حصہ 1 باب 3 ملفوظ 23: تفویض و توکل

H1 B3 M 23 (تفویض و توکل)

219

تفویض و توکُّل

طریقہ حصولِ تفویض:

تہذیب: خدا کی تجویز میں اپنی تجویز کو فنا کر دو۔ ابتداء میں تو اہل اللہ کی یہ حالت تکلف کے ساتھ حاصل ہوتی ہے، خدا تعالیٰ کی حکمت و قدرت کو سوچ سوچ کر اپنے ارادۂ تجویز کو فنا کرنا پڑتا ہے، پھر یہ اُن کے لئے امرِ طبعی بن جاتی ہے۔

حصولِ تفویض کا دوسرا طریقہ:

تہذیب: اپنے ارادہ کو خدا کے ارادہ کا تابع کر دیں کہ جو کچھ ہو گا، ہم اُس پر راضی ہیں۔ اس پر عمل شروع کر دیجئے اور برابر کرتے رہئے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ ایک دن ملکۂ راسخہ پیدا ہو جائے گا اور اسی سے راحت حاصل ہو گی، بدوں اس کے راحت نہیں مل سکتی۔ اور یہ کچھ مشکل نہیں، کیونکہ کثرتِ تکرار سے سب کام آسان ہو جاتے ہیں۔ دیکھئے آج کل جو لوگ پختہ حافظ ہیں وہ پہلے ہی دن سے پختہ نہیں ہوئے، بلکہ کثرتِ تکرار سے پختہ بنے ہیں، یا آج جو خوش نویس ہے وہ کثرتِ مشق ہی سے خوش نویس ہوا ہے، اسی طرح کثرت تکرار سے تفویض حاصل ہو جائے گی، یہی عین عبدیت ہے اور بندگی ہے، غلام کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔

اعتقادِ تقدیر میں بڑی قوت ہے:

تہذیب: قلب کو جتنی قوت اعتقادِ تقدیر سے ہوئی ہے، اور کسی چیز سے نہیں ہو سکتی۔ کفار چاہے لاکھ یاقوتیاں کھائیں مگر اس اکسیر کے سامنے سب گَرد ہیں۔ یہ قائلِ تقدیر کسی حالت میں متزلزل نہیں ہو سکتا۔ جو مصیبت سامنے آئے گی، یوں کہے گا کہ یہ تو مقدر تھی، ٹلنے والی نہ تھی، خواہ میں راضی ہوں یا ناراض۔

پھر خدا کی تقدیر سے ناراض ہو کر عاقبت بھی کیوں خراب کی؟ پھر اس کے ساتھ اُس کے دل میں یہ آتا ہے کہ اس میں ضرور کوئی حکمت ہے۔

مفوَّضِ کامل کی شناخت:

تہذیب: مفوض کامل وہ ہے کہ اگر عمر بھر اس کے کان میں یہ آواز آئے "إِنَّکَ مِنْ أَھْلِ الْجَنَّةِ" یا یہ آواز آتی رہے کہ "إِنَّکَ مِنْ أَھْلِ النَّارِ" تو کسی وقت بھی عمل میں ذرہ برابر بھی کمی نہ کرے۔ بدستور کام میں لگا رہے۔ نہ پہلی آواز سے بے فکر ہو، نہ دوسری آواز سے دل برداشتہ ہو۔

توکّلِ مطلوب:

تہذیب: توکّلِ مطلوب یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ پر اعتقاد رکھو، اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا جو وہ چاہیں گے وہی ہو گا اور خلافِ شرع تدبیر نہ کرو، واللہ تم متوکِّل ہو۔

تمام تدابیر کے بعد تفویض ہی سے گرہ کھلتی ہے:

تہذیب: حضرت! بہت سے واقعات ایسے ہوئے ہیں کہ جن میں تمام تدبیریں ختم ہو جاتی ہیں اور (لگتا ہے کہ) کام نہیں ہو گا۔ بس گرہ اس وقت کھلتی ہے جب بندہ یوں کہتا ہے کہ اے اللہ! آپ ہی اس کام کو پورا کریں گے تو پورا ہو گا، میں تو عاجز و در ماندہ ہوں۔

تفویضِ کلی کے حصول کا طریقہ:

تہذیب: مرتے وقت تفویضِ کلی اسی کو حاصل ہے جو زندگی بھر اسی میں مشغول رہا ہو، ورنہ موت کا وقت تو سخت نازک ہے، وہ تحصیلِ نسبت و طے مقامات و تکمیلِ تفویض کا وقت تھوڑا ہی ہے کہ اسی وقت کام شروع کرو اور اسی وقت حاصل بھی کر لو۔

صاحبِ تفویض تدابیر کو محض سنت سمجھ کر کرتا ہے:

تہذیب: صاحبِ تفویض تو ہر امر میں ابتدا ہی سے تفویض کرتا ہے۔ اور تدبیر جو کچھ کرتا ہے محض سنت و اطاعت سمجھ کر کرتا ہے۔ اس کی نیت یہ نہیں ہوتی کہ تدبیر ضرور کامیاب ہی ہو بلکہ وہ کامیابی اور ناکامی کو حق تعالیٰ کے سپرد کر کے کوشش کرتا ہے اور دونوں حالت میں راضی رہتا ہے۔

تفویضِ حقیقی کا معیار:

تہذیب: تفویض سے بڑھ کر راحت کا آلہ دنیا میں کوئی نہیں مگر راحت کی نیت سے تفویض کرنا دین نہیں بلکہ دنیا ہے۔ حقیقی تفویض وہ ہے جس میں یہ بھی قصد نہ ہو کہ اس سے چین ملے گا، بلکہ محض رضائے حق کا قصد ہو۔

توکّلِ مستحب کی شرائط:

تہذیب: توکّلِ مستحب کے لئے ضروری ہے فطرتاً قوتِ قلب اور حقوقِ واجبہ کا ذمہ ہونا، یا اہل حقوق کا بھی ایسا ہی ہونا۔

تفویض کی حقیقت:

تہذیب: تفویض کے معنی ترکِ تدبیر نہیں، بلکہ اس کے معنی صرف یہ ہیں کہ خدا کے سوا کسی پر نظر نہ رکھے، تدبیر کرے اور تدبیر کے نتیجہ کو خدا کے سپرد کر دے۔

راحت کا نسخۂ اکسیر:

تہذیب: تم اپنی طرف سے نہ بلا تجویز کرو نہ راحت، بلکہ جو وہ تجویز کر دیں اس پر راضی رہو۔ حضرت! یہ نسخہ ایسا اکسیر ہے جس سے نہ اہل دنیا کو استغنا ہے نہ اہل دین کو، نہ علماء کو استغنا ہے نہ عرفا کو، بلکہ تمام عالَم اس کا محتاج ہے۔

اللہ تعالیٰ کے سامنے ہماری مثال ایسی ہے جیسے لنگڑا ہرن شیر کے پنجے میں ہو:

تہذیب: واللہ! سارے راستے بند ہیں، تم کہیں ان کے قبضے سے باہر نہیں جا سکتے۔ بس ہماری مثال ایسی ہے جیسے لنگڑا ہرن شیر کے پنجے میں ہو۔ اب بتلاؤ کہ اگر لنگڑا ہرن شیر کے پنجہ میں ہو، چھوٹنے کی کوشش کرے تو یہ اس کی حماقت ہے یا نہیں؟ بس اس کی خیر اسی میں ہے کہ اپنے کو شیر کے سامنے ڈال دے اور اس کے ہر تصرف پر راضی ہو جائے، خواہ کھا لے، خواہ چھوڑ دے۔

؎ غیر تسلیم و رضا کو چارہ

در کفِ شیر نر خوں خوارہ

اسلام کی حقیقت تفویض ہے:

تہذیب: اسلام کی حقیقت تفویض ہے جو تمام حالات کو شامل ہے، خواہ حالات آفاقیہ ہوں، خواہ انفسیہ ہوں۔ پھر انفسیہ میں خواہ احوال حسیہ ہوں جیسے مرض و صحت اور قوت و ضعف، خواہ باطنیہ ہوں جیسے قبض و بسط، ہیبت و انس اور محبت شوق و امثالہا، سب کو اپنے سر آنکھوں پر رکھے۔

محققین کی تفویض کا حاصل طلبِ عبدیت ہے و بس:

تہذیب: محققین تفویض بغرضِ راحت کو دنیائے محض کہتے ہیں۔ وہ تفویض کے طالب محض اس لئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کچھ حقوق بندہ پر ہیں۔ منجملہ ان کے یہ حق بھی ہے کہ بندہ اپنے ارادہ اورتجویز کو ان کے ارادہ و تجویز میں فنا کر دے۔ ان کو محض عبدیت مطلوب ہے اور حق الوہیت کا ادا کرنا یہی عبدیت ہے۔

مربیٔ حقیقی کے طریقِ تربیت پر راضی رہنا چاہیے:

حال: اعتکاف کی حالت میں ملازموں پر غیظ و غضب اور بعض اوقات مار پیٹ کی نوبت بھی آ جاتی ہے جو یونہی آداب مسجد کے خلاف ہے چہ جائیکہ حالتِ اعتکاف میں، اس لئے اعتکاف کے خاتمہ پر بجائے دل مسرور مطمئن ہونے کو ملامت ہی کرتا ہے۔

تہذیب: اگر مربیٔ حقیقی کو اسی حالت کے ذریعہ سے تربیت پسند ہو کہ ایسی لغزشیں ہوں جن سے اپنے اعتکاف پر نظر ہی نہ ہو، بلکہ بجائے ناز کے اس پر استغفار اور ندامت ہو تو پھر یہ بھی عین رحمت ہے۔

تعلیم تفویض:

تہذیب: "ہر چہ از دوست می رسد نیکوست" خواہ عسرت ہو یا فراخی اس پر کار بند رہنا چاہیے۔

عالَم میں خیر و شر، ایمان و کفر سب مطابقِ حکمت ہیں:

تہذیب: عالَم میں خیر و شر، ایمان و کفر سب مطابق حکمت کے ہیں۔ چنانچہ محققین نے اس حکمت کو اس طرح واضح بیان فرمایا ہے کہ صفاتِ الٰہیہ سب جمیل ہیں اور جمال مقتضی ظہور کا ہے، پس اسماءِ الٰہیہ (جو صفات الٰہیہ میں) بھی مقتضی ہوں گے ظہور کے، اور اسماء کی دو قسمیں ہیں: جمالیہ، جلالیہ، پس بعض کائنات مظہر ہیں جمال کے، بعض جلال کے۔ اس لئے عالَم میں خیر و شر کا ہونا ضروری ہے۔ (لیکن اقتضا سے مراد معنیٰ لغوی نہیں ہے تاکہ اضطراب کا شبہ کیا جاوے، بلکہ اصطلاحی معنیٰ مراد ہیں۔ وہ اپنی اصطلاح میں مطلق ترتّب کو بھی اقتضا سے تعبیر کر دیتے ہیں گو ترتّب درجۂ لزوم و وجوب میں نہ ہو۔)

وحدة الوجود کی حقیقت اور اس کا حکم:

تہذیب: وحدة الوجود کی حقیقت یہ ہے کہ سالک کے دل پر ہستیٔ حق کا خیال رچ جاتا ہے اور اس کا تصور غالب ہو جاتا ہے تو اب ہر چیز میں اس کو وہی نظر آنے لگتا ہے۔ اور اس وقت وہ "ہمہ اوست" کہنے لگتا ہے، مگر اس حالت کے اقوال میں ان کی تقلید نہ کرنی چاہیے، کیونکہ یہ باتیں وہ غلبۂ حال اور درجۂ معذوری میں کرتے ہیں۔

تفویض بغرضِ راحت تجویز ہے:

تہذیب: فنا بغرضِ شہرت کبر ہے۔ اسی طرح تفویض بغرضِ راحت تجویز ہے بعض لوگ اس غرض سے تفویض کرتے ہیں کہ اس میں راحت بہت ہے، تم اس کا قصد کر کے تارکِ تفویض نہ بنو، بلکہ فنا کا اس کے لئے قصد کرو کہ تم واقعی میں فنا ہی کے مستحق ہو۔ "وُجُوْدُکَ ذَنْبٌ لَّا یُقَاسُ بِہٖ ذَنْبٌ" اور تفویض اسی نیت سے کرو کہ یہ محبوب کا حق ہے کہ سب کام اسی کے سپرد کر دیا جاوے۔

؎ سپردم بہ تو مایۂ خویش را

تو دانی حساب کم و بیش را

اللہ تعالیٰ کم ہمتی کو پسند نہیں فرماتا:

تہذیب: اللہ تعالیٰ کم ہمتی کو پسند نہیں فرماتا، عقل و تدبیر سے کام لینا چاہیے۔ پھر جب بالکل ہی مغلوب و عاجز ہو جاؤ تو ﴿حَسْبُنَا اللہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ﴾ (آل عمران: 173) کہو۔

ترکِ اسباب کی حقیقت:

تہذیب: ترکِ اسباب کی حقیقت ہے ترکِ اسبابِ مظنونہ غیر مامور بہا۔ یعنی جن اسباب پر مسبب کا ترتّب عادةً یقینی و قطعی نہ ہو اور شرعاً وہ واجب بھی نہ ہو، ان کو ترک کر دینا جائز ہے۔ باقی سب پر عادةً مسببات کا ترتّب یقینی ہے، ان کا ترک جائز نہیں۔ مثلاً عادةً کھانا کھانے پر شبع (بھوک مٹنے) کا ترتّب اور پانی پینے پر سیرابی کا ترتّب۔ اور اسبابِ مظنونہ کا ترک بھی اس شخص کو جائز ہے جو خود بھی قوی الہمت ہو اور اس کے اہل وعیال بھی۔ یا اس کے اہل وعیال ہی نہ ہوں۔ اسی طرح اسبابِ مامور بہا کا ترک توکّل نہیں، کیونکہ وہ سب اسبابِ قطعیہ یقینیہ ہیں۔

تفویض والا بڑی راحت میں رہتا ہے:

تہذیب: تم اپنی تجویز کو دخل نہ دو بلکہ اپنی تربیت کو خدا کے سپرد کردو، تفویض سے کام لو کہ وہ جس طرح چاہیں تربیت کریں، حالات و کیفیات عطا کریں یا سب کو سلب کر لیں۔ تفویض والا بڑی راحت میں رہتا ہے، اس کو کسی حال میں پریشانی نہیں ہوتی، کیونکہ رنج و غم اور پریشانی کی حقیقت یہی ہے کہ خلافِ ارادہ و خلافِ توقع کا ظہور ہو، اور صاحبِ تفویض کا ارادہ اور توقع ہی کچھ نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے تفویض و تقدیر کا مسئلہ اسی لئے بتلایا ہے کہ پریشانی اور غم سے ہم بچے رہیں۔ مگر تفویض و توکّل اس نیت سے اختیار نہ کرو کہ راحت حاصل ہو گی، کیونکہ اس سے راحت تو بہرحال ہو گی، مگر اس نیت سے ثواب باطل ہو جائے گا۔ اور ممکن ہے کہ اس نیت کی نحوست سے راحت بھی کم نصیب ہو، نیز اس درجہ کا رضا و قرب بھی نہیں ہوتا جیسا کہ اس شخص کو حاصل ہوتا ہے جو تفویض کو محض حق تعالیٰ کا حق سمجھ کر اختیار کرتا ہے۔

صدق و تفویض کا طریقہ:

تہذیب: محققین کا قول ہے کہ تفویض اس نیت سے اختیار نہ کرے کہ اس سے راحت ہوتی ہے، بلکہ محض اس لئے اختیار کرے کہ یہ حق تعالیٰ کا حقِ عظمت ہے۔ یعنی تم یہ سمجھ کر تفویض اختیار کرو کہ تم غلام ہو اور وہ آقا ہیں اور آقا کا حق ہے کہ غلام اپنے سب امور اس کو مفوَّض کر دے، اور اپنی منفعت اور مصلحت کا خیال نہ کرے۔ پھر وہ مصالح و منافع بھی خود بخود حاصل ہو جائیں گے، کیونکہ وہ تفویض کے ساتھ لگے ہوئے ہیں، لیکن اداءِ حقِ عظمت کے ساتھ وہ منافع مع ثواب و رضا کے حاصل ہوں گے۔ اور اس کے بغیر گو منافع مرتب ہوں گے مگر اس میں رضا و قرب زیادہ نہ ہو گا۔

کمالِ عبدیت کی شناخت:

تہذیب: کمالِ عبدیت یہ ہے کہ بندہ اپنے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دے اور حق تعالیٰ جو تصرف اس کے اندر کرے اسی پر راضی رہے۔ جہاں اس کا تصور ہو کہ یہ تصرف حق ہے بس برف سا دل پر رکھ جائے۔

تفویض کے معنی ترکِ تدبیر نہیں بلکہ تدبیر کے بعد تصرفِ حق پر راضی رہنا ہے:

تہذیب: بعض دفعہ یہ بات دیکھی کہ اگر باوجود احتیاط کے کچھ مالی نقصان ہو گیا تو زیادہ قلق نہیں ہوا، لیکن اگر بے احتیاطی سے کچھ نقصان ہو گیا تو قلق زیادہ ہوتا تھا۔ ایک دن مجھے تنبّہ ہوا کہ یہ تو ناقص حالت ہے۔ آخر فقط مال پر اتنا زیادہ قلق کیوں ہے؟ اس وقت یہ علاج وارد ہوا کہ یہ بھی حق تعالیٰ کا تصرف ہے کہ بے احتیاطی کی حالت میں یہ نقصان ہو گیا۔ بس یہ تصور کرنا تھا کہ ایک ہی جلسہ میں مرض کی اصلاح ہو گئی۔ شاید کوئی یہ کہے کہ پھر ازالۂ نقص کی تدبیر ہی کی کیا ضرورت ہے، مجاہدہ و ریاضت کی کیا حاجت ہے؟ بس جیسا خدا نے دے دیا اسی پر راضی رہنا چاہیے۔ تکبر دیا تو اس پر راضی، بخل دیا ہو تو اس پر خوش، کیونکہ تصرفِ حق ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ترکِ تدبیر کی تم کو اجازت نہیں۔ تم تدبیر کرنے کے مامور ہو اس لئے تدبیر کرنا واجب ہے، ہاں تدبیر کے بعد بھی اگر نقص رہے گا تو یہ تصرفِ حق ہے اور موافقت ہے تقدیر کی۔ تو سمجھ لو کہ عین گناہ کے وقت یا گناہ سے پہلے عزم کے وقت اس تصور سے کام نہیں لے سکتے، کیونکہ تم کو ابھی سے خبر ہے کہ خدا تعالیٰ نے تمہارے واسطے یہ تصرف مقدر کیا ہے کہ فلاں گناہ کرو گے۔ پھر جس وقت گناہ کرتے ہو اس وقت موافقت تقدیر کی نیت کب ہوتی ہے، اس وقت تو اپنی خواہش کا پورا کرنا مقصود ہوتا ہے، کیونکہ قبل از وقوع تقدیر کی کس کو خبر ہے؟ یہی جواب اللہ تعالیٰ نے شیطان کو دیا تھا، جب کہ شیطان نے کہا تھا کہ آپ نے تو میرا سجدہ نہ کرنا مقدر ہی کیا تھا تو اگر میں نے اس تقدیر کے موافق سجدہ نہ کیا تو مجھ پر لعنت اور غضب کیوں ہوا؟ وہاں ارشاد ہوا کہ موافقتِ تقدیر کا علم تو بعد وقوع کے تجھ کو ہوا، وقوع کے وقت تو تُو نے اس کا قصد نہیں کیا۔ بہرحال گناہ کے وقت اس مراقبہ سے کام نہیں لے سکتے، ہاں گناہ کے بعد توبۂ نصوح کر کے بھی جب قلق زائل نہ ہو اور اس قلق سے تعطل فی الاعمال کا اندیشہ ہو تو اس وقت اس مراقبہ سے کام لو، اور زیادہ قلق میں نہ پڑو۔

تفویض کی تحصیل کا طریقہ:

تہذیب: جب کوئی ناگوار واقعہ پیش آئے اس وقت اس کو فوراً حاضر فی الذہن کر لیا جائے کہ یہ حق تعالیٰ کا تصرف ہے۔

تفویض کے دوام کا طریقہ:

تہذیب: تفویض کا دوام یہ ہے کہ ضرورت کے وقت اس کا استحضار ہو جائے کہ یہ تصرفِ حق ہے، لیکن تجربہ سے ثابت ہے کہ وقت پر اس کا استحضار ہو جانا، اس کا حصول بھی اس پر موقوف ہے کہ چند روز ہر وقت اس کا استحضار اور مراقبہ رہے، بدوں اس کے رسوخ نہیں ہوتا۔

تفویض پر ایک شبہ کا جواب:

تہذیب: تفویض پر بظاہر یہ شبہ ہوتا ہے کہ بس نہ غلام پر تنبیہ ہو، نہ بیوی سے باز پرس ہو، نہ اولاد کو تادیب ہو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اپنے نفس کے لئے تادیب و انتقام ضروری نہیں، اور اگر یہ لوگ خدا اور رسول کی مخالفت کریں تو اس پر رضا جائز نہیں، نہ اس پر سکوت کرنا تفویض کا فرد ہے، بلکہ وہاں تو تادیب ہی تفویض ہے۔ ہاں جب غلبۂ تفویض ہو گا تو اول اول حالت یہی ہو گی، مگر تمکُّن کے بعد ہر حالت میں حقوق کو صحیح انداز سے ادا کر دے گا۔ پس امتثالاً لِلامر(فرمانبرداری کے طور پر) تادیب کو اختیار کرنا عینِ تفویض ہے۔

شجاعت دو ہیں: ایک امراء کی، ایک فتیان کی:

تہذیب: شجاعت دو ہیں: ایک شجاعت امراء کی، دوسری شجاعت فتیان کی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت، شجاعتِ فتیان تھی۔ یعنی سپاہی کی شجاعت کہ میدان میں دشمن کے مقابل قوی القلب رہے۔ اور امراء و سلاطین کی شجاعت یہ ہے کہ سخت خطرات و حوادث میں مستقل مزاج رہیں، پریشان و از جاں رفتہ نہ ہوں، ہر حادثہ کی مناسب تدبیر کریں۔ چنانچہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی شجاعت و قوتِ قلب یہ تھی کہ رسول اللہ کی وفات کے وقت مستقل مزاج رہے، خود بھی سنبھلے اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کو سنبھالا۔ محققین اہلِ سیر کا قول ہے کہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے دو سال میں وہ اصول سلطنت ممہّد کئے تھے جن پر عمل کر کے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دس سال میں وہ انتظامات کئے اور وہ فتوحات کثیرہ حاصل کیں جن کی دنیا میں نظیر نہیں۔ عام طور پر لوگ فاروق رضی اللہ عنہ کو فاتحِ اعظم کہتے ہیں، مگر محققین حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کو فاتحِ اعظم کہتے ہیں۔

(یہ شجاعت و استقلال و ثبات آپ کو اسی تفویض و تمکین کی بدولت نصیب ہوا تھا۔)

تنگیٔ معیشت کی پریشانی منافیٔ توکل نہیں:

تہذیب: بعض لوگوں کا معیشت کی تنگی کی وجہ سے دل پریشان ہوتا ہے اور اس کا اثر نماز میں بھی پڑتا ہے کہ حضورِ قلب حاصل نہیں ہوتا۔ سبب اس کا اکثر ضعفِ طبیعت ہے، اس لئے توکل کے منافی نہیں، کیونکہ طبعی امور غیر اختیاری ہیں۔

صحابہ رضی اللہ عنہم کی کامیابی کا راز:

تہذیب: صحابہ رضی اللہ عنہم اپنی تدبیروں پر کبھی بھروسہ نہ کرتے تھے، بلکہ ہر قسم کی تدبیر مکمل کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا اور طلبِ نصرت اور تفویض الی اللہ کرتے تھے۔ یہ راز ہے ان کی کامیابی کا، اور یہ وہ زبردست ہتھیار ہے جس کی طاقت کو مادہ پرست نہیں سمجھ سکتے۔

اے مسلمانو! یاد رکھو! تم کو جب کامیابی ہو گی، خدا تعالیٰ سے علاقہ جوڑنے کے بعد ہو گی۔ اور جب تک تم اپنی کامیابی کو مادی اسباب اور ظاہری طاقت کے حوالہ کرتے رہو گے، کبھی کامیاب نہ ہو گے، کیونکہ اس قوت میں دیگر اقوام ہم سے ہمیشہ آگے رہیں گی، تم ان کے برابر کبھی نہیں ہو سکتے۔ تمہارے پاس رضائے الٰہی اور اتفاق و جمعیت کے ساتھ دعا کا ہتھیار بھی ہو تو کوئی قوم تم پر غالب نہیں آ سکتی۔

توکّل کی تعلیم رقم مشتبہ کی واپسی میں:

تہذیب: کسی رقم کے متعلق جب تک کھٹک ہو ہرگز نہ لو، یہ مت سمجھو کہ اگر اس رقم کو واپس کر دیں گے تو پھر کہاں سے آئے گی۔ اگر وہ تقدیر میں ہے تو پھر آئے گی، اور اگر تقدیر نہیں ہے تو اس کی جگہ دوسری رقم آ جائے گی۔ خدا سے ایسے نا اُمید کیوں ہو گئے کہ بس ایک دفعہ دے کر پھر نہ دیں گے۔

الہام متعلقِ وثوق برِزق:

تہذیب: ابن عطاء اسکندری رحمۃ اللہ علیہ نے کچھ الہامات الٰہیہ لکھے ہیں، ان میں ایک الہام یہ بھی ہے کہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے میرے بندے! میں ایسا روزی دینے والا ہوں کہ اگر تو یہ دعا بھی کیا کرے کہ اے اللہ! مجھے رزق نہ دیجیو، تو میں جب بھی دوں گا، اور تیرے مانگنے پر تو کیوں نہ دوں گا؟

اپنے بعد کے لئے اولاد کی فکر نہ چاہیے:

تہذیب: یہ کہیں ثابت نہیں کہ اولاد کے لئے اپنے بعد کا انتظام کرنا مطلوب ہے، بلکہ مشائخ کا تو اس میں خاص مذاق ہے۔ حضرت شیخ عبد القدوس رحمۃ اللہ علیہ نے وصیت کی ہے کہ اپنے بعد کے لئے اولاد کی فکر فضول ہے، کیونکہ دو حال سے خالی نہیں، یا تو وہ صالح ہوں گے تو صلحاء کو حق تعالیٰ ضائع نہیں کریں گے، یا بد ہوں گے تو خدا کے نافرمانوں کے لئے تم نافرمانی میں معین کیوں ہوتے ہو؟

اہل اللہ کی راحت کا راز:

تہذیب: اہل اللہ کی راحت کا راز یہ ہے کہ وہ اپنے لئے کوئی راحت تجویز نہیں کرتے، کیونکہ تجویز کرنا دعویٰ ہے ہستی کا کہ ہم بھی کچھ ہیں اور ہماری تجویز بھی کوئی چیز ہے۔ بلکہ ان کا مذاق فنا محض ہے۔ اس لئے یہ حضرات تجویز کہاں کر سکتے ہیں؟ اگر ان کا کوئی عزیز بیمار ہوتا ہے تو وہ دوا اور دعا سب کچھ کرتے ہیں مگر دل سے ہر پہلو پر راضی رہتے ہیں۔ اگر مر گیا تو وہ اول ہی سے اس پر راضی تھے، گو طبعی رنج ہو، اس کا مضائقہ نہیں، مگر دل سے وہ اس پر راضی رہتے ہیں۔ اور تمام کلفتوں کی جڑ یہی تجویز اور توقع ہے، جو شخص تجویز اور توقع کو فنا کر دے گا وہ ہر حال میں راحت ہی سے رہے گا۔ بلکہ اگر کوئی دنیا دار شخص بھی اہل اللہ سے ناتمام تشبہ حاصل کر لے گا، وہ بھی دوسروں سے زیادہ راحت میں رہتا ہے۔

مشورہ کے بعد حاکم کو توکّل چاہیے:

تہذیب: مشورہ کے بعد حاکم کی رائے جس طرح قائم ہو جائے اس کو اپنی رائے کے موافق عمل کرنا چاہیے، اور خدا پر نظر رکھنی چاہیے، وہ ایک آدمی کی رائے کو بھی تمام عالَم کی رائے پر غالب کر سکتے ہیں۔

فنا و تفویضِ کلی کی ترغیب:

تہذیب: پھونک دو اپنی ہوس کو، اور جلا دو اپنی تجویز کو۔ بس فنا اور تفویضِ کلی اختیار کرو، اللہ میاں کو راضی رکھنے کی کوشش کرو، کمال کی ہوس کرنے والے تم کون ہو؟

منکرِ تقدیر اور قائلِ تقدیر کے آثار کا فرق:

تہذیب: جو شخص منکرِ تقدیر ہے اس کو کبھی صبر نہیں آتا، بلکہ ہمیشہ قلق و اضطراب میں رہتا ہے اور علاج ہی کی کوتاہی اور تدبیرِ علاج ہی کا قصور بتلاتا ہے۔ بخلاف قائلِ تقدیر کے کہ گو یہ بھی باقتضاءِ طبعی وفاتِ ولد زوجہ وغیرہ پر حزن و ملال کا اثر اپنے قلب میں پائے گا اور اس کا نفس بھی نقصِ علاج وغیرہ کو سبب بنا کر پیش کرے گا، لیکن اس کو معاً یہ خیال پیدا ہو گا کہ در حقیقت اس کا وقت ہی آ گیا تھا، حیات مستعار ختم ہو چکی تھی اور نقص علاج بھی اس کے واسطے مقدر تھا، اور جب اس کی موت کے واسطے خداوندِ عالَم نے عالَم ظاہر میں نقص علاج ہی کو علت بنایا تھا تو کوئی قوت ایسی نہ تھی جو اس کے نقصانِ علاج کو پورا کرتی۔ بس اس کے بعد اس کو بالکل صبر آ جائے گا اور کسی قسم کا رنج و ملال اور قلق و اضطراب کا اثر اس کے قلب پر نہ رہے گا۔

تفویض کی لذت مرچوں بھرے کباب کی سی ہے:

تہذیب: اسلام کی وجہ بمعنی تفویض ہے، یعنی اپنے کو ہر تصرفِ الٰہی کے لئے آمادہ کر دینا۔ یہ وہ چیز ہے جو پریشانی کو بھی لذیذ کر دیتی ہے۔ مگر وہ لذت مٹھائی اور حلوے جیسی نہیں بلکہ مرچوں بھرے کباب جیسی ہے جس کی لذت وہی جانتے ہیں جو مرچ کھانے کے عادی ہیں۔ چنانچہ عارفین کو بھی ہر طرح کی مشقت اور مصائب و آلام پیش آتے ہیں، مگر ان کو اس میں بھی لذت آتی ہے اور وہ یوں کہتے ہیں:

؎ ناخوش او خوش بود بر جانِ من

جان فدائے یار دل رنجانِ من

تقوٰی کامل فنا ہے:

تہذیب: تقوٰی کامل یہ ہے کہ اپنی جان خدا تعالیٰ کے سپرد کر دے کہ وہ جس طرح چاہیں اس میں تصرف کریں۔ صوفیہ کی اصطلاح میں اسی کو فنا کہتے ہیں۔ جیسا کہ ابراہیم علیہ السلام نے کیا تھا کہ خدا تعالیٰ کے حکم سے ذبحِ ولد پر آمادہ ہو گئے تھے، اور جو شخص ذبحِ ولد پر آمادہ ہو جائے وہ اپنی جان دینے پر ضرور آمادہ ہو گا، کیونکہ بیٹے کو ذبح کرنا اپنے ذبح سے اشد ہے۔

حضور کا توکل اور عدمِ غم کی وجہ:

تہذیب: حضور کی نظر ہر وقت خدا پر تھی، مخلوق پر نظر نہ تھی اس لئے آپ کو کسی کے فعل سے رنج نہ ہوتا تھا۔ مگر یہ برتاؤ ان امور میں تھا جس کا تعلق خاص آپ کی ذات سے تھا، امورِ شرعیہ کے بارے میں یہ برتاؤ نہ تھا، کیونکہ احکامِ شرعیہ کی مخالفت پر تو آپ کو اتنا غصّہ آتا تھا کہ کوئی برداشت نہ کر سکتا تھا۔

تقدیر نے مسلمانوں کو بہادر بنا دیا ہے:

تہذیب: تقدیر نے مسلمانوں کو بہادر اور شیر دل بنا دیا ہے۔ جو شخص تقدیر کا معتقد ہے وہ ادنیٰ درجہ کی تدبیر سے بھی کام شروع کر دیتا ہے۔

"لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ" کی حقیقت

تہذیب: "لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ" کی حقیقت عدمِ التفات ہے، کیونکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی میں کچھ طاقت نہیں۔ یعنی خدا تعالیٰ کے سوا کسی چیز سے اندیشہ نہ کرنا چاہیے اور سب سے بے التفاتی ہی برتنی چاہیے۔

تفویض کا طریقہ امورِ اختیاریہ و غیر اختیاریہ ہیں:

تہذیب: جن امور میں تدبیر کا کچھ تعلق و دخل نہیں ان میں تو ابتدا ہی سے تفویض و تسلیم اختیار کرنا چاہیے، اور جن میں تدبیر کو بھی کچھ دخل ہے وہاں تدبیر بھی کی جائے مگر نتائج و ثمراتِ تدبیر میں تفویض کی جائے۔

اسباب و تدابیر کا درجہ اور اس کی عجیب مثال:

تہذیب: دعا کو تدبیر کہنا تو برائے ظاہر ہے، ورنہ حقیقت میں اس کا درجہ تدبیر سے آگے ہے۔ دعا کو تقدیر سے زیادہ قرب ہے، کیونکہ اس میں اس ذات سے درخواست ہے جس کے قبضہ میں تقدیر ہے۔ اسباب و تدابیر کا درجہ صرف اتنا ہے جیسے ریلوے ملازم لال جھنڈی دکھلا دے، جس سے ریل گاڑی فوراً رک جائے گی۔ سو ظاہر ہے کہ لال جھنڈی میں تاثیر کی قوت نہیں، اگر ڈرائیور انجن کو نہ روکے تو ہزار لال جھنڈیاں بھی پامال ہو جائیں لیکن ریل رک نہیں سکتی، پس لال جھنڈی کا درجہ صرف اتنا ہے کہ ڈرائیور نے اصطلاح مقرر کر لی ہے، اگر وہ اس قرار داد کے خلاف کرنا چاہے تو جھنڈی میں اس کو روکنے کی اصلاً طاقت نہیں ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے یہ قاعدہ مقرر فرمایا ہے کہ جوشخص اسباب کو اختیار کرے گا ہم مسببات کو اس پر فائض کر دیں گے، لیکن اگر کسی وقت وہ مسببات کو پیدا کرنا نہ چاہیں تو اسباب سے کچھ نہیں ہو سکتا۔ بس اسباب کا نام ایک مصلحت ہے اور حکمت کی وجہ سے ہے ورنہ سب کچھ وہی کرتے ہیں اور بندہ کا نام ہو جاتا ہے کہ حکیم صاحب کے ہاتھ سے شفا ہو گئی، یا فلاں صاحب کی تقریر کا یہ اثر ہوا۔ صاحبو! اثر و تاثیر سب خدا کی طرف سے ہے۔

بندہ کی طرف نسبتِ اعمال کی مثال:

تہذیب: ہماری طرف سے ان اعمال کی نسبت ایسی ہے جیسے بچہ کے ہاتھ میں قلم دے کر پھر اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر لکھا جائے، اور دور چار حروف خوشنما لکھ کر بچہ کی تعریف کی جائے۔ اسی طرح اپنے اعمالِ صالحہ اور اوصافِ کمالیہ پر نادان ہی ناز کر سکتا ہے جس کو اپنا ہاتھ تو نظر آتا ہے اور دوسرا ہاتھ نظر نہیں آتا۔ اور جن کو دوسرے ہاتھ کا مشاہدہ ہو گیا ہے ان کی نظر اپنے کمالات پر اصلاً نہیں ہوتی۔ اور محقق وہ ہے جو دونوں ہاتھوں کا مشاہدہ کرے، خالق کا بھی، کاسب کا بھی، خالق اور کاسب دونوں پر نظر کر کے فعل کو دونوں کی طرف منسوب کرے، خالق کی طرف خلقاً اور کاسب کی طرف کسباً خوب سمجھ لو۔

یہ خیال کہ بدوں امراء سے ملے مدارس چل نہیں سکتے، بالکل غلط ہے:

تہذیب: اکثر علماء کا خیال ہے کہ بدوں امراء سے ملے مدارس چل نہیں سکتے، مگر مجھے تو یقینِ کامل ہے کہ اگر علماء امراء سے بالکل نہ ملیں جب بھی کسی بات میں کمی نہ آئے گی، کیونکہ جس خدا نے ابتداءِ اسلام میں بدوں امرا کی امداد کے، محض چند غریبوں کے ہاتھوں اپنے دین کو پھیلایا تھا، وہ خدا اب بھی موجود ہے اور وہ اب بھی اپنے دین کا محافظ ہے۔

شرکِ طریقت:

تہذیب: غیر اللہ پر اتنی نظر رکھنا کہ ایک شخص کے وعدہ خلافی کر جانے سے رنج شدید ہو اور منزلِ مقصود تک رسائی سے مایوس ہو جائے، شرکِ طریقت ہے۔

فانی اپنے کلام میں تأویل بھی نہیں کرتا:

تہذیب: فانی اپنے کلام میں تأویل بھی نہیں کرتے، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایمان و کفر مخلوق کے ہاتھ میں نہیں ہے، اور تأویل وہ کرے جو مخلوق پر کچھ نظر کرتا ہو۔ اور جس کی نظر مخلوق پر بالکل نہ ہو اس کو اس کی بھی ضرورت نہیں۔