حصہ 1 باب 3 ملفوظ 1: رذیلہ کی اصلاح

باب سوم

حصّۂ اوّل

تہذیبات

رذیلہ کی اصلاح:

اس باب کا حصۂ اوّل متضمّن ہے اخلاقِ رذیلہ کے ازالۂ تعدیل کے طریق کو اور حصۂ دوم اخلاقِ حمیدہ کی تحصیل و تکمیل کے طرق کو

رذیلہ کے اصلاح کی حد:

تہذیب: سالک کو چاہیے کہ رذائل کی اصلاح شیخ سے ایک ایک کی کرائے۔ جب ایک رذیلہ کی مقاومت پر پوری قدرت ہو جائے اور مادہ کا اضمحلال ہو جائے تو دوسرے رذیلہ کا علاج شروع کرے اور اس رذیلہ کے ازالہ کلی کا کبھی انتظار نہ کرے، کیونکہ یہ نا ممکن ہے، بلکہ اس مادہ کے وجود میں ہزارہا حکمتیں ہیں۔

رذائل کے فطری ہونے کی دلیل:

تہذیب: رذائل کے فطری ہونے کی دلیل یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ بچوں کو بھی غصہ آتا ہے، اور محققّین کا قول ہے کہ ’’غضب‘‘ کبر سے پیدا ہوتا ہے، اور پھر غضب سے غیبت پیدا ہوتی ہے، جب بچوں میں غصہ ہے تو معلوم ہوا کہ ان میں کبر بھی ہے تو بچوں کے اندر ان امور کے ہونے سے معلوم ہوا کہ یہ امور فطری ہیں۔

زوالِ رذائل سے مقصود اضمحلال ہے:

تہذیب: زوال رذائل سے مقصود اضمحلال ہے اور اضمحلال کے معنی ہیں کہ مجاہدہ کے بعد ان اخلاقِ رذیلہ کی مقاومت میں پہلی جیسی مشقت نہ رہے۔ ورنہ مجاہدہ سے نہ حریص کی حرص زائل ہوتی ہے، نہ بخیل کا بخل، نہ متکبر کا کبر۔ ہاں! اضمحلال ہو جاتا ہے جس کا ثمرہ یہ ہے کہ ان کے مقتضا پر عمل نہ ہو، کیونکہ عمل اختیاری ہے۔ پس مقتضائے رذیلہ پر عمل نہ کرنا بھی بڑی کامیابی ہے اور مجاہدہ و ریاضت سے بھی سہل و آسان ہوجاتا ہے۔

ریاضت و مجاہدہ کا فرق:

تہذیب: ایک درجہ تو ہے تقاضائے معصیت کا، اس کی مخالفت کرنا تو مجاہدہ ہے اور ایک اس تقاضے کا منشا ہے ’’خُلقِ رذیل‘‘ اس کے ازالہ بمعنی اضمحلال کو ریاضت کہتے ہیں۔

تجدیدِ معالجہ کی ضرورت:

تہذیب: مادّہ کا استیصال جب تک نہ ہو تجدیدِ معالجہ کی ضرورت رہے گی اور استیصال کی تدبیر نہیں۔ موسمی بخار کا نسخہ پینے کے بعد کیا پھر آئندہ فصل میں بخار نہ ہو گا، وہ کونسی تدبیر ہے کہ صفراء ہی پیدا نہ ہو، اور اگر ایسا کیا جائے گا تو بہت منافع جو خلطِ صفراء سے متعلق ہیں وہ فوت ہوجائیں گے، اسی طرح مادۂ شہوانی میں بہت منافع ہیں۔

تمام اخلاقِ رذیله کا علاج:

تہذیب: تمام اخلاق رذیلہ کا علاج تأمّل اور تحمّل ہے یعنی جو کام کرے سوچ کر کرے، شرعاً جائز ہے یا نہیں اور جلدی نہ کرے بلکہ تحمّل سے کیا کرے۔

اصلاحِ اعمال و باطن کا طریقہ:

تہذیب: اعمال کی اصلاح اور باطن کی اصلاح کا طریقہ یہ ہے کہ نفس کے جذبات کی مخالفت کی جائے۔ اور اس کو مشقّت کا عادی بنایا جائے۔

مقاماتِ سلوک کی تعریف:

تہذیب: مقاماتِ سلوک سے مراد اعمال باطنیہ ہیں یعنی خوف و رجا، محبت و انس، توکل و رضا، شکر و صبر وغیرہ جن کی تحصیل کا شریعت نے امر کیا ہے اور ہر مسلمان خصوصاً سالک ہمیشہ ان کے طے کرنے میں مشغول ہے، کسی وقت توقّف نہیں ہوتا، یہ دنیا کا سفر نہیں کہ ایک حد پر ختم ہو جائے، بلکہ اس سفر کی کہیں انتہا نہیں۔

کمال یہ ہے کہ سب مَلَکات کامل ہوں:

تہذیب: بعض مَلَکات کے کامل ہونے کا نام کمال نہیں، بلکہ کمال یہ ہے کہ سب مَلَکات کامل ہوں۔

تمکین کا نام توسّط و اعتدال ہے:

تہذیب: تمکین کے بعد تمام اشیاء کے حقوق بخوبی ادا ہوتے رہتے ہیں۔ اسی تمکین کا نام توسط و اعتدال ہے اسی توسط کی وجہ سے اس امت کا نام ’’اُمتِ وَسَط‘‘ ہے۔

حسنِ اخلاق کی بھی ایک حد ہے:

تہذیب: حدیث میں ہے کہ جب تم سائل کو تین بار (عُذر سمجھا کر) جواب دے دو اور وہ پھر بھی نہ جائے، لپٹ کر جم ہی جائے (جس سے ایذا ہونے لگے) تو پھر اس کے جھڑک دینے میں کچھ ڈر نہیں، اس سے یہ معلوم ہوا کہ حسنِ اخلاق کی بھی ایک حد ہے اور بندہ اس کا مکلّف نہیں کہ اس حد سے آگے ایذا کا تحمّل کرے۔

ریاضت سے اصلاحِ اَخلاق کے معنی:

تہذیب: حدیث میں ہے کہ جب تم سنو کہ اپنی جگہ سے پہاڑ ٹل گیا تو تصدیق کر لو (جب کوئی دلیل مکذّب نہ ہو) اور جب تم کسی شخص کی نسبت سنو کہ اپنے اخلاق سے ہٹ گیا ہے تو تصدیق مت کرو (کیونکہ اس کا مکذّب موجود ہے اور وہ مکذّب یہ ہے کہ وہ پھر اسی حالت پر آ جائے گا جس پر پیدا کیا گیا ہے) اس سے معلوم ہوا کہ ریاضت سے اخلاقِ جبلیہ زائل نہیں ہوتے، ہاں! مضمحل ہو جاتے ہیں۔

عشقِ ناجائز و بد نگاہی:

تہذیب: تحریر ذیل جواب ہے ایک مدرّس کے خط کا جس کو ایک طالب علم سے محبت ہو گئی تھی اور اس کو دیکھنے کا سخت تقاضا رہتا تھا، اور اس کے اسباق کو اپنے پاس سے الگ کرنا چاہتے تھے اور مہتممِ مدرسہ سے درخواست کرنا چاہتے ہیں کہ ضرورت بالا کی وجہ سے مدرسہ سے میرا ایک گھنٹہ کم کر دیا جائے۔

عشقِ ناجائز کا علاج:

جواب: پیشہ تو ٹھہرا تعلیم کا اور اس میں سابقہ ٹھہرا ہمیشہ اطفال سے اور اطفال غیر متناہی بمعنی ''لَا تَقِفُ عِنْدَ حَدٍّ'' سو اگر ایک کی تدبیر کر لی تو قطعٔ نظر دوسرے مفاسد کے جو اس تدبیر میں ہیں مثلاً اپنا اظہارِ حال غیر مربّی پر جس کی حدیث میں ممانعت آئی ہے کہ معاصی کے اظہار سے منع کیا گیا ہے اور مقدماتِ معاصی بھی ایسے احکام میں ملحق بالمعاصی ہیں، کیونکہ دوسرے شخص کو مقدمّات کے اعتراف سے فوراً ہی سوءِ ظن پیدا ہو جائے گا اور یہ بھی ایک حکمت ہے ’’نھی عن اظہار المعصیة‘‘ میں۔ البتہ مربّی و مُصلح اس سے مستثنیٰ ہے۔ جیسا کہ کشفِ عورت غیر طبیب کے سامنے حرام ہے اور طبیب کے سامنے جائز۔ ''وَ قُلْ مَنْ تَنَبَّہَ بِہٰذَا التَّفْصِیْلِ فِيْ مَعْنَی الْحَدِیْثِ'' اور ایقاع دوسرے کا اسی فتنہ میں، کیونکہ بہت دفعہ ایسا ہوا ہے کہ ایک شخص کسی کی محبت سے خالی الذہن ہے پھر کسی نے جب اپنی محبت کی اس کو اطلاع دی تو اس کو بھی التفات ہو گیا اس کے محاسن کی طرف۔ اور اس التفات سے وہ بھی اس فتنہ میں مبتلا ہو گیا تو یہ اظہار ہی سبب بنا دوسرے کے واقع فی الفتنہ کرنے کا، ''وَ التَّسَبُّبُ لِلْمَعْصِیَّۃِ بِدُوْنِ الضَّرُوْرَةِ مَعْصِیَّةٌ'' اور مثلاً محبوب کو رسوا کرنا کہ خود اس کی بھی ممانعت ہے، ''مَنْ عَشِقَ فَعَفَّ فَکَتَمَ فَمَاتَ فَھُوَ شَھِیْدٌ''،(احیاء علوم الدین:105/3) گو یہ حدیث متکَلّم فیہ بھی ہے، لیکن دوسرے قواعدِ شرعیہ اس ممانعت کے لیے کافی ہیں کہ کسی کو رُسوا کرنا ظاہر ہے کہ جائز نہیں۔ بہرحال اس میں اس قسم کے مفاسد ہیں، مگر ان مفاسد سے قطعٔ نظر بھی کر لی جائے تو ایک کے لیے تو یہ تدبیر کر لی اور اگر بِلا اختیار بقیّہ میں سے کسی دوسرے کے ساتھ ایسا ہی تعلّق ہو گیا، کیونکہ قلب پر تو اختیار نہیں تو اس کے لیے بھی کیا یہی تدبیر کرو گے؟ اور اگر تیسرے کے ساتھ یہی قصہ ہوا تو کیا ہو گا، کیا سارے متعلمین کو حذف کر دو گے؟ پھر تعلیم کس کو دو گے؟ ہاں! ایسے شخص کو خود پیشہ معلمی ہی کا ترک کرنا اگر ممکن ہو (بشرطیکہ اس میں کوئی مصلحتِ ضروریہ فوت نہ ہو جس کا فیصلہ اپنے مُصلح کے مشورے سے ہو سکتا ہے) تو یہ سب سے اسلم ہے، لیکن اسی سے ملابست رکھتے ہوئے تو یہ تدبیر عام نہیں ہو سکتی ہے۔ اس لیے قاعدۂ رائضین سے کام لینا چاہیے کہ گھوڑا جس چیز سے چمکتا ہو اس سے دور کرنے کا اہتمام نہیں کرتے کہ ہمیشہ کی مصیبت ہے، بلکہ اس چیز کے سامنے آنے اور دیکھنے کا خوگر کرتے ہیں یہاں تک کہ چمک نکل جاتی ہے۔ اسی طرح تم بھی پڑھاؤ اور معصیت سے بچو، مثلًا اپنی طرف سے بقصدِ التذاذ کلام کرنا۔ ہاں! عام خطاب سبق میں مُضر نہیں۔ اسی طرح اس کے سوال کا جواب بقدرِ ضرورت وہ بھی مُضر نہیں۔ اور مثلًا اس کی طرف نظر کرنا، باقی میلان و رحجان بلا اختیار اس طرف ہو تو وہ معصیت نہیں، بلکہ اس کے مقتضا پر عمل کرنے سے نفس کو روکنا ’’مجاہدہ‘‘ ہے اور اصلاحِ نفس میں مُعین اور نفس کی تمرین۔

شہوتِ دنیا مثالِ گلخن است

کہ از و حمامِ تقویٰ روشن است

سو یہ امرِ اختیاری مضر نہیں، لیکن بعض اوقات مُبتلا کی کم ہمتی ہے یہ بھی مفضی اِلَی المعصیت ہو جاتا ہے اور بعض اوقات گو مفضی اِلَی المعصیت نہیں ہوتا، مگر مفضی الی المرض الجسمانی ہو جاتا ہے اس لیے اس کا بھی تدارک کرنا اصلح ہے۔ وہ تدارک یہ ہے کہ جب اس کی طرف کیفیّتِ رُجحان کا غلبہ ہو فوراً یہ امر مستحضر کر لیا جائے کہ جب یہ شخص مر ے گا، آب و تاب تو فوراً ہی سلب ہو جائے گی تو اس وقت کی آب و تاب محض عارضی و رعایتی و نا پائیدار ہے، اس قابل نہیں کہ اس کی طرف التفات کیا جائے، پھر جب قبر میں رکھیں گے دو چار روز ہی میں تمام لاش پھٹ کر اس میں پیپ اور کیڑے پڑ جائیں گے اور جب ایک حالت ہونے والی ہے اس کا اعتبار اور اس سے اثر لینا بھی ضروری ہے۔ جیسے عاقل آدمی جب کسی جرم کا ارادہ کرتا ہے تو یہ سوچ کر کہ انجام اس کا جیل خانہ ہے اور اگر وہ اس وقت نہیں، مگر ابھی سے اس کو کالواقع و الحاضر سمجھ لیتا ہے اور اس جرم سے باز آتا ہے اس بناء پر اس حالتِ کائنہ آجِلہ کو بھی پیشِ نظر کر لے۔ گویا اس کی لاش ابھی سڑ گئی، گل گئی، اس میں ابھی کیڑے پڑ گئے۔ اس نقشہ کو اس کے لیے ابھی سے تصوّر کر لیا کرے۔ ان شاء اللہ چند ہی روز میں کشش و بے تابی دور ہو جائے گی۔ دوسری طرف ذکر میں تصوّر کرے کہ یہ سب غیرُ اللہ دل سے نکل گئے، اور صرف اللہ تعالیٰ ہی کی محبت دل کے اندر جا گزیں رہے گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ اس امرِ غیر اخیتاری سے بھی نجات ہو جائے گی، اور بی بی سے تعلّق بڑھانا اس کا مُعین ہو گا۔ ''فَعَلَیْکَ بِہٖ وَاللہُ الْمُوَفِّقُ''۔ اور یہ امر بھی قابلِ تنبیہ ہے کہ اگر بالفرض اس امرِ غیر اختیاری سے نجات میں توقّف ہو تو گھبرائیں نہیں۔ کیونکہ یہ مقصود نہیں تبرّعاً لکھ دیا۔ اصل مقصود ہی معاصی سے بتفصیلِ بالا بچنا ہے جو کہ اختیار میں ہے، گو توقّف ثمرہ مذکور سے جسم یا نفس کو تکلیف ہو تو اس تکلیف کو برداشت کرنا چاہئے۔ ؎

کیں بلائے دوست تطہیر شما ست

علاج مبتلائے معصیتِ زنا و لواطت:

تہذیب: معالجہ ہر مرض کا اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے استعمال میں ہمت کی ضرورت ہے۔ اس کے اجزاء یہ ہیں: (1) پورے چالیس روز خلوت میں رہو۔ (2) سب سے مطلقاً کلام ترک کردو، ہاں حوائجِ ضروریہ کے متعلّق جو کلام ہو۔ مثلًا: کھانے کے متعلّق یا بازار کے سودا سلف کے متعلّق اور وہ بھی بقدرِ ضرورت مستثنیٰ ہے۔ (3) کسی کے پاس نہ بیٹھو، نہ ملو بجُز مجلسِ شیخ کے۔ (4) تین روزے متواتر رکھو اور اس میں اوراد سے جو وقت بچے استغفار اور نوافل میں مشغول رہو۔ (5) معاصی جملہ اعضاء سے سخت پرہیز کرو پھر شیخ کو اطلاع دو۔

ترکِ مجلسِ امرد کا بہانہ:

تہذیب: اگر کوئی امرد پاس آ کر بیٹھے اور دل خراب ہونے لگے تو وہاں سے اٹھ جانا چاہیے، گو کسی بہانہ ہی سے، اور بہانہ کیا مشکل ہے ناک صاف کرنے کا بہانہ کافی ہے۔

نفس کی بد نظری میں ایک نکتہ مخترعہ کا جواب:

تہذیب: اگر کوئی عورت نظر آوے اور نفس کہے کہ ایک دفعہ نظر کر لے کیا حرج ہے؟ کیونکہ تو بد فعلی نہ کرے گا۔ اگر بالفرض بڑی خواہش ہی ہو تو اس سے باز رہنے میں مجاہدہ ہے۔ تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ نفس کا کید ہے۔ اور طریقۂ نجات کا یہی ہے کہ عمل نہ کیا جائے جو اس میں نفس نے نکتہ گھڑا ہے۔ اوّل تو حسبِ فتوٰی اہلِ طریق کا ''کُلُّ حَقِیْقَۃٍ رَّوَتْھَا الشَّرِیْعِۃُ فَھِيَ فَنْدَقَةٌ'' یہ نکتہ ہی مردود ہے کیونکہ شریعت نے خود اس نظر کو زنا بتلایا ہے، پھر یہ نقطہ اصولِ فن کے بھی خلاف ہے کیونکہ جو حکمت اس میں مجاہدہ کی نکالی ہے سو باوجود تقاضا کے نظر نہ کرنا، کیا یہ مجاہدہ نہیں ہے؟ بلکہ نفس کے مجوزہ مجاہدہ میں تو حکمت کچھ حظ بھی ہے، اور کچھ مجاہدہ بھی، اور نہ دیکھنا خالص مجاہدہ ہے تو پھر کون اکمل ہوا؟ سو یہ حکمت مجاہدہ کی تو غضِ بصر میں بھی حاصل ہے۔ اور اگر مجاہدۂ مطلوبہ ایسا عام ہے تو نصف احلیل داخل کر کے سکون سے بیٹھا رہنا اور پورا ایلاج نہ کرنا اس سے بڑھ کر مجاہدہ ہے۔

بد نگاہی کا ایک درجہ غیر اختیاری اور ایک اختیاری:

تہذیب: بد نگاہی میں ایک درجہ میلان کا ہے جو کہ غیر اختیاری ہے اس پر مواخذہ بھی نہیں اور ایک درجہ ہے اس کے مقتضا پر عمل کرنے کا، یہ اختیاری ہے اس پر مواخذہ بھی ہے اور اس عمل میں قصداً دیکھنا اور یہ سوچنا سب داخل ہے۔ اس کا علاج کفِ نفس اور غضِ بصر ہے کہ یہ بھی اختیاری ہے، ہمت کر کے اس کو اختیار کرے۔ گو نفس کو تکلیف ہو، مگر یہ تکلیف نارِ جہنم کی تکلیف سے کم ہے۔ اور جب چند روز ہمّت سے ایسا کیا جائے گا تو میلان میں بھی کمی ہو جائے گی۔ بس یہی علاج ہے اس کے سوا کچھ علاج نہیں اگرچہ ساری عمر سر گرداں رہے۔

جرمانہ کی نفلیں دائمی معمول کے علاوہ ہونا چاہیے:

تہذیب: جرمانہ کی نفلیں دائمی معمول کے علاوہ ہونا چاہیے، دائم سے زجر نہیں ہوتا، کیونکہ نفس کہتا ہے کہ یہ تو ہر حال میں پڑھنا ہی ہوگا خواہ نگاہِ بد ہو یا نہ ہو، پھر نگاہِ بد کو کیوں چھوڑوں اور یہ بھی نفس کہے گا کہ اس کے کفارہ تو ہو ہی جائے گا، پھر کیوں پرہیز کروں اور مستقل طور پر پڑھنے سے، چونکہ پڑھنا گراں ہو گا اس گرانی کے سبب وہ نگاہِ بد سے بچے گا۔

مراقبہ دفعِ نظرِ بد:

تہذیب: نظرِ بد کا جس وقت وسوسہ ہو تو تصوّر کیا جائے کہ اگر اس وقت میرا پیر یا استاد دیکھتا ہوتا تو میں یہ حرکت کبھی نہ کرتا۔ اب اللہ تعالیٰ دیکھ رہے ہیں تو ایسا کام کیوں کررہا ہوں؟

فرطِ محبت کی حد:

تہذیب: عشق لِلہِ ’’عِشقُ اللہِ‘‘ ہی ہے، مگر اسی قید کے ساتھ جو حدیث میں ہے: ''مِنْ غَیْرِ ضَرَّاءَ مُضِرَّةٍ وَ لَا فِتْنَةٍ مُّضِلَّةٍ'' (سنن نسائي رقم الحديث: 1306) جس کا حاصل یہ ہے کہ شدّتِ عشق میں نہ جسم کو ضرر پہنچے، نہ دین کو۔

بد نگاہی کا علاج ضبطِ نفس ہے:

حال: بد نگاہی کے مرض میں مبتلا ہوں، ہر چند استغفار بھی ارتکاب کے وقت کرتا ہوں، لیکن دل صاف نہیں ہوتا۔

تہذیب: استغفار سے اتنی جلدی صاف نہیں ہوا کرتا، بلکہ آئندہ جب ایسے موقع پر چند بار ضبطِ نفس ہو اس کے نور سے دل میں پوری صفائی ہوتی ہے اس میں ہمّت قوی ہونی چاہیے۔

دوسرا علاج استحضارِ عذاب اور مراقبۂ علمِ الٰہی:

تہذیب: بدون ہمت کے کوئی کام نہیں ہوتا۔ اصل علاج نظرِ بد کا یہی ہے جس وقت ایسا موقع ہوا کرے، یہ خیال کر لیا کیجئے کہ حق تعالیٰ اس وقت بھی دیکھ رہے ہیں، اگر ہمارا پیر اس حرکت کو دیکھتا ہو تو ہماری کبھی جرأت نہ ہو تو خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہوئے جرأت غضب ہے اور قیامت میں بھی باز پُرس کریں گے، اگر سزا کا حکم کر دیا تو کیسی بنے گی۔ بار بار اس خیال کے حاضر کرنے سے ان شاء اللہ کامیابی ہو گی۔

بد نظری اور اس کا علاج استعمالِ ہمت ہے مُزیل انوار طاعات ہے:

حال: شہوانی خیالات کا ہر وقت دل پر استیلاء رہتا ہے، نا محرموں کو بری نظر سے دیکھنے میں ذرا بھی باک نہیں۔

تہذیب: یہ شر (بد نظری) ایسا ہے کہ اپنے اثر سے تمام طاعات کے انوار کو تاریک کر دیتا ہے، اس لیے اس کا علاج اہتمام سے کرنا چاہیے اور ظاہر ہے کہ یہ مادہ خَلقی ہے پس وہ شر نہیں، بلکہ اس میں بہت سے مصالح ہیں۔ البتہ اس مادہ کے اقتضا پر عمل کرنا شر ہے۔ اور وہ اختیاری ہے اور اختیاری کی ضد بھی اختیاری ہے، پس فعل سے رکنا اختیاری ٹھہرا۔ اس میں کوئی معذوری نہیں پس ہمت کیجئے یہی اس کا جواب ہے چندے تکلّف ہو گا پھر عادت ہو جائے گی، پھر لذّت اور فرحت ہو گی۔

بد نظری میں انہماک وسوسہ کے درجہ میں مُضر نہیں:

حال: میلان خواہش نفسانی کا غلبہ کے وقت ہو جاتا ہے، وسوسہ کے درجہ میں سخت انہماک ہوجاتا ہے، گو عمل کے درجہ میں نہیں، اگر نکاح کا خیال ہوتا ہے تو اپنے ضُعف اور عدمِ تندرستی پر نظر کر کے ہمت ٹوٹ جاتی ہے۔

تہذیب: بوجۂ غیر اختیاری ہونے کے ذرا مضر نہیں، مگر کسی متعین شخص کے متعلّق حدیث النفس نہ لایا جائے اور جو خود کو آ جائے تو جمایا نہ جائے۔ نکاح کے متعلّق مجھے اندیشہ ہے کہ اس سے ضعف نہ بڑھ جائے جس سے اشدّ درجہ کے مضرات نہ پیدا ہو جائیں۔

ہمت میں قوت پیدا ہونے کا علاج:

حال: حضور کی تنبیہ سے معلوم ہوا کہ بد نظری فعل اختیاری ہے اور علاج استعمالِ اختیاریہ ہے، مگر باوجود اس کے پھر بھی اختیار کے استعمال کی ہمت نہیں ہوتی اور گناہ ہو جاتا ہے ہمت میں قوت نہیں۔

تہذیب: قوت بھی استعمال ہی سے پیدا ہو گی، اور استعمال میں قوت کی ضرورت نہیں، ہمت کی ضرورت ہے گو اس میں تکلف ہی ہو، تکلیف بھی ہو، علمی استعداد طالب علم کو کاہے سے پیدا ہوتی ہے، علم کے استعمال سے مطالعةً و ورعاً و مباحثۃً (اب ان میں بھی اگر اس وقت کا انتظار ہو جو ان کے بعد حاصل ہوتی ہے تو نتیجہ بجز حِرمان کیا ہو گا؟) اس لیے اس کو تکلّف سے اختیار کرنا چاہیے ایسے امرِ بیِن میں شُبہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عمل کا قصد ہی نہیں۔ ایسی حالت میں چونکہ میں ایسے رنج کا متحمل نہیں اس لیے مکَاتبت سے معافی چاہتا ہوں جس نے غضِ بصر کا حکم دیا ہے وہ قیامت میں جواب دے گا، قولی یا عملی۔

تجدیدِ معالجہ کی ضرورت کی حد:

تہذیب: جب تک مادۂ شہوانی کا استیصال نہ ہو تجدیدِ معالجہ کی ضرورت رہے گی، اور استیصال کی کوئی تدبیر نہیں، موسمی بخار کا نسخہ پینے کے بعد، کیا پھر آئندہ فصل میں بخار نہیں آتا۔

حُسن پسندی کا علاج:

حال: مجھ میں اس قدر حُسن پسندی ہے کہ معمولی اشیاء کو بھی نہایت قرینہ اور خوش تربیتی سے رکھتا ہوں اور حُسنِ صورت کی طرف بھی بے حد کشش ہے۔

تہذیب: ''بَعْضُہٗ خَیْرٌ فَاشْکُرُوْا عَلَیْھَا وَ بَعْضُہُ شَرٌّ فَاصْبِرُوْا عَنْھَا اَيْ غَضُّوا الْبَصَرَ حَیْثُ اَمَرَ الشَّارِعُ بِالْغَضِّ وَ لَوْ بِتَکَلُّفٍ شَدِیْدٍ یَحْتَمِلُ زُھُوْقَ الرُّوْحِ فَإِنَّ اللہَ غَیُّوْرٌ وَ یَشْتَدُّ غَیْرَتُہٗ عَلَی النَّظْرِ إِلٰی مَا نَھَی اللہُ اُفٍّ یَّنْظُرُ إِلَیْہِ فَالْحَذْرُ و الْحَذَرُ اَنْ یُّغِیْظَ الْمَحْبُوْبَ الْأَکْبَرَ''۔

وسوسۂ حرام کاری کا علاج:

حال: شیطان یہ سمجھاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر ان مرغوب صورتوں پر جائز شرعی قبضہ دیدے تو اس وقت کیا کرو گے، سو جائز قبضہ سمجھ کر حظ کا خیال کرو اور حظ حاصل کرو، حرام کاری کا خیال مت کرو۔

تہذیب: خیال کا علاج خیال ہے، اس وقت یہ خیال کرو کہ اگر اس عورت کے شوہر کو اس خیال کی اطلاع کر دوں تو کتنی رسوائی ہو، تو حق تعالیٰ تو بے کہے ہی مطلع ہیں، کتنی شرم کی بات ہے کہ وہ اس ارادے کو دیکھ رہے ہیں اور اسی سلسلہ میں عقوبتِ جہنم کو بھی مستحضر کر کے اس میں لگ جائے (یا) نفس سے یہ کہے کہ جس طرح تو مجھے دوسری عورتوں سے حظ حاصل کرنے کو کہتا ہے، اسی طرح اگر کوئی شخص میری بیوی سے حظ حاصل کرے اور مجھ کو اس کا علم ہو جائے تو میں کیا کروں گا؟ ظاہر ہے! مرنے مارنے پر تیار ہو جاؤں گا، اسی طرح کیا دوسروں کو غیرت نہ ہو گی کہ اگر ان کو خبر ہو جائے تو وہ بھی مجھے مار ڈالیں؟ ہر طرح کے ضرر پہنچانے پر آمادہ ہو جائیں۔ پھر جہنم کا نقشہ پیشِ نظر کر لے، علاوہ اس کے وہ تاویل شیطان کی ایسی ہے کہ کوئی شخص سچ مچ کسی عورت سے زنا کرنے لگے، اور یہ سوچ لے کہ اگر اس پر جائز قدرت ہو تو اس طرح مقاربت کروں اور اس کے حرام ہونے میں کوئی شبہ نہیں، یہی حکم ہے زنا بالقلب کا۔

زوجہ متوفیہ سے تلذّذ کا تصور حلال ہے لیکن زوجہ مطلّقہ سے حرام :

حال: موت سے چونکہ علاقہ زوجیت کا منقطع ہو جاتا ہے تو وقائعِ سابقہ یا صورتِ زوجہ سے متلذّذ ہونا کیسا ہے؟

تہذیب: وہ تلذّذ تو استحضار ہے واقعہ ماضیہ کا جو حلال تھا۔ اس کا تصور بھی نہیں ہوتا کہ میں اب متلذّذ ہوں، بخلاف اس کے کہ وہ زندہ ہو اور مطلّقہ ہو جائے تو فی الحال تلذّذ کا تصور ہو گا اور یہ حرام ہے۔

صورتِ مخترعہ سے بھی حرام ہے:

حال: بعض دفعہ نفس بلا تعیّن یوں ہی کوئی صورت اپنی طرف سے تراش کر کے کھڑا کر دیتا ہے اور متلذّذ ہوتا ہے یہ دیوانگی تو یقیناً ہے مگر حدِ معصیت میں بھی داخل ہے یا نہیں؟

تہذیب: عادةً ممکن ہی نہیں، بدون تعیّن کے لذت ہو ہی نہیں سکتی، لیکن اگر کسی کو تلذّذ ہو تو آیت: ﴿فَمَنِ ابۡتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُوْلٰٓٮِٕكَ هُمُ الۡعٰدُوۡنَ‌ۚ ﴾ (المؤمنون: 8، المعارج: 31) کے عموم میں داخل ہو کر حرمت کا حکم کیا جائے گا کیونکہ صورت مخترعہ زوجہ ہے نہ مملوکہ بس ''وَرَاءَ ذَالِکَ'' میں داخل ہو گی۔

بعض صورت میں مُبتدی کو غیر اختیاری کے ساتھ وہی برتاؤ کرنا چاہیے جو اختیاری کے ساتھ کرتا:

حال: کسی نا محرم کی محبت کا جوش دل میں پیدا ہونا اختیاری امر ہے یا غیر اختیاری؟

تہذیب: مبتدی کے لیے یہ تحقیق مضر ہے۔ شیطان کو اس میں آڑ مل جائے گی کہ وہ تاویل سے اختیاری درجہ کو غیر اختیاری بتلا کر معصیت میں مبتلا کر دے گا۔ ایسے مبتدی کا علاج یہی ہے کہ جو معاملہ اختیاری کے ساتھ کرتا وہی غیر اختیاری کے ساتھ بھی کرے یعنی سب کو اختیاری سمجھے اور علاج کرے۔

خطرۂ ہلاکت نظرِ عمد میں ہے نظرِ فجأة میں نہیں:

تہذیب: خطرۂ ہلاکت ’’نظرِ عمد‘‘ میں ہے اور وہی حرام بھی ہے۔ نظرِ فجأة میں یہ اثر نہیں ہے کیونکہ نظرِ فجاة میں بوجۂ التفات کے دقائقِ حُسن کا ادراک نہیں ہوتا، یوں ہی سرسری طور پر صورت سامنے آجاتی ہے۔ اب اس کو حکم ہے صرفِ نظر کا، اگر فوراً نگاہ ہٹا لے تو کچھ خطرہ نہیں۔ اگر اس کے بعد عمداً دیکھنے لگا تو اب اس کے ساتھ تعلّق پیدا ہونے کا احتمال ہے اور تعلّق کے بعد اگر وصال نہ ہو تو موت کا خطرہ ہے۔ ایک دو بار اگر وصال بھی ہو گیا تو اس سے پیاس بجھے گی نہیں، بلکہ زیادہ بھڑکے گی۔ ؎

کنار و بوس سے دونا ہوا عشق

مرض بڑھتا گیا جو ں جوں دوا کی

محبوب کے تصوّر کو بلاو اسطہ دفع کرنا یہ بھی جلبِ تصوّر ہے:

تہذیب: نظرِ بد سے بچنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کسی بد صورت، بد شکل کا مراقبہ کرو، چاہے کافر ہی کیوں نہ ہو۔ اگر کوئی بد شکل قابلِ تصوّر مراقبہ کے لیے نہ ملے، تو پھر اس محبوب ہی کو بد شکل تصوّر کرو۔ یعنی یوں خیال کرو کہ یہ ایک دن مرے گا اور اس کا چہرہ خاک میں مل جائے گا اور اس میں خون، پیپ ناک اور آنکھ کے راستہ سے بہے گا، اس کے بدن میں کیڑے پڑ جائیں گے تھوڑی دیر اس کی حالت کا مراقبہ کرو اس سے بھی نفع ہو گا۔ اور خیال ہٹانے کی یہ صورت نافع نہیں کہ تم براہِ راست اس کے حُسن کے تصوّر کو دفع کرنے کا قصد کرو، کیونکہ اس میں تو پھر استحضار ہو گا حسن کا، سلب بھی جلب ہو جائے گا۔ خلاصہ یہ کہ محبوب کے تصوّر کو بِلا واسطہ دفع کرنا یہ بھی جلبِ تصوّر ہے۔

عشق کا منشا بطالت و بے کاری و بے فکری ہے:

تہذیب: عشق بطالت سے ہوتا ہے۔ اطباء نے اس کی تصریح کی ہے۔ اسی لیے طلباء کو عشق زیادہ ہوتا ہے، کیونکہ یہ بہت بے فکر ہیں، پس عشق کا علاج بَطالت و بے کاری و بے فکری کا دور کرنا ہے۔

تضعیفِ شہوت کا سالم و مسنون علاج کثرتِ صوم ہے:

تہذیب: بعض دفعہ قلّتِ شہوت کا منشا کثافتِ اختلاط ہوتا ہے۔ چنانچہ جس پر شہوت کا زیادہ غلبہ ہو وہ اس وقت خوب پیٹ تن کر کھانا کھا لیوے، تو شہوت افسردہ ہو جائے گی، ایسی حالت میں چونکہ روزہ سے اخلاط میں لطافت پیدا ہو گی تو اول اول شہوت بڑھے گی، مگر برابر روزہ رکھتا جائے جیسا کہ ''فَعَلَیْہِ الصَّوْمُ'' سے دلالت ہوتی ہے۔ تو کثرتِ صوم کا انجام ضُعفِ شہوت ہی ہو گا۔ چنانچہ اخیر حصۂ رمضان میں ہر شخص کو ضُعف معلوم ہوتا ہے۔ گو افطار و سحر میں اس نے کتنا ہی پیٹ بھر کر کھایا ہو، کیونکہ میرے نزدیک سببِ ضُعف ’’تبدیل وقت‘‘ ہے، تقلیلِ غذا سے ضُعف نہیں ہوتا۔

اضطرارِ مخمصہ و نظر الی الاجنبیہ کا فرق:

تہذیب: اضطرارِ مخمصہ میں موت کا اندیشہ ہے اور حیات کا بقا مطلوب ہے، کیونکہ وہ معراج (زینۂ) ترقی ہے اور حیاتِ ناسوتیہ ہی سے روح کی ترقّی ہوتی ہے، کیونکہ مدارِ ترقّی اعمال ہیں اور روح مجرّد سے صدور بعض اعمال کا نہیں ہو سکتا تھا۔ اگر یہ وجہ نہ ہوتی تو پھر جنّت سے دنیا میں ہمارے بھیجے جانے کی کیا ضرورت تھی؟ برعکس اس کے نظر الَی الأجنبیہ سے بچنے میں موت کا خوف نہیں، بلکہ غضِ بصر میں زیادہ حیات ہے۔ حدیث میں وعدہ ہے کہ جو شخص تقاضائے نظر کے وقت نگاہ نیچی کر لے اس کو حلاوتِ ایمان نصیب ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ایک طبعی حلاوت بھی ہوتی ہے وہ یہ کہ غضِ بصر کے بعد اس کا دل یہ کہتا ہے کہ شاباش! آج شیطان کو خوب زَیر کیا۔ اور یہ فخر اہلُ اللہ نے بھی کیا ہے۔ مگر اشرّ و بطَر کے ساتھ نہیں، بلکہ تحدیث بالنعمة کے طور پر اور اس قسم کا ’’فرح‘‘ محمود ہے۔ چنانچہ ﴿قُلۡ بِفَضۡلِ اللهِ وَ بِرَحۡمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلۡيَـفۡرَحُوۡا ؕ هُوَ خَيۡرٌ مِّمَّا يَجۡمَعُوۡنَ﴾ (يونس: 58) غرض غضِ بصر میں باطنی حیات بھی ہے اور حیات ظاہرہ کا ابقاء بھی ہے، کیونکہ بعض دفعہ یہ نگاہِ بَد جان و ایمان تک لے لیتی ہے۔ پس نگاہ ڈال کر ہٹاتے ہیں، اس کو نفس کے ساتھ گو سخت کشا کشی ہوتی ہے جس کو وہ اضطرار سمجھنے لگتا ہے۔ حالانکہ حقیقۃً وہ اضطرار نہیں ہے کیونکہ وہ اس حالت میں غضِ بصر پر قادر رہتا ہے۔

ترکِ معصیّت کے لئے اختیارِ معصیّت جائز نہیں:

تہذیب: ترکِ معصیت کے لیے معصیت کا اختیار کرنا ہرگز جائز نہیں، بلکہ ابتداء ہی سے اس معصیت کے تقاضے کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ مثلًا نظرِ بد کا یہ علاج نہیں ہے کہ ایک مرتبہ پیٹ بھر کے دیکھ لیا جائے۔ بلکہ علاج غضِ بصر (نظر کا روکنا) ہے، گو سخت مشقت ہو۔

قلب کی تمنا پر بھی جو بقصد ہو مُواخذہ ہے:

تہذیب: قلب کی تمنا اور اشتہاء پر بھی مواخذہ ہے، مگر وہی جو بقصد ہو اور بِلا قصد تو وسوسۂ زنا کیا، کفر و شرک کے وساوس بھی مُضر نہیں۔