حصہ 1 باب 3 ملفوظ 14: کثرت کلام

کثرتِ کلام

ترکِ لا یعنی کی تعلیم:

تہذیب: شریعت کی بہت بڑی تعلیم ہے کہ بے ضرورت باتوں میں نہ پڑنا چاہیے حدیث: ''مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ الْمَرْءِ تَرْکُہٗ مَا لَا یَعْنِیْہِ“ (سنن الترمذي، رقم الحديث: 2317

قول و فعل کے فضول یا مضر ہونے کی شناخت:

تہذیب: ہر قول اور ہر فعل اختیاری کسی نہ کسی غایت کے لیے مطلوب ہوتا ہے۔ پس ہر کام اور ہر بات میں یہ سوچنا چاہیے کہ اس کی غایت کیا ہے۔ جس کام اور جس بات کی کچھ غایت نہ ہو وہ فضول ہے اور غایت معلوم ہو مگر مفید نہ ہو وہ بھی فضول ہے۔ اور اگر وہ غایت کوئی ضرر ہو لازم یا متعدی، تو وہ کلام یا بات مضر ہے۔

مناظرہ کی ممانعت کہ سراسر مضرِ قلب اور مضرِ دین ہے:

تہذیب: آج کل مناظرہ بھی بہت مضر ہے کیونکہ اس کی بھی کچھ غایت محمودہ نہیں۔ بس زیادہ مقصود یہ ہوتا ہے کہ خصم کو ذلیل کیا جائے اور اپنی بات کو اونچا کیا جائے، تحقیقِ حق مقصود نہیں۔ چنانچہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے بیٹے حماد کو نصیحت کی کہ دیکھو! مناظرہ کبھی نہ کرنا۔ ہم تو مناظرہ اس نیت سے کرتے تھے کہ شائد خصم کے منہ سے حق بات نکل جائے تو ہم اس کی بات مان لیں، اور تم لوگ مناظرہ اس لیے کرتے ہو کہ خدا کرے خصم کے منہ سے حق بات نہ نکلے، بلکہ جو بات نکلے باطل ہی نکلے تاکہ تم کو اس کے رد کا موقع ملے۔ بلکہ اب تو اس سے بھی بدتر حالت ہے کیونکہ اس وقت جو تمنا ہوتی تھی کہ خصم کے منہ سے باطل ہی نکلے حق نہ نکلے اس کا منشا یہ تھا کہ وہ حضرات حق بات کو رد نہ کرنا چاہتے تھے بلکہ حق بات کے رد سے شرماتے تھے، اس لیے یہ تمنا تھی کہ خصم کے منہ سے حق نہ نکلے تاکہ رد کر سکیں۔ اور اب تو مناظرہ میں اول ہی سے یہ نیت ہوتی ہے کہ خصم کی ہر بات کو رد کریں گے، خواہ حق ہو یا باطل۔

ترکِ لا یعنی میں دین اور دنیا دونوں کی راحت ہے:

تہذیب: صاحبو! سوال وہ کرو جس کی ضرورت ہو، بات وہ کرو جس کی کچھ غایت ہو، کام وہ کرو جس کا کچھ مفید نتیجہ ہو۔ اور جس کام کی غایت معلوم نہ ہو اسکو چھوڑو، جس بات کا کچھ نتیجہ نہ ہو اس کے درپے نہ ہو، اس میں دین کی راحت تو ہے ہی، واللہ دنیا کی بھی اسی میں راحت ہے۔

زبان کی بے احتیاطی سے نورِ قلب زائل ہو جاتا ہے:

تہذیب: اعمال و احوال سے جو نور قلب میں پیدا ہوتا ہے وہ اس زبان کی بے احتیاطی سے اکثر زائل ہو جاتا ہے۔ بس اسباب کو جمع کرنے کے ساتھ موانع کو بھی رفع کرنا چاہیے تب ثمرہ مرتب ہو گا۔

اختیاری امور کا علاج ہمت و بس ہے:

تہذیب: کلام و ترک کلام دونوں اختیاری ہیں، مت بولا کرو، اس میں بھی ہمت کی ضرورت ہے، بدوں اس کے کچھ نہیں ہوتا۔

دوسروں کی سمع خراشی سے بچنے کا طریقہ:

تہذیب: اگر بعض ملنے والے بیکار زیادہ دیر تک سمع خراشی اور صرح کریں ان کو نہ اٹھاوے، خود کوئی خلوت کی جگہ اپنے لیے تجویز کر کے ان سے اجازت لے کر اٹھ کھڑا ہو۔

بد زبانی کا علاج:

تہذیب: بد زبانی کا علاج بجز ہمت اور قبل تکلم کے تأمّل اور استحضارِ عذاب کے اور کچھ نہیں۔

زیادہ گوئی اور فضول گوئی کے ترک کا طریقہ:

تہذیب: زیادہ گوئی قابلِ ترک ہے اور طریقِ تحصیل ۤ"تَکَلُّفٌ وَ اہْتِمَامٌ إِلٰی أَنْ یَّحْصُلَ الدَّوَامُ" ہے۔

اضیاف کی غیر ضروری باتوں سے بچنے کا طریقہ:

تہذیب: اضیاف (مہمان) بھی اگر غیر ضروری باتیں کرنے لگیں جس سے وقت اپنے کام کا ضائع ہونے لگے، یا طبیعت تنگ ہونے لگے، بدوں حیلہ کے یا کسی حیلہ کے اٹھ جانا چاہیے۔ مروت میں اپنا دینی ضرر ہرگز گوارا نہ کرنا چاہیے۔ بس شدہ شدہ اسی طرح عادت ہو جائے گی، اپنے نفس کو بھی، اضیاف کو بھی۔

بے تحقیق بات کا نقل کرنا گناہ ہے:

تہذیب: بے تحقیق کسی بات کا نقل کرنا اور سنی سنائی باتوں کو بدوں تحقیق کے فوراً زبان سے نکال دینا بھی گناہ ہے۔ "کَفٰی بِالْمَرْءِ کَذِبًا أَنْ یُّحَدِّثَ بِکُلِّ مَا سَمِعَ" (الصحيح لمسلم، المقدمۃ، رقم الحديث: 5)

ناجائز باتوں سے بچنے کا طریقہ:

تہذیب: ناجائز باتوں سے اسی وقت بچ سکتے ہو جب اس کی عادت ہو جائے کہ مباح اور جائز باتیں بھی بے ضرورت نہ کرو۔ بس زیادہ تر سکوت اختیار کرنا چاہیے۔ حدیث میں ہے:''مَنْ صَمَتَ نَجَا''(سنن الترمذي، رقم الحدیث:2501)

؎ خموشی معنے دارد کہ در گفتن نمی آید

معصیتِ لسانی سے بچنے کا طریقہ:

تہذیب: زبان کے گناہوں سے بچنے کا علاج ایک یہ ہے کہ اکثر اوقات اس کو (زبان کو) ذکر اللہ میں اور تلاوت میں مشغول رکھو، جس کو جو آسان ہو، اور دوسروں کو امر بالمعروف کرتے رہو۔

زبان کے گناہوں سے بچنے کا ایک طریقہ سوچنا اور پوچھنا ہے:

تہذیب: زبان کے گناہوں سے بچنے کا طریقہ سوچنا اور پوچھنا ہے کہ جو بات کرو سوچ کر کرو۔ اور اگر جواز و عدم جواز میں شبہ ہو تو اس کو کسی عالم سے پوچھ لو پھر جو وہ کہے اس کے موافق عمل کرو۔

لا یعنی کلام سخت مضرِ قلب ہے:

تہذیب: حضرات عارفین کا مشاہدہ ہے کہ ضروری گفتگو دن بھر ہوتی رہے تو اس سے قلب پر ظلمت کا اثر نہیں ہوتا، چنانچہ ایک کنجڑا دن بھر ”لے لو امرود“ پکارتا پھرے تو ذرہ برابر قلب میں اس سے ظلمت نہ آئے گی، کیونکہ بضرورت ہے۔ اور بے ضرورت ایک جملہ بھی زبان سے نکل جائے تو دل سیاہ ہو جاتا ہے۔

بلیغ کے معنیٰ:

تہذیب: "إِنَّ اللہَ یَبْغُضُ الْبَلِیْغَ مِنَ الرِّجَالِ" (سنن أبی داؤد، کتاب الأدب، باب ما جاء فی المتشدق فی الکلام، رقم الحدیث: 5005) یعنی اللہ تعالیٰ بلیغ کو پسند نہیں کرتے۔ بلیغ سے مراد وہ شخص ہے جو بے تکلف بلا تأمّل بولتا چلا جائے۔

احتیاط الکلام کا سبق:

تہذیب: محقق دھتکارتا بھی ہے تو کچھ دے کر اور غیر محقق عمر بھر چمکارتا ہے مگر محروم کا محروم رکھتا ہے، جیسا کہ حضرت سلطان نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ کی حکایت ہے کہ دو شخص آپ کے یہاں مرید ہونے کو آئے، وہ آپس میں مسجد کا حوض دیکھ کر کہنے لگے کہ ہماری مسجد کا حوض اس سے بڑا ہے۔ سلطان جی نے یہ گفتگو سن لی، بلایا اور پوچھا کہ تمہارا حوض اس سے کتنا بڑا ہے؟ کہا "حضرت! پیمائش تو معلوم نہیں"۔ فرمایا: "اچھا جاؤ اور اس حوض کی پیمائش کر کے لے جاؤ اور اس کو پیمائش کر کے آؤ"، چنانچہ آ کر کہا کہ ہمارا حوض ایک بالشت بڑا ہے۔ فرمایا: "تم تو کہتے تھے بہت بڑا ہے، ایک بالشت زیادہ کو بہت بڑا نہیں کہہ سکتے، جاؤ ہم تم کو بیعت نہ کریں گے"۔ اس میں سلطان جی نے محروم نہیں، واپس فرمایا، بلکہ احتیاط فی الکلام کا سبق ایسا پڑھایا کہ عمر بھر نہ بھولیں گے۔

مناظرہ کے وقت سالک کا طرزِ عمل:

تہذیب: حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کو مناظرہ سے نفرت تھی اور مجھے بچپن میں جتنا شوق تھا حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی برکت سے اب اتنی ہی نفرت ہے۔ اسی لیے جب مجھے اندازہ سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ مخاطب حق کو نہ مانے گا تو میں سلسلۂ کلام بند کر دیتا ہوں۔ اسی لیے مناظرہ میں مجھ پر غالب آ جانا آسان ہے، کیونکہ گفتگو دو حال سے خالی نہیں، یا تو مخاطب حق کہے گا تو میں فوراً تسلیم کرلوں گا تو دوسرا غالب آ گیا، یا وہ باطل کہے گا اور مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ یہ سمجھنا نہیں چاہتا، جھگڑنا ہی چاہتا ہے جب بھی گفتگو بند کر دیتا ہوں۔ اس وقت بھی وہ غالب آ جائے گا۔

کذب کا ایک عجیب عملی علاج:

تہذیب: جس کو جھوٹ بولنے کی عادت بہت ہو اس کا عجیب و غریب عملی علاج یہ ہے کہ جس سے کلام کرے اس سے پہلے کہہ دیا کرے کہ میری عادت کثرت سے جھوٹ بولنے کی ہے۔ تھوڑے دنوں اس پر مداومت سے ان شاء اللہ تعالیٰ یہ عادت چھوٹ جائے گی۔

طریقِ کف اللسان:

تہذیب: ایسا کلام مت کرو جس سے تم کو معذرت کرنا پڑے، خواہ دنیا میں یا آخرت میں۔