حصہ 1 باب 3 ملفوظ 4: کبر اور خود رائی

کبر اور خود رائی

عالِم کا اپنے کو جاہل سے اچھا سمجھنے کا علاج:

حال: اکثر بلا قصد یہ خیال آتا ہے کہ فلاں جاہل ہے اور میں عالم ہوں، میں اس سے اچھا ہوں۔

تہذیب: نفس سے کہے کہ کیا معلوم خدا تعالیٰ کے یہاں کون اچھا ہے۔ ممکن ہے اس کا باطن اچھا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ میں خدا تعالیٰ کے نزدیک بڑا ذلیل و خوار ہوں۔ اور خدا تعالیٰ نے تجھ کو دو چار حرف ظاہری سکھلا دیے ہیں، اس لیے تو بڑائی کرتا ہے۔ اگر وہ چاہے تو آج چھین لے تو کیا کرے گا؟ اسی کا استحضار بہ تکرار کیا جائے اور دعا بھی کرے۔

کبر کے اقسام بکثرت ہیں:

تہذیب: وقار کی کمی بیشی پر نظر کرنا اکثر کبر کے سبب سے ہے۔

تہذیب: اقسام کبر کے اس کثرت سے ہیں کہ "لَا تُعَدُّ وَ لَا تُحْصٰی" اور اکثر ان میں ادقّ و اغمض اس قدر کہ بجز محقق کے کسی کو بھی نظر زباں تک نہیں پہچتی۔ اور اس میں علماءِ ظاہر کو بھی اس محقق کی تقلید بلا تفحّصِ حقیقت کرنا پڑتی ہے۔

کبر کا ایک علاج استحضارِ عظمتِ حق سبحانہ اور اختیارِ ذلتِ عرفی ہے:

تہذیب: کبر کا ایک علاج یہ ہے کہ عظمتِ حق سبحانہ کو پیش نظر رکھے۔ جس موقع پر کبر کا اندیشہ ہو تو اس وقت تو ضرور ورنہ اور بھی بہتر یہ ہے کہ روزانہ ایک وقت اس کے لیے نکال لے۔ اور اس کے ساتھ علاج ہی کا ایک جزو یہ ہے کہ قصداً ایسے افعال اختیار کرے جو عرفاً موجبِ ذلت سمجھتے ہیں۔ اور بدوں اس کے دوسرے علاج ناکافی ہیں۔

کبر و شکر کا فرق:

تہذیب: نعمت پر فخر کرنا کبر ہے، اور اس کو عطائے حق سمجھنا اور نااہلی کو مستحضر رکھنا شکر ہے۔

برے کام کرنے والے کو اپنے سے کم نہ سمجھو البتہ غصہ کی اجازت ہے:

تہذیب: یہ جائز ہے کہ برا کام کرنے والے پر غصہ کرو اس سے بغض کرو، مگر اپنے سے کم نہ سمجھو۔ اور کبھی تم کو کسی کی سزا و تادیب کے واسطے مقرر کیا جائے تو خبردار اپنے کو اس سے اچھا ہرگز نہ سمجھنا، ممکن ہے کہ وہ خطاوار شہزادے کے مثل ہو اور تم نوکر جلاد کے درجہ میں ہو۔ ظاہر ہے کہ خطاوار شاہزادے کو بادشاہ جلاد کے ہاتھوں سزا دلوا دے تو جلاد اس سے افضل نہیں ہو سکتا۔

سالکین کے کبر و تواضعِ مفرط کا علاج:

تہذیب: کام کرنے والوں کو دین کا کام کرنے سے دو مرض پیدا ہو جاتے ہیں: ایک کبر اور دوسرا تواضعِ مفرط، کبر تو یہ ہے کہ وظیفہ پڑھ کر اپنے اوپر نگاہ کرنے لگے، نماز پڑھ کر بے نمازیوں کو حقیر سمجھنے لگے۔ اس کا علاج یہ سمجھنا ہے کہ تکبر کی وجہ سے بڑے بڑے عابدوں کے قدم توڑ دیئے گئے ہیں کہ منزل مقصود پر نہ پہنچ سکے۔ شیطان اور بلعم باعور کی حکایت اس کی نظیر ہے۔ تواضعِ مفرط یہ ہے کہ اس حد تک تواضع کرے کہ اپنے اعمالِ صالحہ کی بے قدری کرنے لگے، مثلاً اس طرح کہ اگرچہ ہم نماز پڑھتے ہیں مگر اس میں خشوع تو ہے نہیں، ذکر کرتے ہیں مگر انوار تو بالکل نہیں، گویا در پردہ خدا کی شکایت کر رہے ہیں۔ علاج اس کا یہ ہے کہ اللہ! آپ کا شکر ہے کہ آپ نے ہم کو ذکر و نماز کی توفیق دی ورنہ ہماری کیا مجال تھی جو آپ کی بندگی کر لیتے۔

؎ وَ اللہِ لَوْلَا اللہُ مَا اھْتَدَیْنَا

وَ لَا تَصَدَّقْنَا وَ لَا صَلَّیْنَا

کبر و استغنا کا فرق:

تہذیب: کبر اور استغنا میں فرق یہ ہے کہ کبر کی تعریف اگر صادق آئے تو کبر ہے ورنہ استغنا۔ اور کبر یہ ہے کہ اپنے کو کسی کمال میں دوسرے سے بڑا سمجھے اور اس کے ساتھ اس کو حقیر سمجھے۔

خود رائی کا علاج کامل:

تہذیب: ابتدا میں خود رائی کا علاج اسی میں منحصر ہے کہ (1) ہر وقت اہتمام اور مراقبہ رہے کہ اس ذمیمہ کا قربِ وقوع تو نہیں ہوا۔ (2) جب محسوس ہو، اس کے مقتضا کی عملاً مخالفت کی جائے۔ (3) اگر پھر بھی وقوع ہو جائے، نفس کو کچھ مناسب سزا دی جائے، خواہ بدنی ہو یا مالی، مثلاً یہ خیال رکھنا کہ کسی امر میں اپنی رائے پر عمل کرنے کا عزم تو نہیں ہوا جب معلوم ہو تو اس رائے پر عمل نہ کیا، اگر غلطی سے پھر بھی ہو گیا دس رکعت نفل جرمانے کی ادا کرے یا دو آنہ پیسے خیرات کرے مثلاً۔

تکبر اختیاری ہے اور غیر اختیاری کا ترک بھی اختیاری ہے:

تہذیب: اپنے آپ کو کسی سے بڑا سمجھنا باطناً یا ظاہراً، اس طرح کہ اس کو حقارت کی نظر سے دیکھے یہ تکبر ہے۔ پس تکبر اختیاری ہے اور اختیاری کا ترک بھی اختیاری ہوتا ہے اور یہی علاج ہے۔ یہ تفاوت ضرور ہے کہ اول اول ترک اور مقاومت میں تکلف ہوتا ہے، پھر تکرار اور مزاولت سے مقاومت اور مدافعت سہل ہو جاتی ہے اس لیے اصطلاح میں اسی اخیر درجہ کا نام علاج ہے یعنی جس سے عمل میں تکلف نہ ہو۔

بلا اختیار اپنے کو بڑا سمجھنا مذموم نہیں لیکن بقصد ایسا سمجھنا کبر ہے:

تہذیب: کسی کمال میں اپنے کو دوسرے سے اس طرح بڑا سمجھنا کہ اس کو حقیر و ذلیل سمجھے، یہ سمجھنا اگر غیر اختیاری ہے تو اس پر ملامت نہیں، بشرطیکہ اس کے مقتضا پر عمل نہ ہو۔ یعنی زبان سے اپنی تفضیل، دوسرے کی تنقیص نہ کرے، دوسرے کے ساتھ برتاؤ تحقیر کا نہ کرے۔ اور اگر قصداً ایسا سمجھتا ہے یا سمجھتا تو بلا قصد ہے مگر اس کے مقتضائے مذکور پر بقصد عمل کرتا ہے تو مرتکب کبر کا اور مستحقِ ملامت اور عقوبت ہے۔ اور اگر زبان سے اس کی مدح و ثنا کرے اور برتاؤ میں اس کی تعظیم کرے تو اعون فی العلاج ہے۔

تکبر مع اللہ کی صورت:

تہذیب: تکبر میں جب غلو ہو جاتا ہے اس کی جڑ پختہ ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ بھی تکبر کرنے لگتا ہے۔ مثلاً دعا میں عاجزی اور خشوع میں تھا رونے کی صورت بنا کر گڑگڑا رہا تھا کہ سامنے سے کوئی دوسرا شخص آ گیا تو اب گڑگڑانا چھوڑ دیا کہ دیکھنے والے کی نظر میں نیکی نہ ہو۔ یہ تکبر مع اللہ ہے کہ اس کو اللہ کے سامنے عاجزی اور ذلت کی صورت بنانے سے بھی دوسروں کی نظر میں ذلت وعار آتی ہے۔ پس مخلوق کے لیے کسی عمل عبادت کو ترک کرنا تکبر ہے۔

دوسرے کو حقیر سمجھنے کا علاج:

تہذیب: اگر کسی بات میں دوسرے کو گھٹا ہوا دیکھ لے، اس وقت یہ سوچے کہ ہم بھی کسی بات میں اس سے گھٹے ہوئے ہیں یا نہیں۔ ہر شخص میں خوبیاں ہوتی ہیں اور برائیاں بھی، اگر اس شخص میں ایک برائی ہے تو ممکن ہے ہم میں بہت سی برائیاں ہوں، یا ایک ہی برائی ہو لیکن اس برائی سے بد تر ہو، پھر کس طرح ہم اس کو گھٹا ہوا سمجھتے ہیں اور دوسرے کو اپنے آپ سے کم درجہ سمجھتے ہیں اور کیوں سلام میں ابتدا کرنے سے عار آتی ہے؟

وضع داری میں غلو بھی کبر ہے:

تہذیب: وضع داری میں غلو بھی کبر ہے۔ وضع کیا چیز ہے، قطع کیا چیز ہے اور آن کیا چیز ہے، یہ سب شیطانی دھندے ہیں۔ اپنے آپ کو اتنا بڑا ہی کیوں سمجھے کہ اس کے لیے خاص وضع مقرر ہو؟ بندہ کا حق تو یہ ہے کہ جس وردی اور جس وضع میں سرکار رکھیں، اس میں رہے اپنی رائے اور ارادے کو فنا کر دے۔

کبر کا علمی اور عملی علاج:

تہذیب: تکبر کا علمی علاج تو یہ ہے کہ اپنے عیوب کو سوچا کرے اور یوں سمجھے کہ مجھے اپنے عیوب کا یقین کے ساتھ علم ہے اور دوسرے کے عیوب کا ظن کے ساتھ علم ہے، اور جو شخص معیوبِ یقینی ہو وہ معیوبِ ظنی سے بدتر ہے، اس لیے مجھے اپنے کو سب سے کمتر سمجھنا چاہیے۔ اور عملی علاج یہ ہے کہ جس کو تم اپنے سے چھوٹا سمجھتے ہو اس کے ساتھ تعظیم و تکریم سے پیش آؤ۔ اور یہ عملی علاج جزو اعظم ہے، بدوں اس کے علمی علاج تنہا کافی نہیں۔ تجربہ سے یہ ثابت ہوا ہے کہ جب تک عملی علاج نہ کیا جائے گا تکبر دور نہ ہو گا۔

علاج ازالہ تکبر:

تہذیب: مسافروں کے پیر دبایا کرو، اس سے تکبر زائل ہو جائے گا۔

ذکر و شغل سے جو کبر پیدا ہو جائے اس کا علاج:

تہذیب: جس ذکر و شغل کی بدولت کوئی اپنے کو بڑا بزرگ سمجھنے لگا اس کا علاج ترکِ ذکر و شغل ہے، لیکن ادباً للشریعۃ چونکہ یہ صورت منع عن ذکرِ اللہ ہے اس لیے ہیئتِ خاصہ کے ساتھ ذکر نہ کرے، (کیونکہ اس طرح ذکر کرنے کو لوگ تصوف اور بزرگی نہیں سمجھتے) اور اس کے ساتھ ایک علاج یہ کرے کہ نمازیوں کی جوتیاں جھاڑ کر سیدھی کر دیا کرے۔

کبر کی نفی کے لیے یہ اعتقاد کافی ہے کہ شائد یہ مجھ سے اچھا ہو:

تہذیب: کبر کی نفی کے لیے یہ احتمال رکھنا ہی کافی ہے کہ ممکن ہے یہ شخص اللہ تعالیٰ کے علم میں مجھ سے اچھا ہو۔ آج کل کے مشائخ تو یہ کہتے ہیں کہ اپنے سے سب کو یقیناً اچھا سمجھو، میرے نزدیک تو یہ ہر ایک کی وسع میں نہیں، میں تو اتنی آسان بات بتلاتا ہوں کہ صرف یہ کافی ہے کہ شاید یہ مجھ سے اچھا ہو، اور یہ کچھ دشوار نہیں۔

اگر کسی ملازم، شاگرد یا چھوٹے پر زیادتی ہو جائے تو اس کی معافی کا طریقہ:

تہذیب: بعض اوقات یہ خیال ہوتا ہے کہ اگر ہم صریح الفاظ میں معافی مانگیں گے تو یہ گستاخ ہو کر زیادہ نافرمانی کرے گا۔ بعض اوقات یہ خیال ہوتا ہے کہ اگر ہم معافی مانگیں گے تو یہ شرمندہ ہو گا۔ مگر یہ عذر اس وقت ہیں جب اس سے تعلق رکھنا چاہیں، ان صورتوں میں تو صرف اس کا خوش کر دینا امید ہے کہ قائم مقام معافی کے ہو جائے گا۔ اور بعض اوقات اس سے تعلق رکھنا نہیں، جیسے ملازم کو موقوف کر دیا، یا جیسے وہ خود چھوڑ کر جانے لگا اس وقت ضروری ہے کہ زیادتی ہو جانے کی صورت میں اس سے صریح معافی مانگی جائے، کیونکہ یہاں وہ دونوں عذر نہیں۔ اس میں اگر رکاوٹ ہو تو میرے نزدیک اس کا سبب ضرور کبر ہے۔ گو اپنے کو بڑا نہ سمجھے مگر کبر کے مقتضا پر عمل تو ہوا۔ غایت سے غایت کبر اعتقادی نہ ہو گا، کبر عملی تو ضرور ہے۔ اگر کوئی کبر کی تقسیم کو تسلیم نہ کرے تب بھی ظلم تو ہوا، جس سے معافی مانگنا واجب ہے۔ تو معافی نہ مانگنے میں اگر کبر کا گناہ نہ ہوا تو ظلم کا تو ہوا۔

ذکر سے نفع نہ ہونے کا سبب کبھی کبر ہوتا ہے:

تہذیب: حضرت شبلی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک مرید نے شکایت کی ”مجھے ذکر سے نفع نہیں ہوتا“ شیخ نے توجہ کی تو اس کا سبب تکبر معلوم ہوا، آپ نے فرمایا: "ایک ٹوکرا اخروٹوں کا فلاں محلہ میں (جہاں اس کے معتقدین بہت تھے) لے جا اور عام طور سے اعلان کر دے کہ جو کوئی میرے ایک دھول مارے گا، اسے ایک اخروٹ ملے گا" یہ سن کے مرید نے کہا: "اللہ اکبر میں ایسا کروں؟" شیخ نے فرمایا: "کمبخت! یہ اللہ کا نام وہ ہے کہ اگر کافر صد سالہ اس کو کہے تو مسلمان ہو کر جنت میں جائے گا مگر تو نے جس موقع پر یہ نام لیا ہے اس سے کافر ہو گیا، اس وقت تو نے اللہ اکبر خدا کی عظمت ظاہر کرنے کو نہیں کہا بلکہ اپنی عظمت ظاہر کرنے کو کہا ہے"۔

انانیت کا علاج ذلتِ نفس ہے:

تہذیب: یہ انانیت بڑا حجاب ہے، اس کا علاج بدوں ذلتِ نفس نہیں ہو سکتا۔

تکبر کا علاج تکبر سے ہونے کا معنیٰ:

تہذیب: تکبر کا علاج تکبر سے ہو تو وہ اپنا تکبر نہیں، بلکہ حضرتِ حق کی شان کبریا کا استحضار ہونا چاہیے۔

کبر کی وجہ عظمت حق کا دل میں نہ ہونا ہے:

تہذیب: ہمارے اندر تکبر اس وقت تک ہے جب تک حق تعالیٰ کی عظمت دل میں نہیں آئی، اور اگر عظمتِ حق دل میں آجائے تو پھر یہ حال ہو گا:

؎ چو سلطان عزت علم برکشد

جہاں سر بجیبِ عدم درکشد

تکبر سے اندیشہ سلبِ نعمت کا ہے:

تہذیب: اپنے تقویٰ طہارت پر ناز کر کے گنہگاروں کو حقیر مت سمجھو، اور ان کی خطائیں معاف کر دیا کرو۔ تکبر کرنے سے اندیشہ سلب نعمت کا ہوتا ہے۔

اصلاح نفس ہو جانے کی شناخت:

تہذیب: جو شخص مجاہدہ سے نفس کو پامال کر چکا ہے اس کے لیے ایک بھنگی سے بھی معافی چاہنا دشوار نہیں۔

اتفاق کا طریقہ بھی ترکِ تکبر ہے:

تہذیب: متکبرین میں کبھی اتفاق نہیں ہو سکتا، اگر ہو گا تو اسی طرح کہ ایک شخص اپنے تکبر کو چھوڑ کر تواضع اختیار کرے۔ یہ مقولہ آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔

عجیب و غریب علاج عبارت آرائی کا:

تہذیب: عبارت آرائی میں مشغول ہونا اچھا نہیں، اس کا علاج یہ ہے کہ اپنے خط کو کسی ایسے شخص سے لکھواؤ جس کی بہت کم استعداد ہو۔ اس کے بعد اسی مضمون کو نقل خود بعینہ کر کے اس اصل کے ہمرا ہ اپنے مصلح کے پاس بھیجے۔

عبارت آرائی اپنے بڑے سے نہ کرنی چاہیے:

تہذیب: جس کو اپنے سے بڑا سمجھے اس کے ساتھ عبارت آرائی کرنا ادب کے خلاف ہے۔

عبارت میں تکلف مناسب نہیں:

تہذیب: عبارت میں قافیہ وغیرہ بالقصد نہیں لانا چاہیے، اس سے معنیٰ تابع الفاظ کے ہو جاتے ہیں، حالانکہ الفاظ کو معانی کا تابع رکھنا چاہیے۔ اگر بلا قصد کوئی قافیہ آجائے دوسری بات ہے، تکلف نہ کرے۔

سلام میں تقدیم سے عار آنا تکبر سے ہے:

تہذیب: مجھے علماء سے شکایت ہے کہ ہم لوگ اپنے کو بہت بڑا سمجھتے ہیں کہ عوام کو پہلے سلام کرنے سے ہم کو عار آتی ہے، بلکہ اس کے منتظر رہتے ہیں کہ پہلے دوسرے ہم کو سلام کریں۔

صرف تحصیلِ علم سے تکبر نہیں نکل سکتا:

تہذیب: تکبر بڑا ہی خناس ہے، جب تک یہ ہمارے اندر ہے اس وقت تک حقوقِ علم ادا نہیں ہو سکتے۔ اور یہ صرف علم حاصل کرنے سے نہیں نکل سکتا، جیسے کہ کسی کو خارش کا نسخہ یاد ہو تو محض نسخہ یاد ہونے سے خارش دفع نہیں ہو سکتی، بلکہ اس کا طریقہ یہ ہے کہ نسخہ کے اجزاء جمع کرو اور اس کا استعمال شروع کر دو، مضرات سے پرہیز کرو اور جب تک طبیب مشورہ دے اس وقت تک نسخہ کا استعمال کرو اور پرہیز جاری رکھو۔ جب تک طبیب نبض دیکھ کر نہ کہہ دے کہ اب خارش کا مادہ زائل ہو گیا ہے اس وقت تک تدبیر کو نہ چھوڑو۔

اقرارِ نقصِ دلیل کمال ہے:

تہذیب: ہائے وہ لوگ کہاں گئے جن کو باوجود کمال کے اپنے نقص کے اقرار میں ذرا پس و پیش نہ تھا۔ اور اب وہ زمانہ آگیا کہ ناقصوں کو بھی اپنے نقص کے اقرار سے عار ہے، بلکہ وہ زمانہ سے اپنے لیے کمال کے مدعی ہیں۔

از قید ہستی رستن کے معنیٰ:

تہذیب:

؎ قرب نہ بالا نہ پستی رفتن است

قربِ حق از حبسِ ہستی رستن است

"از حبسِ ہستی رستن" کے معنیٰ یہ نہیں کہ سنکھیا کھا کر مر جاؤ، بلکہ اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ اپنے اوپر نظر نہ کرو، اپنی ذات کے مطالعہ میں مشغول نہ ہو، اپنے ارادہ و اختیار کو فنا کردو، دعویٰ اور پندار کو مٹا دو، اپنے علوم پر نظر کرنا یہ بھی اشتغال بنفسہ ہے۔

تکلف کی عبارت ایک قسم کا کفر ہے:

تہذیب: تکلف کی عبارت جس کے حل میں مطالعہ کی ضرورت ہو، طالب کے حال سے نہایت بعید ہے اور ایک قسم کا کبر ہے۔

حق گوئی سے عار آنے کا علاج:

حال: طلباء اگر کوئی بات پوچھتے ہیں اور میری سمجھ میں نہیں آتی تو ذلت معلوم ہوتی ہے، اور اس کے کہنے میں تکلیف ہوتی ہے کہ میری سمجھ میں نہیں آتی، لیکن کہہ دیتا ہوں۔

تہذیب: اسی التزام سے ”اگرچہ بہ تکلف ہو“ بلا تکلف اس پر قدرت ہو جاتی ہے۔

فانی میں کبر نہیں ہوتا:

تہذیب: جس کا مذاق یہ ہو کہ اخفائے طاعت خلق سے ریا ہے وہ بھلا بڑا بننے کی تو کیوں کوشش کرے گا۔ کیونکہ بڑا بننے میں تو اپنے اوپر بھی نظر ہوتی ہے اور مخلوق پر بھی اور فانی کی نظر کسی پر نہیں ہوتی۔

سائل سے تنگدل نہ ہونا چاہیے نہ حقیر سمجھنا چاہیے:

تہذیب: سائل سے کبھی تنگدل نہ ہونا چاہیے کیونکہ محسن ہیں، ہمارے لیے حمال اثقال ہیں کہ ہمارا بوجھ اٹھا کر آخرت میں پہنچاتے ہیں۔ اگر یہ لوگ نہ ہوں تو ہمارے صدقات آخرت میں کس طرح پہنچ سکیں؟ پس اغنیاء کو چاہیے کہ سائلوں کو حقیر نہ سمجھیں، نہ تنگدل ہوں۔

تکبر کی حد:

تہذیب: تکبر یہ ہے کہ اپنی صفاتِ حمیدہ کو اپنا کمال سمجھے، عطا و فضلِ حق پر نظر نہ کرے اور دوسروں کو حقیر سمجھے۔ باقی اپنی صفات کی نفی کرنا تواضع نہیں ہے، مثلاً حافظ کو اپنے حفظ کا اعتقاد جائز ہے، ہاں اس کو عطیۂ الٰہی سمجھے۔