لزوم الجماعۃ، رقم الحدیث: 2166) و "مَا خَابَ مَنِ اسْتَخَارَ وَ مَا نَدِمَ مَنِ اسْتَشَارَ" أَوْ کَمَا قَالَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ (المعجم الصغیر للطبرانی، باب: المیم، فصل: من اسمہ محمد، رقم الحدیث: 980)
حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی تمکین کی حالت:
ارشاد: حضرت گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی تمکین کی یہ حالت تھی کہ ایک پردیسی بی بی آپ سے بیعت ہوئی، اور تھوڑی دیر میں اپنی نہایت بے قراری کی اطلاع کر کے درخواست کی اب میں جا رہی ہوں، ایک بار زیارت کی تمنا اور ہے۔ مولانا نے صاف فرمایا کہ مجھے فرصت نہیں۔ یہ ابو الوقت کی شان ہے۔ ظاہر میں یہ جواب بے رحمی کا تھا، مگر حقیقت میں یہ عین رحمت تھی، تاکہ خلق جلد قطع ہو جائے۔ کوئی ابن الوقت ہوتا تو غلبۂ رحمت سے فوراً جا کر اپنی زیارت کرا دیتا کہ ایک مسلمان کا جی برا نہ ہو، مگر مولانا نے اس پہلو کے ساتھ دوسرے پہلو پر بھی نظر فرمائی کہ اس وقت اس پر جدائی کا قلق غالب ہے۔ پھر نہ معلوم اس رنج و غم میں وہ کہیں سامنے آ جائے یا پیروں پر گر پڑے یا کیا کرے، اس لیے صاف فرما دیا کہ مجھے فرصت نہیں۔ اور ذرا اس کی فرمائش سے متاثر نہ ہوئے۔
انسان کے لیے ریڑھ کی ہڈی بمنزلۂ تخم کے ہے:
ارشاد: انسان کے کل اجزاء فنا ہو جاویں گے مگر ریڑھ کی ہڈی فنا نہ ہو گی۔ قیامت میں اسی ہڈی سے انسان کا تمام جسم بن جائے گا۔ جیسا کہ گٹھلی سے درخت پیدا ہو جاتا ہے، گویا کہ یہ جزء بمنزلہ تخم کے ہے چنانچہ حدیث میں ہے: "كُلُّ ابْنِ آدَمَ يَأْكُلُهُ التُّرَابُ، إِلَّا عَجْبَ الذَّنَبِ مِنْهُ" (الصحیح لمسلم، کتاب الفتن و أشراط الساعة، باب: ما بین النفختین، رقم الحدیث: 2955)
حکمت خود حق تعالیٰ کے تصرفات کے تابع ہے:
ارشاد: اللہ تعالیٰ اپنے تصرفات و احکام میں حکمتوں کے تابع نہیں، بلکہ حکمت ان کے تصرفات کے تابع ہے۔ یہ نہیں کہ خدا تعالیٰ حکمت کو سوچ کر تصرف کریں، بلکہ وہ جو تصرف کرتے ہیں حکمت خود ادھر ہی ہو جاتی ہے۔
امن کی جڑ:
ارشاد: اوامر شرعیہ پر عمل کرنا اور نواہئ شرع سے بچنا یہ جڑ ہے امن کی، اور یہی دافع ہے فساد کا۔
﴿وَ ادْعُوْہٗ خَوْفاً وَّ طَمَعًا﴾ میں ایک عجیب تعلیم ہے:
ارشاد: ﴿وَ ادْعُوْہٗ خَوْفاً وَّ طَمَعًا…﴾ (الأعراف: 56) اس میں تعلیم کا حاصل یہ ہے کہ نہ تو عبادت کو ایسا کامل سمجھو کہ ناز کرنے لگو، نہ ایسا ناقص سمجھو کہ بے کار سمجھنے لگو۔
مبنیٰ شرفِ انسان کا اعمال ہیں:
ارشاد: انسان اشرف المخلوقات اس وقت ہے جبکہ وہ احکامِ الٰہیہ کا اتباع کرے، ورنہ بصورتِ مخالفت جمادات و حیوانات ہی اس سے اچھے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے احکام کی مخالفت تو نہیں کرتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شرف انسان کے لوازمِ ذات سے نہیں بلکہ مبنیٰ شرف کا اعمال ہیں۔
انسان کو آئندہ کی خبر نہ دینا حق تعالیٰ کی بڑی رحمت ہے:
ارشاد: حق تعالیٰ کی یہ بڑی رحمت ہے کہ سب کام اپنے قبضہ میں رکھا اور کسی کو کچھ خبر نہیں دی کہ کل کو کیا ہونے والا ہے۔ ورنہ یہ اپنے ہاتھوں ہلاک ہو جاتا ہے۔ ﴿وَ لَوِ اتَّبَعَ الْحَقُّ أَهْوَاءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَ الْأَرْضُ…﴾ (المؤمنون: 71)۔
کشف بعض دفعہ وبالِ جان ہو جاتا ہے:
ارشاد: علمِ محیط بشر کے لیے حاصل ہونا محال ہے اور کشف میں علمِ محیط نہیں ہوتا، اس لیے کشف بعض دفعہ وبالِ جان ہو جاتا ہے۔
ساری مخلوقات کا وجود انسان ہی کے لیے ہے:
ارشاد: حق تعالیٰ نے انسان کی پیدائش سے پہلے تمام عالم کو اسی کی خاطر اور اسی کے واسطے پیدا کیا۔ پھر جب انسان ہلاک ہو جائے گا تو سارا عالم بھی ہلاک ہو جائے گا۔ کیونکہ جس کے لیے یہ ساز و سامان تھا جب وہی نہ رہا تو اس کے رہنے سے کیا فائدہ۔
جنت کو پہلے سے پیدا کرنے کی حکمت:
ارشاد: حق تعالیٰ نے زمین و آسمان کو تو پہلے پیدا کیا ہے، جنت کو بھی پہلے پیدا کر دیا۔ حالانکہ اس کی ضرورت اس عالَم کے بعد انسان کو ہوگی۔ کیا ٹھکانا ہے اس کی رحمت کا، اور اس میں راز یہ ہے کہ انسان کو جب یہ معلوم ہو جائے گا کہ میرا اصلی گھر جہاں ہر قسم کی راحت و آسائش ہے اس وقت موجود ہے تو اس کو اُدھر زیادہ رغبت ہوگی اور دنیا میں اس کا دل نہ لگے گا۔ اور اگر اس کو یہ معلوم ہو جاتا کہ جنت تو ابھی بنی نہیں، دنیا کے فنا ہونے کے بعد بنے گی تو اکثر طبائع کو عالمِ آخرت کی طرف رغبت نہ ہوتی، اگر ہوتی تو بھی تو کم ہوتی کیونکہ معدوم کی طرف رغبت ہونا انسان کے طبائع میں نادر ہے، گو وہ معدوم کیسا ہی یقینی الوجود ہو۔
بلوغ کے وقت عقل کامل ہو جاتی ہے پھر تجربہ بڑھتا ہے:
ارشاد: بلوغ کے وقت عقل تو کامل ہو جاتی ہے لیکن تجربہ کم ہوتا ہے، اور تیس و چالیس سال کی عمر میں تجربہ بھی کافی ہو جاتا ہے۔ اس عمر میں کچھ عقل نہیں بڑھتی بلکہ تجربہ بڑھ جاتا ہے، لیکن تجربہ کی وجہ سے اس کی باتوں میں اور اعمال میں پختگی اور استواری پیدا ہو جاتی ہے۔ اس سبب سے لوگوں کو شبہ ہوتا ہے کہ تیس و چالیس سال کی عمر میں عقل زیادہ ہو جاتی ہے۔
شریعت کی موافقت و عدم موافقت کی تمثیل:
ارشاد: خدا کی قسم جو شخص شریعت کے موافق چل رہا ہو وہ بادشاہ ہے، گو ظاہر میں سلطنت نہ ہو۔ اور جو شخص شریعت سے ہٹا وہ پنجرہ میں مقید ہے، گو ظاہر میں بادشاہ ہو۔
باطل کا خاصہ بے اطمینانی و عدمِ سکون ہے:
ارشاد: باطل کا خاصہ ہے کہ اس سے اطمینان و سکون کبھی حاصل ہوتا ہی نہیں۔ ہاں کوئی جہل مرکب میں مبتلا ہو تو اور بات ہے، مگر اس کو بھی اہلِ حق کے برابر ہرگز اطمینان نصیب نہیں ہو سکتا۔
رضائے حق ہر حال میں مقدم ہے:
ارشاد: خدا کی قسم اگر ہم کو پاخانہ اٹھانا پڑے اور خدا ہم سے راضی رہے تو وہی ہمارے لیے سلطنت ہے۔ اور اگر خدا راضی نہ ہوا تو لعنت ہے ایسی سلطنت پر جو خدا کو ناراض کر کے حاصل کی جائے۔
خدا کے نزدیک اچھے ہونے کی فکر جس کا حصول امتثالِ اوامر و اجتنابِ نواہی سے ہوتا ہے:
ارشاد: مسلمانوں کو ہر حال میں احکامِ شرعیہ کو اپنا رہنما بنانا چاہیے، خواہ مال ملے یا نہ ملے، جاہ حاصل ہو یا نہ ہو، طعنے سننے پڑیں یا تعریف، کسی بات کی پروا نہ کرنی چاہیے۔ کسی کے برا کہنے سے انسان برا نہیں ہو جاتا اور کسی کے بھلا کہنے سے بھلا نہیں ہو جاتا۔ اگر تم خدا کے نزدیک اچھے ہو تو چاہے ساری مخلوق تم کو کافر و فاسق زندیق کہے، کچھ اندیشے کی بات نہیں۔ اور اگر خدا کے نزدیک مردود ہو تو چاہے ساری دنیا تم کو غوث و قطب کہے، اس سے کچھ نفع نہیں۔
دین کو غارت کر کے چندہ لینے کی مثال:
ارشاد: چندہ ذریعہ ہے دین کا تو دین کو اس کے واسطے غارت نہ کرنا چاہیے۔ اور دین کو غارت کر کے چندہ لیا تو یہ تو ایسا ہوا جیسے چھت کی مرمت کے لیے سیڑھی کی ضرورت تھی اور کوئی یہ کرے کہ چھت ہی میں سے دو کڑیاں نکال کر ان کی سیڑھی بنا لے۔
نرم برتاؤ فی نفسہ مامور بہ و محمود ہے:
ارشاد: ایک فریق مقابلے میں نرم ہو جاوے تو اس کا دوسرے پر بھی اثر ہوتا ہے اور وہ بھی نرم ہو جاتا ہے۔ اور نرم برتاؤ فی نفسہ مامور بہ اور محمود ہے۔
ہمارے فسادِ مذاق کا اثر:
ارشاد: ہم لوگ ایسے فاسدُ المذاق ہو گئے ہیں کہ بلا حکومت اور دباؤ کے مل کر کوئی کام نہیں کر سکتے۔
درستئ معاد کے لیے علم کی ضرورت:
ارشاد: درستئ معاد ہوتی ہے علم سے، اس واسطے علم کی سخت ضرورت ہے۔
دین کے عام فہم ہونے کا راز:
ارشاد: عام آدمیوں کی سمجھ میں دین کی بات آ جاتی ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ دین فطرت کے بہت قریب ہے، جس کی فطرت میں سلامتی ہو اس کا ذہن اس تک پہنچ جاتا ہے۔
میدان حشر کے وسعت کی تمثیل:
ارشاد: حشر میں جب اگلے پچھلے مردے انسان اور حیوان اور حشرات زندہ ہو جاویں گے تو یہ زمین اس طرح کافی ہو گی کہ زمین کو وسعت دے دی جائے گی۔ جیسے ربڑ کو پھیلا دیں تو وہ بڑھ جاتا ہے کہ ربڑ پہلے چھوٹا ہوتا ہے، مگر کھینچنے سے بڑھ جاتا ہے۔
ہر فعل میں اختیاری و غیر اختیاری جزء ہے:
ارشاد: آدمی کا اختیاری فعل نیت کرنا اور بقدر وسعت کوشش کرنا ہے۔ اس کی تکمیل اور نتیجہ کا متفرع ہو جانا یہ حق تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے۔
سالک کے لیے امراء کی صحبت سے اجتناب ضروری ہے:
ارشاد: امراء کی صحبت میں اکثر ایک زہریلا مادہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی ہاں میں ہاں ملانی پڑتی ہے۔ اگر ذرا بھی اس بات کا خوف ہو تو اس شخص کو جو اپنے قلب کی محافظت کرنے والا ہے، ایسی جگہ نہ جانا ہی بہتر ہے۔ خواہ وہ خوف امیر کے جبروت و سطوت کی وجہ سے ہو یا اپنے ضعف قلب کی وجہ سے ہو۔
رسومِ قدیمہ کے نہ چھوڑنے کی علت:
ارشاد: رسوم قدیمہ کے چھوڑنے میں ذلت اور طعن کی پروا کرنا محض اس وجہ سے ہے کہ دین کی وقعت نہیں یا دیندار بننے کی خواہش نہیں۔ کیونکہ مشاہدہ ہے کہ جس چیز کی وقعت انسان کی نظر میں ہو یا اس سے محبت ہو تو اس کی تحصیل میں ذلت و طعن کی ہرگز پروا نہیں، پھر جو لوگ برادری کی ملامت کا بہانہ کرتے ہیں ان کے واسطے ایک اور جواب ہے، وہ یہ کہ جیسے تمہاری دنیا کی ایک برادری ہے دین کی بھی تو ایک برادری ہے، یعنی علماء وصلحاء۔ ہم نے مانا کہ اس کے چھوڑنے میں دنیا کی برادری تم کو برا کہے گی، مگر دینی برادری تم کو اچھا کہے گی اور دعا دے گی۔ اور اس سے بڑھ کر ایک اور بات ہے کہ اللہ تعالیٰ تم سے خوش ہوں گے رسول اللہ ﷺ راضی ہوں گے۔
اصلاحِ اعمال و اصلاحِ نفس کا مدار:
ارشاد: جتنے گناہوں میں ہم مبتلا ہیں اس کی اصل یہ ہے کہ ہم نفس کو مشقت سے بچانا چاہتے ہیں۔ اور جتنے اوامر کو ہم ترک کر رہے ہیں اس کی اصل بھی یہی ہے، پس معلوم ہوا کہ اصلاحِ اعمال و اصلاحِ نفس کا مدار عادی مجاہدہ پر ہے۔
سجدہ للقدم اور سجدہ علی القدم کا فرق:
ارشاد: سجدہ للقدم تو یہ ہے کہ جائے قدم کو سجدہ کیا جاوے، یہ شرکِ صریح ہے۔ اور سجدہ علی القدم یہ ہے کہ جائے قدم پر سجدہ کیا جاوے حصول برکت کی نیت سے، یہ شرک صریح تو نہیں ہے مگر خطرہ سے خالی نہیں۔ اگر ایسا ہی کسی کو شوق ہو تو وہ موضعِ قدم پر قدم رکھے اور موضعِ سجود پر سجدہ کرے، موضعِ قدم پر سجدہ نہ کرے۔
بدعت کی تعریف:
ارشاد: بدعت کہتے ہیں مقاصدِ شرعیہ کے بدلنے کو، غیر مقصود کو مقصود بنادے یا مقصود کو غیر مقصود بنا دے۔
محبت و عظمت کا بڑا فائدہ:
ارشاد: محبت و عظمت سوال عن الحکمت و انتظارِ علمِ حکمت سے مانع ہے۔
استخارہ کا محل:
ارشاد: استخارہ کا محل ایسا امر ہے جس میں ظاہراً بھی نفع و ضرر دونوں کا احتمال ہے۔
موت سے توحُّشِ عام کا سبب:
ارشاد: موت سے توحُّشِ عام کا سبب یہ ہے کہ لوگ آخرت کو ہُو کا میدان سمجھتے ہیں اور آخرت کی نعمتوں سے غافل ہیں۔
روح کو جسم سے تعلق کی مثالیں:
ارشاد: روح کو تعلق جسم سے ایسا ہے جیسا کہ (1) آفتاب کو زمین سے کہ اس کو زمین سے تعلق تو ہے کہ تمام عالَم اس سے منور ہے، مگر وہ زمین کے اندر مقید نہیں بلکہ وہ تو اتنا بڑا ہے کہ زمین سے صدہا حصے زیادہ ہے۔ (2) یا یوں سمجھو کہ جیسا کہ ایک پیالہ یا لگن میں پانی بھر کر رکھا جاوے تو اس میں آفتاب کا جرم نظر آتا ہے۔ مگر کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ آفتاب اس کے اندر مقید ہے؟ (3) یا یوں سمجھو کہ آپ آئینہ میں اپنی صورت دیکھتے ہیں تو اس وقت آئینہ سے آپ کو تعلق تو ہوتا ہے مگر کیا آپ آئینہ کے اندر مقید ہیں؟ ہرگز نہیں، پس مرنے کے بعد روح کو جسم سے ایسا تعلق ہوتا ہے جیسا کہ آپ کو آئینہ سے تعلق ہے، یا آفتاب کو زمین سے یا آفتاب کے جرم کو لگن کے پانی سے۔
قبرِ ظاہری محض جسم کے لیے قید ہے۔
ارشاد: یہ قبر ظاہری محض جسد کے لیے تو قید ہے، روح کے لیے نہیں، اور انسان کی حقیقت روح ہے، نہ کہ جسد۔ اور اعمال سیّئہ سے جو قبر میں تنگی ہوتی ہے اس کا معنیٰ یہ نہیں کہ یہ گڑھا تنگ ہو جاتا ہے۔ کیونکہ کوئی اس گڑھے میں دفن نہ کیا جاوے تو کیا وہ اس تنگی سے بچ جاوے گا؟ بلکہ وہ تنگی اور قسم کی ہے۔
لذاتِ آخرت کا مقابلہ لذاتِ دنیا سے:
ارشاد: جب ہم لوگ آخرت کی نعمتوں کو دیکھیں گے تو اس وقت یہاں کی لذات کو لذات کہنے سے شرمائیں گے۔ جیسا کہ بدوی کا قصہ مثنوی میں آیا ہے جو بادشاہ کے سامنے سڑے ہوئے پانی کا گھڑا ہدیہ کے طور پر لے گیا تھا۔ بلکہ شاید ان لذات کو سامنے رکھنے سے قے آنے لگے۔
مردہ عزیزوں کی حالت پر حسرت کا علاج:
ارشاد: ہم کو آخرت کی نعمتوں اور لذتوں کی خبر نہیں، اس لیے جب یہاں آم یا خربوزہ کھاتے ہیں تو اپنے مردہ عزیزوں کو یاد کرتے ہیں کہ ہائے آج وہ نہ ہوا۔ اگر ہم کو یہ بات مستحضر ہوتی کہ بہت نعمائے جنت سے وہ محظوظ و مسرور ہو رہا ہے تو یہ حسرت ہرگز نہ ہوتی۔
حوضِ کوثر کی تعریف:
ارشاد: حوض کوثر کے پانی کی تعریف یہ ہے کہ جس نے ایک دفعہ پانی پی لیا اس کو کبھی پیاس نہ لگے گی، عمر بھر کے لیے پیاس کی کلفت دفع ہو جاوے گی، اور لطیف اس قدر ہو گا کہ بدوں پیاس کے بھی اس کی طرف رغبت ہو گی اور اس کا مزہ حاصل ہوگا۔
مزار پر پھول چڑھانے کی حقیقت:
ارشاد: اولیاء اللہ کے مزار پر پھول چڑھانا بڑی غلطی ہے، کیونکہ دو حال سے خالی نہیں، یا تو ان کی روح کو ادراک ہے یا نہیں، اگر ادراک نہیں تو پھول چڑھانے سے کیا نفع؟ اور اگر ادراک ہے تو جو شخص جنت کی شمائم و روائح و عطریات کو سونگھ رہا ہو اس کو ان پھولوں کی خوشبو سے کیا راحت پہنچ سکتی ہے؟ بلکہ اس کو تو الٹی ایذاء ہوتی ہو گی۔
مردہ عزیزوں پر حسرت کی وجہ:
ارشاد: اگر آخرت کی لذت و راحت یاد ہوتی تو اپنے عزیز کا یہاں کا چلنا پھرنا یاد نہ کرتے (ہاں طبعی غم الگ چیز ہے) بلکہ اس کا جنت میں چلنا پھرنا یاد کرتے اور اس سے خوش ہوتے اور تمنا کرتے کہ ہم بھی وہیں ہوتے۔ دیکھو اگر تمہارا بیٹا حیدر آباد میں جا کر وزیر ہو جائے تو تم یہ تمنا نہ کرو گے کہ وہ حیدر آباد نہ جاتا، بلکہ یہ تمنا کرو گے کہ ہم بھی حیدر آباد پہنچ جاتے تو اچھا تھا کہ اپنی آنکھوں سے بیٹے کی عزت و شان دیکھتے۔
جنت میں موت کی تمنا نہ ہو گی:
ارشاد: جنت میں جانے کے بعد مرنے کی تمنا قلب میں نہیں آ سکتی۔ کیونکہ موت کو تو دنیا میں کوئی نہیں چاہتا، طبعاً اس سے کراہت ہے اور اگر کسی کا دل موت کو چاہتا بھی ہے تو اس کی وجہ یا تو شدتِ کلفت ہے جس سے تنگ آکر انسان موت کی تمنا کرتا ہے اور جنت کلفت سے خالی ہے، یا اشتیاقِ لقاء اللہ سے، اور جنت میں جا کر یہ شوق بھی پورا ہو جائے گا۔
مرنے کے ساتھ ہی تنہائی ختم ہو جاتی ہے:
ارشاد: احادیث اور واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ مرنے کے ساتھ ہی تنہائی ختم ہو جاتی ہے اور مسلمان کی روح عالَم ارواح میں جا کر حضور ﷺ کے دیدار سے مشرف ہوتی ہے اور اپنے عزیزوں کی ملاقات سے مسرور ہوتی ہے۔ غرض وہاں ہر وقت خوشی ہی خوشی رہے گی اور ایسی خوشی ہوگی کہ دنیا میں اس کا خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔
رنجِ طبعی کی حکمت:
ارشاد: عزیزوں کے انتقال پر رنجِ طبعی کا تو مضائقہ نہیں وہ تو بے اختیاری بات ہے۔ اور اس میں حکمت یہ ہے کہ انسان کو توجہ الی اللہ کی دولت اس کے ذریعہ سے نصیب ہوتی ہے، اور ثواب ملتا ہے مگر یہ حسرت اور دل پھاڑنا واہیات ہے کہ وہ اکیلا ہوگا، ہائے! وہ ہماری طرح مزے مزے کی چیزوں سے متمتع نہ ہو گا۔ بخدا وہ تم سے زیادہ راحت میں ہے، تم اس کی فکر نہ کرو۔
منحوس کوئی دن نہیں:
ارشاد: بعض ایام متبرک تو ہیں، لیکن منحوس کوئی بھی نہیں۔
دوامِ ایزدی و دوامِ جنتی کا فرق:
ارشاد: خدا تعالیٰ کا وجود غیر متناہی بالذات ہے اور اہل جنت کا وجود غیر متناہی بالغیر ہے یعنی مشیت کے تابع۔
حقیقی علم کی تعریف:
ارشاد: حقیقی علم وہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو اور وہ بدوں عمل کے نہیں ہو سکتی، پس علم بدوں عمل کے جہالت کی مثل ہے۔
؎ علمے کہ رہ بحق نہ نماید جہالت است
؎ علم چہ بود آنکہ رہ بنما یدت
زنگ گمراہی ز دل باز دیدت
؎ ایں ہو سہا از سرت بیرون کند
خوف خشیت در دلت افزوں کند
؎ علم نبود غیرعلم عاشقی
ما بقی تلبیس ابلیس شقی
؎ علم چوں بر دل زنی یارے بود
علم چوں برتن زنی مارے بود
تصدیق و تائید بھی ایک مشورہ ہے:
ارشاد: تصدیق و تائید بھی ایک مشورہ ہے اور مشورہ کی صورت میں اختلاف رائے ہونا ممکن ہے۔ چنانچہ خود رسول اللہ ﷺ کو اختلافِ رائے سے ناگواری و گرانی نہ ہوتی تھی۔
حکم ملاہی کے اشتغال کا مسجد کے قریب:
ارشاد: ملاہی کا اشتغال مسجد کے قریب اگر مُوجِبِ استخفاف و اذلالِ دین یا اغاظت و اشتعالِ اہلِ دین من حیث الدین ہوتا ہو کفر ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے: ﴿مَا كَانَ صَلَاتُهُمْ عِندَ الْبَيْتِ إِلَّا مُكَاءً وَّ تَصْدِيَةً فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُوْنَ﴾ (الأنفال: 35)۔ رہا قصدِ استخفاف و اذلال یا اغاظت و اشتعال اس کا مدار قرائن مقالیہ یا حالیہ پر ہے، اسی سے جواب ہو گیا۔ اس شبہ کا کہ مسلمان بھی تو ایسی حرکت کرتے ہیں اور اس شبہ کا کہ مسجد کی پشت پر بجانے سے کیوں ناگواری نہیں ہوتی؟ جواب ظاہر ہے کہ وہاں قصداً اذلال یا اشتعال نہیں ہوتا۔
انسان کے عالَمِ اکبر ہونے کی وجہ:
ارشاد: صوفیہ کہتے ہیں کہ انسان عالَم اکبر ہے، کیونکہ مقصود وجود عالَم سے انسان ہی ہے۔ دوسرے یہ کہ دنیا کی تمام اشیاء مظاہر ہیں اسمائے حق جلّ شانہٗ کی، اور انسان ان میں مظہرِ اتم ہے۔
شرکِ اکبر و شرکِ اصغر کا فرق:
ارشاد: بزرگوں کے متعلق اگر کسی کا یہ عقیدہ ہو کہ حق تعالیٰ نے ان کو ایسا اختیار دیا ہے کہ جب چاہیں اس اختیار سے تصرّف کر سکتے ہیں، حق تعالیٰ کی مشیت جزئیہ کی حاجت نہیں رہتی۔ یعنی یہ اعتقاد ہو کہ وہ بزرگ اگر کسی کام کو کرنا چاہیں اور حق تعالیٰ نہ اس کام کو روکیں نہ اس کام کا ارادہ کریں تو ایسی حالت میں اگر وہ بزرگ چاہیں تو اس کام کو کر سکتے ہیں، یہ یقینی کفر اور شرکِ اکبر ہے۔ اور اگر ان بزرگ کے متعلق یہ اعتقاد ہے کہ وہ مشیتِ ایزدی کے محتاج تو ہیں اور اذنِ جزئی کی بھی ان کو ضرورت تو ہوتی ہے، مگر ان کے چاہنے کے وقت مشیت ایزدی ہو ہی جاتی ہے، تو گو یہ شرک و کفر تو نہیں مگر کذب فی الاعتقاد اور معصیتِ اصغر ہے۔
سلاطینِ اسلام کی اہانت کا ضرر:
ارشاد: سلاطینِ اسلام کی علی الاعلان اہانت میں ضرر ہے جمہور کا، ہیبت نکلنے سے فتن پھیلتے ہیں، اس لیے سلاطینِ اسلام کا احترام کرنا چاہیے۔
سوانح عمری لکھنے کا مشغلہ:
ارشاد: آج کل بزرگوں کی سوانح عمریوں میں بہت مبالغہ کرتے ہیں، حتیٰ کہ معائب و نقائص کو خواہ مخواہ کھینچ تان کر محاسن میں داخل کرتے ہیں۔ اس لیے میں نے اپنی وصیت میں لکھ دیا ہے کہ میری سوانح نہ لکھی جاوے۔ البتہ جناب رسول اللہ ﷺ کی سوانح عمری بے شک ضروری ہے، اس لیے کہ ان کے واقعات سے احکام ثابت ہوتے ہیں جن کا اتباع کیا جاتا ہے۔ پھر ان کے جمع کرنے میں احتیاط کس درجہ کی گئی ہے؟ باقی بزرگوں کی ہر حالت قابل اتباع تھوڑا ہی ہے۔ نیز ایسے سوانح عمری لکھنے والوں کی نیت بھی درست نہیں ہوتی، کبھی تو جاہ مقصود ہوتی ہے کہ ہم ایسے شخص کی طرف منسوب ہیں اور کبھی مال مقصود ہوتا ہے کہ لوگ خوب خریدیں گے۔
ض کا حکم:
ارشاد: اگر کوئی غیر قادر ہم سے پوچھے کہ صاحب میں ''ضَآلِّیْنَ'' کو کیا پڑھوں؟ تو ہم یوں کہیں گے کہ (ض) کو اس کے مخرج سے نکالنے کا قصد کرو، پھر خواہ کچھ ہی نکلے تم معذور ہو۔ باقی یہ کہیں گے کہ ''دالین'' پڑھو یا ''ظالین'' پڑھو۔ جو صحیح مخرج پر قادر نہ ہو اس کی امامت، نماز سب جائز ہے، لیکن اس کو جب کوئی شخص ایسا مل جائے جو صحیح نکالنے کی مشق کرا سکتا ہے تو اگر اس وقت مشق نہ کرے گا تو گنہگار ہوگا، جب تک صحیح نہ ہو اس وقت تک ایسے لوگوں کی نماز برابر صحیح ہوتی رہے گی غلط پڑھنے سے بھی، مگر سیکھنا واجب ہو گا۔ اور نہ سیکھنے سے گنہگار ہوگا۔
''صلعم'' کا حکم:
ارشاد: درود کا مخفف جو لوگ لکھتے ہیں ''صلعم'' یہ مناسب نہیں، گویا یہ دورد سے ناگواری اور تنگی کی دلیل ہے۔ اگر کوئی شخص حضور ﷺ کا اسمِ مبارک لکھے اور نہ زبان سے درود پڑھے اور نہ پورا درود کا صیغہ لکھے۔ تو صرف ''صلعم'' لکھنا بالکل نا کافی ہے بلکہ پورا لکھنا یا زبان سے کہنا واجب ہے۔
موئے مبارک کا حکم:
ارشاد: یہ جو موئے مبارک کے نام سے بعض جگہ پایا جاتا ہے۔ اس کے متعلق زیادہ کاوش نہیں کرنی چاہیے، اس سے کوئی حکمِ شرعی تو متعلق ہے نہیں، محض زیارت سے برکت حاصل کرنا ہے۔ سو اس کے لیے دلیلِ ضعیف کافی ہے۔
جوابِ مسئلہ میں احتیاط ضروری ہے:
ارشاد: مسئلہ کا جواب دینا محض کلیات سے بدوں جزئیہ کو متعدد کتابوں میں دیکھے ہوئے مناسب نہیں، احتیاط کے خلاف ہے۔
اہلیہ کے ساتھ نہایت نرمی کا برتاؤ کرنا چاہیے:
ارشاد: حضور ﷺ اپنی ازواجِ مطہرات کے ساتھ نہایت مہربانی فرماتے تھے، اور فلاں شخص جو علم و تقویٰ کا دم بھرتے تھے اپنی بیوی پر بہت سختی کرتے تھے جس کا اثر یہ تھا کہ ان کی بیوی ان کو سور کا بچہ کہتی تھیں۔ اور میرے حسنِ سلوک کا میرے گھر والوں پر یہ اثر ہے کہ وہ مجھ کو بجائے پیر سمجھتی ہیں۔ بیوی کی تھوڑی بہت بدخلقی کو گوارا کر لینا کیا عجیب ہے جبکہ وہ شادی کے ہوتے ہی سارے اعزاء کو چھوڑ کو شوہر کے لیے وقف ہو جاتی ہے۔
صوفیہ و علماء کی مثال:
ارشاد: صوفیہ کی مثال ایاز کی سی ہے اور علماء کی مثال میمندی کی سی ہے۔ ایاز محبوب تو ہے مگر انتظام حسن میمندی ہی کے سپرد ہے۔
مدرسی کی فضیلت:
ارشاد: گوشہ نشینی سے مدرسی (دینیات کی) افضل ہے۔
تشبہ کا ثبوت قرآن سے:
ارشاد: ﴿لَا تَرْكَنُوْا إِلَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ…﴾ (هود: 113) اس آیت میں "رُکُوْنٌ إِلَی الظَّالِمِیْنَ" پر وعید ہے تو معلوم ہوا کہ رکون حرام ہے۔ اور کسی کے ساتھ تشبہ جب کبھی پایا جاوے گا، رکون (یعنی میلان) کے ساتھ پایا جائے گا۔ یعنی لازم ہے کہ اس کی طرف رکون و میلان ہو اور رکون حرام ہے تو ثابت ہوا کہ تشبہ بھی حرام ہے۔
نیک اولاد کی علامت:
ارشاد: اولاد جبھی اچھی ہے جبکہ اولاد بن کر رہے، اور اگر باپ بن کر رہنا چاہے تو کیا راحت ہے؟ اس لیے مجھ کو آج کل کی اولاد کو دیکھ کر اولاد کی تمنا نہیں ہوتی۔
ابتدائی تعلیم کے ساتھ اخلاق کی نگرانی:
ارشاد: ابتدائی تعلیم کے ساتھ طلباء کے اخلاق کی نگرانی بھی ضروری ہے، کیونکہ بچپن میں جو خُلق جم جاتا ہے وہ پختہ ہو جاتا ہے، پھر اس کا نکلنا دشوار ہو جاتا ہے۔
تعصّب اور تصلّب کا فرق:
ارشاد: تعصّب کے معنیٰ ہیں بے جا حمایت کے، اور تصلّب کے معنی ہیں پختگی کے ساتھ مذہب پر جما رہنا۔ اول ممنوع ہے، ثانی مامور بہ ہے۔
صرف اخصّ الخواص محقق ہیں:
ارشاد: اخصّ الخواص محقق ہیں اور عوام مقلد، اور جو بیچ کے لوگ ہیں جو نہ محقق ہیں نہ مقلد، یہ خطرہ میں ہیں۔
الفاظِ شرعیہ کے معانئ شرعیہ کو بدلنا:
ارشاد: منجملہ احداثات کے ایک احداث یہ بھی ہے کہ الفاظِ شرعیہ کو ان کے معانئ شرعیہ سے بدلا جاتا ہے۔ جیسا کہ جہل کی مذمت اور علم کی فضیلت و ضرورت میں جو آیات و احادیث وارد ہیں ان سے انگریزی تعلیم پر استدلال کرنا۔
علم کے جہل ہونے کے معنی:
ارشاد: "إِنَّ مَعَ الْعِلْمِ لَجَھْلًا" کے معنیٰ یہ ہیں کہ بعض علم جن کو عرفاً علم سمجھا جاتا ہے، وہ خدا کے نزدیک جہل ہے۔
علم کے حجۃ اللہ ہونے کے معنیٰ:
ارشاد: بعض علم حجۃ اللہ علی العبد ہیں جبکہ وہ اس کے مقتضا پر عمل نہ کرے۔
مبتلائے جہل لائقِ شفقت ہے:
ارشاد: سنتِ رسول یہ ہے کہ مبتلائے جہل پر رحم کیا جاوے۔ واقعات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ نے کفار کے ساتھ ہمیشہ شفقت کا معاملہ کیا ہے۔
ظاہر کا محکمہ تابع ہے باطن کے محکمہ کا:
ارشاد: جس طرح ظاہر میں ہر چیز کے محکمے ہیں اسی طرح باطن میں بہت سے محکمے ہیں، جن سے ہم لوگ غافل ہیں۔ حالانکہ یہ ظاہری محکمے تابع ہیں باطنی محکموں کے، حکامِ ظاہری وہی کرتے ہیں جو حکامِ باطنی حکم دیتے ہیں۔ ان کی حکومت قلوب پر ہے اور حکامِ ظاہر کی اجسام پر۔
"اَلْعِلْمُ لِغَیْرِ اللہِ ھُوَ الْحِجَابُ الْأَکْبَرُ":
ارشاد: "اَلْعِلْمُ لِغَیْرِ اللہِ ھُوَ الحِجَابُ الْأَکْبَرُ" یعنی جس علم میں غیر اللہ کی طرف التفات اور اشتغال ہو وہ حجابِ اکبر ہے۔ اس سے علومِ وہبیہ اور وارداتِ قلبیہ خارج ہو گئے کہ وہ حجاب نہیں، کیونکہ ان سے غیر کی طرف التفات نہیں ہوتا، بلکہ ان سے عظمت حق کا انکشاف ہوتا ہے۔ اسی طرح اگر کسی کو علومِ ظاہرہ سے التفات الی الغیر نہ رہے، وہ بھی حجابیت سے خارج ہو جائے گا۔ اور اگر کسی کو علوم وہبیہ اور واردات قلبیہ سے عجب ہونے لگے، اس کے لیے یہ بھی حجاب ہو جائیں گے۔
عظمتِ حق کا اثر:
ارشاد: میں بقسم کہتا ہوں کہ حق تعالیٰ کی عظمت دل میں آ جائے تو کسی کی زبان سے اپنی نسبت "مولانا صاحب" یا "حافظ صاحب" وغیرہ کے تعظیمی الفاظ سننے سے شرم آنے لگے۔
خدا داں ہونا چاہیے:
ارشاد: عربی داں ہونا کچھ کمال نہیں، خدا داں ہونا چاہیے۔
دوامِ ایزدی اور دوامِ اہلِ جنت کا فرق:
ارشاد: ﴿مَا دَامَتِ السَّمٰوَاتُ وَ الْأَرْضُ إِلَّا مَا شَآءَ رَبُّكَ...﴾ (هود: 107) مطلب یہ ہے کہ یہ خلودِ اہل جنت و نار مثل بقاءِ واجب کے لازمِ ذات نہیں، بلکہ مشیت و قدرتِ الٰہیہ کے تحت داخل ہے۔
قیامِ مکہ کے متعلق حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی رائے:
ارشاد: حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے جب کوئی دریافت کرتا کہ میں مکہ میں اقامت کر لوں، اس کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ تو فرماتے جس کا حاصل یہ تھا: "بہندوستان بودن و دل بمکہ بہ ازاں کہ بمکہ بودن و دل بہندوستان"۔ مطلب یہ کہ مکہ میں قیام کا اس وقت ارادہ کیا جاوے جبکہ یہ حالت نصیب ہو جائے کہ یہاں رہ کر پھر ہندوستان نہ یاد آئے گا۔ اور جس کو یہ حال نصیب نہ ہو اس کے لیے ہندوستان میں قیام کرنا اور مکہ کی یاد میں تڑپتے رہنا ہی بہتر ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی عادت تھی کہ حج کے بعد لوگوں کو مکہ سے نکالتے تھے اور فرماتے تھے۔ "یَا أَھْلَ شَامَ! شَامَکُمْ وَ یَا أَھْلَ یَمَنَ! یَمَنَکُمْ" (إحیاء العلوم، کتاب أسرار الحج، الباب الأول: فی فضائلھا و فضائل مکۃ، جلد: 1، رقم الصفحۃ: 239، دار المعرفۃ بیروت) اے شام والو! تم شام کو جاؤ۔ اور اے اہلِ یمن! تم یمن کو سدھارو۔ کیونکہ اس سے ان کے قلوب میں حرمتِ بیت اللہ زیادہ رہے گی۔ زیادہ قیام سے ضعفِ تعلق اور سقوطِ عظمت و وقعت کا احتمال ہے۔
"ولایت نبوت سے افضل ہے" کے معنی:
ارشاد: ولایت نبوت سے افضل ہے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ ولی نبی سے افضل ہوتا ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ نبی میں جو دو شانیں ہوتی ہیں ایک ولایت کی ایک نبوت کی، تو نبی کی ولایت نبی کی نبوت سے افضل ہوتی ہے۔ چنانچہ دیکھ لیجئے کہ نبی کی توجہ إلیٰ افادت الخلق من حیث النبوت تھی اور توجہ الی الحق من حیث الولایت۔ یعنی اصل مطلوب نبی کے لیے بھی توجہ الی اللہ ہے اور توجہ الی الافادة مطلوب بالغیر ہے۔
مہمات میں مشورہ کے لیے جلسہ کرنا خلافِ نص ہے:
ارشاد: ﴿أَنْ تَقُوْمُوْا لِلهِ مَثْنٰى وَ فُرَادٰى ثُمَّ تَتَفَكَّرُوْا مَا بِصَاحِبِكُمْ مِّنْ جِنَّةٍ...﴾ (سبأ: 46) اس آیت میں مہمات کے وقت سوچنے کا خاص طریقہ بتلایا گیا ہے، جس کے اجزاء یہ ہیں: ایک یہ کہ اہتمام کرو، آمادہ ہو جاؤ۔ دوسرے یہ کہ اہتمام اللہ کے لیے یعنی خلوص سے ہو۔ تیسرے یہ کہ فکر کرو۔ چوتھے یہ کہ مجمع نہ ہو کہ اس سے فکر میں تشتت ہوتا ہے، یا تو اکیلے سوچو یا کوئی دقیق بات ہو تو ایک کو اور شریک کر لو اور ایک تحدید نہیں۔ مطلب یہ کہ اتنا تعدّد ہو جو مشوِّشِ فکر نہ ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو کام یکسوئی کے محتاج ہوں وہ جلسوں میں طے نہیں ہو سکتے۔
نفع متعدّی مقصود بالعرض ہے اور نفع لازمی مقصود بالذات:
ارشاد: نفع متعدی مقصود بالعرض اور نفع لازمی مقصود بالذات ہے اور گو یہ مشہور کے خلاف ہے، مگر حقیقت یہی ہے۔ اور قولِ مشہور کا منشا یا تو یہ ہوا ہے کہ بعض جگہ نفع متعدی نفع لازمی سے اوکد و اقدم ہو گیا ہے، مگر اس سے فضیلت بالذات لازم نہیں آتی بلکہ اقدمیت و اوکدیت ایک عارض کی وجہ سے ہوئی ہے کہ وہ نفع متعدی پھر نفع لازمی کی طرف مُفضِی ہو گا۔
﴿مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْإِنْسَ إِلَّا لِیَعْبُدوْنِ﴾ (الذاریات: 56) کا مطلب:
ارشاد: مخلوق کی عبادت مثل مزدور یا نوکر کی خدمت کے ہے جو معین ہوتی ہے۔ اور انسان کی عبادت غلام کی خدمت کے مثل ہے، جس کے لیے کوئی صورت معین نہیں۔ غلام ایک وقت آقا کا پاخانہ بھی اٹھاتا ہے اور دوسرے وقت میں آقا کی وردی پہن کر اس کی جگہ جلسوں میں جاتا ہے۔ تو غلامی جو حقیقت ہے عبدیت کی، اس کی پوری شان انسان ہی میں نمایاں ہے کہ اس کے لیے کوئی خدمت معین ہیں۔ ایک وقت میں تاجِ ''کَرَّمْنَا'' اس کے سر پر ہے، طوقِ ''فَضَّلْنَا'' اس کی گردن میں ہے، خلافتِ الٰہی کی مسند پر بیٹھا ہوا ہے، اس وقت تمام عالَم اس کا مسخر ہے، چنانچہ روح کی تجلی ہوتی ہے تو تمام عالَم اس کے سامنے سر بسجود ہو جاتا ہے۔ اور اس وقت بالکل ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا خدا تعالیٰ کی تجلی ہے۔ اور ایک وقت میں حضرت انسان پاخانے میں تشریف فرما ہوتے ہیں، اس وقت ان کا ہگنا، موتنا بھی عبادت میں داخل ہے۔ یہ بات کسی مخلوق کو حاصل نہیں، یہ حضرت انسان ہی ہیں جو ہر حالت میں عابد ہیں۔ سوتے ہوئے بھی روتے ہوئے بھی، ہنستے ہوئے بھی، ہگتے ہوئے بھی۔ پس میں علماء کو کہتا ہوں کہ تم اپنی ہر حالت کو سرکاری وردی سمجھو، نہ ذلت کی پروا کرو نہ عزت کی، غرض مخلوق پر نظر ہی نہ کرو، سب سے نظر ہٹالو۔
ایک آیت میں قصرِ قرأت کی حد:
ارشاد: امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے اجتہاد سے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ سورۂ فاتحہ کے بعد سورت ہی کا پڑھنا ضروری نہیں، بلکہ تین آیات بھی کافی ہیں۔ کیونکہ اکثر سورت کی آیات تین ہی ہیں۔ پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ تین آیات ﴿إِنَّا أَعْطَیْنَا...﴾ (الکوثر:1 ) کی آیات کے برابر ہی ہوں، بلکہ اقصر آیات بھی کافی ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ فقہائے متأخرین کو جزائے خیر دے کہ انہوں نے سارے قرآن کی آیات کو دیکھ کر سورۂ مدثر کی تین آیتیں تلاش کیں جو بہت چھوٹی چھوٹی ہیں، جن کے اٹھارہ ہی حرف ہیں اور انہوں نے فتوٰی دے دیا کہ فاتحہ کے بعد اٹھارہ حرفوں کی مقدار قرآن پڑھنے سے واجب ادا ہوجائے گا۔ چاہے پوری آیات بھی نہ ہو۔ بلکہ آیت کا جزء ہی ہو۔
امارد و غیر محارم کی طرف نظر کرنے کی ممانعت کی وجہ:
ارشاد: بے شک تمام مخلوق مرایائے حق ہیں۔ لیکن جن مرایا (آئینوں) میں نظر کرنے سے ممانعت کر دی گئی ہے ان مرایا میں خاصیت یہ ہے کہ یہ ناظر کی نظر کو اپنے ہی تک مقصود کر لیتے ہیں۔ ان کو دیکھ کر آگے نظر بہت کم پہنچتی ہے کہ کمالِ حق کا مشاہدہ کریں۔ اس لیے حق تعالیٰ نے امارد و غیر محارم کی طرف نظر کرنے سے منع فرما دیا۔
"إِنَّ اللہَ خَلَقَ آدَمَ علٰی صُوْرَتِہٖ" کا مطلب:
ارشاد: "إِنَّ اللہَ خَلَقَ آدَمَ علٰی صُوْرَتِہٖ" (الصحیح لمسلم، کتاب البر و الصلۃ و الآداب، باب: النہی عن ضرب الوجہ، رقم الحدیث: 2612) کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو اس طرح پیدا کیا ہے کہ ان سے کمالاتِ حق کا ظہور ہوتا ہے۔ پس صورتِ حق سے مراد ظہورِ حق ہے، اور اس میں انسان کی ہی خصوصیت نہیں بلکہ اس معنیٰ میں تمام عالَم صورتِ حق ہے یعنی مظہر حق۔ کیونکہ مخلوق سے خالق کا ظہور ہوتا ہے، افعال سے فاعل کا ظہور ہوتا ہے، لیکن آدم کی تخصیص حدیث میں اس وجہ سے ہے کہ انسان سے بہ نسبت دوسری مخلوقات کے حق تعالیٰ کی قدرت کا ظہور اتم و اکمل ہوتا ہے۔
"إِیَّاکُمْ وَ لَوْ فَإِنَّھَا مَطِیَّةُ الشَّیْطانِ" کے معنی:
ارشاد: "إِیَّاکُمْ وَ لَوْ فَإِنَّھَا مَطِیَّةُ الشَّیْطانِ" اس میں مطلق ''لَوْ'' کی ممانعت نہیں، بلکہ اسی ''لَوْ'' کی ممانعت ہے جو واقعاتِ ماضیہ میں بطور حسرت کے استعمال کیا جاتا ہے۔ "لَوْ کَانَ کَذَا، لَکَانَ کَذَا" کہ اگر یوں کیا جاتا تو یہ نتیجہ ہوتا۔
تعلقِ نسبی گو باعث ترقئ درجات ہے لیکن بدونِ عمل کفیلِ نجات نہیں:
ارشاد: حضور ﷺ نے اپنی خاص بیٹی کو خطاب کر کے فرمایا کہ اے فاطمہ! اپنا نفس آگ سے بچاؤ، میں اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں تمہارے کچھ کام نہ آؤں گا۔ مطلب یہ کہ اگر تمہارے پاس اعمال کا ذخیرہ نہ ہوگا تو میں کچھ کام نہ آؤں گا۔ اور اس کی نفی نہیں کہ اعمال کے ہوتے ہوئے بھی میں باعثِ ترقئ درجات نہ ہوں گا، یا شفاعت نہ کروں گا۔ بزرگوں کے تعلقِ نسبی کے باعث ترقئ درجات ہونا خود منصوص ہے۔
﴿اِتَّقُوْا اللہَ حَقَّ تُقَاتِہٖ﴾ اور ﴿وَ اتَّقُوْا اللہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ﴾ کی تطبیق:
ارشاد: ﴿اِتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقَاتِہٖ...﴾ (اٰل عمران: 102) اور ﴿وَ اتَّقُوْا اللہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ...﴾ (التغابن: 16) کی تطبیق یوں ہے کہ اول تو منتہائے سلوک ہے، یعنی مقصود سلوک کا یہ ہے کہ حقِ تقویٰ حاصل ہو۔ اور ثانی میں ابتداءِ سلوک کو بیان فرمایا ہے کہ اس میں "شَیْئًا فَشَیْئًا" کوشش کی جاتی ہے۔ مطلوب یہ ہے کہ بقدرِ استطاعت تقویٰ کرتے رہو، یہاں تک کہ حقِ تقویٰ حاصل ہو جاوے۔ جیسے کوئی امر کرے کہ چھت پر چڑھو اور وہ گھبرا جاوے کہ میں کیسے جاؤں تو اس کو کہا جاوے گا کہ زینہ کو بقدر استطاعت ایک ایک درجہ طے کر کے پہنچ جاؤ۔
دنیا کا ہونا نہ ہونا دلیل مقبولیت و مخذولیت کی نہیں:
ارشاد: فراخئ دنیا سے عند اللہ مقبول ہونے پر استدلال کرنا فاسد ہے۔ چنانچہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿فَأَمَّا الْإِنسَانُ إِذَا مَا ابْتَلَاهُ رَبُّهٗ فَأَكْرَمَهٗ وَ نَعَّمَهٗ فَيَقُولُ رَبِّيْ أَكْرَمَنِ وَ أَمَّا إِذَا مَا ابْتَلَاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهٗ فَيَقُولُ رَبِّيْ أَهَانَنِ﴾ (الفجر: 15-16) جس کا حاصل یہ ہے کہ دنیا کا ہونا نہ ہونا دلیل مقبولیت و مخذولیت کی نہیں۔ نیز حدیث میں ہے کہ جب تو اپنی حالت یہ دیکھے کہ جب آخرت کی چیزوں میں سے کسی چیز کا طالب ہو اور اس کی تلاش کرے تو وہ آسانی سے مل جاوے، اور جب دنیا کی چیزوں میں سے کسی چیز کا طالب ہو اور اس کی تلاش کرے تو اس کا ملنا دشوار ہو جاوے تو سمجھ لے کہ تو اچھے حال پر ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا کے فتنوں سے بچانا چاہتے ہیں۔ اور جب اپنی حالت یہ دیکھے کہ جب آخرت کی چیزوں میں سے کسی چیز کا طالب ہو اور اس کی تلاش کرے تو اس کا ملنا دشوار ہو جائے، اور جب دنیا کی چیزوں میں سے کسی چیز کا طالب ہو اور اس کی تلاش کرے تو وہ آسانی سے مل جاوے تو تُو برے حال پر ہے۔ (کہ دنیا کے فتنوں میں واقع ہونے کا خطرہ ہے)۔
مسافتِ آخرت کی سہولتِ اضطراری اور اختیاری کا بیان:
ارشاد: مسافتِ آخرت کی سہولت مِن جانب اللہ رکھی گئی ہے۔ چنانچہ اضطراری سفر کی تو یہ حالت ہے کہ مبدأ بھی بعید ہو رہا ہے اور منتہا بھی قریب ہو رہا ہے چنانچہ ارشاد نبوی ہے: "أَلَا إِنَّ الدُّنْیَا قَدِ ارْتَحَلَتْ مُدْبِرَةٌ وَ الْآخِرَةَ قَدْ تَجَلَّتْ مُقْبِلَةٌ" (الأربعون الودعانیۃ، المخطوطۃ، رقم الحدیث: 39) کہ دنیا پیچھے کو ہٹ رہی ہے اور آخرت قریب ہو رہی ہے۔ اور سیر اختیاری جس کو سلوک کہتے ہیں اس کی بھی یہ حالت ہے کہ جب بندہ طلب میں قدم رکھتا ہے، اسی وقت سے موانع پیچھے ہٹنے لگتے ہیں۔ یعنی خود بخود مرتفع ہونے لگتے ہیں اور مقصود قریب ہونے لگتا ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے: "مَنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ شِْبْرًا تَقَرَّبْتُ إِلَیْہِ ذِرَاعًا" (الصحيح لمسلم، کتاب التوبۃ، باب: فی الحض علی التوبۃ و الفرح بھا، رقم الحديث: 2675)۔
حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا لطیفہ طراد الشیطان:
ارشاد: ہمارے حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ رات کو تہجد میں اکثر سورۂ یٰسین پڑھا کرتے تھے اور اس کی حکمت میں یہ شعر پڑھا کرتے تھے۔
؎ دو دل یک شود بشکند کوہ را
پراکندگی آرد انبوہ را
کہ جب دو دل مل جائیں تو یہ پہاڑ کو بھی توڑ دیتے ہیں اور یہاں تین دل ایک ہو جاتے ہیں، کہ ایک مصلِی کا قلب، دوسرا قلبُ اللیل (یعنی وقت تہجد) تیسرا قلبُ القرآن (یعنی سورۂ یٰسین) جس کو حدیث میں قلب القرآن فرمایا ہے۔ تو تین دل جمع ہو کر شیطان کو کیسے نہ بھگا دیں گے؟
انکشافِ آخرت کے ساتھ دنیا کا بھی ہوش جمع ہو سکتا ہے:
ارشاد: انکشافِ آخرت کے بعد بھی دنیا کا احساس باقی رہنا ممکن ہے، چنانچہ بعض محتضرین کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے فرشتوں کو بھی دیکھا اور اس کے ساتھ اپنے گھر کی عورتوں کو بھی پہچانا۔ چنانچہ گھر والوں سے کہا کہ فرشتے بیٹھے ہیں، تم ان سے پردہ کرو۔ اور فرعون کے واقعہ سے بھی ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ اس نے جس وقت ایمان ظاہر کیا ہے اس وقت اس کو انکشافِ آخرت کے ساتھ دنیا کے بھی تھے۔ چنانچہ اس کا قول ﴿اٰمَنْتُ بِالَّذِيْ اٰمَنَتْ بِہٖ بَنُوْ إِسْرَائِیْلَ...﴾ (یونس: 90) بتلا رہا ہے کہ اس وقت بنی اسرائیل کا حق پر ہونا اور ان کا مؤمن ہونا اس کے خیال میں تھا اور یہ دنیا کا واقعہ ہے۔
حملِ امانت کا راز:
ارشاد: انسان میں عشق کا مادہ تھا اس لیے جس وقت حق تعالیٰ نے بارِ امانت کو پیش کیا (کہ کچھ احکامِ تکلیفیہ ہیں، اگر امتثال ہوا تو ثواب ملے گا اور نافرمانی پر عذاب ہو گا) خطابِ الٰہی کی لذت سے مست ہو گیا اور سوچا کہ جس امانت کی ابتدا یہ ہے کہ کلام و خطاب سے نوازے گئے، اگر اس کو لے لیا تو پھر روز کلام و سلام و پیام ہوا کرے گا۔ بس ایک سلسلہ چلتا رہے گا کہ آج کوئی حکم آرہا ہے، کل کوئی دوسرا حکم آرہا ہے، کبھی عنایت ہے، کبھی عتاب ہے تو اس چھیڑ میں بھی مزہ ہے۔
؎ چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد
گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی
غرضیکہ یہ سوچ کر اس لذت کے لیے اس نے احتمال عذاب کی پرواہ نہ کی اور کہہ دیا کہ یہ امانت مجھے دی جائے، میں اس کا تحمل کروں گا۔ بس وہی مثل ہوئی کہ ”چڑھ جا بیٹا سولی پر، اللہ بھلا کرے گا“۔
ہرشخص کو عللِ احکام بیان کرنے کا حق نہیں:
ارشاد: ہر شخص کو علل بیان کرنے کا حق نہیں ہے بلکہ مجتہد کو حق ہے اور مجتہد کو بھی ہمیشہ حق نہیں بلکہ وہاں تعلیل کا حق ہے جہاں تعدیہ حکم کی ضرورت ہو۔ اور جو امور تعبدی ہیں جن کا تعدیہ نہیں ہو سکتا، وہاں قیاس کا مجتہد کو بھی حق نہیں۔ اس لیے فقہاء نے صلوٰۃ و صوم، زکوٰة و حج میں تعلیل نہیں کہ ان کی فرضیت کی بنا تعبّد ہے۔
حِکم احکام کے سمجھنے کی شرط:
ارشاد: جن احکام کی حکمتیں معلوم ہو جائیں ان کو مبانی و مغاشی احکام کا نہ سمجھے، بلکہ خود ان کو احکام سے ناشی سمجھیں گے۔ ان شرائط کے ساتھ حکمتوں کے سمجھنے کا مضائقہ نہیں۔ قرآن میں جہاں کہیں حُکم کے بعد لام غایت آیا ہے وہ علت نہیں ہے، حکمت ہے۔ مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس حکم پر یہ اثر مرتب ہوگا، یہ مطلب نہیں کہ حکم کی بنا اس پر ہے۔
دنیا میں انسان کو بھیجنا قرب بصورتِ بُعد ہے:
ارشاد: اس وقت جو ہم اس عالَم میں آ کر علائق میں مبتلا ہو گئے، یہ بھی قُرب بصورتِ بُعد ہے، کیونکہ عالَمِ ارواح میں ہم ناقص تھے، حق تعالیٰ کو زیادہ قرب عطا فرمانا منظور تھا اس لیے یہاں بھیج دیا کیونکہ بہت سی اقسامِ قرب وہ ہیں جو بصورتِ صلوٰۃ و صورتِ صوم و صورتِ حج پر موقوف تھے، یہ روحِ مجرد کو بدوں جسم کے حاصل نہ ہو سکتے تھے۔
طولِ حیات کی خواہش منافی ولایت نہیں:
ارشاد: طولِ حیات کی خواہش منافئ کمالِ ولایت نہیں، کیونکہ انبیاء، اولیاء دنیا کی عمر کو مُوجِبِ زیادتِ قرب سمجھ کر یہ چاہتے تھے کہ اور زندہ رہیں تاکہ قرب میں ترقی ہو۔
حضور ﷺ کی غایتِ رحمت و شفقت:
ارشاد:﴿اِسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِيْنَ مَرَّةً فَلَنْ يَّغْفِرَ اللهُ لَهُمْ...﴾ (التوبة: 80) اس آیت میں گو حضور ﷺ کو معلوم تھا کہ اس قسم کی تردید سے تخییر مراد نہیں، بلکہ مراد تسویہ فی عدم النفع ہے، لیکن حضور ﷺ نے غایتِ رحمت و شفقت سے محض الفاظ سے تمسک فرمایا۔ یعنی آپ نے معنئ عرفی سے عدول کر کے معنئ لغوی پر کلام کو محمول فرما لیا اور عبد اللہ بن ابی رئیس المنافقین کے جنازہ کی نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھے۔
حضور ﷺ کے نام مبارک کے ساتھ "صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ" کہنا اور حق تعالیٰ کے نام پاک کے ساتھ "جَلَّ جَلَالُہٗ" یا "تَعَالٰی" کہنا واجب ہے:
ارشاد: جس طرح حضور ﷺ کا نام مبارک جب لیا جاوے یا سنا جاوے تو "صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ" کہنا واجب ہے اگر نہ کہے گا تو گناہ ہوگا، ایسے ہی حق تعالیٰ کے نامِ پاک کے ساتھ "جَلَّ جَلَالُہٗ" یا "تَعَالٰی" یا اور کوئی لفظ مُشعِرِ تعظیم کہنا واجب ہے ورنہ گناہ ہوگا۔ لیکن اگر ایک مجلس میں چند بار نام لیا جاوے تو حضور ﷺ کے نام مبارک پر "صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ" اور حق تعالیٰ کے نام پر "جَلَّ جَلَالُہٗ" یا "تَعَالٰی" کہنا ایک بار تو واجب ہے اور ہر بار کہنا مستحب ہے۔ مگر محبت و عشق کا مقتضا یہی ہے کہ ہر بار درود پڑھا جاوے۔
مقدمۂ شرک اور گروہ بندی کی ممانعت:
ارشاد: خدا تعالیٰ کے ذکر میں پیر کا ذکر بھی شامل کرنا شرک ہے، جیسا خطوط کے شروع میں لکھتے ہیں، بامداد اللہ، بفضل الرحمٰن، ہو الرشید، ہو القاسم، ہو المعین، جو مقدمۂ شرک ہے۔ اسی طرح امدادی، قاسمی، رشیدی، اشرفی لکھنا بھی خواہ مخواہ تخرُّب و گروہ بندی ہے۔ اور اس کو حنفی و شافعی پر قیاس کرنا غلط ہے، اس لیے کہ ان سلاسل میں کوئی اختلاف نہیں ہے جس پر متنبہ کرنا مقصود ہو۔ اور حنفیہ اور شافعیہ میں خود فروعی اختلاف ہے اور آئمہ اربعہ کے مقلدین کو باقی اسلامی فرقوں سے اصولی اختلاف ہے تو اس نسبت میں اس بات کا اظہار ہے کہ ہم اصولاً آئمہ اربعہ کے متبع ہیں اور فروعاً کسی خاص امام کے مقلد ہیں۔
نمازِ عید کا ثواب عورتوں کو بھی ملتا ہے اور شہر کے اندر بعذر پڑھنے والوں کو بھی عید گاہ کا ثواب ملتا ہے:
ارشاد: حدیث میں ہے: "عَبِیْدِيْ وَ إِمَائِيْ قَضَوْا فَرِیْضَتِيْ عَلَیْھِمْ ثُمَّ خَرَجُوْا" (مشکٰوۃ المصابیح، کتاب الصوم، باب: بیان لیلۃ القدر، فصل: ثالث، رقم الحدیث: 2096) جس سے عورتوں کا بھی عید گاہ کی طرف نکلنا ثابت ہے اور "خَرَجُوْا" کی قید سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عید کی نماز شہر سے باہر ہونا چاہیے، لیکن چونکہ شرعی قاعدہ ہے کہ جو عمل کسی عذر کی وجہ سے نہ ہو سکے اس کا اجر ساقط نہیں ہوتا اس لیے نمازِ عید کا ثواب عورتوں کو بھی ملے گا کیونکہ اب فتنہ کی وجہ سے ان کو عید گاہ جانے سے روک دیا گیا ہے۔ اسی طرح جو لوگ بعذر شہر کے اندر عید کی نماز پڑھتے ہیں ان کو بھی عید گاہ کی نماز کا ثواب ملے گا۔
زندگی میں قبر کھودنے کی ممانعت:
ارشاد: اپنے واسطے پہلے سے قبر کھود کر رکھنا مکروہ ہے، کیونکہ کیا خبر ہماری موت کہاں آئے گی۔
جنت میں دخول محض رحمت سے ہوگا:
ارشاد: جنت میں جو مؤمن کو اتنی بڑی سلطنت ملے گی جس کی شان یہ ہو گی۔ ﴿وَ إِذَا رَأَيْتَ ثَمَّ رَأَيْتَ نَعِيْمًا وَّ مُلْكًا كَبِيْرًا﴾ (الإنسان: 20) اور جس کی حالت یہ ہے: "أَعَدْتُّ لِعِبَادِيَ الصَّالِحِیْنَ مَا لَا عَیْنٌ رَّأَتْ وَ لَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَ لَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ" (الصحیح لمسلم، کتاب الجنۃ و صفۃ نعیمھا و أھلھا، رقم الحدیث: 2824) اس سلطنت کے حصول کے لیے یہ عمل کیا چیز ہے جو ہم کر رہے ہیں۔ اتنی بڑی جزاء یہ محض عنایت ہے، لیکن یہ عنایت ہو گی اسی عمل کی بدولت گو وہ ناچیز قلیل ناقص حقیر ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے: ﴿إِنَّ رَحْمَۃَ اللهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِيْنَ﴾ (الأعراف: 56)
حضور و غیبت کا فرق:
ارشاد: حق تعالیٰ نے حضور و غیبت کا فرق رکھا ہے جس سے دنیا اور دین کے سارے کام چل رہے ہیں ورنہ سب کارخانے معطل ہو جاتے۔ مگر اتنی غفلت بھی حق تعالیٰ کو گوارا نہیں کہ احکامِ شرعیہ کی خلاف ورزی کی جائے۔
آخرت کے یاد رکھنے کا طریقہ، نورِ قلب کے آثار، ہر فعلِ عبث کا سلسلہ انتہاءً معصیت سے ملا ہوا ہے:
ارشاد: آخرت کے یاد رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ جو کام آخرت میں مفید ہے ان کو اختیار کرو، اور جو مضر ہیں ان کو ترک کرو، اگر عبث ہے تب بھی۔ غور کرنے سے افعالِ عبث کا سلسلہ انتہاءً معصیت سے ضرور ملا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ مثلاً کسی سے آپ نے یہ سوال کیا کہ سفر میں کب جاؤ گے؟ اگر وہ اس سوال کا منشا صحیح سمجھ گیا تو خیر، اور اس صورت میں سوال عبث ہی ہوگا، اور اگر وہ اس کا منشا صحیح نہ سمجھا تو اس کے دل پر اس سوال سے ضرور گرانی ہوگی کہ یہ یوں پوچھتا ہے، اس کو بتلانا میری کسی مصلحت کے خلاف تو نہیں ہو جائے گا؟ اور مسلمان کے دل پر بار ڈالنا معصیت ہے۔ یہ تو بالفعل اخروی ضرر ہوا، اور فی المآل یہ ہوگا کہ جب کسی کا دل کسی سے مکدّر ہو جاتا ہے تو بات بات سے تکدّر بڑھتا ہے۔ آخرکار ایک دن دونوں میں خاصی عداوت ہو جاتی ہے جس سے صدہا معاصی پیدا ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کثرتِ عبث سے قلب کا نور بجھ جاتا ہے اور نورِ قلب ہی بڑی قیمتی چیز ہے، کیونکہ نورِ قلب ہی طاعات کا ذریعہ ہے، اس سے قلب میں طاعات کا داعیہ اور ایک تقاضا پیدا ہوتا ہے جس سے اس کی وہ طاعات پھولوں سی معلوم ہوتی ہے۔ بلکہ بدوں طاعات کے ارتکاب کے چین ہی نہیں ملتا۔
نقصِ عمل اور ہے اور اختصارِ عمل اور ہے:
ارشاد: شریعت نے گو نقصِ اعمال کی اجازت نہیں دی مگر اختصارِ اعمال کی اجازت دی ہے۔ نقص اعمال تو یہ ہے کہ ارکان کو خراب کر کے ادا کیا جاوے، خشوع کو فوت کیا جاوے۔ اور اختصار یہ ہے کہ ارکان میں زیادہ دیر نہ لگائی جاوے، لمبی سورتوں کی جگہ چھوٹی سورتیں پڑھ لے، سات دفعہ "سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِیْمِ" کی جگہ تین دفعہ کہہ لے اور نوافل کو ترک کر کے محض فرائض و سننِ مؤکدہ پر اکتفاء کرے۔
قلندر و فرقۂ ملامتیہ کی تعریف:
ارشاد: اصطلاحِ صوفیہ میں وہ جماعت قلندر کہلاتی ہے جن میں اعمالِ قالبیہ یعنی اعمال ظاہرہ تو کم ہوتے ہیں مگر اعمالِ قلبیہ ان کے بہت زیادہ ہیں۔ اور اعمال قلبیہ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ معاملہ درست رکھا جاوے، قلب کی نگہداشت رکھی جاوے کہ غیر حق کی طرف متوجہ نہ ہونے پاوے، بلکہ اکثر اوقات قلب کو ذکر میں مشغول رکھا جاوے، نیز قلب میں کسی مسلمان کی طرف سے غِل و حقد نہ ہو سب کے ساتھ خیر خواہی ہو، نیز حقوق وقت پر ادا کیے جاویں کہ کوئی وقت ذکر سے خالی نہ جاوے، نیز خوشی و غمی کے حقوق ادا کیے جاویں، نعمت پر شکر ادا ہوتا رہے، حزن و غم میں دل خدا تعالیٰ سے راضی رہے۔ اس کے سوا اور بہت اعمالِ قلبیہ ہیں۔ اور اصطلاحِ صوفیہ میں فرقۂ ملامتیہ وہ ہے جو اعمال کے اخفاء کا اہتمام کرتے ہیں۔
ہماری غفلت کا راز اور اس کے ازالہ کا طریقہ:
ارشاد: ہماری غفلت کا راز یہ ہے کہ ہم کو اعمال کے نافع و مضر ہونے کا استحضار نہیں، بس اس کا علاج یہ ہے کہ اعمال کے نافع و ضار ہونے کا اعتقاد دل میں بٹھا لیا جاوے اور استحضار کا مأخذ حدیث: "أَکْثِرُوْا ذِکْرَ ھَاذِمِ اللَّذَّاتِ" (سنن الترمذی، أبواب الزھد، باب: ما جاء فی ذکر الموت، رقم الحدیث: 2307) ہے۔ اور خاص عمل کے وقت اس کے استحضار کی تدبیر یہ ہے کہ صلوٰۃِ مؤدَّع یعنی ہر عمل کو یہ سمجھ کر ادا کرو کہ شاید یہ ہمارا آخری عمل ہو۔
تقدیر کی غایاتِ آجلہ و عاجلہ کا بیان:
ارشاد: تقدیر تجویزِ حق کا نام ہے، جس کا تعلق ذات و صفاتِ حق سے ہے اس لیے اس میں کاوش کرنے سے بجز حیرت و پریشانی کے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ اور درجۂ اجمال میں چونکہ اس کا علم ضروری تھا اس وجہ سے اجمالاً بیان فرما دیا ہے۔ اور اسی ضرورت کی بنا پر اسی مسئلہ کی ایک غایت بھی بتلا دی جس کی ضرورتِ عاجلہ تھی۔ یعنی اعتقاد و تقدیر کی ایک غایت تو آجلہ ہے یعنی اجرِ آخرت، کیونکہ تقدیر کا اعتقاد موجب نجات ہے۔ (یہ خاصیت عقائدِ حقہ میں ہے کہ بدوں عمل کے وہ خود بھی موجب نجات ہیں۔ گو نجات اوّلی نہ ہو) سو شارع نے اسی پر اکتفاء نہیں کیا، بلکہ اس کے ساتھ ایک غایت عاجلہ بھی بتلا دی۔ چنانچہ ارشاد ہے: ﴿مَاۤ أَصَابَ مِنْ مُّصِيْبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَ لَا فِيْ أَنْفُسِكُمْ إِلَّا فِيْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ أَنْ نَّبْرَأَهَا ؕ إِنَّ ذٰ لِكَ عَلَى اللهِ يَسِيْرٌۚ لِّـكَيْلَا تَاْسَوْا عَلٰى مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَاۤ اٰتٰٮكُمْ...﴾ (الحديد: 22-23) یعنی حق تعالیٰ مسئلۂ تقدیر کو بیان کر کے فرماتے ہیں کہ ہم نے تم کو اس لیے خبر کی ہے تاکہ جو چیز تم سے فوت ہو جاوے اس پر تم کو رنج نہ ہو، اور جو کچھ تم کو دیا ہے اس پر اتراؤ نہیں۔
آخرت میں کلام فی التقدیر کے متعلق پوچھ ہوگی:
ارشاد: حضور ﷺ نے فرمایا کہ جو کوئی مسئلۂ تقدیر میں زیادہ گفتگو کرے گا آخرت میں اس کی پوچھ ہو گی کہ ہاں صاحب! تم مسئلہ تقدیر کے بڑے محقق تھے ذرا ہمارے سامنے تو بیان کرو۔ اور یقیناً اس مسئلہ میں ہم جو کچھ بھی تحقیقات بیان کریں گے وہ اس قابل نہ ہوں گی کہ حق تعالیٰ کے سامنے بیان کر سکیں، کیونکہ وہ محض تخمینات و ظنیات ہوں گی اور حق تعالیٰ کے سامنے یقینیات ہی کو بیان کر سکتے ہیں، نہ کہ تخمینات کو۔
حق تعالیٰ شانہٗ کی توجہ کا عام طریق سلوک:
ارشاد: حق تعالیٰ شانہٗ کے توجہ عام کا طریق سلوک ہی ہے، اور جذب و وہب کا طریق عام نہیں۔ اس کی ایسی مثال ہے جیسے حصول اولاد کا عام طریق نکاح اور زوجین کا ہم بستر ہونا ہے، اور کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ بدوں شوہر کے اولاد ہو گئی۔ جیسے مریم علیہا السلام کے عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے اور کبھی بدون ماں باپ کے بھی تکوُّن ہوا ہے، جیسے آدم علیہ السلام۔ پس وہب کے بھروسے رہنا اور سلوک کو اختیار نہ کرنا غلطی ہے۔
جذب کی دو قسمیں ہیں:
ارشاد: جذب کی دو قسمیں ہیں: ایک قبل العمل ایک بعد العمل، مگر زیادہ و قوع جذب بعد العمل کا ہے۔ عادة اللہ یہی ہے کہ سلوک یعنی عمل مقدم ہوتا ہے اور جذب مؤخر ہوتا ہے۔ اور کبھی اس کا بھی وقوع ہوا ہے کہ عمل سے پہلے ہی جذب ہو گیا اور جذب کے بعد عمل مرتّب ہوا۔ چنانچہ ﴿اَللہُ یَجْتَبِيْ إِلَیْہِ مَنْ یَّشَآءُ...﴾ (الشورٰی: 13) میں جذب قبل العمل کا بیان ہے اور ﴿یَھْدِيْ إِلَیْہِ مَنْ یُّنِیْبُ﴾ (الشورٰی: 13) میں جذب بعد العمل کا۔ سو اس جذب قبل العمل کو دیکھ کر یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ سلوک و عمل بے کار ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ عمل علتِ تامہ وصول و قرب کی نہیں بلکہ شرطِ اکثری ہے جیسے علاج علت صحت کی نہیں ہاں شرطِ اکثری صحت کی ہوسکتا ہے۔
عمل سے جنت نہ ملے گی اس کی تو ضیح:
ارشاد: "لَنْ یُّدْخِلَ الْجَنَّةَ أَحَدًا عَمَلُہٗ" (الصحیح لمسلم، کتاب صفۃ القیامۃ و الجنۃ و النار، باب: لن یدخل أحد الجنۃ بعملہ بل برحمۃ اللہ تعالٰی، رقم الحدیث: 2818) میں علیّت اعمال کی نفی ہے اور مقصود اس سے عجب کا علاج ہے، کہ کوئی عمل کر کے اترائے نہیں کہ میں نے اپنے عمل سے جنت لے لی۔ کیونکہ اول تو عمل کے بعد بھی جذب کی ضرورت ہے اور جذب کا مدار مشیتِ حق پر ہے، یعنی سلوک کے بعد بھی وصول کا مدار ایصال حق پر ہے، دوسرے علت و معلول میں مناسبت بھی شرط ہے، عقلاً جزاءِ عظیم کا ترتب عملِ عظیم ہی پر ہو سکتا ہے، تو اب دیکھ لو جنت کس درجہ عظیم ہے اور تمہارا عمل کیسا ہے۔ جنت تو ''کَمًّا وَّ کَیْفًا'' ہر طرح عظیم ہے۔ ''کَمًّا'' تو اس کی عظمت یہ ہے کہ غیر متناہی ہے، اور ''کَیْفًا'' اس کی شان یہ ہے "لَا خَطَرَ علَی قَلْبِ بَشَرٍ" (الصحیح لمسلم، کتاب الجنۃ و صفۃ نعیمھا و أھلھا، رقم الحدیث: 2824) اور ہمارے اعمال کی یہ حالت ہے کہ ''کَمًّا'' تو متناہی ہیں اور ''کَیْفًا'' ناقص، کہ نماز میں توجہ نہیں، تعدیل ارکان نہیں، نسیان و سہو سے ادا کی جاتی ہے۔ روزہ ہے تو اس میں غیبت و شکایت ہے۔ ذکر ہے تو اس میں خلوص نہیں، بزرگ بننے کا شوق ہے۔ کیا اس حالت میں جنت کو عمل کا معلول کہا جاوے گا کہ عمل سے جنت ملی؟ ہرگز نہیں! بلکہ یہ کہا جائے گا کہ عمل میں تو یہ تاثیر نہ تھی، محض فضل سے جنت مل گئی۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ عمل بے کار ہے، ہرگز نہیں، کیونکہ عادة اللہ یہی جاری ہے کہ حق تعالیٰ عمل کے بعد توجہ فرماتے ہیں۔ چنانچہ ہمارا ادھر متوجہ ہونا بھی ایک عمل ہے جو اس کے فضل کے جذب کے لیے کافی ہے۔
صاحب حق اور صاحب باطل کے اتحاد کا انجام:
ارشاد: صاحبِ حق اور صاحبِ باطل کے اتحاد کا ہمیشہ انجام یہ ہوتا ہے کہ صاحبِ حق کو کسی قدر اپنا مسلک چھوڑنا پڑتا ہے۔ اور اس کا راز یہ ہے کہ حق دشوار ہے، کیونکہ نفس کے خلاف ہے اور باطل سہل ہے، اس لیے کہ وہ نفس کے موافق ہے۔ اور اتفاق اس طرح ہوتا ہے کہ ایک اپنے مسلک کو کسی قدر چھوڑ دے تو صاحبِ باطل سہل کو چھوڑ کر دشوار کیوں اختیار کرے؟ اس لیے ایسے اتحاد کا یہی انجام ہوتا ہے کہ صاحبِ حق کو کسی قدر اپنا مسلک چھوڑنا پڑتا ہے۔
شوقِ علم جنم روگ ہے:
ارشاد: شوقِ علم تپ دق ہے۔ یا تو ہوتا نہیں اور جو ہوتا ہے تو پھر دل سے نکلتا نہیں۔ تو یہ شوقِ علم جنم روگ ہے، بلکہ محبت و رغبت کسی شئ کی ہو تو وہ جنم روگ ہے، جب کسی سے ایک محبت ہو جاتی ہے پھر مرتے دم تک وہ نہیں نکلتی۔
تمام صفاتِ کمال صرف وجود ہی کے مظاہرِ مختلفہ ہیں:
ارشاد: بعض محققین کا قول ہے کہ صفتِ کمال ایک وجود ہی ہے اور باقی تمام صفاتِ کمال اسی کے مظاہرِ مختلفہ ہیں۔ اور وجود کسی مخلوق کی صفتِ ذاتی نہیں، بلکہ صفت عرضی ہے۔ اور در حقیقت یہ حق تعالیٰ کی صفت ذاتی ہے۔
''اَلْحَمْدُ لِلهِ'' انفاسِ عیسٰی کی جلد اوّل ختم ہوئی