حصہ 1 باب 3 ملفوظ 19: عشق و تعلق مع اللہ

H1 B3 M19 (عشق و تعلق مع اللہ)

عشق و تعلق مع اللہ

خدا کی محبت حاصل کرنے کا طریقہ اور اس میں ایک غلطی پر تنبیہ:

تہذیب: خدا کی محبت اگرچہ امرِ غیر اختیاری ہے لیکن اس کے اسباب بندے کے اختیار میں ہیں، وہ یہ ہیں: (1) کثرتِ ذکر اللہ، (2) اللہ تعالیٰ کے انعامات کو اور اپنے برتاؤ کو سوچنا، (3) کسی اہل اللہ سے تعلق رکھنا، (4) طاعت پر مواظبت کرنا، (5) حق تعالیٰ سے دعا کرنا۔

اس تدبیر میں تو کوئی غلطی نہیں، صرف ایک غلطی علمی محتمل ہے، وہ قابلِ تنبیہ ہے۔ وہ یہ کہ اپنے ذہن سے کوئی درجہ محبت کا تراش کر اس کا منتظر رہے یہ غلطی ہو گی، بلکہ اس تدبیر کی مداومت سے جو درجہ محبت کا حاصل ہوتا ہے وہی اس درجہ میں مطلوب ہے۔ پھر خواہ اس میں مزعوم ترقی ہو، خواہ ایک حالت پر رہ جائے۔ البتہ رسوخ میں ترقی لازم ہے صرف لونِ محبت میں تفاوت ہوتا رہتا ہے۔

اللہ پاک کی محبت میں بے چینی کی طلب:

حال: مجھے اس کا بڑا شوق ہے کہ کسی طرح ہو اللہ پاک کی محبت میں بے چین رہوں۔

تہذیب: مگر اس کے ساتھ یہ بھی دعا کرو کہ اس بے چینی میں چین رہے۔ اس جواب میں شریعت و طریقت دونوں کے اصول کی رعایت ہے اس لیے کہ اگر یہ جواب دیا جاتا کہ بے چینی مطلوب نہیں تو ان کا یہ خیال رخصت ہو جاتا۔ کیونکہ طریقت میں حال مہمانِ عزیز ہے، اگر اس کی قدر نہ کی جائے تو یہ روٹھ جاتا ہے۔ تو اس جواب میں طریقت کے اصول کی مخالفت ہوتی اور اگر یہ جواب دیا جاتا کہ بے چینی محمود ہے تو شریعت کے خلاف ہوتا، اس واسطے کہ شریعت میں اطمینان اور چین مطلوب ہے۔ ﴿أَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ (الرعد: 28) اس جواب پر بے ساختہ یہ شعر پڑھنے کو جی چاہتا ہے:

؎ ہزار نکتۂ باریک تر زمو ایں جاست

نہ ہر کہ سر بتراشد قلندری داند

بر کفے جامِ شریعت بر کفے سندانِ عشق

ہر ہوسنا کے ندا ند جام و سندان باختن

(از جامع منہ)

شوق و ولولہ نہ بالذاتِ مطلوب ہے نہ شرائطِ قبول سے ہے:

تہذیب: شوق بمعنی ولولہ نہ بالذات مطلوب ہے، نہ شرائطِ قبول سے ہے۔ اخلاص کے ساتھ عمل ہونا کافی ہے گو ولولہ نہ ہو، بلکہ طبعاً گرانی ہو۔ حدیث "إِسْبَاغُ الْوُضُوْءِ عَلَی الْمَکَارِہِ" (الصحيح لمسلم، کتاب الطھارۃ، باب: إسباغ الوضوء علی المکارہ، رقم الحدیث: 251) اس کی نقلی دلیل ہے، جس سے دعا مذکور سے زائد یہ بھی ثابث ہوتا ہے کہ ایسے مکارہ سے اجر و فضل بڑھ جاتا ہے۔ اور عقلی حقیقت اس کی یہ ہے کہ طاعات بعض کے لئے مثل غذا کے ہیں اور بعض کے لئے مثل دوا کے، اور ظاہر ہے کہ دعا کا نافع ہونا اس کی رغبت پر موقوف نہیں ہے۔ نیز ایسی حالت میں اس کا استعمال اور زیادہ ہمت اور مجاہدہ ہے اور اس میں حکمتیں بھی ہوتی ہیں، جیسے عُجب سے حفاظت اور اپنے نقص کا مشاہدہ و نحوھما۔ پس عبدِ کامل کا مذہب یہ ہونا چاہیے:

؎ به دُرد و صاف تو را حکم نیست خوش درکش

که هر چه ساقی ما کرد عین الطاف است

محبتِ عقلی کی شناخت:

تہذیب: محبتِ عقلی یہ ہے کہ انسان اپنی طبیعت کو شریعت پر عمل کرنے کی طرف متوجہ کرے۔

درد و محبت پیدا کرنے کا طریقہ:

تہذیب: محبت و درد و دلجمعی پیدا ہونے کے لئے ’’مثنوی معنوی‘‘ و ’’دیوانِ حافظ‘‘ کے دو دو صفحے کا روزانہ مطالعہ کیا جائے تو زیادہ نافع ہو گا۔

محبت کی قسمیں اور ان کا حکم:

تہذیب: محبت کی دو قسمیں ہیں: ایک عقلی، ایک طبعی۔ اور مطلوب محبتِ عقلیہ ہے اور وہ یہ ہے کہ محبوب کے احکام کی اطاعت کرے اور اپنی خواہش و ارادہ کو اس کے احکام کے سامنے فنا کر دے اور اس کے حکم پر کسی چیز کو ترجیح نہ دے۔ اور محبتِ طبعیہ میلان و انجذاب و وابستگی کا نام ہے۔ اور قاعدہ ہے کہ محبتِ طبیعہ خاص درجہ میں ایک ہی سے ہو سکتی ہے، دو سے ایک درجہ کی نہیں ہو سکتی۔ اور یہ امر غیر اختیاری ہے کیونکہ اس کا مدار مناسبتِ طبع پر ہے جو بندہ کے اختیار میں نہیں، بلکہ مامور بہا محبتِ عقلیہ ہے۔ چنانچہ ہر مؤمن کو محبتِ عقلیہ اللہ و رسول کے ساتھ زیادہ ہے، گو طبعًا اپنی جان سے زیادہ محبت ہو۔

محبت طبعی بھی ہر مسلمان میں ہے اور اس کی شناخت کا طریقہ:

تہذیب: خدانخواستہ خدا اور رسول کی شان میں کوئی کافر گستاخی کرے تو اس وقت ہر مسلمان کو جوش آتا ہے اور جان لینے اور دینے کو آمادہ ہو جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ محبتِ طبعی بھی ہر مسلمان میں ہے، پس اتنا فرق ہے کہ بعض میں ہر وقت اس کا ظہور ہوتا ہے اور بعض کو کسی محرکِ قوی سے ظہور ہو جاتا ہے۔

محبت عقلیہ کی کمی کی شناخت:

تہذیب: محبتِ عقلیہ کی کمی یہ ہے کہ مخلوق کی رضا کو حق تعالیٰ کی رضا پر ترجیح دی جائے۔

ایمان کے لئے حبِ عقلی رسول سے ضروری ہے نہ کہ حُبِ طبعی:

تہذیب: "لَا یُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ اللہُ وَ رَسُوْلُہٗ أَحَبَّ إِلَیْہِ مِمَّا سِوَا ھُمَا" (احیاء العلوم، صفحہ: 3002، دارالفکر بیروت) یہاں بھی مراد احبیتِ عقلیہ ہے یعنی حضور کے ساتھ حب عقلی سب سے زیادہ ہونا چاہیے، جس کا معیار یہ ہے کہ احکام میں حضور کی اطاعت ہو اور تعارض کے وقت حضور کے حکم کو دوسرے کے احکام پر ترجیح دی جائے۔ گو حبِ طبعی میں کمی ہو۔ اگرچہ طبعی محبت بھی ہر مسلمان کو حضور ہی سے زیادہ ہے، مگر تحقیق یہی ہے کہ طبعی محبت اگر کم بھی ہو تو مضائقہ نہیں، نری عقلی تو کافی ہے مگر نری طبعی محبت کافی نہیں۔

بہ نیت از یادِ محبتِ منعمِ حقیقی حظوظ کا درجہ بھی مطلوب ہے:

تہذیب: ایک درجہ حظوظ کا بھی مطلوب ہے، وہ یہ کہ حظوظ کا استعمال کیا جائے تاکہ منعم کی محبت بڑھے، پانی جب پیو، خوب ٹھنڈا پیو، بال بال سے "اَلْحَمْدُ لِلہِ" نکلے گا۔

عشق کی حقیقت تفویض ہے:

تہذیب: عاشقی کا نام بندگی ہے کہ ہر وقت حکم کا تابع رہے، جہاں جان دینے کا حکم ہوا وہاں جان دے اور جہاں جان بچانے کا حکم ہو وہاں بچائے۔ خلاصہ یہ کہ عشق کی حقیقت ’’تفویض‘‘ ہے کہ اپنے کو خدا تعالیٰ کے سپرد کر دے، وہ جس طرح چاہیں اس میں تصرف کریں، تشریعاً بھی اور تکویناً بھی۔ اور یہ ہر حال میں راضی رہے یہ حقیقت ہے ’’تفویض‘‘ کی، جس کی ابتداء شیخ کے ہاتھ میں اپنے کو ’’تفویض‘‘ کرنے سے ہوتی ہے۔

تبتل کی تعلیم:

تہذیب: بس جی چاہتا ہے کہ سب سے الگ ہو کر حق تعالیٰ کے ساتھ لو لگائی جائے اور سب جھگڑوں کو حذف کیا جائے۔

سالک کو اپنے اعضاء سے محبت کا راز:

تہذیب: سالک جس وقت دیکھتا ہے کہ ہمارے اعضاء نے قربِ حق میں ہماری اعانت کی ہے وہ اس حیثیت سے ان سے محبت کرتا ہے اور اپنی آنکھ کی رعایت کرتا ہے اور دماغ کی بھی حفاظت کرتا ہے، نہ اس واسطے کہ وہ اپنی چیزیں ہیں۔ بلکہ اس واسطے کہ یہ خدا تعالیٰ کی چیزیں ہیں۔

لقب ابو یحییٰ کی پسندیدگی کا عجیب و غریب راز:

تہذیب: ابو یحییٰ ملک الموت کا لقب ہے اور واقعی یہ لقب عمدہ ہے۔ ابوالموت لقب نہیں رکھا، اس کی وجہ ہم سے پوچھو، تو ہم یہی کہیں گے کہ جس کو تم موت کہتے ہو حقیقت میں حیات وہی ہے کیونکہ وہ بقائے حق کا وسیلہ ہے۔

محبت عقلیہ ہی افضل ہے محبت طبعیہ سے اور اس کا راز:

تہذیب: محبتِ عقلیہ ہی افضل ہے کیونکہ اس کا مدار اعتقاد پر ہے اور اعتقاد بہت کم بدلتا ہے۔ "إِلَّا نَادِرًا وَّ النَّادِرُ کَالْمَعْدُوْمِ" اور محبتِ طبعیہ کا منشا ہیجانِ نفس ہے اور جوش و خروش میں ہمیشہ تبدل ہوتا رہتا ہے، تو اس میں خطرہ زیادہ رہتا ہے۔

غیرِ خدا سے محبت ہو ہی نہیں سکتی:

تہذیب: محققین کا دعویٰ ہے کہ غیرِ خدا سے محبت ہو ہی نہیں سکتی اور جس کو غیر سے بظاہر محبت ہے وہ بھی حقیقت میں خدا ہی سے محبت ہے۔ (باقی اس پر جو مواخذہ ہے، بوجۂ نیت کے ہے کیونکہ یہ نیت تو غیر ہی کی کر رہا ہے) تقریر اس کی یہ ہے کہ محبت کے جتنے اسباب ہیں یعنی حسن و جمال، عطا و نوال، فضل و کمال؛ یہ سب صفات حقیقت میں حق تعالیٰ کے ہیں۔ جیسے دیوار پر دھوپ پڑ رہی ہو اور کوئی دیوار کی روشنی پر عاشق ہو جائے تو ظاہر میں یہ تو نورِ جدار کو عشق ہے مگر حقیقت میں آفتاب کا عشق ہے۔

عشقِ الٰہی کو چھپاؤ نہیں:

تہذیب: اپنی طرف سے تو اخفا کا اہتمام کرو، ہاں اگر ڈھول خود ہی گلے میں پڑ جائے اور خود بخود بجنے بھی لگے تو اس کو بند نہ کرو۔ اگر رونا آئے رولو، چیخیں نکلیں تو نکلنے دو اور عشقِ الٰہی جس طرح ظاہر ہونا چاہیے ظاہر ہونے دو۔

؎ عشقِ معشوقاں نہاں است و ستیر

عشقِ عاشق باد وصد طبل و نفیر

محبت و عشق رافعِ شبہ و وسوسہ ہے:

تہذیب: حضرت محبت و عشق وہ چیز ہے کہ جب یہ دل میں گھس جاتی ہے تو پھر محبوب کے کسی قول و فعل میں شبہ اور وسوسہ پیدا نہیں ہوتا۔

جہنم میں مؤمن کو مشاہدہ راحت کا ہو گا بوجہ محبتِ الٰہی کے:

تہذیب: جہنم میں اول تو کفار کے برابر تکلیف نہ ہو گی، پھر مسلمانوں کو خدا تعالیٰ سے محبت زیادہ ہو جائے گی۔ اس لیے مؤمن کو عذاب میں بھی مشاہدہ راحت کا ہو گا۔

محبت کا مقتضا رضا و تفویض ہے:

تہذیب: محبت کا مقتضا یہ ہے کہ حق تعالیٰ کے سارے تصرفات پر راضی رہے، اپنی ساری تجویزوں کو فنا کر دے، دل لگنے نہ لگنے کا طالب نہ ہو، لذت و ذوق کی ہوس نہ کرے بلکہ کام میں لگا رہے۔

موت سے وحشت دور ہونے کی تدبیر:

تہذیب: اگر یہ چاہو کہ موت آسان ہو جائے اور اس سے وحشت نہ رہے اس کا اشتیاق ہو جائے تو خدا کی محبت اور اطاعت حاصل کیجئے۔ اکثر طبائع پر موت کا خوف ہی غالب ہے اور اس سے طبعاً وحشت ہوتی ہے۔ اور اس طبعی وحشت میں کوئی گناہ بھی نہیں مگر اس کی ضرور کوشش کرنی چاہیے کہ طبعی وحشت موت کے وقت نہ رہے۔ اس وقت اشتیاق کی حالت غالب ہو جائے، اس وقت اگر شوق غالب رہا تو موت کی ذرا بھی تکلیف نہ ہو گی اور اشتیاقِ موت و لقاء اللہ کی تمنا پیدا ہونے کی تدبیر کثرتِ ذکر و کثرتِ طاعت اور اجتنابِ معصیت ہے۔

محبتِ عقلیہ مامور بہا ہے کیونکہ اس کا منشاء محبوب کا کمال ہوتا ہے:

تہذیب: اولاد اور بیوی کے ساتھ طبعی محبت ہے عقلی محبت نہیں۔ اور طبعی محبت تو جانوروں کو بھی اپنی اولاد وغیرہ سے ہوتی ہے۔ یہ کچھ کمال نہیں اور نہ خدا اور رسول کے ساتھ یہ محبت مامور بہا ہے، بلکہ محبتِ عقلیہ مامور بہا ہے۔ جس کا منشاء محبوب کا کمال ہوتا ہے۔ سو یہ محبت اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ زیادہ ہے اور کسی کے ساتھ ان کے برابر نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے برابر کوئی صاحب کمال نہیں، اور خدا تعالیٰ کے بعد رسول کے برابر کوئی صاحب کمال نہیں۔

ترغیب شدتِ تعلق مع اللہ:

تہذیب: محبوب کے راستہ میں ایک سر کیا، ہزار سر بھی پھوٹ جائیں تو تھوڑے ہیں۔ اور اگر جان بھی جاتی رہے تو عین سعادت ہے۔

مقصود حبِ عقلی ہے:

تہذیب: جیسے غلبۂ خشیت سے کثرتِ بکاء حالتِ محمود ہے، گو مقصود نہیں۔ اسی طرح غلبۂ محبتِ طبعی گو محمود ہے، مگر مقصود نہیں۔ مقصود حبِ عقلی ہے۔

جوش کی کمی علامتِ محرومی نہیں:

تہذیب: جوش کا اکثر قاعدہ ہے کہ جب تک مطلوب حاصل نہیں ہوتا اس وقت تک رہا کرتا ہے، حصولِ مطلب کے بعد جوش نہیں رہا کرتا، ہاں اگر مطلوب سے تعلق رہے تو بجائے شوق کے اُنس پیدا ہو جاتا ہے بس اس کا کم ہونا محرومی کی علامت نہیں بلکہ وصولِ علامت ہے۔

محبتِ طبعی پر محبتِ عقلی کے وجوہ کی ترجیح:

تہذیب: محبتِ عقلی راجح ہے محبتِ طبعی پر۔ کیونکہ محبتِ طبعی اختیاری نہیں اس کا حدوث و بقاء بالکل غیر اختیاری ہے۔ اور امرِ غیر اختیاری پر بعض اوقات دوام نہیں ہوتا۔ بخلاف محبتِ عقلی کے، کہ اس کا حدوث و بقاء اختیاری ہے تو اس پر دوام بھی ہوتا ہے۔ علاوہ اس کے محبتِ طبعی سے محبتِ عقلی انفع بھی ہے، کیونکہ محبتِ طبعی منشاءِ جوشِ طبیعت ہے، اور جوش ہمیشہ نہیں رہتا۔ اور محبتِ عقلی بناء علی الکمالات ہوتی ہے تو جب تک کمالات باقی ہیں اس وقت تک محبت بھی رہے گی۔ اور محبوبِ حقیقی کے کمالات ختم نہیں ہو سکتے تو ان کی محبت بھی ختم نہ ہو گی۔

نماز روزہ میں اہل اللہ کی لذت کی مثال:

تہذیب: اہل اللہ کو نماز روزہ میں ایسی لذت آتی ہے جیسے عاشق کو محبوب کے پیر دبانے اور پنکھا جھلنے میں۔

محبتِ مجازی سے محبتِ حقیقی کی تحصیل کا طریقہ:

تہذیب: جس چیز سے کسی کو محبت ہو اس میں یہ غور کرے کہ یہ کمال اس کے اندر کہاں سے آیا۔ مسلمان کا دل فوراً جواب دے گا کہ حق تعالیٰ نے پیدا کیا تو اب دل کو سمجھانا چاہیے۔

؎ چہ باشد آں نگار خود کہ بند و آں نگار ہا

کہ جس نے ایسی ایسی چیزیں پیدا کی ہیں وہ خود کیا کچھ ہو گا۔ اور اس کے ساتھ ہی محبوبِ مجازی کے فنا و نیست ہونے کو بھی ذہن میں حاضر کیا جائے، کہ یہ چند روز میں فنا ہو کر خاک ہو جائے گا، اس کا کمال و حسن عارضی ہے اور حق تعالیٰ کا کمال ذاتی اور باقی۔

؎ عشق با مردہ نباشد پائدار

عشق را با حیّ و با قیّوم دار

خدا تعالیٰ سے لو لگانے کا طریقہ:

تہذیب: خدا تعالیٰ سے لو لگانے کے طریقے مختلف ہیں، کہیں محبت قائد ہوتی ہے، کہیں خوف سائق ہوتا ہے۔ اول کا طریقہ نعمائے الٰہیہ پر غور کرنا اور ثانی کا طریقہ عذاب و عقوبت کا استحضار ہے۔

مسلمان کو طبعی محبت بھی اللہ و رسول ہی سے زیادہ ہے مع دلیل:

تہذیب: ہر مسلمان کی یہ حالت ہے کہ وہ اپنی ذلت اور ماں باپ کی ذلت کو گوارا کر سکتا ہے، مگر اللہ و رسول کی شان میں ذرا سی گستاخی کا تحمل نہیں کر سکتا۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ بحمدِ اللہ مسلمان کو طبعی محبت بھی اللہ و رسول ہی سے زیادہ ہے۔

در حقیقت حق تعالیٰ ہی کو ہم سے محبت ہے:

تہذیب: محبت معرفت سے ہوتی ہے، سو حق تعالیٰ کو تو ہماری معرفت ہے مگر ہم کو ان کی معرفت کہاں؟ پس ہماری محبت جو کہ بلا معرفت ہے محض برائے نام محبت ہے، ورنہ حقیقت میں حق تعالیٰ ہی کو ہم سے محبت ہے۔

آثارِ محبت:

تہذیب: محبت، محبوب کے عیوب کو بھی محاسن کر دیتی ہے۔

اہل اللہ کی راحت کا راز:

تہذیب: اہل اللہ کی راحت کا راز یہ ہے کہ مخلوق سے اُن کی امیدیں منقطع ہو چکی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ہر فعل کو حکمت اور مصلحت پر مبنی سمجھتے ہیں۔ نیز ان کو اللہ تعالیٰ سے محبت بھی ہے اس لیے اگر حکمت و مصلحت معلوم بھی نہ ہو تو محبت کی وجہ سے وہ ہر حال میں خوش رہتے ہیں۔

؎ نا خوشِ او خوش بُود برجانِ من

جاں فدائے ما و دل رنجانِ من

؎ زندہ کنی عطائے تو ور بکشی رضائے تو

دل شدہ مبتلائے تو هرچه کنی فدائے تو

بخلاف دنیا والوں کے، کہ ان کو کچھ راحت نہیں وہ کھانا کھاتے ہیں اور کھانا ان کو کھاتا ہے۔

اہل اللہ کا خدا کی محبت میں حال:

تہذیب: اہل اللہ کا خدا کی محبت میں یہ حال ہوتا ہے کہ تمام مصائب ان کو آسان ہو جاتے ہیں۔ نہ قید خانہ سے ان کو تکلیف ہوتی ہے، نہ فاقہ سے کلفت۔ ان کی شان یہ ہوتی ہے کہ ان کے پاس کچھ نہیں ہے مگر خوش ہیں، کیونکہ ایک چیز ان کے پاس ایسی ہے کہ اسکے پاس ہوتے ہوئے ان کو کسی چیز کی پرواہ نہیں ہوتی وہ کیا ہے؟ وہ آغوشِ محبوب ہے، رضائے محبوب ہے، لذتِ طاعات ہے، لذتِ مناجات ہے، لذتِ قرب ہے۔

خدا تعالیٰ سے واسطہ کسی وقت قطع نہ کرو:

تہذیب: خدا تعالیٰ سے کسی وقت واسطہ کو قطع مت کرو، کیونکہ ان سے ہر دم واسطہ ہے۔ پس توبہ و استغفار سے کوئی مصیبت ہٹ جائے تب بھی اس سبق کو نہ چھوڑو۔

خدا تعالیٰ کو جن سے محبت ہوتی ہے انہیں کو اپنا عِشق دیتے ہیں:

تہذیب: عشق اول درد دل معشوق پیدا می شود: یعنی خدا تعالیٰ اپنا عشق اسی کو دیتے ہیں جس سے پہلے ان کو محبت ہوتی ہے۔

ولایت کا مدار اطاعات پر ہے:

تہذیب: لوگوں نے محبوبانِ خدا کو محبوبانِ دنیا پر قیاس کیا ہے کہ جس طرح دنیا والوں کے محبوب تکالیف اور احکام سے مستثنیٰ ہو جاتے ہیں، اسی طرح محبوبانِ خدا بھی مستثنیٰ ہو جاتے ہونگے اور یہ خبر نہیں کہ محبوب ہی وہ بنتا ہے جو آئندہ بھی دوسروں سے زیادہ احکام کا بجا لانے والا ہو۔ حق تعالیٰ کی محبت اضطراری نہیں کہ بلا وجہ کسی سے خواہ مخواہ محبت ہو جائے۔ ان کی محبت اختیاری ہے اور وہ محبت اسی سے کرتے ہیں جو ان کا زیادہ مطیع ہے پس جو چیز محبت کا سبب ہے وہی اگر جاتی رہی تو محبوب کہاں رہے گا؟

عاشق کے نا مراد ہونے کی وجہ:

تہذیب: عاشق ہر وقت نا مراد ہے کیونکہ اس کی طلب کم نہیں ہوتی، وہ حد درجہ پر پہنچ کر اس سے آگے کا طالب ہے اس لیے وہ ہمیشہ نا مراد رہتا ہے۔

عزم تعلق مع الغیر بھی مضر ہے:

تہذیب: عزم تعلق مع الغیر بھی اس طریق میں مضر ہے۔

تعلق مع اللہ ہی دوائے ہمُوم و مصائب ہے:

تہذیب: توبہ و استغفار کرو اور ہر روز پانچ سو مرتبہ کم از کم ''لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِيِّ الْعَظِیْمِ'' کا وظیفہ مقرر کر لو۔ ایک ہفتہ میں سب مصیبت دور ہو جائے گی کیونکہ حدیث میں آیا ہے: ''لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ، فَإِنَّهَا كَنْزٌ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ''(مسند أحمد، رقم الحدیث:8406) [وَ ھُوَ] ''دَوَاءٌ مِنْ تِسْعَةٍ وَّ تِسْعِينَ دَاءً''(المعجم الأوسط للطبرانی، باب: من إسمہ محمد، رقم الحدیث: 5028) غرض یہ کہ حق تعالیٰ سے تعلق پیدا کرو، اس کے سوا سب سے قطعِ نظر کرو، کیونکہ راحت و کلفت سب اس کے ہاتھ میں ہے، اس کو راضی کرو، ان شاء اللہ تعالیٰ وہ تمام مصائب کا انتظام فرما دیں گے۔ ﴿أَمَّن يُّجِيْبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَ يَكْشِفُ السُّوْءَ وَ يَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلٰهٌ مَّعَ اللهِ قَلِيْلًا مَّا تَذَكَّرُوْنَ﴾ (النمل: 62)

محبت کے مختلف لون ہیں:

تہذیب: محبت کا ایک رنگ یہ ہے کہ اپنی طرف سے تو محبوب کے سوا سب کو چھوڑ کر اسی کے مشاہدہ میں لگا رہے، لیکن اگر خود محبوب ہمارے سپرد کسی جماعت کا ہم کو حاکم بنا دے تو حکومت کے انتظام میں مشغول ہونا یہ بھی عین مشاہدہ ہے۔

حکومت محض حکمِ محبوب کی وجہ سے کرنے کا معیار:

تہذیب: یہ کیسے معلوم ہو کہ ہم اپنے نفس کو خوش کرنے کے واسطے انتظام کررہے ہیں یا محض حکمِ محبوب کی وجہ سے؟ تو اس کا معیار یہ ہے کہ اگر یہ شخص ان محکومین کو اپنے سے کم نہ سمجھے گا (گو کام تو کرے بڑا ہو کر مگر اعتقاد میں سب کو اپنے سے بڑا سمجھے) تو یہ اس کی علامت ہو گی کہ یہ محض محبوب کے حکم کی وجہ سے سیاستِ خَلق میں مشغول ہے، نفس کے لئے کام نہیں کر رہا ہے۔

خدا کے نزدیک زیادہ محبوب کون ہیں:

تہذیب: خدا کے نزدیک زیادہ محبوب وہ ہے جو اس کی عیال سے اچھا برتاؤ کرے یعنی مخلوق سے۔ "أَحَبُّ الْخَلْقِ إِلَی اللہِ مَنْ أَحْسَنَ إِلٰی عِیَالِہٖ" (مشکوٰۃ المصابیح، باب: الرحمۃ و الشفقۃ علی الخلق، الفصل الثالث، رقم الحدیث: 4998)

آثارِ عشق

تہذیب:

؎ مال دادن خود سخائے صادق ست

جان دادن خود سخائے عاشق ست

حیاتِ طیبہ کی علامات

تہذیب: خدا تعالیٰ سے تعلق بڑھاؤ اور غیرِ خدا سے حالاً و قالاً تعلق کم کرو۔ پھر دنیا و آخرت دونوں کی راحت تمہارے ہی لیے ہے۔ اگر فقر و فاقہ بھی ہوا جب بھی تم کو راحت و چین ہی ہو گا اور بدوں سرمایہ اور سامان کے تم سلاطین سے بڑھ کر سلطان ہو گے۔

؎ اے دل آں بہ کہ خراب ازمئے گلگوں باشی

بے زر و گنج بصد حشمتِ قاروں باشی

خدا تعالیٰ سے محبت بڑھانے کا نتیجہ یہ ہو گا۔

1- مرتے ہوئے فرشتے بشارت دیں گے، خوش خبری سنائیں گے، جس سے ہر نیک بندہ کو اصلی گھر کا اشتیاق اور انتظار ہو گا۔ اور اسی لیے تعجیلِ جنازہ کا امر ہے۔

2- قبر میں یہ ہو گا کہ جنت کی طرف کھڑکیاں کھل جائیں گی، وہاں بھی فرشتے بشارتیں سنائیں گے۔

3- میدانِ حشر میں یہ حال ہو گا: ﴿لَا يَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْأَكْبَرُ وَ تَتَلَقَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ هٰذَا يَوْمُكُمُ الَّذِيْ كُنتُمْ تُوْعَدُوْنَ﴾ (الأنبياء: 103) میں نے مولانا فضل الرحمٰن صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا ہے:

؎ عاشقاں را با قیامت روز محشر کار نیست

عاشقاں را جُز تماشائے جمالِ یار نیست

حدیث میں بھی آیا ہے کہ قیامت کا دن کافر کے لئے پچاس ہزار سال کا ہو گا اور مؤمن کو ایسا معلوم ہو گا جیسے فرض نماز کا وقت۔

4- پُلِ صراط سے گزرتے وقت دوزخ یوں کہے گی: "جَزْ یَا مُؤْمِنُ فَإِنَّ نُوْرَکَ أَطْفَأَ لَھَبِيْ" (إحیاء العلوم، باب: بیان معنی سوء الخاتمۃ، جلد: 4، صفحہ: 174، دار المعرفۃ بیروت) کہ اے مؤمن! جلدی پار ہو جا کہ تیرے نور کی برودت نے تو میرے نار کی حرارت ہی کو بجھا دیا۔ بتلایئے یہ پاکیزہ زندگی ہے یا یہ کتا خسی جس میں ہم پھنسے ہیں۔