دعا و متعلقاتِ دعا
حال: اب پروردگارِ عالم ساتھ ایمان کے بلا لیں، بلا بصارت زندگی بے کار ہے، تلاوت و مواعظ وغیرہ سے محرومی کا سخت رنج ہے۔
صحت کی دعا سنت اور علامتِ عبدیت ہے:
صبر کا اجر عمل کے اجر سے بڑھ جاتا ہے:
ارشاد: صحت کی دعا تو سنت ہے اور علامت عبدیت کی ہے، مگر یہ کہنا کہ اب پروردگارِ عالم ساتھ ایمان کے بلالیں، بلا بصارت زندگی بے کار ہے، یہ نہایت بے ادبی ہے اور بعید از عبدیت ہے۔ ہم کو رائے لگانے کا کیا حق ہے، حضرتِ حق سے جو پیش آئے خیر ہے۔ تلاوت و کتب بینی میں ثواب اور رضا منحصر نہیں، اوّل تو صحت کی حالت میں تطوّع پر مداومت کرنے والے کو مرض میں بدون عمل کئے بھی ثواب عملِ سابق کا ملتا ہے۔ دوسرے بعض اوقات صبر کا اجر عمل کے اجر سے بڑھ جاتا ہے۔ البتہ بینائی کی دعا خود رائی نہیں٬ اس کی اجازت ہے، دعا مانگے اور دل سے مانگے اور ساتھ میں یہ سمجھے کہ اگر اس کے خلاف واقع ہوا وہ بھی خیر ہے، اس پر بھی راضی رہے۔
حال: دعا فرما دیں کہ دنیا کے مطالب پورا کریں یا نہ کریں، لیکن مقصودِ حقیقی یعنی رضائے مولیٰ ہمیشہ نصیب رکھیں۔
مقاصدِ دنیویہ کی دعا نہ مانگنا بے ادبی ہے:
ارشاد: یہ کہنا بے ادبی ہے٬ ہم کو دنیا کے مطالب کی بھی حاجت ہے، دعا یہ کرنا چاہیے کہ دارَین کے مطالب پورے ہوں۔
حال: ﴿رَبَّنَا اٰتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَۃ…﴾ (البقرۃ: 200) ایک جامع دعا ہے۔ اس کے علاوہ بہت سی دعائیں ہیں، اب میں خیال کرتا ہوں کہ جب ہم نے ایک باغ مانگ لیا ہے جس میں گلاب، لمچہ، نارنگی وغیرہ کُل اشیاء موجود ہیں، پھر علیحدہ علیحدہ لیموں، نارنگی مانگنے کی کیا ضرورت ہے۔
خاص خاص دعاؤں کے مانگنے میں خشوع و خضوع زیادہ ہوتا ہے:
ارشاد: حق تعالیٰ کے دربار میں خشوع و خضوع بڑی چیز ہے، تجربہ یہ ہے کہ خاص خاص چیزوں کے مانگنے میں زیادہ خشوع ہوتا ہے۔ اس واسطے احادیث میں جامع دعاؤں کے علاوہ خاص خاص مقاصد کی بھی دعائیں آئی ہیں۔
دعا و سفارش بدرگاہِ حق٬ مال وجان سے بھی بڑھ کر ہے:
حال: جب اور جس وقت ارشادِ عالی ہو یہ غلام خدمتِ عالی میں جان و مال سے حاضر ہے۔
ارشاد: میں تو ان سب سے بڑھ کر چیز چاہتا ہوں یعنی دعا و سفارش بدر گاہِ حق۔
درود شریف اپنی دعا کی قبولیت کیلئے پڑھنا خود غرضی نہیں ہے:
ارشاد: دینی غرض، خود غرضیِ مذموم میں داخل نہیں اور دعا دین اور طاعت ہے۔ پس اس کے مقبول ہونے کے لئے درود شریف پڑھنا دینی غرض کے لئے ٹھہرا، جو عین مطلوب ہے، ذرا بھی اس میں ناپسندیدگی نہیں اور خلافِ خلوص نہیں۔
حال: دُنیوی اُمور میں دعا کرنے سے جی ڈرتا ہے کہ کہیں خدا تعالیٰ کی مصلحت کے خلاف دعا مانگ کر اپنے کو خرابی میں نہ ڈال لوں۔
جہاں اذنِ شرعی ہو دعا سے نہ رکیں:
ارشاد: جہاں ایسا ہو گا خود حق تعالیٰ اس کو واقع نہ فرمائیں گےـ اور اگر عدمِ جواز کا شُبہ ہو٬ تو سمجھ لیجئے کہ آپ اپنے نزدیک خیر سمجھ کر مانگ رہے ہیں اور اس کے شر ہونے پر کوئی دلیل بالفعل نہیں، اس لیے شرعی اذن ہے٬ اور اذنِ شرعی کے بعد کوئی وجہ شُبہ کی نہیں۔
دعا میں دل نہ لگنے اور تقاضائے عجلت کا علاج:
ارشاد: دعا میں اگر دل نہ لگے اور تقاضا عجلت کا کرے تو دیر تک باوجود دل نہ لگنے کے دعا کیا کرے۔ اس سے دل لگنے لگے گا۔
''أَمِتْنِیْ مِسْکِیْناً…'' میں مسکیناً کے معنی:
ارشاد: ''اَللّٰھُمَّ أَمِتْنِيْ مِسْکِیْناً…'' (سنن ابن ماجہ، کتاب الزھد، باب: مجالسۃ الفقراء، رقم الحدیث: 4126) اگر یہ دعا نافع عام نہ ہوتی تو حضور اقدس ﷺ اس کا اعلان نہ فرماتے۔ پس یہ یقیناً یہ کسی حال میں مُضِر نہیں اور حقیقت اس کی یہ ہے کہ مسکین سے مراد حالاً نہیں، اخلاقاً ہے۔
اُمورِ دُنیویہ کے لئے بھی دعا عبادت ہے:
ارشاد: چونکہ آسائش دنیا کو جمعیّت اور سکونِ قلب میں بڑا دخل ہے، اس لیے اس کو بھی خوب مانگنا چاہیے۔ امورِ دنیا کے لئے بھی دعا سے نہ رکنا چاہیے۔ اُمورِ دُنیویہ کے لئے بھی دعا عبادت ہے۔
طاعات میں طلبِ ثواب اور دعا میں طلبِ اجابت اِفتقار ہے:
ارشاد: طاعات میں طلبِ ثواب اور دعا میں طلبِ اجابت یہ ’’افتقار‘‘ ہے کہ ہم کو کوئی درجہ استغناء کا حاصل نہیں، حتیٰ کہ جن چیزوں کا آپ نے ہم کو محتاج بنایا ہے، ہم ان کے محتاج ہو کر ان کو طلب کرتے ہیں۔ اور یہ محض ’’عبدیت‘‘ ہے وَ مِنْ ثَمَّ قَالَ ﷺ فِيْ حَمْدِ الطَّعَامِ: ''غَیْرَ مُوَدِّعٍ وَ لَا مُسْتَغْنًی عَنْہٗ رَبَّنَا''۔ (سنن الترمذی، أبواب الدعوات عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، باب: ما یقول إذا فرغ من الطعام، رقم الحديث: 3456)۔ وَ قَالَ اللہُ تَعَالٰی بَعْدَ ذِکْرِ الْجَنَّۃِ: ﴿وَفِي ذٰلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ﴾ (المطففين: ٢٦) اور جو بعض بزرگوں کی حکایت سے اِستغناء ثابت ہوتا ہے وہ ان کے حالِ ناقص سے ناشی ہے اور وہ حجت نہیں، گو معذور ہوں، ''وَ شَتَّانَ بَیْنَ مَنْ ھُوَ مُلَامٌ وَّ بَیْنَ مَنْ ھُوَ غَیْرُ مُلَامٍ''۔
شرطِ دعا برائے کیفیّات:
ارشاد: کیفیات کے لیے دعا کرنا مُضائِقہ نہیں، بشرطیکہ عدمِ اجابت سے ذرا قلق نہ ہو، باقی کوئی تدبیر نہ کرے۔
کون سی کیفیت قابلِ اتباع ہے:
حال: جب نماز کے بعد دعا دنیا کے لیے مانگتا ہوں تو عظمتِ خداوندی ایسی طاری ہوتی ہے کہ باوجود شدّتِ ضرورتِ دنیوی حاجت کے دعا نہیں مانگی جاتی، باوجودیکہ جانتا ہوں کہ تسمۂ نعل بھی اس سے طلب ہونا چاہیے۔
ارشاد: کیفیت وہ قابلِ اتباع ہے جس کے غلبہ کے وقت اس کی ضد کا خَطور نہ ہو اور جب ان کی ضد بھی مستحضر ہو، اور وہ اقرب الی السنۃ ہو تو وِجدانِیات کے اتباع سے سُنَن کے اتباع کو ترجیح و تقدیم ہے۔
سب مقاصد کے لئے دعا:
ارشاد: سب مقاصد کے لئے یہ شِعْر ہر نماز کے بعد سات مرتبہ پڑھ لیا کریں:
؎ فَسَھِّلْ یَا إِلٰھِيْ کُلَّ صَعْبٍ
بِحُرْمَۃِ سَیِّدِ الْأَبْرَارِ سَھِّلْ
ظاہراً دعا کے عدمِ قبولیت کا راز:
ارشاد: اگر دعا قبول ہونے میں دیر ہو، قبول کے آثار معلوم نہ ہو تو گھبراؤ نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر بات کو اچھی طرح جانتے ہیں یعنی وہ ہر چیز کی مصلحت کو تم سے زیادہ جانتے ہیں، بس اس بات کو بھی وہی خوب جانتے ہیں کہ یہ نعمتِ موہوبہ (جس کی تم درخواست کررہے ہو) تمہارے لیے مناسب ہے یا نہیں اور مناسب ہے تو کس وقت اور کس حالت میں مناسب ہے۔
عارف کی دعا کا منشاء:
ارشاد: عارف کو دعا سے بجز دعا کے اور کچھ مقصود نہیں۔ تو اس کی دعا ہر حال میں مستجاب ہے، کیونکہ مدعا ہر حال میں حاصل ہے۔ کبھی حق تعالیٰ عارف کی زبان سے دعا اس لیے نکلواتے ہیں کہ ان کی باتیں سنیں، ان کا عِجز و نیاز دیکھیں۔
ہماری سب دعائیں بِالمعنَی الأَعمّ قبول ہوتی ہیں:
ارشاد: حدیث میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے کہ دعائیں سب قبول ہوتی ہیں، پھر کبھی تو وہی مل جاتا ہے جو مانگا تھا، اور کبھی اس سے افضل چیز عطا ہوتی ہے اور کبھی دنیا میں کچھ عطا نہیں ہوتا، بلکہ اس کا اجر آخرت میں جمع کر کے اس کو دیا جائے گا۔ اس وقت ثواب کو دیکھ کر آپ تمنا کریں گے کاش! ہماری سب دعائیں آخرت ہی میں ذخیرہ رہتیں، دنیا میں ایک بھی نہ ملتی۔ (سنن ترمذی، حدیث نمبر: 3381) پس یقین کر لینا چاہیے کہ ہماری سب دعائیں بِالمعنَی الأَعمّ قبول ہوتی ہیں۔
ثمراتِ آجِلہ و عَاجلہ کے لئے دعا کے شرطِ جواز:
ارشاد: اعمالِ اختیاریہ کا اہتمام واجب ہے اور ثمراتِ آجِلہ یعنی جزا کے لیے دعا بھی جائز ہے اور اہتمام بھی واجب ہے۔ اور احوالِ اختیاریہ یعنی ثمراتِ عَاجلَہ کے لیے صرف دعا جائز ہے۔ اور اس کے علاوہ کسی قسم کا اہتمام جائز نہیں۔ اور دعا بھی اس شرط سے جائز ہے کہ عدمِ عطا پر دل سے راضی رہے۔
دعا کا امتیاز دوسرے عبادات سے:
ارشاد: دعا میں ایک امتیاز یہ ہے کہ دین و دنیا دونوں منافع کو جامع ہے، یعنی تدابیرِ دنیا میں سے یہ بھی ایک تدبیر ہے اور سب سے بڑی تدبیر ہے۔ اور دوسرا متیاز یہ ہے کہ دعا ہرحال میں (گو دنیا ہی مانگی جائے بشرطیکہ ناجائز اور حرام شئ کی دعا نہ ہو، ثواب و عبادت ہے، دیگر عبادات میں اگر دنیا کی آمیزش ہو جائے تو وہ عبادت نہیں رہتیں۔ اور اگر مقصود ہی دنیا ہو پھر تو بُطلانِ عبادت ظاہر ہے۔ مگر دعا سے اگر دنیا ہی مطلوب ہو جب بھی وہ عبادت ہے، کیونکہ دعا میں عبادت کی شان ہر حالت میں باقی رہتی ہے۔
دعا کی فضیلت عقلاً:
ارشاد: ہر تدبیر میں انسان اپنے جیسے عاجز کے سامنے احتیاج کو ظاہر کرتا ہے، خواہ قالاً یا حالاً۔ اور دعا میں ایسے سے مانگتا ہے جو سب سے زیادہ کاملُ القدرة ہے اور جس کے سب محتاج ہیں۔ اور عقل سے پوچھو تو وہ یہی کہے گی کہ جو سب سے قادر تَر ہے اسی سے مانگنا اَکمل و اَنفع ہے۔ پس یقیناً یہ تدبیر (دعا) ہر تدبیر سے بڑھ کر ہے، کیونکہ اور تدابیر بھی حق تعالیٰ کی مشیّت اور ارادہ سے ہی کامیاب ہوسکتی ہیں۔ تو جو شخص حق تعالیٰ سے مانگے گا وہ ضرور کامیاب ہو گا۔
اجابت کے دو معنی ہیں:
ارشاد: اجابت کے دو معنی ہیں: ایک درخواست کا لے جانا، یہ بھی ایک قسم کی منظوری اور بڑی کامیابی ہے، اگر کوئی طبیب سے درخواست کرے کہ میرا علاج مُسہل سے کر دیجئے تو اصل منظور تو علاج شروع کردینا ہے گو مُسہل نہ دے۔ اور دوسری منظوری مُسہل دینا ہے اس میں یہ شرط ہے کہ طبیب بھی مصلحت سمجھے۔
دعا میں دل بستگی کا سہل طریقہ:
ارشاد: دعا میں اگر دل نہ لگتا ہو تو اس طرح سمجھا دے کہ دنیا میں نفعٔ مَوہوم پر بھی ہمت سے کام کر لیتے ہیں، گو! آخر میں خسارہ ہی ہو جائے، اور خسارہ کا خطرہ بھی ہوتا ہے، جیسے تجارت وغیرہ میں احتمال ہے اور دعا میں تو خسارہ کا احتمال ہی نہیں، پھر اس میں کوتاہی کیوں کی جاتی ہے؟
’’دعا‘‘ حق تعالیٰ سے خاص تعلّق پیدا کرنے کا سہل طریقہ:
ارشاد: دعا میں ایک خاص بات اور ہے وہ یہ کہ دعا کرنے سے بندہ کو حق تعالیٰ سے خاص تعلّق ہو جاتا ہے، جس وقت آدمی دعا کرتا ہے اس وقت غور کر کے ہر شخص دیکھ لے کہ اس کو اللہ تعالیٰ سے خاص تعلّق محسوس ہو گا۔ پس دعا کے بعد اگر مطلوب بِعینہ حاصل نہ ہو تو یہ بات تو اسی وقت حاصل ہو جائے گی کہ دل میں قوّت اور اطمینان حاصل ہو گا، اور یہ برکت اس کی ہے کہ دعا سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندہ کو تعلّق ہو جاتا ہے۔ اور عُشاق کو ہر دعا سے صرف تعلّق مع اللہ مطلوب ہے۔
؎ از دعا نبود مرادِ عاشقاں
جز سخن گفتن بآں شیریں دہاں
اسی لیے عُشاق کو دعا قبول ہونے یا نہ ہونے پر کبھی التفات نہیں ہوتا۔ پس حق تعالیٰ سے خاص تعلّق پیدا کرنے کا سہل طریقہ دعا ہے، بغیر اس کے خاص تعلق نہیں ہوتا بلکہ صرف ہوائی تعلّق ہوتا ہے۔
دعا کی کوتاہی کا عملی علاج:
ارشاد: دعا کی کوتاہی کا عملی علاج یہ ہے کہ ہر ہر حاجت میں (خواہ گھر میں نمک ہی نہ ختم ہو گیا ہو یا جوتے کا تسمہ ہی نہ شکست ہو گیا ہو) دعا کریں اور اس کے ساتھ تدبیر بھی کرو، کیونکہ تدبیر شاہد ہے اور شاہد سے تسلّی زیادہ ہوتی ہے۔
دعا کا درجہ:
ارشاد: اور دعا کو تدبیر کہنا تو برائے ظاہر ہے، ورنہ حقیقت میں اس کا درجہ تدبیر سے آگے ہے۔ دعا کو تقدیر سے زیادہ قُرب ہے کیونکہ اس میں اس ذات سے درخواست ہے جس کے قبضہ میں تقدیر ہے۔
معمولی چیز بھی خدا ہی سے مانگو:
ارشاد: معمولی چیز بھی خدا ہی سے مانگو اور یہ نہ سمجھو کہ چھوٹی چیز مانگنے سے حق تعالیٰ ناخوش ہونگے، کیونکہ حق تعالیٰ کے نزدیک ہر بڑی چیز چھوٹی ہی ہے، ان کے نزدیک عرش اور نمک کی ڈلی برابر۔
دعا کا حِسی اثر:
ارشاد: دعا سے یہ اثر ہر شخص کو فوراً محسوس ہو گا کہ پریشانی رفع ہو جائے گی، اور باطنی نفع یہ محسوس ہو گا کہ حق تعالیٰ سے قُربِ خاص مُشاہَد ہو گا۔ اللہ تعالیٰ سے جی لگے گا، اللہ تعالیٰ کی یاد سے وِحشت نہ ہو گی، اللہ تعالیٰ سے بُعد نہ ہو گا۔
دعا بھی اعلیٰ تدبیر ہے اور اس کی خاصیت:
ارشاد: صاحبو! دعا بڑی چیز ہے، دعا میں خاصیت ہے کہ اس سے تدبیرِ ضعیف بھی قوی ہو جاتی ہے، کم از کم دعا سے یہ فائدہ تو ضرور ہوتا ہے کہ دل میں قوّت پیدا ہو جاتی ہے اور قلب کو راحت و سکون ہوجاتا ہے۔ اور یہ بھی تو مطلوب ہے، کیونکہ دنیا کی تمام تدابیر سے راحتِ قلب ہی تو مقصود ہے۔
دعا کا ایک نفع:
ارشاد: دعا میں ایک نفع یہ ہے کہ یہ حق تعالیٰ کے یہاں معذور سمجھا جائے گا، کیونکہ جب اس سے سوال ہو گا کہ تم نے حق کا اتباع کیوں نہیں کیا، یہ کہہ دے گا کہ میں نے طلبِ حق کے لئے بہت سعی کی اور اللہ تعالیٰ تو ایک ہی تھے، میں نے ان سے بھی عرض کر دیا تھا کہ مجھ پر حق واضح کردیا جائے۔
دعا بھی ذکر ہی ہے فاجر کے حقوق سے بریت کی دعا:
ارشاد: دعا بھی ذکر کی ایک فرد ہے۔
ارشاد: ''اَللّٰھُمَّ لَا تَجْعَلْ لِفَاجِرٍ عِنْدِیْ نِعْمَةً أُکَافِیْہٖ بِھَا فِي الدُّنْیَا وَ الْآخِرَۃِ'' اس میں نعمت سے مراد حق ہے، یعنی میرے ذمہ اس کا کوئی حق نہ رہ جائے۔
استجابت کے معنی:
سوال: ادعیہ تعوّذ میں ''دَعْوَةٌ لَّا یُسْتَجَابُ لَھَا'' (الصحیح لمسلم، کتاب الذکر و الدعاء و التوبۃ و الاستغفار، باب: التعوذ من شر ما عمل و من شر ما لم یعمل، رقم الحدیث: 2722) وارد ہے، سو تعوّذ تو امرِ مذموم و مُضر سے ہوا کرتا ہے، حالانکہ دعا خواہ مستجاب ہو یا نہ ہو، اسکی حکمت تذلّل و افتقار جو بہرحال مطلوب و محمود ہے حاصل ہو ہی جاتی ہے، پھر تعوذ کے کیا معنی؟
ارشاد: یہ شُبہ پیدا ہوا ہے استجابت کے معنی نہ جاننے سے، سو ''استجابت'' خاص اسی حاجت کو پورا ہونا نہیں ہے، بلکہ ''تَوَجُّہُ الْحَقِّ إِلَی الْعَبْدِ بِرَحْمَتِہٖ خَاصَّۃً'' اس کی حقیقت ہے۔ پس عدمِ استجابت اس کا عدم ہے اور وہ قابلِ تعوّذ ہے۔
آئین کا حکم:
ارشاد: آئین تو دعا ہے اور دعا کا خاص لَب و لہجہ عاجزی ونیاز مندی کا ہونا چاہیے۔