حرصِ طعام
پیٹ بھر کر کھانا گناہ نہیں:
تہذیب: خوراک کم کرنے کی فکر میں نہ پڑیں، ضعف ہو جائے گا جب خدا تعالیٰ نے کھانے کو دیا ہے اور اجازت بھی دی ہے پھر تنگی کیوں کریں، پیٹ بھر کر کھانا گناہ تھوڑا ہی ہے۔
سیری سے بھی زیادہ کھانے کی اصلاح کا طریقہ:
تہذیب: شبع کوئی مرض نہیں، سیری تک کھانا مباح ہے، اگر سیری سے بھی زیادہ کھا لیا جائے تو اس کا علاج سوچنا ہے کہ زیادہ کھانے سے ضرر ہو گا، پس اس سوچنے سے ان شاء اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح ہو جائے گی۔
آدابِ طعام:
تہذیب: آدابِ طعام یہ ہیں: (1) جس کے یہاں مہمان ہو اس کو اپنے معمولات کی پہلے ہی اطلاع کر دو، دستر خوان پر بیٹھ کر اپنے معمولات بیان کرنا تہذیب کے خلاف ہے۔ (2) میزبان مہمان کے اوپر مسلط ہو کر نہ بیٹھے بلکہ اس کو آزاد چھوڑ دے۔ (3) میزبان کے ہاتھ شروع میں پہلے دھلائے جائیں اور کھانا بھی اول میزبان کے سامنے رکھا جائے۔ (4) میزبان پہلے خود کھانا شروع کر دے، اس سے مہمان بے تکلف ہو جاتا ہے۔ (5) میزبان کو چاہیے کہ مہمانوں کو کھاتے ہوئے ہرگز نہ گھورے، بس سرسری نگاہ سے اتنا معلوم کرتا رہے کہ کہاں کس چیز کی ضرورت ہے۔ باقی نہ اس سے یہ کہے کہ آپ کم کھا رہے ہیں نہ یہ کہے کہ آپ تکلف کر رہے ہیں۔ کیونکہ جب مہمان کو معلوم ہو جاتا ہے کہ میزبان میرے لقمے دیکھ رہا ہے تو اس سے بالکل نہیں کھایا جاتا۔
غذائے جسمانی کی کثرت مضر ہے اور غذا میں ہر ایک کا اوسط جدا ہے اور کھانے سے اصل مقصود جمعیتِ قلب ہے، اور اس کی دلیل:
تہذیب: غذائے جسمانی کی کثرت سے غذائے روحانی یعنی ذکر اللہ کم ہو جاتا ہے۔ شیخ سعدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
؎ تہی از حکمتی بعلت آن
کہ پُر ازطعام تابینی
اس لیے سالک کو غذائے جسمانی میں کثرت نہ چاہیے، بلکہ توسط کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ مگر یہ ضرور ہے کہ سب کا اوسط ایک نہیں ہے بلکہ ہر شخص کا اوسط مختلف ہے اور اوسط سے تجاوز کرنا اور زیادہ کھانا بُرا ہے، اسی طرح اوسط سے کم کھانا بھی مضر ہے۔ ایک ضرر تو جسمانی ہے کہ غذا بہت کم کرنے سے ضعف لاحق ہو جاتا ہے اور کام نہیں ہو سکتا اور ایک ضرر مقصودِ سلوک کا ہے، وہ یہ کہ انسان کا کمال یہ ہے کہ تشبہ بالملائکہ حاصل کرے اور تشبہ بالملائکہ اس شخص کو حاصل ہوتا ہے جو نہ شبع سے بد مست ہو نہ جوع سے پریشان ہو، بلکہ معتدل حالات میں رہ کر طمانینت و جمعیتِ قلب سے متصف ہو۔ بس کھانے سے اصل مقصود جمعیتِ قلب ہے نہ بہت کھانا مطلوب ہے نہ کم کھانا۔ دلیل اس کی یہ ہے: "إِذَا حَضَرَ الْعَشَاءُ وَ أُقِیْمَتِ الصَّلٰوۃُ فَابْدَؤُا بِالعَشَاءِ" (سنن الترمذی، أبواب الصلٰوۃ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، باب: إذا حضر العشاء و أقیمت الصلٰوۃ، رقم الحدیث: 353) فقہاء نے کھانے کی یہاں تک رعایت کی ہے کہ اگر کھانا ٹھنڈا ہونے سے اس کی لذت زائل ہو جانے کا اندیشہ ہو جب بھی نماز کو مؤخر کر دینا جائز ہے، منشا اس کا وہی تحصیلِ جمعیتِ قلب ہے کہ بار بار یہ خیال نہ آئے کہ نماز جلدی پڑھو تاکہ کھانا ٹھنڈا نہ ہو جائے۔
آج کل تقلیلِ غذا مضر ہے:
تہذیب: عبادت میں نشاط و سرور صحت و قوت ہی سے ہوتا ہے اور تجربہ ہے کہ آج کل تقلیلِ غذا سے صحت برباد ہو جاتی ہے۔ فاقہ کر کے نماز پڑھنے سے انتڑیاں "قُلْ ھُوَ اللہُ" پڑھیں گی زبان و قلب سے کچھ نہ نکلے گا۔
وجہ عدمِ اتباعِ صوفیہ سابقین در تقلیلِ غذا:
تہذیب: پہلے صوفیہ سے جو تقلیلِ غذا کے واقعات منقول ہیں آج کل ان پر عمل نہیں ہو سکتا، کیونکہ ان حضرات میں قوت زیادہ تھی، ان کو غذا کم کرنے سے بھی جمعیتِ قلب فوت نہ ہوتی تھی۔ کیونکہ ان کی قوت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ ان سے بعض اشغال ایسے منقول ہیں جو آج کل کوئی کرے تو مر ہی جائے، چنانچہ ایک شغل صلوٰةِ معکوس کا ہے۔ اور اس کو اصطلاحاً صلوٰة کہہ دیا گیا ہے ورنہ وہ نماز نہیں ہے، بلکہ اس کی حقیقت یہ ہے کہ الٹا لٹک کر شغل کرتے ہیں۔