جاہ
جاہِ کبر کا داعیہ معصیت نہیں:
تہذیب: جاہِ کبر کا داعیہ تو معصیت نہیں، باقی ان کے مقتضا پر عمل کرنا نہ کرنا یہ اختیاری ہے۔ مکلّف تو صرف اسی قدر کا ہے کہ مقتضا پر عمل نہ کرے، لیکن اگر خلافِ مقتضا پر عمل کرے تو اور زیادہ اقویٰ اور انفع ہے۔
جاہ مضر وہ ہے جو طلب سے حاصل ہو:
تہذیب: جس جاہ سے ضرر ہوتا ہے یہ وہ جاہ ہے جو طلب سے حاصل ہو، اور جو بدونِ طلب حاصل ہو وہ مضر نہیں ہوتی، اس میں خدا تعالیٰ کی امداد ہوتی ہے۔ اگر لوگ اس پر حسد کریں اور اس کو بُرا بھلا کہنے لگیں تو حق تعالیٰ اس کو قوی کر دیتے ہیں جس سے کوئی اذیت اس کے نزدیک اذیت نہیں رہتی۔
نیز ان مصائب سے جو باطنی ترقی ہوتی ہے حق تعالیٰ اسے قلب پر منکشف فرما دیتے ہیں اور ہر واقعہ کی حکمت پر مطلع فرما دیتے ہیں، اب اسے کچھ تکلیف نہیں ہوتی۔
حبِ جاہ کا علمی و عملی علاج:
تہذیب: ہر علاج میں مجاہدہ کی ضرورت ہے، یعنی داعیۂ نفس کے ذم کا استحضار اور اس داعیہ کی عملی مخالفت۔ اس مرض (جاہ) کا علاج بھی مرکب ہے ان ہی دو اجزا سے۔ اول اس رذیلہ سے جو مذمتیں اور وعیدیں وارد ہیں ان کا ذہن میں حاضر کرنا، بلکہ زبان سے بھی ان کا تکرار کرنا، بلکہ ان مضامین سے اپنے نفس کو زبان سے خطاب کرنا کہ تجھ کو ان سے عقاب ہونے کا اندیشہ ہے۔ اسی کے ساتھ اپنے عیوب کا استحضار اور نفس کو خطاب کہ اگر لوگوں کو ان رذائل کی اطلاع ہو جائے تو کتنا ذلیل اور حقیر سمجھیں، تو یہی غنیمت سمجھ کر لوگ نفرت و تحقیر نہیں کرتے، نہ کہ ان سے توقع تعظیم و مدح کی رکھی جائے۔ اور عملی جزو یہ ہے کہ مداح کو زبان سے منع کر دیا جائے اور اس میں ذرا اہتمام سے کام لیا جائے، سرسری لہجہ سے کہنا کافی نہیں۔ اور اس کے ساتھ ہی جو لوگ ذلیل شمار کیے جاتے ہیں ان کی تعظیم کی جائے، گو نفس کو گراں ہو۔
مبتدی کے لیے وعظ گوئی کا طریقہ جس سے جاہ سے محفوظ رہے:
تہذیب: مبتدی کو ایک خاص طریقہ سے وعظ گوئی کی اجازت ہے کوئی چَھپا ہوا وعظ لے لے اور اس کے مضامین سمجھا کر سنا دے۔ اس طرح مقصود بھی حاصل ہو جائے گا اور لوگوں کا عقیدہ بھی نہیں بڑھے گا کہ بڑے عالم ہیں، اپنی یاد سے علمی مضامین بیان کر رہے ہیں، بلکہ ہر شخص سمجھے گا کہ بیچارہ کتاب میں دیکھ دیکھ کر نقل کر رہا ہے۔
خواہشِ عہدہ و ترقیٔ مراتب کے ازالہ کی ترکیب:
تہذیب: ترقیٔ مراتب و خواہشِ عہدہ کے ازالہ کی تدبیر اس کا سوچنا ہے کہ اس میں بجز اس کے کہ لوگوں کی نظر میں عزت زیادہ ہو اور کیا نفع ہے؟ اور یہ (جاہ) محض ایک خیالی چیز ہے، واقعی نفع کچھ نہیں۔
اصل مقصود جاہ سے دفعِ مضرت ہے:
حال: کم ترین کا مذاق یہی ہے کہ گمنام رہوں اور حدیث میں جو دعا ہے: "وَاجْعَلْنِي فِيْ عَیْنَيَّ صَغِیْرًا وَّ فِيْ أَعْیُنِ النَّاسِ کَبِیْرًا" (البحر الزخّار، باب: مسند بریدۃ بن الحصیب رضی اللہ عنہ، رقم الحدیث: 4439) اس میں لوگوں کی نظر میں بڑا معلوم ہونے کی دعا کا امر ہے، جس سے اندیشہ ترقیٔ لذت جاہ کا ہے، جو خلافِ مذاق ہے۔
تہذیب: نہایت مبارک مذاق ہے اور اس دعا کی حقیقت اس مذاق کے خلاف نہیں اور اس حقیقت کا سمجھنا موقوف ہے حکمتِ جاہ کے سمجھنے پر۔ اور وہ یہ ہے کہ جاہ خود مقصود نہیں بلکہ ذریعہ ہے دفعِ مفسدہ کا اور وہ مفسدہ اذیتِ خلق ہے، اس کا دافع جاہ ہے کہ وہ مانع ہوتا ہے ظالموں کی دست درازی سے، پس اصل مقصود یہ ہے کہ اذیت عوام و حکام سے محفوظ رہے تاکہ بلا تشویش مشغولِ طاعت رہ سکے۔ پس اس معنی کے تصور سے دعا کرنا نہ خلافِ مذاق ہو گا نہ نفس کو اس میں بڑے بننے کی لذت ہو گی۔
جاہی وسوسہ کا علاج:
حال: جب کوئی اپنے کسی مقصد کے لیے دعا کرنے کی ہمت کرتا ہے اور قرینہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر مقصود بر آیا تو عقیدت بڑھ جائے گی تو دعا کرنے میں جی نہیں لگتا۔
تہذیب: یہ بھی اثر محمود ہے مگر بہ تکلف دعا میں اس نیت سے جی لگانا چاہیے کہ بندگانِ خدا کی خدمت ہے اور یہ خدمت طاعت ہے۔
صاحب جاہ کو دین اور دنیا دونوں کی راحت نہیں:
تہذیب: صاحبِ جاہ کو نہ دین کی راحت نہ دنیا کی، اس کا دین بھی خطرہ میں رہتا ہے اور دنیا کے خطرہ کا بھی اندیشہ رہتا ہے، ہاں جب حق تعالیٰ کی طرف سے بدوں تمہاری طلب کے جاہ عطا ہو، وہ نعمت ہے۔ اس میں دین کا خطرہ نہیں کیونکہ اُدھر سے تمہاری حفاظت کی جاتی ہے۔
لباس معیارِ لیاقت نہیں:
تہذیب: تعظیم تو کمال کی ہوتی ہے، لباس کی تعظیم نہیں ہوا کرتی۔ اور اہل دنیا کی تعظیم جو لباس کی وجہ سے کی جاتی ہے اس کا منشا عظمت نہیں بلکہ خوف ہے، جیسے سانپ کو دیکھ کر لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ لباس کو تو معیارِ لیاقت کوئی احمق ہی کہہ سکتا ہے۔