حصہ2 باب 3 ملفوظ 10: اخلاق رذیلہ کی اصلاح

اخلاقِ رذیلہ کی اصلاح۔ المکتوبات مُلَقَّب بہ عِبَادُ الرَّحمان سے

غصّہ کا علاج:

ایک سالک نے لکھا کہ غصّہ کی حالت بحمدِ اللہ ایسی نہیں ہوتی کہ بحالتِ غضب نفس قابو میں نہ رہے، اور جنون جیسی حالت ہو جائے۔ مگر اتنا ضرور ہوتا ہے کہ غصّہ کا اثر قلب پر زیادہ دیر تک رہتا ہے، اور غصّہ کی زیادتی کی وجہ سے بسا اوقات طبیعت کھانے پینے سے رُک جاتی ہے، اور نیند بھی کم ہو جاتی ہے، اور قلب پر اضطراراً ایک قسم کی پریشانی ہو جاتی ہے، قلب کو اگر اس سے دوسری جانب متوجّہ کیا جائے تو متوجّہ نہیں کر سکتا۔ اور غصہ کے بعد ندامت ہوتی ہے، اور طبیعت اس کے لیے بے قرار ہوتی ہے کہ کسی طرح یہ شخص، جس پر غصّہ ہوا، جلد راضی ہو جائے۔ فرمایا: جس غصہ کے آثار معاصی ہوں وہ واجب العلاج ہے، اور جو آثار یہاں تحریر فرمائے ہیں وہ معاصی نہیں، لہٰذا واجبُ العِلاج نہیں۔ البتہ چونکہ اس سے طبعی کُلفت اور ضرر ہوتا ہے، اس حیثیت سے اس کی تدبیر کرنا چاہیے۔ مگر یہ تدبیر بتلانا مصلحِ دین کا کام نہیں، ہر تجربہ کار بتلا سکتا ہے۔ سب سے اچھی تدبیر یہ ہے کہ اس مغضوب علیہ کے پاس سے فوراً جدا ہو جائے، اور فوراً کسی ایسے شغل میں لگ جائے جس سے فرحت ہو۔

حال: اور جس غصّہ کے آثار معاصی ہوں، ان آثار سے اور ان کے علاج سے بھی متنبہ فرمایا جائے۔ تحریر فرمایا: ایسے غصّہ کے وہ آثار اختیاری ہوں گے۔ کیونکہ معصیت کوئی غیر اختیاری نہیں۔ جب اختیاری ہیں تو اس سے رکنا بھی اختیاری ہے، اور اصل علاج بھی کَفّ ہے لیکن اس کَفّ کی اِعانت کے لیے امورِ ذیل مفید ہیں:

(1) معاصی پر جو وعید ہیں ان کا استحضار۔

(2) اپنے ذنوب و عیوب یاد کر کے یہ سوچنا کہ جس طرح میں اپنے لیے یہ پسند کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو معاف فرما دے، اسی طرح مجھ کو چاہیے کہ اس شخص کو معاف کر دوں۔ اور ایک تدبیر مشترک وہی ہے جو پہلے عرض کی گئی کہ مغضوب علیہ کے پاس سے فوراً جدا ہو جائے۔

حسد کا علاج:

جس پر حسد ہوتا ہو اس کے ساتھ احسان و اکرام کا معاملہ کرنا۔ یہ ایک مختصر اور مؤثّر تدبیر ہے، امید ہے کہ مفصّل تدبیر کی حاجت نہ ہوگی۔ اگر کسی عارض سے اکرام و احسان اس شخص سے، جس پر حسد ہوتا ہے، دشوار ہو۔ مثلاً وہ شخص بالفعل پاس موجود نہ ہو بلکہ کہیں دور دراز مسافت پر ہو، یا اس سے تعارف نہ ہو، یا ایسا عالی قدر ہو جس سے اکرام و احسان کرنے کی ہمّت نہ ہو، تو ایسی صورت میں مجمع میں اس کی خوبیاں بیان کی جائیں۔

رِیا کا علاج:

بسا اوقات رِیا کے اندیشہ سے عمل بھی چھوڑ دیتا ہوں۔ فرمایا: ایسا نہ کیا جائے۔ بس اتنا کافی ہے کہ قصدًا رِیا نہ ہو، اس سے زیادہ کا انسان مکلّف نہیں۔

معیارِ قَساوت:

فرمایا کہ ایک تاثّر طبعی ہے ایک تاثّر عقلی یا اعتقادی و عملی۔ اوّل کا فُقدان قَساوت نہیں، ثانی کا فُقدان قَساوت ہے۔ بس یہ معیار ہے۔

مُُواظبت علی الاعمال:

فرمایا کہ مواظبت علی الاعمال سے خود ترقّی ہو جاتی ہے، گو اورادِ زائد نہ ہوں۔

تعلّق و محبّت:

دعا فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ حضرت سلّمہٗ کے ساتھ تعلّق و محبّت زیادہ کریں، اور اس زیادتِ تعلّق کے لیے کوئی علاج بھی تجویز فرمائیں۔ فرمایا کہ جو محبّت مطلوب ہے وہ، بلکہ اس سے زائد حاصل ہے۔ اور جس کی تمنّا ہے وہ مطلوب نہیں۔ یہ مسئلہ ''اَلضَّرُوْرَةُ تُتَقَدَّرُ بِقَدْرِ الضَّرُوْرَةِ'' کی فرع ہے۔

ریا فعلِ اختیاری ہے:

بہت سے اعمال میں رِیا کے وساوس پیش آتے ہیں، خصوصاً جہر میں۔ اگر رِیا کی حقیقتِ کلّیہ سے اور اس کے مذموم ہونے کے واقع سے مطلع فرمایا جائے، تو شاید اس قسم کے وساوس سے بچنے میں سہولت ہو۔ تحریر فرمایا کہ رِیا کی حقیقت یہ ہے کہ کوئی دین کا کام کرنا غرض دنیوی کے لیے ہو، گو وہ غرض مباح ہو، یا دنیا کا کام کرنا غرض مباح کے لیے، جیسے بڑے پیمانہ پر خرچ کرنا شہرت و نمائش کے لیے۔ غرض ہونے کے معنی یہ ہیں کہ قصد اس کام سے اسی غرض کا ہو۔ اس سے معلوم ہو گیا ہو گا کہ ریا فعلِ اختیاری ہے، اور یہ فعل جب ہو گا قصد سے ہو گا۔ پس اگر بلااختیار کوئی نا جائز غرض قلب میں آ جائے، اور اس کو اختیار سے باقی نہ رکھا جائے، تو وہ وسوسۂ ریا ہے، جس پر اجر ملتا ہے۔ ریا نہیں جس پر مؤاخذہ ہوتا ہے۔

حال: علاج جو حضرت سلّمہٗ نے تجویز فرمایا ہے وہ کافی شافی ہے، اس کے ساتھ اگر کچھ اور مُُعین بھی ارشاد فرمایا جائے تو بچنے میں اور سہولت ہو گی۔ تحریر فرمایا: ''اِنَّ اللہَ یَنْظُرُ إِلٰی قُلُوْبِکُمْ'' کا استحضار، اس سے غیرت آئے گی کہ اللہ تعالیٰ قلب میں غیر مَرْضِیّ خیال دیکھیں۔

حال: بندہ کے اخلاق بہت ہی ناشائستہ ہیں، اخلاق کی اصلاح کے لیے دعا فرمائیں۔ تحریر فرمایا: یہی خیال ان شاء اللہ تعالیٰ اصلاح کی علّتِ تامّہ کے مثل ہے۔

کِبر کا علاج:

(ا) کِبر کی حقیقت سے متنبّہ فرمایا جائے، تاکہ انطباق علی الافراد میں سہولت ہو۔ تحریر فرمایا کہ کسی کمال میں اپنے کو دوسرے سے اس طرح بڑا سمجھنا کہ اس کو حقیر و ذلیل سمجھے۔

علاج: یہ سمجھنا اگر غیر اختیاری ہے، اس پر ملامت نہیں۔ بشرطیکہ اس کے مقتضا پر عمل نہ ہو، یعنی زبان سے اپنی تفضیل، دوسرے کی تنقیص نہ کرے، دوسرے کے ساتھ برتاؤ تحقیر کا نہ کرے۔ اور اگر قصداً ایسا سمجھتا ہے، یا سمجھنا تو بلاقصد ہے لیکن اس کے مقتضائے مذکور پر بقصد عمل کرتا ہے، تو مرتکب کبر کا اور مستحق ملامت و عقوبت کا ہے۔ اور اگر زبان سے اس کی مدح و ثنا کرے اور برتاؤ میں اس کی تعظیم، تو اعون فی العلاج ہے۔

(ب) نیز اس سے آگاہ فرمایا جائے کہ کِبر میں اور تکبّر و حُبِّ جاہ و رعونت و شہرت میں کیا فرق ہے؟ تحریر فرمایا: ''عِبَارَاتُنَا شَتّٰی وَ حُسْنُکَ وَاحِدٌ'' کی طرح مُعتد بہ فرق نہیں۔

(ج) اگر طبیعت میں صرف اپنے کو بڑا سمجھتا ہو؟ فرمایا کہ یہ عُجب ہے جو حرمت میں مثل کِبر کے ہے۔

(د) یا صرف دوسرے کو حقیر و ذلیل سمجھنا (جو اپنے کسی کمال کی وجہ سے ہو) اس کو بھی شرعاً کِبر کہا جائے گا یا نہیں اور اس پر مواخذہ ہو گا نہیں؟ فرمایا: کِبر میں اصل یہی ہے۔

(س) اور اس کا شرعاً کوئی خاص نام ہے یا نہیں؟ فرمایا: اوّل عُجب، ثانی کِبر۔

(ص) نیز کِبر سے اجتناب کے لیے کوئی مُعین ہو تو مطّلع فرمایا جائے۔ تو فرمایا: اپنے عُیوب کا استحضار، دوسرے کے کمالات کا استحضار۔

(ط) رعونت و شہرت و جاہ و نخوت و تکبّر کا کِبر سے اگر کچھ تغایُر ہے اس کو ظاہر فرمایا جائے، اور یہ پانچوں اگر آپس میں متغائر ہیں تو رعونت کے لیے علاج تحریر فرمایا جائے۔ اور اگر سب متّحد ہیں تو سب کے لیے مشترک علاج تجویز فرمایا جائے۔ فرمایا: خواہ لغۃً کچھ فرق ہو مگر محاورات میں سب متقارِب ہیں۔ اور اگر تفاوت ہو تب بھی عُجب و کِبر کے علاج سے ان کا بھی علاج ہو جاتا ہے۔

بُُخل کا علاج:

(1) حبِ مال اگر طبعا ہو، مگر اس کے مُقتضا پر (کہ کسبِ حرام و امساک عن الواجب ہے) عمل نہ ہو، معصیت نہیں۔ اور اگر عقلاً ہو، کہ مُقتضائے مذکور پر عمل ہو، تو معصیت ہے۔ اور یہ مُقتضا پر عمل کرنا چونکہ اختیاری ہے، تو اس کی ضد بھی اختیاری ہے، ضد پر بہ تکلّف عمل کرنا، اور بار بار عمل کرنا، اس داعیہ کو ضعیف کر دیتا ہے اور یہی علاج ہے۔

(ب) بسا اوقات طبیعت پر انفاق گراں ہوتا ہے، ایسی صورت میں اگر انفاق کیا جائے تو ثواب نہیں ہوتا، کیونکہ خلوص نہیں ہوتا۔ اور اگر انفاق نہ کیا جائے تو بُُخل ہے۔ اس کے لیے حضرت سلّمہٗ کچھ تحریر فرمائیں، تاکہ اطمینان ہو۔ فرمایا: بشاشت اور خلوص میں تلازُم نہیں۔ بشاشت نہیں ہوتی خلوص ہوتا ہے، بلکہ بوجہ گرانی مجاہدہ کا اجر بھی ملتا ہے، اس لیے انفاق کرنا چاہیے۔

(ج) دفعِ بخل کے لیے اگر کچھ اور مُعین ہو تو اس سے بھی مطلع فرمایا جائے۔ فرمایا: مُراقبہ و اِستحضار فناءِ مال کا اور رجاء اجرِ اِنفاق کا۔

حبِّ دنیا کا علاج:

(ا) محبت جو بدرجۂ میلان ہے وہ ذمیمہ نہیں، اور جو اس میلان کے مقتضا پر عمل ہو، اگر وہ عمل مباح ہے تو اس میں صرف اِنہماک مذموم ہے۔ اور اگر غیر مباح ہے تو نفسِ عمل ہی مذموم ہے۔ اور اِنہماک اور عمل دونوں اختیاری ہیں، ان دونوں کی مخالفت بار بار کرنا اس میلان کو مضمحل کر دیتا ہے، یہی علاج ہے۔

اِنہماک کی تعریف:

کسی فعلِ مباح کا خاص اہتمام کرنا، کہ وقت کا معتد بہٖ حصہ اس میں صرف ہو، یا ایسی رقم خرچ ہو جس کے خرچ کے بعد قرض یا حقوقِ واجبہ میں تنگی ہو جائے، یا قلب اس میں مشغول ہو کر آخرت سے غافل ہو جائے، یہ اِنہماک ہے۔

(ب) دفعِ حبِّ دنیا کے علاج میں اگر اور کچھ مُعین ہو تو اس سے بھی مطلع فرمایا جائے۔ تحریر فرمایا: تذکرۂ موت بکثرت۔

عدمِ توکّل علی اللہ کا علاج:

(ا) اسباب پر نظر زیادہ رہتی ہے، اسباب کے فوت ہونے سے پریشانی ہوتی ہے، قلب میں گویا اسباب ہی پر بھروسہ رہتا ہے۔ تحریر فرمایا: یہ طبعی کیفیت ہے جس کا منشا اعتبار بالاسباب ہے اس پر ملامت نہیں، نہ انسان اس کے ازالہ کا مکلّف ہے بلکہ ایسا شخص اس کا مامور ہے کہ اسباب کا تہیّہ رکھے، تاکہ قلب مُشوّش نہ ہو۔ حضورِ اقدس نے سال بھر کا ذخیرہ کر کے اس کو سنّت کر دیا۔

(ب) توکّل کا یہ درجہ کہ اسباب پر نظر زیادہ نہ ہو مستحب ہے واجب نہیں، اوّل تمام اخلاقِ واجبہ سے فراغت کر لی جائے، پھر مستحبّات کا سلسلہ شروع ہونے کا وقت ہو گا۔ اس وقت معلوم ہوگا کہ ان کا زیادہ حصہ تو واجبات کے ساتھ ہی ساتھ حاصل ہو گیا، اور بہت ہی کم حصہ باقی رہ جائے گا جو ادنیٰ اہتمام سے راسخ ہو جائے گا۔ اس وقت صرف اس حصہ کا طریق عرض کر دیا جائے گا۔

تحصیلِ خوفِ مامور بہ کا طریقہ، اور اس کی حقیقت:

(ا) ''اِحْتِمَالُ الْمَکْرُوْہِ مِنَ الْعِتَابِ وَ الْعِقَابِ'' اصل ہے خوف کا، اور اس کا استحضار اختیاری ہے۔ اسی طرح اس کے مقتضا پر عمل کرنا (یعنی کفّ عن المعاصی اختیاری) ہے۔ اس کفّ میں اوّلاً تکلّف ہوتا ہے مگر اس کے تکرار سے تکلّف کم ہو کر عادت ہو جاتی ہے، پھر اس کا مَلَکہ ہو جاتا ہے کہ کفّ عن المعصیت سہل ہو جاتا ہے۔

(ب) حق تعالیٰ کا خوف قلب میں بالکل نہیں، اور قلب میں ضُعف اور جُبن بے حد زیادہ ہے۔ خوفِ الٰہی پیدا ہونے کی جو تدابیر ہوں ان سے بھی مطّلع فرمایا جائے۔ فرمایا: کیا قلب میں یہ احتمال بھی نہیں کہ شاید معاصی پر عقاب یا عتاب ہونے لگے؟ چونکہ یہ احتمال ضرور ہر مؤمن کے قلب میں ہے، اس لیے خوف حاصل ہے۔ اسی احتمال کا اِستحضار اور کفّ عن المعاصی بالاستمرار، یہ خوف کو مَلَکہ بنا دیتی ہیں، اور یہی استحضار و کفّ عن المعاصی خوف کا قوی مُعین بھی ہے۔

تحصیلِ صبر کا طریق:

(ا) مصائب کا تحمّل قلب پر بہت ہی گراں ہوتا ہے، بلکہ کوئی بات خلافِ طبع پیش آ جائے اس سے قلب میں بے چینی اور اضطراب پیدا ہو جاتا ہے، اور قلب میں اس کی وجہ سے طرح طرح کے وساوس پیدا ہوتے ہیں۔ امید ہے کہ حضرتِ اقدس اس کے لیے علاج مرحمت فرمائیں گے۔ تحریر فرمایا: نہ سبب مذموم ہے نہ مُسبَّب، دونوں غیر اختیاری ہیں ''وَ لَا یُذَمُّ مَا لَا اِخْتِیَارَ فِیْہِ''، اس لیے ضرورت معالجہ کی نہیں۔ البتّہ حُدودِ شرعیہ سے بالاختیار تجاوز کرنا، یہ مذموم ہے، اور بے صبری اسی کا نام ہے۔

(ب) صبر کی حقیقتِ شرعیہ سے بھی مطّلع فرمائیں گے۔ تحریر فرمایا: ''حَبْسُ النَّفْسِ عَلٰی مَا تَکْرَہُ عَمَّا یُکْرَہٗ شَرْعًا'' یعنی نفس کی ناگوار باتوں کو تحمّل کرنا، اس طرح کہ حدودِ شرعیہ سے تجاوز نہ ہونے پائے۔ یعنی جزع و فزع اور خلافِ شرع اقوال سے بچنا۔

(ج) بے چینی اور طبعی اضطراب گو شرعا مذموم نہیں، مگر نفس کو اس سے تکلیف ہوتی ہے۔ تحریر فرمایا کہ اس تکلیف کا مُعالجہ فن کی غرض سے خارج ہے۔

(د) بسا اوقات اس کی وجہ سے دینی امور، فرائض و واجبات میں خلل واقع ہونے لگتا ہے۔ فرمایا: خلل غیر اختیاری یا اختیاری؟

(س) جو مصیبت قلب پر عادةً شاق ہوتی ہے، جیسے والدین یا اولاد کا انتقال۔ اگر کسی کو بوجہ قساوت کے ایسے مصائب پر کچھ گرانی قلب پر نہ ہو، تو ایسی صورت میں نہ اس کو تکلیف ہو گی اور نہ صبر اور نہ اس پر ثواب۔ ایسی صورت میں تحصیلِ ثواب کی کیا صورت ہے؟ یا وہ شخص اس مصیبت پر صبر کے ثواب سے محروم رہے گا؟ تحریر فرمایا کہ یہ عزم رکھنا کہ اگر مصیبت پر قَلق ہو تو صبر کروں گا، یہ بھی تحصیلِ ثوابِ صبر کے لیے کافی ہے۔

(ص) مصائب کے وقت حقوقِ شرعیہ میں خلل کبھی تو اختیاری ہوتا ہے۔ فرمایا کہ اس کا تدارک تو اختیاری ہے، تدارک کرنا چاہیے۔

(ط) کبھی غیراختیاری، کہ قلب ایسی پریشانی میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ ذہول اور غفلت کی وجہ سے دوسری طرف توجہ نہیں ہوتی۔ فرمایا: تو اس سے کوئی ضرر دینی نہیں، اور مُہتم بالشان ایسے ہی ضرر سے بچنا ہے۔

میرے نزدیک قَساوت کی تفسیر یہ ہے کہ:

(ا) طاعت کی طرف طبیعت کی رغبت نہیں۔ تحریر فرمایا: طبعی یا قصدی استحضار سے؟

(ب) اور نہ معاصی سے طبیعت میں نفرت ہے۔ تحریر فرمایا: طبعی یا قصدی استحضار سے؟

(ج) بلکہ بسا اوقات طاعاتِ واجبہ مخلوق کے خوف سے اور ان کے طعن و لعن کے ڈر سے ادا ہوتی ہے۔ فرمایا: یہ تو ریا ہے۔

(س) اور طاعات کی طرف نہ طبعی رغبت ہوتی ہے اور نہ قصدی استحضار سے۔ اور ایسے ہی معاصی سے نفرت۔ فرمایا رغبت و نفرتِ طبعیہ غیر مطلوب ہے۔ رغبت و نفرتِ اعتقادی کافی ہے اور یہی مامور بہٖ ہے۔ اس کے مُقتضا پر بار بار عمل کرنے سے اکثر طبعی رغبت و نفرت بھی ہو جاتی ہے، اگر نہ ہو تو بھی مضر نہیں۔

(ص) قساوت سے مقصود بندہ کا یہ ہے کہ جیسے بعض لوگوں کو دیکھا گیا کہ حالتِ صلوٰة میں رونے لگتے ہیں، قرآن شریف پڑھنے میں رونے لگتے ہیں، وعظ میں وعید کے مضامین سن کو رقیقُ القلب ہو کر گریہ و بکاء میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ احقر کو نہ نماز میں رونا آتا ہے نہ قرآن پڑھنے سننے سے رقت قلب ہوتی ہے، یہ حالت اگر غیر محمود ہے تو حضرت والا اس کے لیے علاج ارشاد فرمائیں۔ فرمایا یہ امور غیر اختیاریہ ہیں، اور ایسے امور میں غیر محمود کا تعلّق ہی نہیں ہوتا۔

شکر کی حقیقت:

جو حالت طبیعت کے موافق ہو، خواہ اختیاری ہو یا غیر اختیاری، اس حالت کو دل سے خدا تعالیٰ کا عطیہ اور نعمت سمجھنا، اور اس پر خوش ہونا اور اپنی لیاقت سے اس کو زیادہ سمجھنا، اور زبان سے خدا تعالیٰ کی تعریف کرنا، اور اس نعمت کو جوارح سے گناہوں میں نہ استعمال کرنا، یہ شُکر ہے۔

تحصیلِ شُکر کا طریق:

اس کی ماہیّت کے اجزاء سب افعالِ اختیاریہ ہیں، ان کو بہ تکرار صادر کرنا یہی طریقۂ تحصیل اور یہی طریقۂ تسہیل ہے۔

طریقِ تحصیلِ مراقبہ:

زُہد، اس کی ماہیّت قلّتِ رغبت فی الدّنیا ہے۔ طریقِ تحصیل، مراقبہ اس کے فانی ہونے کا، اور غیر ضروری کی تحصیل میں انہماک نہ کرنا۔ اور طریق تسہیل ہے، صحبت زاہدین کی اور مطالعہ حالاتِ زاہدین کا۔

دُعا اور توجّہات:

احقر کو حق تعالیٰ کی ذاتِ با برکات سے امید ہے کہ حضرت کی دعا اور توجّہات سے احقر ناکارۂ خلائق کی اصلاح ان شاء اللہ تعالیٰ ہو جائے گی۔

جواب تحریر فرمایا کہ میں کیا چیز ہوں مگر حق تعالیٰ کے فضل و رحمت سے سب امید ہے ان شاء اللہ تعالیٰ۔

صِدق و اخلاص:

جس طاعت کا ارادہ ہو اس میں کمال کا درجہ اختیار کرنا، یہ صدق ہے۔ اور اس طاعت میں غیرِ طاعت کا قصد نہ کرنا، یہ اخلاص ہے۔ اور یہ موقوف ہے ما بہ الکمال کے جاننے پر، اسی طرح غیرِ طاعت کے جاننے پر۔ اس کے بعد صرف نیّت اور عملِ خیر و اجر رہ جاتا ہے، اور یہ دونوں (نیّت و عمل) اختیاری ہیں۔ طریقِ تحصیل تو اسی سے معلوم ہو گیا۔ آگے رہا مُعین، وہ استحضار ہے وعدہ و وعید کا، اور مراقبہ نیّت کا۔

مثال صدق کی، نماز کو اس طرح پڑھنا جس کو شریعت نے صلوٰةِ کاملہ کہا ہے۔ یعنی اس کو مع آدابِ ظاہرہ و باطنہ کے ادا کرنا۔ علیٰ ہذا تمام طاعات میں جو درجہ کمال کا شریعت نے بتلایا ہے اس کو اختیار کرنا۔

مثال اخلاص کی نماز میں رِیا کا قصد نہ ہو، جو کہ غیرِ طاعت ہے۔ رضائے غیرِ حق کا قصد نہ ہو، جو کہ غیر طاعت ہے۔ اور اس کے متعلقات ظاہر ہیں۔

اخلاص اور خشوع خضوع کا فرق:

اخلاص راجع ہے نیت کی طرف۔ اور خشوع خضوع سکون ہے جوارح و قلب کا حرکاتِ منکَرہ ظاہرہ و باطنہ سے، اگرچہ ان حرکات میں نیت غیرِ طاعت کی نہ ہو۔ پس اخلاص و خشوع مفارق ہو سکتا ہے۔

نیتِ مراقبہ:

یہ ہے کہ اس کی دیکھ بھال رکھی جائے کہ میری نیت غیرِ طاعت تو نہیں۔

وساوس:

وساوس جو غیرِ طاعت کے بلا اختیار پیش آتے ہیں، ان کے دفع کرنے کا کیا علاج ہے؟ جواب تحریر فرمایا کہ وساوِس مخل نہیں اخلاص میں۔ اوّل تو وہ غیر اختیاری ہیں، دوسرے نماز سے وہ مقصود تو نہیں۔

ارادۂ صلوٰة کے وقت وساوِس کا آنا:

ارادۂ صلوة کے وقت قبیل از تحریمہ، ہر چند اس کی کوشش کرتا ہوں کہ غیرِ طاعت کا وسوسہ قلب میں نہ آئے، مگر پھر بھی کامیابی نہیں ہوتی۔ تحریر فرمایا: تو محذور کیا ہوا؟ اخلاص کے خلاف نہ ہونا اوپر معلوم ہوا۔ البتّہ اگر قصداً ہوں تو صدق کے خلاف ہیں۔ مگر جب بِلا قصد ہوں تو خلافِ صدق بھی نہیں۔

قطعِ تحریمہ کی نوبت:

اور بسا اوقات قطعِ تحریمہ کی نوبت آ جاتی ہے۔ فرمایا: یہ تو حرام ہے۔

نیت فعلِ اختیاری ہے:

اور مکرّر سہ کرر، نیت اور اِستحضار کرنا پڑتا ہے۔ اس خیال سے کہ تحریمہ کے وقت نیت نہیں ہوئی، اور عزم نہیں ہوا، یا تحریمہ کی طرف توجہ نہیں ہوئی۔ فرمایا: نیت فعلِ اختیاری ہے، اس وقت دوسری طرف توجہ قصد و اختیار سے نہ ہونا چاہیے۔ اور بِلا اختیار منافئ نیت نہیں۔

اخلاص و خُشُوع کا فرق:

جو حضرت اقدس کا ارشاد ہے: (اگرچہ ان حرکات میں نیت غیرِ طاعت کی نہ ہو) اس میں اتنا شبہ ہے کہ جب وہ حرکاتِ مُنکَرہ ہیں، تو ان میں نیت طاعت کی ہو ہی نہیں سکے گی۔ ان میں تو بہر صورت نیت غیرِ طاعت ہی کی ہو گی۔ تحریر فرمایا: لازم نہیں بلکہ ممکن ہے کہ کسی چیز کی بھی نیت نہ ہو، عبث حرکات ہوں، جو بے پروائی یا عادت کے سبب صادر ہوں، خواہ جوارح کے حرکات ہوں یا قلب کے۔

نماز کی حالت:

کسی طاعت میں غیرِ طاعت کا تو قصد نہ ہو، مگر دوسری طاعت کا قصد ہو۔ جیسے نماز کی حالت میں ریا کا قصد نہیں اور نہ کسی اور فعلِ غیرِ طاعت کا قصد ہے، مگر نماز کی حالت میں کوئی قصداً کسی شرعی مسئلہ کا مطالعہ کرتا ہے یا کسی اور سفرِ طاعت کا نظام قصداً سوچتا ہے۔ (اگرچہ نماز سے قصد و غرض نظامِ سفر سوچنے کا نہ تھا) جواب تحریر فرمایا: یہ مسئلہ دقیق ہے، قواعد سے اس کے متعلق عرض کرتا ہوں۔ اس وقت دو حدیثیں میری نظر میں ہیں۔ ایک مرفوع، جس میں یہ جُُزو ہے: ''فيُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ مُقْبِلًا عَلَيْھِمَا بقَلْبِهٖ ووَجْهِهٖ''۔(مسند احمد: رقم الحدیث:17393) دوسری موقوف حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول، جس میں یہ جُزو ہے: ''إِنِّيْ لَأُجَھِّزُ جَیْشِيْ وَ أَنَا فِي الصَّلٰوةِ'' (فتح الباری: 107/3)۔ مجموعۂ روایتین سے اخلاص کے دو درجے مفہوم ہوئے، ایک یہ کہ جس طاعت میں مشغول ہے اس کے غیر کا قصداً استحضار بھی نہ ہو، اگرچہ وہ بھی طاعت ہی ہو۔ دوسرا درجہ یہ کہ دوسری طاعت کا استحضار ہو جائے، (بلا قصد، یعنی جیسے نماز سے قصد تجہیزِ جیش کا نہ تھا اور ہو گیا) دونوں میں یہ امر مشترک ہے کہ اس دوسری کا اس طاعتِ مشغول فیہا سے قصد نہیں ہے۔ مثلاً نماز پڑھنے سے یہ غرض نہیں ہے کہ نماز میں یکسوئی کے ساتھ تجہیزِ جیش کریں گے، پس حقیقتِ اخلاص تو دونوں میں یکساں ہے، اس میں تشکیک نہیں۔ عوارض کے سبب ان میں تفاوت ہو گیا۔ اور درجۂ اوّل اکمل ہے اور دوسرا درجہ اگر بلا عذر ہے تو غیرِ اکمل ہے، اور اگر عذر سے ہے تو وہ بھی اکمل ہے۔ جیسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ضرورت تھی۔ اور اس کا معیار اجتہاد ہے، لیکن ہر حال میں اخلاص کے بالکل خلاف نہیں، البتہ خُشُوع کے خلاف ہونا نہ ہونا نظری ہے۔ میرے ذوق میں بصورتِ عذر خلافِ خُشُوع بھی نہیں، اگر ضرورت ہو۔ (اسی کو اوپر عذر کہا گیا ہے) اب اس پر سوال کو مُنطبِق کر لیجئے۔

خشوع اور اخلاص کا دوسرا دقیق مسئلہ:

یا نماز صرف اس غرض سے پڑھتا ہے کہ کوئی ناواقف آدمی میری اس نماز کو دیکھ کر اپنی نماز درست کرے، ایسی طاعت کا قصد نماز میں مخلِ اخلاص ہے یا نہیں؟

تحریر فرمایا: اس میں خود نماز سے مقصود غیرِ نماز ہے، اس میں بظاہر خلافِ اخلاص ہونے کا شبہ ہو سکتا ہے، مگر میرے ذوق میں اس میں تفصیل ہے کہ شارع کے لیے تو یہ خلافِ اخلاص نہیں کیونکہ وہ اس صورت تبلیغ کے مامور ہیں، اور غیرِ شارع کے لیے مامور بہٖ نماز میں خلافِ احتیاط ہے، اور خاص تعلیم کے لیے مستقل نماز کا حرج نہیں۔

قبولیّتِ ہدیہ میں حضرت والا کا طرز:

کئی مرتبہ طبیعت کا تقاضا ہوا کہ حضرت سلّمہٗ کے لیے کوئی تھوڑی سی چیز بطورِ ہدیہ حاضرِ خدمت کروں، لیکن چونکہ حضرت کی طبیعت مبارک کے خلاف ہے اس لیے پیش کرنے کی جرأت نہ ہوئی، اور نہ عرض کرنے کی ہمّت ہوئی۔ درخواست ہے کہ اگر حضرت والا اجازت فرمائیں تو صرف دو روپیہ کی کوئی چیز (جو حضرت سلّمہٗ پسند فرمائیں) اپنے ساتھ لا کر حاضرِ خدمت کروں۔ یا اگر احقر کا حاضر ہونا کسی عذر سے ملتوی ہو گیا تو کسی ایسے شخص کے ہاتھ بھیج دوں جو حضرت سلّمہٗ کا خادم ہو۔

تحریر فرمایا: حجاب بھی ہوتا ہے مگر آپ کے تبرّک سے محرومی بھی گوارا نہیں۔ کوئی خاص چیز ذہن میں نہیں، بے تکلّف عرض ہے کہ نقد انفع ہے مگر اس سے نصف، یعنی ایک روپیہ۔

رضا بالقضاء:

اس کی حقیقت ترکِ اعتراض علی القضاء ہے، اگر اَلَم کا احساس ہی نہ ہو تو طبعی رضا ہے، اگر اَلَم کا احساس باقی رہے تو رضا عقلی ہے۔ اور اوّل حال ہے، جس کا عبد مکلّف نہیں۔ اور ثانی مقام ہے جس کا عبد مکلّف ہے۔ تدبیر اس کی تحصیل کی، استحضارِ رحمت و حکمتِ الٰہیہ کا۔ واقعات خلافِ طبع ہیں۔

توکّلِ مستحب:

اس کے لیے دوچیزوں کی ضرورت ہے: فطرةً قوّتِ قلب، اور حقوقِ واجبہ کا ذمہ نہ ہونا۔ یا اہلِ حقوق کا بھی ایسا ہی ہونا۔ اگر کسی میں یہ شرائط متحقّق نہ ہوں تو واجب پر اکتفاء کیا جائے، اور اس سے زائد کی دعا کی جائے، خود قصد نہ کیا جائے۔

تعلیمِ فنا:

مجلسِ حضرت والا میں ایک شخص نے حضرت والا کی تقریر پر بطورِ تصدیق کچھ کہہ دیا تھا۔ تنبیہ فرمائی کہ بہت دن سے میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے اندر فنا کی شان بالکل نہیں۔ مجلس میں اپنے آپ کو بالکل فانئِ محض بنا کر بیٹھنا چاہیے، جس کو آدمی بڑا سمجھے اس کے سامنے کسی قول کی تصدیق کرنے کے قابل بھی نہ سمجھنا چاہیے۔ دوسرے کے قول کی تصدیق بھی وہی کرتا ہے جو اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہے؎

در محفلے کہ خورشید، اندر شمار ذرّه ست

خود را بزرگ دیدن شرطِ ادب نباشد

لیکن اگر قرائنِ حالیہ سے خطاب کرنے والے کی اجازت متیقّن ہو تو بقدرِ ضرورت مضائقہ نہیں۔

بعض اُمور:

ایک صاحب نے بعض اُمور کی نسبت عرض کیا کہ سیکڑوں مرتبہ ان کے ترک کا ارادہ کیا، اور ہر بار یہ ارادہ ٹوٹتا رہا، حتّٰی کہ اب ارادہ کرنے کو بھی جی نہیں چاہتا۔ جواب میں تحریر فرمایا: بے جی چاہے ہی کرنا چاہیے وہ خالی نہیں جاتا، خدا جانے کس وقت اس کے اثر کا ظہور ہو جائے۔ یقین فرمایئے کہ الحمد للہ اس سے مُردہ ہمّت میں تازہ جان آ گئی۔

نمایاں وصفِ حضرت والا:

حضرت والا کے عادات و اخلاق میں سب سے نمایاں وصف بے تکلّفی اور ضبطِ انتظام ہے۔ محض تکلّف یا عام رسم و رواج کی خاطر کوئی ایسی بات نہ پسند فرماتے ہیں اور نہ اختیار فرماتے ہیں، جو اپنے یا دوسرے کے لیے بارِ خاطر یا حقیقی نفع کے منافی ہو، تکلّف میں سراسر تکلیف کے باوجود لوگ اسی کو خوش اخلاقی سمجھتے ہیں۔ حضرت کو اس خوش اخلاقی سے نہ صرف بالطّبع بُعد معلوم ہوتا ہے، بلکہ اکثر صورتوں میں تعلیم و تربیّت کے مصالح بھی اس کے مقتضی نہیں ہوتے، لیکن چونکہ لوگ عام طور سے تکلّف و تصنّع ہی کے عادی و طالب ہو گئے ہیں، اس لیے حضرت کی معاشرت میں بعض باتیں غیر مانوس نظر آتی ہیں، اور غلط فہمی کا باعث بن جاتی ہیں۔ مثلاً لوگ کثرت سے حاضر ہوتے رہتے ہیں، جن کی عام طور سے مہمانداری کا اہتمام حضرت والا نے اپنے ذمّہ نہیں رکھا ہے، ابتداء میں کچھ دن رکھا تھا مگر حضرت کی طبیعت و طریقہ سے جو لوگ واقف ہیں جانتے ہیں کہ چھوٹا بڑا جو کام بھی اپنے ذمّہ قبول فرما لیتے ہیں اس کا پورا اہتمام و حق بھی ادا فرماتے ہیں، جس کا اثر لازماً ارشاد و افادہ کی اُُن خدمات پر پڑتا تھا جو حاضر ہونے والوں کا اصل مقصود ہوتا ہے۔

حضرت والا کی ہر بات میں حکمت:

حضرت والا اکثر (خصوصاً جب ایک سے زائد وقت کا مہمان ہو) تو تکلّف ہم طعامی کا نہیں فرماتے، تکلّف پسند مہمانوں کو یہ بات گراں ہو سکتی ہے۔ ایک مرتبہ خود ہی فرمایا کہ میزبان کے ساتھ مہمان بے تکلّف ہو کر نہیں کھاتا۔ اندازہ کرنا چاہیے کہ جب ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں ایسی دقیق رعایتیں فرماتے تھے تو مہمّات امور میں کیا کیا حکمتیں نہ پیشِ نظر رہتی ہوں گی۔

رسمی تکلّفات:

جو لوگ ہر جگہ رسمی تکلّفات یا مصنوعی خوش اخلاقیوں کی تلاش میں رہتے ہیں ان کو تو یقیناً حضرت کے ہاں بعض امور اجنبی معلوم ہوں گے، جن کو وہ نافہمی یا غلط فہمی سے، خدا جانے کس کس چیز پر محمول کریں گے۔ لیکن جو شخص کسی اور طبیعت کی تلاش میں حاضر ہوتا ہے وہ تو (بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ) حضرت کی ساری معاشرت کو حکمت و مصلحت پر مبنی پائے گا، اور نام نہاد تشدّد کے بجائے ہر امر میں انتہائی راحت و سہولت محسوس کرے گا۔

مکالمہ وقف کمیٹی متعلّق تجویزِ قانونِ نگرانی اوقاف:

حضرت والا نے اس کمیٹی سے صاف فرما دیا کہ چونکہ وقف مذہبی فعل ہے اس لیے اس کے اندر غیرمسلم کا دخل دینا خود مذہبی دخل اندازی ہے، اور مذہبی دست اندازی کی درخواست کرنا اور کسی طرح سے اس کی مداخلت کی کوشش کرنا صاف جرم ہوگا۔ جیسے کہ نماز ایک خالص مذہبی فعل ہے اس کے اندر کسی طرح جائز نہیں کہ غیر مسلم کو دخیل بنایا جائے، اسی طرح یہ بھی جائز نہ ہو گا کہ وقف میں کسی غیر مسلم سے دست اندازی کی درخواست کی جائے، یا کوئی ایسی کوشش کی جائے کہ وہ غیر مسلم وقف کے انتظامی معاملات میں دخیل ہو۔

اس کے جواب میں ایک مشہور بیرسٹر صاحب نے (جو وفد کی طرف سے گفتگو کے لیے تجویز ہوئے تھے اور جو جرح کے اندر اس قدر لائق شمار ہوتے ہیں کہ لوگ ان کو جرح کا بادشاہ کہتے ہیں) انہوں نے کہا معاف فرمایئے، نماز میں اور وَقف میں فرق ہے اس لیے کہ نماز کا تعلّق مال سے نہیں ہے اور وقف کا تعلّق مال سے ہے۔ اور اس وقت چونکہ متولّیوں کی حالت خراب ہو رہی ہے، اس لیے اوقاف کے اندر وہ بڑی گڑبڑی کرتے ہیں۔ اس کی آمدنی مصارفِ خیر میں صرف نہیں کرتے۔

حضرت والا نے فرمایا کہ اچھا اگر آپ کے نزدیک نماز کی نظیر ٹھیک نہیں تو زکوٰۃ ہی کو لے لیجئے۔ یہ ایک خالص مذہبی فعل ہے اورا س کا تعلّق مال سے بھی ہے، اور بہت سے مسلمان ایسے بھی ہیں جو اپنے مال کی زکوة نہیں نکالتے۔ مگر چونکہ مذہبی فعل ہے اس لیے اس میں غیر مسلم کی مداخلت جس قسم کی بھی ہو ناجائز ہے۔ بیرسٹر صاحب نے کہا اچھا صاحب نکاح اور طلاق بھی آپ کے نزدیک خالص مذہبی فعل ہے یا نہیں؟ حضرت والا نے فرمایا جی ہاں۔ بیرسٹر صاحب نے کہا بہت اچھا، اگر ایک عورت کو شوہر نے طلاق دے دی مگر اب وہ عورت اس مرد سے جدا ہونا چاہتی ہے اور شوہر اس کو جانے نہیں دیتا، بلکہ روکتا ہے اور طلاق سے انکار کرتا ہے، تو ایسی صورت میں کیا اس عورت کو جائز نہیں کہ عدالتِ غیرمسلم میں اس کے لائق استغاثہ دائر کر دے اور شہادت سے طلاق کو ثابت کر کے حکومت سے اپنی آزادی میں مدد حاصل کرے۔ تو دیکھئے نکاح و طلاق مذہبی فعل ہیں مگر اس میں غیرمسلم کا دخل جائز ہوا۔

وقوعِ طلاق اور اثرِ طلاق:

حضرت والا نے فرمایا کہ آپ نے غور نہیں کیا، یہاں دو چیزیں جدا جدا ہیں: ایک تو وقوعِ طلاق اور ایک اثرِ طلاق، یعنی وہ حق جو اس عورت کو مرد کے طلاق دے دینے سے حاصل ہو گیا ہے اور مرد اس حق کو چھیننا چاہتا ہے، جس میں عورت کا ضرر ہے، تو یہاں وہ عورت غیر مسلم کا دخل قصداً خود طلاق میں نہیں چاہتی، بلکہ طلاق سے جو اس کو حقِ آزادی حاصل ہے، جس کے استعمال نہ کر سکنے سے اس کو ضرر پہنچتا ہے، اس ضرر کو دفع کرنے کے لیے وہ عورت عدالت سے مدد چاہتی ہے۔

بیرسٹر صاحب نے کہا معاف کیجئے، اسی طرح ہم یہاں بھی کہہ سکتے ہیں کہ جیسے یہاں عورت کا ضرر ہے، اسی طرح اوقاف کے اندر گڑبڑ ہونے میں مساکین کا ضرر ہے۔ تو جیسے وہاں اس ضرر سے بچنے کی خاطر غیرمسلم کے دخل کو جائز رکھا گیا ہے، اسی طرح یہاں اوقاف میں ضرر سے بچنے کی خاطر غیرمسلم کا دخل جائز ہونا چاہیے۔ حضرت والا نے فرمایا کہ آپ نے غور نہیں کیا ،وہاں تو شوہر کے حبس سے اس عورت کا ضرر ہے، اور یہاں اوقاف میں متولّی کی خیانت سے مساکین کا ضرر نہیں، بلکہ صرف عدم النفع ہے۔ ضرر اور چیز ہے اور عدم النفع اور چیز ہے۔ اس کو ایک مثال سے سمجھئے، مثلاً آپ کی جیب میں ایک سو روپیہ کا نوٹ تھا، ایک شخص نے وہ آپ سے چھین لیا تو یہ آپ کا ضرر ہوا۔ اور اگر میں آپ کو ایک نوٹ دینا چاہتا ہوں، مگر کوئی اس نوٹ کو دینے سے منع کر دے، تو اس میں آپ کا ضرر کچھ نہیں ہوا، بلکہ صرف عدم النفع ہوا۔ اس پر سب لوگوں نے بے ساختہ ''سُبْحَانَ اللہِ'' اور ''صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ'' کہنا شروع کیا، اور بیرسڑ صاحب خاموش ہو گئے۔

نقلِ یادداشت متعلّق تجویزِ قانونِ نگرانی، جو بوقتِ مکالمۂ وقف کمیٹی بماہِ شوال 48ھ ان کو لکھ کر دی گئی:

(1) وقف کرنا ایک مالی عبادت ہے اور خالص عبادت ہے، جیسے زکوة دینا مالی عبادت ہے اور خالص عبادت ہے، ''رَدُّ الْمُحْتَارِ: وَ کَذَا عَلَی الْعِتْقِ وَ الْوَقْفِ وَ الْاُضْحِیَّۃِ... اِلَخْ''۔

(2) گو وقف کا نفع بعض اوقات عباد کو بھی پہنچتا ہے، جبکہ ان عباد کے لیے کوئی استحقاق مقرر کر دے، مگر تب بھی وقف خالص عبادت رہے گا معاملہ نہ ہو گا۔ جیسے زکوٰة خالص نفعِ عباد کے لیے ہی موضوع ہے، ہر دوسرے مصارف، مساجد وغیرہ میں صرف نہیں ہو سکتی۔ بخلاف وقف کے کہ وہ ان مصارف میں بھی شرطِ واقف کے موافق صرف ہو سکتا ہے۔ جس سے ثابت ہوا کہ زکوٰۃ کا تعلق عباد کے ساتھ بہ نسبت وقف کے زیادہ ہے۔ مگر باوجود اس کے زکوٰة خالص عبادت ہے معاملہ نہیں، بس وقف خالص عبادت ہونے میں زکوٰۃ سے بھی زیادہ ہے، اور بدرجۂ اولیٰ معاملہ نہیں۔

(3) جب وقف مثل زکوٰة کے، بلکہ زکوٰۃ سے بھی زیادہ خالص عبادت ہے، اس میں کسی خرابی کا ہونا ایسا ہوگا جیسے زکوٰۃ میں کسی خرابی کا ہونا، اور اس خرابی کی اصلاح کے لیے گورنمنٹ کا دخل دینا ایسا ہوگا جیسے زکوٰة کی خرابی کی اصلاح کے لیے گورنمنٹ کا دخل دینا۔

(4) زکوٰة میں ایسا دخل دینا یقیناً دخل فی المذہب ہے، اسی طرح وقف میں دخل دینا دخل فی المذہب ہو گا۔ خواہ خود دخل دیا جائے خواہ کسی کی درخواست پر دخل دیا جائے۔

(5) باقی یہ سوال کہ پھر وقف کی خرابیوں کا کیا انسداد ہو؟ ایسا ہے جیسا یہ سوال کیا جائے کہ اگر کوئی نماز یا روزہ یا حج یا زکوٰۃ میں کوتاہی کرے، اس کا کیا انسداد ہے؟ اس کے جواب میں کوئی شخص یہ تجویز کر سکتا ہے کہ گورنمنٹ کو ان کوتاہیوں پر جرمانہ وغیرہ مقرر کرنے کا حق ہے؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ اس کا انتظام مسلمان بطورِ خود کر سکتے ہیں۔ خواہ اس کو اِفہام و تفہیم کریں، خواہ اس کو تولیّت سے معزول کریں، (جبکہ واقف نے ان کو اس قسم کے اختیارات دیئے ہوں) خواہ اس سے قطعِ تعلّق کریں۔ اگر ایسا نہ کریں تو ان کی کوتاہی ہو گی، گورنمنٹ کو پھر دخل دینے کا حق نہیں۔

نوٹ: نگرانئ وقف کے متعلق جو سوالات دائر سائر ہیں، وہ اس پر مبنی ہیں کہ وقف عبادت نہ ہو، جب اس کا عبادت ہونا محقّق ہوگیا، اب سوالات کی گنجائش نہ رہی۔ اس لیے ان جوابات کی بھی حاجت نہ رہی۔