امر بالمعروف
امر بالمعروف کا طریقہ:
تہذیب: کسی کے متعلق تحقیق ہو جائے کہ یہ فلاں جرم کا مرتکب ہے تو امر بالمعروف کے طور پر خود اس شخص سے کہے کہ میں نے تیرے متعلق ایسا سنا ہے، اگر یہ بات سچ ہے تو تم کو توبہ کرنا اور باز رہنا چاہیے۔ اور اگر اس سے نہ کہہ سکے تو اس کے مربّی سے کہہ دے جو اس کو روک سکتا ہو۔ اگر تحقیق نہ ہو پھر کسی سے بھی کہنا جائز نہیں، نہ خود اس شخص سے نہ اس کے مربّی سے۔ پھر تحقیق کا طریقہ ہر کام کے لیے جدا ہے، بعض امور میں دو عادل گواہ ضروری ہیں، بعض میں چار۔ پھر ان گواہوں میں بھی مشاہدہ سے گواہی ضروری ہے، یہ نہیں کہ سب تمہاری طرح سنی سنائی کہتے ہیں۔
جاہل کو امر بالمعروف جائز نہیں:
تہذیب: قواعد امر بالمعروف جاننے کے لیے "نصابُ الاحتساب" مصنفہ قاضی ضیاء الدین سنامی رحمۃ اللہ علیہ کا جاننا کافی ہے۔ جاہل کو امر بالمعروف جائز نہیں، کیونکہ وہ اصلاح سے زیادہ فساد کرے گا، جیسے مکہ میں ایک جاہل نے مجھے امر بالمعروف کیا کہ تم عمامہ کیوں نہیں باندھتے، یہ سنت ہے۔ میں نے کہا کہ تم پائجامہ کی جگہ لنگی کیوں نہیں باندھتے، یہ سنت ہے۔ غرضیکہ سنتِ زائدہ کے لیے اس سختی کے ساتھ امر بالمعروف کرنا جائز نہیں۔
امر بالمعروف کی شرط اول اور اس کے حصول کا طریقہ:
تہذیب: امر بالمعروف کی اول شرط اخلاص ہے، کہ محض لوجہِ اللہ نصیحت کرے، اپنے نفس کو خوش کرنے کے لیے نصیحت نہ کرے۔ اور اس کا معیار یہ ہے کہ عین نصیحت کے وقت ہی یہ شخص مخاطب کو اپنے سے افضل سمجھے۔
امر بالمعروف کے لیے شفقت ضروری ہے:
تہذیب: دوسروں کی نصیحت کے لیے شفقت شرط ہے، شفقت کا اثر مخاطب پر ضرور ہوتا ہے، ہاں کوئی بے حس ہو تو اور بات ہے۔ ہم کو عوام مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کرنا چاہیے، جیسا کہ اپنی اولاد کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور اگر کسی سے علیحدگی اور کنارہ کشی اختیار کی جائے تو اس میں بھی خیر خواہی کا قصد ہونا چاہیے، چنانچہ ارشاد ہے: ﴿وَاهْجُرْهُمْ هَجْرًا جَمِْيلًا﴾ (المزمل: 10)
تہذیب: مؤمن جو مؤمن کو نصیحت کرتا ہے اس میں طعن و غصہ و تشدد کا حق نہیں۔ تشدد کے ساتھ کہنا صرف بڑوں کا حق ہے، خواہ ان کی بڑائی کسی سببِ غیر اختیاری سے ہو جیسے باپ، یا کسی التزامِ اختیاری سے ہو جیسے شیخ و استاد۔
تبلیغ و ذکر کو خود مقصود سمجھ کر کرنا چاہیے نہ بطمع ترتب ثمرہ:
تہذیب: حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تبلیغ کے وقت خود نفسِ تبلیغ کو مطلوب سمجھے، ترتّبِ ثمرات کو مقصود نہ سمجھے، کیونکہ جو شخص ثمرات کو مقصود سمجھ کر عمل کرے گا اس کو عدمِ ترتّبِ ثمرہ سے رنج و غم ہو گا۔ اور حزن و غم کی خاصیت ہے کہ اس سے طبیعت شکستہ و پژمردہ ہو جاتی ہے پھر کام نہیں ہوتا۔ یہیں سے سالکین کو سبق لینا چاہیے کہ ذکر و شغل کو خود مقصود سمجھ کر کریں کہ وہ اختیار میں ہے، اور ثمرات کو مقصود نہ سمجھیں کہ وہ غیر اختیاری ہیں۔
ثمرات کا انتظار تبلیغ میں ہمت کو پست کرتا ہے:
تہذیب: تبلیغ میں ثمرات کا انتظار نہ کرو، یعنی یہ تجویز نہ کرو کہ ہماری سعی سے شدھی بند ہی ہو جائے، یا دس ہزار ہندو مسلمان ہی ہو جائیں، کیونکہ اس تجویز و انتظار کا نتیجہ یہ ہے کہ چند دن کے بعد جب اس ثمرہ کے ترتب میں دیر ہوگی تو ہمت پست ہو جائے گی۔ اس میں راز یہ ہے کہ مبالغہ فی العمل ہمیشہ عمل کا سبب ہوتا ہے۔
مخاطبت سخت الفاظ میں مناسب نہیں:
تہذیب: بلا ضرورت مخاطب کو سخت الفاظ سے خطاب کرنا ممنوع ہے، ہاں ضرورت کے وقت جائز ہے جیسے: ﴿قُلْ یَآ أَیُّھَا الْکَافِرُوْنَ﴾ (الکافرون: 1) میں کافروں کی امیدیں قطع کرنے کے لیے سختی کے ساتھ کافر کہہ کر ان کو خطاب کیا گیا ہے۔
پہلے سے اعذار کا حکم دریافت کرنا جان بچانے کی تدبیریں ڈھونڈنا ہے:
تہذیب: اگر کوئی کہے کہ ہم کسی کو نصیحت کرتے ہیں تو وہ بُرا مانتا ہے، ناک منہ چڑھاتا ہے اور ہمارے درپے ایذاء ہو جاتا ہے، تو کیا پھر بھی امر بالمعروف کریں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آپ امر بالمعروف شروع کر دیں جب کام شروع کر کے گاڑی اٹکے گی، اس وقت استفسار کرلینا۔ ابھی سے اعذار کا حکم دریافت کرنے کا آپ کو حق نہیں۔ بلکہ اس وقت اعذار کا حکم دریافت کرنا گویا جان بچانے کی تدبیریں ڈھونڈھنا ہے۔
تبلیغ میں ابتداءً شفقت کا امر ہے:
تہذیب: انبیاء علیہم السلام کو ابتدا میں شفقت کا امر ہے اور انتہائی نا امیدی کے بعد قطعِ شفقت کا حکم ہے۔ اور اس میں راز یہ ہے کہ ابتدا میں شفقت نہ کرنے سے خود تبلیغ کا کام اٹکتا ہے اور نا امیدی کے بعد حزن کرنے سے تبلیغ کی ترقی رکتی ہے، کیونکہ اب حزن کرنے سے مبلِّغ کی ہمت پست ہو جائے گی۔ اس وقت اس کو یہ تعلیم ہے کہ ہدایت تمہارے قبضے میں نہیں بلکہ خدا کے قبضے میں ہے، بس تم کو اپنا کام کرنا چاہیے، تمہارا ثواب کہیں نہیں گیا اور جو کام خدا کا ہے اس کو خدا کے سپرد کر دے۔ "کار خود کن کارِ بے گانہ مکن"۔ اب اس تعلیم سے اس کا دل بڑھے گا اور برابر تبلیغ کرتا رہے گا۔ ﴿وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ﴾ (العصر: 3) میں مبلِّغ کو صبر و استقلال کا حکم ہے، کیونکہ تبلیغ میں بعض ناگواریاں پیش آتی ہیں، اگر صبر و استقلال سے کام نہ لیا تو تبلیغ دشوار ہو جائے گی۔
امر بالمعروف میں فوت مصلحت عذر نہیں:
تہذیب: ترکِ تبلیغ کے لیے محض ناگواریٔ مخاطب عذر نہیں، حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ: ﴿أَ فَنَضْرِبُ عَنكُمُ الذِّكْرَ صَفْحًا أَنْ كُنْتُمْ قَوْمًا مُّسْرِفِيْنَ﴾ (الزخرف: 5) ’’کیا ہم تم کو نصیحت کرنے سے پہلو تہی کریں گے کہ تم لوگ حد سے نکلنے والے ہو۔‘‘ حالانکہ حق تعالیٰ کے ذمہ تو امر بالمعروف واجب نہیں، وہ اس سے پاک ہیں کہ ان پر کوئی بات واجب ہو۔ بس یاد رکھئے کہ امر بالمعروف کے لیے عذر صرف یہ ہے کہ لحوقِ ضرر کا اندیشہ ہو اور ضرر بھی جسمانی، محض فوتِ منفعت عذر نہیں۔ جو شخص خدا سے بیگانہ ہے اگر اس کو احکامِ الٰہی کی تبلیغ ناگوار ہے تو ہماری جوتی سے، ہم تبلیغ سے کیوں رکیں؟ بس ہم کو خدا پر نظر رکھنی چاہیے اور صرف اس کی رضا کا طالب ہونا چاہیے، چاہے تمام عالم ناراض ہو جائے۔ بس تمام عالم سے کہہ دو کہ ہم نے ایک ذات سے علاقہ جوڑ لیا ہے، جو اس سے ملے وہ ہمارا دوست ہے، جو اس سے الگ ہو وہ ہم سے الگ ہے۔
ابتدا میں تبلیغِ اعمال اخلاق کے پیرایہ میں ہونا چاہیے:
تہذیب: نصیحت کا قاعدہ ہے کہ مصلح اپنے اوپر مشقت ڈالے اور مخاطب کو آسان طریقہ سے سمجھائے، اور ابتدا میں تو تالیفِ قلب کرے اور انتہاء میں صفائی سے کام لے۔ یعنی مسئلہ کو صاف صاف بیان کر دے، گول مول نہ بیان کرے۔ ابتدا میں ترغیبِ اعمال اخلاق کے پیرایہ میں دینا چاہیے تاکہ مخاطب کو گرانی اور وحشت نہ ہو۔ مثلاً اس طرح کہ نفس کو پابند کرنا اور آزادی سے روکنا اور اس میں استقلال اور پختگی پیدا کرنا نہایت ضروری ہے، ورنہ انسان اور جانور میں کیا فرق۔ مردانگی اس میں ہے کہ انسان اپنے نفس پر قابو یافتہ ہو، نفس کا تابع فرمان نہ ہو، اور نفس کو تباہ کرنے والی چیز تکبر ہے، انسان کو تواضع اور عاجزی اختیاری کرنا چاہیے، جس کا طریقہ یہ ہے کہ کسی سب سے بڑی عظمت والے کی عظمت اس کے پیش نظر رہے۔ اسلام نے اس کے لیے پانچ وقت کی نماز مقرر کی ہے جس کو باقاعدہ ادا کرنے سے اللہ تعالیٰ کی عظمت کا نقش اس کے دل پر جم جاتا ہے۔ دوسری تباہ کرنے والی چیز نفسانی خواہشوں کی حرص ہے، مثلاً کھانے پینے اور عورتوں سے مخالطت کرنے کی حرص۔ اس کے لیے اسلام نے روزہ فرض کیا ہے۔ تیسری مہلک شئ حبِ مال ہے۔ اس کے لیے اسلام نے زکوٰة کو فرض کیا ہے۔
اخلاق کے پیرایہ میں نصیحت کرنا ایسا ہے جیسے مٹھائی میں کونین دینا:
تہذیب: اللہ تعالیٰ اپنے دشمنوں کے واسطے بھی یہی تدبیر کرتے ہیں کہ مٹھائی میں کونین لپیٹ کر دیتے ہیں، اسی لیے حکم ہے حکمت کے ساتھ دعوت کرنے کا اور اخلاق کے پیرایہ میں اعمال کی ترغیب دینے کا۔
تبلیغ کا ضابطہ مبلغ خاص و عام کے لیے:
تہذیب: تبلیغ کی دو قسمیں ہیں: خاص و عام، تبلیغِ خاص انفرادی طور سے ہر شخص کے ذمہ ہے اور تبلیغ عام علما کے ساتھ خاص ہے۔ مگر عوام مسلمین کے ذمہ سفر خرچ و دیگر اسباب کا مہیا کرنا ہے۔ اسی طرح خطاب بغیر المنصوص علما کا کام ہے، اور خطاب بالمنصوص کے ساتھ ہر مسلمان تبلیغ کا کام کر سکتا ہے۔
فائدہ کام کرنے سے ہی ہوتا ہے چاہے تھوڑا ہی ہو:
تہذیب: فائدہ کام کرنے ہی سے ہوتا ہے، چاہے تھوڑا ہی ہو تو دو چار آدمی مل کر تبلیغ شروع کردو اور اپنی قلت پر نظر نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ نے ایک ذات پاک کے ذریعہ سے اسلام کو عرب سے تمام دنیا میں پہنچایا ہے، سو وہ خدا اب بھی موجود ہے، تم اسی پر بھروسہ کر کے کام شروع کرو۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کی مثال قرآن پاک میں یوں بیان فرمائی ہے: ﴿كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهٗ فَآزَرَهٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰى عَلٰی سُوقِهٖ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ...﴾ (الفتح: 29) کہ ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک بیج زمین میں بو دیا جائے، تو وہ اول اپنی سوئی نکالتا ہے، پھر خدا اس کو پانی، مٹی، ہوا وغیرہ سے قوت دیتا ہے تو قوی مضبوط ہو کر تنا دار سیدھا درخت ہو جاتا ہے جو سارے محلّہ پر سایہ افگن ہوتا ہے۔ جب جمادات میں ادنیٰ تخم کی یہ حالت ہو تو انسانوں میں ایک دو آدمی اللہ کے بھروسے پر کام کریں، اور ان کے کام کو قوت و ترقی حاصل ہو جائے تو کیا بعید ہے۔
تبلیغ میں کام کا طریقہ:
تہذیب: کام کا طریقہ یہ ہے کہ جس کو قابل سمجھا جائے اس سے حساب نہ لیا جائے، اور اس کی لیاقت یہ ہے کہ خود حساب دیتا رہے۔
سلامتیٔ طبع نہ ہونے سے آج کل فرادی فرادی تبلیغ مناسب ہے:
تہذیب: گو اس میں بڑی مصلحت ہے کہ رفقا میں ایک امیر ہو، ایک مامور ہو، مگر اس کے لیے سلامتئ طبائع شرط ہے، اور آج کل طبائع ایسی گندی ہیں کہ جہاں ایک کو امیر بنایا فوراً دوسرا اسیر ہو جاتا ہے۔ یعنی امیر صاحب اس پر جا بے جا حکومت کرنے لگتے ہیں۔ آج کل ہماری یہ حالت ہے کہ اجتماعی کام میں ہمیشہ گڑبڑ ہوتی ہے۔ جس کام میں جتنا زیادہ اجتماع ہو گا اتنا ہی جھگڑا ہو گا اور جلد ہی ختم بھی ہو جاتا ہے۔ بقاء اسی کام کو ہوتا ہے جو تدریج کے ساتھ بڑھے اور اعتدال کے ساتھ چلتا رہے۔
تبلیغِ عام کا سہل طریقہ:
تہذیب: تبلیغِ عام کا سہل طریقہ یہ ہے کہ ضلع کے مسلمان ایک مبلِّغ اپنے ضلع کے واسطے مقرر کرلیں اور اس کا خرچ اپنے ذمہ لے لیں۔ البتہ اتنی ضرورت پھر بھی ہو گی کہ روپیہ کا انتظام کر کے مبلِّغ کی تجویز اور راہِ عمل کی تحقیق کے لیے کسی عالم کو مشورہ کے لیے منتخب کرو اور اس کے مشورہ سے مبلِّغ رکھو اور اسی کی رائے سے تبلیغ کا طریقہ اختیار کرو اور مبلِّغ سے کہہ دو کہ جس طرح فلاں شخص کہے اس طرح کرو۔
تبلیغ میں کوتاہی کا راز:
تہذیب: آج کل تبلیغ میں کوتاہی کا راز یہ ہے کہ دل میں مخلوق کی ہیبت ہے، اس لیے تبلیغ سے رکاوٹ ہے۔
رفاہِ عام کا کام کرنے کا طریقہ:
تہذیب: رفاہِ عام کا کوئی کام کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اپنا کام جتنا ہو سکے شروع کر دے۔ مثلاً ایک دینی مدرسہ قائم کرنا ہے، لڑکے لے کر بیٹھ جاؤ اور پڑھانا شروع کر دو۔ جب کوئی پوچھے کہہ دو اتنا ہی ہمارے اختیار میں تھا وہ ہم نے کر لیا، آگے اللہ تعالیٰ مالک ہے۔ بس آپ اپنا کام کیجئے اللہ تعالیٰ عمارت سب بنوا دے گا اور مدرسہ بھی جاری کرا دے گا۔
تعلیمِ استغنا و ترکِ کاوش در حقِ عوام:
تہذیب: فرمایا کہ میرا ہمیشہ یہ طریقہ رہا کہ اگر میں نے کوئی کام دوسروں کی مصلحت کے لیے کیا اور لوگوں نے اس پر اعتراض کیا تو کبھی اس میں تصرُّف اور تائید کو پسند نہیں کیا، بس یہ کیا کہ اس کام ہی کو ترک کر دیا۔ میری رائے یہ ہے کہ عوام کے درپے نہ ہوں، چنانچہ حدیث میں ہے کہ: "نِعْمَ الْفَقِیْہُ إِنِ احْتِیْجَ نَفَعَ وَ إِنِ اسْتُغْنِيَ عَنْہٗ أَغْنٰی نَفْسَہٗ" (مشکٰوۃ المصابیح، کتاب العلم، الفصل الثالث، رقم الحدیث: 251 ) جب رد و قدح کی نوبت آ گئی تو کام کا کیا لطف رہا؟
چندہ کی ضروری تحریک خطابِ عام سے مناسب ہے:
تہذیب: چندہ کی تحریک اگر ضروری ہو تو خطابِ عام سے مناسب ہے، لیکن اگر خطابِ عام میں بھی وجاہت سے متاثر ہونے کا اندیشہ ہوتو چندہ نہ لے، بلکہ کہہ دے کہ اس جلسہ کے بعد کسی کے پاس جمع کر دینا۔
وعظ کا ادب:
تہذیب: وعظ میں تعرض خاص نہ ہونا چاہیے، بلکہ خطابِ عام ہونا چاہیے۔
امر بالمعروف کا ایک نرم طریقہ:
تہذیب: شاہ عبد القادر صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی نظر اثنائے وعظ میں ایک شخص پر پڑی جس کا پائجامہ ٹخنوں سے نیچا تھا، مگر شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے وعظ میں تو اس سے کچھ تعرض نہ کیا، بعد ختمِ وعظ جب سب لوگ چلے گئے تو آپ نے اس شخص سے فرمایا کہ بھائی میرے اندر ایک عیب ہے جس کو تم پر ظاہر کرتا ہوں، وہ یہ کہ میرا پائجامہ ڈھلک کر ٹخنوں کے نیچے جاتا ہے اور اس کے متعلق حدیث میں سخت وعید آئی ہے۔ اس کے بعد آپ نے سب وعیدیں بیان کر دیں۔ پھر کھڑے ہو کر فرمایا کہ ذرا دیکھنا میرا پائجامہ ٹخنوں سے نیچے تو نہیں ہے اس شخص نے شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پیر پکڑ لیے اور کہا: حضرت آپ میں تو یہ عیب کیوں ہو، یہ مرض تو مجھ نالائق میں ہے۔
معلم اور ناصح ہو کر عمل نہ کرنا سخت شرمناک ہے:
تہذیب: معلم اور ناصح ہو کر خود عمل نہ کرنا بہت ہی شرم کی بات ہے۔ اگر ذرا بھی طبیعت سلیم ہو تو معلم اور ناصح ہو کر انسان سب سے پہلے خود اپنی تعلیم پر عمل کرتا ہے۔
وعظ بے عمل کے بیان میں شوکت نہیں ہوتی:
تہذیب: واعظ جس امر پر خود عامل نہیں ہوتا، اس کے متعلق اگر وہ وعظ کہنے بیٹھتا ہے تو الفاظ میں شوکت و صولت نہیں ہوتی، اندر سے دل بجھنے لگتا ہے۔
وعظ سے ہمتِ عمل ہو جانے کا راز:
تہذیب: وعظ کے ذریعہ سے عمل کرنے کی ہمت ہو جانے کا سبب ایک تو حیائے طبعی ہے، دوسرا سبب یہ بھی ہے کہ وعظ کے ذریعہ سے جب آپ نے اہل اسلام کی خدمت کی جس میں اہل اللہ بھی ہوتے ہیں تو یہ اہل اللہ اس سے خوش ہو کر دعا دیتے ہیں، اس کی برکت سے حق تعالیٰ اس کی بھی اصلاح کر دیتے ہیں، کیونکہ ہر جلسۂ وعظ میں کوئی ایسا ضرور ہوتا ہے جو عند اللہ مقبول ہوتا ہے۔
تعلیم و تعلم سے مقصود وعظ ہے وعظ گوئی سیکھنے کا سہل طریقہ:
تہذیب: حضرات انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کا طریقہ وعظ تھا، اور تعلیم و تعلم سے اصل مقصود یہی ہے۔ بعض علما کا عذر یہ ہے کہ وعظ کہنا نہیں آتا۔ یہ قابلِ سماعت نہیں، اس لیے کہ سب کام محنت کرنے ہی سے آتے ہیں۔ اسی طرح وعظ کہنے کا ارادہ کیجئے، اور کچھ دنوں محنت کیجئے، یہ کام بھی آ جائے گا، جس کی سہل تدبیر یہ ہے کہ اوّل اوّل طلبہ کے سامنے مشکوٰۃ وغیرہ لے کر بیٹھ جاؤ اور کتاب دیکھ کر بیان کرو، پھر کچھ دنوں بدوں کتاب کے بیان کرنا شروع کرو اسی طرح ایک دن خوب بیان کرنے لگو گے۔
خطابِ خاص کا دستور العمل:
تہذیب: جہاں اپنا اثر اور قدرت ہو وہاں خطابِ خاص سے نصیحت کریں، مثلاً باپ بیٹے کو، استاد شاگرد کو، پیر مرید کو اور خاوند بیوی کو امر بالمعروف کرے۔ جہاں قدرت نہ ہو وہاں خطاب خاص مناسب نہیں، بلکہ خطاب عام مناسب ہے۔ لیکن یہ خوب خیال رکھیں کہ اپنی طرف سے سختی اور درشتی کا اظہار نہ ہو، بلکہ نرمی اور شفقت سے امر بالمعروف کرے، اس پر بھی مخالفت ہو تو تحمّل کرے۔ اور اگر تحمّل کی طاقت نہ ہو تو خطابِ خاص نہ کرے بلکہ خطابِ عام پر اکتفا کرے۔
وعظ کہنے کی ترغیب:
تہذیب: وعظ کا نفع اتم و اعجل و اسہل ہے کہ ایک گھنٹہ میں پانچ چھ ہزارافراد کا نفع ہو جاتا ہے۔ نیز عوام کو اس سے وحشت بھی نہیں ہوتی، بلکہ دلچسپی ہوتی ہے اور اس کا جلدی اثر ہوتا ہے۔ اس لیے اس کو ضرور اختیار کرنا چاہیے۔
عوام کو مدرسہ سے تعلق پیدا کرانے کا طریقہ:
تہذیب: چندہ دینے والے زیادہ عوام ہیں تو علما کو چاہیے کہ عوام کو اپنی طرف مائل کریں، جس کا طریقہ صرف یہ ہے کہ ہر مدرسہ میں ایک واعظ تبلیغ کے لیے رکھا جاوے جس کا کام صرف یہ ہو کہ احکام کی تبلیغ کرے۔ اور اس کو ہدایا لینے کو قطعاً منع کر دیا جائے اور استحساناً یہ بھی کہہ دیا جائے کہ مدرسہ کے لیے بھی چندہ نہ کرے بلکہ اگر کوئی خود بھی دے تو قبول نہ کرے، بلکہ مدرسہ کا پتہ بتلاوے کہ اگر تم کو بھیجنا ہے تو اس پتہ پر بھیج دو۔ غرضیکہ واعظ کو مُحصّلِ چندہ نہ بنایا جائے۔ جب وعظ بے غرض ہو گا اس کا مخاطب پر بڑا اثر ہو گا۔ پھر عوام کو مدرسہ سے تعلق ہو گا کہ اس مدرسہ سے ہم کو دین کا نفع پہنچ رہا ہے، اس کی امداد کرنی چاہیے۔
مدرسہ کو با وقعت بنانا اور اس کا طریقہ:
تہذیب: اس کی کوشش کرو کہ تمہارے مدرسے اہلِ دنیا کی نظر میں با وقعت ہو جائیں، جس سے قلوب میں طلبا کی وقعت ہو گی۔ اور طلبا کی وقعت ہو گی تو اہل دنیا اپنے بچوں کو عالم بنائیں گے۔ کیونکہ وہ عزت و جاہ کے بڑے بندے ہیں، جس کام میں عزت و جاہ دیکھتے ہیں اس کی طرف جلدی مائل ہوتے ہیں۔ با وقعت بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ علما استغنا برتیں، کیونکہ علما کی عزت استغنا ہی سے ہوتی ہے، عبا و قبا سے نہیں ہوتی۔ پس اول تو یہ چاہیے کہ علما چندہ کا کام ہی نہ کریں، اور اگر ایسا نہ کر سکیں تو کم از کم چندہ میں استغنا ہی کا طریقہ اختیار کریں، کسی کی خوشامد اور للو پتو نہ کیا کریں، نیز آج کل طلبا کو کھانا لانے کے لیے امرا کے گھروں پر بھیجنا مناسب نہیں کہ اس سے طلبا عوام کی نظروں میں ذلیل و حقیر ہوتے ہیں، اور طلبا کی حقارت سے علم و دین عوام کی نظروں میں حقیر ہو جاتا ہے۔
تبلیغ بھی توجہ الی اللہ ہے مگر بواسطہ:
تہذیب: محققین نے تبلیغ کو بھی توجہ الی اللہ ہی فرمایا ہے، مگر بواسطہ۔ جیسے آئینہ میں صورتِ محبوب دیکھی جاوے۔ یہ بھی محبوب ہی کی رؤیت ہے، آئینہ کی رؤیت نہیں۔
توجہ الی الخلق کی مشروعیت کی حکمت:
تہذیب: اصل مقصود و مطلوب بالذات توجہ الی اللہ بلا واسطہ ہے، لیکن حکمتوں کی وجہ سے توجہ بواسطہ یعنی الی الخلق بھی شروع کی گئی تاکہ دوسروں کو بھی ایسا بنایا جائے کہ وہ توجہ الی اللہ بلا واسطہ کے اہل ہو جائیں۔
تہذیب: عدمِ توقعِ نفع یا خوفِ لحوقِ ضرر کے وقت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا وجوب ساقط ہو جاتا ہے۔ اکثر صوفیہ جو عام لوگوں کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا خطاب نہیں کرتے اور صرف ایسے شخص کے خاص خطاب پر اکتفا کرتے ہیں جو اپنے کو اصلاح کی غرض سے ان کے سپرد کر دیتے ہیں، ان کا یہی عذر ہے کہ وہ زمانہ کا رنگ دیکھ کر نفع سے نا امید ہیں۔ تو اس باب میں ان پر ملامت نہ کی جائے گی، وہ اپنے اس فعل میں بھی سنت کے متبع ہیں۔