حصہ 1 باب 3 ملفوظ 25: صدق و خلوص

H1 B3 M 25 (صدق و خلوص)(عبدالستار)


صدق و خلوص

محسن کو دھوکہ دینا خلافِ خلوص ہے:

تہذیب: اپنا محسن مفلس و تنگدست یہ کہے کہ میرے روزہ کا فدیہ دیدو اور محسَن الیہ محض اس کی تسلی کے لئے فدیہ کا حساب جوڑ کر مسکین کو دیدے، مگر دل سے یہ نیت کر کے کہ یہ رقم اپنی زکوٰةِ واجبہ میں دیتا ہوں تو زکوٰة ادا ہو جائے گی۔ مگر اپنے محسن کے ساتھ ایسا دھوکہ کرنا خلوص کے خلاف ہے۔ گو فدیہ کی رقم بوجہ ناداری کے محسن پر واجب بھی نہ ہو۔

اخلاص کے مراتب:

تہذیب: اخلاص کے مراتب: (1) محض خدا تعالیٰ کے لئے کام کرے، مخلوق کا اس میں تعلق ہی نہ ہو۔ (2) مخلوق کو راضی کرنے کے لئے کام کرے مگر کوئی غرض دنیوی مطلوب نہ ہو، صرف اس کا خوش کرنا مقصود ہو جو دینی غرض ہے۔ (3) کچھ نیت نہ ہو، نہ دنیا مطلوب ہو، نہ دین۔ یونہی خالی الذہن ہو کر کوئی عمل کیا، یہ بھی اخلاص یعنی عدمِ ریا ہے۔

عیادت میں اخلاص کی صورتیں:

تہذیب: بیمار پرسی میں اسی طرح ایک نیت تو یہ ہے کہ مسلمان کی عیادت سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتے ہیں، یہ تو اعلیٰ درجہ کا اخلاص ہے۔ اور ایک نیت یہ ہے کہ عیادت سے یہ بیمار خوش ہو گا، یہ بھی اخلاص ہے، کیونکہ تطییبِ قلبِ مؤمن بھی عبادت ہے۔ ایک نیت یہ ہے کہ بیمار کا حق ہے کہ اس کی عیادت کی جائے، یہ بھی اخلاص ہے۔ ایک صورت یہ ہے کچھ نیت نہ ہو، کوئی غرض دینی یا دنیوی ذہن میں نہیں، یہ بھی اخلاص ہے۔ بس ریا یہ ہے کہ اس نیت سے جائے کہ اگر میں نہ جاؤں گا تو کل کو یہ مجھے پوچھنے نہ آئے گا۔ یہ دنیوی غرض ہے، بس جب تک دنیوی غرض ہو اخلاص نہیں ہے۔

خلوِّ ذہن اخلاص ہے:

تہذیب: خلوِ ذہن بھی اخلاص ہے، اگر کوئی نیت حاضر نہ ہو تو اس کے سوچنے میں دیر نہ کرو، بے فکر ہو کر کام کر لو، تم مخلص ہی ہو گے، ریا کار نہ ہو گے، تم اپنی طرف سے بُرا قصد نہ کرو۔

صدق، اخلاص کی تحقیق اور اس کی تحصیل و تسہیل کا طریقہ:

تہذیب: جس طاعت کا ارادہ ہو اس کا کمال کا درجہ اختیار کرنا، یہ صدق ہے۔ مثلاً نماز کو اسی طرح پڑھنا جس کو شریعت نے صلوٰةِ کاملہ کہا ہے، یعنی اس کو مع آدابِ ظاہرہ و باطنہ کے ادا کرنا۔ علیٰ ہذا تمام طاعات میں جو درجہ کمال کا شریعت نے بتلایا ہے، اس کا خیال کرنا صدق ہے۔ اور ان طاعات میں غیرِ طاعت کا قصد نہ کرنا یہ اخلاص ہے۔ مثلاً نماز میں ریا کا قصد نہ ہو جو کہ غیرِ طاعت ہے، رضائے غیرِ حق کا قصد نہ ہو جو غیر طاعت ہے۔ اور صدق موقوف ہے ما بہ الکمال کے جاننے پر، اور اخلاص موقوف ہے غیرِ طاعت کے جاننے پر، اس کے بعد نیت جزو اخیر رہ جاتا ہے، یہ دونوں اختیاری ہیں۔ طریقِ تحصیل تو اسی سے معلوم ہو گیا آگے رہا معین، وہ استحضار ہے وعدہ اور وعید کا، اور مراقبہ نیت کا۔ یعنی اس کی دیکھ بھال کہ میری نیت غیرِ طاعت کی تو نہیں۔

اخلاص و خشوع کا فرق:

تہذیب: اخلاص راجع ہے نیت کی طرف، اور خشوع و خضوع سکون ہے جوارح و قلب کا حرکات منکرہ ظاہرہ یا باطنہ سے۔ اگرچہ ان حرکات میں نیت غیرِ طاعت کی نہ ہو۔ پس اخلاص خشوع سے مفارق ہو سکتا ہے۔

اخلاص کے دو درجے:

سوال: کسی طاعت میں غیرِ طاعت کا قصد تو نہ ہو مگر دوسری طاعت کا قصد ہو، جیسے نماز کی حالت میں ریا کا قصد نہیں، نہ اور کسی فعل غیرِ طاعت کا قصد ہے مگر نماز کی حالت میں قصداً کسی شرعی مسئلہ کا مطالعہ کرتا ہے، یا کسی سفرِ طاعت کا نظام سوچتا ہے قصداً، تو یہ اخلاص کے خلاف ہے یا نہیں؟

تہذیب: یہ مسئلہ دقیق ہے۔ قواعد سے اس کے متعلق عرض کرتا ہوں۔ اس وقت دو حدیثیں میری نظر میں ہیں، ایک مرفوع، جس میں یہ جزو ہے: "صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ مُقْبِلًا عَلَیْہِمَا بِقَلْبِہٖ" (صحیح مسلم، کتاب الطھارۃ، باب الذکر المستحب بعد الصلٰوۃ، رقم الحدیث: 234) اور دوسری موقوف، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول، جس میں یہ جزو ہے: "إِنِّيْ أُجَھِّزُ جَیْشِيْ وَ أَنَا فِي الصَّلٰوةِ" (الصحیح للبخاری، أبواب العمل فی الصلٰوۃ، باب: یفکر الرجل الشیئ فی الصلٰوۃ) مجموعۂ روایتین سے دو درجے مفہوم ہوئے: ایک یہ کہ جس طاعت میں مشغول ہے اس کے غیر کا قصداً استحضار بھی نہ ہو، اگرچہ وہ بھی طاعت ہی ہو۔ دوسرا درجہ یہ کہ دوسری طاعت کا استحضار ہو جائے۔ اور ان دونوں میں یہ امر مشترک ہے کہ اس دوسری طاعت کا اس طاعت سے قصد نہیں ہے۔ مثلاً نماز پڑھنے سے یہ غرض نہیں کہ نماز میں یکسوئی کے ساتھ تجہیزِ جیش کریں گے۔ پس حقیقتِ اخلاص تو دونوں میں یکساں ہے اس میں تشکیک نہیں، البتہ عوارض کے سبب ان میں تفاوت ہو گیا۔ اور درجہ اول اکمل اور دوسرا درجہ اگر بلا عذر ہے تو غیرِ اکمل ہے اور اگر عذر سے ہے تو وہ بھی اکمل ہے، جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ضرورت تھی۔ اور اس کا معیار اجتہاد ہے لیکن ہر حال میں اخلاص کے خلاف نہیں، البتہ خشوع کے خلاف ہونا، نہ ہونا نظری ہے۔ میرے ذوق میں بصورتِ عذر یہ خلافِ خشوع بھی نہیں، اگر ضرورت ہو۔

نماز میں قصد تعلیم کا خلافِ احتیاط ہے:

سوال: اگر نماز اس غرض سے پڑھتا ہے، کوئی نا واقف آدمی میری اس نماز کو دیکھ کر اپنی نماز درست کر لے۔ ایسی طاعت کا قصد نماز میں مخل اخلاص ہے یا نہیں؟

تہذیب: اس میں خود نماز سے مقصود غیر نماز ہے، اس میں بظاہر خلافِ اخلاص ہونے کا شبہ ہو سکتا ہے۔ مگر میرے ذوق میں اس میں تفصیل ہے کہ شارع کے لئے تو یہ خلافِ اخلاص نہیں وہ اس صورت میں تبلیغ کے مامور ہیں۔ اور غیرِ شارع کے لئے مامور بہ نماز میں خلافِ احتیاط ہے اور خاص تعلیم کے لئے مستقل نماز کا حرج نہیں۔

جنت اور رضائے حق کی طلب خلافِ اخلاص نہیں:

تہذیب: جنت اور ثواب و رضائے حق کی طلب اخلاص کے منافی نہیں، کیونکہ یہ غرض خود شرعاً مطلوب ہے۔ چنانچہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَ فِيْ ذٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ﴾ (المطففين: 26) حدیث میں ہے "اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَ مَا قَرَّبَ إِلَيْهَا مِنْ قَوْلٍ أَوْ عَمَلٍ" (سنن ابن ماجه، کتاب الدعاء، باب: الجوامع من الدعاء، رقم الحديث: 3846) علاوہ اس کے جنت محلِ رضا ہے تو جب رضا مطلوب ہے تو محلِ رضا بھی مطلوب ہونا چاہیے۔ دوسرے یہ کہ جنت کی طرف رغبت کرنے اور اس کی درخواست کرنے سے بھی رضائے حق حاصل ہو گی کیونکہ اس میں بھی ایک حکم کا امتثال ہے۔

کسی فعل کے خالصاً لوجہِ اللہ ہونے کی علامت اور نفسانیت و للّٰہیت:

تہذیب: کسی فعل کے خالصاً لوجہِ اللہ ہونے کی علامت یہ ہے کہ جو بات لوجہِ اللہ ہوتی ہے وہ دل آزار پیرایہ میں نہیں ہوتی، نہ سخت لہجہ میں ہوتی ہے، بلکہ ایسی شفقت اور ہمدردی کے ساتھ ہوتی ہے جیسے باپ بیٹے کا کوئی عیب دیکھتا ہے تو اس کو آہستہ سے علیحدگی میں سمجھاتا ہے اور کسی کے سامنے گاتا نہیں پھرتا۔ اور دوسری علامت خلوص کی یہ ہے کہ یوں سمجھو کہ اگر میں ان کی جگہ ہوتا اور وہ میری جگہ ہوتے اور وہ مجھ پر اعتراض کرتے تو کیا ان کے اعتراض کو میں ٹھنڈے دل سے سنتا یا مجھے اس سے ناگواری ہوتی، خدا کو حاضر و ناظر جان کر اس پر نظر کرے، اگر دل میں دوسرے کے اعتراض سے ناگواری پائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ تم میں اہلیت اور نیت اصلاح کچھ نہیں ہے، صرف تعنُّت ہے اور یہ جتلانا چاہتے ہو کہ ہم بھی اہلِ رائے ہیں۔ ایک علامت اہلیت کی یہ ہے کہ ایک بار اپنی رائے پیش کر کے اس پر اصرار نہ کرے گا، نہ ان کے (جن کو رائے دے رہا ہے) درپے ہو گا۔ یہ علامتیں ایسی ہیں جن سے للّٰہیت اور ننفسانیت میں بخوبی فرق کیا جا سکتا ہے۔

خلوص میں برکت ہے:

تہذیب: جو کام کرو خلوص اور للّٰہیت سے کرو نفسانیت سے نہ کرو، ورنہ برکت جاتی رہتی ہے چاہے کیسا ہی نیک کام ہو۔ اور چاہے ذرا سا کام ہو مگر خلوص کے ساتھ ہو تو اس میں برکت ہوتی ہے، چاہے اس کا کوئی معاون بھی نہ ہو۔

مخالفین کے اعتراضات کے دفعیہ میں بھی کوشش نہ کرو:

تہذیب: مخالفین کے اعتراضات کے دفعیہ میں بھی کوشش نہ کریں، یہ بھی ایک مشغلہ ہے۔ اپنا کام خلوص سے کیے جائیں، سب شور و غل آپ ہی دب جائیں گے۔

تطییبِ قلبِ مسلم عبادت ہے:

تہذیب: ہر مسلم کی ارضاء عین ارضاءِ حق ہے، حدیث میں تطییب قلب مؤمن کی جا بجا تاکید ہے اور اسی لئے "تَھَادَّوْا تَحَابُّوْا" (مؤطا مالک، کتاب الجامع، باب: ما جاء فی المصافحۃ، رقم الحدیث: 2641) حضور نے فرمایا کہ باہم ایک دوسرے کو ہدیہ دیا کرو، اس سے باہم محبت ہو گی۔

ارضائے شیخ عین ارضائے حق ہے:

تہذیب: اگر قرّاء اس نیت سے بَنا سنوار کر قرآن سنائیں کہ اس سے لوگوں کا دل خوش ہو گا اور مسلمان کا جی خوش ہونا اللہ تعالیٰ کی رضا کا سبب ہے، تو یہ ریا میں داخل نہیں بلکہ طاعت ہے۔ جب ہر مسلمان کا راضی کرنا عین ارضائے حق ہے تو شیخ کا تو بہت زیادہ حق ہے۔

صرف ارضائے حق مطلوب ہے:

تہذیب: دنیائے مذموم کے لئے کسی کو راضی نہ کرو، بس خدا کو راضی کرنے کی فکر کرو، اور جس کو بھی راضی کرو اُسی کے لئے راضی کرو۔

جنت اور ثواب اور رضائے حق اخلاص کے منافی نہیں:

تہذیب: جنت اور ثواب و رضائے حق کی طلب اخلاص کے منافی نہیں، کیونکہ یہ غرض تو خود مطلوب ہے۔

حج میں اخلاص کے خلاف باتوں کا بیان:

تہذیب: حج میں اخلاص کے خلاف یہ باتیں ہیں: (1) یہ کہ حج سے پہلے کوئی خرابی اس میں ڈال دی جائے، مثلاً حاجی کہلانے کی نیت ہو، یا مالِ حرام سے سفر کیا جائے۔ (2) یہ کہ حج کے ساتھ ساتھ خرابیاں ہوتی رہیں، مثلاً معصیت کرتے رہیں، توبہ نہ کی ہو گناہوں سے، نمازیں چھوڑ دیں۔ (3) یہ کہ حج کر کے اس کو خراب کیا جائے، مثلاً باتوں میں اپنے حج کا اظہار قصداً کیا جائے، افتخار و اشتہار اور تعظیم و تکریم کی خواہش ہو یا حج کی تکالیف بیان کرے۔

خلو عن الاخلاص کی علامت:

تہذیب: جس کام میں حظِ نفس ہو، سمجھ لو کہ وہ اخلاص سے خالی ہے، اور بجائے ثواب کے اس میں گناہ کا اندیشہ ہو گا۔ اس کا علاج مجاہدہ ہے کہ مقتضیاتِ نفس کی مخالفت کی جائے۔

سیاسیات میں بھی تواضع اور اخلاص کی سخت ضرورت ہے:

تہذیب: حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ مشورہ اور ان کی عمر بھر کی سیاسیات ہم کو یہ سبق دیتی ہے کہ میدانِ جنگ میں بھیجے جانے کے قابل وہ ہے جس میں بہادری کے ساتھ تواضع اور اخلاص بھی اعلیٰ درجہ کا ہو۔ تواضع کی برکت سے فوج میں اتحاد و اتفاق قائم رہے گا، اور اخلاص کی برکت سے دنیا میں امن و امان قائم رہے گا، ظلم و فساد کا بازار گرم نہ ہو گا، کیونکہ جو شخص محض اللہ کے لئے اور اس کا بول بالا کرنے اور توحید کا جھنڈا بلند کرنے کے لئے میدان میں نکلے گا، وہ حکمِ خداوندی کے خلاف ایک قدم بھی آگے نہ بڑھائے گا۔

طریقِ تصحیحِ خلوصِ نیت:

تہذیب: تم کو کوئی کام تکبر، نفسانیت، قومی حمیت، حبِ وطنی اور ناموری کے واسطے نہ کرنا چاہئے، بلکہ ہر کام میں حب فی اللہ، بغض فی اللہ، رضائے الٰہی اور اعلائے کلمۃ اللہ کا قصد کرنا چاہیے۔

علامتِ فنائے تام:

تہذیب: جب عارف کو فنائے تام حاصل ہو جاتا ہے اس وقت اپنے تمام کمالات پر تو کیا نظر ہوتی، اپنے وجود پر بھی نظر نہیں رہتی۔ بلکہ وہ تو یوں کہتا ہے: "وُجُوْدُکَ ذَنْبٌ لَّا یُقَاسُ بِہٖ ذَنْبٌ" اب جو شخص اپنے وجود کو بھی ذنب سمجھے، وہ کمالات کو اپنے لئے کیوں کر ثابت کرے گا؟ وہ تو بجز محبوب کے سب کی نفی کرے گا، اپنی بھی اور اپنے کمالات کی بھی۔

اپنے اعضاء کی خدمت کرنے کی نیت:

تہذیب: اگر سر میں درد ہو تو تیل لگانا چاہیے، کوئی مقوِّی دوا یا غذا استعمال کرنا چاہیے، کیونکہ یہ سرکاری مشین ہے، اس کی حفاظت ضروری ہے۔ جیسے انجن کی مشین کو تیل دینا اور صاف کرنا ضروری ہے، اسی طرح ہاتھ پیر میں درد ہو تو مالش کرنا، زخم ہو جائے تو مرہم پٹی کرنا۔ اور سب میں یہ نیت کرو کہ اس سے صحت ہو گی تو عبادت کامل طور پر ادا ہو گی۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ معذور کی نماز بھی کامل ہی ہوتی ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ گو معذور کی عبادت کا ثواب بھی تندرست کے برابر ہو، مگر تجربہ اکثر یہ ہے کہ حالتِ صحت میں جیسا تعلق بشاشت کا قلب کو حق تعالیٰ سے ہوتا ہے، مرض میں وہ تعلق نہیں ہوتا۔

تصنیفی نیت خلاف اخلاص ہے مع مثال:

تہذیب: بعض اوقات نیت اچھی نہیں ہوتی مگر نفس فرضی نیت کر لیتا ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ریا کار نہ ہو۔ یہ نیت ہے کہ ایک مسافر کا اسباب بندھا رکھا ہے، ٹکٹ اسٹیشن سے لانے کو آدمی بھیج رکھا ہے اور کوئی صاحب اس سے کہیں کہ تم امام بن کر نماز پڑھا دو اور اس کے لئے قیام کی نیت کرو۔

تکمیلِ اعمال ضروری ہے:

تہذیب: تکثیرِ اعمال ضروری ہیں، ہاں تکمیلِ اعمال ضروری ہے۔