غیبت
غیبت کا ایک عملی علاج اگر منع پر قدرت نہ ہو:
تہذیب: سالک کے سامنے کوئی غیبت یا لایعنی کلام کرے اور اس کو منع پر قدرت نہ ہو تو خود اٹھ جانا چاہیے اور اس کی دل شکنی کا خیال نہ کرے، کیونکہ دوسرے کی دل شکنی سے اپنی دین شکنی زیادہ قابلِ احتراز ہے۔ یوں اگر نہ اٹھ سکے، کسی بہانہ سے اٹھ جائے، یا قصداً فی الفور کوئی مباح تذکرہ شروع کر دیا جائے تاکہ وہ قطع ہو جائے۔
طریقِ حصولِ یاد داشتِ فکر:
تہذیب: بے سوچے ہرگز کوئی کلام نہ کیا جائے۔ اگرچہ بعض اوقات یہ بھی نہ یاد رہے گا کہ سوچ کر بولوں، مگر خیال رکھنے سے اکثر اوقات یاد رہے گا کہ سوچ کر بولوں، پھر ان شاء اللہ ذہول نہ ہو گا۔ بس جب سوچ کر بولا جائے تو ہر کلام سے پہلے یہ سوچ لینا چاہیے کہ اس کلام سے گناہ تو نہ ہو گا؟ ان شاء اللہ تعالیٰ اس سے بہت کچھ اصلاح ہو جائے گی۔
بے احتیاطی سے غیبت ہو جانے کا علاج:
تہذیب: اول تو حتی الامکان بولنے کی احتیاط رکھیں۔ اور کبھی بے احتیاطی سے غیبت ہو جائے تو فوراً خوب توبہ کریں اور دعائے توفیق۔
غیبت کی شرط نا گواریٔ مغتاب ہے:
حال: اگر کسی کو بنا بر بے تکلفی ایسی بات کہی جائے جو بنظرِ الفاظ تو ناگواری کی بات ہے مگر بنظرِ بے تکلفی یا تعلق یا بطور مزاح ہونے کے ناگواری کا خیال نہیں۔
تہذیب: جب وہ ناگواری ہے خواہ کسی حیثیت سے ہو، وہ مانعیت کے لیے کافی ہے۔ اور اگر خود ناگواری ہی میں تردّد ہو تب بھی واجب الکف ہے، البتہ اگر عدمِ ناگواری یقینی ہو تو غیبت کی حد سے خارج ہو گیا۔ ممکن ہے کسی دوسرے گناہ میں داخل ہو جائے، کیونکہ آفاتِ لسان بزرگوں نے بیس تک شمار کیے۔
اپنے مغتابین سے جو اجر ملے گا اپنی غیبتوں کے تدارک کے لیے کافی ہونے کی دلیل نہیں:
حال: نفس یہ تأویل سکھلاتا ہے کہ تیری بھی تو لوگ غیبت کرتے ہیں، قیامت میں جب پکڑ ہو گی تو اپنے مغتاب سے جو اجر ملے گا وہ اجر جن کی تو نے غیبت کی ان کو دیدیا جائے گا۔
تہذیب: اول تو یہ کسی دلیل سے ثابت نہیں کہ وہ اجر جو دوسروں سے ملا ہوا ہے اس کے تدارک کے لیے کافی ہے، ممکن ہے کہ یہ دوسروں سے ملا اجر تمہارے ہی پاس رہے اور خاص تمہارے اعمال کا اجر اہل حقوق کو ملے اور نجات کے لیے دوسروں کا اجر کافی نہ ہو۔ دوسرے اس سے قطعِ نظر کر کے مساوات کی کوئی دلیل نہیں۔ ممکن ہے کہ تم کو کم ملے اور تم سے زیادہ لے لیا جائے تو تدارک کے لیے کیسے کافی ہو جائے گا؟
غیبت کا علاج ہمت اور استحضار ہے:
تہذیب: غیبت اختیاری ہے، اس کا طریقِ علاج ہمت و استحضار ہے۔ اور معین طریق یہ ہے کہ جب ایک بار ایسا ہو جائے ایک وقت فاقہ کرے۔
غیبت اختیاری فعل ہے اور اس کے تدارک کا طریقہ:
تہذیب: غیبت تو اختیاری ہے اور امور اختیاریہ کی تدبیر بجز استعمالِ اختیار کے کچھ اور نہیں۔ اور اگر پھر بھی غلطی ہو جائے، صاحب حق سے فوراً معاف کروا لے۔ اس التزام سے غیبت متروک ہو جائے گی۔
دوسروں کے عیوب و گناہِ کبیرہ ظاہر کرنے کا حکم:
حال: بعض لوگ جو گناہِ کبیرہ میں مبتلا ہیں ان کے عیوب اور گناہ ظاہر کرنا غیبت ہے یا نہیں؟ نفس اس تأویل پر ہمیشہ آمادہ رہتا ہے کہ ایسوں کے عیوب اگر لوگوں پر نہ ظاہر کیے جائیں تو لوگوں کو دھوکا ہو گا اور مسلمانوں کو خداع سے بچانا ضروری ہے۔
تہذیب: یہ سوال منتہی کے قابل ہے، مبتدی کو جائز غیبت بھی نہ کرنا چاہیے۔
کیفیاتِ انفعالیہ کے مقتضیاتِ فعلیہ پر عمل جائز نہیں:
حال: اگر کوئی شخص میری بے جا غیبت کرتا ہے تو بشرطِ اطلاع، اس شخص سے دل میں کدورت بلکہ حرارت پیدا ہو جاتی ہے۔
تہذیب: یہ دونوں کیفیتیں انفعال ہیں اور انفعالات غیر اختیاری ہوتے ہیں اور غیر اختیاری پر ذم و اثم نہیں۔ البتہ ان کے مقتضیات کہ اس کی غیبت کرنے لگے، اس کو ایذا پہنچانے لگے ''وَ مِثْلُ ذَالِکَ''، یہ افعال ہیں اور افعال اختیاری ہوتے ہیں اور ان میں سے بعض پر ذم و اثم بھی ہوتا ہے۔ پس جب کیفیاتِ انفعالیہ حادث ہوں ان کے مقتضیاتِ فعلیہ پر عمل نہ کیا جائے اور ان کے ازالہ کی دعا کی جائے، تاکہ مفضی إلی الافعال نہ ہو جائیں۔ اور اپنے عیوب و ذنوب کا استحضار کیا جائے، تاکہ اس کا جزم ہو جائے کہ میں اس شخص کی بد گوئی سے بھی زیادہ کا مستحق ہوں۔ اور افعال پر عقوبت کا بھی استحضار کیا جائے، تا کہ داعیہ افعال کا مضمحل ہو جائے اور ایک ہفتہ کے بعد پھر اطلاع دی جائے۔
غیبت کی معافی کا طریقہ:
تہذیب: اگر کسی کی غیبت ہو گئی تو استغفار کے ساتھ مغتاب سے بھی معافی مانگنے کی ضرورت ہے، لیکن تفصیل غیبت کی اس کو بتلانا، اس کو ایذا دینا ہے، اس لیے اجمالا یوں کہنا کہ میرا کہا سنا معاف کرو کافی ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ جن لوگوں کے سامنے غیبت کی تھی ان کے سامنے ان کی مدح و ثنا بھی کرو اور پہلی بات کا غلط ہونا ثابت کر دو۔ اور اگر وہ بات غلط نہ ہو سچی ہو تو یوں کہہ دو کہ بھائی اس بات پر اعتماد کر کے تم فلاں شخص سے بد گمان نہ ہونا، کیونکہ مجھے خود اس پر اعتماد نہیں رہا۔ یہ توریہ ہو گا، کیونکہ سچی بات پر بھی اعتمادِ قطعی بدوں وحی کے ہو نہیں سکتا۔ اور اگر وہ شخص مر گیا ہو جس کی غیبت کی تھی تو اب معاف کرانے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کے لیے دعا و استغفار کرتے رہو، یہاں تک کہ دل گواہی دیدے کہ اب وہ تم سے راضی ہو گیا ہو گا۔
غیبتِ مباح کی صورت:
تہذیب: اگر دینی ضرورت ہو تو پھر غیبت بھی مباح ہے، جیسے محدثین نے رواةِ حدیث پر جرح کی ہے۔ اگر دینی ضرورت نہیں بلکہ محض نفسانیت ہی نفسانیت ہے تو اس صورت میں امرِ محقَّق کا بیان کرنا بھی غیبتِ محرمہ ہے۔ اور بلا تحقیق کوئی بات کہی جائے تو بہتان ہے۔ کذب کا مدار تحقیقِ کذب پر نہیں بلکہ عدمِ تحقیقِ صدق پر ہے۔
غیبت سے حسی تکلیف ہوتی ہے:
تہذیب: غیبت میں نہ معلوم لوگوں کو کیا مزا آتا ہے، تھوڑی دیر کے لیے اپنا جی خوش کر لیتے ہیں، پھر اگر اس کو خبر ہو گئی اور اس سے دشمنی پڑ گئی تو عمر بھر اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ اور اگر ذرا دل میں حس ہو تو غیبت کرنے کے ساتھ ہی قلب میں ایسی ظلمت پیدا ہوتی ہے جس سے سخت تکلیف ہوتی ہے جیسے کسی نے گلا گھونٹ دیا ہو۔
غیبت کا مفسدہ:
تہذیب: غیبت کا ضرر اور مفسدہ یہ ہے کہ اس سے افتراق پیدا ہوتا ہے، اور افتراق سے مقدمہ بازی، لڑائی جھگڑا سب کچھ ہوتے ہیں۔ اور اتفاق کے اندر جو مصالح و منافع ہوتے ہیں، افتراق کی صورت میں ان سے بھی محرومی ہو جاتی ہے۔
غیبت کا اصل علاج تواضع ہے لیکن فوری علاج فکر و تأمُّل ہے:
تہذیب: غیبت کا علاج بھی تواضع ہی ہے، مگر تواضع ایک دن میں پیدا نہیں ہوتی۔ اس لیے جب تک تواضع حاصل نہ ہو غیبت سے بچنے کے لیے فوری علاج یہ کرو کہ بدوں سوچے کوئی بات نہ کیا کرو، جو بات کرو، سوچ کر کرو۔ اس سے غیبت کم ہو جائے گی اور کچھ دنوں کے بعد بالکل نہ ہوئے گی، اور اگر کسی وقت بے سوچے کوئی بات نکل جائے تو اسی وقت دو رکعت نفل صلوٰة التوبہ کی نیت سے پڑھ لیا کرو۔
بیان مواقعِ جوازِ غیبت اور عوام کو متنبہ:
تہذیب: جہاں کسی شخص کی حالت چھپانے سے دین کا یا دوسرے مسلمانوں کا یقیناً یا ظناً (جس سے ظن غالب مراد ہے) ضرر ہوتا ہے، وہاں اس کی حالت ظاہر کر دینا چاہیے۔ محدثین کا رواةِ حدیث پر جرح کرنا، مبتدع گمراہ کن کی بدعت کا ظاہر کرنا، مستشار کو مستشار فیہ کی حالت کا مستشیر سے بیان کرنا اور مظلوم کا ظالم کی شکایت کرنا، سب اس میں داخل ہے۔ مگر میں عوام کو متنبہ کرتا ہوں کہ اس کلیہ کو وہ خود استعمال نہ کریں بلکہ جس کی وہ غیبت کرنا چاہیں اس میں پہلے مجتہد اور متدین علماء سے فتوی لیں۔ اجتہاد سے میری مراد یہ ہے کہ وہ فقہاء کے اقوال کو واقعات پر صحیح طور پر منطبق کر سکتا ہو۔ اور یہ اجتہاد ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ قیامت تک باقی رہے گا۔ اور تدین سے مراد یہ ہے کہ اغراض کا تابع نہ ہو کہ کھینچ کر ناجائز کو حدِ جواز میں لائے۔ چنانچہ ہم رات دن دیکھتے ہیں کہ مولوی جس کی غیبت کرنا چاہتے ہیں اسے حدِ جواز میں لے آتے ہیں کہ ہماری نیت اس غیبت سے دوسرے کی تحقیر نہیں ہے، بلکہ مسلمانوں کی اصلاح مقصود ہے تاکہ اس کے شر سے محفوظ رہیں، یا معتقد نہ ہوں وغیر ذلک۔ مگر حق تعالیٰ کے سامنے ان تأویلوں کا چلنا دشوار ہے۔ کیونکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ تمہارا مقصود شفاءِ غیض اور دوسرے کی تحقیر تھی یا مسلمانوں کی اصلاح کا قصد تھا۔
؎ کار ہا با خلق آری جملہ راست
با خدا تزویر و حیلہ کے رواست
کار با او راست باید داشتن
رایتی اخلاص و صدق افراشتن
غیبت کا ایک عجیب عملی علاج:
تہذیب: غیبت کا ایک عجیب و غریب عملی علاج یہ ہے کہ جس کی غیبت کرے اس کو اپنی اس حرکت کی اطلاع کر دیا کرے۔ تھوڑے دن اس پر مداومت سے ان شاء اللہ یہ مرض بالکل دفع ہو جائے گا۔