حصہ 1 باب 3 ملفوظ 16: اسراف

اسراف

اسراف سے بچنے کا طریقہ تأمّل و مشورہ ہے:

تہذیب: خرچ کرنے سے قبل دو امر کا التزام کر لیں: ایک یہ کہ پہلے سوچا کریں کہ اگر اس جگہ خرچ نہ کروں تو آیا کچھ ضرر ہے یا نہیں؟ اگر ضرر نہ ہو اس کو ترک کر دیں۔ اور اگر ضرر معلوم ہوتا ہو تو پھر کسی منتظم سے مشورہ کریں کہ یہ خرچ خلافِ مصلحت اور نامناسب تو نہیں؟ وہ جو بتلائے اس پر عمل کریں۔ ضرر سے مراد ضررِ واقعی اور حقیقی ہے، جس کا معیار شریعت ہے، وہمی و خیالی ضرر مراد نہیں۔

ضرورتِ واقعہ کے معلوم کرنے کا طریقہ اور بقدرِ وسعت تطییبِ قلبِ زوجہ بھی ضرورت میں داخل ہے:

تہذیب: اسراف کے متعلق یہ کہتا ہوں کہ جب کوئی چیز خریدنا چاہو تو سوچ لو کہ ضرورت ہے یا نہیں؟ اور اگر ذہن میں ضرورت فوراً آ جائے تو خرید لو، اور اگر فوراً ضرورت ذہن میں نہ آئے تو نہ خریدو، کیونکہ جس ضرورت کو آدھ گھنٹہ تک سوچ سوچ کر پیدا کیا جائے وہ ضرورت نہیں۔ اور اگر دل میں بہت تقاضا ہو اور ضرورت معتد بہا سمجھ میں نہ آئے تو ایسی صورت میں چیز خرید لو اور اطمینان سے بیٹھ کر سوچتے رہو۔ اور اگر اسراف نہ ہونا متحقق ہو جائے کھا لو ورنہ خیرات کر دو اور بیوی کو کھلا دینا بھی خیرات ہی ہے۔ اور اگر بیوی کا جی خوش کرنے کو بلا ضرورت بھی کوئی چیز خرید لو تو وہ بھی اسراف نہیں کیونکہ تطییبِ قلبِ زوجہ بھی مطلوب ہے بشرطیکہ اس میں طاقت سے زیادہ قرض نہ کرے۔

اسراف سے بچنے کی ترکیب:

تہذیب: (1) اہل اللہ کا مذہب رکھو، وضع دار لوگوں کا مت رکھو، رسم و رواج کے ذرا بھی مقیَّد نہ بنو۔ (2) بلا ضرورت ہرگز مقروض مت بنو، گو رسم و رواج کے خلاف کرنا پڑے۔ مقروض ہونے سے بڑی پریشانی ہوتی ہے، جس کا انجام بہت بُرا ہے۔ ہر مسلمان کو وہی مذہب رکھنا چاہیے جو اہل اللہ کا ہے۔ (3) سب سے پہلے انتخاب گھر کا کرو، جتنی چیزیں کام میں آتی ہوں رہنے دو اور جتنی چیزیں کام میں نہ آئیں خارج کر دو، یا بیچ دو، یا مساکین کو دیدو نفلی صدقہ دینے کی ہمت نہ ہو تو زکوٰة ہی میں دے دو۔ (4) گھر کا معائنہ کیا کرو، گھر میں بہت سی چیزیں ایسی دیکھو گے جو سڑ رہی ہیں، کسی کو دیمک لگ رہی ہے، پس ایسی چیزوں کو اپنی مِلک سے الگ کردو تاکہ گھر میں رونق ہو۔ (5) روز مرہ معاشرت میں یہ مقرر کر لو، جو کام کرو سوچ کر کرو، بے تأمّل مت کر ڈالو۔ (6) کسی کے کہنے سے کوئی کام مت کرو، بس اپنی رائے پر عمل کرو۔

؎ سُن لاکھ کوئی تجھے سنا دے

کیجیو وہی جو سمجھ میں آئے