احوال و کیفیاتِ مُتفرّقہ
سالک کی پریشانی کے وجوہ :
حال: حالت احقر کی یہ ہے کہ کئی بار روز و شب میں طبیعت نہایت پریشان ہوتی ہے اور حسرت و درد اندیشۂِ حِرمان سے حزیں ہو کر مبتلا بآہ و بکا ہو جاتا ہوں۔
تحقیق: اس کا سبب غالباً مرکّب ہے دو جُز سے، ایک سوءِ مزاجِ طبعی، اس کا علاج طبیب سے ضروری ہے، دوسرا طلبِ مقصود کے ساتھ مقصود کی تعیین میں غلطی، اس کا علاج ’’تربیت السالک‘‘ کا مطالعہ ہے۔ اگر یہ دونوں امر نہیں تو قبض طبعی ہے جو حالاتِ رفیعہ ہے اور نفع میں بَسط سے زیادہ ہے، جب علمِ الٰہی میں مصلحت ہوتی ہے خود زائل ہو جاتا ہے اس کا ادب صبر و تفویض ہے۔
حافظہ کے کمی کی شکایت:
حال: وعظ دیکھتا ہوں، لیکن حافظہ کم ہونے کی وجہ سے یاد کم رہتا ہے۔
تحقیق: مُضر نہیں، کیونکہ اثر باقی رہتا ہے۔
دعا سے شرمانا کبھی غلبۂ عبدیّت سے ہوتا ہے اور اس کا علاج:
حال: ایک ہفتہ سے یہ حالت ہے کہ بعد نماز و اذکار دعا کرنے میں قبولیت کی درخواست کرتے ہوئے شرم و حجاب معلوم ہوتا ہے کہ میری زندگی و ذکر جو کہ سراسر کوتاہیوں سے بھری ہوئی ہے اس کو پیش کر کے قبولیت کی درخواست کرنا سخت بے حیائی ہے۔
تحقیق: اعلیٰ درجہ کا حال ’’عبدیت‘‘ کا ہے، مبارک ہو!۔ اس سے زیادہ ایک مقام ’’عبدیت‘‘ کا ہے وہ یہ کہ با وجود اس حال کے غلبہ کے امر کو مقدّم رکھ کر قبولیت کی ضرور دعا کی جائے اور اس میں ایک گونہ مجاہدہ بھی ہے مقتضائے طبع پر مقتضائے شرع کی تقدیم کی گئی۔
وجہ زیادتیٔ حظ و قلق از تہجد بہ نسبت فرض:
حال: تہجد میں حظ بھی زیادہ آتا ہے فرائض سے اور اس کے فوت سے قلق بھی زیادہ ہوتا ہے، یہ کیدِ نفس تو نہیں؟
تحقیق: طاعات پر دو اثر مرتّب ہوتے ہیں: ایک عَاجل یعنی حظ اور یہ امر ذوقی طبعی ہے۔ دوسرا آجل یعنی ثواب اور یہ امر اعتقادی عقلی ہے۔ اور حظ میں جدّت اور امتیاز کو خاص دخل ہوتا ہے اور تہجّد میں اس کا تحقّق ظاہر ہے اور فرائض میں بوجۂ عموم و تشارک کے یہ مفقود ہے، اس لئے تہجّد میں حظ فرائض سے زیادہ ہو گا، گو اجر و ثواب کا اعتقاد فرائض ہی میں زیادہ ہے۔ اور ایک قلق ہوتا ہے فوتِ حظ سے۔ اور ایک قلق ہوتا ہے فوتِ اجر سے۔ اول فوتِ تہجد سے زیادہ ہو گا اور ثانی فوتِ فرض سے زیادہ ہو گا۔ اور اول کا تحقّق غلبۂ طبیعت کا اثر ہے اور ثانی کا تحقّق غلبۂِ عقل کا اور احد الامرین کا غلبہ غیر اختیاری ہے اس لئے اس پر ملامت نہیں، نہ یہ کیدِ نفس ہے۔ مگر دلیل فسادِ ذوق کی ضرور ہے، سلامتِ ذوق کی دعا ضروری ہے۔
تلفِ مال سے زیادہ وفاتِ ولد کے غم و الم ہونے کا راز:
سوال: اہلُ اللہ کو کیا مال و متاع کے بھی تلف ہوجانے سے مثل اولاد و صحت و تندرستی کے غم و الم ہوتا ہے؟
جواب: کچھ تو اثر طبعاً ہوتا ہے۔ مگر اولاد کے طبعی اثر کے برابر نہیں اور وجہ اس تفاوت کی کہ وہ بھی طبعی ہے، وہ یہ ہے کہ مال آلہ ہے دوسرے حوائجِ محبوبہ کا، خود اس میں محبوبیت اور مقصودیت نہیں، اور اولاد و صحت میں خود محبوبیت اور مقصودیت ہے۔ پس ایسے تفاوت سے دونوں کے اثر میں بھی تفاوت ہے۔
احوال و کیفیات کی حقیقت:
تحقیق: احوال و کیفیّات کو دوام نہیں ہوتا ان کو مقصود سمجھنے کا انجام بجُز مایوسی اور پریشانی نہیں۔ اصل میں اعمالِ اختیاریہ اقدم ہیں سلوک کے، ان سے چلنا چاہیے۔
تحقیق: اعمال کا فُقدان شامتِ اعمال نہیں، ہاں اعمال میں اگر اختلال ہے وہ بے شک قابلِ نظر ہے۔ جس کی تلافی اختیاری ہے یعنی عَود الی الاعمال سے۔
خیالِ جہتِ فوق میں کوئی بات کفر نہیں:
حال: بوقتِ توجّہ الی الذکر بے اختیار خیال آسمان کی طرف جاتا ہے، شعبۂ کفر تو نہیں۔
تحقیق: حق تعالیٰ جہت سے منزّہ ہیں، مگر تاہم ان کی خاص تجلیّات کو عرش سے خاص خصوصیت ہے، اس لئے فطری طور پر جہتِ فوق کی طرف خیال جاتا ہے، جس کا منشا واقعی ہے اس میں کوئی بات کفر کی نہیں۔
غلبۂ نوم سے ثقلِ احوال نہ مذموم ہے نہ مضر:
حال: بعض وقت چار پائی پر لیٹا ہوا ہوتا ہوں اور اذان سنائی دیتی ہے لیکن بوجۂ غلبۂ نوم چار پائی پر سے اٹھنے کی ہمت نہیں پڑتی اور نہ اس وقت خوفِ خدا معلوم ہوتا ہے، حتیٰ کہ نماز بھی قضا ہوجاتی ہے۔
تحقیق: اس کا سبب طبعی ہے، یعنی ثقلِ حواس غلبۂ نوم سے، سو! نہ یہ مذموم ہے نہ مُضر، البتہ اس ثقل سے جو اعمالِ واجبہ میں اختلال ہوتا ہے وہ واجبُ العلاج ہے اور علاج اس کا ہمت ہے۔
طریقِ تصرّف:
تحقیق: بعض لوگ فطرةً صالح التصرّف ہوتے ہیں، گو صاحبِ نسبت نہ ہوں، طریقِ تصرّف کا صِرف ہمت کا صَرف کرنا ہے۔ دوسرے کی بھی ہمت اگر قوی ہو تو اس سے روک سکتا ہے۔ طُرقِ تصرّفات کی تحصیل صرف مشاقی پر ہے۔ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جو ’’ضیاء القلوب‘‘ میں فرمایا ہے۔ ’’اما ایں تصرّفاتِ عجیبہ و غریبہ بدون حصولِ نسبت فناء و بقاء دست نمی نهد و ایں معاملات از متوسطان سلوک اکثر واقع شوند‘‘۔ اس ارشاد کے معنی یہ ہیں کہ یہ تصرّفاتِ عجیبہ و غریبہ بقیدِ نافع فی الدین ہونے کے، موقوف ہیں حصولِ نسبتِ فناء بقاء پر۔ یعنی مشّاقی یا قوّتِ فطریہ کے ساتھ (نافع فی الدین) بھی شرط ہے، کیونکہ سالک کا اصل موضوع یہی نفع فی الدین ہے۔ مراد بعض تصرفاتِ عجیبہ و غریبہ سے وہی تصرّفات ہیں جو سلوک کے متعلق ہیں جیسے ’’توبہ بخشی‘‘ وغیرہ۔
اصل رونا دل کا ہے:
حال: مجھے وعظ سن کر نہ رونا آتا ہے نہ ذکر وغیرہ میں خوفِ خدا ہوتا ہے، یہ سنگ دلی تو نہیں؟
تحقیق: رونا دل کا مقصود ہے آنکھ کا نہیں، وہ حاصل ہے دلیل اس کی یہ تأسّف ہے۔
حجابِ نورانی اشد ہے حجابِ ظلمانی سے:
حال: انوار اب رنگ برنگ کے نمایاں ہوتے ہیں، اسمِ ذات کی کثرت سے لطائف میں سوزش ہوتی ہے۔ اور کوئی شیء مثلِ ہوا کے بھر کر پھیل جاتی ہے۔
تحقیق: واقع میں انوار و آثار قابلِ التفات نہیں، ان میں اکثر دخل اسبابِ طبعیہ کا ہوتا ہے، اور اگر ایسا نہ ہو تب بھی مَلَکُوت مثلِ نَاسُوت کے غیر قابلِ التفات ہے۔ ناسُوت اگر حجابِ ظلمانی ہے تو مَلکوت حجابِ نورانی۔ اور حجاب مطلقًا حاجب ہے اور حاحب کا رفع واجب ہے۔
مصلحت فی الکیفیات یکسوئی ہے:
البتہ ان کیفیّات مذکورہ بالا میں (اگر یہ ہوں کیونکہ ان کا ہونا لازم نہیں) یہ مصلحت ضرور ہے کہ ان سے شاغل کو یک گونہ یکسوئی ہوتی ہے، جس سے اگر ذکر میں کام لے تو مفید ہے یعنی مذکور کی جانب توجّہ خالص کرے، ورنہ اگر خود اس میں مشغول ہو گیا تو یہ دوسرے خطرات سے بھی زیادہ مُضرّ ہے کہ غیر مقصود کو مقصود بنا لیا اور سوزش کے بعد جو چیز پھیلتی ہے وہ حرارت ہے، حرکت سے اس میں لطافت آ جاتی ہے اور اس میں وہی تقریر ہے جو اوپر عرض کی کہ مُورِث یکسوئی ہے مگر مقصود نہیں۔
خروش ذکر کا اثر ہے:
حال: جانبِ چَپ پستان میں اور بعض وقت دستِ چپ میں بھی خَرُوش پیدا ہو جاتی ہے۔ خصوصاً نماز میں اور جس وقت کہ قلب کی جانب خیال ہوتا ہے اس وقت بہت زیادہ ہو جاتی ہے ۔
تحقیق: اثر ذکر کا ہے، مبارک ہو، مگر مُفرّحات و مُرطّبات و مُقوِیاتِ قلب کا استعمال ضروری ہے، تاکہ اختلاج نہ ہو جائے۔ اور اگر ذکر میں ضرب یا حَبس ہو چند روز کے لئے ترک کر دیں۔
گمان کمی عقیدت و محبت شیخ اور اس کا علاج:
حال: یہ خبیث مرض ہے کہ آپ کے پیچھے بہت ذوق و شوق بہت اُنس و محبت مگر جہاں صورت شخ کی دیکھی اور ذرا پاس بیٹھا وحشت ہوتی ہے اور طبیعت مکدّر ہوتی ہے۔
تحقیق: یہ محبت و عقیدت میں کمی نہیں بلکہ بوجۂ عدمِ مناسبت کے وحشت ہے۔ اس وحشت سے شُبہ ہو جاتا ہے قِلّتِ محبت کا۔ عدمِ مناسبت اس وجہ سے ہے کہ پاس زیادہ نہیں رہے، مزاج نہیں پہچانا۔ اس کا علاج کچھ ضروری نہیں کیونکہ کچھ مُضر نہیں، لیکن باوجود غیر ضروری ہونے کے علاج ہی کو دل چاہتا ہے تو زیادہ پاس رہئے۔ ورنہ بار بار آنے جانے کا انتظام کیا جائے۔
دعائے خاص کا یاد نہ رہنا اور اس کا علاج:
حال: گو ہمیشہ طلبِ دعا کرتا ہوں اور حضور فرماتے ہیں کہ دعا کرتا ہوں مگر ہمیشہ بد گمانی رہتی ہے کہ حضور کے خدّام میں ایک نام کے بیسیوں ہوں گے، کیا یاد ہو گا؟
تحقیق: خط آنے کے وقت تو ضرور دعا خاص طور سے کر لیتا ہوں، اور دوسرے اوقات میں عام دعا کرتا ہوں، کیونکہ خاص طور پر یاد رہنا واقعی دشوار ہے، مگر حق تعالیٰ کو تو اس عام کے خاص افراد معلوم ہیں، وہ سب کے حق میں اس کو واقع فرما سکتے ہیں۔
غلبۂ نوم:
تحقیق: نیند اگر بہت غالب ہو تو اس کو دفع نہ کیا جائے، وظیفہ چھوڑ کر سو رہنا چاہیے، پھر دوسرے وقت پورا کرلیا جائے اور اگر زیادہ غالب نہ ہو تو ہمت کر کے جاگنا چاہیے۔
حکمِ خواب:
تحقیق: بیداری کا اہتمام کیجئے۔ خواب کی فکر چھوڑیئے کہ اوّل متعلّق بہ تشریح ہے جس کا انسان مکلّف ہے اور ثانی متعلّق بہ تکوین ہے جس کا انسان مکلّف نہیں۔
حافظِ قرآن ہو کر حفظِ قرآن میں طبیعت نہ لگنا:
حال: جب قرآن شریف کی طرف رجوع کرتا ہوں تو طبیعت نہیں لگتی اور دل گھبراتا ہے۔
تحقیق: بعض طبائع ایسی ہوتی ہیں کہ ان سے تنہا کام نہیں ہوتا۔ کسی ایسے شخص کو تجویز کر لیں جو قرآن بطورِ استاد کے سنا کرے اور مشورہ دے سکے کہ اتنا یاد کرو اور اتنا سناؤ اور اگر دماغ ضعیف ہو تو طبی علاج بھی کرو۔
وقت مجاہدہ ثانیہ:
حال: پہلے توجّہ الی اللہ زیادہ تھی تقاضائے معصیت بہت مغلوب تھا اور ایک گونہ جمعیت اور سکون اور یکسوئی حاصل تھی، لیکن اب وہ حالت نہیں رہی، تقاضائے معصیت کا بعض وقت غلبہ بہت ہوتا ہے۔
تحقیق: یہ ہے وقتِ مجاہدہ ثانیہ کا بعد فراغِ مجاہدہ اولیٰ کے اور یہی ہے جس کے نہ جاننے سے ایک سالک واصل کو شُبہ رجعت کا ہو جاتا ہے اور بعض اوقات مایوس ہو کر نوبت تعطّل کی آ جاتی ہے، حالانکہ یہ کمال سلوک کے لوازمِ عادیہ سے ہے۔ حقیقت اس کی یہ ہے کہ ابتداء میں جوش کی زیادتی سے امورِ طبعیہ مغلوب ہوجاتے ہیں، توسّط یا انتہا میں جوش کم ہو جانے سے وہ امورِ طبعیہ پھر عَود کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کا زوال نہیں ہوتا، صرف مغلوب ہو گئے تھے اس عود کے وقت پھر مجاہدہ کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اس مجاہدہ میں تَعب و کُشا کُشی کم ہوتی ہے ''لِرُسُوخِ التَّہْذِیْبِ فِي النَّفْسِ'' مگر عزم و توجّہ و ہمت و ضبط کی حاجت ہوتی ہے۔
استعمالِ لذائذ میں گھر کا خیال آنا:
حال: اگر کسی قوت کی چیز کھانے کی نیت کرتا ہوں تو دو خیال پیدا ہوتے ہیں: ایک تو یہ کہ خدا جانے گھر والے کس طرح ہوں۔ اور دوسرے یہ کہ دل میں ندامت ہوتی ہے کہ اللہ کی نعمتیں تو بیشتر سے کھا رہا ہے اس میں تو نے کیا کر دیا، اور آئندہ کیا کرے گا؟
تقویت بھی تداوی میں داخل ہے:
تحقیق: یہ ایک حالتِ محمودہ کا غلبہ اور مبارک حالت ہے عملدر آمد اس میں یہ چاہیے کہ جس چیز سے محض لذّت مقصود ہو، وہاں اس حال کے مقتضٰی پر عمل کیجئے اور جہاں تداوی یا تقویت کی ضرورت ہو، وہاں بہ نسبت حال کے امرِ شرعی مُستحب تداوی پر عمل افضل ہے اور تقویت بھی داخلِ تداوی ہے۔
نماز سے طبیعت کے بھاگنے کا علاج:
حال: نماز سے دل بھاگتا ہے یہاں تک کہ چند وقت کی نماز بھی جاتی رہتی ہے۔
تحقیق: علاج اس کا یہ ہے کہ (1) طبیعت پر زور ڈال کر نفس کی اس بات میں مخالفت کرنا۔ (2) کسی معیّن وقت پر بیٹھ کر مراقبۂ موت کرنا (3) احقر کے ’’مواعظ‘‘ علی التواتُر مطالعہ کرنا۔
علاج بلائے دیر درماں:
حال: ایک شخص نے لکھا کہ اصلاح کی تین صورتیں ہیں: عمل، دعا، عرضِ حال، عمل چونکہ تابع ہے عزم کے اور میں عزم کو اختیاری نہیں سمجھتا، بلکہ اس کو بھی مخلوقِ سبحانہٗ جانتا ہوں، اس لئے عمل تو یوں صفر ہے۔ رہی دعا مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میری دعا کبھی قبول ہوئی ہو، جو دعائیں سراسر نافع ہیں وہ بھی مقبول نہیں ہوئی جیسے دعائے توفیقِ اعمالِ صالحہ وغیرہ۔ اس لئے دعا کرتے ہوئے بجائے غلبۂ رجا قبول کے جھجک طبیعت میں پیدا ہوتی ہے۔ اب رہی عرضِ حالت وہاں یہ خیال ہوتا ہے کہ طبیب کا کام نسخہ بتلانا ہے، ادھر اپنی طبیعت کو ٹٹولتا ہوں تو نسخہ کو اگلتی ہے، اس لئے مجھے کوئی راستہ رہائی کا نظر نہیں آتا۔
تحقیق: (1) آپ میرے کہنے سے تقلیداً ہی معمولاتِ متعلقہ اذکار و اشغال کو جاری رکھئے خواہ دل لگے یا نہ لگے، اثر ہو یا نہ ہو، خواہ دوام ہو سکے یا نہ ہو سکے جس روز بھی ہو جائے اور جس قدر بھی ہو جائے اور ہرگز ہرگز نہ چھوڑیں۔ (2) دعا کی نسبت جو لکھا ہے اس کی مخالفت اعتقاداً آپ پر واجب ہے وہ ضرور نافع ہوتی ہے۔ اپنے دل کو جبراً یوں سمجھایئے کہ موادِ خاصّہ میں جن میں دعا غیر نافع معلوم ہوئی ہے، اگر دعا نہ ہوتی شاید زیادہ بَلا کا سامنا ہوتا دنیویاً اور دیناً۔ نیز حکمِ شرعی ہی سمجھ کر دعا کیجئے کہ امتثالِ امر کا تو اجر ملے گا، بَلا سے مطلوب خاص نہ ملے (3) عرضِ حال کی نسبت یہ ہے کہ نئی حالت کی اطلاع ضروری ہے، باقی جس حالت کی جو تدبیر بتلائی گئی ہو، اور اس میں اہمال ہوا ہو اس کی اطلاع واقعی ضروری نہیں، بلکہ اس کی تدبیر کے استعمال کی ہمت کی کوشش و فکر میں رہنا چاہیے، اس اہتمام سے ایک روز ان شاء اللہ ہمت بھی نصیب ہو جائے گی، ''مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ الْعَامِلُ'' کر کے دیکھنے کی چیز ہے۔ (4) پھر ان امور کے ساتھ گو کسی درجہ میں ہو اگر تفویض و تسلیم الی الحق ہو تو بے حد مُقَوِّیٔ تاثیر ہے اور بدون کسی قدر سعی کے محض تفویض ’’صورتِ تفویض‘‘ ہے، ’’حقیقت تفویض‘‘ نہیں، حدیث میں ہے:''اِعْقِلْهَا وَ تَوَکَّلْ''۔ (ترمذي، رقم الحدیث:2517)
گر توکّل می کنی در کار کن
کسب کُن پس تکیہ بر جبّار کن
(5) ناصحین و مخلصین کی تقریرات ومشاورات کے مقدّمات میں نظر نہ کیا کیجئے، ان کو اپنا خیر خواہ سمجھ کر تقلیداً قبول کر کے عمل شروع کر دیا کیجئے۔ (6) ترتّبِ ثمرہ کے لئے کوئی حد اور مدّت ذہن میں مُعیّن نہ کیجئے، آخرت تک میں ظاہر ہونے کے لئے جو کہ یقینی ہے آمادہ رہئے۔ (7) اس بلائے ’’دیر درماں‘‘، نہ کہ ’’بے درماں‘‘ میں صدہا حکمتیں ہیں جو عنقریب معلوم ہونگی کہ کیسے کیسے اخلاقِ رذیلہ کا اس سے علاج ہو گیا ہو گا۔ (8) اور شرمانے کی کوئی بات نہیں ہے میں نے حقیر نہیں سمجھا، آپ کی طبیعت ہلکی ہو گئی ہو گی مجھ کو دعا کی طرف زیادہ توجّہ ہو گئی، اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ اب دونوں طرف کی دعا سے جلدی کام بن جائے گا اب میں خاص توجّہ و اِلْحاح سے دعا شروع کروں گا اور کر بھی دی۔
کوئے نومیدی مرو امیدهاست
سوئے تاریکی مرو خورشیدهاست
طریقِ نجات قلب پر معاصی:
حال: قلب اس قدر گندہ ہے جس کی کچھ انتہاء نہیں، ہر وقت خیالاتِ فاسدہ واہمہ جمع ہوتے ہیں، ذکر پر نباہ نہیں ہوتا، بد نگاہی کا مرض ستاتا ہے قلب بالکل مکدّر رہتا ہے۔
تحقیق: یہ تمام حالات دو امر کی دلیل ہیں جو کہ اعلیٰ مقاصد سے ہیں: ایک اپنی بد حالی کا احساس، دوسرا خوش حالی کی فکر۔ چار امر کو اپنا معمول کر لو پھر عدمِ حرمان کا میرا ذمہ (1) ذکر کے متعلق جو معمول مقرر کرو گو قلیل ہو تو اس کو پورا کر لیا کرو خواہ دل سے یا بے دلی سے۔ (2) معاصی سے نفس کو ہمت کے ساتھ روکو اور کوتاہی پر فوراً استغفار کرو۔ (3) ماضی و مستقبل کو مت سوچو، نہ نفع کا قصد کرو۔ (4) حالات سے وقتاً فوقتاً اطلاع دو، گو وہ اطلاع کے قابل نہ ہوں۔ (5) تمہارے اعضائے رئیسہ میں حرارت کا اثر ہے علاج طبی بھی ضرور کرو۔
وظیفہ میں دل لگنے اور تلاوت میں نہ لگنے کی وجہ:
حال: قرآن شریف کے پڑھنے میں دل نہیں لگتا اور وظیفہ میں لگتا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟
تحقیق: وظیفہ میں تو ایک ہی چیز بار بار پڑھی جاتی ہے، طبیعت پر زور نہیں پڑتا، آسانی کی وجہ سے دل لگتا ہے اور قرآن میں مختلف کلمات مختلف آیات پڑھی جاتی ہیں، طبیعت پر زور پڑتا ہے، دشواری کی وجہ سے گرانی معلوم ہوتی ہے، سو یہ طبعی بات ہے کوئی فکر کی بات نہیں۔ مگر جس قدر بھی ہو سکے کرتے رہنا چاہیے، بعد عادت کے یہ دشواری جاتی رہے گی ان شاء اللہ تعالیٰ اور دلچسپی بھی پیدا ہوجائے گی۔
ذوق مطلوب نہیں:
تحقیق: ذوق مطلوب نہیں کیونکہ وہ ایک حال ہے نہ کہ مقام اور مقام مطلوب ہیں، نہ کہ احوال۔ اور فرق دونوں میں اختیاری اور غیر اختیاری ہونے کا ہے اور اہلِ فن کا قول ہے: ''اَلْمَقَامَاتُ مُکَاسَبٌ وَ الْأَحْوَالُ مَوَاھِبُ'' حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے طالبِ لذت طالبِ حق نہیں ہے، کام میں لگنا چاہیے ثمرہ پر نظر نہ چاہیے۔
شوق مطلوب نہیں:
تحقیق: شوق مطلوب ہی نہیں عمل مطلوب ہے۔ بلکہ بِلا شوق ہی بوجّۂ زیاده تعب کے زیادہ اجر ہے۔ یہ نکتہ عمر بھر پلے میں باندھ لینے کے قابل ہے۔
تہجد میں جی لگنے اور فرائض میں نہ لگنے کی وجہ:
سوال: یہ شیطانی دھوکہ تو نہیں کہ فرائض میں جی کم لگے اور تہجد میں زیادہ لگے؟
جواب: اس میں دھوکہ نہیں، طبعی بات ہے کہ جو کام اپنے ذمہ نہ ہو اس کو کر کے زیادہ خوشی ہوتی ہے کہ ہم کو بڑی دولت نصیب ہوئی کہ جو کام ہمارے ذمہ نہ تھا اس کی توفیق ہوئی۔ اور جو کام ذمہ ہوتا ہے اس میں سمجھتا ہے کہ یہ تو کرنا ضروری ہے کون سا بڑا کمال کیا۔ سو امورِ طبعیہ میں انسان معذور ہے۔
رقتِ قلبی کا نہ ہونا قساوتِ قلبی نہیں:
حال: قساوتِ قلبی کی یہ حالت ہے کہ ہر چند چاہتا ہوں کہ بدرگاہِ رب العزت گریہ و زاری کروں مگر آنکھ سے ایک قطرہ نہیں نکلتا۔
تحقیق: یہ قساوت نہیں، مبنیٰ گریہ کا رقّتِ قلبی ہے جو کہ غیر اختیاری ہے اور غیر اختیاری مطلوب نہیں، قساوت یہ ہے کہ معصیت کے بعد افسوس نہ ہو۔
یہ بھی ایک قسم کا دوام ہے کہ کبھی ہو کبھی نہ ہو:
حال: خدا جانے کیا سبب ہے کہ جب کبھی کام پابندی سے کرنا چاہتا ہوں تو دو چار روز کے بعد وحشت ہونے لگتی ہے، اور کام چھوڑ بیٹھتا ہوں۔
تحقیق: بعض طبائع کا یہ جبلِّی خاصّہ ہے، پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ ایسے شخص کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ بھی ایک قسم کا دوام ہے کہ کبھی ہو اور کبھی نہ ہو، اسی طرح کرتے رہنے سے دوامِ حقیقی میسّر ہو جاتا ہے، حاصل یہ ہے کہ وہ گو دوام نہیں مگر بحکمِ دوام ہے، اثر اور برکت ہیں۔
احوالِ غیر اختیاریہ دائم نہیں ہوتے:
تحقیق: احوالِ غیر اختیاریہ دائم نہیں ہوتے اور اگر دائم ہوں تو ان میں لذت نہ رہے اور اکثر اس کے مصالح اس لذت پر مبنی ہیں۔
توجہ الی الکیفیات و الانوار:
تحقیق: قصداً انوار و کیفیات کی طرف توجہ نہ کرنا چاہیے لیکن اس کی بھی ضرورت نہیں کہ اس کے دفع کا اہتمام شدید کیا جائے۔ غرض نہ استحضار اس کا کیا جائے، نہ استنکار کیا جائے کہ دونوں میں التفات الی غیر المقصود ہے، ایک میں اثباتاً ایک میں نفیاً۔ اور یہی التفات الی الغیر حجاب ہے۔
بشارت پر رونا اقرب الی سلامۃ الفطرت ہے:
تحقیق: بشارت کی آیتوں پر رونا آنا زیادہ اقرب الی سلامۃ الفطرت ہے کہ اس سے جوش زیادہ ہوتا ہے اور جوش سے رونا آتا ہے۔
غیر اختیاری کے درپے نہ ہونا چاہیے:
تحقیق: غیر اختیاری امور کا کبھی قصد نہ کریں اس کا انجام پریشانی ہے، جو ہو جائے خدا تعالیٰ کا شکر کریں اور اصلی کام میں لگیں۔
ذوقی حالت کے ابقاء کی فکر پریشانی کی بنیاد ہے:
تحقیق: ذوقی حالت کے ابقاء یا زیادت کی فکر کرنا ہی پریشانی کی بنیاد ہے، کیونکہ وہ غیر اختیاری ہے اور غیر اختیاری کے ساتھ قصد کا تعلق تمنّع اور ممتنع کی فکر یقیناً پریشانی۔
قضا نمازوں کی ادائیگی کی سہل ترکیب:
حال: قضا نمازوں کی ادائیگی میں مشغول ہوتا ہوں تو دل بے حد تنگ ہوتا ہے۔
تحقیق: تھوڑا تھوڑا قضا کرتے رہیں تو ان شاء اللہ از خود تنگی رفع ہوجائے گی۔ اگر یہ نہ ہو سکے تو ایک دن کے ناغہ سے قضا شروع کریں اور بہت سہل ہو جائے گا اور کام چستی سے نہ ہو، سستی ہی سے سہی جس طرح کر لیا جائے۔
تلوین مقدمۂ تمکین ہے:
تحقیق: احوال علی سبیلِ التعاقُب وارد ہوتے ہیں، یہاں تک کہ ایک روز تمکین میسّر ہو جاتی ہے۔ تلوین مقدمۂِ تمکین ہے، مقدمہ سے نہ گھبرانا چاہیے کہ یہی سفیر مقصود ہے۔
معمولات کے ناغہ ہو جانے کی حکمتیں:
حال: تمنا یہ ہے کہ کبھی معمولات میں ناغہ نہ ہو بعض اُفتاد ایسی پڑجاتی ہے کہ ناغہ ہی ہو جاتا ہے۔
تحقیق: کچھ مضائقہ نہیں اس میں بھی حکمتیں ہیں، اس میں اظہار ہے اپنی بے چارگی کا، اس میں قطع ہے دعوٰی کا، اس میں علاج ہے عجب کا۔ البتہ حتی الامکان تساہل خود نہ ہو اور ناغہ کا عوض بھی کر دیا جائے اگر تام نہ ہو غیر تام سہی۔
شیخ سے استفادہ کی شرط حبِ عقلی ہے:
تحقیق: شیخ سے استفادہ کی شرط حُبِ عقلی ہے، نہ کہ محبتِ طبعی۔
آثار غلبۂ وحشت:
تحقیق: اگر دنیا کے مٹنے اور خدا کی طرف جانے کا تقاضہ ہو تو یہ وحشت عن الدنیا ہے، مگر اس کا ایک لون یہ بھی ہے کہ وحشت فی الدین بھی ہونے لگتی ہے، چونکہ تحقق اس دین کا بھی دنیا میں ہے پس اس وحشت کو دین سے اقتران ہو جاتا ہے۔ جیسا کسی کو غم ہوا اور وہ غم نماز میں بھی رہے تو نماز اس غم کا ظرف تو ہے مگر خود وہ غم نماز سے تو نہیں۔
ضُعفِ قلب کوئی مرض باطنی و اخلاقی نہیں:
تحقیق: ضعفِ قلب کوئی مرض باطنی و اخلاقی نہیں، بلکہ مرضِ طبی ہونے کے سبب خود موجبِ اجر ہے اور بعض آثار کے اعتبار سے نافعِ باطن ہے جب کہ اس سے پستی اور شکستگی پیدا ہو جو کہ اعظم مقاصد طریق سے ہے۔
ہر کجا پستی ست آب آنجا رود
ہر کجا مشکل جواب آنجا رود
معیارِ اعظم مرضی و نا مرضی کا شرع ہے، اور اس پر عمل اختیاری ہے اور اس میں ضعفاء کی با ضابطہ اعانت بھی ہے۔
تکدّر بعد الجماع:
حال: بعض اوقات بعد الفراغ از جماع طبیعت مکدّر ہوجاتی ہے، جیسے کسی معصیت کا ارتکاب ہو جانے پر انفعال ہوتا ہے۔
تحقیق: یہ ایک حال ہے کہ توجہ الی غیر الحق بالمحبت سے طبعاً انقباض ہوتا ہے امورِ طبعیہ مذموم نہیں، یہ از خود رفع ہو جائے گا، کبھی اثر ضُعفِ جسمانی کا بھی ہوتا ہے۔
اعمالِ صالحہ پر خوشی عقلی کافی ہے:
تحقیق: اعمال صالحہ پر خوشی عقلی کافی ہے اور وہی مطلوب ہے۔ طبعی خوشی وابستہ ہے اسباب متعددہ کے ساتھ۔ ایک صحتِ بدنی اعتدالِ مزاج بھی ہے اس کے نہ ہونے سے خوشی نہیں ہوتی جو قابلِ التفات نہیں۔
اجازتِ شیخ دلیلِ کمال نہیں بلکہ دلیلِ مناسبت ہے:
حال : از تحریر مجازیت خود شرمم می آید خودبخود خیال کما می آید۔
تحقیق: ایں اعتقاد کمال نیست کہ مضر باشد وسوسہ است کہ مضر نیست۔ در چنیں اوقات استحضارِ عیوب کنند و بدل آرند کہ اجازت دلیل کمال نیست، بلکہ دلیلِ مناسبت است۔ چنانچہ دستارِ فضیلت بعد فراغ کتب می بندند اگرچہ عالم کامل نباشد، صرف مناسبت مدار ایں رسم باشد، کمال بضراسخ دوراست۔
بیوی کے مرنے کی تمنّا و خیال کا علاج:
حال: اپنے گھر کے متعلق بعض وقت یہ خیال ہوتا ہے کہ اگر مر جائے تو میں مولانا کے پاس جا کر خوب ذکر کیا کرو۔ اس سے میرے ذمہ گناہ تو نہیں ہوا؟
تحقیق: اس سرسری خیال سے گناہ نہیں ہوا، ہاں اگر دھیان باندھ لیا جاتا کہ یہ مر ہی جائے تو اس میں گناہ ہے اگر تجربہ سے یہ شخص صاحبِ ہمت و تصرف نہیں تو صرف مسلمان کی بد خواہی کا، ورنہ ہلاک و قتل کا بھی، اس لئے ایسے خیال کے وقت یوں مناسب ہے کہ فوراً اُدھر سے اپنا خیال ہٹا لے اور زبان سے یا خیال سے دعا کرے کہ الٰہی سب کی خیر۔
طرف عمل بوقت خیال ترک دنیا:
حال: اکثر یہی جی میں آتا ہے کہ سب کام چھوڑ چھاڑ کر ایک گوشۂ تنہائی میں بیٹھ جاؤں۔
تحقیق: حَسب الترک بعض اعتبار سے بعض اوقات میں ترک سے بھی افضل ہے کہ ترک میں بعض اوقات خطرہ بھی ہے جب کہ ضعفِ قلب سے تشویش کا احتمال ہو۔ بخلاف حسبِ ترک کے کہ محض بے خطر ہے اور بحکم ''نِیَّةُ الْمُؤْمِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِہٖ'' (طبرانی کبیر، رقم الحدیث:5942) اجر و اثر میں اس کا متقارب، بس فی الحال اس پر اکتفا کیا جائے کہ جب وقت آئے گا خود غیب سے اسکے سامان مہیا ہو جائیں گے۔ مجموعۂ حالتین میں یہ مضمون نقد حال ہونا چاہیے۔
چونکہ بر میخت به بند و بستہ باش
چوں کشا چابک و برجسته باش
طرزِ عمل بوقتِ طیرانِ ہیبت:
تحقیق: حالتِ ہیبت احوالِ رفیعہ میں سے ہے، جب تک اس کی خود بخود تعدیل نہ ہوجائے اسی حال کا اتباع کیا جائے۔
کسی عمل نیک پر اپنی بڑائی کا خیال آنا:
حال: کوئی پسندیدہ کام کیا جائے تو طبیعت میں بڑائی محسوس کرتا ہوں۔
تحقیق: جو خیال اور اثر غیر اختیاری ہو اور اعتقاداً اس کو بُرا سمجھے اور اس کے مقتضٰی پر عمل بھی نہ کرے، مثلاً زبان سے فخر کرے نہ قصداً اپنے کمال کا استحضار کرے تو کچھ ملامت نہیں۔ اور اگر اس کے ساتھ ہی اپنے عیوب اور نقائص کا استحضار بھی کر لے اور سوچ لے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ کمال مقبول نہ ہوا تو ہیچ ہے، تو اس عمل سے اجر ملے گا؟ اور اسی استحضار کا تکرار ان خیالات کا علاج ہے، جس سے بتدریج مُضمحل ہو کر کالعدم ہو جاتا ہے۔
امورِ اختیاریہ کا علاج کلی:
تحقیق: غیر اختیاری امور کے لئے صرف دعا طریق ہے۔
امورِ غیر اختیاریہ سب محمود ہیں:
تحقیق: امورِ غیر اختیاریہ میں غیر محمود کا تحقّق ہی نہیں۔
رغبت و نفرتِ طبعی کا حکم اور اس کا علاج:
حال: طاعت کی طرف نہ رغبت ہوتی ہے، اور نہ قصدی استحضار، نہ معاصی سے طبعی نفرت ہے۔
تحقیق: رغبت اور نفرتِ طبعی غیر مطلوب ہے، رغبت اور نفرت اعتقادی کافی ہے یہی مامور بہ ہے اس کے مقتضٰی پر بار بار عمل کرنے سے اکثر طبعی رغبت اور نفرت بھی ہو جاتی ہے، ا گر ہو تو بھی مضر نہیں۔
بشاشت طاعت سے عدمِ اخلاص کا شُبہ غلط ہے:
حال: بعض لوگوں نے حفظ کلام اللہ پر تعریف کی اس سے ایک قسم کی بشاشت نفس میں پائی گئی، اس وجہ سے مجھے اپنے خلوص نیت میں شُبہ پڑگیا ہے۔ ارادہ ہے کہ حفظ کا کام تا خلوصِ نیت ملتوی کردوں۔
تحقیق: ہرگز ایسا نہ کیجئے، بشاشت سے شُبہ نیت میں عدمِ خلوص کا خود یہی غلط ہے۔ ورنہ شیطان کو ہر عمل صالح کے چھڑا دینے کا ایک اچھا ذریعہ ہاتھ آئے گا، کہ لوگوں سے تعریف کرا دی اور آپ کو شبہ میں ڈال دیا۔ بزرگوں نے فرمایا ہے کہ جس طرح عمل لِلخَلق ’’ریا‘‘ ہے اسی طرح ترکِ عمل لِلخَلق ’’ریا‘‘ ہے۔
امامت سے کِبر و عُجب کا شبہ:
حال: ایک قاری عالِم نے ایک جاہل کے بجائے امامت کرنا شروع کردی تھی، اس پر ان کو خیال ہوا کہ اس میں تو اپنے کو اس سے اچھا سمجھنا پایا جاتا ہے۔
تحقیق: اپنے کو اچھا سمجھنا لازم نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو دولت علم و تصحیحِ قرآن کی عطا فرمائی ہے، اس عطیہ کو اس عطیہ سے جو اس نے عطا فرمایا ہے افضل سمجھنا لازم آتا ہے سو اس میں کیا حرج ہے اور چونکہ وہ اپنی ذاتی صفت نہیں اس لئے اپنے کو اچھا سمجھنے کا لزوم بھی نہیں۔
بغض فی اللہ کی حدت کا علاج:
حال: جب کوئی قضیۂ بد دین سے اس کی بد دینی کی وجہ سے ہو جاتا ہے تو سخت غیظ و غضب، طیش و حدّت سے ہوتا ہے اور دل چاہتا ہے کہ ظالم بد دین کا قلع قمع کر دیا جائے۔
تحقیق: یہ بُغض فی اللہ عین مطلوب ہے اور اثر غیر اختیاری ہے، افعال میں تعدیل کا اہتمام رکھنا چاہیے۔
موت سے خوف کی وجہ:
حال: میرے موضع میں طاعون ہے موت سے سخت خوف کھا رہا ہوں اس سے صاف اپنے ضعف ایمان کی علامت معلوم ہوتی ہے۔
تحقیق: ہرگز نہیں، بلکہ یہ ایک امرِ طبعی ہے، میں نے حضرت مولانا فضل الرحمٰن صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے سنا ہے جن کے کمالات پر اتفاق ہے ایک بار فرماتے تھے کہ مجھ کو بہت ڈر موت سے لگتا ہے اور وہ جو حدیث میں آیا ہے ''مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللہِ…'' (مسند احمد، رقم الحدیث:12047) وہ عین موت کے قرب کی حالت ہے جو سب مسلمانوں کو نصیب ہوتی ہے۔ اور اولیاء اللہ سے جو اشتیاقِ موت منقول ہے وہ بھی ایک حالت ہے جو غیر اختیاری ہے جیسے کہ خوف غیر اختیاری ہے اور امورِ اختیاریہ کی نہ تحصیل مامور بہ ہے نہ ازالہ، بالکل تسلّی رکھیں۔
کیفیت مرکب باُنس و ضُعف کا علاج:
حال: معمولات کی طرف طبیعت بالکل راغب نہیں ہوتی، بجُز مسجد کے طبیعت کہیں مانوس نہیں ہوتی۔ دوسروں کا ذکر سن سن کر بے حد مسرّت ہوتی ہے۔
تحقیق: یہ کیفیت مرکب ہے اُنْس و ضُعف سے، بس دل لگنے کا انتظار نہ کیا جائے خود بھی ذکر کرنا چاہیے۔ گو قلیل سہی اور گو جی نہ لگے اور ’’تربیۃ السالک‘‘ کا مطالعہ ضروری ہے۔
سالک کی یأس کا قدرتی علاج:
حال: دو روز کی نماز فجر و عشاء غفلت کی وجہ سے قضا ہو گئی جس کی وجہ سے بارگاہِ الٰہی میں بہت رویا، دوسری رات کو خواب میں جواب ملتا ہے کہ تیرے تزکیۂ باطن اور ترقیٔ مراتب کے لئے ایسا کیا گیا۔
تحقیق: یہ جو کچھ وارد ہوا انکشاف ہے بعض مصالح و حِکَم و اسرارِ بعض زلّات کا، جو بلا اختیار واقع ہو جائیں۔ جس سے مقصود سالک کی یأس کا علاج ہے، بوجہ اس کے کہ یأس سے تعطُّل اعمال میں اور کفران احوال میں پیدا ہونا محتمل ہے۔ بس اس نعمت کے انکشاف پر شکر کرنا چاہیے اور معنی اس کے رخصت فی التساہل نہ سمجھنا چاہیے۔
ناغۂ تہجد کے غم کا علاج:
حال: ''سَدِّدُوْا وَ قَارِبُوْا'' (بخاری، رقم الحدیث:6464) پر عمل کی غرض سے دوامِ تہجد و اذکار کا ارادہ رکھتا ہوں، لیکن اکثر ہفتہ میں دو روز آنکھ ہی نہیں کھلتی۔ پھر دن میں ہمت قضا کی ہوتی نہیں، اس کا بہت ملال رہتا ہے۔
تحقیق: جس ذاتِ مقدّسہ کا ارشاد ہے۔ ''سَدِّدُوْا وَ قَارِبُوْا'' اسی کا ارشاد ہے ''لَا تَفْرِیْطَ فِي النَّوْمِ إِنَّمَا التَّفْرِیْطُ فِي الْیَقَظَةِ'' (سنن ترمذي، رقم الحديث: 177) لہٰذا عقلی غم تو ہونا نہ چاہیے۔ رہا طبعی، سو وہ خود مجاہدہ ہے اس کے انسداد کی تدبیر کی کیا ضرورت؟ البتہ قضا امرِ اختیاری ہے اس کی کوتاہی پر عقلی غم عین مطلوب ہے۔ اس کوتاہی کا انسداد یہ ہے کہ بعدِ نماز عشاء معمولات ادا کر لیں اور اگر آنکھ کھلے قدرِ مقرر سہی۔
علامت و کسل علالت مُبقی اجر و برکت ہے:
تحقیق: علالت یا کسل جو علالت سے ہو عذر ہے (عدمِ ادائیگی معمولات کا) جو بروئے نص و حدیث مبقی اجر و برکت ہے۔
حق تعالیٰ کے سعید و شقی بنانے پر عدمِ نا گواری کا علاج:
حال: خدا تعالیٰ شانہٗ کے سعید و شقی بنانے پر بالکل نا گواری نہیں ہوتی، کیونکہ اس کا علم کسی چیز کی اہلیت کے خلاف ممتنع اور مُحال ہے۔
تحقیق: مگر باوجود اس کے حق تعالیٰ سے سعادت کا سوال کرنا چاہیے کہ مامور بہ ہے اور دعا کر کے امیدِ قبول رکھنا چاہیے۔ اور ان سب کو اس کی علامت سمجھنا چاہیے کہ اس کا علم ان شاء اللہ تعالیٰ ہماری سعادت کے ساتھ متعلق ہوا ہے۔
کَلال فی الذکر:
حال: کثرتِ ذکر و تلاوت سے دماغ اور زبان دونوں میں کَلال پیدا ہو جاتا ہے۔
تحقیق: آرام لے لینا مناسب ہے، کیونکہ دوسرا مستقل شغل مثلًا فکر بھی اس کلال کا موجب ہو گا۔ اور یہ آرام گو صورتًا غفلت ہے مگر چونکہ مقصود اس سے تہیءه لِلذکر ہے اس لئے بحکمِ ذکر ہے، نومِ عَالِم کو عبادت اسی وجہ سے کہا گیا ہے۔
منام میں بد نفس کی حالت کی بشارت:
حال: (1) خواب میں ایک لڑکی نظر آئی میرا نفس بد ہوا اور جماع کی تیاری کے وقت انزال قبل از دخول ہوا اور غسل کر لیا۔ (2) مہمان خانہ کی تالی کی تلاش میں اس قدر وقت صرف ہوا کہ طلوع شمس ہو گیا اور نماز فجر قضا ہو گئی۔
تحقیق: عُرفاء کے کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اوقات کوئی معصیت کسی شخص کے لئے مقدر ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اس معصیت کو بیداری سے منام میں منتقل کردیتے ہیں۔ سو ایسے خواب سے خوش ہونا چاہیے کہ یَقظ میں اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا اور منام میں مکلّف ہی نہیں ہوتا۔
حلال محبت کا انہماک اگر غیر اختیاری ہو تو مُضر نہیں:
تحقیق: حلال محبت کا انہماک اگر غیر اختیاری ہو اور اس سے اعمالِ ضروریہ دینیہ میں خلل نہ آئے ذرا بھی دین میں مضر نہیں۔ نہ اس سے حق تعالیٰ کی محبت میں کمی ہوتی۔ اور راز اس میں یہ ہے کہ یہ محبت طبعی ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت عقلی، تو دونوں ایک قلب میں جمع ہو سکتی ہیں۔ اور اس انہماک سے فکر و غم میں پڑنا دلیل اس کی ہے کہ حق تعالیٰ کی محبت قلب میں ہے۔
شیخ کی مجلس کی حاضری کا لُطف غیب میں نہ پانا:
حال: وہ بات جو دربارِ عالی کی حاضری میں اپنی طبیعت کے اندر پاتا تھا، اس میں بہت کمی پاتا ہوں۔
تحقیق: یہ مُضر نہیں۔ وہ کمی صرف لطف کی ہے نفع کی نہیں، جیسے غذا کھانے کے وقت جو مزہ منہ میں آتا ہے بعد میں نہیں رہتا، مگر نفع غذا کا زائل نہیں ہوتا۔
اپنے کو بد ترین خلائق سمجھنا:
حال: دل میں یہ خطرہ آتا ہے کہ تو بد ترین خلائق ہے تیرا کوئی نیک کام کسی قابل نہیں ہے۔
تحقیق: یہ خطرہ تو بحرِ معرفت کا ایک قطرہ ہے، خدا تعالیٰ اس کو دریا کر دے۔
گرانی طبعی مُوجبِ اجر ہے:
حال: چلتے پھرتے چونکہ ذکر میں مشغول رہتا ہوں اس لئے اسے چھوڑ کر نہ کسی کو سلام کرنے کو جی چاہتا ہے نہ جواب سلام دینے کا۔
تحقیق: یہ گرانی طبعی ہے، لیکن جب تک شعور ہو ادائے واجب ضروری ہے اور گرانی سے اجر بڑھتا ہے۔ ''مَأْخَذُہٗ: حَدِیْثُ إِسْبَاغِ الْوُضُوْءِ عَلَی الْمَکَارِہِ'' (صحيح مسلم، رقم الحديث: 587)
لُقطہ بھی نعمت ہے:
حال: تنگیٔ رزق کے متعلق گریہ و زاری کے ساتھ حق تعالیٰ سے دعا مانگی، اس کے بعد اپنی چادر کے اوپر دو نوٹ پانچ روپیہ کے پائے واقعہ کی تحقیق کرتا پھرا کہیں پتہ نہیں چلا۔ اب کیا کروں؟
تحقیق: واقع کی حقیقت کے درپے مت ہو کہ بے ضرورت ہے، بلکہ مُضر ہے۔ احکام شرعیہ پر عمل کرو، وہ حکم یہ ہے کہ جس مال کا مالک نہ معلوم ہو، غریب آدمی کو اس کا صَرف کرنا جائز ہے تم صرف کرو اور کسی سے ذکر مت کرو اور چونکہ لُقطہ بھی خدا تعالیٰ کی نعمت ہے، اس لئے اس کا شکر کرو اور دعا ہمیشہ مانگتے رہو۔
فرق مابین طمانیتِ قلب و سکینتِ روحی و بے اطمینانی و اضطرابِ طبعی:
حال: رنج و راحت، خوشی و غم کی ہر شئ سے بے حد متاثر ہوتا ہوں، دین و دنیا کے ہر کام میں گھبرایا سا رہتا ہوں، ہر بات میں جلد بازی و اضطراب رہتا ہے، طمانیتِ قلب و سکینت جس کو کہا جاتا ہے اس سے بالکل محروم ہوں، گو وقت کافی موجود ہو کوئی خاص کام بھی نہ ہو، لیکن نماز و ذکر وظیفہ وغیرہ اس طرح عجلت کے ساتھ ختم کر دیتا ہوں کہ جیسے کوئی آفت آرہی ہے توجہ و یکسوئی کا نام نہیں، حدیثِ نفس اور وساوس و خطرات کا ہر وقت ہجوم رہتا ہے اور اس میں نفس لذت بھی لیتا ہے۔ ایک حصہ تو ضُعفِ قلب و جسمانی کمزوری کا بھی اس مرض میں شریک معلوم ہوتا ہے، لیکن بہت کچھ یہ چیزیں ’’سیه کاران گذشته‘‘ زندگی کا نتیجہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے بہتری باتوں سے توبہ کی توفیق عطا فرمائی، لیکن قلب کی راحت و طمانیت سے محرومی بدستور ہے، بس ایک علاج یہی سمجھ میں آتا ہے کہ کچھ دنوں کے لئے حضور کے آستانہ پر لا ڈالوں۔
تحقیق: آپ مذہب و فلسفہ کو کیوں مخلوط کرنا چاہتے ہیں، مذہب نے اعمال و عقائد کا مکلّف بنایا ہے۔ اصلاحی طمانیت و سکینہ و توجہ و یکسوئی نہ مقصود ہے، نہ اس کے انتظار کی اجازت ہے، نہ اضطراب و حدیثِ نفس و خطرات مُضر مقصود ہیں، نہ ان کے ازالہ کا امر ہے۔ یہ سب کیفیاتِ نفسانیہ طبعیہ ہیں جن کا وجدان و فقدان کی تحقیق اور ان کے اسباب کی تدقیق فلسفی بحث ہے۔ البتہ یہی چیزیں (یعنی طمانیت و سکینہ و یکسوئی کبھی روح کی بھی صفات ہوتی ہیں جن میں مادہ کا اشتراک نہیں ہوتا وہ بے شک مطلوب ہیں اور طاعات پر ضرور مرتّب ہوجاتی ہیں، گو! تدریجاً سہی، لیکن ان کا رنگ ان طبعی کیفیّات سے جُدا گانہ ہوتا ہے اور وہ روحی اطمینان اس طبعی بے اطمینانی کے ساتھ اور روحی سکون اس طبعی اضطراب کے ساتھ جمع ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے آپ میں بھی جمع ہیں۔ دلیل: اگر خدا کی راہ میں آپ کی جان کا مطالبہ ہونے لگے اور مطالبہ کے بجا ہونے میں کوئی اجتہادی شُبہ بھی نہ رہے کیا اس وقت آپ کی رائے میں کچھ تزاحم پیدا ہو گا، یا آپ اپنے لئے قطعی فیصلہ کر لیں گے کہ جان حاضر کر دینا چاہیے؟ گو وسوسہ کے درجہ میں اس صورت میں بعض مصالح کا فوت ہونا بھی سامنے آجائے، مگر وہ آپ کے اس عزم کو ضعیف نہیں کر سکتا، یہ ہے وہ اطمینان جو روح کی صفت ہے اور بفضلہٖ تعالیٰ حاصل ہے۔ البتہ جن کیفیات کو آپ نے مقصود لکھا ہے اور ان کے اضداد کو وجود، ان کا تعلق مادی راحت اور مادی سکون اور مادی کلفت سے ضرور ہے۔ تو اس کا معالجہ طبی مسئلہ ہے دینی مسئلہ نہیں۔ اور نہ ان کیفیاتِ طبعیہ میں معاصی یا طاعات کو کچھ دخل ہے۔ بہت ممکن ہے اور واقع بھی ہے کہ ایک مطیع کو یہ گوارا کیفیات حاصل نہ ہوں اور ایک عاصی کو یا کہ کافر کو حاصل ہوں۔ جب مقصود اور غیر مقصود میں تمیز حاصل ہو گیا تو غیر مقصود کے لئے کیوں سفر کیا جائے؟
طبعی غم و کسبی غم کی تحقیق اور اس کی حکمت:
تحقیق: فرمایا کہ ایک بات میں لاکھوں کی بتاتا ہوں، وہ یہ کہ طبعی غم اور ہے اور کسبی غم اور۔ اور طبعی غم کی مدت بہت کم ہے، وہ تو خود بخود بہت جلد زائل ہو جاتا ہے، ہاں! کسبی غم جو خود سوچ سوچ کر پیدا کیا جاتا ہے اور تذکرہ کر کے بڑھایا جاتا ہے وہ البتہ اشد ہے، مگر اس کا حدوث بقا اختیاری ہے سوچنا موقوف کرو، تذکرہ نہ کرو۔ تو کسبی غم پاس بھی نہ آئے گا، رہا طبعی غم! وہ البتہ غیر اختیاری ہے مگر وہ نہ تحمّل سے باہر ہے نہ اس کی مدت زیادہ ہے۔ شریعت نے تو ان کی مدّت بس تین روز رکھی ہے، چنانچہ تعزیت حاضرینِ بلد کی تین دن کے بعد نا جائز ہے۔ پھر اس کی حکمت میں غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ حق تعالیٰ نے یہ غم بھی محض رحمت کی وجہ سے دیا ہے، یعنی ایک دولت دینا چاہتے ہیں جس کا آلہ غم کو بتایا ہے، غم کی حکمت یہ ہے کہ انسان متمدّن ہے اور تمدّن موقوف ہے ہمدردی پر اور ہمدردی موقوف ہے رقّتِ قلب پر، پس رقّت کو تازہ کرنے کے لئے بعض دفعہ اسبابِ رقّت یعنی غم وغیرہ نازل ہوتے ہیں اگر اس کی تجدید نہ کی جائے تو یہ قوت بالکل معطل ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اطّباء نے تصریح کی ہے جس قوت سے کام نہ لیا جائے وہ بے کار ہو جاتی ہے۔ بہرحال غم کی حکمت یہ ہے کہ اس سے قلب کی رقّت اور صفتِ رحمت تازہ ہو جاتی ہے اور یہ بڑی دولت ہے جو دین میں بھی کار آمد ہے اور دنیا میں بھی۔
خوف اور حزن کے رفع کا طریقہ:
تحقیق: خوف اور حزن رفع کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کا تذکرہ نہ کرے اس کا سبق روز مرّہ نہ پڑھا کرے۔ دوسرے یہ کہ اپنے ذہن کو اس طرف سے ہٹانے کی کوشش کرے اور کسی بات کی طرف لگائے۔
خُلقِ رذیل کی حد:
تحقیق: اگر کسی میں خُلقِ رذیل ہو، مگر اس سے معصیت صادر نہ ہو تو خُلقِ رذیل ہی نہیں۔
غم کے مُضر ہونے کی وجوہ:
تحقیق: غم فی نفسہٖ مذموم یا مضر ہوتا تو حضرات انبیاء علیہم السلام کے لئے غم تجویز نہ ہوتا۔ پس غم فی نفسہٖ مضر نہیں، بلکہ ''إِفْضَاءٌ إِلٰی إِخْلَالِ الدِّیْنِ'' کی وجہ سے مُضر ہے، علاوہ اس کے غم سے دنیا کا ضرر بہت ہوتا ہے، جیسے ضُعف یا مرض۔
غم کی حکمت:
تحقیق: بڑی حکمت غم کی یہ ہے کہ غم سے شکستگی کی شان پیدا ہوتی ہے جس سے تکبّر و غرور وغیرہ کا علاج ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت حکمتیں ہیں۔
بچہ کے مرنے پر کیا دستور العمل ہونا چاہیے:
تحقیق: جب کسی کا بچہ مر جائے تو بجائے اس کے یہ سوچیں کہ ہائے! وہ بچہ میرے پاس کھیلتا تھا، مجھے لپٹتا تھا، اب میری گود سے الگ ہو گیا، نہ معلوم کس حال میں ہو گا؟ نہ معلوم کس نے پکڑا ہو گا؟ بلکہ اسبابِ تسلّی کو سوچا کریں، مثلًا: یہی کہ حق تعالیٰ کے افعال حکمت سے خالی نہیں ہوتے اس میں ضرور حکمت ہے، اور یہ کہ موت مسلمان کے لئے باعثِ راحت ہے ہر حال میں وغیرہ وغیرہ۔ لوگوں کو اولاد کے بڑا ہونے کی خوشی محض اس لئے ہوتی ہے کہ ان کا نفس یوں ہی چاہتا ہے، ورنہ ان کو کیا خبر! کہ بڑے ہو کر باعثِ راحتِ والدین ہو گا یا وبالِ جان ہو گا، والدین کو آخرت میں کچھ نفع دے گا یا خود ہی سہارے کا محتاج ہو گا، بچپن میں مرنے والے بچے بہت زیادہ کار آمد ہیں، ان میں یہ احتمال ہی نہیں کہ دیکھئے آخرت میں یہ خود کس حال میں ہوں، کیونکہ غیر مکلّف تو یقیناً مغفور لہ ہے وہ آخرت میں والدین کے بہت کام آوے گا اپنے والدین کی بخشش اور دخولِ جنت کے لئے حق تعالیٰ سے جھگڑے گا، جیسا کہ بچوں کی عادت ہوتی ہے۔ چنانچہ حکم ہو گا: ''یَا اَیُّھَا الطِّفْلُ الْمُرَاغِمُ رَبَّہٗ أَدْخِلْ أَبَوَیْکَ الْجَنَّةَ'' (سنن ابن ماجه، رقم الحديث: 1507) پس اولاد اللہ کی امانت ہے اس کو جب وہ لینا چاہیں خوش ہو کر خدا کے حوالہ کر دو۔ ان کو اپنی چیز نہ سمجھو، پریشانی کی بناء یہی ہے کہ تم ان کو اپنی چیز سمجھتے ہو اور سمجھ کر ان کے متعلق تجویزیں کرتے ہو۔
فراقِ اختیاری کے آثار کا حکم:
حال: حضرت والا! یہاں آ کر ایک نفع تو محسوس ہوا کہ ظاہری فراق نے دل کو تڑپا دیا۔ اب میں ہوں اور حضرت کی یاد، اور حضرت ہر ہر چیز کی محبت، ہر وابستہ کی محبت و عظمت یہ سوچ کر کہ ان کی آنکھیں حضرت کے دیدار سے مشرف ہیں۔ ہر وابستہ درگاہ کو اپنے سے ہزار درجہ اچھا سمجھتا ہوں۔ اور سب کی محبّت دل میں پاتا ہوں۔
تحقیق: یہ تو مجھ کو بھی نصیب نہیں، نہ جی چاہتا ہے کیونکہ اس صورت میں مختار نہ رہوں گا، مضطر ہو جاؤں گا۔
علوم مکاشفہ کا درجہ:
تحقیق: علومِ مکاشفہ سب ایسے ہی ہیں جو قرب میں دخیل نہیں، مثلًا: وحدةُ الوجود یا تجدّدِ امثال کہ ان کو قرب کے اندر کچھ دخل ہیں، گو! ان کے اثر سے کسی ایسے عمل کی نوبت آجائے کہ جس کو قُرب میں دخل ہو، جیسے وحدةُ الوجود کے غلبہ سے انقطاع عن الخلق میں قوّت ہو جائے، مگر فی نفسہٖ خود ان کو قُرب میں دخل نہیں۔
کرامت کا رتبہ:
تحقیق: کرامت کا مرتبہ ذکرِ لسانی سے بھی گھٹا ہوا ہے اور وجہ اس کی ظاہر ہے کہ ذکر سے کچھ تو قُرب ہوتا ہے، اگر توجّہ سے بھی نہ ہو، اور کرامت سے کچھ قرب نہیں ہوتا، بلکہ خود وہ قُرب سے ناشی ہے، قرب اس سے ناشی نہیں تو غایت ما فی الباب وہ قُرب کی علامت ہے بشرطیکہ وہ کرامت بھی ہو۔
مجاہدۂ ثانیہ کے آثار:
حال: معصیتوں کا تقاضا بالکل پہلے جیسا ہونے لگا، حیران ہوں کہ عرصہ کا نفس مضمحل شدہ پھر دوبارہ اسی شدّت و جوش و ہیجان کے ساتھ تقاضا کرنے لگا۔
تحقیق: اکثر اہل طریق کو یہی حالت پیش آتی ہے، کچھ گھبرانے کی بات نہیں۔ اس وقت نفس کا جو مقابلہ کیا جاتا ہے وہ ’’مجاہدۂ ثانیہ‘‘ کہلاتا ہے اور اس مجاہدہ کا اثر ان شاء اللہ تعالیٰ راسخ ہو گا، اور شاذ و نادر کسی امرِ طبعی کا تقاضا یہ منافی رسوخ کے نہیں۔ اس تغیّر و تبدّل کی مثال حسیات میں ایسی ہے جیسے شب کے آخر میں تاریکی کے بعد ایک نور ہوتا ہے جس کو صبحِ کاذب کہتے ہیں، نا واقف خوش ہوتا ہے کہ تاریکی گئی پھر دفعتاً وہ نور زائل ہو جاتا ہے اور تاریکی چھا جاتی ہے، مگر تھوڑی دیر میں پھر دوسرا نور آتا ہے جس کو صبحِ صادق کہتے ہیں وہ فاتح بلکہ ترقی پذیر ہوتا ہے۔
طبعی امور قابلِ التفات نہیں:
تحقیق: طبعی امور کے نہ ابقاء کا اہتمام چاہیے نہ ازالہ کی تدبیر، بس التفات ہی نہ کیا جائے۔
امورِ غیر اختیاری کا حکم:
تحقیق: جو امر بندہ کے اختیار میں نہ ہو اس کا ہر پہلو خیر ہے۔ نہ اس کے درپے ہو، نہ اس کو علامتِ مقبولیت یا مردودیت سمجھے۔
مسائل میں خواب کا حکم:
تحقیق: خواب پر اعتماد کرنا مسائل میں جائز نہیں۔
اعمالِ صالحہ کے فوت کا غم سالک کو بہت نہ چاہیے:
تحقیق: اعمالِ صالحہ کے فوت ہونے کا عوام تو جس قدر چاہیں قَلق کریں ان کو تو مفید ہے اور سالکین اس کا بھی زیادہ غم نہ کریں بلکہ تھوڑی دیر تک رنج کرلیں۔ پھر جی بھر کے توبہ کرلیں اور اپنے کام میں لگیں، ماضی کی فکر میں نہ پڑیں کہ ہائے! یہ کام کیوں فوت ہوا، یہ خطا کیوں ہوئی؟ ہر وقت اس کا شغل رکھنا سالک کو مضر ہے۔ کیونکہ یہ فکر تعلّق مع اللہ میں حجاب ہو جاتا ہے اور اس میں راز یہ ہے کہ تعلق مع اللہ بڑھتا ہے نِشاطِ قلب سے، اور یہ قلق نشاط کو کم کر دیتا ہے، لیکن تھوڑی دیر تک قَلق کرنا چاہیے اور خوب رونا دھونا چاہیے، تاکہ نفس کو کوتاہی کی سزا تو ملے، پھر اچھی طرح استغفار کر کے اس سے التفات قطع کرے۔ آج کل زیادہ قلق کرنے میں ایک اور بھی نقصان ہے وہ یہ ہے کہ قلوب اس وقت بے حد ضعیف ہیں زیادہ قلق سے ان کا ضعف بڑھ جاتا ہے، جس سے بعض اوقات تعطّل کی نوبت آ جاتی ہے۔
عدم مطلوبیت ترقی غم:
تحقیق: عارف قصداً جلبِ غم نہیں کرتا۔ بِلا قصد کے اگر غم پہنچ جائے تو وہ اس کو لذائذ سے بڑھ کر قبول کرتا ہے، کیونکہ نصوص واشاراتِ نصوص سے سمجھتے ہیں کہ غم بڑھانا یا طلب کرنا شرعاً مطلوب نہیں۔
چنانچہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ﴾ (البقرة: 185) حدیث میں ہے کہ ''مَنْ شَاقَّ شَاقَّ اللہُ عَلَیْہِ'' (سنن ابي داود، رقم الحديث: 3635، سنن ترمذي رقم الحديث: 1940، سنن ابن ماجه، رقم الحديث: 2342) نیز اللہ تعالیٰ نے ﴿الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُّصِيبَةٌ…﴾ (البقرة:156) میں تقلیلِ غم و تسہیلِ حُزن کا طریقہ تعلیم فرمایا ہے، معلوم ہوا کہ ان کو یہ مطلوب نہیں کہ غم بڑھایا جائے، بلکہ اس کا کم کرنا مطلوب ہے۔
رنج کی دو قسمیں اور ان کا حکم:
تحقیق: رنج کی دو قسمیں ہیں: ایک رنج طبعی ایک رنج عقلی، سو رنج طبعی منقصِ ثواب نہیں بلکہ مکَمّلِ ثواب ہے، چنانچہ اولاد کے مرنے پر جو رنج طبعی ہوتا ہے اس پر ثواب کا وعدہ ہے، ہاں عقلی رنج منقصِ ثواب ہے، سو عشّاق کو عقلی رنج نہیں ہوا کرتا۔ عشق کے آگے عقل بے چاری کیا چل سکتی ہے۔
عشق آں شعلہ است کو چوں بر فروخت
ہر چہ جز معشوق باشد جملہ سوخت
نصف سلوک:
تحقیق: غیر اختیاری امور کے درپے نہ ہو اور اختیاری میں کوتاہی نہ کرے، یہ نصف سلوک ہے۔
اعمالِ اختیاریہ ہی سے کیفیات پیدا ہوتی ہیں:
تحقیق: کیفیات اعمال اختیاریہ سے حاصل ہوتی ہیں بشرطیکہ عملِ اختیاری کو کیفیات کے قصد سے نہ کرے۔
وعدہ اجر کا مصیبت غیر اختیاریہ پر ہے:
تحقیق: وعدہ اجر کا ہر مصیبت پر نہیں، صرف مصیبتِ غیر اختیاریہ پر ہے۔ ردِ عمل مصیبت اختیاریہ ہے، جیسے خود کشی مصیبت ہے مگر اس پر بجائے اجر کے عقوبت ہو گی، کیونکہ یہ مصیبت مُکتسبَه ہے اسی طرح کسی عمل کا قبول نہ ہونا کسی اختیاری کوتاہی کے سبب ہے۔
اعمال و احوال کی مثال:
تحقیق: عاقل وہ ہے جو درختوں کی خدمت کرے ان کی نگہداشت کرے، گھاس کا کیا ہے وہ تو خود رو ہے، اپنے آپ ہی پیدا ہوجائے گی، پس سمجھ لو کہ اعمال کی مثال درختوں جیسی ہے اور احوال و اسرار کی مثال گھاس کی سی ہے۔
اہلُ اللہ کے تمام شہوات و لذّات سے الگ رہنے کا راز:
تحقیق: آخر کوئی تو بات ہے جس نے اہلُ اللہ کو تمام لذات و شہوات سے الگ کر دیا ان چیزوں کے لئے عوام مرتے پھرتے ہیں، وہ ان سے بالکل بیزار اور مستغنی ہیں، نہ ان کو طلب مال کی ہے نہ لباس کی فکر ہے، نہ عزت و جاہ کی خواہش ہے، کوئی تو آگ ان کے سینے میں ہے جو پاس بیٹھنے والوں کو بھی بے قرار کر دیتی ہے، یہ خود اس کی دلیل ہے کہ ان کے پاس یقینًا وہ حقائق ہیں جن کی مخلوق کو خبر نہیں۔
کشف کی تحقیق:
تحقیق: علومِ کشفیہ کا مطالعہ مضِر ہے، نہ ان کا کبھی مطالعہ کرے نہ ان کے تحقیق کے درپے ہو، ہاں! اجمالاً اہلِ کشف کی بزرگی کا معتقد رہے اور اجمالاً ان کی تصدیق بھی کرے، کشف صحیح بھی باوجود امن عن التلبیس کے حُجتِ شرعیہ اس کو لازم نہیں، نہ خود صاحبِ کشف پر حجت، نہ دوسروں پر۔ جیسے چاند کو ہم آفتاب سے چھوٹا دیکھتے ہیں، مگر شرعاً یہ ابصار حجت نہیں، نہ اس پر اعتقاد رکھنا واجب، نہ ان کے خلاف کا اعتقاد حرام۔ علوم کشفیہ کو تصوّف سے کوئی تعلق نہیں، نیز قُربِ حق کا مدار معاملہ پر ہے، نہ کہ علوم کشفیہ پر۔
دنیا میں پریشانی کے انقطاع سے تو مایوس ہی رہنا چاہیے:
تحقیق: پریشانی کے رفع ہونے سے تو امید ہی منقطع کر لینی چاہیے، کیونکہ آپ تو پریشانی کے لئے پیدا ہوئے ہیں، یہ تو جنت میں پہنچ کر ختم ہو گی۔
تحقیق اس کشف کی کہ جنت میں بھی ''أَرِنِيْ أَرِنِيْ'' اہل عشق پکاریں گے:
تحقیق: ایک عاشق کا قول کشفی ہے۔ ''إِنَّ فِي الْجِنَانِ جَنَّةٌ لَّیْسَ فِیْھَا حُوْرٌ وَّ لَا قُصُوْرٌ وَّ لٰکِنَّ فِیْھَا أَرِنِيْ أَرِنِيْ''، گو کشف حجت شرعیہ نہیں، مگر ان صاحبِ کشف نے جو دلیل بیان کی ہے، اس دلیل سے شبہ صحتِ کشف کا ہو سکتا ہے۔ وہ دلیل یہ ہے کہ حسن و جمالِ حق حقیقتاً بے نہایت وغایت ہے تو اس کا عشق بھی ''لَا تَقِفُ عِنْدَ حَدٍّ'' ضرور ہو گا، اس لئے بے چینی و پریشانی ایسے عشق کے لئے لازم ہے کیونکہ عاشقانِ مجازی کو تو وصالِ محبوب سے اس لئے چین آ جاتا ہے کہ ان کے محبوب کا حسن متناہی ہے۔ وصال کے بعد جی بھر کے اس سے متمتّع ہو گئے اور سکون ہو گیا اور جس کے محبوب کا حسن بے غایت ہو اس سے تو جتنا متمتّع ہو گا اور نیا درجہ حسن کا ظاہر ہو گا، پھر چین و سکون کیسا ہو سکتا ہے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ عشق و محبوب حقیقی دنیا میں تو اس لئے ''لَا تَقِفُ عِنْدَ حَدٍّ'' ہے کہ یہاں اس کی استعداد کے تمام افراد کا تقاضا پورا نہیں کیا گیا، اور جنت میں ہر فرد کے مطابق استعداد پورا ہو جائے گا، چنانچہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلهِ الَّذِيْ أَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ ۖ إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُورٌ شَكُورٌ الَّذِي أَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَةِ مِنْ فَضْلِهٖ لَا يَمَسُّنَا فِيهَا نَصَبٌ وَّ لَا يَمَسُّنَا فِيْهَا لُغُوْبٌ﴾ (فاطر: 34-35)۔ اگر جنت میں بھی پریشانی رہی تو ایسے عشق کو لے کر کیا کریں گے، پس اس تقریر سے حسنِ حق کا محدود ہونا لازم نہیں آتا، بلکہ استعداد طالب کا لا متناہی ہونا لازم آیا جنت میں، جس سے بالکل سکون ہو جائے گا۔
جو کیفیت معصیت کے ساتھ ہو مردود ہے:
تحقیق: اہلِ باطل جو بیوی سے علیحدہ رہتے ہیں اس کا منشاء یہ ہے کہ بیوی کے اختلاط سے یکسوئی وغیرہ کی کیفیت میں خلل نہ آ جائے۔ حالانکہ جو کیفیت معصیت کے ساتھ بھی مجتمع رہے، ایسی کیفیت خود مردود ہے۔
کیفیتِ محمودہ و مذمومہ کی تعریف:
تحقیق: بعض کیفیات محمودہ و مذمومہ میں تشابہ ہے ان میں امتیاز کا معیار یہ ہے کہ جو کیفیت کسی گناہ کا مقدمہ ہو جائے وہ مذموم ہے، ورنہ محمود ہے۔ یعنی محمودہ کیفیت یه ہے جس سے طاعت میں ترقی اور گناہ میں کمی ہو، اگر یہ معیار سامنے نہ ہو تو پھر کیفیات تو جوگیوں کو بھی نصیب ہو جاتی ہے، کیا ان کو بھی صوفی اور ولی کہو گے؟
کیفیات کے مقصود نہ ہونے کی دلیل:
تحقیق: دین میں مقصود وہ ہوتا ہے جو بدون تحصیل کے حاصل نہ ہو، جس کا حصول صرف اختیار پر موقوف ہو، اور قرآن میں منصوص ہے کہ بعضے احوال جیسے کشف مرتے ہی سب کو خود بخود حاصل ہو جائیں گے یہاں تک کہ کفار کو بھی چنانچہ ارشاد ہے: ﴿وَبَدَا لَهُمْ مِّنَ اللهِ مَا لَمْ يَكُونُوْا يَحْتَسِبُوْنَ﴾ (الزمر: 47) ﴿فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيْدٌ﴾ (ق: 22) ﴿أَسْمِعْ بِهِمْ وَأَبْصِرْ…﴾ (مريم: 38)
صحتِ وارد کی شرط:
تحقیق: کسی حال یا کسی وارد کو صحیح مت سمجھو جب تک وہ شریعت کے موافق نہ ہو۔
نسیان کا منشا کبھی تصرّفِ شیطان ہے اور کبھی ضُعفِ دماغ:
تحقیق: توجۂ قلب از بس دشوار ہے، خصوصاً جب کہ اعضاء ظاہرہ کو سکون ہو تو اس وقت قلب کو حرکت زیادہ ہوتی ہے اور سب کے عوض وہی کام میں لگ جاتا ہے، یہی وجہ ہے نماز میں دنیا بھر کی باتیں یاد آجاتی ہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسی قاعدہ سے ایک شخص کو بھولا ہوا دفینہ یاد کرنے کا طریقہ یہ بتلایا کہ آج رات بھر نماز پڑھنے کا قصد کر لو، کیونکہ شیطان کو یہ گوارا نہ ہو گا کہ اس کو رات بھر نماز پڑھنے دے اس لئے جلد یاد دلا دے گا۔ یہ علاج اس وقت ہے جب کہ نسیان کا منشاء تصرّفِ شیطانی ہو، نہ کہ ضُعفِ دماغ۔
سالک کے حالاتِ مختلفہ:
تحقیق: سالک کے حالات مختلف ہوتے ہیں کسی وقت کلامِ لفظی کی تجلّی کا غلبہ ہوتا ہے تو زیادہ اثر الفاظ قرآن اور اس کی فصاحت اور بلاغت سے ہوتا ہے اور کسی وقت کلامِ نفسی کی تجلّی کا غلبہ ہوتا ہے تو معانی سے تأثّر محسوس ہوتا ہے۔ یہ سب محمود وسائطِ تربیت ہیں۔
ثمرہ کا قصد نہ چاہیے:
تحقیق: ثمرہ چونکہ غیر اختیاری ہے اس لئے کبھی اس کا قصد ہی نہ کرے، بلکہ کام کئے جائے۔ البتہ ثمرہ کے حصول کے واسطے دعا کرے، دعا کی ضرورت اس واسطے ہے کہ ثمرہ کی بھی حاجت ہے اور حاجت کے لئے دعا موضوع ہے۔
خطا و نسیان پر دنیوی مواخذه ممکن ہے:
تحقیق: خطا ونسیان فی نفسہٖ تو قابلِ مواخذہ ہیں، کیونکہ گو وہ اختیارِ عبد سے باہر معلوم ہوتے ہیں، مگر در حقیقت ان کے مقدمات اختیاری ہیں یعنی کہ اگر یہ شخص توجّہ تام کرتا تو پھر اس خطا و نسیان کا صدور نہ ہوتا، اسی لئے خطا و نسیان پر گو مواخذہ اخروی نہ ہو، لیکن دنیوی مواخذہ ممکن ہے۔
اگر سعی پر بھی کامیابی نہ ہو تو قَلق نہ کرنا چاہیے:
تحقیق: اگر سعی پر بھی کامیابی نہ ہو تو پھر اس قَلق میں نہ پڑے کہ ہائے کیا ہوا؟ اور آئندہ کیسے ہو گا؟ ؎
ماضی و مستقبلت پردۂ خدا است
سالکین کی پریشانی کا راز:
تحقیق: سالکین کی زیادہ پریشانی کا راز یہ ہے کہ وہ غیر مقاصد کے درپے ہوتے ہیں۔
نفرتِ طبعی میں تفاوتِ کبر نہیں:
حال: دوسروں کے خلافِ شرع امور سے تو نفرت ہوتی ہے، لیکن اپنے نفس سے باوجود ارتکاب خلافِ شرعی امور کے اتنی نفرت نہیں، کیا یہ کبر ہے؟
تحقیق: نفرت میں تفاوت ہونا کبر نہیں، نفرتِ اعتقادی تو دونوں جگہ یکساں ہے اور عبد اسی کا مامور ہے اور یہ تفاوت نفرتِ طبعی میں ہے۔ جیسے انسان کو اپنے پاخانہ سے نفرت کم ہوتی ہے اور دوسرے کے پاخانہ سے زیادہ نفرت ہوتی ہے اور راز اس تفاوت کا فی المحبت ہے اور ظاہر ہے کہ انسان کو اپنے نفس سے زیادہ محبت ہوتی ہے بہ نسبت غیر کے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ماں کو اپنے بچہ کے پاخانہ سے اتنی نفرت نہیں ہوتی جیسا غیر محبوب کے پاخانہ سے۔ تو اس کا کِبر سے کوئی تعلق نہیں۔
ہمیشہ رہنے کی چیز عقل اور ایمان ہے:
تحقیق: کسی حالت کا طاری ہونا اور چندے جاری رہنا یہ بھی بہت غنیمت ہے، ورنہ ہمیشہ رہنے کی چیز تو عقل اور ایمان ہے باقی سب میں آمد و رفت رہتی ہے۔
خواب کو قُرب یا بُعد میں دخل نہیں:
تحقیق: خواب مؤثر تو ہوتا نہیں (کہ قُرب یا بُعد میں اس کو دخل ہو) البتہ اگر واقعی خواب ہو تو اثر (یعنی کسی فعل نیک و بد کا) ہو سکتا ہے اور ہم جیسوں کے خواب خواب ہی نہیں ہوتے، اس لئے نہ وہ مؤثّر ہیں نہ اثر۔ اس لئے وہ اصلاً قابلِ التفات نہیں۔
خوابات کا درجہ:
تحقیق: خوابات حجتِ شرعیہ نہیں اور نہ قطعی ہیں جن کی بناء پر کسی سے مناظرہ کیا جائے، مگر رویا صالحہ بنصِ حدیث ''مُبَشِّرَات'' میں سے ہیں، جن کی خاصیت طبعاً تسلّی و فرحت ہے۔ (اور دلائلِ شرعیہ کے ساتھ موافق ہونے سے ان کے صدق کا پہلو راجح ہو جاتا ہے)۔
کسی کے انتقال پر ایک قطرۂ اشک نہ آنے کی وجہ:
حال: بیوی کا انتقال ہوا، لیکن مجھے بخدا ایک قطرہ اشک کا نہ آیا، حالانکہ سب اہل و عیال روتے تھے۔
تحقیق: اس کی وجہ اختلاف ہے طبائع کا۔ بعض پر عقلیت کا رنگ طبیعت پر غالب ہوتا ہے اس وقت ایسے آثار کم ہوتے ہیں، اور یہ نقص کچھ نہیں، مطلوب بُکاءِ قلب ہے، نہ بُکاءِ عَین۔ ورنہ یہ ارشاد نہ ہوتا: ''فَإِنْ لَّمْ تَبْکُوْ فَتَبَاکَوْا''(سنن ابنِ ماجہ، رقم الحدیث:1337) بلکہ ''تَبْکُوْا'' پر کوئی ملامت ہوتی۔
تکرارِ سہو:
حال: پنج وقتہ نماز میں بالخصوص فرض و وتر میں بہت سہو ہوتا ہے۔ غرضیکہ ایک ایک نماز مکرّر مکرّر پڑھتا ہوں، سجدۂ سہو کی تلافی سے بھی جی نہیں خوش ہوتا، اور نفس پر بھی گرانی ہوتی ہے۔
تحقیق: معلوم ہوتا ہے سہو سے حُزن ہوتا ہے اور حُزن سے خوف اور وہم غالب ہو جاتا ہے اور اس غلبہ سے سہو ہونے لگتا ہے۔ اس کی تدبیر یہ ہے کہ آپ محزون نہ ہوا کریں، بلکہ اپنے دل کو قوی اور بے فکر رکھیں کہ اگر سہو ہو بھی گیا تو مسائلِ فقہیہ کے موافق عمل کرنے سے نماز ٹھیک ہو جائے گی پھر کاہے کا غم!
کیفیاتِ وجدیہ کے لئے دعا و تفویض چاہیے:
تحقیق: حضور زائد اور کیفیاتِ وجدیہ اور شوق و ذوق کے لئے دعا تو کرو مگر دعا کے بعد ان کے منتظر بن کر نہ بیٹھو، بلکہ اپنے کو خدا کے سپرد کر دو کہ ہمارے لئے جو بہتر ہو گا ہو کر رہے گا، خواہ حصول ہو یا عدمِ حصول۔
حُجبِ نورانیہ حُجبِ ظُلمانیہ سے اشد ہیں اور اس کی وجہ:
تحقیق: اسرار و ذوقیات کے نعمت ہونے میں شک نہیں۔ اگر بدون طلب کے حاصل ہو جائیں تو شکر کرنا چاہیے، مگر چونکہ یہ خود مقصود و مطلوب نہیں ہیں اس لئے ان کے درپے نہ ہونا چاہیے، حضرت حاجی صاحب قُدِّسَ سِرُّہٗ کا ارشاد ہے کہ ذوق و شوق و انس وغیرہ حُجبِ نورانی ہیں، اور ’’حجبِ نورانیہ‘‘ حجب ظلمانیہ سے اشد ہیں، کیونکہ حجبِ ظلمانیہ کی طرف سالک متوجہ نہیں ہوتا۔ ان کو خود دفع کرنا چاہتا ہے اور حجبِ نورانیہ کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور التفات کرنے لگتا ہے جس کی وجہ سے توجہ مقصودِ اصلی سے ہٹ جاتی ہے۔
کراہتِ موت طبعی ہے اس لئے مذموم نہیں:
حال: مرنے سے قلب گھبراتا ہے۔
تحقیق: حدیث میں حضرت عائشہ رضی الله عنها کا قول: ''کُلُّنَا یَکْرَہُ الْمَوْتَ'' (سنن ابن ماجه رقم الحديث: 4264)۔ اور اس پر حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّمَ کا نکیر نہ فرمانا مصرّح ہے، پس اس میں مذموم ہونے کا احتمال بھی نہیں، یہ کراہت امرِ طبعی ہے۔
ممانعت تمنا فضائل وہبیہ:
تحقیق: ﴿وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّـهُ بِهٖ بَعْضَكُمْ عَلٰى بَعْضٍ﴾ (أيْ مِنَ الأُمُوْرِ غَیْرِ الْاِخْتِیَارِیَّةِ) ﴿لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُوْا﴾ (مِنَ الْأُمُوْرِ الْاِخْتِیَارِیَّةِ) ﴿وَلِلنِّسَاءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ﴾ (مِثْلَ مَا ذَکَرْنَا فَاجْتَھِدُوْا فِي الْمَکْسُوْبَاتِ وَ لَا تَتَمَنَّوُا الْمَوْھُوْبَاتِ) ﴿وَاسْأَلُوا اللهَ مِنْ فَضْلِهٖ﴾ (أَيْ لَا بَأْسَ بِالدُّعَاءِ لِلْمَوْھُوْبَاتِ فَشَتَّانَ مَا بَیْنَ التَّمَنِّيْ وَ الدُّعَاءِ لٰکِنَّ بِشَرْطٍ أَنْ لَّا یَکُوْنَ مَا لَمْ یُجِزْ بِہٖ سُنَّۃُ اللہِ) ﴿إِنَّ اللهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمًا﴾ (مِنَ الْاِسْتِعْدَادِ لِمَا سَاَلَ عَبْدٌ وَّ فِیْہِ إِشَارَةٌ إِلَی النَّھْيِ مِنَ التَّضَجُّرِ عَنْ إِجَابَةِ الدُّعَاءِ وَ إِلَی الْأَمْرِ بِالرِّضَا بِمَا وَقَعَ وَ اعْتِقَادِ الْحِکْمَةِ فِیْہِ)
وصول اور ایصال دونوں غیر اختیاری ہیں:
تحقیق: وصول اور ایصال کا قصد کرنا زمانۂ طلب میں غلطی ہے، کیونکہ قصد اس شئ کا ہو سکتا ہے، جس میں قصد اور اختیار کو دخل ہو، اور وصول اور صلاحیتِ ایصال دونوں تمہارے اختیار سے باہر ہیں۔
کار خود کن کار بے گانہ مکن
کام کے وقت مقصود پر نظر نہ کرو، بلکہ کام پر نظر رکھو۔
اہلِ کیفیات اور اہلِ استقامت میں کون مُتخلّق بِأَخلاق اللہ زیادہ ہیں:
تحقیق: سالکین جن احوال اور کیفیات کے فُقدان سے پریشان ہوتے ہیں ان کا فُقدان کوئی نقص نہیں، بلکہ کمال یہی ہے کہ بدون غلبۂ احوال کے استقامت حاصل ہو۔ اس کی حقیقت سمجھنے کے لئے دو مقدمے سمجھنے کی ضرورت ہے: ایک یہ کہ تمام سلوک کا مقصد حضرتِ حق میں فنا ہے یعنی اپنی صفات کو صفاتِ حق میں فنا کر دینا اور متخلّق باخلاق اللہ ہونا ہماری صفات کے دو درجے ہیں، ایک مَبدا، ایک منتہا۔ مَبْدَا انفعال ہوتا ہے مثلاً ہمارے اندر رحمت و شفقت کا مادہ ہے تو اس کا ایک مبدا ہے، ایک منتہا ہے۔ مبدا یہ کہ کسی کی حالت اور مصیبت کو دیکھ کر دل دکھتا ہے یہ انفعال و تأثّر ہے اور دل دکھنے کے بعد ہم نے اس شخص کے ساتھ جو ہمدردی کی، اسکی اعانت کی یہ منتہا ہے اور یه فعل ہے اور یہی مقصود ہے صفت رحمت سے، اسی طرح خوف میں مبدا وہی تأثر و انفعال ہے کہ خدا کی عظمت و جلال کے خیال سے دل پر اثر ہوا، رقّت طاری ہوئی اور منتہا یه ہے کہ خدا تعالیٰ کی نافرمانی سے رُک گئے یہ فعل ہے اور یہی مقصود ہے۔ اسی طرح محبت کا مبدا یہ ہے کہ دل میں عشق کی دکھن پیدا ہو، اور محبوب کے خیال میں محو ہو جائے یہ انفعال و تأثّر ہے۔ اور منتہا یہ ہے کہ محبوب کی رضا جوئی اور خوشنودی کی طلب میں لگ جائے۔ اللہ تعالیٰ تأثّر و انفعال سے پاک ہے اس لئے حق تعالیٰ کی صفات میں مبادی نہیں ہوتے، بلکہ غایات اور منتہا ہی ہوتے ہیں، پس جس شخص کے اوپر خوف و محبت کی کیفیت غالب نہ ہو مگر استقامت افعال کی حاصل ہو کہ معاصی سے پوری طرح بچنے والا اور طاعات کا بجا لانے والا ہو تو اس میں صفات کے مبادی نہیں پائے گئے بلکہ صرف غایات پائے گئے اور یہ شخص متخلّق بأخلاق اللہ ہے۔ اور جس پر ان کیفیات کا غلبہ ہو اس میں اوّل مبادی پھر غایات پائے گئے تو یہ شخص اس درجہ کا متخلّق بأخلاق اللہ نہیں ہے۔ پس اوّل تو کامل ہے اور دوسرا اس درجہ کا کامل نہیں ہے۔
وارد موافقِ شرع بشارت ہے:
تحقیق: اگر کوئی وارد موافقِ شرع ہو تو وہ وسوسہ نہیں بلکہ بشارت ہے۔
اعتکاف کی حالت میں دل کا گھر میں رہنا:
تحقیق: اعتکاف کی حالت میں دل کے گھر میں رہنے کا تو کچھ ڈر نہیں، کیونکہ غیر اختیاری ہے، ہاں! رکھنا نہ چاہیے (کیونکہ یہ اختیاری ہے) اور وہ بھی جب کہ بلا ضرورت ہو، اور ضرورت سے تو بعض اوقات رکھنے کا حکم ہے یعنی انتظام حقوقِ واجبہ یا مستحبات کے لئے۔ حضور اقدس ﷺ نے تو معراج میں کہ اعلٰی مقام ہے قرب کا، اپنا دل امت میں رکھا تھا اور ان کے مصالح کا اہتمام فرمایا تھا۔
معاصی کے ساتھ کیفیاتِ نفسانیہ کا بقا دلیلِ مقبولیت نہیں:
تحقیق: بعض اوقات معاصی کے ساتھ بھی بعضے احوالِ نفسانیہ باقی رہتے ہیں، جیسے وجد و استغراق، شوق و شگفتگی اور حیرت اور اس قسم کے اور کیفیت، تو ان کے بقا سے دھوکہ میں نہ آئے کہ میں ایسا مقبول ہوں کہ معصیّت سے بھی مقبولیّت میں خلل نہ پڑا کیونکہ یہ سب کیفیات دنیا ہیں، دین نہیں۔ اور دنیا کا عطا ہوتے رہنا علاماتِ مقبولیت سے نہیں، ان احوال کا نسبت سے کوئی تعلق نہیں اور نسبت معاصی کے ساتھ باقی نہیں رہتی۔ یہ احوال محض کیفیاتِ نفسانیہ طبعیہ ہیں۔ جیسے فرح و سرور کیفیّاتِ طبعیہ ہیں۔ حاصل یہ کہ یہ احوال اپنی ذات میں دینی امور نہیں ہیں بلکہ دنیوی امور ہیں، البتہ بعض اوقات دین میں معاون ہو جاتے ہیں اور اس معین ہو جانے سے ان کا دین کا جزو ہونا لازم نہیں آتا۔
مطلوب عقلی گریہ ہے، طبعی گریہ نہ ہونا محرومی نہیں:
تحقیق: بعض سالکین جو تربیت میں مختلف لوگوں کے حالات غلبۂ خوف و بُکاء کو دیکھ کر افسوس کیا کرتے ہیں کہ ہم کو ایسے حالات نہیں ہوتے۔ وہ سن لیں کہ یہ طبعی گریہ ہے جو بعض کو پیش آتا ہے اور یہ مطلوب نہیں۔ مطلوب عقلی گریہ ہے اور وہ تم کو بھی حاصل ہے کیونکہ نہ رونے پر افسوس ہونا یہ خود گریہ ہے۔ پس میں افسوس کو تو منع نہیں کرتا بلکہ افسوس سے اپنی محرومی کے اعتقاد کو منع کرتا ہوں کہ تم اپنے کو محروم نہ سمجھو۔ بلکہ شکر کرو کہ عقلی گریہ تم کو حاصل ہے جو مطلوب ہے۔
حالتِ غیر اختیاری کو غنیمت سمجھنا چاہیے:
تحقیق: جو حالت غیر اختیاری اللہ تعالیٰ عطا فرمائیں، اسی کو اپنے لئے غنیمت جانے اور اپنی خواہش سے کسی پسندیدہ حالت کی تمنا نہ کرے۔
به دُرد و صاف تو را حکم نیست خوش درکش
کہ ہر چہ ساقئِ ما کرد عین الطاف ست
جو چیز اختیار کے تحت میں داخل نہ ہو وہ مذموم نہیں:
تحقیق: حدیث میں ہے کہ جب جہاد میں مؤمن کا قلب کانپنے لگے، مگر جہاد کو ترک نہ کرے تو اس کے گناہ ایسے جھڑ جاتے ہیں جیسے کھجور کی شاخ خشک ہو کر جھڑ جاتی ہے۔ اس بزدلی پر بھی اجر ملنے سے معلوم ہوا کہ جو چیز اختیار کے تحت میں داخل نہ ہو وہ مذموم نہیں۔
طبعی رنج و غم کے فوائد:
تحقیق: رنج و غم کو اخلاق کے درست کرنے میں بہت دخل ہے اس سے نفس کی اصلاح ایک بڑے درجہ میں بخوبی ہوتی ہے نیز آخرت کی طرف توجہ بڑھ جاتی ہے اور دنیا سے دل مکدّر ہو جاتا ہے۔ انہیں حکمتوں سے کاملین کو بھی ایسے واقعات سے رنج ہوتا ہے مگر عقلی رنج نہیں ہوتا۔
حزن طبعی کا علاج:
تحقیق: حُزنِ طبعی کا حدوث غیر اختیاری مگر تدبیر و علاج سے اس میں تقلیل ہوسکتی ہے، اور وہ علاج یہ ہے کہ طبیعت کو دوسری چیز کی طرف متوجہ کرے۔ یہ عام قاعدہ ہے کہ دوسری چیز کی طرف متوجہ ہونے سے پہلی چیز کمزور ہو جاتی ہے اور بعض امور کو تو ازالہ یا تضعیف میں خاص دخل ہوتا ہے۔ مثلاً غم کی حالت میں بشارت کو یاد کرنا ازالۂ غم میں بہت مفید ہے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو اوّل تو عقلی خوف و حزن سے منع فرمایا ﴿لَا تَخَافِیْ وَ لَا تَحْزَنِیْ...﴾(القصص:7) (یعنی اس غم کو لے کر بیٹھ مت جانا سوچ سوچ کر قصداً، یاد کر کر کے زبان سے تذکرہ مت کرتی رہنا۔ ہاں! طبعی حزن کا مضائقہ نہیں) پھر طبعی حزن و خوف کے ازالہ کی یہ تدبیر فرمائی کہ ﴿إِنَّا رَادُّوْہٗ إِلَیْکِ وَ جَاعِلُوْہٗ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ﴾ (القصص: 7) کی بشارت سنائی۔
خوف و حزن کے دو درجے:
تحقیق: خوف و حزن کے دو درجے ہیں: ایک غیر اختیاری، یہ خوف و حزن طبعی ہے، اور ایک اختیاری یہ خوف و حزن عقلی ہے مثلاً: طبعی حزن تو یہ ہے کہ ایک واقعہ رنج دہ ہوا، اور دل پر اس سے چوٹ لگی، بے قراری ہوئی۔ اور عقلی درجہ یہ ہے کہ اس غم کو لے کر بیٹھ جائے اس میں غور فکر کرتا رہے اور زبان سے تذکرہ کرتا رہے، اس طرح جو شخص غم لے کر بیٹھے گا تو غم پہلے سے زیادہ ہو گا۔