H1 B3 M 21 (صبر)(عبدالستار)
صبر
صبر حقیقی کے تسہیل کا طریقہ:
تہذیب: آنسو بہنا، آہ آہ منہ سے نکلنا خلافِ صبر نہیں، بلکہ رو لینے سے صبرِ حقیقی زیادہ آسان ہو جاتا ہے کیونکہ دل کا غبار نکل جاتا ہے۔
صبر حقیقی میں آہ آہ کرنا خلافِ صبر نہیں:
تہذیب: بعض لوگوں کو تقویٰ کا ہیضہ ہو جاتا ہے، وہ بیماری میں آہ آہ کرنے کو خلافِ صبر سمجھتے ہیں۔ اس لئے "اللہ اللہ" کرتے ہیں تاکہ قوتِ قلب ظاہر ہو، مگر یہ معرفت کے خلاف ہے کیونکہ "اللہ اللہ" مظہرِ الوہیت ہے اور آہ آہ مظہرِ عبدیت ہے۔
بے صبری کی متعدد صورتیں اور ان کا علاج:
تہذیب: سوال: صبر پر جو وعدہ ثواب کا ہے وہ کس صورت میں ہے؟ یعنی کوئی شخص کسی انتقام یا تکلیف کے دور کرنے پر قادر ہو اور نہ کرے اور صبر کرے تب اجر ملے گا، یا قادر نہ ہو پھر صبر کرے اس پر اجر ملے گا؟
جواب: بے صبری کی معتدد صورتیں ہیں: (1) انتقام بالمثل لینا، اس کا ترک کرنا صبر ہے یہ مشروط ہے قدرت کے ساتھ۔ (2) دوسری صورت زبان سے بُرا بھلا کہنا، سامنے یا پسِ پشت بد دعا دینا۔ غیر قادر علی الانتقام بھی اس پر قادر ہے، اس کے لئے ترک کرنا صبر ہے۔ اسی طرح اہلِ میت گو مدافعت پر قادر نہیں، لیکن نوحہ و شکایت پر تو قادر ہیں، ان کی یہ بے صبری ہے اور اس کا ترک کرنا صبر ہے۔ اور جو کسی فعل پر بھی قادر نہ ہو جیسے اندھا کہ دیکھنے پر تو بالکل قادر نہیں مگر تصور یا عزم بصورتِ ابصار یا تمنائے ابصار للاِبصار پر تو قادر ہے اس کی بے صبری یہ ہے اور اس کا ترک صبر ہے۔ ہر شخص کو اس کے مناسب صبر پر اجر ملتا ہے۔ یہ تفصیل تو اجرِ صبر میں ہے اور ایک اجر خود تکلیف پر بھی ہوتا ہے اس میں صبر کی قید نہیں، اگر صبر کیا تو دو اجر ملیں گے، ایک صبر کا، دوسرے تکلیف کا۔ اور اگر صبر نہ کیا تو تکلیف کا اجر ملے گا اور بے صبری کا گناہ ہو گا۔ جیسے ایک شخص نماز پڑھے اور روزہ نہ رکھے تو نماز کا ثواب ملے گا اور روزہ نہ رکھنے کا گناہ ہو گا۔
غیر مبتلائے مصیبت کے لئے اجرِ مصائب حاصل کرنے کا طریقہ:
تہذیب: جب کہ مصیبت اور بلا نہ ہو تو اجر حاصل کرنے کے لئے صرف یہ کافی ہے کہ یہ ارادہ رکھے کہ بلا و مصیبت کے وقت صبر کریں گے۔
مصیبت معصیت کی علامت:
تہذیب: جو مصیبت کسی گناہ کی سزا میں پہنچتی ہے اس میں پریشانی محسوس ہوا کرتی ہے۔ اور جو رفعِ درجات کے لئے ہوتی ہے اس میں پریشانی نہیں ہوتی۔
مسلمان کسی مصیبت میں بھی خسارہ میں نہیں:
تہذیب: مسلمان کو کسی کھیتی کے پالا پڑنے سے کامل طور پر نقصان نہیں ہوتا، گو کھیتی ساری برباد ہو جائے مگر اسی مصیبت سے اجرِ صبر بڑھ جائے گا۔ اور آخرت میں جو ثواب اس کے بدلہ میں ملے گا، وہ اس کھیتی سے لاکھ درجہ افضل ہو گا، کیونکہ اجر آخرت کی شان یہ ہے۔
؎ نیم جان بستاند و صد جاں دہد
آنچہ در و ہمت نیاید آں دہد
؎ خود کہ یا بد ایں چنیں بازار را
کہ بیک گل می خری گلزار را
کلماتِ تعزیت:
تہذیب: حضور ﷺ کے وصال میں حضرت خضر علیہ السلام نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس طرح تسلی فرمائی تھی:"إِنَّ فِي اللہِ عَزَاءً مِّنْ کُلِّ مُصِیْبَةٍ وَّ خَلَفًا مِّنْ کُلِّ ھَالِکٍ وَّ دَرَکًا مِنْ کُلِّ مَا فَاتَ فَبِاللہِ ثِقُوْا وَ إِیَّاہٗ فَارْجُوْا فَإِنَّمَا الْمُصَابَ مَنْ حُرِمَ الثَّوَابَ" (الدعوات الکبیر للبیھقي، رقم الحدیث:644) یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات میں ہر مصیبت سے تسلی ہے اور ہر فوت ہونے والے کا عوض ہے۔ پس اللہ پر بھروسہ رکھو اور اسی سے امید رکھو، کیونکہ پورا محروم تو وہی ہے جو ثواب سے محروم رہے۔ اور مسلمان تو کسی مصیبت میں ثواب سے محروم نہیں رہتا۔
تحصیل صبر کا طریقہ مصائب کی فضائل اور حکمتوں پر غور کرنا ہے:
تہذیب: تکوینیاتِ ناگوار کا منشا بھی حق تعالیٰ کی محبت ہی ہے، مگر اس میں ماں کی محبت کا رنگ نہیں ہے بلکہ باپ کی محبت کا رنگ ہے۔ باپ کی محبت یہی ہے کہ جب لڑکا شرارت کرے تو چار ادھر لگائے چار اُدھر لگائے۔ حضرات! ان مصائب سے حق تعالیٰ ہم کو مہذب بنانا چاہتے ہیں، تاکہ گناہوں کا کفارہ ہو جائے۔ ہم لوگ اپنے اعمالِ بد سے اپنے آپ کو تباہ کرنے میں کسر نہیں کرتے، حق تعالیٰ ان سزاؤں سے ہم کو راستہ پر لگا دیتے ہیں اور دماغ درست کر دیتے ہیں۔ پھر حدیث میں آیا ہے کہ دنیا کی مصائب سے بہت سے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے۔ نیز ایک روایت میں ہے بعض دفعہ حق تعالیٰ اپنے بندہ کو خاص درجہ اور مرتبہ عطا فرمانا چاہتا ہے جس کو وہ اپنے عمل سے حاصل نہیں کر سکتا تو اللہ تعالیٰ اس کو کسی مصیبت یا مرض میں مبتلا کر دیتے ہیں جس سے وہ اس درجۂ عالیہ کو پا لیتا ہے۔ حدیث میں آیا ہے کہ قیامت میں اہلِ مصائب کو ثوابِ کثیر ملتا ہے تو دیکھ کر اہلِ نعم کہیں گے: "یَا لَیْتَ جُلُوْدَنَا قُرِضَتْ بِالْمَقَارِیْضِ فَنُعْطٰی مِثْلَ مَا اُوْتُوْا" (سنن ترمذي، رقم الحديث: 2402، دار الغرب الاسلامی) یعنی کاش ہماری کھالیں دنیا میں قینچیوں سے کاٹی گئی ہوتیں، تاکہ آج ہم کو بھی یہ درجات ملتے. اب بتلایئے! یہ مصائب، متاعبِ تکوینیہ محبتِ حق سے ناشی ہیں یا نہیں؟ حق تعالیٰ کے امتحانات و ابتلااٰت کو لوگ مصیبت سمجھتے ہیں حالانکہ وہ حقیقت میں غایتِ عروج اور راحت کا سبب ہیں۔ اور یہ حکمتیں آخرت میں جا کر سب کو منکشف ہوں گی، لیکن عارفین کو ان کی حکمتیں دنیا ہی میں منکشف ہو جاتی ہیں جن سے مصائب بھی نہیں رہتے بلکہ نعم ہو جاتے ہیں۔
مصیبت اپنے محل کے اعتبار سے مصیبت ہے:
تہذیب: کوئی مصیبت اپنی ذات میں مصیبت نہیں بلکہ محل کے اعتبار سے مصیبت ہے۔ ممکن ہے کہ جو چیز ایک محل میں مصیبت ہو، دوسرے محل میں مصیبت نہ ہو۔ چنانچہ قطعِ جلد تندرست کے لئے مصیبت ہے مگر مریض محتاجِ آپریشن کے لئے صحت ہے، فاقہ تندرست کے لئے مصیبت اور مریضِ بد ہضمی کے لئے راحت و صحت ہے و علٰی ھٰذا۔ اسی طرح یہ حوادثِ انفس و اموال و اولاد وغیرہ عارف کے لئے مصائب ہیں، مگر عارف کے لئے جو حِکَمِ تکوینیہ کو سمجھتا ہے مصائب نہیں۔
تعلق مع اللہ سے مصیبت میں بھی کلفت نہ ہو گی:
تہذیب: اللہ تعالیٰ سے تعلق پیدا کرو اس کا اثر یہ ہو گا کہ فقدانِ اسباب میں بھی ایک سبب راحت کا موجود رہے گا۔ کیونکہ یہ شخص اللہ تعالیٰ کو محبوب و حکیم سمجھے گا اور جب اللہ تعالیٰ سے محبت ہو گی تو پھر کسی حالت میں اس کو کلفت نہ ہو گی۔
حوادث تعلق مع اللہ کے ساتھ ضرر رساں نہیں:
تہذیب: افلاطون نے حضرت موسٰی علیہ السلام سے پوچھا کہ اگر حوادث تیر ہوں اور آسمان کمان ہو، تیر انداز حق تعالیٰ۔ تو بچنے کی کیا صورت ہے؟ موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا کہ تیر انداز کے پہلو میں جا کھڑا ہو پھر تیر سے بچا رہے گا۔ کیونکہ تیر اسی کو ہلاک کرتا ہے جو اس کے زد پر ہو اور جو تیر انداز کے پہلو میں کھڑا ہو اس پر تیر نہیں پہنچتا۔ یعنی تعلق مع اللہ ایک ایسی چیز ہے کہ جس سے حوادث ضرر نہیں پہنچا سکتے۔
مصیبت میں دو اجر ہیں:
تہذیب: احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نفسِ مصیبت سے جو نفس کو تکلیف ہوتی ہے، اُس پر بھی ثواب ملتا ہے۔ اور صبر کا اجر الگ ہے۔
صبر و مصابرت اور مرابطت کے معنی:
تہذیب: صبر کے معنی ہیں نفس کو نا گوار امور پر جمانا۔ اور مصابرت کے معنی یہ ہیں کہ دوسروں کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے نا گوار امور پر نفس کو ثابت قدم رکھنا۔ اور مرابطت کے معنی یہ ہیں کہ صبر و مصابرت پر مواظبت کی جائے۔
انبیاء علیہم السلام کی مراتب رفیعہ کی وجہ صبر ہی ہے:
تہذیب: حضرات انبیاء علیہم السلام کے جو مراتب بلند ہیں اس کی یہی تو وجہ ہے کہ انہوں نے سب سے زیادہ قیود و حدود کا حق ادا کیا ہے۔ اُن پر وہ بلائیں گذری ہیں جن کو دوسرا برداشت نہیں کر سکتا۔
؎ زاں بلا ہا کا نبیاء برداشتند
سر بچرخِ ہفتمیں برداشتند
تمام اعمالِ شرعیہ صبر ہی کے عنوان ہیں:
تہذیب: اعمال شرعیہ کو اللہ تعالیٰ نے صبر کے عنوان سے بیان فرمایا ہے: ﴿يٰأَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا وَ اتَّقُوْا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾ (آل عمران: 200) تاکہ سنتے ہی مخاطب کو معلوم ہو جائے کہ اس میں ہمت کی ضرورت ہو گی، پس اب سالکین کو جی نہ لگنے کی شکایت کرنا فضول ہے، کیونکہ تم کو صبر ہی کا امر ہے، اور ہر عمل کی حقیقت صبر ہی ہے، اور صبر میں نہ لگنا کیسا؟ بلکہ جی نہ لگنے کی صورت میں زیادہ جوش ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ تم کو ثواب زیادہ دینا چاہتے ہیں۔
مصائبِ غیر اخیتاری اہلِ محبت کیلئے موجبِ ازدیادِ محبت ہیں:
تہذیب: مصائب دو قسم کے ہوتے ہیں: ایک تو وہ جو منجانب اللہ نازل ہوتے ہیں، جس میں بندے کے کسب کو بالکل دخل نہیں، بلکہ اس کا منشا محض مشیتِ ایزدی ہوتا ہے۔ اس قسم کے مصائب تو واقعی اہلِ محبت کے لئے ہمیشہ موجبِ ازدیادِ محبت ہوتے ہیں۔ اور ایک وہ مصائب ہوتے ہیں جو بندہ پر اس کے کسب و اختیار سے ہوتے ہیں، اس قسم کے مصائب موجبِ ازدیادِ محبت نہیں ہوتے۔
مصائب کے فوائد:
تہذیب: اللہ تعالیٰ دنیا میں مسلمان کو مصائب و تکالیف دے کر اس کا میل صاف کرتے ہیں، یعنی وساوس و معاصی سے جو غفلت قلب میں پیدا ہو جاتی ہے اس کو دور کرتے ہیں، یہ تو آخرت کی بھلائی ہوئی۔ اور دنیا کی بھلائی یہ ہوتی ہے کہ مصائب و تکالیف سے انسان کے اخلاق درست ہو جاتے ہیں، اور اخلاق کی درستی سے بہت راحت ملتی ہے کیونکہ بد خُلق سے سب کو وحشت ہوتی ہے، لوگ اس کو ذلیل سمجھتے ہیں۔ نیز اس کے یعنی (اہل مصیبت کے) دل پر دنیا کی حقیقت بھی منکشف ہو جاتی ہے کہ دنیا دل لگانے کی چیز نہیں ہے۔
مصائب کے وقت کا دستور العمل:
تہذیب: مصائب کو گناہوں کی سزا سمجھو یا ایمان کی آزمائش سمجھو، مگر یہ مت سمجھو کہ خدا تعالیٰ ہم سے ناراض ہو گئے ہیں۔ کیونکہ یہ خیال خطرناک ہے، اس سے تعلق ضعیف ہو جاتا ہے، اور رفتہ رفتہ تعلق زائل ہو جاتا ہے۔
مصائب کو ہلکا کرنے کی تدبیر:
تہذیب: مصیبت کو ہلکا کرنے کی ایک تدبیر یہ ہے کہ اپنے گناہ کو یاد کرے۔ دوسری تدبیر یہ ہے کہ مصیبت کے ثواب کو یاد کرے۔ تیسرے یہ سمجھے کہ مصیبت سے ایمان کی آزمائش ہے کہ آیا اس میں ایمان ہے یا نہیں۔ چوتھے یہ کہ عبدیت غالب ہو جاتی ہے اور دعویٰ و غرور و تکبر کا میل کچیل معلوم ہو جاتا ہے۔ اور اپنی حقیقت منکشف ہو کر سمجھ میں آ جاتا ہے کہ آدمی کو کبھی دعویٰ نہ کرنا چاہیے۔ پانچویں یہ کہ مصائب میں استحضار عظمتِ الٰہی کا ہوتا ہے اور اس کے مقابلے میں اپنا عجز زیادہ منکشف ہوتا ہے۔ پس مصائب سے انسان پر عبدیت کا غلبہ ہوتا ہے اور عبدیت اعلیٰ مقام ہے۔
؎ اہلکاراں بوقتِ معزولی
شبلیٔ وقت و بایزید شوند
باز چوں می رسند بر سرکار
شمر ذی الجوشن و یزید شوند
مصیبت فی نفسہ نعمت ہے گو صبر نہ ہو:
تہذیب: بعض صوفیہ نے لکھا ہے کہ مصیبت پر بغیر صبر کے بھی ثواب ملتا ہے، صبر کا اجر اس کے علاوہ ہے۔ تو اب مصیبت فی نفسہ نعمت ہے۔
مصیبت کے وقت صبر مطلوب ہے:
تہذیب: مصیبت کے وقت صبر مطلوب ہے کہ اس کو خدا کا تصرف سمجھ کر راضی رہے اور دل میں خدا سے شکایت نہ لائے، نہ ظاہر میں جزع فزع کرے۔
پریشانیوں کے اسبابِ اختیاریہ کو خود مول لینا یا مدافعت نہ کرنا سخت مضر ہے:
تہذیب: جس پریشانی کا جلب و سلب اختیاری ہو اس کے اسباب کو خود پیدا کرنا سخت مضر ہے۔ اور جس کے اسبابِ جلب اختیاری نہیں لیکن دفع اختیاری ہے، اس کے اسبابِ مدافعت کو اختیار نہ کرنا اور پریشانی میں مبتلا رہنا بھی مضر ہے۔ اور ایک پریشانی وہ ہے جس کا نہ جلب اختیار میں ہے نہ سلب، یہ واقعی خیر ہے۔
پریشانی غیر اختیاری واقعی مجاہدہ اور خیر ہی خیر ہے اور پریشانی اختیاری میں نور نہیں، ظلمت ہوتی ہے:
تہذیب: جس مصیبت کا ایسا غلبہ ہو جائے کہ اس کی مدافعت پر بھی قادر نہ ہو، سو یہ واقعی مجاہدہ ہے۔ اور اب اس پریشانی سے کچھ ضرر نہ ہو گا، بلکہ اس میں نورانیت ہوتی ہے۔ اور جو پریشانی اختیار سے لائی جاتی ہے اس میں نور نہیں ہوتا، بلکہ ظلمت ہوتی ہے۔ جیسے کسی کا بچہ بیمار ہے اور وہ اس کا علاج نہیں کرتا، اس میں پریشان ہے تو اس میں نور نہ ہو گا۔ اور ایک صورت یہ ہے کہ بچہ بیمار تھا اس کا علاج کیا گیا اور علاج کے بعد وہ مر گیا تو اس سے پریشانی نہ ہو گی، عارف ایسی مصیبت میں دل شاد ہوتا ہے اور ظاہر میں مغموم۔
مصائبِ تکوینیہ میں تحمل پیدا کرنے کا طریقہ تعلق مع اللہ ہے:
تہذیب: مصائبِ تکوینیہ کے تحمّل کا طریقہ تعلق مع اللہ ہے۔ اس کو پیدا کر کے دیکھو، پھر سب مصائب طاقت کے اندر ہیں، کوئی طاقت مافوق الطاقۃ نہیں، کیونکہ کام تو وہ خود کرتے ہیں تم تو صرف طریق اور صرف مظہر ہو، کہ فعل تم سے ظاہر ہو جاتا ہے ورنہ کرنے والے وہ خود ہیں، تو اب تحمل اس لئے ہو جائے گا کہ وہ تمہارے قلب میں قوتِ تحمّل پیدا کر دیں گے۔
عارف کو عقلی رنج مصائب پر نہیں ہوتا اور اس کی وجہ:
تہذیب: اولاد کا یہ بھی حق ہے کہ ان کی مفارقت کا رنج کیا جائے اور خالق کا حق یہ ہے کہ عقلاً اس کے ہر تصرف پر راضی رہے۔ عارف کو طبعی رنج تو ہوتا ہے مگر اس کی عمر زیادہ نہیں ہوتی، نہ اس سے پریشانی ہوتی ہے۔ عقلی رنج اس کو نہیں ہوتا اور پریشانی کی جڑ یہی ہے۔ عارف کو عقلی رنج اس لئے نہیں ہوتا کہ وہ "إِنَّا لِلہِ" کے مضمون کو پیش نظر رکھتا ہے۔
عسرِ غیر اختیاری عقوبت ہی نہیں اور اس کی دلیل:
تہذیب: اگر کوئی مشقت اور پریشانی تم کو پیش آئے تو اس کو اپنے لئے عقوبت ہی نہ سمجھو جب کہ قصد کو اس میں دخل نہ ہو، بلکہ بلا قصد و اختیار آئی ہو، لِقَوْلِہٖ تَعَالٰی: ﴿إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا﴾ (الم نشرح: 6) یہاں عُسر سے مراد غیر اختیاری ہی ہے، کیونکہ اس سے اوپر جس عُسر کا ذکر ہے وہ غیر اختیاری ہی تھا، ﴿وَ وَضَعْنَا عَنكَ وِزْرَكَ الَّذِيْ أَنقَضَ ظَهْرَكَ﴾ (الم نشرح: 3-2)۔ ظاہر ہے کہ حضور ﷺ پر جو ثقل وحی وغیرہ کا تھا وہ غیر اختیاری تھا، اور اس میں معیّتِ یُسر ظاہر ہے، کیونکہ اس سے رفعِ درجات اور ترقی کا اجر ہوتا ہے۔
معیار حقیقتِ مصیبت و صورتِ مصیبت کا:
تہذیب: جس مصیبت سے انقباض اور پریشانی بڑھے وہ تو گناہوں کی وجہ سے ہے اور جس سے تعلق مع اللہ میں ترقی ہو، تسلیم و رضا زیادہ ہو وہ حقیقت میں مصیبت نہیں، گو صورتِ مصیبت ہو۔ اور صورتِ مصیبت رفعِ درجات و امتحانِ محبت کے واسطے بھی ہوتی ہے۔
واقعاتِ مصائب درحقیقت تجارت ہیں:
تہذیب: یہ واقعات، مصائب درحقیقت سب تجارت میں داخل ہیں کہ ایک چیز ہم سے لی جاتی ہے اور اس کے عوض دوسری چیز دے دی جاتی ہے۔ اور تجارت بھی ایسی کہ:
؎ نیم جاں بستاند و صد جان دہد
آنچہ در وہمت نیاید آں دہد
علاوہ اس کے مصیبت حالاً تو مصیبت ہے مگر مآلاً نعمت ہے، کیونکہ اس سے منافع و مصالح دینیہ و دنیویہ حاصل ہوتے ہیں۔ ایک بزرگ کا ارشاد ہے کہ برسوں کے مجاہدات سے باطن کو وہ نفع نہیں ہوتا جو ایک ساعت کے حزن سے ہوتا ہے۔ خاص کر ایمان کو پختگی ہوتی ہے جو امورِ باطنہ میں سب سے افضل ہے۔