حصہ 1 باب 3 ملفوظ 5: عجب

عجب

ہر عمل میں دو حیثیت ہیں:

تہذیب: عمل میں دو حثییت ہیں: ایک اپنا کمال، اس اعتبار سے (یعنی اپنا کمال سمجھ کر) اس پر نظر نہ کرنا چاہیے۔ دوسرا یہ کہ یہ خدا کی رحمت ہے، اس اعتبار سے اس پر مسرت مامور بہ ہے: ﴿قُلْ بِفَضْلِ اللهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوْا...﴾ (يونس: 58)

اہلیت و قابلیت کی شرط عطیۂ خداوندی ہے:

حال: بعض حضرات میرے سامنے استخلاف وغیرہ کا تذکرہ کرتے ہیں تو مجھے بالکل یہ معلوم ہوتا ہے کہ میرا مذاق کر رہے ہیں، قلب میں بجائے خوشی کے ایک رنج پیدا ہوتا ہے۔

تہذیب: ''اَلْحَمْدُ لِلہِ'' یہ علامت ہے عدمِ عجب کی، حق تعالیٰ اس میں ترقی عطا فرماویں کہ اپنے کو کبھی اہل نہ سمجھیں، لیکن اس حالت میں یہ مزید شکر کا سبب ہونا چاہیے کہ باوجود نااہلی کے حق تعالیٰ نے یہ نعمت دی اور اس کو فال نیک سمجھنا چاہیے عطائے اہلیت کی ''وَ لَنِعْمَ مَا قِیْلَ'':

‎؎ دادِ او را قابلیت شرط نیست

بلکہ شرطِ قابلیت داد اوست

توفیق الٰہی پر شکر چاہیے:

تہذیب: کام کرنے والوں کو چاہیے کہ اپنے اعمال کو اپنا کمال نہ سمجھیں، بلکہ خدا تعالیٰ کا احسان سمجھ کر شکر کریں کہ انہوں نے ہم سے کام لے لیا ورنہ ہماری کیا طاقت تھی۔

؎ منت منہ کہ خدمتِ سلطاں ہمی کنی

منت شناس ازو کہ بخدمت بداشتت


اظہارِ عمل کب نقص ہے اور کب کمال:

تہذیب: اظہارِ عمل مطلقاً نقص نہیں اور نہ اِخفائے عمل مطلقاً کمال ہے، بلکہ نقص جب ہے کہ اپنے اوپر نظر ہو، اور کمال جب ہے کہ اپنے اوپر نظر نہ ہو، بلکہ صرف خالق جلَّ و علا پر نظر ہو۔

شکر و کبر کا فرق:

تہذیب: ذکر کر کے جو نفس خوش ہو تو اگر اس کو اپنی فضیلت سمجھو تو کبر ہے، اور اگر عطائے حق سمجھو اور اپنے کو اس کا مستحق نہ سمجھو تو شکر ہے۔

استحقاقِ اجر کے دعوٰی کا منشا عظمتِ خداوندی پر نظر نہ ہونا چاہیے:

تہذیب: ہم اپنے اعمال کو اسی وقت تک کچھ سمجھتے ہیں جب تک اپنے اوپر نظر ہو، اور جب حق تعالیٰ کی عظمت پر نظر ہو گی تو ہر شخص اقرار کرے گا کہ میں نے خدا تعالیٰ کا کچھ بھی حق ادا نہیں کیا پھر استحقاق اجر کے دعوٰی کا کیا منہ۔

؎ بندہ ہماں بہ کہ ز تقصیر خویش

عذر بدرگاہِ خدای آورد

ورنہ سزاوار خداوندیش

کس نتواند کہ بجای آورد

اعمالِ صالحہ خود سراپا انعامات ہیں:

تہذیب: حضرت! جتنے کام حق تعالیٰ ہم سے لے رہے ہیں، یہ خود انعام ہے، پھر انعام پر طلبِ انعام کیسا؟ انعام تو عمل پر ہوا کرتا ہے اور یہاں خود یہ اعمال ہی سراپا انعامات ہیں۔ ورنہ ہم کس قابل تھے کہ حق تعالٰی کی عبادت کر سکیں۔

؎ منت منہ کہ خدمتِ سلطاں ہمی کنی

منت شناس ازو کہ بخدمت بداشتت

کمال پر ناز کرنا دلیل ہے کمال سے عاری ہونے کی:

تہذیب: کمال پر ناز کرنا خود اس کی دلیل ہے کہ یہ شخص کمال سے عاری ہے، ورنہ اہلِ کمال ناز نہیں کیا کرتے، کیونکہ ان کو کمال کی حقیقت واضح ہو جاتی ہے جس سے اپنے کو عاجز پا کر وہ کبھی ناز نہیں کر سکتے۔

عملِ صالح کی توفیق محض حق تعالیٰ کے فضل سے ہے:

تہذیب: عمل صالح کی توفیق محض حق تعالیٰ کے فضل سے ہے۔ یہ جو آپ کو نماز کا شوق اور رات کو تہجد میں اٹھتے ہیں، یہ آپ کا کام نہیں بلکہ کوئی اور ہی اٹھا رہا ہے۔

عجب کا علاج:

تہذیب: اگر حق تعالیٰ ہم سے کچھ کام لے لیں، اس کو ان کی عنایت سمجھو۔ کام لینا اس لیے کہتا ہوں کہ سب باگیں ان کے ہی قبضے میں ہیں، بس اپنا کچھ کمال نہ سمجھو، نہ کسی گنہگار کو حقیر جانو۔

عمل نسبت مع اللہ کے منافی ہے:

تہذیب: صاحبِ نسبت عمل کرے تو نسبت سلب ہو جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عامل کو خدا پر توکُّل نہیں رہتا اور عجب پیدا ہو جاتا ہے، اور یہ منافی ہے نسبت مع اللہ کے۔