حصہ 1 باب 3 ملفوظ 26: تواضع

H1 B3 M 26 (تواضع)

تواضع

کمال شکستگی کے منافع از بس رفیع ہیں:

حال: اکثر خیال دل میں رہا کرتا ہے کہ مجھ سے تمام دنیا والے اچھے ہیں، حتیٰ کہ ہندوؤں کو دیکھتا ہوں تو کہتا ہوں کہ یہ ہزار درجہ مجھ سے اچھے ہیں، کچھ کام تو دنیا ہی کا کر لیتے ہیں، اور میں تو کسی کام کا نہیں رہا۔

تہذیب: یہ حالت از بس رفیع ہے، یہ کمال شکستگی ہے جس کے ثمرات از بس رفیع ہیں۔ جس کی طرف حدیث: "مَنْ تَوَاضَعَ لِلہِ رَفَعَہُ اللہُ" (مشکٰوۃ المصابیح، کتاب الآداب، باب: الغضب و الکبر، رقم الحدیث: 5119) میں اشارہ واقع ہے۔

عارفین نے تصریح فرمائی ہے کہ:

مؤمن مؤمن نباشد، تاکہ آنکہ خود را ز کافر فرنگ بدتر نہ پندارد:

یعنی حالاً، نہ اعتقاداً، ایسا شخص ان شاء اللہ گمراہ نہیں ہوتا، کیونکہ اصل ضلالت کی عجب ہے، مگر اس حالت کی طرف چنداں التفات نہ کیجئے، کام میں لگے رہئے، کہ التفات مضر ہے کہ اس سے کبھی یأس اور کبھی کبرِ تواضع پیدا ہو جاتا ہے۔ "وَ ھٰذَا أَشَدُّ مِنَ الْکِبَرِ الْمَحْضِ"۔

تواضع لِلّٰہیہ کی تعریف:

تہذیب: تواضع للّٰہیہ یہ ہے کہ حقیقت میں وہ اپنے کو لاشیء سمجھے، اور ہیچ سمجھ کر تواضع کرے اور اپنے کو رفعت کا اہل نہ سمجھے، اور سچ مچ اپنے کو مٹانے کا قصد کرے۔

تواضع کا اعلیٰ درجہ:

تہذیب: اتحاد و اتفاق کی جڑ تواضع ہے اور تواضع کی اصل مجاہدۂ نفس ہے، کیونکہ تواضع اس کا نام نہیں کہ زبان سے خاکسار، نیاز مند، ذرۂ بے مقدار کہہ دیا، بلکہ تواضع یہ ہے کہ اگر کوئی تم کو ذرۂ بے مقدار اور خاکسار سمجھ کر بُرا بھلا کہے اور حقیر و ذلیل کرے تو تم کو انتقام کا جوش پیدا نہ ہو اور نفس کو یوں سمجھا لو کہ تُو تو واقعی ایسا ہے پھر کیوں برا مانتا ہے؟ اور کسی کی برائی سے کچھ رنج و اثر نہ ہو تو یہ تواضع کا اعلیٰ درجہ ہے کہ مدح و ذم برابر ہو جائے۔ مطلب یہ کہ عقلاً برابر ہو جائے کیونکہ طبعاً تو مساوات ہو نہیں سکتی۔

اقرارِ خطا سے اور عزّت بڑھ جاتی ہے:

تہذیب: بخدا اقرارِ خطا سے اور عزت بڑھ جاتی ہے، کچھ نہ ہو، یہ تو ضرور ہے کہ اقرارِ خطا میں خدا کی رضا ضرور ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ "وَ مَنْ تَرَكَ الْمِرَاءَ، وَ هُوَ مُحِقٌّ، بُنِيَ لَهُ فِيْ وَسَطِ الْجَنَّةِ" (شرح السنة، رقم الحدیث: 3502)

متواضع کی شناخت:

تہذیب: کسی متواضع سے کبھی کوئی بات تکبر کی نکل جائے تو یہ مضر نہیں، ہاں اس کے افعال اور احوال میں زیادہ غلبہ تواضع کو ہونا چاہئے۔

"مَنْ تَوَاضَعَ لِلہِ رَفَعَہُ اللہُ" کی صورت:

تہذیب: ہماری عزت تو اس میں ہے کہ ہم نماز کی سب سے پہلی صف میں کھڑے ہوں اور دوسرے ہم کو کھینچ کر آگے کریں۔

اتفاق کی اصل تواضع ہے:

تہذیب: اتفاق کی اصل تواضع ہے، جن دو شخصوں میں تواضع ہو گی ان میں نا اتفاقی نہیں ہو سکتی۔

تواضع کی حد:

تہذیب: تواضع کے یہ معنیٰ نہیں کہ خدا تعالیٰ نے جو نعمتیں عطا فرمائی ہیں ان کی اپنی سے نفی کرے، بلکہ معنی یہ ہیں کہ ان کو اپنا کمال نہ سمجھے، محض فضل و رحمت حق سمجھے۔

تواضع مفرط مکلّف ہے:

تہذیب: جس جگہ زیادہ تواضع کرنے سے دوسرے کو تکلیف ہوتی ہو وہاں قصداً اتنی تواضع نہ کرو۔ باقی اگر حال ہی غالب ہو جائے، یا اس احتمال کی طرف التفات ہی نہ ہو، وہ اور بات ہے۔ کیونکہ بعض طبائع کو بلکہ اکثر کو واقعی اپنے بزرگوں کو زیادہ تواضع کرنے سے ندامت اور تکلیف ہوتی ہے وہ اس کو پسند نہیں کرتے۔ چنانچہ مولانا محمد قاسم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی جوتیاں ایک حافظ صاحب نے جو مولانا کے مرید بھی تھے اٹھا کر رکھ دیں، تو مولانا کھڑے ہو گئے اور فرمانے لگے کہ حافظ صاحب یہ جوتے تو تبرک اور سر پر رکھنے کے قابل ہو گئے اب بتلاؤ پاؤں میں کیا پہنوں؟ مطلب یہ تھا کہ آئندہ سے ایسا نہ کرنا، مجھے تکلیف ہوتی ہے۔

وضع و طرز اور تکلف و تصنع کے متعلق طلباء کو نصائح:

تہذیب: لباس اور وضع سے یا اہل دنیا کے طرزِ گفتگو سے عزت کا طلب کرنا انسان کا کام نہیں، یہ تو نہایت بھدّا پن ہے۔ اے طلباءِ مدرسہ! تمہارا فخر یہی ہے کہ جس کی جماعت میں تمہارا شمار ہے تم اس کی اصطلاح اور وضع اور طرز کو اختیار کرو، تمہاری عزت اسی میں ہے۔ اگر مخلوق میں اس سے عزت نہ ہو تو کیا پرواہ ہے؟ خالق کے یہاں تو ضرور عزت ہو گی۔ تم کو تو ایسی تواضع اور پستی اختیار کرنا چاہئے کہ تمام دنیا پستی و تواضع میں تمہاری شاگرد ہو جائے اور تم اس شعر کے مصداق ہو جاؤ اور ببانگِ دہل یوں کہو:

؎ افروختن و سوختن و جامہ دریدن

پروانہ زمن شمع زمن گل زمن آموخت

غرض تم ایسے متواضع ہو جاؤ کہ ہر چیز میں تمہاری ہی تواضع کا اثر ظاہر ہو، تم کو ظاہری اسبابِ عزت کی ضرورت نہیں، انسان تو وہ ہے جو کمالات میں بادشاہ ہو۔ گو ظاہر میں فقیر ہو عارف فرماتے ہیں:

؎ مبین حقیر گدایان عشق را کاین قوم

شہان بے کمر و خسروانِ بے کلاہ اند

اور ایک جگہ اپنی گدائی پر فخر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

؎ گدائے میکده ام لیک وقت مستی بین

کہ ناز بر فلک و حکم بر ستارہ کنم

تم کسی کی تحقیر کی پرواہ نہ کرو اگر کوئی تمہارے لباس پر طعن کرے، کرنے دو، کوئی تمہارے طرز میں عیب نکالے، نکالنے دو، تمہارے لئے اللہ تعالیٰ کی رضا کافی ہے، تم ان کو راضی کرنے کی فکر کرو۔ اور یاد رکھو کہ عشق میں تو ملامت ہوا ہی کرتی ہے۔ تم خدا تعالیٰ کے عاشق بننا چاہتے ہو تو ملامت سننے کے لئے تیار رہو۔

؎ نساز عشق را کنج سلامت

خوشا رسوایی و کوئے ملامت

اپنے لئے کوئی خاص وضع نہ بناؤ، جو محبوب دے پہنو۔ شال دے، شال اوڑھو، کمبل دے، کمبل اوڑھو، اور ہر حال میں خوش رہو، مگر حدودِ شرعیہ سے باہر نہ جاؤ۔

تہذیب: تم اپنے کو مٹا دو، گمنام کر دو، سب سے الگ ہو جاؤ تو پھر تمہاری محبوبیت کی یہ شان ہو گی کہ تم چپ ہو گے اور تمام مخلوق میں تمہارا آوازہ ہو گا۔ جیسے عنقا نے اپنے کو مٹا دیا تو اس کا نام اس قدر مشہور ہوا کہ مخلوق کی زبان زد ہے:

؎ اگر شہرت ہوس داری اسیرِ دامِ عزلت شو

کہ در پرواز دارد گوشہ گیری نامِ عنقا را

صدق تواضع کا طریقہ:

تہذیب: محققین کا قول ہے کہ تم یہ سمجھ کے تواضع اختیار کرو کہ حق تعالیٰ کی عظمت کا حق یہی ہے کہ ان کے سامنے ہر شخص پستی اور تواضع کو اپنی صفت بنائے، اور اپنے آپ کو لاشیء محض سمجھے۔ اس پر حق تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جو اس طرح تواضع اختیار کرے گا، ہم اس کو رفعت عطا کریں گے، لیکن تم رفعت کی نیت سے تواضع اختیار نہ کرو، گو ایک گونہ رفعت اس طرح بھی حاصل ہو جائے گی، کیونکہ تواضع میں خاصیت ہے گو کسی نیت سے ہو کہ وہ قلوب کو کشش کرتی ہے، مگر اس صورت میں حقیقی رفعت یعنی قرب و رضاءِ حق حاصل نہ ہو گی۔