H1 B3 M 24 (رضا بالقضاء)
رضا بالقضاء
تطبیق بین الرضا و الدعاء:
تہذیب: دعا کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ہم آپ کی اجازت سے وہ چیز مانگتے ہیں جو ہمارے علم میں مصلحت و خیر ہے۔ اگر آپ کے علم میں بھی وہ خیر ہے تو عطا کر دیجئے، ورنہ نہ دیجئے، ہم دونوں حال میں راضی ہیں۔ مگر اس رضا کی علامت یہ ہے کہ قبول نہ ہونے سے شاکی اور تنگ دل نہ ہو، دعا کرتا رہے، دعا کرنا خلافِ رضا نہیں مگر دعا میں (باستثنائے محلِ استخارہ کے، اس کا خیر ہونا اپنے نزدیک بھی متردّد فیہ ہے) یہ نہ کہا جائے کہ اگر آپ کے علم میں خیر نہ ہو تو نہ دیجئے، کیونکہ یہ خلاف ہے حکمتِ مشروعیتِ دعا کے، اور وہ حکمت اظہار ہے احتیاج کا اور کہنے میں ابہام ہے استغناء کا۔
اہل اللہ محض اظہارِ عبدیت کے لئے دعا کرتے ہیں:
تہذیب: اہل اللہ محض حکم کی وجہ سے اظہارِ عبدیت کے لئے دعا کرتے ہیں۔ اس واسطے دعا نہیں کرتے کہ ہم نے جو مانگا وہی مل جائے، بلکہ ہر حال میں خدا کی رضا پر راضی رہتے ہیں، خواہ قبول ہو یا نہ ہو۔
رضا بالقضاء کی حقیقت اور اس کی تحصیل کا طریقہ:
تہذیب: رضا بالقضاء کی حقیقت ترکِ اعتراض علی القضاء ہے۔ اگر الم کا احساس ہی نہ ہو تو رضا طبعی ہے، اور اگر الم کا احساس باقی رہے تو رضا عقلی ہے۔ اور اول حال ہے جس کا عبد مکلؔف نہیں اور ثانی مقام ہے جس کا عبد مکلؔف ہے۔ تدبیر اس کے تحصیل کی استحضار ہے رحمت و حکمت الٰہی کا۔ واقعات خلافِ طبع ہیں۔
رضا کی حقیقت:
حال: نقصاناتِ مالیہ سے طبیعت سے قلق و صدمہ بہت ہوتا ہے گو زبان سے کسی طرح کا اظہار بھی نہیں ہے، مگر نقصانات پر آمادگی بھی نہیں کہ مجھے یہ حالت رضا بالقضاء کے خلاف معلوم ہوتی ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ ہمارے نقصانات ہی کو بہتر سمجھ رہے ہیں تو ہم کو اس میں صدمہ کی کونسی بات ہے؟ اور یہی سمجھ کر سکون بھی ہوتا ہے، مگر طبعًا یہ حالت نہیں۔
تہذیب: قلقِ طبعی بلکہ مال کی حب طبعی بھی مذموم نہیں، نہ رضا بالقضاء کے منافی ہے۔ رضا کی حقیقت ہے ترکِ اعتراض علی اللہ۔ سو جو کیفیت آپ نے حبِ عقلی کی لکھی ہے یہی رضا ہے۔
نقصان پر رنج ہونا خلافِ رضا نہیں ہے:
تہذیب: حقیقت رضا کی ترکِ اعتراض علی اللہ ہے، نقصان پر رنج ہونا خاصۂ بشری ہے، ہاں اس کا مکلّف ہے کہ خدا تعالیٰ پر اعتراض نہ ہو، اس سے ناراض نہ ہو جائے۔
تکلیف و رضا کا جمع ہونا:
تہذیب: محقق جو رضا و تکلیف کو جمع کر لیتا ہے تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ وہ عقلاً خوش ہوتا ہے اور طبعًا متألم ہوتا ہے۔ تکلیف کی بات سے طبعًا تکلیف ضرور ہوتی ہے مگر عقلاً اس کی وجہ سے کہ: "ہر چہ از دوست می رسید نیکو ست" وہ تکلیف شیریں ہو جاتی ہے۔
مولیٰ حقیقی سے جو عطا ہوتا ہے اس وقت کے مناسب وہی ہوتا ہے:
تہذیب: جس وقت مولیٰ حقیقی سے جو عطا ہوتا ہے اس وقت کے مناسب وہی ہوتا ہے، اس کے خلاف کی تمنا نہ چاہیے۔