حصہ 1 باب 3 ملفوظ 11: دنیائے مذموم

دنیائے مذموم

بیوی کے ساتھ محبت کا ہونا محمود و مطلوب ہے:

تہذیب: بی بی کی محبت دنیا تو ہے مگر مباح، بلکہ محمود، مگر اس شرط سے کہ غافل عن الدین نہ کرے۔ بیوی کے ساتھ محبت کا زیادہ ہونا عین مطلوب ہے، جب تقویٰ بڑھتا ہے تو بیوی سے محبت بڑھ جاتی ہے۔

دنیائے مذموم کی شناخت:

تہذیب: مطلق خواہش مال کی بوجہ حاجات کے حبِ دنیا نہیں، حبِ دنیا کی علامت عدمِ تحرز عن الحرام ہے، یا انہماک یعنی جمع زائد از حاجت "لِمَحْضِ الْحِرْصِ وَ لَوْ مِنْ حَلَالٍ" ہے۔

مال کی کمی پر نظر کرنا حبِ دنیا ہے:

تہذیب: مال کی کمی پر نظر کرنا اکثر حبِ دنیا کی وجہ سے ہے۔

غفلتِ مذموم کی حد:

تہذیب: غفلتِ مذموم سے مراد یہ ہے کہ بے شغلی کی حالت میں حق تعالیٰ سے بے توجہ رہے، اور ایسا شغل جو مانع ہو توجہ الی اللہ سے، بلا ضرورت اختیار کرے۔

کسبِ دنیا ممنوع نہیں، حبِ دنیا ممنوع ہے:

تہذیب: کسبِ دنیا ممنوع نہیں، البتہ اس کی محبت اور دل میں اس کی وقعت کرنا ممنوع ہے، خواہ پیرایۂ مذمت ہی میں ہو۔ کیونکہ جس چیز کی دل میں کچھ وقعت نہ ہو اس کا ذکر مذمت سے بھی نہیں کیا جاتا۔

دنیا کے اندر فکرِ مذموم اور فکرِ محمود کی حد:

تہذیب: دنیا کے اندر جو فکر مذموم ہے وہ وہ ہے جو تحصیلِ دنیا کے لیے ہو اس کو مقصود بالذات سمجھ کر۔ اور اگر مقصود بالذات نہ سمجھے تو وہ فکر بھی جائز ہے، کیونکہ حدیث میں ہے: "طَلَبُ الْحَلَالِ فَرِیْضَةٌ" (إحیاء العلوم، کتاب: قواعد العقائد، الفصل الرابع، جلد: 1، صفحۃ: 119، دار المعرفۃ بیروت)۔ نیز جو دنیا میں فکر ترکِ دنیا کے لیے ہو وہ مطلوب ہے۔ یعنی دنیا اور آخرت میں موازنہ کے لیے تفکر کرنا، ان میں کونسا قابل اختیار کرنے کے ہے اور کون قابل ترک ہے، یہ فکر مطلوب ہے۔

آخرت کے مقابلے میں طلبِ دنیا محض حماقت اور جہالت ہے:

تہذیب: امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ آخرت کا وجود نہ ہوتا یا تحصیل دنیا آخرت سے مانع نہ ہوتی تب بھی دنیا کی حقیقت ایسی ہے کہ اس کو معلوم کر کے عاقل ہرگز اس کی طرف رغبت نہ کرتا۔ اور آخرت کے مقابلے میں تو اس کا طلب کرنا محض حماقت ہے اور جہالت ہے۔

مال کا جمع کرنا مطلقاً خلافِ زہد نہیں:

تہذیب: مال کا جمع کرنا مطلقاً خلافِ زہد نہیں البتہ اس کو ذریعہ معاصی بنانا خلافِ زہد ہے۔ بعضوں کے لیے مالدار ہونا ہی مفید ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ کس کو مال سے قرب ہو گا اور کس کو افلاس سے، اس لیے کسی کو مال دیتے ہیں اور کسی کو مفلس رکھتے ہیں۔

مدارات اور مداہنت کا فرق:

تہذیب: جو نرمی کسی مصلحت یا ضرورت سے ہو وہ مدارات ہے اور جو غیر ضروری مال، یا جاہ کے تحصیل، یا بقا کے لیے ہو وہ مداہنت ہے۔

آخرت کے مقابلے میں دنیا کا ہیچ و لا شئ ہونا مع مثال:

تہذیب: دنیا، آخرت کے مقابلے میں ہیچ ہے، لا شے ہے، جیسے ستارے آفتاب کے سامنے کچھ نہیں اور کانسٹیبل وائسرائے کے سامنے کچھ نہیں۔

حصولِ دنیا پر فخر کرنے کی مثال:

تہذیب: آج کل فخراً کوئی کہتا ہے مجھ کو اتنا نفع ہوا، دوسرا کہتا ہے میرے پاس اتنا جمع ہے۔ اس کی ایسی مثال ہے جیسے دو بھنگی آپس میں فخر کریں ایک کہے میں نے اتنے ٹوکرے گُو کے کمائے، دوسرا کہے میں نے تجھ سے زیادہ کمائے۔

مال کو مقصود بالذات بنا لینا پوری حماقت ہے اور اولاد تو اس سے بھی گھٹیا ہے:

تہذیب: مال سے مقصود رفعِ ضرورت اور رفع ضرورت سے مطلوب بقاء النفس ہے تو اصل مقصود کے لیے یہ واسطہ در واسطہ ہے۔ پھر ایسے واسطے کو مقصود بنا لینا حماقت ہی نہیں کہ دن رات اس میں مشغول ہو۔ اور بقاء النفس جو مطلوب ہے، وہ بھی بے حقیقت ہے کیونکہ اس کی بقا چند روزہ ہے جو قابل اعتبار نہیں۔ غرض مال خود مطلوب بنانے کے ہرگز قابل نہیں اور اولاد تو اس سے بھی گھٹیا ہے کہ وہ تو بقائے نفس کے لیے بھی نہیں، صرف بقاءِ نوع کے لیے مطلوب ہیں۔

حبِ دنیائے مذموم کی تفصیل:

تہذیب: میں کسبِ دنیا سے منع نہیں کرتا بلکہ حبِ دنیا سے منع کرتا ہوں، "کَسْبُ الْحَلَالِ فَرِیْضَةٌ بَعْدَ الْفَرِیْضَةِ" (شعب الإیمان، باب: حقوق الأولاد و الأہلین، رقم الحدیث: 8367) بلکہ ﴿قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ وَ أَبْنَاؤُكُمْ ۔۔۔﴾ (التوبة: 24) میں تو اللہ تعالیٰ کی کمال رحمیت کی شان ظاہر ہوتی ہے کہ وہ دنیا کی محبت سے بھی منع نہیں کرتے، بلکہ احبیّت سے منع کرتے ہیں کہ دنیا کی محبت اللہ و رسول کی محبت سے زیادہ ہو، جس کی علامت یہ ہے کہ اطاعتِ احکام میں اختلال ہو جائے، بلکہ طبعی احبیّت سے منع نہیں فرماتے، صرف عقلی احبیّت سے منع فرماتے ہیں۔ اور احبیّتِ عقلیہ کا معیار یہ ہے کہ اطاعت احکام اور جہاد فی سبیلہ میں کمی نہ ہو۔ اگر یہ معیار محفوظ ہے تو پھر طبعی محبت اگر دنیا سے یا بیوی سے یا اولاد سے زیادہ بھی ہو تو کچھ ڈر نہیں۔ اگر ایک شخص اپنے بیٹے کے مرنے پر زیادہ روئے اور حضور کی وفات کے واقعہ کو سن کر زیادہ نہ روئے تو مؤاخذہ نہ ہوگا، مؤاخذہ اس پر ہو گا کہ تزاحم دین و دنیا کے موقع پر دنیا کو دین پر ترجیح دے۔ اور اگر یہ نہ ہو بلکہ دنیا کی محبت اور حرص کو دبا کر دین پر فدا کر دے، گو ترک دنیا سے حزن بھی ہو اور دل بھی دکھے، تو اس پر مؤاخذہ تو کیا ہوتا، اس سے ثواب بڑھے گا۔ کمالِ تقویٰ یہی ہے کہ دنیا کی حرص و محبت ہوتے ہوئے بھی اس کا مقابلہ کیا جائے۔

؎ شہوتِ دنیا مثلِ گلخن است

کہ ازو حمام تقویٰ روشن است


خلاصہ یہ کہ محض حرصِ دنیا مذموم نہیں، بلکہ اس کے مقتضا پر عمل کرنا مذموم ہے۔

مسلمان کو چاہیے کہ مباحات میں زیادہ منہمک نہ ہو:

تہذیب: مسلمان کو چاہیے کہ زیادہ تر طاعات میں مشغول رہے۔ مباحات میں بھی زیادہ انہماک نہ کرے، کیونکہ اس کی سرحد گناہ سے ملی ہوئی ہے۔

دنیا کی حقیقت مع مثال:

تہذیب: دنیا کی حقیقت نہ معلوم ہونے سے لوگ اس پر فریفتہ ہو رہے ہیں۔ اگر اس کی حقیقت معلوم ہو جائے تو سخت نفرت ہو جائے، اس کی ایسی مثال ہے کہ جیسے پاخانہ پر چاندی کے ورق لگے ہوئے ہیں اور کوئی اس کو حلوہ سمجھ کر تاک میں بیٹھا ہو، یا کسی چڑیل بڑھیا کو لال ریشمی لباس پہنا دیا گیا ہو اور نقاب سے منہ ڈھانک دیا گیا ہو۔ اور کوئی اس کو حسین و خوبصورت سمجھ کر محبت کا دم بھرنے لگے۔

؎ بس قامت خوش کہ زیر چادر باشد

چوں باز کنی مادرِ مادر باشد

عارفے خواب رفت در فکرے

دید دنیا بصورت بکرے

کرد ازوے سوال کافے دلبر

بکر چونی بایں ہمہ شوہر

گفت یک حرف باتو گویم راست

کہ مرا ہر کہ بود مرد نخواست

وانکہ نا مرد بود خواست مرا

زان بکارت بجاست مرا


دنیا و آخرت کے ظاہر و باطن کا موازنہ:

تہذیب: صاحبو! دنیا ظاہر میں محاسن سے مزین ہے مگر اندر گُو، مُوت اور سانپ بچھو بھرے ہوئے ہیں۔ اور آخرت ظاہر میں مکارہ و مصائب سے گھری ہوئی ہے مگر اندر نہایت حسین و دلفریب محبوبہ ہے جس کی ایک نگاہ کے سامنے ہفت اقلیم کی سلطنت بھی کوئی چیز نہیں۔

کامل توجہ دنیا کی طرف معینِ آخرت ہے:

تہذیب: دنیا کی حالت پر ضرور توجہ کرو مگر کامل توجہ کرو جس سے حقیقت منکشف ہو۔ ناتمام توجہ نہ کرو کہ ظاہر ہی تک رہ جاؤ اور حقیقت اس کی مستور رہ جائے۔

ترقی مروجہ اور ترقی حقیقی کا فرق:

تہذیب: ﴿فَاسْتَبِقُوْا الْخَیْرَاتِ...﴾ (البقرۃ: 148) میں خود ترقی کا حکم ہے لیکن اس قید کے ساتھ کہ ترقی خیر میں ہونی چاہیے۔ آپ ترقی درم کے حامی ہیں خواہ دین پر سلامت رہے یا نہ رہے، اور ہم بدوں سلامتِ دین کے ترقی درم کو ترقی ورم سمجھتے ہیں۔ جس شخص کے بدن پر ورم ہو جائے، ظاہر میں وہ بھی ترقی یافتہ ہے مگر حقیقت میں وہ تنزُّل کی طرف جا رہا ہے۔

دنیا بذاتہ بھی قابل نفرت ہے کیونکہ اس کا کوئی طالب راحت میں نہیں:

تہذیب: امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ دنیا آ خرت کے مقابلے میں تو بالکل قابلِ نفرت ہے ہی، لیکن اس سے قطع نظر وہ خود اپنی حالت ذاتیہ پر نظر کر کے بھی قابل نفرت ہے، کیونکہ طالبِ دنیا کوئی راحت میں نہیں ہے۔ چنانچہ اگر ان کی ظاہری ٹیپ ٹاپ کو چھوڑ کر ان کی اندرونی حالت کو ان کے پاس رکھو تو معلوم ہو گا کہ کوئی پریشانی سے خالی نہیں، بخلاف طالبِ آخرت کے، کہ سب کے سب راحت میں ہیں۔

دنیا کی مطلوبیت کی دو حیثیتیں ہیں اور دونوں قابلِ نفرت ہیں:

تہذیب: اگر دنیا کی حقیقت پر نظر کرو تو دنیا میں اس کی مطلوبیت کی دو حیثیتیں ہیں: ایک مطلوبیت اس کی صفات کے اعتبارسے، دوسری مطلوبیت اس کی غایت کے اعتبار سے۔ صفت کے اعتبار سے دنیا کی حالت یہ ہے کہ وہ فانی ہے اور آخرت باقی ہے اور باقی کے مقابلے میں فانی قابلِ رغبت نہیں ہوا کرتا۔ اور غایت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو دنیا کو عیش و آرام کے لیے طلب کیا جاتا ہے۔ عام طور سے لوگ عمدہ لباس، عمدہ مکان اور عمدہ غذا کو راحتِ قلب سمجھتے ہیں حالانکہ یہ محض اسبابِ عیش و آرام ہیں، لیکن حقیقت عیش و آرام کی راحتِ قلب ہے اور ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ راحتِ قلب دین ہی سے حاصل ہوتی ہے، طلبِ دنیا سے حاصل نہیں ہوتی۔

فقر و فاقہ کی ترغیب:

تہذیب: حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ سے جب کوئی فقر و فاقہ کی شکایت کرتا تو فرماتے کہ تم اس دولت کی قدر کیا جانو، تم کو یہ دولت مفت مل گئی۔ اس کی قدر مجھ سے پوچھو کہ سلطنت کو چھوڑ کر فقر و فاقہ کو خریدا ہے۔

منافع اخرویہ کے سامنے منافع دنیویہ لا شئ ہیں:

تہذیب: لعب کہتے ہیں لغو اور عبث فعل کو اور لہو کہتے ہیں غفلت میں ڈالنے والی بات کو۔ جن منافع اخرویہ کے لیے یہ اشیائے دنیا وضع کی گئی ہیں ان کے اعتبار سے یہ عبث و باطل نہیں، اور جو منافع اہل ہوٰی نے خود تراشے ہیں، جو واقع میں مضار ہیں، ان کے اعتبار سے اس کو لہو و لعب فرمایا ہے۔ پس دنیا کی ہر چیز فی نفسہٖ حِکم و مصالح و منافع سے لبریز ہے، عبث و فضول کوئی نہیں مگر جب وہ مقصودِ اصلی یعنی منافع اخرویہ سے مانع ہو جائے تو اس وقت یہی منافع جن کو ہم نے منافع دنیا کا اصل اصول سمجھ رکھا ہے اور وقعت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں، انھیں کو لہو و لعب سے تعبیر کیا جاتا ہے، کیونکہ منافع دنیوی دراصل فانی اور مردہ ہیں اور منافع اخروی زندہ۔ پس کار آمد چیز کو چھوڑ کر بیکار شئ کے پیچھے پڑنا اگر حماقت نہیں تو اور کیا ہے؟

حفاظت مآل کے لیے وسعت مال مذموم نہیں:

تہذیب: اگر کوئی شخص مآل سے محفوظ ہونے کا انتظام کرے تو اس کے لیے مال کی وسعت مذموم نہیں۔

ترقی فی الدنیا ترقی فی غیرِ المقصود ہے اور ترقی فی الدین ترقی فی المقصود:

تہذیب: مقاصد دو قسم کے ہیں: ایک مقاصدِ دینیہ، دوسرے مقاصدِ دنیویہ اور دنیا مقصود بالذات نہیں بلکہ مقصود بغیرہ ہے، جیسا کہ سب اہل اسلام کا عقیدہ ہے اور دین مقصود بالذات ہے۔ پس معلوم ہو گیا کہ ترقی فی الدنیا ترقی فی غیرِ المقصود ہے اور ترقی فی الدین ترقی فی المقصود ہے۔ اس کا مقتضا یہ تھا کہ ترقی فی الدین کے لیے کوئی حد نہ ہوتی، کیونکہ ظاہراً مقصود میں جس قدر بھی ترقی ہو، بہتر ہی ہے، مگر ترقی فی الدین کے لیے بھی حدود ہیں بلکہ حدود کے ساتھ قیود بھی ہیں۔ حد وہ ہے جو کسی شی کا منتہا ہو اور قید وہ ہے جو اس حد کے اندر اس شئ میں تخصیص کر دے۔ مثلاً نماز کی ایک تو حد ہے کہ عصر کی نماز میں چار رکعت ہیں اس سے زیادہ منع ہیں اور قیود یہ ہیں کہ جیسے نماز کے لیے با وضو ہونا، مستقبلِ قبلہ ہونا، طہارت مکان و لباس وغیرہ۔ غور کر کے دیکھا جائے تو تمام مقاصدِ دینیہ میں حدود و قیود دونوں موجود ہیں۔

طولِ امل غیر ممنوع وہ ہے جو خدمتِ دین کے لئے ہو:

تہذیب: جس طولِ امل سے ممانعت ہے، وہ وہ ہے جو دنیا کی ہوس کے لیے ہو۔ اور جس طولِ امل کی اجازت علماء کے لیے ہے، وہ وہ ہے جو خدمتِ دین کے لیے۔ اور وہ حقیقت میں طولِ امل نہیں، صرف صورتًا طولِ امل ہے۔

زیور اور لباس کی محبت کم کرنے کا علاج:

تہذیب: زیور و لباس کی محبت کم کرنے کا علاج یہ ہے کہ اپنے گھر میں سب لباس و زیور پہنا کریں اور دوسرے گھر میں معمولی لباس و زیور پہن کر جایا کریں۔

تعلقِ غالب مذموم وہ ہے جس کے بعد یا فوت سے طاعات میں قلت و ضعف آ جائے:

تہذیب: تعلقِ غالب مذموم یہ ہے کہ محلِ تعلق کے بعد یا فوت سے قلب پر ایسا اثر ہو کہ قلب کو ایسا بے چین کر دے کہ اسی کے تصور و حسرت میں اشتغال ہو جائے اور اس اشتغال سے طاعات میں قلت اور ضعف آ جائے۔ اور اگر یہ نوبت نہ پہنچے تو محض حزن کا اثر مانع نہیں ہے۔ کیا حضرت یعقوب علیہ السلام کے حزنِ شدید کا کوئی انکار کر سکتا ہے اور کیا ان کی حالت کو کوئی مانع عن الحق کہہ سکتا ہے؟

حرصِ شرعی کی شناخت:

تہذیب: شرعاً وہ حرص ہی نہیں جس کے مقتضا پر عمل نہ ہو، حرصِ شرعی وہی ہے جس سے دنیا کو دین پر ترجیح ہونے لگے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم کو مال کی احتیاج بھی ہے اور اس کے ملنے پر طبعاً خوشی بھی ہوتی ہے، لیکن اے اللہ! اس کی محبت کو اپنی رضا کا وسیلہ بنا دیجئے۔ بلکہ ایک درجہ اس کا مطلوب بھی ہے، مثلاً اتنی محبت جس سے مال کی حفاظت کا اہتمام ہو سکے وہ مطلوب ہے کیونکہ مال کا ضائع کرنا حرام ہے۔

فقر و زہد کا فرق اور حالتِ فقر کا دستور العمل اور حالتِ غنا میں تحصیلِ زہد کا طریقہ:

تہذیب: فقر انزواءِ دنیا ہے عبد سے اور زہد انزواءِ عبد ہے دنیا سے۔ یا بعنوان دیگر فقر قلت ہے مال کی اور زہد قلت ہے رغبتِ مال کی۔ فقر غیر اختیاری ہے، مگر اس میں یہ اختیاری ہے کہ قناعت کا مرتکب رہے اور حرص و طمع و انہماک فی طلبِ الدنیا سے مجتنِب رہے اور اس پر رضا اختیار کرے۔ اور تحصیلِ زہد میں استحضارِ فناءِ دنیا و ذکرِ موت و انفاق فی الخیر علاوہ فرض، خاص طور پر معین ہے۔

طریقۂ تحصیلِ زہد:

تہذیب: تحصیل زہد کا طریقہ یہ ہے کہ مخلوق کے ہاتھ میں جو کچھ متاع دنیا ہے سب سے امید قطع کر دے جو شخص ایسا کرے گا اس کا قلب راحت میں رہے گا کیونکہ زہد قلب اور بدن دونوں کو راحت دیتا ہے۔