حصہ2 باب 3 ملفوظ 20: خوف و رجا

خوف و رجا

یاسِ عقلی مذموم ہے:

تہذیب: ناامیدی عقلی مذموم ہے یعنی اگر یہ اعتقاد ہو جائے کہ مجھ پر ہرگز رحمت نہ ہو گی اور میری موجودہ حالت ایسی نہیں کہ اس پر رحمت ہو۔

مخلوق کا ڈر خالق سے طبعًا زیادہ ہونے کا راز:

تہذیب: مخلوق کا ڈر خالق سے طبعًا زیادہ ہونا مذموم نہیں کہ غیر اختیاری ہے، اور عقلاً و اعتقاداً زیادہ ہونا البتہ مذموم ہے۔﴿لَأَنتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً فِيْ صُدُوْرِهِمْ مِّنَ اللهِ ذٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ﴾ (الحشر: 13) کا بھی محمل ہے اور طبعًا زیادہ ہونے کی لِم تین امر ہیں: ایک یہ کہ مخلوق محسوس ہے اور حق تعالیٰ محسوس نہیں اور طبعًا حاضر کا اثر زیادہ ہوتا ہے غائب سے۔ دوسرے یہ کہ مخلوق سے تسامُح کی توقع کم ہے اور خالق سے زیادہ ہے۔ تیسرے یہ کہ مخلوق کی نظر میں ذلت نا گوار ہے اور اللہ تعالیٰ کی نظر میں ذلیل ہونا گوارا۔

خوف و رجا میں اعمال کو بڑا دخل ہے اور اعمال کی تفصیل:

تہذیب: رجا کہتے ہیں احتمال نفع کو اور خوف کہتے ہیں احتمالِ ضرر کو۔ وحی سے معلوم ہو گیا ہے کہ مَبنیٰ رجا کا طاعات ہیں اور مَبنیٰ خوف کا معاصی ہیں اور یہ طاعات اور معاصی سب اعمال ہیں۔ پس اعمال کا رجا اور خوف میں دخل ہونا منصوص ہوا تو اس دخل کا اعتقاد شرعاً مامور بہ ہوا۔ اس دخل میں ایک تفصیل ہے، وہ یہ ہے کہ اعمال شامل ہے اصل ایمان اور کفر کو بھی، اور باقی فروعِ طاعات و معاصی کو بھی۔ ایمان تو علت ہے نجات کی اور کفر علت ہے عقوبت کی، پس ایمان پر نجات کا ترتّب اور کفر پر عقوبت کا ترتب یقینی ہے، مگر بشرطِ بقاءِ علت۔ اس لئے خوف و رجاء کا تحقق یہاں بھی ہو سکتا ہے۔ اسی طرح فروعِ طاعات گو دائم ہوں لیکن نافع اسی وقت ہوں گے جب کہ قبول بھی ہوں، کیونکہ احتمال ہے کہ کسی غائلہ کے سبب قبول نہ ہوں۔ اور اسی طرح معاصی گو دائم ہوں لیکن مُضر اسی وقت ہوں گے جب کہ عفو نہ ہو جائیں (کیونکہ ممکن ہے کہ کسی حسنہ کے سبب یا محض فضل سے عفو ہو جائیں)۔

اعمال کا نفع نقد و نسیئہ:

تہذیب: اعمالِ صالحہ میں نفع نقد بھی ہے صرف ادھار ہی نہیں۔ ہاں ایک ادھار بھی ہے یعنی ثواب، اور اس کے ساتھ ایک چیز نقد بھی ہے اور وہ رجا اور اُمید ہے، اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کا وابستہ ہو جانا جو بدوں اعمالِ صالحہ کے حاصل نہیں ہوتی۔ اسی طرح اعمالِ سیّئہ کا بھی ایک ثمرہ ادھار ہے اور ایک نقد، ادھار تو عذابِ جہنم ہے، اور نقد وہ وحشت اور ظلمت اور بے چینی ہے جو گناہوں کو لازم ہے۔

اُمید و رجا اور تمنا و غرور کا فرق:

تہذیب: امید و رجا وہی ہے جو عمل کر کے کی جائے۔ اور جو بدوں عمل کے ہو وہ رجا نہیں، بلکہ محض تمنا و غرور ہے۔

غلبۂ رجا کب انفع ہے اور غلبۂ خوف کب:

تہذیب: جن لوگوں میں اعمال صالحہ کا غلبہ ہو کہ وہ زیادہ تر اعمالِ صالحہ میں مشغول ہیں اور گناہوں سے بچنے کا اہتمام بھی کرتے ہیں، گو کبھی کبھی ابتلا ہو جاتا ہے، ان پر غلبۂ رجا انفع ہے۔ اور جن میں اعمالِ سیّئہ کا غلبہ ہے کہ وہ زیادہ تر اعمالِ سیّئہ میں مبتلا ہیں اور اعمالِ صالحہ قلیل ہیں، ان کے لئے غلبۂ خوف انفع ہے جب تک کہ اعمالِ صالحہ کا غلبہ ہو۔ پس جب تک اعمالِ صالحہ کا غلبہ نہ ہو اس وقت تک غلبۂ خوف ہی میں ان کو رکھا جائے گا۔

خوف و رجا کی حقیقت اور اس کا درجۂ مامور بہ:

تہذیب: خوف کی حقیقت ہے احتمالِ عذاب کہ انسان کو اپنے متعلق احتمال ہو کہ شاید مجھے عذاب ہو۔ اور یہ احتمال مسلمانوں میں ہر شخص کو ہے اور یہی مامور بہ ہے اور اسی کا بندہ مکلّف کیا گیا ہے۔ اس کا نام خوف عقلی ہے۔ وعید کو سن کر دل تھرانا، آنسو کا نکلنا، خوف مامور بہ میں داخل نہیں۔ کیونکہ یہ غیر اختیاری ہے۔ اسی طرح رجا کی حقیقت ہے احتمالِ نجات۔ اور ایسا بھی کوئی مسلمان نہیں جس کو اپنے متعلق نجات کا احتمال نہ ہو۔ پس ایسا کوئی مسلمان نہیں جو خوف و رجا کے درجۂ مامور بہ سے خالی ہو، ہاں درجاتِ احتمال متفاوت ہیں۔

غلبۂ رجا کے ساتھ بھی خوف عقلی یقینی ہوتا ہے:

تہذیب: یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ غلبۂ رجا کی حالت میں خوف بھی ضرور رہتا ہے مگر غلبہ خوف کو نہیں ہوتا۔ یعنی وہ درجہ نہیں ہوتا جس کو عام لوگ خوف سمجھتے ہیں یعنی خوفِ طبعی، بلکہ خوفِ عقلی ضرور ہوتا ہے۔

درجاتِ خوف و رجا:

تہذیب: ایک خوف تو بمعنی احتمالِ عقلی عذاب ہے، یہ تو شرطِ ایمان۔ اور ایک درجہ خوف کا یہ ہے کہ تقاضائے معصیت کے وقت آیاتِ وعید اور عذابِ خداوندی کو یاد کر کے سوچ سوچ کے گناہوں سے بچایا جائے، یہ درجہ فرض ہے اس کے فقدان سے کفر نہ ہو گا، ہاں گناہ ہو گا۔ اور ایک درجہ خوف کا یہ ہے کہ مراقبات و اشتغال سے آیاتِ وعید اور عظمت و جلالِ حق کو ہر دم مستحضر اور پیش نظر رکھا جائے۔ یہ درجہ مستحب ہے اور سب درجات مکتسب ہیں، جو کسب سے حاصل ہو جاتے ہیں۔ اور ان سے آگے ایک درجہ اور ہے جو اختیار سے باہر ہے۔ وہ یہ کہ آثارِ خوف اس قدر غالب ہو جائیں کہ اگر ان کو کم کرنا یا بھلانا بھی چاہے تو اختیار و قدرت سے باہر ہو۔ یہ محض وہبی ہے جو درجاتِ سابقہ مکتسبہ کے حاصل کرنے کے بعد محض عطائے حق سے بعض کو حاصل ہو جاتا ہے۔ ایسا ہی اس کے مقابلے میں رجا کے بھی درجات ہیں۔ ایک درجہ شرطِ ایمان بمعنی احتمالِ نجات، اور ایک درجہ فرض ہے، ایک مستحب ہے اور ایک درجہ محض وہبی ہے

توکّل کی حقیقت، خوفِ طبعی توکّل کے منافی نہیں، معیّت الہٰی کی حقیقت مع اقسام:

تہذیب: سوال: حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں چند جگہ مثلاً مصر سے مدائن کی طرف بوجہ خوفِ اہل مصر تشریف لے جانا، عصا کا اژدھا بن جانے سے خائف ہونا مذکور ہے۔ اور صفتِ توکّل بھی حضرات انبیاء علیہم السلام میں کامل ہوتی ہے تو یہ خوف کس وجہ سے تھا؟ اور با وصف حضورِ معیّت حق تعالیٰ کے اس خوف کا کیا سبب ہوا؟ اور امور طبعی بشری کا ظہور باوجود حصولِ معیتِ حق تعالیٰ ہوتا ہے یا نہیں؟ براہِ کرم توکّل کی حقیقت اور معیتِ حق تعالیٰ کا مفہوم بھی زیبِ قلم فرمایا جائے۔

جواب: خوف ایک امرِ طبعی مثل جوع و عطش و فرح و غضب و حزن وغیرہ کے ہے۔ پس جیسے یہ کیفیت منافیٔ کمالِ نبوت نہیں، ایسے ہی خوف بھی منافی نبوت کے نہیں، نہ منافیٔ توکل، کیونکہ توکّل کی حقیقت یہ ہے کہ غیرِ حق کی طرف باعتبارِ اعتقاد نفع و ضرر کے قصداً التفات نہ ہو۔ اور بلا قصد التفات ہو جانا جو کہ امر طبعی ہے منافی توکل کے نہیں۔ اور اس التفات بلا قصد میں ایسا خوف نہیں ہوتا کہ کسی واجب کے ترک کا سبب ہو جائے، جیسا عوام کو ایسا بھی ہو جاتا ہے۔ اور اسی تفصیل کی بناء پر سورۂ احزاب میں حضور اقدس کی نسبت ﴿تَخْشَی النَّاسَ...﴾ (الأحزاب: 37) فرمایا ہے اور حضرات رسل علیہم السلام کی نسبت جس میں حضور اقدس ﷺ بھی داخل ہیں، ﴿اَلَّذِيْنَ يُبَلِّغُوْنَ رِسَالَاتِ اللهِ وَ يَخْشَوْنَهٗ وَ لَا يَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا اللهَ وَ كَفٰى بِاللهِ حَسِيْبًا﴾ (الأحزاب: 39) فرمایا ہے۔ ﴿يُبَلِّغُوْنَ رِسَالَاتِ اللہِ﴾ قرینۂ واضحہ ہے کہ مامور بہ یعنی واجب یا مندوب میں یہ خوف حائل نہیں ہوتا۔ یہ تو توکّل کے منافی نہ ہونے کی تقریر تھی، باقی رہی معیّت کی بحث تو معیّت کے انواع مختلف ہیں، ایک معیتِ علمیہ یعنی حق تعالیٰ کے علم کا ہر ایک کو محیط ہونا۔ یہ معیت عام ہے ہر شے کو مؤمن کو بھی کافر کو بھی، مکلفین کو بھی غیر مکلفین کو بھی۔ قَالَ اللہُ تَعَالیٰ: ﴿وَ أَنَّ اللهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا﴾ (الطلاق: 12)۔ اور یہی معیّت ہے اس آیت میں ﴿وَ هُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ﴾ (الحديد: 4)۔ اور اس عموم کا اعتقاد مِنجملہ عقائد لازم کے ہے۔ اور یہ معیّت سب کے لئے ثابت ہے خواہ وہ اس کا معتقد بھی نہ ہو۔ تو اس معیّت کے ساتھ خوف کا منافی نہ ہونا تو ظاہر ہے، اور یہ معیّتِ عام کہلاتی ہے۔ دوسری نوع معیّتِ خاص ہے۔ یعنی معیّت بالرحمۃ، معیّت بالنصرة، پھر رحمت کی صورتیں بھی مختلف ہیں، اسی طرح نصرت کی بھی۔ یہ بجمیع اقسامہا عام نہیں ہے، (بلکہ اسکے ایسے عموم کا اعتقاد واجب ہے جس کے ساتھ وعدہ ہے، حسبِ وعدہ اس کا اعتقاد اس پر واجب ہے اور اسی اعتقاد کے موافق عمل لازم ہے) کاملین خصوصاً انبیاء علیہم السلام میں نہ اس اعتقاد کی کمی کا احتمال ہے اور نہ اس اعتقاد کے مقتضٰی پر عمل میں کوتاہی کا احتمال ہے۔ پس جب تک حق تعالیٰ کی طرف سے یہ وعدہ نہ ہو کہ یہ اژدھا تم کو ضرر نہ پہنچا سکے گا اس وقت تک نہ اس کا اعتقاد موسیٰ علیہ السلام پر واجب ہے اور نہ عدمِ فرار واجب۔ کیونکہ جس معیت کا وعدہ نہیں اس کا اعتقاد یا اس پرعمل بھی واجب نہیں اور بوجۂ احتمالِ ضرر کے اس سے فرار بھی جائز۔ اور یہی خوفِ ضرر ہوا تھا موسیٰ علیہ السلام کو بھی فرعون کے پاس جانے میں۔ مگر جب وعدہ ہو گیا: ﴿قَالَ لَا تَخَافَا إِنَّنِيْ مَعَكُمَا أَسْمَعُ وَأَرَىٰ﴾ (طه: 46) تو پھر کیسی بے دھڑک گفتگو فرمائی۔ اور اس تقریر سے معیّت کی حقیقت مع اقسام بھی معلوم ہو گئی۔

خشیتِ عقلی اور محبتِ عقلی کی تعریف:

تہذیب: خشیتِ عقلی یہ ہے کہ انسان اپنی طبیعت کو متوجہ کرے منکر سے رکنے کی طرف، اسی طرح محبتِ عقلی یہ ہے کہ انسان اپنی طبیعت کو شریعت پر عمل کرنے کی طرف متوجہ کرے۔

خشیت و فکر کی کمی کی علامت:

تہذیب: آج کل عملی خرابی عام طور پر پھیلی ہوئی ہے کہ جو شخص عمل کے اعتبار سے جس حالت میں ہے وہ اس پر قناعت کئے ہوئے ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ میرے اندر کوئی نقص نہیں، تغیّر اور تبدّل کی حاجت نہیں، یہ خشیت و فکر اور ذہن کی کمی ہے۔

تقویٰ شرعی کی حد:

تہذیب: تقویٰ شرعی کی حد وہ ہے کہ خوفِ خدا کے ساتھ عمل بھی ہو، اگر عمل نہ ہو محض خوف ہی ہو تو وہ تقویٰ شرعی نہ ہو گا۔

خوف و رجا عقلی کی حد:

تہذیب: خوف و رجا عقلی مامور بہ ہے، خوفِ عقلی کا حاصل یہ ہے کہ احتمال کے درجہ میں یہ خیال ہو کہ شائد مجھے سزا ہو۔ اور رجا عقلی یہ ہے کہ درجۂ احتمال میں یہ خیال ہو کہ شائد بدون سزا ہی کے مغفرت ہو جائے۔

حبِ عقلی اور خوف کاملین کو خدا تعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں ہوتا:

تہذیب: خوفِ عقلی انبیا (علیہم الصلوٰۃ والسلام) کو خدا کے سوا کسی سے نہیں ہوتا، کیونکہ ان کا اعتقاد یہ ہے: ﴿وَ مَا هُمْ بِضَارِّيْنَ بِهٖ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللهِ﴾ (البقرة: 102) کہ بدوں خدا کے کوئی چیز ضرر نہیں دے سکتی۔ وہ ضار و نافع حق تعالیٰ کو سمجھتے ہیں۔ اسی طرح کاملین کو حبِ عقلی خدا کے سوا کسی سے نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ اس کا مبنیٰ کمالات پر ہے اور خدا تعالیٰ کے سوا کسی میں بھی بالذات کمالات نہیں۔ ہاں حبِ طبعی و خوف غیر خدا سے بھی ہو سکتا ہے۔

خوف و محبت کا درجۂ مقصود اور اس کے تحصیل کا طریقہ:

تہذیب: غلبۂ خوف اور محبت دونوں میں مقصود وہ درجہ ہے جس کے ساتھ دوسرے مصالح بھی فوت نہ ہوں۔ اور یہ جب ہی ہو سکتا ہے جب کہ ہر حال میں یکساں غلبہ نہ ہو بلکہ ایک وقت میں محض خوف اور محبت ہی کا غلبہ ہو اور کسی کا م کی طرف التفات نہ ہو، اور ایک وقت میں دوسرے کاموں کی طرف بھی التفات ہو، مگر دل میں خوف و محبت کی وجہ سے آرہ بھی چل رہا ہو۔ جیسے طاعون کے زمانہ میں موت کا غلبہ ہر وقت رہتا ہے مگر ایسا نہیں ہوتا کہ کھانا پینا بھی چھوٹ جائے۔ اس حالت کی تحصیل کا طریقہ یہ ہے کہ موت کی یاد کثرت سے کرو، یعنی اس کو غالب رکھو، اور نماز ایسی پڑھو جیسے دنیا کو رخصت کرنے والا نماز پڑھتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے: "صَلِّ صَلٰوةَ مُوَدِّعٍ۔۔۔" (سنن ابن ماجہ، رقم: 4172، دار إحیاء الکتب العربیۃ)