حصہ 1 باب 3 ملفوظ 17: حیا و خجلت

حیا و خجلت

کِبر و خجلت کا فرق اور اس کی شناخت کا معیار:

تہذیب: مجمع کے سامنے جو پانی کا گھڑا یا آم کی ٹوکری وغیرہ اٹھا کر لے چلنے میں عار آتی ہے، متوسّط کے لئے اس کا منشا کِبر ہوتا ہے۔ اس کو بتکلّف اٹھانا علاجاً ضروری ہے۔ خلافِ عادت فعل کرنے میں جو طبیعت شرماتی ہے اس کو ’’خجلت‘‘ کہتے ہیں۔ لیکن تکبّر و خجلت کا فرق یوں ظاہر ہو سکتا ہے کہ اگر مثلاً کسی شخص کو اس بات سے گرانی ہو کہ وہ سر پر ٹوکرا رکھ کر سرِ بازار نکلے اور اس سے شُبہ کبر(تکبر کا شبہ) کا ہو تو دیکھنا یہ چاہیے کہ مثلاً اگر خلافِ عادت اس کو ہاتھی پر بٹھا کر جلوس کے ساتھ بڑی شان و شوکت سے بازار میں نکالا جائے تو اس کو آیا اس سے بھی انقباض ہو گا اور شرم آئے گی یا نہیں؟ اگر اس سے بھی انقباض ہو تو ایسے شخص کو ٹوکرا اٹھانے سے جو انقباض ہے اس کو تکبّر نہ کہیں گے، بلکہ خَجلت کہیں گے۔

امامت بھی اسبابِ صلاحیت سے ہے بشرطیکہ تعیّن دوسروں کی طرف سے ہو:

حال: امامت کرتے ہوئے شرم آتی ہے خصوصاً ایسے مقدّس و با برکت مجمع میں۔

تہذیب: طبعًا ایسا ہی کرنا چاہیے۔ مگر عقلاً یہ سمجھا جائے کہ آپ نے از خود ایسا کام نہیں کیا بلکہ دوسروں کی طرف سے سپرد کیا گیا ہے۔ اور بروئے حدیث اس میں آپ کی منجانب اللہ اِعانت ہو گی، بلکہ اِعانتِ خداوندی سے اہلیت کو تخلّف نہیں ہو سکتا۔ پس یہ بھی اسبابِ صلاحیت سے ہے۔

حیائے مُفرِط:

تہذیب: حیا وغیرہ اسی وقت تک مطلوب ہیں جب تک مُوجبِ قُرب ہوں۔ اور اگر مُوجبِ بُعد ہونے لگیں تو اب ان کی ضد مطلوب ہو گی۔ بعض لوگ غلبۂ حیا کی وجہ سے عورت پر قادر نہیں ہوتے، ان کو چاہیے کہ بہ تکلّفِ حیا کو کم کریں اور دل لگی، مذاق اور بے تکلّفی اختیار کریں۔ اسی طرح طریقِ باطن میں جس شخص کو غلبۂ حیا ’’استغفار‘‘ سے مانع ہو اس کا علاج یہی ہے کہ وہ بے حیا بن کر ''اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِيْ، اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِيْ'' کہے اور بار بار کہے۔