H1 B3 M 27 (خشوع)
خشوع و خضوع
اکتسابِ خشُوع:
تہذیب: طبیعت کو مجبور کرنے سے خشوعِ نماز حاصل ہوتا ہے، بس انسان اسی کا مکلّف ہے۔ اور مجبور کرنا مجاہدہ ہے اور عمل مع المجاہدہ، افضل و ارضی عند اللہ ہے عمل بلا مجاہدہ سے، جس کو مبتدی طلب کرتا ہے۔ اگر غفلت سے اِدھر اُدھر کے پریشان خیالات موجود ہوں پھر بتکلُّف نماز کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔ اور یہی مجاہدہ ہے اور خود آسانی مطلوب نہیں، چنانچہ حدیث میں ہے: "أَلَّذِيْ یَتَتَعْتَعُ فِیْہِ وَ ھُوَ عَلَیْہِ شَاقٌّ لَّہٗ أَجْرَانِ" (صحیح مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلٰوۃ، باب: فضل الماھر بالقرآن والذی یتتعتع فیہ، رقم الحدیث: 798) اور اگر ﴿وَ إِنَّهَا لَكَبِيْرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِيْنَ﴾ (البقرة: 45) پر نظر کر کے طبیعت پر گرانی ہو تو وہاں بارِ اعتقاد مراد ہے جس ہر مؤمن مبرا ہے۔ اور طبعی بار مذموم نہیں، بلکہ موجبِ زیادت فی الأجر ہے چنانچہ حدیث میں ہے: "وَ إِسْبَاغُ الْوُضُوْءِ عَلَی الْمَکَارِہِ" (صحیح مسلم، کتاب الطھارۃ، باب: فضل إسباغ الوضوء علی المکارہ، رقم الحدیث: 251)
خیالاتِ محمودہ کا آنا، یا لانا، یا باقی رکھنا نماز میں خلافِ خشوع نہیں:
تہذیب: نماز میں سرسری توجہ حروف کی جانب رکھ کر ادا کی جائے اسی طرح اذکارِ معمولہ میں جو حروف زبان سے ادا ہوں وہی دل سے پڑھے جائیں۔ اگر بلا ارادہ عمدہ خیالات نماز و ذکر میں خطور کریں مثلاً آیاتِ احاطہ و قرب و معیت و وسعتِ علم و رحمت، یا آیاتِ ذکرِ ربوبیت، یا آیاتِ کبریا و عظمت، یا انعاماتِ حضرتِ باری تعالیٰ مثل جزاءِ کثیر بر عملِ قلیل، یا آیاتِ تذکرۂ موت و قبر و حشر و حساب و کتاب و عدالت و ثواب و بقائے حضرت احکم الحاکمین، تو یہ سب خیالاتِ محمودہ ہیں، ان کے ازالہ کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اگر خود زائل ہو جائیں تو تجدید و اعادہ کی بھی ضرورت نہیں۔ مقصود یہ ہے کہ خیالِ غیر محمود قصداً نہ لائے اور نہ اس کو باقی رکھے، باقی خیالاتِ محمودہ میں سے جو بھی آ جائے، یا لایا جائے، یا باقی رکھا جائے، یا ایک کی جگہ دوسرا آ جائے، وہ سب مطلوب ہیں۔
حصولِ خشوع کا طریقہ:
حال: نماز اور ذکر وغیرہ میں حال قائم نہیں ہوتا بلکہ دماغ کی مشین اپنا کام کئے جاتی ہے۔
تہذیب: ہم اور آپ کیا چیز ہیں، اکابر کو بھی بکثرت یہ پیش آتا ہے گو ہم سے کم، مگر خالی نہیں، اگر بقصد نہ ہو تو ذرا بھی مضر نہیں، ان شاء اللہ تعالیٰ قدرے اس کی فکر رکھنے سے اور اقبال علی الصلٰوۃ کی تھوڑی تھوڑی عادت ڈالنے سے اس میں معتَدّ بہ تفاوت ہو جائے گا۔
مبتدی کے لئے خشوع کی تحصیل کا طریقہ:
حال: ذکر میں معانی کی طرف التفات رکھنا تو بڑی چیز ہے، صرف الفاظ ہی کا قصد سے ادا کرنا اور اس قصد کے ضمن میں جو توجہ ہو گی وہی کافی ہے؟
تہذیب: ہر لفظ کو اپنے ارادۂ مستقلہ سے پڑھے، مگر زیادہ مبالغہ کی ضرورت نہیں، سرسری توجہ کافی ہے۔ اس طرح تعب بھی نہ ہو گا، وساوس بھی دفع ہو جائیں گے۔
یکسوئی کے حصول میں سرسری توجہ کافی ہے:
حال: جس قدر یکسوئی کے واسطے کوشش کی جاتی ہے اسی قدر اور خیالات اور وساوس کی زیادتی ہوتی جاتی ہے۔
تہذیب: یہی تو غلطی ہے کہ زیادہ کوشش کی جاتی ہے، کیونکہ اس سے طبیعت پریشان ہو کر خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ سرسری توجہ سے ان شاء اللہ تعالیٰ یکسوئی ہو جائے گی۔ اور اگر باوجود اس کے بھی پوری کامیابی نہ ہو تب بھی اطمینان رکھیں، چند روز میں اس طریق سے یکسوئی ضرور ہو جائے گی۔
بوجہ عدمِ خشوع فرض نماز لوٹانے کا علاج:
حال: جس روز خشوع نہیں ہوتا ہے دل پریشان ہوتا ہے، دو دو تین تین مرتبہ فرض کو لوٹاتا ہوں۔
تہذیب: ایسا نہ کریں، اس کے تدارک کے لئے کچھ نوافل پڑھ لیا کریں۔
حضورِ قلبی کے لئے تدبیر تو استعمال کرے مگر ثمرہ کا منتظر نہ رہے:
تہذیب: حضورِ قلبی کے لئے تدبیر کو تو استعمال کرے مثلاً اقبال علی الصلٰوة وغیرہ، لیکن اگر اس پر بھی ثمرہ مرتب نہ ہو تو کچھ ضرر نہیں، اس لئے کچھ پرواہ نہ کرے کیونکہ تدبیر کا استعمال تو اختیاری ہے اور ثمرہ کا حصول غیر اختیاری۔
فرض نماز میں خیالاتِ منتشره کا علاج:
حال: فرض نماز میں خاموش کھڑا رہنا پڑتا ہے (یعنی امام کے پیچھے) اس لئے خیالاتِ منتشرہ رہتے ہیں۔
تہذیب: بلا حرکتِ لسان دل دل میں خیال سے قرأت پڑھا کیجئے۔
حرکتِ نفس کا علاج:
تہذیب: سکون کے دو طریقے ہیں ایک یہ کہ نفس کو تمام خیالات سے خالی کیا جائے، یہ دشوار ہے کیونکہ نفس رات و دن میدانِ خیالات میں گشت لگانے کا عادی ہے۔ دوسرے یہ کہ کسی خیال میں لگا دیا جائے مثلاً مرنا ہے اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔
توجہ کے دو درجے اور ان کے حصول کا طریقہ:
تہذیب: توجہ جو درجۂ عمل میں ہے وہ اختیار میں ہے، اس کا علاج قصد و استحضار ہے۔ جو درجۂ حال میں ہے وہ توجہ کے درجۂ مذکور سے از خود حاصل ہو جاتی ہے۔
تحقیقِ عجیب متعلقِ خشوع:
حال: تراویح میں قرآن شریف سنانے میں خشوع و خضوع نہیں ہوتا۔ حالانکہ ہر رکعت کو جب کھڑا ہوتا ہوں تو خیال کرتا ہوں کہ خیال جنابِ حق تعالیٰ کی طرف عجز و نیاز کے ساتھ رکھوں گا، مگر جب قرآن شروع کرتا ہوں تو اس خیال میں قرأت ختم ہو جاتی ہے کہ کہیں بھول نہ جاؤں اور رکوع و سجدہ میں بہت افسوس ہوتا ہے۔
تہذیب: خشوع نام ہے سکون کا اور یہ خیال کہ کہیں بھول نہ جاؤں، حرکت ہے جو سکون کی ضد ہے۔ کوئی شے اپنی ضد کے ساتھ مجتمع نہیں ہوتی۔ اور یہ خیال طبعًا لازم ہے اس لئے حصولِ خشوع اس حالت میں متعذر ہے عادةً، تو اس کا اہتمام ہی تکلیفِ ما لا یطاق ہے۔ یہ خشوع نہ ہونا مضر اور قابلِ افسوس نہیں ہے، اس لئے کہ جو مقصود ہے خشوع سے کہ غیرِ مقصود کی طرف توجہ نہ ہو وہ حاصل ہے۔ پس گویا خشوع اگرچہ صورتاً نہیں مگر معنیً حاصل ہے کیونکہ یہ خیال تکمیل ہے طاعت کی، اور طاعت مقصود ہے پس توجہ الی المقصود ہے۔ چنانچہ بعض احادیثِ فضلِ خشوع میں "لَمْ یُحْدِّثْ فِیْھِمَا نَفْسَہٗ بِشَیْئٍ مِّنَ الدُّنْیَا" (مرقاة الصعود إلى سنن أبي داود،جلد:۱،صفحہ:98) اور بعض میں "إِلَّا بِخَیْرٍ" وارد ہے۔ اس کی توضیح رسالہ تشرف اول کتاب الصلٰوة میں قابلِ مطالعہ ہے، ہاں طبعًا ناگواری یہ نظیر ہے استغفار عن الغین کی۔
کون سی جمیعت قلب مطلوب ہے:
تہذیب: جمیعتِ قلب وہ مطلوب ہے جس میں اپنی طرف سے اسباب مشوِّشہ کو اختیار نہ کیا جائے۔ پھر اگر جمیعت حاصل نہ ہو تو یہ معذور ہے۔ میں اس پر قسم کھا سکتا ہوں کہ جو تشویشِ قلب اختیار سے ہو وہی مضر ہے، اور اگر بلا قصد و اختیار تشویش ہو وہ کچھ مضر نہیں۔ مثلاً ایک شخص صاحبِ عیال ہے، اس وجہ سے دنیا میں مشغول ہے اور اس کو کسی وقت یکسوئی نہیں ہوتی، نماز و ذکر میں بلا قصد و اختیار وساوس مشوشہ آتے ہیں تو کچھ مضر نہیں۔ اور یہ قاعدہ کچھ حدیث النفس ہی کے ساتھ خاص نہیں بلکہ حدیث اللسان یعنی کلامِ لسانی میں بھی یہی قاعدہ ہے کہ بلا ضرورت ایک کلمہ بھی زبان سے نکالنا قلب کا ستیاناس کر دیتا ہے، مگر قلب پر چونکہ طبیعت محیط ہے اس لئے محسوس نہیں ہوتا، بخلاف اس کے اگر بضرورت تکثیر ہو تو کچھ بھی مضر نہیں۔ مثلاً ایک شخص پہرہ دینے پر نوکر ہے، وہ رات بھر جاگو جاگو کرتا ہے اس سے نورِ قلب میں کچھ بھی کمی نہ آئے گی۔ اسی طرح تحریر میں جب تک ضرورت کا مضمون لکھا جائے گا کچھ ضرر نہ ہو گا اور بے ضرورت اگر ایک جملہ بھی لکھا گیا تو قلب کا ناس ہو جائے گا، کیونکہ تحریر بھی ایک نوع کا کلام ہی ہے۔ بہرحال کلام کی تین قسمیں ہیں: ایک کلامِ نفسی، کلامِ لفظی، کلامِ تحریری۔ کلامِ تحریری میں تحریر کا مطالعہ بھی داخل ہے، اس لئے ہر کتاب کا مطالعہ بھی جائز نہیں۔ غرضیکہ ہر ایک میں ضرورت کا درجہ مضر نہیں۔ اور بلا ضرورت ایک جملہ کا تلفظ، یا کسی بات کا سوچنا، یا لکھنا مضر ہے۔ چنانچہ بعض کلام کو خوشنما بنانے میں سجع وغیرہ کا تکلف کرتے ہیں، چونکہ یہ بلا ضرورت ہے اس لئے قلب کو اس سے ضرر ہوتا ہے، اور اسی کی تعلیم کے لئے قرآن میں سجع کی رعایت نہیں۔ گویا اس میں تنبیہ ہے ہم کو عدمِ تکلف پر کہ دیکھو جب ہم باوجود قدرت کے، سجع کی رعایت نہیں کرتے حالانکہ ہم کو اس میں تکلف نہیں کرنا پڑتا تو تم کو بھی سجع کی رعایت نہ کرنی چاہئے کیونکہ تم کو تکلف کرنا پڑے گا اور بے ضرورت چیز کے لئے تکلف کرنا تم کو مضر ہے۔
خشوع کی کمی کا انجبار کا طریقہ:
تہذیب: اول تو خشوع سے نماز پڑھو، اگر خشوع حاصل نہ ہو بلا خشوع ہی پڑھو۔ ہر نماز کے بعد دعا و استغفار کرتے رہو، اگر ساری عمر کوشش کرنے سے بھی خشوع حاصل نہ ہو تو بلا خشوع ہی پڑھتے رہو مگر استغفار ضرور کرتے رہو۔ ان شاء اللہ تعالیٰ خشوع والوں کے برابر ہو جاؤ گے۔
مخلوق کے ہر کام میں گھسنے سے جمیعتِ قلب برباد ہوتی ہے:
تہذیب: جو لوگ غلبۂ شفقت کی وجہ سے مخلوق کے ہر کام میں گھس جاتے ہیں اور اپنی یکسوئی اور جمیعت قلب کو برباد کرتے ہیں وہ مریض ہیں، ان کو اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔
حکمِ تشتّت در تحصیلِ جمعیت:
تہذیب: جو تشتّت تحصیلِ جمیعت میں ہو وہ اصل ہے، جمیعت ہی ہے، مضر نہیں۔
حدیث میں "فَلْیُقَاتِلْہٗ" کے معنیٰ:
تہذیب: حدیث میں ہے کہ جو نماز یا نمازی کے سامنے سے گزرے وہ شیطان ہے۔ اور ارشاد ہے: "فَلِیُقَاتِلْہٗ" (صحیح بخاری، کتاب الصلٰوۃ، أبواب سترۃ المصلی، باب: یرد المصلی من مر بین یدیہ، حدیث نمبر: 509) امام صاحب کے ذوق میں اس کی علت ہے حفاظتِ خشوعِ صلوٰة جو کہ ایک وصف ہے صلوٰة کا، اور مرور سے اس میں خلل ہوتا ہے۔ اور "فَلْیُقَاتِلْ" کو اگر ظاہر پر رکھا جائے گا تو ذات صلوٰة برباد ہوجاتی ہے، کیونکہ جب کوئی قتال کرے گا تو ہاتھا پائی بھی ہو گی تو پھر نماز کیا باقی رہے گی؟ اور ذاتِ صلوٰة، وصفِ صلوٰة سے زیادہ قابلِ حفاظت ہے، اس لئے امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے اجتہادی ذوق سے یہ سمجھا کہ یہاں پر "فَلْیُقَاتِلْ" زجر پر محمول ہے۔
تہجد میں کثرتِ خشوع کے اسباب:
تہذیب: فرائض میں قلتِ خشوع اور تہجد میں کثرت کے اسباب اکثر طبعی ہوتے ہیں اور وہ بھی مختلف، تو تحتِ ضبط میں نہیں آ سکتے۔ مثلاً فرض کے اوقات میں مشاغل کا ہجوم اور آخرِ شب میں ان کی قلت، یا اُن اوقات میں لوگوں کی اطلاع اور آخرِ شب میں عدمِ اطلاع، یا فرائض میں سب کا اشتراک جو مقلّلِ حظ ہے اور تہجد میں عامل کا امتیاز جو مکثّرِ حظ ہے و نحوِ ذلک۔ اور یہ امور غیر اختیاری ہیں، اس لئے ان اسباب کی تفتیش یا اُن سے متاثر ہونا خلافِ طریق ہے اس لئے غیر ضروری ہے۔ خشوعِ اختیاری (اگرچہ قلیل ہو) خشوعِ غیر اختیاری سے (اگرچہ کثیر ہو) بوجہ اس کے کہ اول مامور بہ ہے، ثانی غیر مامور بہ، بدرجہا افضل ہے۔