قبض
قبض سے خود کشی دلیل معرفتِ ناقص کی ہے:
تحقیق: اہلِ معرفت نے تو ناراضی کے شُبہ پر خود کشی تک کر لی ہے، گو! یہ غلطی تھی کیونکہ خود کشی میں تو ناراضی مُتیقّن ہے اور قبض میں ناراضی کا احتمال ہی احتمال ہے۔ مگر اس وقت اضطراب اور گُھٹن ایسا ہوتا ہے کہ ان مقدّمات کی طرف خیال ہی نہیں جاتا۔ اس لئے ممکن ہے کہ یہ خُود کُشی کرنے والے معذور ہوں، لیکن ان کی معرفت ناقص ضرور تھی کامل نہ تھی۔ اسی لئے تمام پہلوؤں پر نظر نہ گئی، ایسے وقت میں عارف محقّق تسلیم و رضا سے کام لیتا ہے اور اگر اس گھٹن اور بے چینی میں خود بخود اس کی جان نکل جائے تو یہ شہیدِ اکبر ہو گا۔
اے رفیقانِ راهها را بست یار
آهوئے لنگیم و اُو شیرِ شکار
جز که تسلیم و رضا کو چارۂ
در کفِ شیرِ نرے خونخوارۂ
علاجِ قبضِ شدید اور اس کے منافع، جن کا خلاصہ فنائے تام ہے:
حال: میرے اوپر سخت شدید حالتِ قبض طاری ہے، قلب بالکل خالی معلوم ہوتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میں بالکل مردود ہو گیا اِس وقت حالًا اپنے کو کافر سے بھی زیادہ بد تر سمجھتا ہوں۔ نہ نماز میں پہلی سی حالت، نہ ذکر کی رغبت۔ بار بار خود کشی کو دل چاہتا ہے۔
تحقیق: مُبارَک مُبارَک یہ وہ حالت ہے کہ میری تمنّا دل سے اپنے متعلقین کے لئے اس کے طاری ہونے کی بشرطِ البصیرۃ و الاستقلال ہوا کرتی ہے اور اس کے منافع اس قدر ہیں کہ اِحصار میں نہیں آ سکتے۔ مثلًا عُجب و کِبر کی جڑ کٹ جانا، ہر وقت استحضار اپنے محلِ تصرّف ہونے کا، وساوس و خطراتِ غیر اختیاریہ یعنی تصرّفاتِ شیطانیہ کی انتہاء معلوم ہو کر جھجھک نکل جانا جو شرعاً عین مطلوب ہے۔ اگر مرتے وقت کسی کو ایسی حالت پیش آئے وہ طبعًا گھبرا جائے اور خدا جانے گھبراہٹ میں کیا سمجھ جائے۔ حالتِ حیات و علم میں اس کے پیش آ جانے سے اس کا محقّق ہو جاتا ہے۔ اگر بوقتِ مرگ پیش آئے تو وہ مؤثّر نہیں ہوتی ''وَغَیْرُ ذَالِکَ مِنَ الْمَنَافِعِ وَ الْمَصَالِح''۔ جن سب کا خلاصہ ’’فنائے تام‘‘ ہے اور اس کے بعد جو بَسط ہوتا ہے وہ بھی بے نظیر ہوتا ہے۔ الحمد للہ اس حالت کے منافی اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی مشاہدہ کرائے ہیں، تب ہی سے اس کو حصولِ مقصود کے لئے مثلِ جزوِ اخیر ’’علتِ تامہ‘‘ کے سمجھ رہا ہوں۔ اور اسی سے اپنے احباب کے لئے اس کا مُتمنی ہوتا ہوں اور مبارکباد دیتا ہوں۔
اشعار برائے دفعِ قبض و شناخت قبض:
در طریقت هر چه پیشِ سالک آید خیر اوست
بر صراطِ مستقیم اے دل کسے گمراہ نیست
به دُرد و صافِ تو را حکم نیست خوش درکش
کہ آنچہ ساقئِ ما کرد عین الطاف ست
باغباں گر پنج روزے صحبتِ گل بایدش
بر جفائے خارِ ہجراں صبرِ بلبل بایدش
چونکہ قبض آید تو در وے بسط بیں
تازہ باش و چین میفگن بر جبیں
چوں کہ قبضے آیدت اے راہ رو
آں صلاحِ تست آیس دل مشو
مگر شرط یہ ہے کہ اعمالِ شریعت و معمولاتِ طریقت میں کوتاہی نہ ہو، ورنہ وہ قبض نہیں، بَطالت اور تعطّل ہے جو کہ باطن کو مُضرّ ہے۔
دوسرا علاج قبض کا:
تحقیق: غسل تازہ کر کے کپڑے بدل کر عطر لگا کر دو رکعت نفل پڑھ کر استغفار کرنا اور ایک ہزار بار ''یَا بَاسِطُ'' پڑھنا قبض کے لئے نافع ہے۔
قبض کا سبب کبھی سُوءِ مزاج بھی ہوتا ہے:
حال: دل پر گرمی بہت شدّت کی رہتی ہے اور تاریکی سی معلوم ہونے لگتی ہے، گھبراہٹ رہتی ہے، کسی کام کو دل نہیں چاہتا۔
تحقیق: یہ کیفیت ’’قبض‘‘ کہلاتی ہے۔ اس کے اسباب مختلف ہوتے ہیں اکثر سُوءِ مزاج بھی اس کا سبب ہوتا ہے۔ کسی طبیب کو نبض دکھلا کر قلب و دماغ کا علاج دریافت کیا جائے۔ اگر وہ مرض کی جانب سے بالکل اطمینان دلا دیں تو پھر مجھ کو اطلاع کی جائے۔
قبض کے آثار اور اس وقت کا دستور العمل:
حال: ذکر کرنے کے وقت زبان ایسی ثقیل ہوجاتی ہے جیسے قُفل لگا دیا گیا ہو۔ جسم ایسا بھاری ہوجاتا ہے کہ جس کے وزن کا اندازہ نہیں ہو سکتا، ذہن ایسا کُند و بے حس ہوجاتا ہے جو اظہار سے باہر ہے۔
تحقیق: یہ حالت ’’قبض‘‘ کہلاتی ہے اور منافع میں یہ بَسط سے بھی زیادہ ہے۔ گوعین قبض کے وقت وہ منافع نہ ہوں، مگر بعد میں معلوم بھی ہو جاتے ہیں اور اگر معلوم نہ بھی ہوں تب بھی حاصل تو ہوتے ہیں، اور حصول ہی مقصود ہے، نہ کہ حصول کا علم۔ چنانچہ غایتِ انکسار اور عبدیّت کے آثار مثلًا مشاہدۂِ عجز و ضعف اور غلبۂِ انکسار و افتقار و فنائے دعویٰ حالًا کا ترتّب ہوتا ہے۔ جیسا کہ اکابر کا الہام ہے ''اَنَا عِنْدَ مُنْکَسِرَةِ قُلُوْبِھِمْ''۔( بدایۃ الھدایۃ، امام غزالیؒ)
فہم و خاطر تیز کردن نیست راہ
جُز شکستہ می نگیرد فضلِ شاہ
ہرگز پریشان نہ ہوں، ذکر جس قدر ہو سکے کر لیجئے۔ اگرچہ کسی قدر تکلیف بھی کرنا پڑے اور اگرچہ اس میں دلچسپی بھی نہ ہو، اور جس میں زیادہ کلفت ہو اس کو تحفیف کر دیجئے اور استغفار کی کثرت رکھیں اور جب تک یہ حالت رہے ایک بار یا دو بار ہفتہ میں اطلاع دیتے رہیں، ان شاء اللہ تعالیٰ بہت جلد یہ حالت رفع ہوجائے گی۔ سب کو یہ حالت پیش آتی ہے میں تو اس سے خوش ہوا کہ علامت ہے راہ قطع ہونے کی، یہ سب راستے کی گھاٹیاں ہیں۔
قبض کی حکمتیں اور اس وقت کا دستور العمل:
تحقیق: قبض سے عُجب کا علاج ہوتا ہے، عبدیّت کی حقیقت کا اس میں مشاہدہ ہوتا ہے۔ فنا اور تہی دستی رَایُ العین ہوجاتی ہے۔ اختیاری کام کی پابندی ایسے ہی وقت دیکھنے کے قابل اور محلِ امتحان ہے۔ اگر اس امتحان میں پاس ہو گیا اعلٰی درجہ کے نمبر کا مستحق ہو گا۔
قبض کے اسباب:
تحقیق: کبھی سوءِ اعمال کی وجہ سے سالک سے لذّت فی الطاعات مفقود ہوجاتی ہے۔ اور گاہے بوجۂ فتور و کسل و ملال کے طبعًا پیش آتی ہے۔ اور کبھی بمصلحتِ امتحان کے، کہ حق کا طالب ہے یا لذت کا من جانب اللہ وارد کی جاتی ہے۔ یہ سب اقسام قبض کے سالک کو پیش آتے ہیں۔
قبض فی نفسہ مضر نہیں:
تحقیق: قبض فی نفسہ تو مُضرّ نہیں، مگر جب اس کا سبب کوئی فعلِ قبیح ہو تو وہ قبض مُضرّ ہے۔ اس کی اصلاح یہی ہے کہ اس فعل کا تدارک کیا جائے۔
قبض سے جو مایوسی ہو اس کا علاج:
حال: ایک دن قبض کی حالت میں یہ بات سمجھ میں آئی کہ تمھارے ارادے تو کبھی پورے نہیں ہوئے، اب جو تم اہلُ اللہ کے دروازے پر پڑے ہو تو کیا امید ہو سکتی ہے؟ پھر خیال یہ ہوتا ہے کہ بُلا کر محروم کرنا یہ انصاف کے خلاف ہے۔ اور بے انصافی سے اللہ تعالیٰ پاک ہیں۔
تحقیق: اس کو بے انصافی نہ سمجھنا چاہیے، محروم رکھنا ہی عین انصاف ہے۔ اول تو وہ مالک، پھر ہم میں ہزاروں کوتاہیاں جس سے محروم رہنا تعجب نہیں۔ بجائے اس کے یہ سمجھے کہ وہ بڑے رحیم ہیں کوتاہیوں کو بھی معاف کرتے ہیں ان سے امید ہے۔
قبض کے علاج کی ضرورت نہیں:
تحقیق: قبض کے آداب و حقوق کی رعایت ضروری ہے۔ خصوصاً رضا و تفویض خلاصۃُ الآداب ہے۔ جو امر غیر اختیاری ہو سب محمود ہے، قبض خود حالتِ نافع ہے اس کا علاج ضروری نہیں۔ اور علاج کے عنوان سے بزرگوں نے کچھ لکھا ہے کہ اس سے مقصود نہیں ہے کہ اس کا ازالہ کیا جائے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ قبض کے وقت یہ عمل کیا جائے۔ گویا یہ اعمال آداب و حقوق ہیں قبض کے۔ پھر ان کے بعد خواہ قبض رہے یا جائے، دونوں حالتوں میں رضا و تفویض چاہئے۔ اس دستورُ العمل سے اگر پریشانیٔ ذات بھی رہے تو اس کا وصف نہ رہے گا مشاہدہ اس کا شاہد ہے۔
قبض سے مقصود سالک کی اصلاح ہے:
تحقیق: قبض کا سبب صرف عدمِ رضائے حق نہیں، بلکہ بعض دفعہ حکمتوں کی وجہ سے قبض طاری کیا جاتا ہے، سالک کے لئے یا سنبھالنے کے لئے بسط کو سلب کر لیا جاتا ہے تاکہ عُجب و کِبر میں مبتلا نہ ہو۔
قبض کی حکمت:
تحقیق: حدیث میں ہے کہ "جب بندہ کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خاص مرتبہ مقدّر ہوتا ہے جس کو وہ اپنے عمل سے حاصل نہ کرسکتا تھا اللہ تعالیٰ اس کو اس کے جسد اور اس کے اہل اور اس کے مال کو کسی بَلا میں مبتلا کر دیتا ہے، پھر وہ اس پر صبر کرتا ہے یہاں تک کہ وہ اس مرتبہ کو حاصل کر لیتا ہے جو اللہ کی طرف سے مقدّر ہوا تھا"۔ (سنن ابی داؤد) یہ حدیث قبض کی حالت میں نہایت تسلّی بخش ہے۔
تحقیق: حضرت حاجی صاحب نے فرمایا کہ قبض حقیقۃً لُطف ہے بصورت قہر۔
چونکہ قبضے آیدت اے راہ رو
آں صلاحِ تست آیس دل مشو