بُخل
بُخلِ مذموم کی حد:
حال: پیسہ اٹھاتے ہوئے قلب بہت تنگ ہو جاتا ہے۔
تہذیب: اگر کوئی حقِ واجب فوت نہ ہو تو کچھ غم نہیں۔
خرچ میں حبِ اعتدال کی علامت:
حال: خرچ کرنے میں فی الجملہ گرانی معلوم ہوتی ہے، ناداری اور قرض سے خوف رہتا ہے، گو حق واجبہ میں کوتاہی نہیں کرتا۔
تہذیب: یہ حبِ مال نہیں، حبِ اعتدال ہے۔
اخلاق سب فطری ہیں جو مواقع استعمال سے ممدوح و مذموم ہو جاتے ہیں:
تہذیب: "مَنْ أَعْطٰی لِلہِ وَ مَنَعَ لِلہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْإِیْمَانَ" (سنن الترمذی، أبواب صفۃ القیامۃ و الرقائق و الورع عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، رقم الحدیث: 2521) اس میں اعطاء و منع دونوں کے ساتھ ''لِلہِ'' کی قید ہے، جس سے معلوم ہوا کہ سخاوت مطلقاً محمود نہیں، نہ بخل مطلقاً مذموم، بلکہ اگر خدا کے لیے ہو تو دونوں محمود ورنہ مذموم، غرض اخلاق سب فطری و جبلّی ہیں، اور درجہ فطرت میں کوئی خُلق نہ مذموم ہے نہ محمود، بلکہ مواقعِ استعمال سے ان میں مدح و ذم آ جاتی ہے۔
اذنِ بخیل مشکوک ہے:
تہذیب: اگر دل گواہی دے کہ میرا بدوں اذن کے کھانا اس شخص کو نا گوار نہ ہو گا بلکہ خوش ہو گا، وہاں بدوں اذن کے بھی کھانا جائز ہے۔ بلکہ چھین کر بھی کھا سکتا ہے بشرطیکہ وہ دوست سخی ہو بخیل نہ ہو، کیونکہ بخیل کو کسی سے محبت نہیں ہوتی، اور اگر ہوتی بھی ہے تو مال کے برابر نہیں، اس لیے بخیلوں کی اجازت بھی مشکوک ہے۔ ہاں سخی دوستوں سے اگر پوری بے تکلفی ہو تو چھین کر بھی کھانا جائز ہے۔
سود لینے سے بخل بڑھتا ہے:
تہذیب: سود لینے سے بخل بڑھتا ہے کیونکہ سود لینے کا سبب ہی بخل ہے۔ جتنا سود لیتا ہے بخل اتنا ہی بڑھتا ہے، یہاں تک کہ اپنے تن پر بھی خرچ نہیں کر سکتا۔