حسد
حسد کے تین درجے اور ہر ایک درجہ کا حکم:
تہذیب: ایک تو کیفیتِ انسانیہ ہے جس میں انسان معذور ہے، ایک عمل ہے مقتضا پر، اس میں انسان معزور (گنہگار) ہے، ایک مخالفت ہے اُس مقتضا کی، اس میں انسان ماجور ہے۔ یعنی حسد کے غلبہ سے کسی کی مذمت کا تقاضا ہو اس کی مدح کرو، اس سے اعراض کو دل چاہے اس سے ملو، اس کی تعظیم کرو اس کو ابتدا بالسلام کرو، اس کے ساتھ احسان کرو۔
حسد کے مقتضیات کے اضداد کو اختیار سے استعمال کرنا اس کا علاج ہے:
تہذیب: العلاج بالضد اختیاری کی ضد بھی اختیاری ہے۔ پس جو امور حسد سے ناشی ہیں ان کی ضد کو اپنے اختیار سے عمل میں لاؤ اس طرح کہ بجائے غیبت کے محسود کی مدح زبان سے کیا کرو، گو نفس کو نا گوار ہو مگر زبان پر اختیار ہے۔ اور اس سے نیاز مندی کے ساتھ ملاقات و کلام کرو اور اس کے ضرر پر زبان سے رنج ظاہر کیا کرو اس کے سامنے بھی اور دوسروں کے سامنے بھی۔ اور وہ اگر سامنے آ جائے تو اس کی تعظیم کیا کرو، کبھی کبھی اس کو ہدیہ دیا کرو۔ ایک مدت تک ایسا کرنے سے حسد زائل ہو جائے گا۔ کم از کم بیس بار اس معاملہ کو واضح کیا جائے۔
حسد اور حقد کی شناخت اور اس کے مادہ کے اضمحلال کا طریقہ:
تہذیب: اگر کسی کے نقصان کی خبر سننے سے دل خوش ہو تو یہ حسد کا مادہ ہے، اور اگر اس شخص سے کوئی رنج پہنچا ہو تو حقد کا مادہ ہے۔ مگر مادہ پر مؤاخذہ نہیں، اگر اس کے مقتضا پر عمل کیا جائے تو مؤاخذہ ہے اور عمل اختیاری ہے، اس سے بچنا اختیاری ہے۔ لیکن مادہ کو مضمحل کرنا ضروری ہے تاکہ بڑھ نہ جائے۔ اس کی تدبیر یہی ہے کہ شرمندہ ہوں اور حق تعالیٰ سے توبہ کریں۔ خواہ مال سے یا بدن سے، خواہ دعا سے۔ اس سے وہ مادہ کالعدم ہو جائے گا۔
حسد و غبطہ کا فرق:
تہذیب: حسد وہ ہے جس میں محسود سے زوالِ نعمت کی تمنا ہو اور غبطہ وہ ہے کہ اس کے پاس رہتے ہوئے اپنے لیے حصول کی تمنا ہو۔
حسد کا ایک سہل علاج:
تہذیب: حسد کا علاج یہ ہے کہ جس سے حسد ہو اس کے لیے ترقیٔ خیر کی خوب دعا کیا کرے اور اس کے ساتھ احسان بھی کرتا رہے، خواہ مال سے، یا بدن سے یا دعا سے۔ چند دنوں میں حسد دور ہو جائے گا۔