باب دوم
تحقیقات
اس بات میں (سہل ومُجَرب علاج ان اُمورِ غیر اختیاریہ کے ہیں جن میں سالکین اکثر و بیشتر مبتلا ہو کر سخت حیران و پریشان ہوتے ہیں)
وساوِس
وساوِس کا عجیب و غریب علاج:
تحقیق: وساوِس کا علاج عدمِ التفات ہے بس، لیکن عدمِ التفات کو مقصود بالغیر سمجھ کر کام میں نہ لاوے، بلکہ مقصود بالذات سمجھے، خواہ اندفاعِ وساوِس پر مترتب ہو یا نہ ہو، اسی طرح راحت کو مقصود بالذات نہ سمجھا جائے، بلکہ اس پر آمادہ رہنا چاہیے کہ اگر تمام عمر اس سے بھی زیادہ کُلْفَت ہو تو وہ محبوب کا عطیہ ہے؛ ’’لِأَنَّہٗ لَیْسَ بِمَعْصِیَّةٍ وَّ لَا اخْتِیَارِيٍّ وَّ کُلُّ مَا ھُوَ کَذَالِکَ فَھُوَ نِعْمَتُہٗ'' اور عبدیّت یہی ہے۔
؎ به دُرد و صاف تو را حکم نیست خوش درکش
کہ ہر چہ ساقی ما کرد عین الطافت
اس شعر کو کبھی کبھی پڑھ لیا کریں۔
صاحبِ ذکاوت مُفرط کو یکسوئی حاصل نہیں ہوتی:
تحقیق: عاقلوں کو خاص کر صاحبِ ذکاوت مُفرط کو یکسوئی حاصل نہیں ہوتی، کیونکہ اس کا دماغ ہر وقت حرکتِ فکریہ میں رہتا ہے۔ اس لئے اسکو کیفیات حاصل نہیں ہوتی۔
ایک عجیب مثال وسوسہ کی:
تحقیق: شیطان کی مثال تارِ بجلی جیسی ہے، اس کو ہاتھ ہی نہ لگاؤ، نہ جلب کے لئے نہ دفع کے لئے، ورنہ تم کو لپٹ جائے گا۔ بلکہ اس کو منہ بھی نہ لگاؤ، اس کی طرف التفات بھی نہ کرو۔ یہی علاج ہے وساوِس کا جو منجانبِ شیطان ہیں۔
وسوسہ کے آمد و آورد کے شُبہ کا جواب:
حال: بعض دفعہ یہ نہیں سمجھ سکتا کہ وسوسہ خود آتا ہے یا میں لاتا ہوں۔ معیار بتلایا جائے۔
تحقیق: معیار کی حاجت نہیں، جب آمد اور آورد میں شک ہے اور ادنیٰ درجہ یقینی ہے تو ''أَلْیَقِیْنُ لَا یَزُوْلُ بِالشَّکِّ'' اس کو آمد ہی سمجھنا چاہئے۔
وسوسہ پر عمل نہ کرنا باطنی مُجاہدہ ہے:
تحقیق: خیال آنا مُضر نہیں اس پر عمل نہ کیا جائے، بلکہ خیال آنے پر عمل نہ کرنا یہ ایک مجاہدہ ہے جو باطن کو بے حد نافع ہے۔
ذکر و تنہائی میں بی بی کا خیال مُضرِ باطن نہیں:
حال: تنہائی میں بیٹھنے ہی سے بی بی کی باتیں یاد آ جاتی ہیں اور ذکر میں بھی بی بی کے دردِ فراق کی آمیزش پاتا ہوں، کوئی تدبیر ارشاد فرما دیں کہ ذکرِ محمود کے ساتھ ذکرِ دنیا کی آمیزش نہ ہو۔
تحقیق: یہ آمیزش غیر اختیاری ہے، اس لئے مُضر نہیں۔ بس اس کے اہتمام کی بھی ضرورت نہیں، بلکہ اپنے اثر کے اعتبار سے کہ شکستگی ہے ''مُعِیْنٌ فِی الْمَقْصُوْدِ'' ہے اس لئے نافع ہے کچھ فکر نہ کیجئے۔
خیالاتِ اضطراریہ توجّۂ کامل کے منافی نہیں:
تحقیق: خیالاتِ اضطراریہ توجّۂ کامل کے منافی نہیں۔ البتہ وہ وساوِس و خیالات جو اختیاری ہوں منافی ہیں۔ اب اگر وہ وساوِسِ اختیاریہ مباحات کے درجہ میں ہیں تو ان سے گناہ تو نہ ہو گا البتہ ذکر ناقص ہو گا، اگر تصوّرات مُحرّمہ ہیں تو ان سے گناہ بھی ہو گا، چنانچہ نصّ میں وارد ہوا: ﴿يَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَ مَا تُخْفِي الصُّدُوْرُ﴾ (غافر: 19) ﴿وَ إِن تُبْدُوا مَا فِيْ أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوْهُ يُحَاسِبْكُم بِهِ اللّٰـهُ﴾ (البقرۃ: 284) مراد اختیاری خیالات ہیں کیونکہ اِبداء واخفاء افعالِاختیاریہ ہیں۔
وساوِس کے وقت محقّقین کا دستورُ العمل:
تحقیق: وساوِس آنے کے وقت محقّقین تو یہ کہتے ہیں: ''اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِيْ رَدَّ کَیْدَہٗ إِلَی الْوَسْوَسَةِ'' کہ خدا کا شکر ہے کہ دشمن کی سب چالیں ختم ہو کر وسوسہ ہی پر رہ گئی۔ وہ ان وساوِس سے نہیں گھبراتے، بلکہ شیطان سے کہتے ہیں کہ آج جتنے وسوسے تو ڈال سکے ڈال دے میرا کچھ ضرر نہیں۔
وساوِس کا سہل و مُجرّب علاج:
تحقیق: ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ وسوسوں سے خوش ہونا چاہئے تاکہ شیطان تمہاری خوشی کو دیکھ کر بھاگ جائے، کیونکہ اس کو مسلمان کی خوشی گوارا نہیں وہ تو رنج دینے کے لئے وسوسہ ڈالتا ہے۔ پھر جب دیکھے گا کہ اس کو الٹی خوشی ہے بھاگ جائے گا، لیکن یہاں پر ایک بات قابلِ یاد رکھنے کی ہے کہ وساوِس پر اس نیت سے خوش نہ ہو کہ اس خوشی سے وساوِس دفع ہو جائیں گے، کیونکہ شیطان ان نکتوں کو سمجھتا ہے، جب وہ دیکھے گا کہ یہ دفعِ وساوِس کے لئے تدبیر کررہا ہے تو و ہ کبھی نہ بھاگے گا۔ بس اس کا سہل نسخہ یہی ہے کہ ان کی پرواہ ہی نہ کرے، اور دفع کی نیت ہی نہ کرے، دفعِ وسوسہ کا قصد کرنے سے اس کی طرف اور توجّہ بڑھے گی، گھٹے گی نہیں۔ پھر جب شیطان اس کو وسوسہ کی طرف متوجہ پائے گا تو اور زیادہ وسوسہ ڈالے گا، بلکہ جب وسوسہ آئے اس وقت مقصود کی طرف توجّہ کی تجدید کرے۔
نفس سے فراغت کا قصد بیکار ہے:
تحقیق: معاصی کے ارتکاب اور اَوامِر سے اجتناب کے متعلق جو وسوسات نفس و شیطان ڈالا کرتے ہیں ان کا علاج یہی ہے کہ ان وسوسات کے مقتضیات پر ہرگز عمل نہ کیا جائے اور اپنے نفس کی ہر وقت دیکھ بھال رکھی جائے اس سے فارغ ہونے کا قصد ہی نہ کیا جائے، بلکہ اس کی سرزنش مخالفت یا مالی و بدنی جرمانہ سے کرتا رہے جیسے کہ بخار کے موسم میں ہمیشہ ہوتا ہے، مگر علاج اس کا یہی ہے کہ بخار کا نسخہ پیا جائے۔ اس کی سعی بیکار ہے کہ بخار ہی نہ آئے۔
وسوسہ کا رحمت ہونا اور اس کی ایک عجیب حکمت:
تحقیق: وساوِس کا آنا تو رحمت ہے، چنانچہ حدیث میں ہے ''ذَالِکَ صَرِیْحُ الْإِیْمَانِ'' (المسند للإمام أحمد، باب: مسند أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ، رقم الحدیث: 9156) اور اس میں بڑی حکمت یہ ہے کہ اس سے عُجب کی جڑ کٹ جاتی ہے اور عدمِ تضرّر (نقصان) یقینی اور منصوص ہے۔
وسوسہ اخلاقِ مذمومہ کی شناخت:
حال: بسا اوقات نفس عاصی بندوں کو نظرِ حقارت سے دیکھتا ہے اور اپنے کو اہلِ علم سمجھ کر دوسرے سے تعظیم چاہتا ہے، حالانکہ نہ علم کا اثر ہے نہ عمل کی ہمت، کبھی رئیس زادہ سمجھ کر توقیر کی خواہش ہوتی ہے، حالانکہ ﴿وَ لِلہِ اَلْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِہٖ وَ لِلْمُوْمِنِیْنَ﴾ (المنافقون: 8)
تحقیق: یہ سب وساوِس ہیں۔ جب آپ ان کو بُرا سمجھتے ہیں اور قصد نہیں ہے کہ ایسا خیال ہو، بلکہ یہ قصد ہے کہ نہ ہو، تو یہ نہ طلبِ تعظیم ہے نہ تکبّر ہے، نہ ترفُّع ہے کیونکہ سب افعالِ مذمومہ ہیں جو اختیاری ہوتے ہیں، پس جو اختیار سے نہ ہو وہ اخلاقِ مذمومہ سے خارج ہے، صرف وسوسہ ہے اخلاقِ مذمومہ کا جو مُضِرّ نہیں۔
وسوسہ کا علاجِ کل مع العلّت:
تحقیق: وسوسات کوئی پریشانی کی چیز نہیں۔ پریشانی سے قلب ضعیف ہو جاتا ہے جس سے دونا ہجوم ہوتا ہے، بجز بے پروائی اور بے التفائی اور کوئی تدبیر نہیں، بلکہ بہتر یہ ہے کہ اس پر خوش ہو، اس سے قلب کو قوّت ہوتی ہے اور وساوِس کو قبول نہیں کرتا جس سے وہ بہت جلد قطع ہوجاتے ہیں اور حقیقت میں جب اس میں گناہ نہیں تو پھر پریشانی کیوں ہو۔
وساوِسِ غیر اختیاریہ مکمل ایمان ہیں:
تحقیق: وساوِس غیر اختیاریہ مکمل ایمان ہیں، نہ کہ مُزیلِ مکمل ایمان، اس لئے کہ وساوِس کی مشقتوں کو برداشت کرنا پڑتا ہے اور اس صبر و تحمّل پر اجر مزید ملتا ہے۔
وسوسہ کا فِی الذَّات قبیح ہونا اور اس کا علاج:
تحقیق: وسوسہ اور اس کا لازم کہ غفلت ہے جب غیر اختیاری ہو، بایں معنی گناہ نہیں کہ اس پر مُواخذہ نہیں، لیکن اپنی ذات میں نقص اور قبیح ضرور ہے اور استغفار جیسا رافعِ ذنب ہے ایسے ہی جابرِ نقص بھی ہے اور اسی وجہ سے حضور اقدس ﷺ ’’غین‘‘ کے بعد جو آپ کے مذاق میں کمال سے متنزل تھا استغفار فرماتے تھے۔ (غین سے مراد وہ گرانی ہے جو توجّہ الی الخلق میں آپ پر ہوتی تھی، کیونکہ آپ کا طبعی تقاضا توجّہ بلا واسطہ کا تھا، توجّہ بواسطہ طبعاً گراں تھی۔
وسوسہ لا ادریہ کا علاج:
حال: ایک شخص کے وساوِس اس شان کے تھے جیسا لا ادریہ کی حالت ہے کہ ''شَاکٌّ وَّ شَاکٌّ فِيْ أَنَّہٗ شَاکٌّ''۔
تحقیق: مجھ کو اس بات میں بِحمدِ اللہ اتنا کافی تجربہ ہے شائد کسی کو ہو، اس تجربہ کی بناء پر کہتا ہوں کہ یہ سب وسوسے ہیں اور اس کے وسوسے ہونے نہ ہونے میں جو شک پیدا ہوتا ہے وہ بھی وسوسہ ہے۔ اگر میرے صاحبِ تجربہ ہونے میں شبہ پیدا ہو وہ بھی وسوسہ ہے بالکل پرواہ نہ کی جائے، میری تقلید کی جائے، اس میں طریقِ تقلید ہی ہے۔ تحقیق مُضر ہے یعنی تکلیف دہ ہے، مگر گناہ اس میں بھی نہیں۔
وسوسۂ عدمِ محبتِ الٰہی کی تحقیق:
حال: مجھے آپ سے اور بزرگانِ دین سے محبت ہے، لیکن خدا سے نہیں یہ کیا بات ہے؟
تحقیق: اگر اللہ کی محبت نہ ہوتی تو اس کی فکر ہی کیوں ہوتی کہ اللہ کی محبت ہونی چاہئے یہ خود محبت ہی کا ثمرہ ہے، رہا یہ کہ جب محبت ہے تو پھر ہوتی ہوئی کیوں نہیں معلوم ہوتی، بات یہ ہے کہ رنگ محبت کے مختلف ہیں، تم خاص رنگ کو محبت سمجھے ہوئے ہو حالانکہ دوسرے رنگ سے ہے، دوسرے یہ کہ اللہ والوں کی محبت کیوں ہوتی اگر اللہ کی نہ ہوتی۔
وسوسۂ زنا مُضر نہیں:
تحقیق: قلب کی تمنّا و اشتہاء پر بھی مُواخذہ ہے مگر وہی جو بقصد ہو، اور بلا قصد تو وسوسۂ زنا کیا، کفر و شرک کے وساوِس بھی مُضر نہیں۔
وساوِس کا انقطاعِ کلی مطلوب نہیں:
تحقیق: خیالات کا انقطاعِ کلی مطلوب نہیں۔ ہاں! مُنتہِی کو ایسے خیالات آتے ہیں جیسے بہتے دریا میں تنکے اور بُلبلے ہوتے ہیں کہ اِدھر آیا اور اُدھر گیا۔ اِدھر اٹھا اُدھر بجھا وہ جمنے نہیں پاتے۔ وساوِس اور خطرات تو بلا قصد مرتے دم تک بھی آویں تو خوف کی چیز نہیں کیونکہ حدیث میں ہے: ''إِنَّ اللہَ تَجَاوَزَ لِأُمَّتِي عَمَّا حَدَّثَتْ بِهِ أَنْفُسَهَا'' (سنن نسائي رقم الحديث: 3463)۔
دفعِ وسوسات کے اعتدال کا طریقہ:
تحقیق: دفعِ وسوسات میں کوشش مُبالغہ کے ساتھ نہ کریں اور اعتدال رکھیں، لیکن اعتدال ہر شخص کا جدا ہے جس میں تعب زیادہ ہو یا اصل مقصود میں خَلَل نہ پڑنے لگے وہ اس شخص کا اعتدال نہیں، اس سے بھی خفیف اور سرسری کوشش کریں۔
اہتمامِ دفعِ وساوِس کی ایک عجیب مثال اور اس مَضرّت کا علاج مع الدلیل:
تحقیق: وساوِس کا علاج یہ ہی ہے کہ ان کے دفع کا اہتمام اور قصد نہ کرو، کیونکہ یہ بجلی کا تار ہے، دفع کے قصد سے بھی ہاتھ لگاؤ گے تو چمٹ جائے گا، بلکہ اس کا علاج یہ ہے کہ اپنی توجّہ کو دوسری طرف مشغول کرو، ذکرُ اللہ میں لگ جاؤ۔ دوسرا جزو یہ ہے کہ وسوسہ کی طرف التفات نہ کرے، قصداً ادھر توجّہ نہ کرے، چنانچہ حدیث میں آیا ہے ''فَلْیَسْتَعِذْ بِاللہِ ثُمَّ لِیَنْتَہِ'' (الصحیح للبخاری، کتاب بدء الخلق، باب: صفۃ إبلیس و جنودہ، رقم الحدیث: 3276) اوّل جزو کا اشارہ ''تَعَوُّذٌ بِاللہِ'' میں اور دوسرے جزو کا ''لِیَنْتَہِ'' میں ہے۔
وساوِسِ مختلفہ کا علاجِ کلی اور اس کی توضیحات:
حال: (1) یہ وسوسہ ہوتا ہے کہ راحتِ دنیا کا مدار اعمالِ صالحہ نہیں ہیں، آخرت کی راحت بھی فضل پر موقوف ہے۔ (2) دعا مانگنے کو طبیعت نہیں چاہتی جس کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ اتنی مدّت ہو گئی کوئی قبول بھی ہوئی۔ پس جو اللہ تعالیٰ چاہیں گے وہی ہو گا۔ (3) روزگار کی قلّت کا اثر جیسا عام دنیا پر ہے ویسا ہی یا اس سے کسی قدر زائد مجھ پر ہے۔ خیال یہ ہوتا ہے کہ دنیا کی راحت مال سے ہے، مال کی طلب جائز یا ناجائز طریقہ سے جس طرح ہو سکے کرنی چاہئے۔ وظائف میں وقت دینے سے اور اس پر صبر کرنے سے دنیا کی راحت و آسانی ہرگز حاصل نہ ہو گی۔
تحقیق: علاجِ کلی اور مفید تو یہی ہے کہ ان وساوِس کو اعتقاداً بُرا سمجھا جائے اور ان کے مُقتضٰی پر عمل نہ کیا جائے یہ از خود دفع ہو جائیں گے۔ اور اگر دفع بھی نہ ہوں تو مُضر نہیں، بلکہ یہ ایک گونا مجاہدہ ہے جس سے عمل کا اجر بڑھتا ہے، لیکن اگر ان وساوِس کی وجۂ فساد ہی معلوم کرنے کا شوق ہو تو مُجملاً اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ:
مقصود اعمالِ صالحہ سے راحت دنیا نہیں ہے، بلکہ راحتِ آخرت ہے۔ اور اس کا مدار جو فضل و رحمت ہے اس کے یہ معنی نہیں کہ اعمال کو دخل نہیں، بلکہ یہ معنی ہیں کہ ملے گا تو عمل ہی سے، لیکن جتنا ملے گا اتنا اثر اعمال میں نہیں وہ فضل و رحمت کا اثر ہے، لیکن جو عمل ہی نہ کرے گا وہ قانوناً اس فضل و رحمت سے بھی محروم رہے گا، باقی طبیعت کا لگنا یہ شرطِ قبول نہیں ہے۔ اگر دوا پینے میں طبیعت نہ لگے تب بھی اس کی خاصیّت یعنی صحت مرتّب ہو گی۔ (2) دُعا قبول ضرور ہوتی ہے مگر اس کے قبول ہونے کی وہ حقیقت ہے جو مریض کی اس درخواست کی منظوری کی حقیقت ہے کہ کبھی طبیب سے درخواست کرے کہ میرا علاج مُسہل سے کر دیجئے اور فوراً علاج کردے، مگر مُسہل اس کی حالت کے مناسب نہ تھا اسلئے دوسرے طریقہ سے علاج شروع کردیا اس کو کوئی یوں نہیں کہہ سکتا کہ طبیب نے جب مُسہل نہیں دیا تو مریض کی درخواست کو منظور نہیں کیا۔ اسی طرح اصل مطلوب دعا سے حق تعالیٰ کی توجّۂ خاص ہے اور عبد نے جو طریق مُعیّن اختیار کیا ہے یہ بھی مقصود نہیں ہے، بلکہ مقصود کا محض ایک طریق ہے جیسے اس مقصود کے اور بھی طریق ہیں۔ لہٰذا وہ جس طریق سے توجّۂ خاص فرما دیں وہ اجابت دعا ہی ہے، یہ تو طاعات و حاجات میں کلام ہے، باقی معاصی کا ارتکاب جو مُوصِل اِلی النار ہو، وہ ایسا ہے جیسے مریض کو بد پرہیزی سے لذّت ملتی ہے اور اس کے صبر کرنے میں لذّت فوت ہو جاتی ہے، لیکن جو شخص جانتا ہے کہ لذّت مقصود نہیں، صحت مطلوب ہے وہ صبر کرے گا۔ اسی طرح جس شخص کو نجاتِ آخرت مقصود ہے وہ راحتِ دنیا کو مقصود نہ سمجھے گا۔ رہی سزا گناہ کی کسی کو یہاں ملتی ہے کسی کو وہاں۔ تجویز مناسب بلکہ واجب یہی ہے کہ طاعات میں حتّی الامکان مشغول ہوں، معاصی سے مُجتنب رہیں اور مقصود صرف رضائے حق کو سمجھیں، خواہ اس کا ظہور یہاں ہو یا وہاں۔ اور ایسی حالت میں روزگار کا وظیفہ پڑھنا وساوِس میں اضافہ کرنا ہے۔
وساوِس مخلِ صِدق و اخلاص نہیں ہیں:
تحقیق: وساوِس مُخل نہیں اخلاص میں، اول تو وہ غیر اختیاری ہیں ، دوسرے نماز سے وہ مقصود نہیں۔ پس وساوِس اخلاص کے خلاف نہیں۔ البتہ اگر قصداً وساوِس لائے جائیں تو صدق کے خلاف ہیں، مگر جب بلا قصد ہوں تو خلافِ صدق بھی نہیں۔
وساوِس میں پڑ کر قطعِ تحریمہ حرام ہے:
تحقیق: وساوِس میں پڑ کر اور مُضطر ہو کر قطعِ تحریمہ حرام ہے۔ یاد رکھو! نیت فعلِ اختیاری ہے، اس وقت دوسری طرف توجّہ قصد و اختیار سے نہ ہونا چاہئے اور بلا اختیار (توجّہ) منافی نیّت نہیں۔ اس لئے مُکَرّر بہ مُکَرّر نیت کرنا اس خیال سے کہ تحریمہ کے وقت نیّت نہیں ہوئی اور عزم نہیں ہوا یا تحریمہ کی طرف توجّہ نہ تھی یہ سب لغو ہے، تکرارِ نیّت کی ضرورت نہیں۔
وساوِس کی عجیب مثال:
تحقیق: وساوِس کی مثال ہوا کی طرح ہے کہ جوشخص برتن میں سے تنہا ہوا نکالنا چاہے وہ عاجز ہو جاوے گا۔ کیونکہ خلا مُحال ہے۔ ہاں! برتن میں پانی بھر دو جب وہ منہ تک بھر جاوے گا پھر ہوا کا نام نہ رہے گا۔ پس تم اپنے قلب میں لقائے رب اور رُجوع الی اللہ کا خیال اچھی طرح بھر لو پھر وساوِس کا نام بھی نہ رہے گا۔
وساوِس کی آئینۂ جمالِ حق بننے کی صورت:
تحقیق: اگر یوں سوچے کہ اللہ اکبر! خدا نے میرے دل کو بھی کیسا دریا بنا دیا ہے کہ جس میں وساوِس کی بے شمار موجیں اٹھ رہی ہیں، جن کی کوئی انتہا نہیں ہے تو وہ وساوِس آئینۂ جمالِ حق بن جائیں گے۔
وسوسہ خلافِ تقویٰ نہیں:
تحقیق: ﴿إِنَّ الَّذِيْنَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَإِذَا هُمْ مُّبْصِرُوْنَ﴾ (الأعراف: 201) اس سے معلوم ہوا کہ وسوسہ کا آنا خلافِ تقویٰ نہیں، بلکہ متقی کو بھی وسوسہ آ سکتا ہے اور وہ اس کے ساتھ بھی متَّقی رہتا ہے۔ اس میں بڑی تسلّی ہے اہلِ سلوک کے لئے۔ پس وسوسہ سے پریشان نہ ہونا چاہئے۔
وسوسہ کا ایک مُجرّب علاج:
تحقیق: وسوسہ کا علاج یہی ہے کہ اس سے پریشان نہ ہو، بلکہ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ان وساوِس کو جمالِ حق کا مِرَاة بنا لے، اس طرح کہ یوں مراقبہ کرے کہ اللہ تعالیٰ کی کیسی عجیب قدرت ہے کہ دل میں ایک دریا خیالات کا پیدا کر دیا ہے، جس کی کہیں انتہاء ہی نہیں اور جو کہیں رُکتا ہی نہیں۔ اسی طرح وساوِس کو قدرتِ حق کی معرفت کا وسیلہ بنانے سے ان شاء اللہ وہ خود بند ہوجائیں گے۔ کیونکہ شیطان کا مقصود تو وساوِس سے خدا سے بعید کرنا تھا، جب اس نے ان کو ہی قرب کا وسیلہ بنا لیا تو اب شیطان وسوسے ڈالنا بند کر دے گا۔ غالباً شیخ ابو سلیمان دارانی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے کہ وساوِس سے خوش ہوا کرو، یعنی خوشی ظاہر کیا کرو، کیونکہ شیطان کو علم نہیں ہے جب تم خوشی ظاہر کرو گے تو وہ یہی سمجھے گا کہ دل سے خوش ہو رہا ہے اور وہ مسلمان کو خوش کرنا نہیں چاہتا۔ اس لئے وسوسہ ڈالنا بند کردے گا۔ (بس ترکیب یہ ہے کہ تم غلبۂ وسوسہ کے وقت اتنا کہہ دیا کرو کہ میں ان وسوسوں سے نہیں گھبراتا اور وسوسے ڈال دے میں نہایت خوش ہوں۔)
دفعِ وسوسہ کا مُجرّب طریق:
تحقیق: وسوسہ کو بلا واسطہ دفع کرنا مفید نہیں ہوتا، بلکہ بواسطۂ اذکار دفع کرنا چاہئے۔
دفعِ وساوِس کا طریق رُسوخِ ذکر ہے:
تحقیق: تم مجاہدہ کرو مگر ثمرات کے منتظر نہ ہو کام میں لگے رہو۔ اور شیطان کے جلدی بھاگنے کا انتظار نہ کرو، کیونکہ وہ تمہاری جلدی سے جلدی نہیں بھاگے گا، بلکہ وہ تو اس وقت بھاگے گا جب ذکر راسخ ہو جائے گا اور ذکر کا راسخ ہونا ایک دو دن کا کام نہیں۔
؎ بسیار سفر باید تا پخته شود خامی
صوفی نشود صافی تا در نکشد جامی
رغبتِ اضطراریہ الی الاجنبیّہ کا علاج:
تحقیق: رغبتِ اضطراریہ إلی الأجنبیہ پر مواخذہ نہیں، بلکہ مواخذہ قصد پر ہے۔ اگر عمداً کسی مرد یا عورت کی طرف توجہ کرے گا تو گناہ ہو گا۔ اسکا علاج بے التفاتی برتنا اور توجّہ الی اللہ کرنا ہے۔ اگر یہ تدبیر ظاہراً کافی نہ معلوم ہو تب بھی یہ چاہئے کہ غم نہ کرے ان شاء اللہ اسی طرح رفتہ رفتہ ایک دن دفع ہو جائے گا۔ اور اگر عمر بھر بھی دفع نہ ہو تو تم اس تدبیر کرنے کے بعد سبکدوش ہو گئے اب تم کو اس خیال سے کچھ ضرر نہیں، بلکہ نافع ہو گا۔ کیونکہ تم مجاہدہ میں مشغول ہو، چنانچہ حدیث میں ہے ''مَنْ عَشِقَ فَعَفَّ وَ کَتَمَ فَمَاتَ فَھُوَ شَھِیْدٌ'' (الداء والدواء، فصل: مقامات العاشق: صفحہ: 515، مکتبۃ: دار عالم الفوائد) یعنی جو کسی پر عاشق ہو گیا، پھر اس نے عِفت اختیار کی اور اپنے عشق کو چھپایا وہ شہید ہے۔ عِفّت کی قید میں عِفّتِ جوارح و عِفّتِ قلب سب داخل ہیں۔ اور عِفّتِ قلب سے مراد وہی ہے کہ بالاختیار اور بالقصد خیال نہ لائے۔ اور شہید ہونا بھی عقلاً ظاہر ہے کہ جب تپ دق کا گُھلا ہوا شہید ہے تو تپِ عشق کا مارا ہوا تو ضرور ہی شہید ہو گا۔ کیونکہ حرارتِ حُمّٰی سے حرارتِ عشق اَشَدّ ہے۔