حصہ 1 باب 1 ملفوظ 3: ذکر و متعلقات ذکر

ذکر و متعلقات آں

ذکر میں ضرب کا حکم:

ارشاد: طریقِ خاص ضرب میں نہ مقصود ہے نہ موقوف علیہ برائےمقصود۔ جس طرح بے تکلّف بن جائے کافی ہے۔

فکر سے اُنس ہو جانا ذکر ہی کی برکت ہے:

حال: دل چاہتا ہے کہ ذکر چھوڑ دوں اور بیٹھ کر سوچتا رہوں اور ذکر میں طبیعت کم لگتی ہے۔

ارشاد: یہ جو لکھا ہے کہ "ذکر چھوڑ دوں اور بیٹھ کر سوچتا رہوں"، سو یہ برکت ذکر ہی کی ہے کہ فکر سے اُنس ہو گیا ہے، ذکر کرنا ہرگز نہ چھوڑنا ورنہ بِنَاء کے انعدام سے مبنیٰ کا انعدام ہو جائے گا۔ خواہ دل لگے یا نہ لگے، معمولات پر استقامت رکھیں۔

ضُعف خود مُقتضِی تقلیلِ قیود ہے:

ارشاد: مبتدی کو اجازت ہے کہ خواہ آنکھ کھولے ہوئے نماز پڑھے یا بند کر کے، اکثر صفراوی یا سوداوی قیود سے متوحِّش ہوتے ہیں، خصوصاً جبکہ اس کے ساتھ ضُعف بھی منضم ہوجائے اور ضُعف مُقتضِی تکثیرِ قیود کو نہیں، بلکہ مقتضِی تقلیلِ قیود کو ہے۔ قیود سے جو اصل مقصود ہے تاثر، خود وہی کام ضُعف دیتا ہے۔

معمول سے زائد ذکر کا حکم:

ارشاد: اگر معمول سے زیادہ ذکر کو طبیعت چاہے تو کرے، لیکن اس زائد کو لازم نہ سمجھے اور جب بعد چندے امیدِ دوام ہو جائے التزام کرلے۔

ذکر میں بار و مشقت خود نافع ہے:

حال: ذکر طبیعت پر بہت بار معلوم ہوتا ہے جب کرنے بیٹھتا ہوں جی گھبرا اٹھتا ہے۔

ارشاد: بار ایک مشقت ہے، مشقت میں اگر جی نہ لگے تو سمجھ لو کہ خود مشقت بھی نفع میں جی لگنے سے کم نہیں۔ جس طرح سے بھی ہو حَتَّی الْوُسْع پورا کر لیا کیجئے۔ شُدہ شُدہ سب دشواری مبدّل بآسانی ہو جائے گی۔

ندامتِ مَافَات بھی مانعِ حِرمان ہے:

حال: ایک مرض جو کہ سب سے بڑھ کر ہے وہ ”کم ہمتی“ ہے کہ مجھ سے کوئی کام نہیں ہوتا۔

ارشاد: جتنا بھی ہو جائے وہ بھی بغیر کئے ہوئے نِدامت سے مل کر محروم نہ رہنے دے گا۔

فرحت خود رحمت کی لونڈی ہے:

حال: کچھ ذکر و تلاوت تو کرنے لگا ہوں، تہجّد بھی بعدِ عشاء جاری ہے، لیکن ہنوز قلب میں فرحت پیدا نہیں ہوئی۔

ارشاد: رحمت تو پیدا ہو گئی ہے جو رہبری کر رہی ہے۔ فرحت خود اس کی لونڈی ہے، اپنی باری میں وہ بھی حاضر ہو جائے گی۔

ذکر میں وضو کا حکم:

ارشاد: با وضو ذکر کرنے سے برکت زیادہ ضرور ہوتی ہے، لیکن وضو رکھنا ضروری نہیں۔ اس لئے اگر کسی کا وضو نہ ٹھہرتا ہو اور بار بار وضو کرنے سے تکلیف ہو تو تیمّم کرلیا کرے، مگر اس تیمّم سے نماز و مسِ مُصْحَف جائز نہیں۔

نماز سے جی چرانے کا علاج:

حال: نماز پڑھنے میں جی بہت چراتا ہے۔

ارشاد: اس کا تو کچھ حرج نہیں، مگر جی چرانے پر عمل نہ کیا جائے، نفس کی مخالفت کر کے نماز کو اہتمام سے پڑھا جائے اور کچھ نوافل بھی معمول کر لیا جائے جتنے میں کسی ضروری کام کا حرج نہ ہو۔

دفعِ تشتّت کا طریقہ ذکر میں:

ارشاد: کتابوں میں بوقتِ ذکر نفی و اثبات ملاحظۂ مفہوم ''لَا مَعْبُوْدَ إِلَّا اللہُ، لَا مَحْبُوْبَ إِلَّا اللہُ'' یا ''لَا مَوْجُوْدَ إِلَّا اللہُ'' تحریر ہے، لیکن میں اس لیے نہیں بتلایا کرتا کہ اس سے اکثر تشتّت ہوتا ہے اور جو اس میں مصلحت رکھی گئی تھی وہ اس تشتّت کے مقابلے میں ضعیف ہے۔

تصوّر بوقتِ ذکر:

ارشاد: تسبیح کے وقت اولیٰ تو تصوّرِ مذکور کا ہے یعنی حق تعالیٰ کا، لیکن اگر یہ خیال نہ جمے تو پھر ذکر کا تصور اس طرح سے کرے کہ یہ قلب سے ادا ہورہا ہے۔

ذکر بر وقتِ اذان:

ارشاد :اذان ہوتے ہوئے ذکر سے رُک جانا اولیٰ ہے۔

نماز سے بے رغبتی کا علاج:

حال: آج کل عبادات خصوصاً نماز سے بے رغبتی ہو جاتی ہے اور سخت آسکَت گھیرتی ہے، ایک آدھ بار قضا بھی ہو جاتی ہے۔

ارشاد: یہی صورت ہے کہ اولاً تکلّف سے اس کام کو کیا جائے، بعد چندے سہولت ہو جاتی ہے نیز اس کی اعانت کے لیے اپنے نفس پر کوئی جرمانہ نقد جو نہ بہت سہل ہو نہ گراں مقرر کیا جائے یا کچھ نوافل ایسی تعداد میں کہ نہ بہت سہل ہوں نہ بہت گراں اپنے ذمہ لازم کی جائیں۔

ذکر نزدِ مصلّی کا حکم:

ارشاد: کوئی اگر پاس نماز پڑھتا ہو تو اتنا جہر نہ کرے کہ مصلّی کو تشویش ہو یا دوسری جگہ چلا جائے۔

طریقۂ ترتیل حافظ کے لئے:

حال: ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کرتا ہوں تو اَزبر پڑھنا مشکل معلوم ہوتا ہے اور میں حافظ ہوں۔

ارشاد: معمول تو حسبِ عادت پڑھتے رہئے، کیونکہ اس قدر جلد تغیّر مشکل ہے اور تغیّر تک ناغہ نا مناسب ہے۔ البتہ روزانہ ایک پارہ یا کم خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھئے، اگر اَزبر نہ پڑھا جائے تو قرآن پاس رکھ لیا جائے اور اَزبر شروع کیا جائے اور جہاں شُبہ ہو دیکھ لیا جائے، امید ہے کہ پندرہ روز میں اصلاح ہوجائے گی۔

ذکر میں عدم لذّت انفع ہے:

ارشاد: ذکر میں لُطف و لذّت کا حاصل ہونا ایک نعمت ہے۔ اور نہ ہونا دوسری نعمت ہے۔ جس کا نام ”مجاہدہ“ ہے۔ یہ اوّل انفع ہے گو الذّ نہ ہو۔

موقوف علیہ آثارِ ذکر:

ارشاد: ذکر کا اثر موقوف ہے تقلیلِ کلام، تقلیلِ اختلاط مع الانام و قلّتِ التفات الی التعلّقات پر ان چیزوں کے حصول کے لیے مواعظ کا مطالعہ اور مثنوی کا (گو سمجھ میں نہ آئے) کرنا چاہیے۔

طریقۂ حصولِ جمعیّت:

ارشاد: اعمال کا انضباط اور ان پر مداومت چاہیے خواہ کچھ کیفیت ہو یا نہ ہو۔ اس لیے ضروری ہے کہ بیٹھ کر بھی کچھ معمول زیادہ مقدار میں رکھا جائے، یہی طریقہ جمعیّت حاصل ہونے کا ہے۔

ذکر و شغل میں تصوّر الی السماء کا حکم:

ارشاد: ذکر و شغل اور تلاوت میں تصوّرِ حق تعالیٰ کی جانب بلا تکَلّف آسمان کی جانب بند ہے، تو اس کے دفع کرنے کا قصد بالکل نہ کریں۔ یہ تصوّر فطری ہے دفع نہیں ہو سکتا اور کوئی اس سے خالی نہیں، لیکن بالقصد ایسا نہ کریں۔

ذکر و نماز میں گدگدی قلب کی، علامت بسط کی ہے:

ارشاد: ذکر و نماز میں اگر قلب میں گدگدی معلوم ہو تو یہ حالتِ بسط ہے۔ ذکر میں تو اگر ضبط نہ ہو سکے تو ضبط نہ کرے، لیکن نماز میں ضبط رکھے۔

نماز کے اندر نہ ذکرِ لسانی چاہئے نہ قلبی:

ارشاد: نماز میں نہ ذکرِ لسانی کرے نہ قلبی، خود توجّہ الی الصلٰوة اس میں مطلوب ہے۔ قلب جاری ہونا کوئی اصطلاح فن کی نہیں۔ مطلوب ذکر میں ملکۂ یاد داشت ہے، خواہ اس کا کچھ ہی نام ہو۔

معمولات کی زیادتی رمضان میں خلافِ دوام نہیں:

ارشاد: اگر کوئی رمضان شریف تک کے لیے اپنے معمولات بڑھا لے اور آئندہ دوام کی امید نہ ہو تو یہ خلافِ دوام نہیں، کیونکہ اوّل ہی سے دوام کا قصد نہیں، حدیث میں ہے کہ حضور ﷺ کے اعمال رمضان میں زیادہ ہو جاتے تھے۔

ضعیف کا عمل قلیل بھی وصولِ مقصود کے لیے کافی ہے:

ارشاد: قوی کے عملِ کثیر میں جو اثر ہے، ضعیف کے عمل قلیل میں وہی اثر ہے۔ ضعیف کو اسی عملِ قلیل سے بھی ان شاء اللہ مقصود کے لیے کافی ہے۔

جی لگنے کا قصد و انتظار نہ کرنا:

توجّہ مداومتِ اختیاری میں کوتاہی نہ کرنا حصول مقصود کے لیے کافی ہے۔

ارشاد: کسی خاص وظیفہ میں یہ کوئی خاص اثر نہیں کہ اس سے عبادت میں جی لگنے لگے، اس طرح اس کی اور کوئی تدبیر بھی نہیں۔ اس واسطے محققین کی تعلیم ہے کہ اسکا (یعنی جی لگنے کا) نہ قصد کرے نہ انتظار کرے، کام میں لگا رہے اور جتنی توجہ اور مداومت اختیار میں ہے اس میں کوتاہی نہ کرے۔ بس اسی پر تمام برکات مرتّب ہو جاتے ہیں۔ جو اس وقت سمجھ میں بھی نہیں آ سکتے بعدِ تَرَتُّب نظر آجائیں گے۔

اضافہ معمول بقدرِ تحمل و نشاط چاہئے:

ارشاد: اگر ذاکر کا دل کسی روز معمول سے زیادہ ذکر کرنے کو چاہے تو التزام تو اتنا ہی رکھیں جتنا معمول ہے، لیکن حسبِ نشاط بقدرِ تحمل اضافہ کر لینا مضائقہ نہیں۔

بال بچوں کے ساتھ گھر رہ کر ذکر نہ ہوتا ہو تو اس کا علاج:

ارشاد: اگر بال بچوں کے ساتھ گھر رہ کر ذکر نہ ہوتا ہو تو اس کا علاج یہ ہے کہ بالقصد ایسا اہتمام کرے کہ اگر گھر کے علاوہ دوسری جگہ میّسر ہو تب بھی گھر ہی میں ذکر کرے۔ رائفین کا معمول ہے کہ گھوڑا جس چیز سے چمکتا ہو اس سے دور کرنے کا اہتمام نہیں کرتے کہ ہمیشہ کی مصیبت ہے، بلکہ اسی چیز کے سامنے آنے اور دیکھنے کا خُوگَر کرتے ہیں یہاں تک کہ چمک نکل جاتی ہے۔ البتہ جس جگہ امر مانع ایسا ہو کہ اس سے ملابست کی ضرورت نہ ہو گی وہاں اَسلم یہی ہے کہ اس مانع سے مُبَاعَدَت اختیار کی جائے۔ خوب سمجھ لو!

مفید ترین ذکر:

ارشاد: زیادہ قرب ''لَا إِلٰہَ إِلَّا اللہُ'' میں ہے کہ یہ ماثور ہے۔ اور دوسرے اذکار ''إِلَّا اللہُ'' یا ''اَللہُ اَللہُ'' مصلحت یکسوئی کے لیے تجویز ہوتے ہیں۔ واقعی تجربہ سے ذکرِ ماثور ادفق بالطبائع ہے اور اس لیے انفع بھی ہے۔

شُغل کی حد:

ارشاد: اگر ذکر میں دل لگ جائے تو شُغل کی غرض حاصل ہو گئی، شُغل کی حاجت نہیں۔ اسی لیے ذکر توجّہ کے ساتھ صاحبِ نسبت کے لئے شُغل سے مُغنِی ہے۔

مبتدِی کو ذکر اور مُنتہِی کو تلاوت:

ارشاد: مبتدی کے لیے ذکر سے زیادہ شغف مناسب ہے، مُنتہِی کے لیے تلاوت ہے۔

ثبوت جوازِ تہجد در اول شب:

ارشاد: ''فِي الدُّرِّ الْمُخْتَارِ: "وَ صَلٰوةُ اللَّیْلِ [اِلٰی قَوْلِہٖ] وَ لَوْ جَعَلَہٗ ثَلَاثاً فَالْأوْسَطُ أَفْضَلُ وَ لَو اَنْصَافًا فَالْأَخِیْرُ أَفْضَلُ" (الدر المختار، باب: الوتر و النوافل، صفحۃ: 92، دار الکتب العلمیۃ بیروت) فِيْ رَدِّالْمُحْتَارِ۔ وَ رَوَی الطَّبْرَانِيُّ مَرْفُوْعًا: "لَا بُدَّ مِنْ صَلٰوةٍ بِلَیْلٍ وَّ لَوْ حُلْبَ شَاةٍ وَ مَا کَانَ بَعْدَ صَلٰوةِ الْعِشَاءِ فَھُوَ مِنَ اللَّیْلِ، وَ ھٰذَا یُفِیْدُ أَنَّ ھٰذِہِ السُّنَّۃَ تُحْصَلُ بِالتَّنَفُّلِ بَعْدَ صَلٰوۃِ الْعِشَاءِ قَبْلَ النَّوْمِ''۔ (رد المحتار، باب: الوتر والنوافل، مطلب: فی صلوٰۃ اللیل، جلد: 2، صفحۃ: 24، دار الفکر بیروت) اوسط و اخیر کے افضل ہونے سے بھی اوّل شب میں جواز مفہوم ہوتا ہے اور طبرانی کی روایت میں اس کی صاف تصریح ہے، اگر کسی کو افضل کی ہمت نہ ہو، محض ترک سے جائز ہی پر عمل کر لینا احسن ہے، اسی طرح بیداری کا اگر تیقّن نہ ہو تو بعدِ عشاء سب معمولات کو ادا کر لینا احسن ہے۔

استغفار و ندامت کی ضرورت:

ارشاد: اگر بوجۂ کثرت کاروبار کے معمولات و اوراد پور ا نہ کر سکے تو جتنا ہو سکے کرتا رہے، جو کمی رہ جائے استغفار و ندامت سے اس کی تلافی کرے، کام بنانے کے لیے کافی ہے۔

تمکین کی تعریف اور اس کے حصول کا طریقہ:

ارشاد: ذاکر کو انقلاباتِ احوال و کیفیّات سے بالکل قطع کرنا چاہئے، مقصود دو امر کو رکھنا چاہیے: دوامِ اطاعت و کثرتِ ذکر، استقامت کے ساتھ اس طرح مشغول رہنے سے حسبِ استعداد اخیر میں مناسب حالتِ محمود پر قرار ہوجاتا ہے، جس کو اصطلاحِ تصوّف میں ’’تمکین‘‘ کہتے ہیں۔

ورد کا اصلی مقصود عبدیت ہے:

ارشاد: ورد سے جو اصلی مقصود ہے وہ خود مرض میں بھی حاصل ہے یعنی عبدیت ہے۔

نفع کے لیے قصد کی ضرورت ہے:

ارشاد: صرف دل سے ذکر کرنا بھی نافع ہے جب بقصد ہو، ورنہ بِلا قَصد نفع مقصود حاصل نہیں ہوتا۔ قلب اور زبان دونوں کو جمع کرنا زیادہ نافع ہے۔

پریشانی کے وجوہ اور اس کے دفعیہ کا طریقہ:

ارشاد: دل نہ لگنے کی بہت سی صورتیں ہیں: کبھی تو کسی کام کے تعلّق کی وجہ سے پریشانی ہو جاتی ہے، کبھی کسی عضو میں کچھ مرض ہوتا ہے جس کی وجہ سے دل کی بھی پریشانی ہو جاتی ہے، کبھی بھوک، کبھی گناہ کا ارتکاب۔ ان اسباب میں جس کا دفعیہ اختیار میں ہو اسے تو دفع کر کے ذکر میں مشغول ہو، بھوک ہو کھانا میسر ہو کھا لے۔ تعلق اگر نا جائز ہے تو چھوڑ دے پھر ذکر میں مشغول ہو۔ اگر اس پر بھی دل نہ لگے تو کچھ پرواہ نہ کرے ذکر کو مقصود سمجھ کر پورا کرلے۔ ان شاء اللہ ذکر کی برکت سے حالت کی اصلاح ہو جائے گی۔

طبیعت کا گھبرانا بھی عذر ہے تخفیفِ تلاوت کے لیے:

ارشاد: ذکر و تلاوت میں جب طبیعت زیادہ گھبرانے لگے جلدی ختم کر دیا جائے، یہ عذر ہے اور عذر میں احکام کی تخفیف ہوجاتی ہے۔

اذان کا جواب مخلِ ذکر نہیں:

ارشاد: ذکر کی حالت میں اگر اذان ہونے لگے تو ذکر موقوف کر کے جواب ہی دینا زیادہ مناسب ہے اور اس کو مخلِ ذکر نہ سمجھا جائے۔ سُنن کی برکت سے ذکر کا معدن منوّر ہوتا ہے اور اس سے ذکر میں زیادہ اعانت ہوتی ہے۔

کثرتِ ذکر و اصلاحِ اعمال رکنِ طریق ہیں:

ارشاد: اس طریق میں دو چیزیں ہیں: کثرتِ ذکر اور اصلاحِ اعمال۔ سو کثرتِ ذکر تو حالتِ طالب علمی میں مناسب نہیں۔ اور جو مقصود ہے کثرتِ ذکر سے وہ ان کو مشغولیٔ علم سے حاصل ہو جاتا ہے بشرطِ تقویٰ۔ باقی رہا اصلاحِ اعمال وہ ہر حال میں فرض ہے اور طالب علمی کی حالت بھی اس سے مستثنی نہیں، سو اس کا سلسلہ شروع کر دینا چاہئے۔ اس کی ترتیب یہ ہے کہ اوّل ’’قَصدُ السبیل‘‘ کو دو بار بغور مطالعہ کر کے اس سے جو حاصل طریق کا ذہن میں آوے اس سے اطلاع دے۔ پھر طریقہ اصلاح کا پوچھے۔

تبدیلِ معمولات میں تعجیل مناسب نہیں:

ارشاد: مدّت کے بعد معمول میں دوام کی برکت پیدا ہوجاتی ہے اس لئے تبدیلِ تعجیل نہ کی جائے۔

درود کا حکم:

ارشاد: حضور کا نام سن کر ''صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ'' کہنا ایک مجلس میں ایک ہی بار فرض ہے، اس کے بعد پچاس دفعہ بھی آپ کا نام مبارک زبان پر آئے یا کان میں پڑے تو بار بار درود فرض نہیں۔ ہاں! محبت کا مقتضا یہ ہے کہ ہر بار ''صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ'' کہے۔

درود اپنے جذبات کے مطابق ہے:

ارشاد: حضور محسن ہیں، اور سب سے بڑے محسن ہیں۔ یہ جان کر خود بخود تقاضا ہو گا کہ حضور کے احسان کا بدلہ کریں، جس کا اقل درجہ یہ ہے کہ کم از کم آپ کو دعا دیں۔ پس حضور پر درود بھیجنے میں ہم حضور پر کوئی احسان نہیں کرتے، بلکہ اپنے جذبۂ شکر کو پورا کرتے ہیں، مگر اس پر ثواب کا بھی وعدہ ہے تاکہ ثواب کو سن کر اور زیادہ سہولت ہوجائے۔

درود حقُ اللہ اور حقُ العبد دونوں ہے:

ارشاد: درود جیسا حقُ اللہ ہے ویسا ہی حقُ العبد بھی ہے۔ اسی واسطے اس میں کوتاہی کرنے کا گناہ صرف توبہ کرنے سے معاف نہ ہو گا، بلکہ اس کی تلافی توبہ کے ساتھ حضور کو خوش کرنے سے ہو گی۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ کوتاہی ہو جانے کے بعد اللہ تعالیٰ سے توبہ بھی کرے اور آئندہ درود کی خوب کثرت کرے یہاں تک کہ دل گواہی دے کہ حضور خوش ہو گئے ہوں گے۔

درود ایسی طاعت ہے جو کبھی رَد نہیں ہوتی:

ارشاد: درود ایسی طاعت ہے جو کبھی رَد نہیں ہوتی، کیونکہ یہ حضور کے لیے درخواستِ رحمت ہے۔ اور حضور حق تعالیٰ کے محبوب ہیں اور محبوب کے لیے جو درخواست کی جاتی ہے وہ رَد نہیں ہوتی۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ہم بادشاہ سے شاہزادہ کے متعلق ایسی بات کی سفارش کریں جو بادشاہ خود اس کے لئے کرنے والا ہے، تو ظاہر ہے کہ ایسی سفارش کیوں رَد ہو گی۔

علامتِ مقبولیت ذکر:

ارشاد: ذکرُ اللہ سے اگر شوق میں ترقی اور حُبِ الٰہی میں زیادتی ہو تو سمجھ لو کہ ذکر مقبول ہے۔

ذکر کا مقصودِ اصلی:

ارشاد: ذکر اس واسطے مقصود نہیں کہ اس پر کیفیّات و حالات کا ترتّب ہو، بلکہ محض اس لیے مقصود ہے کہ بندہ کے ذکر سے حق تعالیٰ اس کو یاد کرتے ہیں، عاشق کے لیے کیا یہ تھوڑی بات ہے کہ محبوب اس کو یاد کرے!

ذکرُ اللہ مُقللِ غذا ہے:

ارشاد: صوفیہ کے واقعات اس پر شاہد عدل ہیں کہ ذکرُ اللہ ان کی غذا بن جاتا ہے۔ اور غذائے جسمانی کا کام دیتا ہے۔ اور مشاہدہ ہے کہ ذکرُ اللہ کرنے والے کی غذائے جسمانی کم ہو جاتی ہے یعنی ذکرُ اللہ میں مشغول ہونے سے پہلے جس قدر اس کی غذا تھی اس سے کم ہو جائے گی۔

ابتدا میں توجّہ الی اللہ کا طریقہ:

ارشاد: توجّہ الی اللہ کا طریقہ ابتداءً یہی ہے کہ توجّہ اِلَی الإسم کی جائے۔

زبان کا ذکر سے بند ہوجانا کبھی غایتِ قُرب کی وجہ سے ہوتا ہے:

ارشاد: کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ غایتِ قُرب کی وجہ سے زبان ذکر سے بند ہو جاتی ہے اس لیے نزع کی حالت میں کوئی مسلمان اگر کلمہ نہ پڑھے تو اس سے بد گمان نہ ہونا چاہیے۔ ممکن ہے کہ اس کی وجہ غایتِ قُرب ہو۔

عُشاق ہر وقت نماز میں ہیں:

ارشاد: عُشاق نماز کے بعد دوسری نماز کی فِکر و انتظار میں بیتاب رہتے ہیں۔ اور حدیث میں ہے کہ نماز کے انتظار میں لگا رہنے والا نماز ہی میں ہے۔ اس لئے عُشاق ہر وقت نماز ہی میں ہیں۔

عمل شوق باقی رکھ کر کرو:

ارشاد: ''فَإِنَّ اللہَ لَا یَمَلُّ حَتّٰی تَمَلُّوْا'' (صحیح البخاری، أبواب التھجد باللیل، باب: ما یکرہ من التشدید فی العبادۃ، رقم الحدیث: 1151) یعنی عمل شوق باقی رکھ کر کرو۔ اتنا عمل نہ کرو کہ سارا شوق ایک دم ہی سے پورا کرلو۔ عبادت تحمّل کے موافق کرو، تحمّل سے زیادہ نہ کرو۔

نماز سے عبدیت اور ذکرُ اللہ سے محبتِ حق پیدا کرنے کا طریقہ:

ارشاد: نماز پڑھتے ہوئے یہ ارادہ ہو کہ ہم نماز اس واسطے پڑھتے ہیں تاکہ عبدیت پیدا ہو، ذکرُ اللہ اس واسطے کرتے ہیں کہ محبتِ حق پیدا ہو، تو میں دعوے سے کہتا ہوں کہ قصدِ اثر سے جو عمل کیا جائے گا، وہ ضرور مؤثر و نافع ہو گا، خواہ اس میں یکسوئی حاصل ہو یا نہ ہو، دل لگے یا نہ لگے، وساوس آئیں یا نہ آئیں۔

مداومت و مواظبت کے معنیٰ:

ارشاد: مداومت و مواظبت کے معنیٰ یہ نہیں ہیں کہ ہر وقت اس میں لگا رہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ جو وقت جس وقت عمل کا مقرر ہے اس وقت وہ عمل کرے۔

اللہ تعالیٰ کا نام لینا ہی بڑی دولت ہے:

ارشاد: اللہ تعالیٰ کا نام لینا ہی بڑی دولت ہے، یہ دولت ہر ایک کو حاصل نہیں ہوتی، ایک صورت قہر نازل ہونے کی یہ ہے کہ خدا کا نام لینے کی توفیق سلب ہو جائے۔

دوبارہ توفیقِ طاعت دلیلِ قبولِ طاعت سابق کی ہے:

ارشاد: جس طاعت کے ایک دفعہ کرنے کے بعد دوبارہ اس کی توفیق ہوجائے تو سمجھو کہ پہلی طاعت قبول ہو چکی ہے، یہ علامتِ قبول ہے اور گو یہ استنباط قطعی نہیں۔ مگر ظاہراً عادةُ اللہ اور وسعتِ رحمت اس کو مُقتضِی ہے۔ پس تغلیبِ رجاء میں یہ بہت نافع ہے جو کہ شرعاً مامور بِہٖ ہے ''لَا یَمُوْتَنَّ أَحَدُکُمْ إِلَّا وَ ھُوَ یُحْسِنُ الظَّنَّ بِاللہِ'' (الصحیح لمسلم، کتاب الجنۃ و صفۃ نعیمھا و أھلھا، باب: الأمر بحسن الظن باللہ تعالی عند الموت، رقم الحدیث: 2877) ترجمہ: ’’تم میں سے کسی کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ وہ اللہ سے حسنِ ظن رکھتا ہو‘‘۔

اللہ کی یاد کو اپنا مقصود اصلی بنا لو:

ارشاد: اللہ و رسول کا مقصود ہے کہ تم اللہ کی یاد کو اپنا اصلی کام بنالو اور سب کاموں کو تابع بناؤ، حدیث میں ہے: ''لَا یَزَالُ لِسَانُکَ رَطْبًا مِّنْ ذِکْرِ اللہِ'' (سنن الترمذی، أبواب الدعوات عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، باب: ما جاء فی فضل الذکر، رقم الحدیث: 3375) اگر زبان سے ہروقت ’’اللہ اللہ‘‘ یاد کرنا یاد نہ رہے تو تسبیح یاد میں رکھو، اور رِیا کا خوف نہ کرو، کیونکہ رِیا وہ ہے جو قصد و ارادہ سے ہو، اور بِلا قصد ’’وسوسۂ ریا‘‘ ہے اور وسوسہ ’’ریا‘‘ نہیں۔

ذکرِ ریائی ایک ٹمٹماتا ہوا چراغ ہے جو پلِ صراط سے پار کردے گا:

ارشاد: حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی حکایت ہے کہ ان سے ایک شخص نے کہا کہ فلاں شخص ریا سے ذکر کرتا ہے۔ فرمایا: وہ تجھ سے اچھا ہے، اس کا یہی ذکرِ ریائی ایک ٹمٹماتا ہوا چراغ بن کر اسے پُلِ صِراط سے پار کردے گا۔ اور تیرے پاس تو ٹمٹماتا ہوا چراغ بھی نہیں۔

مبتدی کو تکثیرِ ذکر اولیٰ ہے تکثیرِ نوافل و کثرتِ تلاوت سے:

ارشاد: آج کل مبتدی کو تکثیرِ نوافل سے یکسوئی حاصل نہیں ہوتی، کیونکہ نماز میں متفرق افعال ہیں، جن سے مبتدی کو تشتّت ہوتا ہے اور ذکر میں ایک ہی چیز ہے اس میں مبتدی کو جلدی یکسوئی حاصل ہو جاتی ہے۔ پس صوفیہ تکثیرِ ذکر کی تعلیم کر کے مبتدی کو تکثیرِ صلوٰة کے قابل بناتے ہیں۔ چنانچہ انتہا میں بجائے ذکر و شُغل کے تکثیرِ نوافل اور کثرتِ تلاوت رہ جاتا ہے۔

ذکرِ حقیقی کا معیار:

ارشاد: ذکرِ حقیقی اور ہے اور صورتِ ذکر اور ہے۔ ذکرِ حقیقی سارے معاصی سے بچنے اور تمام اوامر کے بجا لانے کو مستلزم ہے۔

ذکرِ قلبی کی تحقیق:

ارشاد: متأخرین صوفیہ نے محض ذکرِ قلبی تجویز کیا ہے وہ بہت اچھی چیز ہے، مگر زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتا۔ بلکہ کچھ دیر کے بعد دل اِدھر اُدھر چلا جاتا ہے۔ اور ذاکر یہ سمجھتا ہے کہ میں ذکر میں مشغول ہوں۔ اس لیے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ ذکر لسان سے بھی کرنا چاہیے اور اسی میں توجہِ قلبی رکھنا چاہیے اگر کچھ دیر میں ذکر قلبی نہ رہے گا، تو ذکر لسانی تو باقی رہے گا اور وقت ضائع نہ ہو گا۔ خصوصاً میری اس تحقیق کے بعد کہ جو عمل خالص نیت سے شروع ہو اس کی برکت و انوار مستمر رہتے ہیں گو وہ بہت مستحضر نہ رہے اور گو توجہ باقی نہ رہے۔

ذکر کے درجات:

ارشاد: ذکر کا ایک درجہ یہ ہے کہ اللہ کے نام کو یاد کرو۔ دوسرا درجہ یہ ہے کہ بواسطہ نام کے ذات کو یاد کرو۔ تیسرا درجہ یہ ہے کہ نام کا واسطہ بھی نہ رہے محض ذات کے ذکر پر قادر ہو جائے۔

ذکر کی حقیقت:

ارشاد: معاصی سے جو چیز روکے وہ ذکر اللہ ہی ہے، چنانچہ جنت اور دوزخ کی یاد اگر معاصی سے روکے وہ بھی ذکرُ اللہ ہے، اسی طرح مراقبۂ ذات اگر معاصی سے روکے، ذکرُ اللہ ہے۔

قلبِ ذاکر مثل تعویذِ ملفوف کے ہے اس لئے پاخانہ میں ذکر قلبی جائز ہے:

ارشاد: پاخانہ میں دل سے خدا تعالیٰ کی یاد کرنا ہی ذکر حقیقی ہے ممنوع نہیں، کیونکہ قلب پاخانہ نہیں ہے۔ چنانچہ صوفیہ کا قول ہے کہ لطیفۂ قلب جسم سے باہر ہے۔ وہ دوسرے عالم میں ہے۔ اور اگر کوئی اس تحقیق کو نہ مانے تو وہ یوں کہہ لے کہ قلبِ ذاکر مثل تعویذِ ملفوف کے ہے، اور تعویذِ ملفوف کو پاخانہ میں لے جانا جائز ہے اور گو زبان بھی ملفوف ہے۔ مگر زبان سے ذکر جب ہی ہو سکتا ہے جب کہ لبوں اور دانتوں کو حرکت ہو اور جب دندان کو حرکت ہو گی تو زبان مستور نہ رہے گی۔

ذکر نا جائز کب ہو جاتا ہے:

ارشاد: اگر ذکر سے کسی کو تکلیف ہونے لگے کہ نہ زبان سے ذکر کرسکے نہ دھیان سے، جیسا کہ امراض جسمانیہ میں ایسا ہوتا ہے کہ بعض دفعہ ضعفِ دماغ کی وجہ سے دھیان سے تکلیف ہو جاتی ہے تو اس شخص کو اس حالت میں ذکر جائز نہیں، تاکہ ذکر سے نفرت نہ ہو جائے۔

ذکر میں قیود و زوائد کا اہتمام عمل سے زیادہ نہ چاہئے۔

ارشاد: ایک صاحب نے اپنا خواب بیان کیا کہ میں نے رسول کو خواب میں دیکھا تو مجھ سے فرمایا کہ ذکر نفی و اثبات کر کے دکھلاؤ تو میں نے ''لَا اِلٰہَ إِلَّا اللہُ'' میں مداورۃُ عنق الیمین کرکے باقاعدہ ادا کیا، تو حضرت نے فرمایا کہ اتنی دیر میں تو تم کئی دفعہ ذکر کرسکتے تھے جس سے ترقی زیادہ ہوتی ہے، ایک بار میں اتنی دیر کر کے کیوں نقصان کیا، اس کے جواب میں حضرت مولانا مدّظلہ العالی نے فرمایا کہ یہ بالکل وہی مذاق ہے جس کو میں اکثر ظاہر کیا کرتا ہوں کہ عمل مقصود ہے اور یہ سب قیود و زوائد ہیں، جن کا اہتمام عمل سے زیادہ نہ چاہیے۔

حضور کے سہو کی وجہ:

ارشاد: طاعات کے یاد کرنے سے مقصود یہ ہے کہ خدا کی نعمتوں کا شکر ادا کرو، تاکہ شکر سے تعلقِ منعم قوی ہو، جب یہ مقصود حاصل ہو گیا تو اب قصداً طاعات کو بھی یاد نہ کرے، ورنہ عجب و کبر پیدا ہو جائے گا۔ انبیاء علیہم السلام کا کمال یہ ہی تھا کہ وہ اللہ کی یاد کو مقصود بالذات بناتے تھے۔ ذکرِ طاعات کو مقصود نہ بناتے تھے۔ اور یہی حکمت ہے آپ کے سہو کی، کہ حضور کو جو سہو ہوا ہے تو حق تعالیٰ کی طرف توجہ کامل کرنے سے ہوا کہ اس وقت آپ کی توجہ نماز کی طرف نہ تھی، بلکہ نماز سے اعلٰی کی طرف تھی یعنی حق تعالیٰ کی طرف۔

ذکر میں کسل کی وجہ سے نیند کا علاج:

ارشاد: جو شخص رات بھر سوتا رہے پھر بھی اس کو ذکر میں نیند آئے تو اس نیند کا منشاء کسل ہے۔ اس کو چاہیے کہ جب نیند کا غلبہ ہو ایک سیاہ مرچ چبا لے یہ مقوئ دماغ بھی ہے اس لیے مضر نہ ہو گا۔

تنگ وقت میں نماز کا طریقہ:

ارشاد: نماز کا وقت تنگ ہو گیا تو لازم ہے کہ فرائض و واجبات پر اکتفاء کیا جائے اور سنن کو حذف کیا جائے، اس وقت اختصار ہی مطلوب ہے۔ بہت لوگ طلوعِ آفتاب سے پہلے اٹھ جاتے ہیں۔ مگر علم نہ ہونے کی وجہ سے نماز قضا کر دیتے ہیں۔ ان کی تو نیت ہی دیر میں بندھتی ہے کہ جاننے والا اس میں ایک رکعت پڑھ لے۔

دوستوں کی دلجوئی بھی عبادت ہے:

ارشاد: عبادت صرف نفلیں ہی پڑھنے کا نام نہیں ہے، دوستوں کی دلجوئی اور ان کے ساتھ باتیں کرنا بھی عبادت ہے۔

جمعہ و عید میں عطر لگانے کی نیت:

ارشاد: جمعہ و عید کے دن عطر اس نیت سے لگانا کہ ہم اللہ میاں کو اچھے لگیں، عین عبادت ہے۔ ''مَنْ تَطَیَّبَ لِلہِ جَاءَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَ رِیْحُہٗ أَطْیَبُ مِنَ الْمِسْکِ'' (إحیاء العلوم، باب: بیان فضیلۃ النیۃ، جلد: 4، صفحۃ: 364، دارالمعرفۃ بیروت)۔

مقدار عبادت میں افراط اور تفریط دونوں معیوب ہیں:

ارشاد: عبادت اتنی کرنی چاہیے جس میں کچھ مشقت بھی ہو گو اس قدر زیادہ نہ ہو جو تحمّل سے زیادہ ہو جس سے دل اکتا جائے، بلکہ امامت میں تو مقتدیوں کے لحاظ سے اختصار کریں اور تنہا ذرا کسی قدر تطویل کیا کریں، ہاں اتنی تطویل نہ کریں جو نفس پر زیادہ شاق ہو، جس کو نباہ نہ سکیں۔ غرض نہ ’’انقد‘‘ ہو، نہ ’’انحد‘‘ ہو (’’انقد‘‘ اختصار ہے ''اَلْحَمْدُ'' اور ''قُلْ ھُوَ اللہُ'' کا جس میں ''اَلْحَمْدُ'' کا تو الف لے لیا گیا اور ''اَلضَّآلِّیْنَ'' کا نون اور ''قُلْ ھُوَ اللہُ'' کا قاف اور ''أَحَدٌ'' کی دال۔ اور ’’انحد‘‘ میں ''اَن'' (اردو میں) نفی کا کلمہ ہے یعنی بے حد، غرضیکہ افراط و تفریط دونوں معیوب ہیں۔

رسوخ و پختگی کے حصول کا طریقہ:

ارشاد: رسوخ و پختگی کے لئے ضرورت ہے کہ ہرگز کسی وقت بے فکر نہ ہو، اوقات اور نفس کی نگرانی رکھیں۔

ذکر وصلوٰة کو رضا و قرب میں زیادہ دخل ہے:

ارشاد: جومقصودِ اصلی ہے یعنی رضا و قرب اس کے حصول میں ذکر و صلوٰة کو زیادہ دخل ہے بہ نسبت مطالعۂ کتب کے۔ مطالعۂ کتب مقصود بالغیر ہے، گو لذت مطالعہ ہی میں زیادہ ہو۔ اور ذکر و صلوٰة مقصود ہے، مقصود بالغیر بقدرِ ضرورت ہونا چاہئے اور مقصود بالذات مستقلاً، یہ ساری خرابی شوق اور ذوق کے مقصود کو سمجھنے کی ہے اور یہی غلطی ہے۔ ظاہر ہے کہ چٹنی میں جتنا لطف ہے غذا میں نہیں، مگر جزوِ بدن و بدل ما یتحلل غذا ہی بنتی ہے۔

فکر اور ذکر استغراق سے افضل ہیں:

ارشاد: فکر مقصود بالغیر ہے اور ذکر مقصود بالذات ہے، یہ دونوں استغراق سے افضل ہیں، اس لیے استغراق میں ترقی نہیں اور ان میں ترقی ہے۔

ذکر بالجہر کی اجازت تہجد میں کب ہے:

ارشاد: جو جاگنا نہ چاہے تہجد کے لئے اس کے پاس ذکر بالجہر نہ کریں اور جو جاگنا چاہتے ہوں ان کے پاس ذکر بالجہر کی اجازت ہے۔

درود نہ پڑھنے پر حضور کی خفگی کی وجہ

ارشاد: جو حضور کا نام مبارک سن کر درود نہ پڑھے آپ نے اس شخص کو بد دُعا دی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور کے نام پر درود نہ پڑھنے سے چونکہ اللہ تعالیٰ کا غصہ اس شخص پر ہوتا ہے، اس لئے آپ نے امت کو خدا تعالیٰ کے غضب سے بچایا ہے۔ پس وجہ اس بد دعا کی شفقت ہے، نہ کہ خود غرضی۔

مقاصد میں تو مشقت موجبِ اجر ہے اور طریق میں نہیں:

ارشاد: مقاصد میں تو مشقت موجبِ اجر ہے اور طریق میں نہیں۔ مثلاً ذکر مقصود ہے۔ تو نفسِ ذکر میں جو مشقت ہو جیسے دو ہزار کی جگہ چار ہزار دفعہ ذکر کیا جائے یہ مشقت موجبِ اجر ہے اور ایک مشقت یہ ہے کہ خاص آواز اور خاص ہیئت سے ذکر کیا جائے، سو یہ محض طریق ہے اس میں مشقت باعث اجر نہیں۔

ذکر میں جہر کا ثبوت اور مصالح:

ارشاد: اگر مقصود نفسِ ذکر ہو اور جہر اعتدال سے ہو اور یہ مصلحت دفعِ خواطر و حصولِ جمیعت و سکونِ قلب ہو، تو وہ بدعت نہیں بلکہ ایسا جہر شریعت سے ماذون فیہ بلکہ حدیث میں وارد ہے چنانچہ حدیث ''جَھَرَ بِالدُّعَاءِ'' (مراعاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح، جزء:5، صفحہ:383) سے جہر کا ثبوت ہو رہا ہے۔

اسمِ ذات کا مقصود مدلول کا رسوخ فی القلب ہے اس لئے بحکمِ ذکر ہے:

ارشاد: محققین صوفیہ نے اس راز کو سمجھا کہ ”اللہ اللہ“ کرنا گو ذکر نہیں مگر مقصود کے لیے تیار ہونا ہے، اس واسطے بحکمِ ذکر ضرور ہے اور اصلی مقصود اس ذکر سے، اس کے مدلول کا رسوخ فی القلب ہے۔ اور قاعدہ ہے کہ رسوخ کے لیے تکرار مؤثر ہوتا ہے اور اس کے لیے تجربہ کافی ہوتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ رسوخ کے لیے جو طریقہ اختیار کیا جائے وہ طریقہ سنت سے ثابت ہو۔

ذکر میں صِدق و خلوص کا طریقہ:

ارشاد: محققین کا قول ہے کہ حق تعالیٰ کے صفات و کمالات خود ایسے ہیں کہ اس کا کمال اس کو مقتضی ہے کہ ان کی طرف توجہ کی جائے اور ان کی یاد دل میں بسائی جائے کسی وقت ان سے غافل نہ ہو، اگرچہ وہ ہماری طرف توجہ بھی نہ فرمائیں، اگرچہ ہمارے ذکر پر کوئی ثمرۂ عاجلہ مرتب نہ ہو، چہ جائیکہ ایک دوسرا مقتضی بھی موجود ہے، یعنی ان کا بندہ کی طرف توجہ فرمانا، چنانچہ ارشاد ہے: ﴿فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ﴾ (البقرة: 152) "مَنْ تَقَرَّبَ إِلَیَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ إِلَیْہِ ذِرَاعًا" (صحيح مسلم رقم الحديث: 2675)، بلکہ بغیر تمہاری توجہ کے توجہ فرماتے ہیں، چنانچہ ارشاد ہے۔ "إِنَّ لِرَبِّکُمْ فِيْ دَھْرِکُم نَفْحَاتٌ [توجھات] ألَا فَتُعرِضُوْ لَھَا" (إحیاء العلوم، باب: بیان الآداب والسنن الخارجۃ عن الترتیب السابق الذی یعم جمیع النہار، جلد: 1، صفحۃ: 185، دار المعرفۃ بیروت)۔ یعنی تمہارے رب وقتاً فوقتاً تمہاری طرف توجہ فرماتے رہتے ہیں، اس لیے تم کو ان کی طرف دائمی توجہ رکھنا چاہیے۔

رُسوخِ ذکر کا اعلیٰ درجہ اور اس کے تحصیل کا طریقہ:

ارشاد: رسوخِ ذکر کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ ذاتِ بَحت (اللہ تعالیٰ کی ذات) کا تصور راسخ ہو جائے اور یہ پیدا ہوتا ہے کثرتِ ذکر سے مع تصورِ ذاتِ بَحت کے، اور اگر ذکر میں بھی صرف اسم ذات کا اختیار کیا جائے تو اہلِ طریق کے تجربہ سے اس تصور کا زیادہ معین ہوتا ہے۔

مشاہدہ اور معائنہ کا مطلب:

ارشاد: صفات کی توجہ کرنے کو اصطلاح میں ’’مشاہدہ‘‘ کہتے ہیں اور ذاتِ بَحت کے تصوّر کرنے کو ’’معائنہ‘‘ کہتے ہیں۔