تہذیبات حصہ دوم
توبہ
فکر و سعی زینہ کامیابی کا ہے:
حال: ہر ہفتہ توبہ کرتا ہوں لیکن بعد ایک روز کے تمام تہیہ وغیرہ غارت ہو جاتا ہے۔
تہذیب:
؎ بسیار سفر باید تا پختہ شود خامی
صوفی نہ شود صافی تا در نکشد جامی
؎ اندریں رہ می تراش و می خراش
تا دمِ آخر دمے فارغ مباش
تا دمِ آخر مے آخر بود
کہ عنایت با تو صاحب سر بود
تہذیب: حاصل یہ کہ فکر و کوشش جاری رکھنا چاہیے، ان شاء اللہ تعالیٰ اسی طرح کامیابی ہو جائے گی۔
ذہولِ استغفار کا علاج:
حال: استغفار جس میں کچھ بھی وقت صرف نہیں ہوتا اور نہایت آسان ہے، بہت بھولتا ہوں۔
تہذیب: اس حالت میں استغفار بعددِ خاص کسی وقت مقرر کر لیجئے تاکہ اگر ہر وقت یاد نہ رہ سکے تو قلق نہ ہو۔
عیال و شاگرد و مریدین پر افراطِ غضب کا علاج:
تہذیب: شاگردوں کو ان کی کوتاہی پر بے وقوف، پاگل وغیرہ کہہ دینا چنداں مذموم نہیں، اس لیے اس سے استغفار کی ضرورت نہیں کہ تمام طلبہ جماعت کے سامنے معافی چاہی جائے، بلکہ بعض اوقات خلافِ مصلحت ہے کہ سبب ہے ان کی جسارت و جرأت و فسادِ اخلاق کا۔ البتہ زجر میں اعتدال سے تجاوز نہ ہو، و علیٰ ہذا مریدین و عیال و خدام و نحوِہم من التابعین۔
علامتِ قبولِ توبہ میں دو متضاد قول اور ان کی تطبیق:
تہذیب: شیخ اکبر فرماتے ہیں: قبولِ توبہ کی علامت یہ ہے کہ اس گناہ کا نقش بالکلیہ ذہن سے محو ہو جائے کہ پھر وہ یاد نہ آئے اور عام کتب طریقت میں جمہور لکھتے ہیں کہ سالک کو لازم ہے کہ ہمیشہ ہر وقت اپنے گناہوں کو پیش نظر رکھے۔ وجہ تطبیق یہ ہے کہ محو ہو جانے سے مراد یہ ہے کہ اس کا اثر خاص یعنی قلق طبعی نہ رہے، گو یاد بھی رہے اور قلق اعتقادی بھی رہے۔ نیز شیخ رحمۃ اللہ علیہ کا فرمانا کلیاً نہیں ہے بلکہ بعض طبائع کے اعتبار سے ہے جن کے لیے قلق طبعی حاجب ہو جاتا ہے ”انشراح فی الطاعۃ“ سے۔
اخلاقِ مذمومہ کے حقوق العباد ہونے کی حد:
حال: اگر کسی کو دل سے حقیر سمجھا یا کسی پر حسد کیا اور کوئی اخلاقِ مذمومہ جس کا تعلق دوسرے سے ہو، اس کا ارتکاب دل سے کیا، لیکن ہاتھ اور زبان سے کوئی قصور نہیں کیا تو یہ بھی حقوق العباد میں داخل ہے یا نہیں اور اس کو بھی معاف کرانا چاہیے یا نہیں؟
تہذیب: چونکہ اس سے کسی کو ضرر نہیں پہنچا اس لیے یہ حقوق العباد نہیں ہوئے، صرف توبہ الی اللہ اور اصلاح آئندہ کافی ہے۔
عزمِ ادا یا ابراءِ حقوق کی صورت میں مرشد کے پاس توقف مضر نہیں:
حال: مراقبہ کے وقت جی چاہتا ہے کہ ابھی تھانہ بھون سے چلا جاؤں اور حقوق العباد سے چھٹکارا کر کے آؤں۔
تہذیب: چونکہ عزم ہے ادا یا ابراءِ حقوق کا، اس لیے یہاں رہنے کے سبب جو اس میں توقف ہو گا مضر نہیں۔ اور جن حقوق کی صفائی بذریعہ خط یا وکیل کے ہو سکے اس میں توقف کی بھی ضرورت نہیں۔
اگر توبہ کے بعد ادائے حقوق کا موقع نہ ملے تو اس کے لیے توبہ ہی سے حقوق العباد معاف ہو جائیں گے:
تہذیب: جو شخص توبہ کر کے مر جائے اور اس کو توبہ کے بعد ادائے حقوق کا موقع نہ ملے تو توبہ سے اس کے لیے حقوق العباد بھی معاف ہو جائیں گے۔ یعنی اللہ تعالیٰ مظلوم کو خوش کر کے ظالم کی مغفرت فرمائیں گے۔ توبہ نہ کرنے کی حالت میں اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے خواہ اس کی سزا دیں یا بدون سزا ہی بخش دیں اور مظلوم کو جنت کی نعمتوں سے خوش کردیں۔
عزمِ عدمِ عود توبہ کے لیے کافی ہے البتہ مشیت پر بھی نظر رکھے:
تہذیب: محققین کا مشہور قول یہ ہے کہ توبہ کے لیے ضروری ہے کہ عدمِ عود (پھر گناہ نہ کرنے) کا عزم ہو، لیکن بعض محققین کہتے ہیں کہ ضروری نہیں بلکہ عزم کا نہ ہونا ضروری ہے، کیونکہ اس عزم میں ایک قسم کا دعویٰ اور مشیت سے غفلت بلکہ مشیت سے معارضہ ہے۔ لیکن ذوق اور ظاہرِ نصوص اس کے خلاف ہے، کیونکہ یہ عزم مقدمہ ہے کف کا اور کف واجب ہے اور مقدمہ واجب کا واجب ہوا کرتا ہے اس لیے عزمِ عدمِ عود توبہ کے لیے لازم ہے۔ میرے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ عزم کے ساتھ قدرت و مشیت الٰہی پر نظر رکھنا چاہیے۔ یعنی عزم کے وقت مشیت پر نظر کر کے ابتدا کا بھی اندیشہ رکھے، غیر عارفین کی توبہ کی طرح نہ ہو کہ عزم کرتے ہوئے قضا و قدر سے بالکل غافل رہتے ہیں۔
دو رکعت نماز توبہ کی نیت سے پڑھ کر توبہ کرنے میں متعدد مصلحتیں ہیں:
تہذیب: اگر گناہ صادر ہو جائے تو فوراً دو رکعت نماز توبہ کی نیت سے پڑھو، پھر توبہ کرو اس طرح توبہ کرنے میں ظاہر میں متعدد مصلحتیں ہیں: (1) ﴿إِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّئَاتِ﴾ (ھود: 115) نیکیاں گناہوں کو زائل کرتی ہیں۔ (2) نماز کے بعد توبہ کرنے میں دل حاضر ہو گا اور قبولِ توبہ کے لیے حضورِ قلب ضروری ہے۔ (3) چونکہ نفس کو نماز سے شاق ہے اس لیے نفس گناہوں سے گھبرائے گا کہ کہاں کی علت سر لگی، بلکہ شیطان بھی گناہ کرانا چھوڑ دے گا۔ کیونکہ وہ دیکھے گا کہ میں اس سے دس گناہ کراؤں تو یہ بیس رکعتیں پڑھے گا، گناہ تو توبہ سے معاف ہو جائے گا اور یہ بیس رکعتیں اس کے پاس نفع میں رہیں گی۔
اعمال صالحہ و توبہ و استغفار سے ظاہری و باطنی دونوں بارشیں ہوں گی:
تہذیب: امساکِ باراں کا اصل علاج توبہ و استغفار و انابت الی اللہ ہے۔ استغفار و توبہ کی بدولت حق تعالیٰ کی رحمت و مودت تمہارے ساتھ ہو گی۔ واللہ یہ وہ چیز ہے کہ اگر بارش بھی نہ ہو تو جس چیز کے لیے بارش کی ضرورت ہے اس کی بارش شروع ہو جائے گی، کیونکہ بارش کی روح جمعیتِ قلب ہے اور استغفار کے بعد یہ دولت معاً حاصل ہو جاتی ہے، گو بارش بھی نہ ہو۔ اور یہ وہ دولت ہے جس کے سامنے بارش بھی کوئی چیز نہیں۔ مصیبت و قحط کی تلخی مبدل بہ لذت ہو جاتی ہے۔
؎ ناخوش او خوش بود برجانِ من
جاں فدائے ما و دل رنجانِ من
غرض یہ کہ اعمالِ صالحہ و توبہ و استغفار سے ظاہری بارش بھی ہوگی اور باطنی بارش بھی ہوگی۔
لا علاج کوئی مرض نہیں، توبہ سب کا علاج ہے:
تہذیب: حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میرے بندے اگر زمین و آسمان کے برابر بھی گناہ کریں گے، میرے پاس آئیں اور مجھ سے مغفرت چاہیں تو میں سب کو بخش دوں گا، اور گناہوں کی کثرت کی پرواہ نہ کروں گا۔ پس عمر گذشتہ کے ضائع ہونے کا بھی علاج موجود ہے، لاعلاج کوئی مرض نہیں۔ وہ علاج یہ ہے کہ توبہ کرو۔ اور توبہ کا طریقہ بھی کسی شیخ سے پوچھو اور جو کچھ وہ بتلائے پھر اس میں اپنی رائے نہ لگاؤ۔ آج کل خود رائی کا مرض بہت پھیل رہا ہے اسی لیے لوگوں کو راستہ نہیں ملتا۔
توبہ کی قبولیت کی علامت اور گناہ یاد آنے پر تجدیدِ استغفار و دعا ضروری ہے:
تہذیب: توبہ کے لیے تو گناہ یاد کرے مگر توبہ کے بعد پھر اس کو یاد نہ کرے، بلکہ دل سے نکال دے۔ شیخ ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ گناہ معاف ہو جانے کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ گناہ دل سے مٹ جائے اور جب تک وہ مٹے گا نہیں قلب پر وحشت سوار رہے گی جو اس گناہ کی سزا ہے۔ اس کی شرح میں مشائخ طریق کا ارشاد ہے کہ گناہ کے بعد جی بھر کے توبہ کر لے، پر اس کو جان جان کر یاد نہ کرے کہ اس سے بندہ اور خدا کے درمیان ایک حجاب سا معلوم ہونے لگتا ہے جو محبت اور ترقی سے مانع ہے۔ جس کا اثر یہ ہوگا کہ وہاں سے بھی عطا میں کمی ہو گی، کیونکہ جزا اور ثمرات کا ترتب عمل پر ہوتا ہے، خواہ عملِ جوارح ہو یا عملِ قلب، لیکن اگر وہ گناہ خود یاد آ جائے تو پھر تجدیدِ استغفار و دعا ضروری ہے۔
حقیقتِ توبہ میں ایک اصلاح:
تہذیب: اگر توبہ کے وقت عزمِ ترک فی المستقبل نہ ہو تو عزمِ عمل فی المستقبل بھی نہ ہو، بلکہ عزمِ عمل سے ذہن خالی ہو۔ اگر اس طرح خالی الذہن ہو کر بھی توبہ ندامت کے ساتھ ہو گئی تو توبہ صحیح ہو گئی۔
توبہ نصوح کے بعد گناہ یاد آ جانے پر کیا عمل چاہیے:
تہذیب: توبہ نصوح کے بعد اگر از خود پرانا گناہ یاد آ جائے تو تجدیدِ توبہ کر کے پھر کام میں لگ جائے اس سے زیادہ کاوش کرنا غلو ہے۔ اور یہ قصد کرنا کہ ذرا بھی کوتاہی نہ ہونے پائے، یہ ایک قسم کا دعویٰ اور غلو ہے اور گو عقلاً محال نہیں لیکن عادتاً محال ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے "سَدِّدُوْا وَ قَارِبُوْا" (الصحيح للبخاري، کتاب الرقاق، باب: القصد و المداومۃ علی العمل، رقم الحديث: 6467) "وَ اسْتَقِیْمُوْا وَ لَنْ تُحْصُوْا" (سنن ابن ماجه، کتاب الطھارۃ و سننھا، باب: المحافظۃ علی الوضوء، رقم الحديث: 277)
اُمورِ طبعیہ کے احکام:
تہذیب: امورِ طبعیہ پر مؤاخذہ نہیں بلکہ اُن کے مقتضا پر عمل کرنے سے مؤاخذہ ہوتا ہے، وہ بھی اس وقت جب کہ عمداً اس پر عمل کیا جائے۔ اور بعد میں اس سے معذرت کر لی جائے تو حق تعالیٰ اس کو معاف فرمائیں گے۔
دل سے توبہ کرنے کی حقیقت:
تہذیب: حقیقت توبہ کی یہ ہے کہ گزشتہ گناہوں پر ندامت و معذرت ظاہر کریں اور جو حقوق واجب الاداء ہیں فی الحال ان کے ادا کا عزم کریں اور فی المآل ان کے ادا کا اہتمام کریں۔ اور آئندہ کے لیے گناہوں سے بچنے کا پختہ ارادہ کریں۔
نفس کے شائبہ کے اندیشہ سے تدارک بالاستغفار کرتے رہنا چاہیے:
تہذیب: جب تک صاحبِ عمل کو اس سے اندیشہ ہوتا رہے کہ مبادا کہیں نفس کا شائبہ نہ ہو گیا ہو، حفاظتِ خداوندی اس کی رفیق رہتی ہے، لیکن تدارک بالاستغفار کرتے رہنا چاہیے۔
توبہ یا اعمالِ صالحہ کا دخل حقوق العباد میں:
تہذیب: اعمالِ صالحہ یا توبہ سے گناہ معاف ہو جاتے ہیں مگر حقوق معاف نہیں ہوتے۔ پس جس قدر ہو سکے ادا کرے اور سب کے ادا کا عزم رکھے۔ اگر کچھ باقی رہ گئے اور مر گیا تو اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اس کو برئ الذمہ کر دیں گے، یعنی اللہ تعالیٰ مظلوم کو خوش کر کے ظالم کی مغفرت فرما دیں گے۔
توبہ کے ساتھ بقائے توبہ کی بھی دعا کرنا چاہیے:
تہذیب: انسان کو چاہیے کہ توبہ کے ساتھ توبہ پر قائم رہنے کی بھی دعا کیا کرے، کیونکہ انسان کی قدرت سے باہر ہے کہ خود وہ کسی وعدہ کو پورا کر دے یا کسی دعوے کو نباہ دے بدوں خدا کی عنایت و اعانت کے۔
گناہ کے وقت کا دستور العمل:
تہذیب: شیخ اکبر نے لکھا ہے کہ گناہ پر ایک دفعہ خوب رو دھو کر توبہ کر لے، پھر قصداً اس کو یاد نہ کرے، کیونکہ مقصود بالذات خدا کی یاد ہے نہ کہ گناہوں کی یاد۔ گناہوں کی یاد سے تو یہی (خدا کی یاد) مقصود ہے، جب وہ حاصل ہے تو اب قصداً گناہ کو یاد کر کے اس کی یاد کو مقصود بالذات نہ بناؤ۔ اور اگر خود بخود بلا قصد یاد آ جائے تو پھر توبہ استغفار کر لے جیسے حدیث میں ہے کہ مصیبت خود بخود یاد آ جائے تو ''إِنَّا لِلہِ'' پڑھے کہ اس وقت ''إِنَّا لِلہِ'' پڑھنے کا بھی وہی ثواب ہو گا جو عین مصیبت کے وقت پڑھنے کا ثواب تھا(سنن إبن ماجہ، کتاب الجنائز، باب: ما جاء فی الصبر علی المصیبۃ، رقم الحدیث: 1600)۔