H1 B3 M 22 (شکر)(عبدالستار)
شکر
شکر منعمِ حقیقی کا طاعت سے و مجازی کا دعا سے بجا لائے:
حال: احقر کے استاد جو طبیب ہیں اچھے مالدار ہیں، وہ خرچ کے متعلق بہت کچھ اعانت کرتے ہیں۔ اور احقر نے عرض بھی کیا کہ گرانی ہوتی ہے، لیکن انہوں نے تسلیم نہیں کیا، ڈر لگتا ہے کہ شاید اس کا منشا مرض ہو۔
تہذیب: ڈرنا تو بہت اچھی بات ہے ڈر ہی سے امن ہے، لیکن جب اپنی طرف سے نہ طلب ہے نہ اشراف، بلکہ انقباض کو بھی ظاہر کر دیا اور پھر بھی وہ خدمت کرتے ہیں تو یہ نعمت ہے، اس پر گو طبعًا انقباض ہو مگر عقلاً انبساط ہونا چاہیے۔ اور اولاً خدا تعالیٰ کا کہ منعم حقیقی ہیں، اور ثانیاً ان صاحب کا کہ منعم مجازی ہیں یعنی واسطۂ نعمت ہیں شکر ادا کرنا چاہیے۔ اور وہ شکر حق تعالیٰ کا تو اطاعت ہے اور ان صاحب کا ان کے لئے دعا ہے۔
شکر کی حقیقت
تہذیب: شکر کی حقیقت یہ ہے کہ جو حالت طبیعت کے موافق ہو خواہ اختیاری ہو یا غیر اختیاری ہو، اس کو دل سے خدا تعالیٰ کی نعمت سمجھنا، اور اس پر خوش ہونا اور اپنی لیاقت سے اس کو زیادہ سمجھنا، اور زبان سے خدا تعالیٰ کی تعریف کرنا، اور اس نعمت کا (جوارح سے) گناہوں میں استعمال نہ کرنا شکر ہے۔
طریق تحصیلِ شکر
تہذیب: شکر کی ماہیت کے اجزاء سب افعالِ اختیاریہ ہیں۔ ان کو بتکرار صادر کرنا یہی طریقۂ تحصیل اور یہی طریقۂ تسہیل ہے۔
ناشکریٔ مذموم کی حد
تہذیب: ناشکری جو مذموم ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ناشی ہے منعم کی بے تعلقی سے۔ اور جو چیز منعم کے غایت تعلق سے ناشی ہو وہ محمود ہے۔ مثلاً چوری ہو گئی اور اس کے سوچنے سے افسوس اگر نہ ہو تو اس کو نا شکری نہ کہیں گے، کیونکہ یہ عدمِ تأسّف ناشی ہے حق تعالیٰ کے غایتِ تعلق سے، اس کو پیش نظر ہے کہ کوئی کام حق تعالیٰ کے بدونِ مشیت تو ہوتا نہیں اور جو مشیت سے ہوتا ہے وہ سب خیر ہی ہے اس لئے تأسّف کی ضرورت نہیں۔
اعمالِ صالحہ کو عطائے حق ہونے کی وجہ سے قابل قدر سمجھو
تہذیب: عطائے حق ہونے کی وجہ سے یہ نماز روزہ جس درجہ میں بھی ہے قابلِ قدر ہے، لیکن اپنا کچھ کمال نہ سمجھے۔ جیسے ایک چمار کو بادشاہ موتی دے، تو وہ اپنے کو چمار ہی سمجھے گا، مگر اس کے ساتھ ہی موتی کو موتی سمجھے گا۔ پس شکر کا مطلب یہ ہے کہ اپنے کو چمار و ناقابل ہی سمجھو، مگر اعمالِ صالحہ کو عطائے حق ہونے کی وجہ سے قابلِ قدر سمجھو اور نعمتِ حق کی بے قدری نہ کرو۔