حصہ 1 باب 1 ملفوظ 5: مراقبات

مراقبات

دفعِ رغبت الی المعاصی کا مراقبہ:

ارشاد: اگر رغبت الی المعاصی کی کثرت ہو، تو یاد کر کے ایسے وقت میں عُقوبتِ دوزخ کو، یا حق تعالیٰ کے بصیر ہونے کو یاد کر لیا کرو،چند بار ایسا کرنے سے یہ مانع ہو جایا کرے گا۔

مراقبۂ موت کی تعدیل:

ارشاد: مراقبۂ موت و ما بعد الموت سے جو خوف پیدا ہوتا ہے عین مطلوب ہے کہ معینِ آخرت ہے، لیکن اگر اس کے قصداً استحضار سے کوئی مرضِ جسمانی ہونے کا خوف ہو تو روزانہ نہ کریں، گاہ گاہ جب غفلت محسوس ہو کر لیں۔

مراقبۂ دفعِ معاصی:

ارشاد: گناہ کا علاج بجُز ہمّت کے کچھ نہیں ہے اور خدا تعالیٰ کے عذاب کا سوچنا یہ ہمّت کو قوی کرے گا۔

مراقبہ میں جی نہ لگنے کی تعدیل:

ارشاد: اگر مراقبہ میں جی نہ لگے تو ایک دن مراقبہ کرو، ایک دن ناغہ کرو۔

مراقبۂ عذابِ آخرت:

ارشاد: عذابِ آخرت کا سوچنا تمام پریشانیوں سے نجات دینے والا ہے۔ اس سے کلفت اور کدورت نہیں ہوتی، بلکہ اس فکر سے قلب میں نورانیت و انشراح ہوتا ہے۔ جس کا راز یہ ہے کہ اس فکر سے قلب کو اللہ تعالیٰ کی طرف توجّہ اور تعلّق ہو جاتا ہے اور تعلّق مع اللہ تمام پریشانیوں سے نجات دینے والا ہے۔ حدیث میں ہے: ''مَنْ جَعَلَ الْھُمُوْمَ ھَمًّا وَّاحِدًا، ھَمَّ آخِرَتِہٖ، کَفَاهُ اللہُ ھَمَّ دُنْیَاہٗ، وَ مَنْ تَشَعَّبَتْ بِہِ الْھُمُوْمُ فِيْ أَحْوَالِ الدُّنْیَا لَمْ یُبَالِ اللہُ فِيْ أَيِّ أَوْدِیَتِھَا ھَلَکَ…'') (ابنِ ماجہ، رقم الحدیث:257)

مراقبہ تفویضیہ، توحیدیہ، عشقیہ، عبدیہ، مراقبہ قُدسیہ:

ارشاد: یہ مراقبہ اور استحضار کہ ہم کون ہیں اپنے اندر تصرّف کرنے والے، یا تجویز کرنے والے۔ محبوبِ حقیقی ہی کو حق ہے تصرّف اور تجویز کا، اور وہ جو تصرّف اور تجویز فرماتے ہیں، سب خیر محض ہے۔ گو! اس وقت ہماری سمجھ میں نہ آئے بعد میں آ بھی جاتا ہے۔ البتہ جن اعمال کا ہم کو امر فرمایا ہے وہ خود ان کا تصرّف ہے، اس کا اہتمام، یہ اپنا تصرّف نہیں، ان ہی کے تصرّف کو تسلیم کرنا ہے۔ اور اس کے ساتھ اس یقین کا تازہ اور قوی کرنا کہ اگر ان کے کسی تصرّف سے جس کا بندہ کو تحمّل نہ ہو سکے صحت برباد ہو جائے، بلکہ جان بھی ختم ہو جائے ،تو ایسا تصرّف سب سے بڑی رحمت ہے۔

عاشقاں جامِ فرح آنگه کشند

کہ بدستِ خویش خوباں شان کشند

همچو اسمٰعیل پیشش سر بنه

شاد و خنداں پیشِ تیغش جان بده

تا بماند جانت خنداں تا ابد

ہمچو جانِ پاکِ احمد با احد

آں کسے راکش چنیں شاہے کشد

سوئے تخت و بہترین جائے کشد

نیم جاں بستاندہ صد و جان دهد

آنچہ درو ہمت نیابد آں دہد

گر ندیدے سودا ور در قهرِ او

کے شدے آں لطفِ مطلق قہر جو

طفل می لرزد زنیشِ احتجام

مادرِ مشفق دراں غم شادکام


نیز یہ بھی پیشِ نظر رکھا جائے۔

زاں بلاها کانبیا برداشتند

سز پحرخ ہفتمیں افراشتند

نیز اس کو بھی ملاحظہ کیا جائے۔

تو بیک زخمے گریزانی زِ عشق

تو بجز نامے چہ میدانی زِ عشق

در بہرِ زخمے تو پُر کینه شوی

پس کجا صیقل چو آئینه شوی

اور اپنے لئے یہ مذہب اختیار کیا جاوے۔

چیست تعظیمِ خدا افراشتن

خویشتن را خاک و خارے داشتن

چیست توحیدِ خدا افراشتن

خویشتن را پیشِ واحد سوختن

گر ہمی خواہی کہ بفروزی چو روز

ہستی ہمچوں شب خورا بسوز

اور ان مراقباتِ تفویضیہ، توحیدیہ، عشقیہ، عبدیہ کی تعدیل کے لئے (کہ بعض اوقات ان مراقبات سے دعویٰ و عُجب و استغناء کا خطرہ بھی ہوتا ہے) عملِ دعا و التجاء و ابتہال کا التزام بھی، بلکہ ان مراقبات سے زیادہ رکھا جائے، کہ یہ بھی تفویض کا ایک شعبہ ہے۔ (جیسا اوپر اعمال مامور بہا کے اہتمام میں اس کی تقریر گزری ہے) اعمال کی طرح دعا بھی مامور بہ ہے، یہ امر (دعا) عبد کو (جو عبد میں ایک تصرّف ہے) ، اس کا اختیار کرنا اس تصرّف کو تسلیم کرنا ہے اور یہی تفویض ہے۔ ان شاء اللہ یہ نسخہ تمام جسد و روح کی اصلاح کے لئے کافی ہو گا: (''فَخُذُوْہٗ وَ کُلُوْہٗ ھَنِیْئاً مَّرِیْئًا۔ وَ اللہُ الشَّافِي الْکَافِيْ'')

مراقبۂ ارض کا حاصل:

ارشاد: ہماری اصل تو خاک ہے لہٰذا ہم کو خاک بن کر رہنا چاہئے۔ مٹی ہو کر تکبّر کرنا نہایت ہی نا زیبا ہے، پھر آخر میں بھی ہم مٹی ہی میں ملنے والے ہیں، یہ جسم سب خاک خوردہ ہوجائے گا اور ایک دن ہم کو زمین کے اوپر سے اس کے اندر پہنچ جائیں گے تو اس کے لئے ہم کو ایسے اعمال کرنے چاہئیں جو اس وقت کار آمد ہوں۔ اس مراقبہ کو اصلاحِ حال میں بہت ہی تاثیر ہے۔

سفرِ آخرت کا مراقبہ سفر دنیویہ سے:

ارشاد: جس طرح اسفارِ دُنیویہ میں موانعِ سفر سے کوسوں دور بھاگتے ہیں، اتفاقیہ نقصان پر طبیعتوں میں آثارِ غم پاتے ہیں۔ اور جو اُمور معین ہوتے ہیں ان کی طرف رغبت کرتے ہیں، اسی طرح ہم کو چاہئے کہ اپنی ہر ہر نقل و حرکت کو تنقیدی نظر سے دیکھیں کہ آیا یہ ہمارے سفرِ آخرت کے واسطے عائق ہے یا معین، اگر کوئی حالت یا فعل ہمارا مانعِ سفر ہے تو اس سے احتراز کریں اور جو امور اس سفر میں ہمیں مُعین ہیں، رغبت کے ساتھ بطیبِ خاطر اختیار کریں، یہ خیال رکھیں کہ کہیں کوئی خارِ راہ ہمارے اس شاہراہ پر رونما نہ ہو۔

خود داری کا علاج:

ارشاد: اپنے عیوب اور اپنا ہیچ ہونا اور فنا ہو جانا سوچا کرے یہ ہے علاج خود داری کا۔

ہر شئ کے واسطہ وصول ہو جانے کا مراقبہ:

ارشاد: اگر اس طرح مراقبہ کرو کہ یہ سارے حوادث (یعنی موجودات، زمین و آسمان، چاند و سورج، ستارے، پہاڑ وغیرہ) مُوْصِل اِلَی المُحدِث (الخالق) اور یہ سارے مصنوعات مِراةِ جمالِ صانع ہیں تو اس حیثیت سے تمام عالم میں کوئی شئ غیر نہیں کیونکہ ہر شئ واسطۂ وصول ہے۔ قال الشیخ الشیرازی:

برگِ درختاں سبز در نظرِ ہوشیار

ہر ورقے دفتریست معرفتِ کردگار

مراقبۂ رویۃ اللہ کا نفع:

ارشاد: جو شخص ہر وقت اس بات کو پیش نظر رکھے گا کہ حق تعالیٰ مجھ کو دیکھ رہے ہیں وہ تکبّر نہ کر سکے گا نہ غصہ بیجا، نہ گناہِ صغیرہ، نہ کبیرہ۔

ایک وقت موت کے مراقبہ کا رکھو:

ارشاد: ایک وقت موت کے سوچنے، حالات قبر کے سوچنے اور قیامت کے سوچنے کے لئے مقرر کرو۔ اور باقی اوقات میں ذکرُ اللہ میں مشغول رہو، اسی فکر کا نام ’’مراقبہ‘‘ ہے۔

مراقبۂ سفرِ آخرت برائے زوالِ رضا بالدنیا و اطمینان بہا:

ارشاد: خدا کا راستہ طویل ہے اور ہم اس پر چل رہے ہیں تو ہم ہر وقت سفر میں ہوئے۔ اے صاحب! جس کو ہر وقت سفر درپیش ہو، وہ کیونکر مطمئن ہو کر بیٹھ سکتا ہے اور جس کے سامنے اتنا لمبا سفر ہو وہ کیونکر دل کھول کر ہنس سکتا ہے اس لئے حدیث میں رسول اللہ کی سیرت اسی باب میں اس طرح بیان کی گئی ہے ''کَانَ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَاصِلَ الْأَحْزَانِ دَائِمَ الْفِکْرَةِ '' (شمائلِ ترمذی، رقم الحدیث:215)۔ کہ آپ ہمیشہ فکر و سوچ اور رنج و غم میں رہتے تھے اور اسی فکر وغم کا یہ اثر تھا کہ آپ کبھی کُھل کر ہنستے نہ تھے، چنانچہ حدیث میں ہے: ''جُلُّ ضِحْکِہِ التَّبَسُّمُ'' (شمائلِ ترمذی، رقم الحدیث:215) کہ آپ کا بڑا ہنسنا یہ ہوتا تھا کہ تبسّم فرما لیتے تھے۔ اور وہ بھی ہماری خاطر سے، تاکہ لوگوں کا کلیجہ پھٹ نہ جائے اور وہ یوں نہ کہیں کہ جب حضور (صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)ہر وقت غمگین رہتے ہیں تو ہمارا کہاں ٹھکانہ ہے لوگ اس سے مایوس ہو جاتے۔ پس انسان کو چاہئے کہ یہ تصوّر پیشِ نظر رکھے کہ میں ہر وقت سفر میں ہوں، جس کے لوازم میں سے ہے "بے چینی اور عدمِ اطمینان"، کیونکہ مسافر کو منزل پر پہنچنے سے پہلے اطمینان نہیں ہوا کرتا، بلکہ مسافر کیلئے غیر منزل کے ساتھ اطمینان اور رضا موانعِ سفر سے ہے، جو مسافر غیر منز ل سے دل لگا لے گا اور اسی میں قیام کر کے بے فکر ہوجائے گا، یقیناً منزل پر نہ پہنچ سکے گا۔

مراقبۂ عظمتِ حق و قدرتِ حق:

ارشاد: جس پر عظمتِ حق و قدرتِ حق کا انکشاف ہو گیا ہے ان کو باوجود مغفرتِ ذنوب کے بھی جہنم سے اطمینان نہیں، اسی لئے رسول اللہ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں: ''لَوْ عَلِمْتُمْ مَّا أَعْلَمُ لَضَحِکْتُمْ قَلِیْلًا وَّ لَبَکَیْتُمْ کَثِیْرًا'' (صحيح البخاري رقم الحديث: 6637) یعنی اگر تم وہ باتیں جانتے جو مجھے معلوم ہیں تو بہت کم ہنستے اور زیادہ رویا کرتے، اس جگہ کم ہنسنے کے معنی یہ ہیں کہ بالکل نہ ہنستے۔ جیسا اردو میں آپ کہا کرتے ہیں: کہ میں ایسا روگ کم پالتا ہوں (یعنی نہیں پالتا)۔

مراقبہ برائے قطعِ مسافت آخرت:

ارشاد: آپ ہر وقت سفر میں ہیں تو آپ کو سفر کے لئے فکر مند اور بے چین رہنا چاہئے، بے فکر نہ ہوں، بلکہ برابر عمل میں لگے رہئے اور اپنی طرف سے راستہ قطع کرنے کی برابر ہمت کیجئے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی عنایات و اعانات کا لطف دیکھئے کہ وہ کیونکر طویل مسافت کو قصیر اور دشوار گذار طریق کو پھولوں جیسا ہلکا بنا دیتے ہیں۔ اگر کبھی سُستی ہو جائے تو پھر از سر نو تجدید کی فکر کیجئے۔ اگر گناہ ہوجائے فوراً توبہ کر لیجئے۔ اس سے پھر بندہ راستہ ہی پر آجاتا ہے۔

مراقبہ ترغیبِ مجاہدہ:

ارشاد: صاحبو! اپنے وطن کو جا رہے ہو اور اتنی سُست رفتار کہ بیٹھ بیٹھ کر چل رہے ہو۔ اصل مکان کی طرف تو جانور بھی تیزی سے چلتے ہیں، بیلوں کو دیکھئے کہ وطن کی طرف کس شوق سے قدم اٹھا کر چلتے ہیں۔ حیرت ہے کہ آپ انسان ہو کر بھی اپنے اصلی وطن کی طرف تیزی کے ساتھ قدم نہیں اٹھاتے۔ صاحبو! سُستی نہ کرو، تیزی کے ساتھ چلو، تمہارا اصلی وطن، اصلی مستقر آگے ہے، تم دنیا میں کہاں پھنسے رہ گئے؟ اس کے ساتھ کیوں دل لگایا؟

مراقبات کا مقصود:

ارشاد: مراقبات کا یہ نفع نہیں ہے کہ ان سے تصوّر کامل ہوتا ہے، بلکہ یہ نفع ہے کہ ان سے تصوّر ناقص راسخ ہو جاتا ہے اور اسی رُسوخ میں مشائخ عوام سے ممتاز ہیں۔