آدابِ شیخ و مرید و متعلِّقات آں
ممانعت تعجیل فی اتخاذ الشیخ:
ارشاد: (1) اس طریق میں ہر صاحبِ طریق کا مذاق جدا ہے (2) شرطِ انتفاع تناسبِ مذاقین ہے۔ (3) تعجیل فی اتِّخَاذِ الشَّیْخ ممنوعات طریق سے ہے (4) بدون صحبتِ طویل کسی کے مذاق کا اِدْرَاک صحیح نہیں ہوتا اگر صحبتِ طویلہ میسّر نہ ہو مُکَاتَبَتِ طویلہ کی جائے کہ ملاقات حکمی ہے اس کے بعد جو رائے قائم کی جائے گی وہ مُعْتَدّ بِہٖ ہو گی ورنہ ممکن ہے کہ اپنی تجویز سے رجوع کا اظہار مُوجِبِ بدمذگی ہو اور اس کا اخفاء موجبِ تنگی و تلبیس ’’وَ کِلَا ھُمَا مُضِرُّ ٗ‘‘۔
بعض جزئیات مذاقِ حضرت مولانا مدظله العالی:
ارشاد: (1) خوابات قابلِ التفات نہ ہونا (2) تصرّفات کو پسند نہ فرمایا (3) بتکلف سنجیدگی و متانت سے انقباض (4) رسوم کا پابند نہ ہونا گو وہ رسوم مُبَاحَہ ہی ہوں (5) غیر مطلوب کے درپے نہ ہونا (6) احوال کا اہتمام نہ ہونا، صرف اعمال کا مَطْمَحِ نظر ہونا (7) مُجَاَہَدہ نام ہے ترکِ معاصی اور تقلیلِ مُبَاحات کا، نہ کہ ترکِ مباحات کا (8) تعلیم کی مُلَازَمَت کا سب سے زیادہ پسند ہونا، بشرطیکہ تنخواہ میں تشویش نہ ہو۔ اور تحصیل چندہ کا سب سے زیادہ ناپسند ہونا۔ (9) مشورہ دینے کا معمول نہ ہونا۔ (10) ’’دَعْ مَا لَا یُتْعِبُکَ‘‘ پر عمل ہونا۔ (11) آزادی میں خَلَل نہ ڈالنا (12) قلب پر فضول بار نہ دینا۔ (13) خلوت کا زیادہ پسند کرنا جلوت کی پسندیدگی محض برائے افادۂ خواص و عوام ہونا۔ (14) اِنْضِبَاطِ اوقات (15) نفع رسانیٔ عام مخلوق (16) اُمَرَاء کا قصداً ممنون نہ بننا (17) اِضْرَار سے سخت اِجْتِنَاب رکھنا۔
اصلاح عمل مقدم ہے بیعت و ذکر و شغل پر:
’’تَہْذِیْبُ السَّالِکِیْن‘‘ کا مطالعہ ضروری ہے اور بدون اس کے ذکر و شغل سب بے کار ہے، کام ترتیب سے اچھا ہوتا ہے ورنہ جس مکان کی بنیاد خام ہو گی۔ مکان جلد منہدم ہو جائے گا۔ اس پر نہ طالبوں کو نظر ہے نہ مشائخ کو، اس لئے نفع نہیں ہوتا۔
طریق کار:
ارشاد: کام کرنے کا طریق یہ ہے کہ کام شروع کر دے کسی امر کا انتظام نہ کرے اگر بعض حالات میں انتظام سے کام نہ بھی ہو بلا سے، بے انتظامی پھر بھی بیکاری سے اچھی ہے۔ ؎
دوست دار دوست ایں آشفتگی
کوشش بے ہودہ بہ از خفتگی
غرضیکہ کسی طرح ہو کام کرتے رہیں۔ اور شیخ کو اطلاع کرتے رہیں۔ اس بے نظامی سے جب کہ دُھن لگی رہے ان شاء اللہ نظام پیدا ہو جائے گا اور ہمت میں قوت اور طبیعت میں تقاضا پیدا ہونے لگے گا۔
شرائط اجازت تلقین:
ارشاد: حصولِ اجازت تلقین کے لئے جیسے حصولِ نسبت شرط ہے۔ ایک یہ بھی شرط ہے کہ وہ شخص طرق تربیت اور اصلاح سے واقف ہو جائے تاکہ طالبین کی خدمت کر سکے۔
اصلاح طالب کا طریق:
ارشاد: طالب کے عیوب معلوم کرنے میں نہ کاوش کرے، نہ فرصت نکالے۔ اگر خود معلوم ہو جائے کہدے۔
بعض آداب شیخ کی تحقیق:
سوال: حقوق پیر کے متعلق جو النوز میں ہے دو باتیں سمجھ میں نہیں آتیں: ایک تو یہ کہ پیر کو بذریعہ کسی کے، سلام و پیام نہ پہنچائے حالانکہ حدیثوں سے اس کا ثبوت ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ پیر جس جگہ ہو اس طرف تھوک نہ پھینکے اگرچہ اس وقت پیر موجود نہ ہو حالانکہ حدیث ’’لاتَطْرُوْنِیْ۔۔۔‘‘ کے صریح خلاف معلوم ہوتا ہے۔
ارشاد: حدیث سے جواز ثابت ہوتا ہے نہ کہ وجوب اور مشائخ اس کے جواز کے منکر نہیں کہ حدیث سے معارضہ ہو بلکہ اس کو خلاف ادب کہتے ہیں۔ اور ادب کا مدار عرف پر ہے۔ اس لئے اختلافِ ازمنہ سے وہ مختلف ہو سکتا ہے۔ حضرات صحابہ رضی اللہ عنهم کا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مزاح کرنا ثابت ہے اور اب بزرگوں کے ساتھ مزاح کرنا خلاف سمجھا جاتا ہے۔ دوسرے کا جواب یہ ہے کہ اِطْرَاء کہتے ہیں حد شرعی سے تجاوز کرنے کو اگر کوئی شخص تأدّباً ایسا کرے مگر اعتقاد میں کچھ خلل نہ ہو تو وہ کس حد شرعی سے نکل گیا؟
شرائط ہدیہ:
ارشاد: ہدیہ میں شرائط ہیں: (1) پابندی نہ ہو (2) اتنی مقدار نہ ہو جو طبیعت پر گراں ہو۔ (3) یہ غرض نہ ہو کہ شیخ کی توجہ بڑھے گی بلکہ مَنْشَاء اس کا محض محبت ہو۔
شیخ سے مناسبت نہ پیدا ہونے کی وجہ:
ارشاد: شیخ سے مناسبت کی کمی اعمال کے تساہل سے نہیں ہوتی بلکہ بات کے نہ سمجھنے سے یا نہ ماننے سے ہوتی ہے۔
صحبت غیر شیخ کے شرائط:
ارشاد: شیخ کے ماسوا دوسرے شیخ کی خدمت میں دو شرط سے جا سکتا ہے: ایک تو یہ کہ اس کا مذاق اپنے شیخ کے خلاف نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ اس سے تعلیم و تربیت میں سوال نہ کرے۔
گناہ کبیرہ سے بیعت نہیں ٹوٹتی برکت جاتی رہتی ہے:
ارشاد: اگر کسی شخص سے کوئی گناہ کبیرہ ہو جائے مثلًا: زنا یا حرام کام تو اس سے بیعت نہیں ٹوٹتی مگر اس کی برکت جاتی رہتی ہے۔ جیسے کوئی سخت بد پرہیزی کرے تو اس کی حیات منقطع نہیں ہوتی مگر صحت اور قوت بعض اوقات ایسی برباد ہو جاتی ہے کہ موت سے بدتر حالت ہو جاتی ہے۔
ضرورت بیعت:
ارشاد: یہ یقینی صحیح ہے کہ بیعت طریقت کی ضرورت عام نہیں لیکن باوجود اس کے پھر بھی نفس میں بعض امراض خفیہ ہوتے ہیں کہ وہ بدون تنبیہِ شیخ مُحَقِّق عارف کے سمجھ میں نہیں آتے اور اگر سمجھ میں آ جاتے ہیں تو ان کا علاج سمجھ میں نہیں آتا اس لئے تعلق شیخ سے ضروری ہوتا ہے۔
رسوخ احوال کے اسباب:
ارشاد: اعمال سے جو احوال حاصل ہوتے ہیں جیسے: محبت، خشیت و غیر ہما، کبھی غیر راسخ ہوتے ہیں کبھی راسخ اور راسخ ہونے کے اسباب مختلف ہوتے ہیں، کبھی تعلیم، کبھی دعا، کبھی صحبت گو صاحب صحبت کا قصد بھی نہ ہو جیسے آگ کی مصاحبت سے پانی گرم ہو جاتا ہے، اور یہ صحبت احیاء کی نافع ہوتی ہے اسی طرح اموات کی بھی جب کہ دونوں کی روح میں مناسبت ہو جو کہ شرطِ فیض ہے۔
طریق تقویت نسبت از مزار صاحب نسبت:
پس جب کہ صاحبِ مزار صاحبِ نسبت ہو اور زائر بھی صاحبِ نسبت ہو اور دونوں کی نسبت میں تناسب ہو اور اس سے زائر کے احوال حاصل میں رسوخ و استحکام ہو جائے تو اسی کو ترقی و قوت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اور نسبت کا رسوخ وِجْدَانی ہونے کے سبب سے وجدان سے مدرک بھی ہوجاتا ہے۔
طریقۂ اِسْتِفَاضَہ یہ ہے کہ اول کچھ پڑھ کر بخشے، پھر آنکھیں بند کر کے تصور کرے کہ میری روح اس بزرگ کی روح سے متصل ہو گئی ہے اور اس سے احوالِ خاصّہ منتقل ہو کر پہنچ رہے ہیں۔
حقیقت سلب نسبت به تصرفات:
ارشاد: نسبت کو کوئی سلب نہیں کرسکتا وہ تو تعلّق مع اللہ کا نام ہے۔ ہاں کیفیاتِ نفسانیہ کو صاحب تصرف ضعیف کر دیتا ہے۔ جس سے ایک قسم کی غباوت ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات اس کا اثر ارادہ پر واقع ہو کر اعمال پر پہنچتا ہے یعنی اعمال میں سُستی ہونے لگتی ہے لیکن اختیار سلب نہیں ہوتا، اپنے قصد و اختیار سے اس کی مُقَاوَمَت کر سکتا ہے اکثر تو اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا، بلکہ یہ معصیت ہوتی ہے۔ ہاں احیاناً کسی کیفیت کے مفرط ہونے سے بعض واجبات میں خَلَل ہونے لگتا ہے ایسے وقت میں اس کو ضعیف کرنے میں مصلحت ہوتی ہے۔
حُبُِّ خدا کی شناخت:
ارشاد: ’’حُبُّ الشَّیْخِ وَ الرُّکُوْنِ اِلَیْہِ عَلَامَةٌ لِحُبِّ اللهِ تَعَالٰی لِرُکُوْنِ اِلَیْہِ‘‘
ترجمہ: شیخ کی محبت اور اس کا احترام اللہ تعالیٰ کی محبت اور لگاؤ کا اظہار ہے۔
سَمَاعِ موتیٰ و دعائے موتیٰ و تَوَسُّل بموتی کا حکم:
ارشاد: سَمَاع (اہلِ قبور کا سننا) میں تو اختلاف ہے، اکثر اہلِ کشف اس کے قائل ہیں مگر ان سے درخواست دعا کرنا کسی دلیل سے ثابت نہیں، کیونکہ ان کو دعا کا اختیار دیا جانا کہیں منقول نہیں، البتہ ان کے تَوَسُّل سے خود دعا کرنا ثابت ہے۔
تَوَسُّل کی حقیقت:
ارشاد: کسی شخص کا جو جَاہ ہوتا ہے اللہ کے نزدیک اس جاہ کی قدر اور اس پر رحمت متوجہ ہوتی ہے۔ تَوَسُّل کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اے اللہ! جتنی رحمت اس پر متوجہ ہے اور جتنا قرب اس کا آپ کے نزدیک ہے اس کی برکت سے مجھ کو فلاں چیز عطا فرما۔ کیونکہ اس شخص سے تعلق ہے۔ اسی طرح اعمال صالحہ کا حدیث میں تَوَسُّل آیا ہے۔ اس کے معنی بھی یہی ہیں کہ اس عمل کی جو قدر حق تعالیٰ کے نزدیک ہے اور ہم نے وہ عمل کیا ہے اے اللہ! ببرکت اس عمل کے ہم پر رحمت ہو۔
فیض قبور مکفول تکمیل سلوک نہیں:
ارشاد: قبروں سے جو فیض آتا ہے وہ ایسا نہیں جس سے تکمیل ہو سکے یا سلوک طے ہو سکے بلکہ اس کا درجہ صرف اتنا ہے کہ صاحبِ نسبت کی نسبت کو اس سے کسی قدر قوت ہو جاتی ہے، غیر صاحبِ نسبت کو تو خاک بھی فیض نہیں ہوتا، صرف صاحبِ نسبت کو اتنا فیض ہوتا ہے کہ تھوڑی دیر کے لئے نسبت کو قُوّت اور حالت میں زیارت ہو جاتی، مگر وہ بھی دیرپا نہیں ہوتی، بلکہ اس کی ایسی مثال ہے جیسے تنور کے پاس بیٹھ کر کچھ دیر کے لئے جسم میں حرارت پیدا ہوجاتی ہے، زندہ مشائخ سے جو فیض ہوتا ہے اس کی ایسی مثال ہے جیسے کوئی مُقَوِّی دوا کھا کر قوّت و حرارت حاصل ہوتی ہے صاحبِ نسبت کو اول قبر سے فیض لینے کی ضرورت نہیں، زندہ شیخ اس کے لئے قبروں سے زیادہ نافع ہے اور ضرورت بھی ہو تو صاحبِ نسبت کے لئے قبر کا پختہ ہونا ضروری نہیں، وہ تو آثار سے معلوم کرلے گا کہ یہاں کوئی صاحبِ کمال مدفون ہے۔
ادب و احترامِ شیخ کی وجہ:
ارشاد: مقصد جتنا عظیم ہو گا اس کے وسائل کی بھی اسی قدر وقعت ہو گی۔ اسی سے شیخ کا ادب و احترام بہت چاہیے۔
نسبت و ملکۂ یاداشت کا فرق:
ارشاد: ’’نسبت‘‘ ملزوم و ’’ملکۂ یاد داشت‘‘ لازم ہے، دونوں کی ماہیئت الگ الگ ہے، نسبت نام ہے خاص تعلّق کا جس پر دو امر کا ترتب لازم ہے: ایک کثرت ذکر جس کی دوسری تعبیر ’’ملکۂ یاد داشت‘‘ ہے۔ دوسرے دوامِ طاعت،جس طرح کوئی کسی پر عاشق ہو جائے تو اس تعلقِ عشقی میں دو امر لازم ہیں: ایک تو یہ کہ معشوق اکثر اوقات ذہن سے نہیں اترتا، دوسرے عاشق عمداً اس کی نافرمانی نہیں کرتا۔
نفعِ سالک کی تدبیر:
ارشاد: سالک کو التزامِ معمولات و قلّتِ مُخَالَطَت سے بے حد نفع ہوتا ہے۔
برکت کا دار و مدار مرید کی ارادت و محبت پر ہے نہ کہ بیعت پر۔
سوال: زید کو کسی شیخ سے بے حد عقیدت تھی مگر بیعت یا تعلیم و تلقین کی ہنوز نوبت نہ آئی تھی کہ زید قریب المرگ ہو گیا تھا اور شیخ کو بذریعہ تار بُلا بھیجا مگر شیخ کے آنے پر اس کا کام تمام ہو چکا ہے۔ البتہ زید نے ایک تحریر لکھ دی تھی شیخ کے نام، کہ میں آپ سے مرید ہوں تو گویا وہ شیخ داخل سلسلہ بذریعۂ بیعت کر سکتا ہے یا نہیں؟
جواب: نہیں! کیونکہ مقصودِ بیعت یعنی تعلیم و تلقین اب نہیں ہو سکتی، رہ گئی برکت سلسلہ کے بزرگوں کی، وہ قبول شیخ پر موقوف نہیں، میت کی ارادت و محبت سے وہ حاصل ہو گئی۔
مضرت پیر نا اہل:
ارشاد: ایک شخص مطب خلاف قواعد کرتا ہے اور مریضوں کی ہلاکت کا سبب بنتا ہے، کوئی خیر خواہ مریضوں کو اس ہلاکو سے بچانے کے لئے یہ ذریعہ اختیار کرے کہ خود مَطَب کھول دے اور کہے: گو! طب میں نہیں جانتا، مگر میرے مَطَب میں یہ مصلحت ہے کہ لوگ اس ہلاکو سے بچیں گے اور گو علاج بھی نہ کروں گا جس میں خطرہ کا اندیشہ ہو، مگر بے خطرہ چیزیں بتلاتا رہوں گا۔ تو آیا اس خیر خواہ کو اس کی اجازت دی جائے گی؟ یا یہ سمجھا جائے گا کہ یہ صورت بہ نسبت مطب نہ کھولنے کے زیادہ ضرر رساں ہے کیونکہ مطب نہ کھولنے کی حالت میں اس ہلاکت کا سبب یہ خیر خواہ نہ ہوتا، اور اب جتنے علاج نہ ہونے سے ہلاک ہوں گے اس کا سبب یہ شخص بنے گا۔ یہی حال اس شخص کا ہے جو بیعت لینے کی اہلیت تو نہیں رکھتا، لیکن پیر محض اس لئے بننا چاہتا ہے کہ لوگ گمراہ پیروں کے پھندے میں نہ پڑیں بلکہ اپنے عقائدِ حقّہ کی تعلیم کر سکے حالانکہ عقائدِ حَقَّہ کی تعلیم اور گمراہیوں سے بچانا تو زبان سے، بِلا پیر بنے ہوئے بھی ممکن ہو سکتا ہے پھر کوئی نہ بچے، تو وہ جانے۔ اس سے اس شخص کو تو گناہ نہ ہو گا۔ اگر یہ خیال ہو کہ لوگوں کو بیعت کر کے کسی محقِّق کے پاس پہنچا دے تو بعد تأمُّل اس میں بھی مَفَاسِد نظر آتے ہیں، اول تو بعضے مریدین دوسری جگہ رجوع نہ کریں گے، دوسرے چند روز میں ایسے غیر کامل پیر میں ہجوم عوام سے خود بینی و عجب و ریا وغیرہ پیدا ہو جائے گا اور تعلیم میں عار کے سبب کبھی جہل کا اقرار نہ کرے گا ’’ضَلُّوْا فَأَضَلُّوْا۔۔۔“ کا مصداق بنے گا۔
ارشاد: میرے مزاج میں تنگی ہے اور دیگر حضرات کے مزاج میں وسعت، پس اس تنگی کے سبب میرے اور آپ کے مذاق میں تناسب نہیں ہوتا۔ اور تناسب نفع کی شرط ہے اور جہاں توَسُّع ہے وہاں چھوٹے چھوٹے واقعات سے اثر نہیں ہوتا، اس لئے مذاق میں تَخَالُف نہیں ہوتا وہاں نفع کی امید ہے۔
شیخ کے سامنے مشغولیت ذکر کا حکم:
ارشاد: میری مجلس میں ممکن ہو تو اسمِ ذات میں مشغول رہو۔ البتہ جس وقت میں کوئی بات کروں اس وقت ساکت ہو کر اس کو سنو۔کَما قَالَ الله تَعَالیٰ:﴿وَ إِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ۔۔۔﴾ (الأعراف:204)
فوائد صحبت شیخ:
ارشاد: شیخ کے سامنے رہنے کے منافع حسب ذیل ہیں:
(1) جو افادات زبانی سننے میں آتے ہیں وہ خلاصہ ہوتے ہیں تحقیقات و مسائل کے، جس سے اپنی حالت بھی وضوح کے ساتھ منکشف ہوتی ہے۔ (2) اور ان اہل صحبت میں جو بابرکت ہوتے ہیں وہاں ایک نفع صحبت کی برکت اور ان کے طرز عمل سے سبق لینا ہوتا ہے۔ (3) عمل کا شوق بڑھتا ہے۔ (4) اپنے عیوب معلوم ہوتے ہیں۔ (5) اپنی استعداد معلوم ہوتی ہے لہٰذا اس زمانہ میں یہ صحبت کتابوں میں دیکھ کر عمل کرنے سے بدرجہا انفع ہے۔
بیعت توڑنے کا طریقہ:
ارشاد: اگر کسی جھگڑے کا اندیشہ نہ ہو تو بیعت توڑنے کی خبر اپنے فاسد العقیدہ پیر سے کرنا بہتر ہے، ورنہ خود اپنا ارادہ ہی کافی ہے، بیعت توڑنے کا طریقہ یہی ہے کہ پکا ارادہ کرلے کہ اس سے تعلق نہ رکھوں گا۔
حالت فنا شرطِ فیض ہے:
ارشاد: مرید کو چاہیے کہ شیخ کے سامنے اپنے کو مردہ بدست زندہ سمجھے کہ یہی ’’حالتِ فنا‘‘ شرطِ فیض ہے۔
شیخ سے مناسبت کے فوائد:
ارشاد: شیخ سے مناسبت پیدا ہو جانے میں بے حد برکات ہیں لیکن شرط نفع کی یہ ہے کہ مرید ان کی برکات کا منتظر نہ رہے۔
فعل عبث سے احتراز سلوک میں ضروری ہے:
ارشاد: فعلِ عبث کا ترک اول قدم ہے سلوک کا۔
شیخ کے علاوہ دوسری جگہ تعلیم و اصلاح کا تعلق رکھنا:
ارشاد: اگر ایک جگہ بیعت ہو اور دوسری جگہ تعلیم و اصلاح کا تعلّق رکھے کچھ حرج نہیں، خصوص جب بیعت کی جگہ سے مناسبت کم ہو اور دوسری جگہ مناسبت زیادہ ہو، جس جگہ تعلیم و اصلاح کا تعلّق رکھا جائے۔ سب سے اوّل وہاں طرز و انداز معلوم کرے تاکہ بعد میں توحّش نہ ہو اور چونکہ ہر مُرَبِّی کا طرز علیحدہ ہے اس لئے طرز معلوم کرنے کے بعد اس طرز کے قبول کرنے کے لئے پورے طور سے اپنے کو آمادہ کر لے اور آمادگی یہ ہے کہ اس کے اختیار کرنے میں خواہ کوئی تکلیف ہو یا کوئی ذلّت یا کوئی ضرر جسمانی یا مالی یا نفسانی سب کو گوارا کرے۔
جلبِ توجّہ شیخ کا طریقہ:
ارشاد: طالب قلّتِ اہتمام کو چھوڑے تو بے نیاز شیخ بھی اضطراراً اس کی طرف متوجہ ہو جائے گا۔
نِری بیعت دافع امراض باطنی نہیں:
ارشاد: یہ گمان کرنا کہ صرف بیعت میں اثر دفعِ امراضِ باطنی کا ہے بالکل غلط ہے۔ بیعت صرف مجاہدۂ اتباع کا نام ہے۔ آگے اتباع کی ضرورت ہے اور اتباع کا محل عمل ہے اور عمل میں البتہ خاصیت دفعِ امراضِ باطنی کی ہے۔
مشائخ کیلئے ایک کار آمد نصیحت:
ارشاد: مشائخ کو چاہئے کہ وظیفہ وغیرہ بتلانے سے پہلے دو کام بتلائیں: ایک اخلاق کی درستی۔ دوسرے بقدر ضرورت علم کی تحصیل۔
شیخ سے مستغنی نہ ہونے کے معنی:
ارشاد: شیخ سے مستغنی نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ تعلیم کی احتیاج رہتی ہے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ تعلق کی احتیاج رہتی ہے۔ یعنی اس سے اعراض اور مماثلت یا افضلیت کا دعویٰ قاطعِ طریق ہے اور تعلیم میں بھی اتنی احتیاج رہتی ہے کہ اس کے اصول کا ترک جائز نہیں۔ گو فروع میں اجتہاداً اختلاف ہو جائے وہ بھی ادب کے ساتھ ۔
مُعلِّم کی محبت کَلِیدِ وصول:
ارشاد: معلّم کی محبت کلید ہے وصول الی المقصود کی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
دوسرے شیخ کی طرف رجوع کس وقت جائز ہے:
ارشاد: دوسرے شیخ سے رجوع اس وقت کرے جب ایک مُعْتَدّ بِہٖ مدّت کے بعد بھی اپنے اندر اصلاح محسوس نہ کرے اور اصلاح کے یہ معنی ہیں کہ دواعی معاصی کے مُضْمَحِل ہو جائیں، لیکن شرط یہ ہے کہ شیخِ اوّل کی مجوّزہ تدابیر پر پوری طرح عمل کر چکا ہو اور پھر بھی کامیابی نہ ہوئی ہو، ورنہ وہ تو اس طرح کا مصداق ہو جائے گا کہ نسخہ تو پیا نہیں اور حکیم صاحب کی شکایت کہ ان کے علاج سے نفع نہیں ہوا۔
شرط برکت تعلیم شیخ:
ارشاد: جو شیخ خود بھی کام کرتا رہتا ہے اور اپنی اصلاح سے بھی غافل نہیں رہتا اس کی تعلیم میں برکت ہوتی ہے اور اگر محض فن دان ہے مگر خود عامل نہیں ہے اس کی تعلیم میں برکت نہیں ہوتی، گو تدابیر صحیح کرے۔
مرید کو شیخ کی رائے سے مخالفت کا حق نہیں:
ارشاد: مرید کو شیخ کی رائے سے مخالفت کا حق نہیں ہے، اگرچہ دوسری شِقّ بھی مباح ہو۔ کیونکہ مرید کا تعلّق شیخ سے استاد شاگرد جیسا نہیں، بلکہ اس طریقہ میں مرید و شیخ کا معاملہ ایسا ہے جیسے مریض اور طبیب کا معاملہ ہے کہ مریض کو طبیب کے فتویٰ کی مخالفت جائز نہیں جب تک شریعت کے خلاف شیخ کا قول نہ ہو۔
خلاف شرع امور میں مخالفت شیخ لازم ہے مگر ادب کے ساتھ:
ارشاد: اگر مرید کے نزدیک شیخ کا قول خلافِ شرع ہو تو مخالفت جائز، بلکہ لازم ہے۔ مگر ادب کے ساتھ، گو واقع میں وہ قول خلاف شریعت نہ ہو مگر یہ تو اپنے علم کا مکلّف ہے۔ جیسے حضرت سید صاحب رحمۃ اللہ علیہ بریلوی کو شاہ عبدالعزیز صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تصوّرِ شیخ تعلیم فرمایا۔ سید صاحب نے اس سے عذر کیا کہ مجھے اس سے معاف فرمایا جائے۔ شاہ صاحب نے فرمایا:
بمے سجاده رنگین کن گرت پیر مغاں گوید
سالک بے خبر بنووز رسم و راہ منزلہا
سید صاحبؒ نے عرض کیا کہ مے خواری تو ایک گناہ ہے آپ کے حکم سے میں اس کا ارتکاب کر لوں گا۔ پھر توبہ کرلوں گا مگر تصوّرِ شیخ میرے نزدیک شرک ہے اس کی کسی حال میں اجازت نہیں۔ حضرت شاہ صاحب نے یہ جواب سن کر سید صاحب کو سینہ سے لگا لیا کہ شاباش! جَزَاکَ اللہُ، تم پر مذاقِ توحید و اتباعِ سنت غالب ہے اب ہم تم کو دوسرے راستہ سے لے چلیں گے۔
شیخ کے صریح شرعی خلاف پر مرید کو کیا معاملہ کرنا چاہئے:
ارشاد: اہلِ طریق کی وصیت ہے کہ اول طلبِ شیخ میں پوری احتیاط لازم ہے پھر جب تفتیش و تجربہ سے اس کا متبع شریعت و محقِّق ہونا ثابت ہو گیا تو اب اجتہادی مسائل میں بات بات پر اس سے بدظن نہ ہو، البتہ اگر بیعت کے بعد اس سے کوئی بات ایسی دیکھی جائے جو کہ صریحاً خلاف شرع ہو جس میں اجتہاد کی بالکل مجال نہ ہو اس کے متعلق تین قسم کا معاملہ کرنے والے لوگ ہیں: بعض تو اس کو چھوڑ دیتے ہیں اور یہ خلاف اصول طریقت ہے اور بعض اس کے فعل میں بھی تاویل کر لیتے ہیں اور اگر وہ ان کو بھی اس فعل کا امر کرے تو اس کو بھی کر لیتے ہیں۔ اور یہ خلاف طریقت بھی ہے اور خلاف شریعت بھی ہے، اور سب سے اچھا تیسری قسم کا معاملہ کرنے والا ہے وہ یہ کہ اگر امر نہ کرے تو بدظن نہ ہو اور اس کے فعل میں یقیناً یا ابہاماً تاویل کرلے اور اگر تاویل پر قدرت نہ ہو تو سمجھ لے کہ شیخ کے لئے عصمت لازم نہیں آخر وہ بھی بشر ہے اور بشر سے کبھی غلطی ہو جانا ممکن ہے اور اگر اس کو بھی امر کرے تو اتباع نہ کرے، بلکہ ادب سے عذر کر دے اگر وہ اس عذر کو قبول کر لے اور پھر اس کو مجبور نہ کرے تو اس شیخ کو نہ چھوڑے اور اگر وہ اس عذر پر مرید سے خفا ہو جائے تو سمجھ لے کہ یہ شیخ کامل نہیں، اس کو چھوڑ کر دوسری جگہ چلا جائے اور اس دوسرے سے جا کر صاف کہہ دے کہ میں پہلے وہاں بیعت تھا اور اس وجہ سے الگ ہوا، اگر وہ سن کر ناخوش ہو تو اس کو چھوڑ دے، اگر ناخوش نہ ہو تو اس سے تعلق پیدا کرے، مگر اس حالت میں بھی پہلے شیخ کے ساتھ گستاخی نہ کرے کیونکہ اس طریق کا مدار ادب پر ہے۔
مشائخ کی تعظیم میں غلو کا حکم:
ارشاد: مشائخ کی تعظیم و اطاعت میں ایسا غُلو کرنا کہ وہ خلاف شرع بات کا حکم کریں جب بھی ان کی اطاعت کی جائے یہ بھی ارضائے خلق میں داخل ہے جو ایک مرض ہے۔
مرید کی ترقی شیخ ہی کی برکت سے ہے:
ارشاد: اگر کوئی مرید شیخ سے بھی بڑھ جائے تو وہ بھی شیخ ہی کی برکت سے ہے اور اس کی ایسی مثال ہے جیسے ایک مرغی کے نیچے قاز اور بطخ کے انڈے رکھ دیئے جائیں تو گو بچہ نکلنے کے بعد یہ قاز اور بطخ مرغی سے بڑی اور قوی اور سیر فی الهواء و فی الماء پر قادر ہو گی مگر اس کی ترقی بھی مرغی ہی کی بدوات ہے۔
پیر کامل کی شناخت:
ارشاد: پیر کامل وہ ہے جو مُحِقٌّ بھی ہو اور مُحَقِقْ بھی ہو، مُحِقٌّ ہونے کے تو معنیٰ یہ ہیں کہ اس کے عقائد صحیح ہوں متبع سنت ہو، اور محقق ہونے کے معنی یہ ہیں کہ وسائسِ نفس پر اس کی گہری نظر ہو۔
تبدیلِ شیخ کی شرط:
ارشاد: اگر کسی کو کسی شیخ سے نفع نہ ہوتا ہو تو اس کو دوسرے شیخ کی طرف رجوع کرنے کی اجازت ہے مگر یہ لازم ہے کہ پہلے شیخ کی شان میں گستاخی نہ کرے۔
بے ادب را اندریں رہ بار نیست
جائے ار بردار شد در دار نیست
شیوخ ابو الوقت کی حالت:
ارشاد: بعض شیوخ اہلِ مقام ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جس وقت جو حالت چاہیں اپنے اوپر وارد کر لیں، ان کو ابو الوقت کہتے ہیں، وہ جس مرید کے لئے جس حالت کی تجلّی نافع ہوتی ہے وہ اس کے سامنے اسی حالت کی تجلّی اپنے اوپر وارد کرتا ہے، مثلاً شیخ پر تو خوف کی تجلّی غالب ہے، لیکن جب دیکھتا ہے کہ مرید کے لئے تجلّیٔ رجا یا تجلّیٔ شوق مفید ہے تو اس کی مصلحت سے اپنے اوپر تجلّیٔ رجا کی یا تجلّیٔ شوق کی غالب کر لیتا ہے۔
عارف کی تائید غیب سے ہوتی ہے:
ارشاد: بعض دفعہ غیب سے ایسا ہوتا ہے کہ عارف پر ایک حال غالب ہے مگر اس کی مصلحت دوسرے حال میں ہے تو اس وقت اس کی مدد غیب سے کی جاتی ہے کیونکہ یہ شخص مراد ہوتا ہے اور مراد کی اصلاح حق تعالیٰ کی طرف سے بِلا اس کے قصد کی جاتی ہے، مثلاً عارف پر اُنس کا غلبہ تھا اور اُنس کے بڑھنے سے خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں حدود سے نہ بڑھ جائے تو دفعتاً کسی وقت ہیبت کا چرکہ لگا دیا جاتا ہے۔
طالب کو اطاعت و انقیاد کی سخت ضرورت ہے:
ارشاد: پہلے یہ حالت تھی کہ طالبین مشائخ کی ایسی طاعت و انقیاد کرتے تھے کہ اگر کسی کو کہا جائے کہ تم کسی دوسرے سے تعلیم حاصل کرو تو اس پر راضی ہو جاتے اور سمجھتے تھے کہ ان کی اطاعت سے ہم کو نفع ہو گا اور خواہ ہم کسی سے رجوع کریں ہم کو انہی سے فیض ہو گا اور آج کل یہ حالت ہے کہ اگر کسی کو دوسرے سے تعلیم حاصل کرنے کا مشورہ دیا جائے تو وہ اطاعت نہیں کرتا اور سمجھتا ہے کہ مجھے ٹال دیا اور غلط مشورہ دیا جب اطاعت و انقیاد کی یہ حالت ہے تو پھر نفع کیونکر ہو۔
محقق کی علامت:
ارشاد: محقِّق کی علامت یہ ہے کہ وہ سبب و منشاء کا علاج کرے محض آثار کا علاج نہ کرے۔
ہدیہ دے کر دعا کی درخواست کرنا خلاف ادب ہے:
ارشاد: ایک صاحب نے ہدیہ دے کر دعا کی درخواست کی، حضرت نے روپے واپس کر دیے کہ یہاں دعا کی دکان نہیں۔ ہم بدون ہدیہ کے بھی سب مسلمانوں کی بھلائی کے لئے دعا کرتے ہیں۔
پیر سے اختلاط کا طریقہ:
اپنے پیر کے پاس بھی کم جاؤ، زیادہ نہ لپٹو، کیونکہ گاہے گاہے خاص اوقات میں اس کے پاس جاؤ گے تو اس کو ذکر میں مشغول دیکھو گے، اور اگر ہر وقت لپٹے رہو گے تو کبھی ہگتے دیکھو گے تو کبھی موتتے کبھی تھوکتے سنکتے دیکھو گے اس سے تمہیں اعتقاد کم ہو گا، ہاں! عقلاء کو تو ان حالات کے مشاہدے سے اعتقاد بڑھے گا، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ شیخ فرشتہ نہیں بشر ہے، مگر بشر ہو کر بے شر ہے تو بڑا کامل ہے۔ اور ناقص العمل کبھی شیخ میں اور اس کی بیوی میں لڑائی جھگڑا دیکھے گا، تو اس کا اس باتوں سے اعتقاد کم ہو گا، اگر اعتقاد بھی کم نہ ہو تو بھی ہرقت نہ لپٹو، زیادہ لپٹنے سے اس کو کدورت ہو گی، اور شیخ کا تکدّر طالب کے لئے مُضر ہے۔
جس کے پاس جاؤ ایسے وقت میں جاؤ کہ اس وقت تمہارے جانے سے اس کو کدورت نہ ہو۔ فقہاء نے تو اس کی یہاں تک رعایت کی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی جہالت کی وجہ سے کسی دن میں عیادت کو منحوس سمجھتا ہے تو اس کی عیادت کو اس دن نہ جاؤ، بزرگوں کو زیادہ لپٹنے میں بھی یہ خرابی ہے کہ بعض دفعہ ایسی حرکات تم سے صادر ہوں گی جن سے ان کو انقباض ہو گا، تھوڑی دیر پاس بیٹھنے میں تو تم اپنی حرکات کی نگہداشت کر سکتے ہو اور ہر وقت پاس رہنے میں اس کی رعایت دشوار ہے اور اہلُ اللہ میں چونکہ لطافت زیادہ ہوتی ہے اس لئے ان کو بعض ایسی حرکات سے انقباض ہو جاتا ہے جن کو تم معمولی بات سمجھتے ہو اور شیخ کے مکدّر ہونے سے فیض بھی مکدّر ہی ہو کر آئے گا۔
آداب شیخ کی رعایت کی تعلیم:
ارشاد: جس طرح اپنے شیخ کے ہوتے ہوئے دوسرے شیوخ احیاء کی طرف التفات خلافِ ادب ہے اسی طرح شیوخ اموات کی طرف التفات بھی مُضر ہے، اور اپنے شیخ کے حالات کو ان کے حالات سے موازنہ کرنا تو سخت حماقت ہے۔ بزرگوں میں چونکہ لطافت زیادہ ہوتی ہے اس لئے اُن کی صحبت کے آداب سلاطین کی صحبت کے آداب سے بھی زیادہ سخت ہیں۔
اگر شیخ کی مجلس میں بھی غیبت ہونے لگے تو اٹھ جاؤ:
ارشاد: اگر شیخ کی مجلس میں بھی غیبت ہونے لگے تو فوراً اٹھ جاؤ۔ جیسے بارش عمدہ چیز ہے اس میں نہانا مفید ہے مگر اولے پڑنے لگیں تو بھاگنا ہی چاہئے۔
معاملہ بالشیخ کا خلاصہ پھر اس کا ثمرہ:
ارشاد: میں نے دو لفظوں میں معاملہ بالشیخ کا خلاصہ نکالا ہے اس کے موافق عمل کرنا چاہئے، یعنی اطلاع و اتباع۔ اپنے احوال کی اس کو اطلاع کرتے رہو اور جو وہ حکم دے اس کے موافق عمل کرتے رہو پھر کامیابی یقینی ہے۔ اگر اس کو اس تمام مشقّت کے بعد صرف یہی معلوم ہوا کہ میں ناکام رہا تو یہی کامیابی ہے۔ کیونکہ اس نایافت سے عبدیت پیدا ہو گی اور یہی کمال مقصود ہے، جو شخص شیخ کی تعلیم پر عمل کرتا رہے گا۔ اس کو اور کچھ نہ ملے تو رضا تو ملے گی کیونکہ حق تعالیٰ کا وعدہ ہے۔﴿وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا﴾ (العنكبوت: 69)
تعلیم و تربیت میں کاوش کر کے کسی کے درپے نہ ہونا چاہئے:
ارشاد: اصلی کوشش اپنے وصول کی کرنا چاہیے البتہ اگر بدون کاوش و بدون گھیر گھار کے کوئی طالب آجائے اور اس کی طلب متحقق ہو جائے تو اس کی خدمت کر دینے کا بھی مضائقہ نہیں بلکہ طاعت ہے۔
جس کی خدمت کرو اس کی کامیابی کی فکر نہ کرو دعا کرتے رہو، ناکامی میں دوہرا اجر ہے:
ارشاد: بس یہی مذاق رکھو کہ جو آ جائے اس کی خدمت کر دو۔ جو نہ آئے اس کی فکر میں نہ پڑو۔ جس کی خدمت کرو اس کی کامیابی کی فکر نہ کرو ہاں، دعا کرتے رہو، باقی اسی کا وظیفہ لے کر نہ بیٹھو اگر شاگرد کو جلالین اچھی طرح آ جائے تو آدھ سیر خوشی ہے اور بالکل نہ آئے تو سیر بھر خوشی ہے، کیونکہ تم نے ایک خدمت کی تھی جس میں تم کو دنیا میں ناکامی ہوئی تو ان شاء اللہ اس کے حصے کا بھی سارا اجر آخرت میں ملے گا۔
محقق کی شان سالک کے حق میں:
تعلیم: محققین کی یہ شان ہوتی ہے کہ چپکے چپکے اندر ہی اندر جو چاہتے ہیں دیدیتے ہیں سالک اس طرح لے جاتے ہیں کہ بعض اوقات اسے خود بھی خبر نہیں ہوتی کہ میں کہاں تھا اور کہاں پہنچ گیا۔
عارف ہر وقت حق تعالیٰ کو مصلح حقیقی جانتا ہے اپنے اوپر نظر نہیں کرتا:
ارشاد: عارف اپنی طرف سے کبھی نفع پہنچانے کا قصد نہیں کرتا، نہ اصلاحِ خلق کا خیال دل میں لاتا ہے کیونکہ اس کو اپنی حقیقت معلوم ہے وہ جانتا ہے کہ بھلا میں اور کسی کو نفع پہنچاؤں؟ یا میں کسی کی اصلاح کروں؟ عظمتِ حق جب دل پر غالب آتی ہے تو یہ سب خیالات پاش پاش ہو جاتے ہیں۔
طریق تعلیم و تربیت سالکین فی زماننا:
ارشاد: نقشبندیہ کا مذاق یہ ہے کہ وہ پہلے ہی دن سے ذکر کی تلقین کر کے تخم ریزی شروع کر دیتے ہیں اور چشتیہ اول ازالۂ رذائل کا کام شروع کر کے ناک چنے چبواتے ہیں بلکہ چبواتے تھے، کیونکہ اب تو وہ طالب کی ضعف ہمت کی وجہ سے نقشبندیوں کے طریق پر عمل کرنے لگے اور وصل و فصل دونوں کو ساتھ ساتھ لے چلتے ہیں، آج کل یہی صورت مناسب ہے کہ سالک کو ذکر و شغل کی تعلیم کے ساتھ اصلاح رذائل کا بھی امر کیا جائے اور ہر رذیلہ کی اصلاح کا علاج بتلایا جائے، گو زیادہ ضروری علاج رذائل ہی کا ہے مگر ذکر کے ساتھ رذائل کا علاج بہت سہل ہو جاتا ہے۔
اپنے امراض کو مشائخ سے چھپانا نہ چاہئے:
ارشاد: اپنے امراض کو مشائخ سے چھپانا نہ چاہئے۔ اگر یہ خیال ہو کہ وہ بزرگ ہم کو ذلیل سمجھیں گے تو میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ تم کو ذلیل کیا سمجھتے، جب کہ وہ کتے کو بھی اپنے سے افضل سمجھتے ہیں۔ دوسرے وہ امین ہوتے ہیں کسی کا راز دوسروں پر کبھی ظاہر نہیں کرتے، اگر اظہارِ مرض کو اظہارِ معصیت سمجھ کر طبیعت کہنے سے رکتی ہو تو معصیت تو فعل ہے اس فعل کا اظہار مت کرو بلکہ مواد کو بیان کرو اور مواد کا بیان کرنا معصیت نہیں۔ اگر کسی وقت علاج کے لئے شیخ افعال کی تحقیق کی ضرورت سمجھے تو اس وقت افعال کا بھی ظاہر کرنا شیخ پر جائز ہے اور اس کی بالکل وہی مثال ہے جیسے بدن مستور کا کھولنا ڈاکٹر اور جراح کے سامنے۔
کتابیں دیکھ کر علاج کرنا کافی نہیں:
ارشاد: مشائخ اعمالِ صالحہ کی وجہ سے بابرکت ہوتے ہیں اس لئے ان کی تعلیم میں بھی برکت ہوتی ہے جس کی وجہ سے جلد شفا ہوجاتی ہے خود کتابیں دیکھ کر علاج کرنا کافی نہیں۔
اہل محبت کی صحبت کا طریقہ اور اہل دنیا کی تعریف:
ارشاد: اہلِ محبت کی صحبت سے محبت پیدا ہوتی ہے لیکن ان کی صحبت پرہیز کیساتھ اختیار کی جائے۔ پرہیز یہ ہے کہ اہل دنیا کی صحبت سے بچو اور اہل دنیا وہ ہیں جو غیر اللہ کا تذکرہ زیادہ کریں۔
صحابہ کے کمالات اصلیہ:
ارشاد: حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے اصلی کمالات یہ ہیں کہ ان کو حق تعالیٰ اور رسول اللہ ﷺ کی غایت درجہ محبت تھی،اخلاص اور توحید میں کامل تھے، خدا کے سوا کسی سے ان کو خوف و طمع نہ تھا، کسی کام میں نفسانیت نہ تھی، عبادت میں کسی وقت غفلت نہ ہوتی تھی، نہ زراعت اس سے مانع تھی نہ تجارت، حضرت غوثِ اعظمؒ نے فرمایا ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اور عمر بن عبد العزیزؒ میں اتنا فرق ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ناک میں جو گرد بیٹھ کر جم گئی ہو وہ ہزار عمر بن عبد العزیزؒ جیسوں سے افضل ہے۔ کیوں؟ اس واسطے کہ عمر بن عبد العزیزؒ وہ آنکھیں کہاں سے لائیں گے جس سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ کو دیکھا ہے اور زمانہ کہاں سے لائیں گے جس میں وہ حضور ﷺ کے ساتھ رہے اور حضور ﷺ کے پاس اٹھے بیٹھے۔
کبھی روانی کلام الشیخ کی وجہ مخاطبین کا فیض ہوتا ہے:
ارشاد: جس قدر علوم میں ترقی ہوتی جاتی ہے اسی قدر کلام کی روانی کم ہوتی جاتی ہے۔ اور اگر کبھی روانی زیادہ ہوتی ہے تو وہ مخاطبین کا فیض ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مخاطب کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں ان کے افادہ کے لئے قلب میں مضامینِ مفیدہ کثرت سے وارد ہو جاتے ہیں۔ پس شیوخ ناز نہ کریں کہ ہم نے بڑے بڑے علوم و اسرار بیان کئے ہیں، کیونکہ کبھی سامعین کی برکت سے بھی مضامین کا ورود ہوتا ہے اور اس وقت اس کی مثال قیف جیسے ہوتی ہے کہ وہ محض واسطہ ہے بوتل میں تیل پہنچانے کا، اب اگر قیف ناز کرنے لگے کہ میں نے تیل پہنچایا یہ اس کی حماقت ہے، بلکہ اس کو بوتل کا ممنون ہونا چاہئے کہ اس کی برکت سے اس کو بھی تیل سے کسی قدر تلبیس ہو گیا۔
عمل کی مثال مبتدی اور منتہی کے حق میں:
ارشاد: عمل کی مثال ابتداء میں مثل دوا کے اور انتہا میں مثل غذا کے ہے۔ منتہی کو عمل کی زیادہ لذت ہوتی ہے چنانچہ حدیث میں ہے: ’’جُعِلَتْ قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلٰوةِ‘‘ (سنن نسائی حدیث نمبر: 3391)۔
شیخ کا فرض:
ارشاد: شیخ کے ذمہ طالبین کا افادہ فرض ہے اس کے ذمہ ضروری ہے کہ ایک وقت افادہ کے لئے بھی مقرر کرے۔
شیوخ کی توجہ و عنایت کی تفسیر:
تعلیم: شیوخ کی توجّہ اور عنایت یہی ہے کہ اپنے مریدین کو مضرتوں سے بچنے کی ہدایت کریں منافع حاصل کرنے کی تدبیریں بتائیں ہر وقت ان کو اپنے زیرِ نظر رکھیں، اگر سامنے آ کر بیٹھیں تو خاص تفقد رکھیں۔
مشائخ کو مریدوں سے فرمائش ہرگز نہ کرنا چاہیے:
ارشاد: مشائخ کو اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ مریدوں کی دنیا پر نظر نہ کریں اور از خود کسی سے کچھ فرمائش نہ کریں ہاں کسی سے بہت ہی بے تکلفی ہو جہاں بار ہونے کا مطلق احتمال نہ ہو اس سے کوئی بہت ہلکی فرمائش کا مضائقہ نہیں۔ مگر ایسے مخلص ہزاروں میں ایک ہی دو ہوتے ہیں عام حالت یہی ہے کہ فرمائش سے گرانی ہوتی ہے۔
خلوص و محبت کے معنی ہدیہ دینے میں:
ارشاد: خلوص و محبت کے معنی تو یہ ہیں کہ ہدیہ دینے والے کو دنیا کی تو غرض کیا آخرت کی بھی غرض مقصود نہ ہو یعنی ثواب کا بھی قصد نہ ہو، کیونکہ ثواب کے لئے کچھ دینا صدقہ ہے ہدیہ نہیں ہے۔ ہدیہ وہ ہے جو محض تطییبِ قلبِ مہدی لہ کیلئے دیا جائے۔ گو تطییبِ قلبِ مسلم بھی ثواب کا بھی موجب ہے اور اس ثواب کی نیت ہدیہ میں کرنا مذموم نہیں مگر ثواب إعطا کا قصد نہ ہونا چاہئے۔
قبول ہدیہ کا حکم:
ارشاد: جب عدمِ خلوص کا علم نہ ہو تو ہدیہ کو قبول کر لینا اگرچہ حلال ہے مگر جب تھوڑی سی کوشش سے علم ہو سکے تو پھر سستی جائز نہیں۔
ہدیہ میں زیادہ ثواب کی صورت:
ارشاد: اگر ہدیہ قلیل ہو اور خلوص زیادہ ہو تو ثواب زیادہ ملے گا۔
مشائخ کسی کو اپنا خادم خاص نہ بنائیں:
ارشاد: مشائخ کو چاہئے کہ کسی کو اپنا خادم خاص نہ بنائیں جس کو ان کے کاموں میں زیادہ دخل ہو کہ کبھی کسی مرید کی تعریف کر کے بڑھا دیں یا شکایت کر کے گھٹا دیں۔
طرق امداد اہل طریق:
ارشاد: حضرات مقبولانِ الٰہی سے جو وابستہ ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کو محروم رکھنا نہیں چاہتے۔ جس کے طرق مختلف ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک طریق یہ بھی ہے کہ بعض اوقات اللہ تعالیٰ ان مشائخ کو کشف کے ذریعہ سے اطلاع دیتے ہیں اور ان کو حکم دیتے ہیں کہ اس شخص کی مدد کرو۔ اور کبھی شیخ کو اطلاع بھی نہیں ہوتی اور کوئی لطیفۂ غیبی شیخ کی صورت میں آ کر مدد کر جاتا ہے۔
اس طریق میں قلب کی نگہداشت عمر بھر کا روگ ہے:
ارشاد: جس طرح عام حالت کے اعتبار سے قرآن بدون دائمی مزاولت کے یاد نہیں رہتا اسی طرح اس طریق میں قلب کی نگہداشت عمر بھر کا روگ ہے، کسی وقت غفلت کی اجازت نہیں۔
یک چشم زون غافل ازاں شاہ نباشی
شاید کہ نگاہ کند آگاہ نباشی
اہل اللہ کی عظیم الشان فکر سب دنیوی فکر سے مستغنی کرنے والی ہے:
ارشاد: لوگ سمجھتے ہیں کہ اہلُ اللہ بڑے چین میں ہیں۔ ان کو کچھ فکر نہیں، بیشک دنیا کی تو ان کو فکر نہیں مگر دنیا کی فکر نہ ہونے کا منشا بے فکری نہیں، بلکہ ایسی عظیم الشان فکر ہے جس نے عصائے موسوی کی روح بن کر سب فکروں کو نگل لیا ہے۔
اے ترا خارے بپا نشکستہ کہ دانی چیست
حال شیرانے کہ شمشیر بلا بر سر خورند
ذکر و شغل میں اصلاحِ غیر کی نیت رہزن طریق ہے:
ارشاد: بعض سالکین اس نیت سے ذکرو شغل کرتے ہیں۔ تاکہ اپنی تکمیل کے بعد مخلوق کی اصلاح کریں گے۔ یاد رکھو یہ خیال طریق میں رہزن ہے اور نیت سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ ابھی سے بڑے بننے کا شوق ہے، ابھی پوری طرح بیٹے تو بنے نہیں اور باپ بننے کی فکر ہونے لگی۔
اے بے خبر بکوش که صاحب خبر شوی
تا راہِ بین نباشی کے راہبر شوی
در مکتب حقائق پیش ادیب عشق
ہاں اے پسر بکوش کے روزے پدر شوی
نفع متعدی کی اہلیت کی شناخت:
ارشاد: تم کو کیسے معلوم ہوا کہ اس وقت ہمارے لئے نفع متعدی میں مشغول ہونا افضل ہے یا مضر؟ اس کے لئے نظر صحیح کی ضرورت ہے۔ یا تو نظر صحیح پیدا کرو۔ ورنہ کسی صاحبِ نظر کا دامن پکڑو اور اس کے تابع ہو جاؤ اور اس سے ہر موقع پر استفادہ کرو۔ واللہ اس کی سخت ضرورت ہے۔ نظر صحیح بھی یوں پیدا ہو گی، بدون اس کے بہت کم پیدا ہوتی ہے بلکہ شیخ صاحبِ نظرِ صحیح ہو وہ بھی اپنے واسطے کسی شیخ کو تجویز کرے، اپنے احوالِ خاصہ میں اس کی رائے سے عمل کیا کرے، اپنی رائے سے عمل نہ کرے، کیونکہ اپنے حالات و واقعات میں اپنی نظر تو ایک ہی پہلو پر جاتی ہے۔ اور دوسرے کی نظر ہر پہلو پر جاتی ہے، اور جس شیخ کو دوسرا شیخ نہ ملے تو وہ اپنے چھوٹوں ہی سے مشورہ کیا کرے، اس طرح بھی غلطی سے محفوظ رہے گا۔
نیت نفع خلق کی شناخت کا طریقہ:
ارشاد: بعض مشائخ اپنا مجمع بڑھانے کی فکر میں رہتے ہیں اور اس میں یہ تاویل کرتے ہیں کہ ہمارا مجمع زیادہ ہو گا تو مخلوق کو زیادہ نفع ہو گا۔ یہ تاویل بھی فاسد ہے۔ اگر ان کو نفعِ خلق مطلوب ہے تو اس کی علامت یہ ہے کہ اگر کوئی دوسرا شخص ان سے زیادہ کامل آ جائے جس سے نفعِ خلق کی زیادہ امید ہے تو یہ حضرت شیخ اپنی مسند کو چھوڑ کر الگ ہو جائیں اور لوگوں سے صاف کہدیں کہ اب میری ضرورت نہیں رہی فلاں بزرگ کے پاس جاؤ وہ مجھ سے زیادہ کامل ہے۔
طریقہ ثانی:
ارشاد: اب ہمارے اندر تفرّق اور گروہ بندی کا مرض آ گیا اگر ہم کو نفع خلق مقصود ہے تو دوسرے نفع رسانوں سے انقباض نہ ہوتا، بلکہ خوشی ہوتی کہ اچھا ہوا کہ اس نے میرے اوپر سے بوجھ ہلکا کردیا اب میں دین کا دوسرا کام کروں گا جس کو کوئی نہ کر رہا ہو، اب ہماری حالت یہ ہے کہ اگر ہمارے بزرگوں سے کسی عالم کو کسی مسئلہ میں بھی اختلاف ہو تو چاہے اس سے دین کا فیض ہمارے بزرگوں سے بھی زیادہ ہو رہا ہو۔ اس سے خوش نہ ہوں گے، اور نہ اس کے مرنے پر حسرت و رنج ہوتا ہے بلکہ کسی درجہ میں خوشی ہوتی ہے۔
بے تکلف اپنے جذبات پر عمل کرنا دلیل سچے ہونے کی ہے:
ارشاد: سچے آدمی کی علامت یہی ہے کہ وہ اپنے جذبات فطرت کے موافق بلا تکلف عمل کرتا ہے اس کو اس کی پرواہ نہیں ہوتی کہ کوئی میرے اس فعل پر اعتراض کرے گا یا کیا سمجھے گا۔ چنانچہ حضور ﷺ کے سچے نبی ہونے کی ایک بڑی دلیل یہ بھی ہے کہ آپ میں تصنّع اور بناوٹ کا نام و نشان نہیں تھا۔ آپ ﷺ بے تکلف اپنے جذبات پر عمل فرماتے تھے، کبھی خطبہ کے درمیان بچوں کو اٹھا لیتے تھے، کبھی بچہ کو کندھے پر سوار کر کے نماز پڑھتے تھے، کبھی صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ مزاح فرما لیتے تھے، کبھی اپنی بی بیوں سے مسابقت کر لیا کرتے تھے۔
سادگی منشاء ہے کمال کا:
ارشاد: کمال کی مستی خیال ہستی کو کم کر دیتی ہے۔ اس لئے واقعی جو لوگ اہل کمال ہیں وہ سادگی سے رہتے ہیں۔ اس میں کچھ اہل باطن ہی کی خصوصیت نہیں بلکہ علوم دنیا میں بھی جو کامل ہیں ان میں کمال کی وجہ سے سادگی آ جاتی ہے۔
شرائط سماع:
ارشاد: حضرت سلطان جی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سماع کی چار شرطیں ہیں:
(1) سامع از اہل ہویٰ و شہوت نباشد
(2) سمع مرد تمام باشد زن و کودک نباشد
(3) مسموع ہزل و فحش نباشد
(4) آلہ سماع مثل چنگ و رباب درمیان نباشد۔
عارف حق تعالیٰ کے شیون و تجلیات کی پوری رعایت کرتا ہے:
ارشاد: حق تعالیٰ تو مزاح سے پاک ہیں مگر وہاں تجلّیات و شیون بے انتہا ہیں جن کے مقتضیات مختلف ہیں عارف ان شیون اور تجلّیات کی مقتضیات کی پوری رعایت کرتا ہے جس وقت جو شان ظاہر ہوتی ہے اس کے موافق گفتگو کرتا ہے، چنانچہ حضور ﷺ نے دیکھا کہ تجلی محبوبیت کا غلبہ ہے اور حق تعالیٰ یہی چاہتے ہیں کہ ان پر ناز کروں، تو کہنے لگے: ’’اللّٰھُمَّ إِنْ تُھْلِکْ ھٰذِہِ الْعُصَابَةَ لَمْ تُعْبَدْ بَعْدَ الْیَوْمِ‘‘ (صحيح مسلم رقم الحديث:4588) حضرت ایوب علیہ السلام نے دیکھا کہ حق تعالیٰ میرا صبر دیکھنا چاہتے ہیں، اس لئے پورا صبر کیا، حتٰی کہ دعا بھی نہ کی، حالانکہ دعا صبر کے منافی نہ تھی، مگر صورتاً اس میں بیماری سے ناگواری اور زجر کا اظہار ہے اس لئے دعا بھی نہ کی، مگر جب منکشف ہوا کہ اب حق تعالیٰ عبدیت کا اظہار چاہتے ہیں تو فوراً دعا کرنے لگے: ﴿أَنِّي مَسَّنِيَ الشَّيْطَانُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ﴾ (ص: 41)۔
اہل اللہ کو اپنی جان سے محبت کا راز:
ارشاد: اہلُ اللہ کو اپنی جان سے اس لئے محبت نہیں ہوتی کہ اپنی جان ہے، بلکہ اس لئے محبت ہوتی ہے کہ یہ خدا کی چیز ہے جن کے ذریعہ سے ہمیں طاعات کی توفیق ہوتی ہے۔
نازم بچشم خود کہ جمال تو دیده است
افتم بپائے خود کو بکویت رسیده است
ہر دم ہزار بوسہ زنم دست خویش را
کہ دامنم گرفتہ بسویت کشیدہ است
فنِ تسہیل کے استعمال کا طریقہ:
ارشاد: مشائخ بنے اسی سے ہیں کہ وہ فنِ تسہیل سے واقف ہیں، وہ اس طریق کو اس شخص کے لئے استعمال کرتے ہیں جو تحصیل میں ساعی ہو، اور جو شخص تحصیل اعمال میں کوتاہی کرکے تسہیل کا طالب ہو وہ اس کے ساتھ تسہیل کا معاملہ نہیں کرتے بلکہ تکلیف کا معاملہ کرتے ہیں۔
پیری مریدی کی حقیقت:
ارشاد: پیری مریدی نام ہی ہے معاہدۂ اطاعت من جانب المرید و معاہدۂ تعلیم و اصلاح من جانب الشیخ۔ بیعت یعنی ہاتھ دینا نہ مقصود ہے نہ کسی مقصود کا موقوف علیہ، صرف رسمِ مشائخ ہے۔ اور حقیقت بیعت کی یہ ہے کہ مرید کی طرف سے اتباع کا التزام ہو اور شیخ کی طرف سے تعلیم کا۔ اگر ایسا معاہدہ خواہ قولاً ہو یا حالاً (کیونکہ معاہدہ کبھی حالیہ ہوتا ہے) تو بیعت کا تحقق ہو گیا، شیخ کا مرید کو تبلیغ نہ کرنا وعدہ خلافی اور خیانت ہے۔
پیروں کی افراط تعظیم:
ارشاد: آج کل پیروں کے ساتھ وہی معاملہ ہو رہا ہے جو یہود و نصاریٰ نے اپنے احبار و رُہبانوں کے ساتھ کر رکھا تھا۔ اگر پیر صاحب ڈھنگ کی بات بولیں تو حقائق و معارف ہیں۔ اور بے ڈھنگی بے تکی ہانکیں تو رموز ہیں۔ اور خاموش رہیں تو مراقب اور چپ، شاہان کی ہر حالت میں جیت ہے۔
اناڑی شیخ کی تعلیم کا نتیجہ:
ارشاد: اناڑی شیخ اپنے مرید کو مجموعۃ الوظائف بنا دیتا ہے۔
کفار کو مرید کرنا ان کو اسلام سے دور کرنا ہے:
ارشاد: کفار کو مرید کرنا اور ذکر و شغل بتلانا اسلام سے ان کو قریب کرنا نہیں بلکہ بعید کرنا ہے کیونکہ ذکر و شغل میں خاصیت ہے کہ اس سے کیفیات طاری ہوتی ہیں اور کیفیات میں خاص لذت بھی ہوتی ہے۔ جس کو یہ شخص قربِ حق کی لذت سمجھتا ہے اور اس کا خیال پختہ ہو جاتا ہے کہ قُربِ الٰہی میں اسلام کو کچھ دخل نہیں، نہ اسلام کی ضرورت ہے بلکہ کافر رہ کر بھی قربِ حق حاصل ہو سکتا ہے تو پھر کسی وقت بھی اس کے اسلام لانے کی امید نہیں رہتی۔
بیعت کے بعد کن امور کی تعلیم مشائخ کو ضروری ہے:
ارشاد: صاحبو! بیعت ہونے کے بعد جن چیزوں پر روک ٹوک زیادہ ضروری ہے وہ اس قسم کی ہیں: کبر، عجب، اضاعت، حقوق العباد، حسد و بغض، فساد ذات البین وغیرہ، مگر آج کل ان امور میں مطلق روک ٹوک نہیں۔ حالانکہ پہلے زمانے میں مشائخ کو اول اسی کام کا زیادہ اہتمام تھا، وظائف تو سالہا سال کے بعد تعلیم کرتے تھے، اور یہی نہیں کہ محض زبان سے ان امور پر روک ٹوک کرتے تھے، بلکہ تدبیروں سے ان امراض کو قلب سے نکالتے تھے، مثلاً کسی کو زینت پرستی میں مبتلا دیکھا تو اسے سڑکوں پر یا خانقاہ میں چھڑکاؤ کرنا، جھاڑو دینا بتلا دیا، اور جس میں تکبّر دیکھا اس کو نمازیوں کے جوتے سیدھے کرنا تعلیم کر دیا، افعالِ تواضع میں خاصیت ہے کہ ان سے قلب میں تواضع پیدا ہوجاتی ہے۔
افادہ و استفادہ کی شرط:
ارشاد: افادہ اور استفادہ کی شرط یہ ہے کہ مستفیدین کا دل مربی سے کھلا ہوا ہوتا ہے کہ وہ بے تکلف اپنی حالت کو ظاہر کرکے اصلاح کر سکیں۔
اہلُ اللہ کی ہر فعل میں نیت صالحہ ہوتی ہے:
ارشاد: اہلُ اللہ کے ہر فعل میں نیت صالحہ ہوتی ہے اگر کسی فعل میں کوئی خاص نیت نہ ہو۔ کیونکہ بعض دفعہ ہر فعل میں نیت تراشنا مشکل ہوتا ہے تو اس میں اظہارِ عبدیت کی حکمت ہوتی ہے۔ ہم ایسے عاجز ہیں کہ ہم سے نیت صالحہ نہیں ہوسکتی اور اظہارِ عبدیت شرعاً مطلوب ہے۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے محض اظہارِ عبدیت کے لئے بھی بعض افعال کئے ہیں۔ چنانچہ کھانا کھا کر آپ اول خدا کی حمد فرماتے تھے: ’’الحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ اَطْعَمَنَا وَ سَقَانَا وَجَعَلَنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ‘‘۔ اس کے بعد فرماتے تھے ’’غَیْرَ مُوَدِّعٍ وَلَا مَکْفُوْرًا وَلَا مُسْتَغْنًی عَنْہُ رَبَّنَا‘‘ کہ اے اللہ اس کھانے کو ہم ہمیشہ کے لئے رخصت نہیں کرتے (بلکہ دوسرے وقت پھر اس کی طلب کریں گے) اور نہ اس کی بے قدری کی گئی ہے (بلکہ پیٹ بھرنے کے بعد بھی ہم اس کے ویسے ہی قدر داں ہیں۔ جیسے بھوک کی حالت میں تھے) اور نہ ہم کو اس سے استغناء ہوا ہے (بلکہ ہم ہر حال میں اس کے محتاج ہیں مگر اس وقت اس لئے دسترخوان اٹھا دیا کہ اب گنجائش نہیں رہی)۔
سلوک میں ریاضت کی تعیین کے لئے شیخ کی اجازت لازم ہے:
ارشاد: بزرگوں سے جو بعض اختیاری مشقتیں منقول ہیں وہ بطور قرب العبد کے نہیں، محض بطور معالجہ کے ہیں کسی کی تجویز کے لئے مجتہد کا اجتہاد یا شیخ کی اجازت ضروری ہے۔
شیخ سے مستغنی ہونا مضر ہے:
ارشاد: اگر کوئی شخص شیخ سے مستغنی بن جائے تو وہ اس وقت سے چھوٹا ہونا شروع ہو جائے گا۔
مبتدی کو وعظ گوئی سے ممانعت کی وجہ:
ارشاد: مشائخ نے مبتدی کو وعظ کہنے سے منع کیا ہے۔ کیونکہ وہ حظۂ نفس کے لئے وعظ کہے گا۔ اس کا نفس پابندی معمولات اور تنہائی سے بھاگتا ہے۔ مجمع میں باتیں بنانے کو دل چاہتا ہے، اس لئے وعظ کہنے میں اسے مزا آتا ہے، دوسری وجہ ممانعت کی یہ بھی ہے کہ ابتدا میں احوال کا طریان زیادہ ہوتا ہے اس وقت اگر یہ شخص وعظ کہے گا تو اپنے حالات ہی کا بیان کرے گا۔ کیونکہ ایسا ضبط مبتدی میں کہاں کہ دل پر آرہ چلے اور زبان پر نہ آئے یہ ظرف کاملین ہی کو عطا ہوتا ہے۔
خدمتِ خلق مذموم:
ارشاد: ایسی خدمتِ خلق جس میں اپنے دین کا ضرر ہو مذموم ہے۔
اصلاح غیر کا طریقہ:
ارشاد: جس کی اصلاح اپنے قبضہ میں ہو وہاں تو دعا بھی کرو اور تدبیر بھی کرو، جہاں اصلاح قبضہ میں نہ ہو وہاں دعا تو مطلقاً جائز ہے مگر تدبیر اس شرط سے جائز ہے کہ اپنا ضرر نہ ہو۔
ایثار کا ایک قاعدہ:
ارشاد: اپنے ذاتی احتیاج پر دوسروں کے نفع کو مقدم کرنا محمود اس وقت ہے جب کہ اپنے دین کا ضرر نہ ہو۔
اپنی ظاہری و باطنی قوت کو دیکھ کر اصلاحِ غیر کی فکر میں پڑنا مناسب ہے:
ارشاد: اپنی ظاہری و باطنی قوت کو دیکھ لو، اس کے بعد ایثار کرو اور دوسرے کاموں میں پڑو، مگر اپنا نقصان کر کے اور دین برباد کر کے دوسرے کاموں میں لگنا اور اصلاح غیر کے درپے ہونا یہ حضرات صحابہ سے کہیں بھی ثابت نہیں ﴿وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ۔۔۔﴾ (الحشر: 9) میں جو صحابہ رضی اللہ عنہم کے ایثار کی تعریف کی گئی ہے تو تعریف اس پر کی گئی ہے کہ ان کے دل میں ایمان راسخ و ثابت ہو چکا تھا ان کے قلوب حرص سے پاک ہو چکے تھے اور محبت اسلام و مسلمین سے لبریز تھے۔ پس اس سے معلوم ہوا کہ اصلاحِ نفس اصلاحِغیر سے مقدم ہے اور یہ کہ ایثار کی اسی کو اجازت ہے جو اپنی اصلاح سے فراغت کر چکا ہو۔
اہل اللہ کی صحبت کا نفع ایک ظاہری دوسرا باطنی:
ارشاد: اہلُ اللہ کی صحبت کے مؤثر ہونے کا سبب یہ ہے کہ بار بار اچھی باتیں کان میں پڑیں گی تو کہاں تک اثر نہ ہو گا، ایک وقت چوکو گے، دو وقت چوکو گے، تیسری دفعہ تو اصلاح ہو ہی جائے گی۔ اور ایک سبب باطنی بھی ہے وہ یہ کہ جب تم ان کے پاس ہو گے اور تعلق بڑھاؤ گے تو ان کو تم سے محبت ہو جائے گی تو اس سے دو طرح اصلاح ہو گی: ایک تو یہ کہ وہ دعا کریں گے اور ان کی دعا مقبول ہوئی تو حق تعالیٰ تم پر فضل فرماویں گے اور اکثر یہ ہے کہ ان کی دعا باذنِ حق ہوتی ہے تو ان کے منہ سے دعا نکلنا اس بات کی علامت سمجھنا چاہئے کہ حق تعالیٰ کے فضل ہونے کا وقت آ گیا، دوسری وجہ بڑی خفی ہے وہ یہ کہ تمہارے اعمال میں ان کی محبت سے برکت ہو گی اور جلد ترقی ہو گی، اور جلد اصلاح ہو جائے گی۔
نفس پر جرمانہ کرنے کی اصل اور اس کا راز:
ارشاد: نفس پر جرمانہ کرنے کی اصل نصوص سنت میں موجود ہے، حدیث میں ہے، ’’وَمَنْ قَالَ لِصَاحِبِهٖ: تَعَالْ اُقَامِرُكَ، فَليَتَصَدَّقْ‘‘۔ (صحيح البخاري رقم الحديث: 6301)۔ یعنی جس کی زبان سے یہ کلمہ نکل جاوے کہ آؤ جوا کھیلیں وہ صدقہ کرے۔ اسی طرح حیض کے زمانہ میں غلطی سے جماع ہو جائے تو وہاں بھی صدقہ کا حکم ہے۔ ابتدائے حیض میں ایک دینار اور آخر میں نصف دینار، اور راز جرمانہ کا یہ ہے کہ صدقہ کرنے سے نفس پر زیادہ مشقت ہوتی ہے اور اس سے بچنے کے لئے سالک تھوڑی مشقت برداشت کر لیتا ہے۔
مجاہدہ کا مقصود:
ارشاد: مجاہدہ سے مقصود نفس کو پریشان کرنا نہیں، بلکہ نفس کو مشقت کا خوگر بنانا اور راحت و تنعم کی عادت سے نکالنا ہے اور اس کے لئے اتنا مجاہدہ کافی ہے، جس سے نفس پر کسی قدر مشقت پڑے۔ بہت زیادہ نفس کو پریشان کرنا اچھا نہیں۔ ورنہ وہ معطل ہوجائے گا۔
اعتدال فی المجاہدہ:
ارشاد: محنت ہمیشہ مستحسن نہیں، بلکہ جب اعتدال سے ہو اور اس پر اچھا نتیجہ مرتب ہو پس مجاہدہ میں اعتدال کی رعایت ضروری ہے، شریعت کی ہر شی میں اعتدال ضروری ہے۔
تمام دینی و دنیوی تمدنی و سیاسی مصالح کی بنیاد نفس کو مشقت کا عادی بنانا ہے:
ارشاد: اعمالِ صالحہ اور ترکِ معاصی کو رزق کی وسعت میں بڑا دخل ہے۔ حق تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرٰى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِم بَرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَالْأَرْضِ۔۔۔﴾ (الأعراف:96)۔ اسی طرح معاصی کو تنگیٔ رزق و نزولِ بلا میں بڑا دخل ہے۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ جس قوم میں سود کی کثرت ہو گی اللہ تعالیٰ اس پر قحط مسلّط کردیں گے اور جس قوم میں زنا کی کثرت ہو گی اس پر طاعون وغیرہ ایسے امراض مسلّط ہوں گے۔ پس دنیوی و دینی، تمدنی و سیاسی مصالح کی بنیاد اور جڑ یہی ہے کہ انسان اپنے نفس کی مخالفت کا عادی بنے اور نفس کو مشقت کا عادی بنائے۔
اصلاح دین کی ترکیب:
ارشاد: اگر دین کو سنبھالنا چاہتے ہو تو ہر شخص کو اس کی ضرورت ہے کہ کسی عالم متقی کا اتباع کرے۔
وضوح حق کا طریقہ:
ارشاد: طالبِ حق کو حق ضرور واضح ہو جاتا ہے بشرطیکہ وہ اس کو قاعدہ سے طلب کرے جس کے دو طریقے ہیں: ایک تدبیر، کہ فکر سے کام لے۔ دوسرے دعاء،کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کہ مجھ پر حق واضح کر دیجئے۔
تصوف میں جو چیز سینہ بسینہ ہے اس کی تعریف:
ارشاد: تصوف میں سینہ بسینہ ایک چیز ہے یعنی نسبت اور مناسبت اور مہارت، جو استاد کے پاس رہنے ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ محض کتاب پڑھ لینے یا زبانی طریقہ دریافت کر لینے سے حاصل نہیں ہوتی اور یہ وہ چیز ہے جو ہر علم میں سینہ بسینہ ہی ہے۔ حتیٰ کہ بڑھئی اور باورچی کے پیشہ میں بھی مناسبت اور مہارت ہے۔ جس کا نام سینہ بسینہ ہے مہارت میں ایک اور چیز ہے یعنی برکت جو مشاہدہ سے معلوم ہو گی بدون مشاہدہ کے اس کا علم نہیں ہو سکتا۔
حضرات صوفیہ کا فہم سب سے بڑھا ہوا ہے:
ارشاد: حضرات صوفیہ صاحبِ تقوٰی بھی ہیں۔ اور صاحبِ وہب بھی۔ اس لئے ان کا فہم دوسروں سے بڑھا ہوا ہے۔
عطائی اور طبیب حاذق کا فرق:
ارشاد: طبیب حاذق کے ہاتھ سے اگر کسی کو شفا نہ ہو اور مر جائے تو اس سے قیامت میں باز پرس نہ ہو گی، کیونکہ وہ فن کو جان کر علاج کرتا ہے۔ بخلاف عطائی کے کہ اس کے ہاتھ سے کسی کو شفا ہو گی، جب بھی مواخذہ ہو گا اور کوئی مر گیا تو اچھی طرح گردن ناپی جائے گی، کیونکہ وہ فن سے واقف نہیں۔
اہل اللہ بے حد شفیق ہوتے ہیں:
ارشاد: اہل اللہ کو مسلمانوں پر بے حد شفقت اور مصالح کی بے حد رعایت ہوتی ہے۔
شیخ کے سامنے اس طرح نہ کھڑا ہو کہ اس پر سایہ پڑے:
ارشاد: شیخ کے سامنے اس طرح نہ کھڑا ہو کہ اس پر سایہ پڑے، بات یہ ہے کہ اس سے بھی الجھن ہوتی ہے پس اس کا منشاء اذیت ہونے کی وجہ سے منع کیا گیا۔
شیخ کی جائے نماز پر نماز پڑھنا بے ادبی ہے:
ارشاد: اجازت کے بعد شیخ کی جگہ یا مصلّٰی پر نماز پڑھنے اور ذکر کرنے کا مضائقہ نہیں۔ بغیر اجازت کے ایسا نہ کرنا چاہئے کیونکہ ظاہراً دعویٰ مساوات کا ظاہر ہوتا ہے، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما جو حضور ﷺ کی جگہ نماز پڑھتے تھے اس کا منشاء محض اتباع تھا، نہ کہ دعویٰ مساوات، علاوہ اس کے ایک بات اور ہے کہ مبنٰی ادب کا عرف پر ہے اور تبدّلِ عرفیات سے عرفیات کا حکم بدل جاتا ہے۔ تو صحابہ کے زمانہ میں کسی کی جائے نماز پر نماز پڑھنا خلاف ادب نہ تھا اور اب ہے۔
ادب کی تحصیل کا طریقہ:
ارشاد: ادب کا مدار اس پر ہے کہ ایذا نہ ہو اس کلیہ کو تو ملحوظ رکھو یہ مقصود ہے باقی سب اس کے فروع ہیں جو کہ امور انتظامیہ میں سے ہیں اور وہ تبدل زمانہ سے بدلتے رہتے ہیں، جیسے انتظام اوقات کا معیار پہلے گھڑی گھنٹہ پر نہ تھا اور اب گھڑی گھنٹہ پر ہے یا سفر کا مدار پہلے اونٹ، بیل، گھوڑے پر تھا، اور اب ریل اور موٹر پر۔ پس مشائخ میں اپنے ذوق سے کام لینا چاہئے کہ ان کو کس بات سے ایذا ہوتی ہے کس بات سے نہیں، یہ نہ کیا جائے کہ کتابوں سے آداب دیکھ کر عمل کرنے لگے کیونکہ ہر جگہ ہر زمانہ میں امور ایذا بدلتے رہتے ہیں، نیز ادب میں غلو بھی نہ کرے کیونکہ غلو سے بھی ایذا ہوتی ہے۔
شیخ طریق کی تقلید کی وجہ:
ارشاد: امام ابو حنیفیہ رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید تو احکام میں کی جاتی ہے اور شیخ طریق کی تقلید معالجات اور امور انتظامیہ میں کی جاتی ہے، اس لئے غیر مقلد شیخ حنفی کی تقلید سے مقلد نہ بن جائے گا۔
نفس پر جرمانہ کی سند:
ارشاد: وطی حائض اور ترک جمعہ پر حضور ﷺ نے تصدیق دینار و نصف دینار کا امر فرمایا ہے جس سے جرمانہ مال کا بطور معالجہ کے ثبوت ہوتا ہے۔
توَسُّل کی حقیقت:
ارشاد: تَوَسُّل کی حقیقت یہ ہے کہ اے اللہ! فلاں شخص میرے نزدیک آپ کا مقبول ہے اور مقبولین سے محبت رکھنے پر آپ کا وعدہ رحمت ہے ’’اَلْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ‘‘ (سنن ترمذي، رقم الحديث: 2385) میں، پس میں آپ سے اس رحمت کو مانگتا ہوں، پس توَسُّل میں یہ شخص اپنی محبت کو اولیاءُ اللہ کے ساتھ ظاہر کر کے اس محبت پر رحمت و ثواب مانگتا ہے اور اولیاءُ اللہ کا مُوجَبِ رحمت و ثواب ہونا نصوص سے ثابت ہے۔ چنانچہ ’’مُتَحَابِّیْنَ فِی اللہِ‘‘ کے فضائل سے احادیث بھری ہوئی ہیں۔ اب یہ اشکال جاتا رہا کہ بزرگی اور برکت کو رحمتِ حق میں کیا دخل؟ دخل یہ ہوا کہ اس بزرگ سے محبت رکھنا حُبّ فِی اللہ کی فرد ہے اور حُبّ فِی اللہ پر ثواب کا وعدہ ہے۔
حقیقت تَوَسُّل پر ایک شبہ کا جواب:
ارشاد: تَوَسُّل کی حقیقت جو اوپر بیان کی گئی ہے وہ تو کسی کو معلوم نہیں، پھر اس حقیقت کا قصد کر کے کون تَوَسُّل کرتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جو بات جائز ہے وہ اس وقت تک جائز رہے گی جب تک ناجائز کا قصد نہ کیا جائے اور ظاہر ہے کہ اہلِ حق جو تَوَسُّل کرتے ہیں وہ ناجائز معنیٰ کا قصد نہیں کرتے، گو جائز معنی کا بھی قصد نہ ہو۔
ہدیہ کو اصل بنانا اور زیارت کو تابع، دلیل قلت محبت کی ہے:
ارشاد: آج کل کا مذاق یہ ہے کہ تحفہ کا اہتمام پہلے کرتے ہیں، زیارت کا قصد بعد میں کرتے ہیں, گویا زیارت تابع ہے اور تحفہ اصل ہے یہ قلتِ محبت کی دلیل ہے۔
خالی جائے بھرا آئے کی توجیہہ:
ارشاد: خالی جاوے خالی آوے، یعنی جو عقیدت و محبت سے خالی جاوے وہ فیض سے خالی آوے۔ اس کے مقابلہ میں، میں نے یہ تصنیف کیا ہے کہ خالی جائے بھرا آئے۔ یعنی جو شخص دعویٰ، تصَنُّع و ریا سے خالی جاوے وہ نفع سے بھرا آوے۔
بڑا ادب ہدیہ کا خلوص و محبت ہے:
ارشاد: حضور ﷺنے فرمایا ہے’’اپنے ھمسایہ کو ھدیہ دیتے رہو، چاہے جلی ہوئی کھری ہی ہو۔‘‘ ہدیہ میں خلوص محبت کی ضرورت ہے اور قیمتی و نفیس کی ضرورت نہیں۔
نجات اصل مقصود ہے:
ارشاد: بڑی بات یہ ہے کہ آخرت میں جوتیوں سے نجات رہے۔ کیسی دوسروں کی تربیت اور کیسی دوسروں کی اصلاح۔۔؟
آج کل مجاہدہ کی کمی مضر نہیں:
ارشاد: ریاضت و مجاہدہ سے تو بس یہ مقصود ہے کہ نفس کی سرکشی کم ہو جائے اور اطاعت میں آسانی سے لگ سکے۔ چونکہ اب نفوس میں پہلی سی قوت اور سرکشی نہیں رہی۔ نہ اب پہلے سے قویٰ رہے، اس لئے مجاہدہ کی کمی مضر نہیں۔
حضرت والا کے معمولات مبنی بر عقل و شریعت ہیں:
ارشاد: حضرت والا حکیم الامت مدظلہ العالی، دو پاس رہ کر بدظن نہیں ہو سکتے: ایک تو وہ جو پورا عاقل ہو کہ میرے ہر فعل کی حکمت اس کی سمجھ میں آجائے۔ یا وہ جو پورا عاشق ہو کہ میرا جو فعل بھی ہو اس کی نظر محبت میں بالکل مناسب اور بجا ہو۔
تعلیم استغنائے قلب:
ارشاد: قلب کا تعلّق نہ دوستوں سے رکھے نہ دشمنوں سے، مگر حقوق سب کے ادا کرے۔
مقامات کی تعریف نیز یہ کہ اصلاح میں اس کی کوئی ترتیب نہیں:
ارشاد: مقام کہتے ہیں اخلاقِ باطنہ حمیدہ مکتسبہ کے اندر رسوخ و پختگی کو، جیسے: توکل، انس، محبت، تفویض۔ اگر کسی کو ان اخلاقِ باطنہ کے اندر پورے طور پر رسوخ اور پختگی حاصل نہیں تو گویا اس کو مقامات حاصل نہیں تو بس اس کا طریقۂ اصلاح یہی ہے کہ طالب کی حالت میں غور کرے اور دیکھے کہ فلاں خصلت اس شخص کے اندر کیسی ہے آیا پختہ ہے یا خام؟ پس اگر کسی خلق کے اندر خامی دیکھے، اس کی اصلاح کردے۔ اور ظاہر ہے کہ اس میں ہر شخص کی حالت جدا ہے۔ تو پھر ایک ترتیب کیسے ہو سکتی ہے؟ اور اصلی بات تو یہ ہے کہ اس کی فکر ہی میں نہ پڑے کہ کتنا راستہ قطع ہو چکا، اب کتنا باقی ہے۔ اس لئے کہ اس طریق کا تو یہ حال ہے۔
نہ ہر گز قطع گرد و جاۂ عشق از دویدنہا
کہ می بالد بخود ایں راہ چوں تاک از بریدنہا
حضرت تمام عمر کی دوڑ دھوپ کے بعد یہ سمجھ میں آئے گا کہ ہم کچھ نہیں سمجھے۔
نیست کس راز حقیقت آگہی
جملہ می میرند بادشت تہی
انکسارو افتقار کا حظ حصولِ مقامات کے حظ سے بڑھ کر ہے:
حضرت مولانا گنگوہی کا ارشاد ہے کہ اگر کسی کو ساری عمر کی محنت و کوشش کے بعد یہ معلوم ہو جائے کہ مجھ کو کچھ حاصل نہیں ہوا تو اس کو سب حاصل ہو گیا۔ اگر مقامات طے بھی ہو گئے تو ان کے طے ہونے میں وہ حظ نہیں جو اس سمجھنے میں ہے کہ ہم نے ابھی کچھ بھی راستہ قطع نہیں کیا۔ گویا تیلی کے بیل کی طرح ہیں اور یہ حظ ہے انکسار اور افتقار اور عجز و عبدیت کا۔
بشاشت شیخ شرط تربیت ہے:
ارشاد: باطن کا علاج اسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ معالج کے قلب میں مریض کی طرف سے بشاشت ہو۔ بلکہ طبیب ظاہری بھی بغیر بشاشت کے علاج نہیں کر سکتا۔
شیخ موافق سنت کا اتباع کرے:
ارشاد: جس کے اعمالِ ظاہرہ و باطنہ منہاجِ شریعت پر ہوں، اس کی صحبت سے استفادہ کرے، اصل چیز اعمال ہی ہیں اور حدود و سنت کے اندر رہ کر جو کیفیت پیدا ہوتی ہے تو وہ بعض مرتبہ اتنی لطیف ہوتی ہے کہ خود صاحب کیفیت کو بھی اس کا ادراک نہیں ہوتا۔
سب کاملین کو اپنے نقص نظر آتے ہیں اور یہی مقتضا ہے عبدیت کا:
ارشاد: پورا کامل بجز انبیاء کے کوئی نہیں اور وہ کاملین بھی اپنے کو کامل نہیں سمجھتے، سب کو اپنے نقص نظر آتے ہیں، خواہ وہ نقص حقیقی ہوں یا اضافی۔ اور نقص نظر آنے سے مغموم بھی ہیں اور مغموم بھی ایسے اگر ہم جیسوں پر وہ غم پڑ جائے تو کسی طرح جانبر نہیں ہو سکتے۔ کمال کی تو توقع ہی چھوڑنا واجب ہے۔ ہاں! سعی کمال کی توقع بلکہ عزم واجب ہے، اس کی مثال وہ مریض ہے جس کی تندرستی سے تو مایوسی ہے مگر فکر صحت اور اس کی تدبیر کا ترک جائز نہیں سمجھا جاتا اور نجات بلکہ قرب بھی کمال پر موقوف نہیں فکر تعمیل پر موعود ہے۔ ﴿إِنَّ اللهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ﴾ (آل عمران: 9)۔ بس اسی طرح عمر ختم ہوجائے تو اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے وَھٰذَا ھُوَ مَعْنٰی مَا قَالَ الرُّوْمِیْ رحمۃ اللہ علیہ :
اندریں رہ می تراش و می خراز
تا دم آخر دمے فارغ مباش
تا دم آخر دمے آخر بود
کہ عنایت با تو صاحب سر بود
سب سے آخر میں خواہ اس کو اظہار حال کہیے یا آپ کی ہمدردی یا رفعِ التباس جو چاہے نام رکھیے، یہ کہتا ہوں کہ میں بھی اسی کشمکش میں ہوں۔ مگر اس کو مبارک سمجھتا ہوں، جس سے یہ اثر ہے کہ یہ سمجھ نہیں سکتا کہ خوف کو غالب کہوں یا رجا کو، مگر مُضطرّ ہو کر اس دعا کی پناہ لیتا ہوں جس سے کچھ ڈھارس بندھتی ہے: ’’اللّٰھُمَّ کُنْ لِیْ وَ اجْعَلْنِیْ لَکَ‘‘۔
چھوٹوں کو بڑوں کی تعظیم اور بڑوں کو چھوٹوں کے ساتھ شفقت چاہئے:
ارشاد: اگر چھوٹے اپنے کو بڑوں کے برابر سمجھنے لگیں تو وہ اسی دن سے گھٹنا شروع ہو جائیں گے۔ اور بڑے اگر شفقت کا برتاؤ نہ کریں بلکہ بڑائی کے غرور میں تکبر کرنے لگیں تو وہ بھی گھٹ جائیں گے۔ ایسے ہی بے اثر بڑوں کے تابعین کے متعلق کسی نے کہا ہے: ’’سگ باش برادر خورد مباش‘‘ اور جو چھوٹے چھوٹے بن کر نہ رہیں، ان کے متبوعین کے متعلق کسی نے کہا ہے ’’خرد باش برادر بزرگ مباش‘‘ واقعی اگر چھوٹے بڑوں کا مقابلہ کرنے لگیں تو بڑا آدمی گدھے سے بھی بدتر ہو جاتا ہے کہ سارا بوجھ اسی پر لادا جاتا ہے۔
عوام پر توجہ کا اثر ہونے کی وجہ:
ارشاد: توجہ کا اثر اس پر ہوتا ہے جو اپنے آپ کو محتاجِ اثر سمجھتا ہو، اور اپنے کمال کا مُدَّعِی نہ ہو، عوام پر توجّہ کا اثر ہوتا ہے اور خواص پر نہیں، کیونکہ ان میں احتیاج و طلب ہی نہیں، وہ خود اس کے مدعی ہیں کہ دوسرے ہمارے محتاج ہیں۔
منہتی کے اس کہنے کی توجیہ کہ میں کچھ نہیں ہوں:
ارشاد: مُنتَہِی کا یہ کہنا کہ میں کچھ نہیں ہوں۔ آئندہ کے مراتبِ معرفت پر نظر کر کے کہنا صحیح ہے۔ کیونکہ منتہی جو ہے وہ تو کمالات موجودہ کے اعتبار سے ہے جس پر اس کی نظر نہیں اور سرِ مراتب غیر متناہی ہیں۔ چنانچہ حضور ﷺ کو باوجود اَعْلَمُ النَّاسِ وَ اَعْرَفُ الْخَلْقِ ہونے کے حکم ہے کہ آپ ترقی کی برابر درخواست کرتے رہئے۔ بقولہ تعالیٰ: ﴿وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا﴾ (طه: 114)
ارشاد: ’’اَلْوَاصِلُ لا یُرَدُّ‘‘ یعنی واصل فی الواقع کبھی مردود نہیں ہوتا۔
مشائخ کا نا اہل کو مجاز بنانے کا راز:
تعلیم: مشائخ بعض دفعہ کسی نا اہل میں شرم و حیا کا مادہ دیکھ کر اس امید پر اسے مجاز کر دیتے ہیں کہ جب وہ دوسروں کی تربیت کرے گا تو اس کی لاج اور شرم سے اپنی بھی اصلاح کرتا رہے گا۔ یہاں تک کہ ایک دن کامل ہو جائے گا۔
سالکین کی لغزش پر جلد تنبیہ ہوتی ہے:
ارشاد: سالکین کو حق تعالیٰ ان کی لغزش پر جلدی سزا دے کر متنبہ فرما دیتے ہیں تاکہ غلطی کی اصلاح کرے۔ اور دوسروں کے واسطے یہ قاعدہ ہے ﴿وَأُمْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِي مَتِينٌ﴾ (الأعراف: 183، القلم: 45) یعنی حق تعالیٰ ڈھیل دیتے رہتے ہیں تاکہ دفعتاً پکڑ لیں، چنانچہ حضرت جنید رحمۃ اللہ علیہ کے ایک مرید نے ایک حسین نصرانی لڑکے کو دیکھ کر سوال کیا تھا کہ کیا خدا تعالیٰ ایسی ایسی صورتوں کو بھی جہنم میں ڈالیں گے؟ چنانچہ اس بد نظری کی سزا میں قرآن بھول گئے تھے۔
بعض دفعہ غیر کامل کو مجاز کرنے کا سبب:
ارشاد: بعض دفعہ غیر کامل مشائخ اجازت دے دیتے ہیں کہ شاید کسی طالب مخلص کی برکت سے اس کی بھی اصلاح ہو جائے، کیونکہ بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کوئی پیر نا اہل ہے اور اس کا مرید کوئی مخلص ہے تو طالب صادق کو تو حق تعالیٰ اس کے صدق و خلوص کی برکت سے نواز ہی لیتے ہیں جب وہ کامل ہوجاتا ہے تو پھر حق تعالیٰ پیر کو بھی کامل کر دیتے ہیں، کیونکہ یہ اس کی تکمیل کا ذریعہ بنا تھا۔
تربیت میں کیا مقصود ہے اور معرفت مقصودہ کیا ہے؟
ارشاد: مقصود تربیت میں محض حالات کی اطلاع اور معالجہ کا استفسار ہے۔ معلّم جس طریق سے چاہے معالجہ کرے، اور معرفتِ مقصودہ وہی ہے جس کا شارع نے حکم دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفاتِ کمال کا عقیدہ رکھو اور ان کی تصرفات کا استحضار رکھو۔ یہ تصرّفات تمام عالم میں ہیں جن میں انسان کے اندر تصرفات زیادہ عجیب ہیں۔
سوال: بزرگوں سے حاصل کرنے کی کیا چیز ہے اور اس کا کیا طریقہ ہے؟
مقصود اور طریق کی تشریح:
ارشاد: کچھ اعمال مامور بہا ہیں ظاہرہ بھی باطنہ بھی۔ نیز کچھ اعمال منہی عنھا ہیں ظاہرہ بھی باطنہ بھی۔ ہر دو قسم میں کچھ علمی و عملی غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ مشائخِ طریق طالب کے حالات سن کر ان عوارض کو سمجھ کر ان کا علاج بتلا دیتے ہیں۔ ان پر عمل کرنا طالب کا کام ہے۔ اور اعانت طریق کے لئے کچھ ذکر بھی تجویز کر دیتے ہیں۔ تقریر سے مقصود اور طریق دونوں معلوم ہو گئے۔
صحبت کے نتائج:
ارشاد: امراضِ باطنیہ میں تعدیہ ضرور ہوتا ہے، صوفیہ نے اس کو مُسَارَقَہ سے تعبیر کیا ہے، صحبتِ صالحہ کا اثر تو یہ ہے کہ مُسَارَقَت کے بعد مُشَارَقَت ہوتی ہے کہ دونوں کے انوار سے منور ہو جاتے ہیں اور صحبتِ بد کا یہ اثر ہوتا ہے کہ مُسَارَقَت کے بعد مُبَارَقَت ہوتی ہے کہ دونوں طرف سے بجلی چمکتی ہے اور سوختن و افروختن کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے کہ دونوں کا دین جل کر خاک سیاہ ہو جاتا ہے۔
تعلیم و تعلم کا مقصد اصلی یہی ہے کہ آدمی خدا کا ہو جائے:
ارشاد: تعلیم و تعلّم کا مقصود یہی ہے کہ آدمی خدا کا ہو جائے۔ مگر آج کل اہل علم نے صرف تعلیم و تعلّم ہی کو مقصود سمجھ لیا ہے، عمل کا اہتمام نہیں کرتے، محض الفاظ پر اکتفا کرتے ہیں۔ ان کو قلب تک نہیں پہنچاتے۔ غرض علماء کو تحصیلِ علم کے بعد طریق سلوک یا جذب کو حسبِ تجویزِ شیخ اختیار کر کے اصلاح نفس کرانا چاہئے۔
اَیُّھَا الْقَوْمُ الَّذِیْ فِی الْمَدْرَسَۃِ
کُلُّ مَا حَصَلْتُمُوْہٗ وَسْوَسَۃٌ
علم نبود غیر علم عاشقی
ما بقی تلبیس ابلیس شقی
علم رسمی سر بسر قیل است و قال
نے ازو کیفتے حاصل نه حال
علم چوں بود آنکہ رہ بنمایدت
زنگ گمراہی ز دل بزدایدت
ایں ہوس را از سرت بیروں کند
خوف و خشیت در دلت افزوں کند
تو ندانی جز یجوز و لا یجوز
خود ندانی که تو حوری یا عجوز
علم چوں بر دل زند یارے سے بود
علم چوں بر تن زند مارے بود
شیخ کو اس حالت کی جذب میں بھی نہ چھوڑے:
ارشاد:
دوش از مسجد سوئے میخانه آمد پیر ما
چیست یاران طریقت بعد ازیں تدبیر ما
در خرابات مغاں ما نیز هم منزل شویم
کیں چنیں رفت است در عهد ازل تقدیر ما
اول شعر میں ایک سوال ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ ہمارے شیخ پر کچھ دنوں سے جذب کا غلبہ ہے تو اب ہم کو کیا کرنا چاہئے، کیونکہ اس حالت میں وہ ہم کو نفع نہیں پہنچا سکتا تو ہم کو دوسرا شیخ تلاش کرنا چاہئے۔ دوسرے شعر میں جواب ہے کہ نہیں ہم کو اس حالت میں بھی شیخ کا ساتھ دینا چاہئے کیونکہ جس کو ایک دفعہ شیخ بنا لیا ہے اور طبیعت کو اس سے کامل مناسبت ہو گئی ہے ازل سے وہی ہمارے واسطے شیخ مقدر ہو چکا ہے تو ہم کو دوسرے سے نفع نہیں ہو سکتا۔ اور اس حالت میں افادہ نہ کرسکنے کا جواب یہ ہے کہ کاملین پر جذب دیرپا نہیں ہوتا۔ بلکہ عارضی ہوتا ہے اس لئے مضر نہیں۔
اصلاح نفس کے لئے علم رسمی سے قطع تعلق ضروری ہے:
ارشاد: اصلاحِ نفس کے لئے رسمی علم سے قطعٔ تعلق کرنے کی ضرورت اس لئے ہے کہ سلوک و جذب کے لئے یک سوئی اور خلوت کی ضرورت ہے، اشتغالِ علمی کے ساتھ اس کا جمع ہونا دشوار ہے۔
اصلاح نفس کا بہترین طریقہ:
ارشاد: اصلاحِ نفس کی تدبیر یہ ہے کہ اپنے کو کسی کے سپرد کردے جو وہ کہے اس پر عمل کرے، مگر تجویز ایسے کو کرے جو شریعت و طریقت دونوں کا جامع ہو، بدون کسی محقّق کی اتباع کے اصلاح نفس نہیں ہو سکتی۔
ایصال کا قصد زمانہ طلب میں سد راہ ہے:
ارشاد: جب کسی شیخ کی تعلیم و صحبت کی برکت سے تمہاری اصلاح ہو جائے تو اس کے بعد دوسروں کی اصلاح کرنا چاہئے، ربانی بھی بنو اور ربانی گر بھی بنو۔ مگر اس میں ایک بات قابلِ تنبیہ ہے وہ یہ ہے کہ کام شروع کرنے سے پہلے تو ربانی گر بننے کی نیت کر لو تاکہ نیتِ افادہ کا ثواب ملتا رہے۔ مگر کام میں لگنے کے بعد اس کی نیت کی طرف التفات نہ کرنا چاہئے، کیونکہ ایک کام کے ساتھ دوسری باتوں کی طرف التفات کرنا مُوجِبِ تشتت ہے، کام جبھی ہوتا ہے جب اس میں ایسا لگے کہ اس وقت اس کے سوا کسی پر نظر نہ ہو۔ ایسے ہی اصلاحِ نفس میں مشغول ہو کر یہ خیال کرنا کہ ہم ایک دن مصلح بنیں گے سد راہ ہے۔
زمانہ طلب میں وصول کا قصد نہ کرنا چاہئے:
ارشاد: طالب کو بندہ بن کر رہنا چاہئے ’’کَالْمَیِّتِ فِیْ یَدِ الْغَسَّالِ‘‘، ثمرات پر نظر کا نہ جانا چاہئے کہ یوں ہو گا، یہی مطلب ہے حضرت استاد علیہ الرحمتہ کے اس قول کا۔ مقصود طلب ہے وصول مطلوب نہیں، یعنی طلب کے وقت مقصود طلب ہے، طلب کے وقت وصول پر نظر نہ کرنا چاہئے، کہ مجھے وصول ہو گا یا نہیں، بلکہ اس وقت اس کا یہ مذہب ہونا چاہئے۔
دست از طلب ندارم تا کام من بر آید
یا تن رسد بجانا یا جان ز تن بر آید
یابم او را یا نہ یابم جستجوئے می کنم
حاصل آید یا نیماید آرزوئے می کنم
ہنیم بس کہ داند ماہ رویم
کہ من نیز از خریداران اویم
ظاہر ہے کہ یہ تھوڑی بات نہیں، جب انھیں خبر ہوجائے گی تو وہ اپنے خریدار کو محروم نہ رکھیں گے۔
عاشق که شد کہ یاد بحالش نظر نہ کرد
اے خواجہ درد نیست و گرد نہ طبیب ہست
مگر تم تفویض بھی اس نیت سے نہ کرو کہ تفویض کی وجہ سے ہمارا کام ہو جائے گا، بلکہ ان کا حق سمجھ کر تفویض کرو۔
شیخ کامل کی تعلیم تدریجی ہوتی ہے:
ارشاد: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے ربانی کی تفسیر میں فرمایا ہے: ’’اَلرَّبَّانِیُّ الَّذِیْ یُعَلِّمُ صِغَارَ الْعُلُوْمِ قَبْلَ کِبَارِھَا‘‘۔ ربانی یعنی شیخ کامل وہ ہے جو چھوٹے علوم اول تعلیم کرے اور بڑے علوم بعد کو سکھلائے یعنی طالب کو بتدریج ترقی کی طرف لیتا جائے۔
تعلق بالخلق مقصود بالذات نہیں بلکہ بالغیر ہے:
ارشاد: تعلّق بالخلق مقصود بِالذّات نہیں، بلکہ مقصود بالغیر ہے اور کبھی کبھی جو کسی غرض کی وجہ سے مقصود بالذات پر اس کی تقدیم کا امر ہوا ہے اسی سے بعض اہل علم کو مقصودیتِ ذاتیہ کا شبہ ہو گیا ہے، حالانکہ کسی عارض کی وجہ سے مقصود بالغیر کبھی مقصود بالذات سے مقدّم ہوجاتا ہے، مگر وہ مقصود بالذات نہیں بن جاتا۔ صرف تقدّمِ زمانی ہو جاتا ہے جیسے وضو کا تقدّم صلوٰة پر، چنانچہ ارشاد ہے ﴿فَإِذَا فَرَغْتَ فَانصَبْ وَإِلٰى رَبِّكَ فَارْغَب﴾ (الانشراح: ٧، ٨) یعنی مخلوق کے کام سے فارغ ہو کر تعلّق بالحق میں مشغول ہونے کی کوشش کی جاوے۔ اور اس طرح مشغول ہو کہ ماسوا سے قطعِ نظر کی جائے یعنی توجّہ الی الحق اصل و مقصود بالذات ہے اور توجّہ الی الخلق تابع یعنی مقصود بالغیر۔
تعلق مع الخلق کے محمود یا مذموم ہونے کا معیار:
ارشاد: تعلّق مع الخلق کو مطلوب کون سمجھتا ہے اور کون نہیں سمجھتا، یہی تعلّق مع الخلق کے محمود مذموم ہونے کا معیار ہے۔ وہ یہ کہ اگر کسی کو دوستوں کے ساتھ باتوں میں مشغول ہونے سے دلچسپی نہ ہو بلکہ اس سے جی گھبراتا ہے اور نماز و ذکر میں مشغول ہونے کو جی چاہتا ہے اور باتوں میں مشغول ہوتے ہوئے یہ تقاضا ہو کہ جلدی سے بات ختم ہو تو میں اللہ کی یاد میں لگوں تو یہ شخص واقعی تعلّق مع الخلق کو مطلوب نہیں سمجھتا اور اس کے لئے اس تعلّق کو مذموم نہ کہا جائے اور جس شخص کا نماز میں یہ جی چاہتا ہو کہ جلدی نماز سے فارغ ہو کر دوستوں سے باتیں کریں اور ان کی باتوں کی وجہ سے اپنے معمولات کا ناغہ کر دیتا ہو نہ اشراق ہے، نہ تہجد، نہ ذکر ہے، نہ تلاوت، ان کی وجہ سے محض فرائض پر اکتفا کرتا ہو اور اس سے بھی جلد فارغ ہونے کا تقاضا ہے تو یہ شخص تعلّق مع الخلق کو مطلوب سمجھتا ہے اس کے لئے یہ تعلّق مذموم ہے۔
محقق کامل کے لئے تمام عالم مِرَآةِ جمالِ حق ہے:
ارشاد: محقّق کامل کی نظر ہر چیز پر حضرتِ حق کے بعد ہی پڑتی ہے یعنی ہر چیز سے اول حضرتِ حق پر نظر پہنچتی ہے پھر اس چیز پر نظر پڑتی ہے۔ تمام عالم اس کے لئے مِرَآةِ جمالِ حق بن جاتا ہے۔
کاملین کے اقوال کی اقتدا کا مطلب:
ارشاد: کاملین کے اقوال کی اقتداء کرنا چاہئے یعنی وہ تم کو جو امر کریں اس پر عمل کرو، یہ مطلب نہیں کہ ان کی طرح اسرار و دقائق بیان کرنے لگو کیونکہ اس کا نام تقلید و اطاعت نہیں، بلکہ اس کو نقّالیٔ محض کہتے ہیں۔
خلق و مدارات سے معمولات میں ناغہ کرنا مضر باطن ہے:
ارشاد: اگر تم خلق و ارتباط بالاحباب کی وجہ سے اپنے معمولات کا ناغہ کرو گے تو ایک دن بالکل کورے رہ جاؤ گے۔ ’’مَنْ لَا وِرْدَ لَہٗ لَا وَارِدَ لَہٗ‘‘۔
شیخ کو زبان ہونا چاہئے مرید کو کان:
ارشاد: ناقص کو بولنے کی اجازت نہیں کیونکہ اس کو سکوت ہی میں محبوب کی طرف توجّہ رہتی ہے۔ اور کامل کو نُطق وسکوت دونوں میں محبوب کی طرف توجہ رہتی ہے۔ اسلئے اس کو بولنے کی ضرورت ہے تاکہ طالبین کو فیض زیادہ ہو۔ غرض یہ کہ شیخ کو تو زبان ہونا چاہئے اور مرید کو کان، میں نے مُنتَہِی کے لئے اس مشورہ کا ایک شعر تجویز کیا ہے :
جائے رخ کہ خلقے والہ شوند و حیراں
بکشائے لب که فریاد از مرد و زن برآید
کاملین علاوہ احکام مشترکہ کے ہر وقت کے احکام خاصہ کو بھی پہنچانتے ہیں:
ارشاد: محقّقِین کاملین تکلّم و سکوت ہر حالت میں محبوب کے شیون کو پہچانتے ہیں کہ اس وقت وہ کس چیز میں خوش ہیں وہ بلا تشبیہہ ایسے ہیں جیسے ایاز تھا، کہ ایاز کے لئے کوئی قاعدہ اور قانون نہ تھا۔ وہ بادشاہ سے ایسے وقت میں بھی باتیں کر سکتا تھا۔ جس میں دوسروں کے لئے بات کرنے کی اجازت نہ تھی کیونکہ وہ مزاج شناس تھا موقع اور وقت کو پہچانتا تھا۔ اب ہر شخص اگر ایاز کی ریس کرنے لگے تو یہ اس کی حماقت ہے بلکہ اور درباریوں کو تو قواعد و قوانین عامہ ہی کا اتباع لازم ہے۔
کمال کے حصول کا طریقہ:
ارشاد: کمال تو اسی طرح حاصل ہو گا کہ کاملین کے سامنے اپنے کو پامال کردو، یعنی اپنی فکر و رائے کو فنا کر دو۔ اور اس کے لئے تیار رہو کہ شیخ میری ذات میں جو کچھ بھی تصرّف کرے گا، میں اس کو خوشی سے برداشت کروں گا اور اس کو اپنی فلاح و صلاح سمجھوں گا۔
فکر خود رائے خود در عالم رندی نیست
کفر است دریں مذہب خود بینی و خود رائی
مہم کے درست ہونے کا طریقہ:
ارشاد: اپنے بزرگوں کے ہاتھ سے جو ذِلّت ہو وہ ذِلّت نہیں، بلکہ بڑی عزّت ہے۔ اس لئے اپنے بزرگوں کے سامنے ذِلّت سے ناگواری نہ ہونا چاہئے یہی کامیابی اور عزّت کا پیش خیمہ ہے، فہم کی درستگی چاہتے ہو تو کاملین کے سامنے ہر ذِلّت کو گوارہ کر کے کچھ دنوں ان کے پاس رہو۔
خود رو سلیم الفہم میں صلاحیت فیض رسانی کی نہیں ہوتی:
ارشاد: جیسے بعض دفعہ مرغی کے انڈے میں سے محض مشین کی گرمی پہنچانے سے بچہ نکل آتا ہے، مگر سنا ہے کہ ایسے بچے زندہ نہیں رہتے جلد ختم ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح جو لوگ خود رو (بلا صحبتِ شیخ) سلیم الفہم ہوتے ہیں ان کو اصلاحِ خلق کی مناسبت تامہ نہیں ہوتی۔ گو! فہم کتنا ہی سلیم ہو مگر ان سے فیض نہیں چلتا۔ فیض رسانی کی شان اسی بچہ میں آئے گی، جس نے کچھ دنوں کسی مرغی کے نیچے رہ کر پَر و بال نکالے ہوں۔ باقی حضرات انبیاء علیہم السلام کے لئے ’’اَدَّبَنِیْ رَبِّیْ فَاَحْسَنَ تَادِیْبِیْ وَ عَلَّمَنِیْ رَبِّیْ فَاَحْسَنَ تَعْلِیْمِی‘‘ کے سبب تربیتِ خلق کی حاجت نہیں ہوتی۔
مطلوب کا حصول بقدر ہمت کام پر ہے:
ارشاد: یاد رکھو! حصولِ مطلوب کچھ زیادہ کام کرنے پر موقوف نہیں، بلکہ بقدرِ ہمت طلب ہونا چاہئے۔ بزرگوں نے فرمایا ہے کہ مریض و ضعیف کی چھ رکعتیں قوی کی چھ سو رکعتیں کے برابر ہیں، کیونکہ اس کو چھ ہی رکعت کی ہمت ہے اور ثواب دینے والے اللہ تعالیٰ عزّ شانہٗ ہیں وہ ہر شخص کی حالت اور ہمت کو اچھی طرح جانتے ہیں۔
دل سے اور توجّہ سے تھوڑا کام بھی وصول کے لئے کافی ہے:
ارشاد: اگر دل سے اور توجّہ سے تھوڑا کام بھی ہو تو وہ بے توجّہی کے ساتھ زیادہ کام کرنے سے بڑھ کر ہے۔ پس جو زیادہ کام نہ کر سکے وہ تھوڑا ہی کرے مگر توجّہ سے کام کرے یہی وصول کے لئے کافی ہے۔
بفراغ دل زمانے نظرے بماہ روئے
بہ ازاں کے چستر شاہی ہمہ روز ہائے ہوئے
سارے طالبوں کو ایک ہی لکڑی سے مت ہانکو، رسمی پیروں کی غلطی:
ارشاد: یہ طریقہ غلط ہے کہ سارے طالبوں کو ایک لکڑی سے ہانکا جائے، بلکہ اَقْوِیَا کو ان کے مناسب کام بتلاؤ اور ضعفاء کو تھوڑا بتلاؤ اور اس کی تاکید کرو کہ وہ تھوڑا ہی کام توجّہ کے ساتھ کریں، ان شاء اللہ وہ زیادہ ہی کے برابر ہو جائے گا۔ چنانچہ بعض بزرگوں نے اپنے بعض مریدوں کو جو دنیوی مشاغل میں زیادہ مشغول تھے صرف اتنا کام بتلایا ہے کہ نماز کے بعد تین دفعہ ’’لَا اِلٰہَ إِلَّا اللہُ‘‘ جہراً کہہ لیا کرو۔ اب رسمی پیروں کے یہاں یہ رسم ہو گئی ہے کہ ہر نماز کے بعد یا فجر و عصر کے بعد سارے نمازی مل کر جہراً ’’لَا اِلٰہَ إِلَّا اللہُ‘‘ کہتے ہیں اور اس کا سختی کے ساتھ التزام کرتے ہیں، حالانکہ سب کے واسطے بزرگوں نے نہیں کہا تھا، بلکہ خاص خاص لوگوں کو بتلایا تھا، مگر جاہلوں نے اس کو حکم عام ہی بنا لیا اور التزام کر لیا، اسی واسطے علماء نے اس کو بدعت کہا ہے۔
نظام عالم علماء ہی کے اتباع سے قائم رہ سکتا ہے:
ارشاد: عوام کو لازم ہے کہ علوم میں صوفیہ کا اِتِّباع نہ کریں۔ بلکہ علماء اور جمہور کا اِتِّباع کریں، کیونکہ یہ لوگ مُنْتَظِم ہیں۔ نظامِ شریعت بلکہ نظامِ عالم علماء ہی کے اتباع سے قائم رہ سکتا ہے۔ یہ علماء منتظم پولیس ہیں کہ مخلوق کے ایمان کی حفاظت کرتے ہیں۔ اگر یہ اپنا کام چھوڑ دیں تو صوفی صاحب کو حجرہ سے نکل کر یہ کام کرنا پڑتا اور سارا حال و قال رکھا رہ جاتا، کیونکہ اصلاحِ خلق کا کام فرضِ کفایہ ہے۔
خدمت کرنے اور لینے کے بعض اصول:
ارشاد: خدمت وہی اچھی ہے جس سے بزرگوں کو گرانی نہ ہو، بزرگوں کو بھی اس کا خیال رکھنا چاہئے کہ اپنے خُدَّام کے ساتھ ایسی تواضُع نہ کریں جس سے ان کو خجلت و کُلْفَت ہو، بلکہ بزرگوں کے لئے تو اس کی ضرورت ہے کہ کبھی کبھی خُدَّام سے کہہ دیا کریں کہ جوتے وہاں سے اٹھا کر یہاں رکھ دو۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ مُریدوں کو ذلیل کیا کریں بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس سے خُدَّام خوش ہوں گے کہ ہم کو اپنا سمجھتے ہیں اور کبھی یہ خدمت بہ نیتِ اصلاح و تعلیم تَوَاضُع کے لینا چاہئے۔
شیخ کے سامنے اپنے کو مٹانا طریق کی شرط اول ہے:
ارشاد: افسوس آج کل مُبتدی عوام کے سامنے تو اپنے کو کیا مٹاتے۔ یہ تو اپنے کو شیخ کے سامنے بھی نہیں مٹاتے جس کے سامنے اپنے کو پامال کردینا طریق کی اول شرط ہے، مگر یہ اس کے سامنے بھی اپنی فکر اور رائے کو فنا نہیں کرتے خود رائی سے کام لیتے ہیں۔ حالانکہ کمال اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک اپنے کو کسی کامل کے ہاتھ میں ’’کَالْمَیِّتِ فِیْ یَدِ الْغَسّالِ‘‘ سپرد نہ کردو اور حقائق کا انکشاف بھی اسی پر موقوف ہے۔
کامل توجّہ الی الخلق میں بھی توجّہ الی الحق سے غافل نہیں:
ارشاد: کامل توجّہ الیٰ الخلق میں بھی توجّہ الی اللہ سے غافل نہیں ہوتا، کیونکہ توجّہ الیٰ الحق کے دو جز ہیں: ایک ذکر، دوسرے طاعت۔ اور وہ توجّہ الیٰ الخلق میں ان دونوں سے غافل نہیں ہوتے۔ ذکر سے تو اس لئے غافل نہیں ہوتے کہ کوئی کام ان کو یادِ محبوب سے نہیں ہٹا سکتا۔ ہر کام اور ہر حالت میں ان کا دھیان اس طرف لگا رہتا ہے۔ چنانچہ یہی حالات عارف کی جمعہ کے دن حجامت و غسل و تطییب میں ہوتی ہے۔ وہ یہ سب کام محض محبوب کے لئے کرتا ہے اور عین اشتغال بھذہ الاعمال کے وقت محبوب کی طرف اس کا دھیان ہوتا ہے، اس کا راز یہ ہے کہ جو چیز اوّل میں پیوستہ ہو جاتی ہے، اس سے کوئی چیز حاجِب و مانِع نہیں ہوتی، تمہارے دل میں دنیا پیوست ہو گئی ہے اس لئے تم کو ذکر اللہ دنیا کی یاد سے اور اس کے دھیان سے مانع نہیں ہوتا اور اہلُ اللہ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیوستہ ہو گئی ہے۔ ان کو کوئی چیز اور کوئی کام ذکر اللہ سے مانِع نہیں ہوتا، یہ تو ذکر کی حالت ہے کہ توجّہ الی الخلق میں بھی وہ ذاکر ہوتے ہیں، اور طاعت کی حالت میں یہ ہے کہ وہ ہر کام میں احکامِ شریعت کی رعایت کرتے ہیں، چنانچہ تبلیغ میں بھی جس میں ظاہراً تعلّق مع الخلق ہے اس کی رعایت کرتے ہیں جس سے وہ تعلّق مع الحق ہو جاتا ہے، چنانچہ تبلیغ میں وہ نرمی کرتے ہیں اور دُرشتی نہیں کرتے، مگر اسی وقت جب تک محبوب کی شان میں کوئی گستاخی نہ کرے۔
خلوت و جلوت مفیدہ کی شناخت:
ارشاد: ’’اِنِّیْ لَاُجَھِّزُ جَیْشِیْ وَ اَنَا فِی الصَّلٰوةِ‘‘ منافی خشوع و خلوت نہ تھا۔ اور اس کا راز کیا ہے؟ اگر صورةً خلوت ہو مگر قلب تعلّقات میں گرفتار ہو تو اس خلوت کا کچھ فائدہ نہیں۔ اور اگر مال و زر اور کھیتی و تجارت میں بھی دل خدا تعالیٰ کے ساتھ لگا ہوا ہو تو تم خلوت نشیں ہو۔
گر با ہمہ چو با منی بے ہمہ
در بے ہمہ چو بے منی با ہمہ
پس کم از کم خلوت میں تو ایسی توجّہ ہونا چاہئے کہ اس وقت دل خیالاتِ غیر سے پاک ہو، ورنہ وہ خلوت خلوت نہ ہو گی بلکہ جلوت ہو گی، البتہ اگر ایسا خیال ہو جس کی اجازت محبوب کی طرف سے ہو یعنی دین کا خیال ہو اور ضرورت کا ہو تو وہ خلوت کے منافی نہیں۔ اس خیال کی نظیر وہ ہے جس کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’اِنِّیْ لَاُجَھِّزُ جَیْشِیْ وَ اَنَا فِی الصَّلٰوةِ‘‘ کہ میں نماز میں لشکر کشی کا انتظام کرتا ہوں۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ یہ بھی دین کا کام تھا اور ضروری تھا اور ’’ذِکْرُ اللہِ وَ مَا وَالَاہُ‘‘ میں داخل تھا اور کثرتِ مشاغل کی وجہ سے خارج نماز اوقات بعض دفعہ اس کے لئے کافی نہ ہوتے تھے۔ اور نماز میں یکسوئی ہوتی ہے اور تدبیر و انتظام کا کام محتاجِ یکسوئی تھا اس لئے حضرت عمرؓ نماز میں بضرورت بِإذنِ حق یہ کام کر لیتے تھے اور اس لئے منافیٔ خلوت و خشوع نہ تھا۔
نفع متعدی کی شرط استعدادِ سیاست و تدبیر بھی ہے:
ارشاد: نفعٔ متعدی کی اجازت شیخ اس وقت دیتا ہے کہ جب سیاست و تدبیر کا ملکہ بھی مرید میں دیکھ لیتا ہے، کیونکہ امر بالمعروف کے کچھ آداب ہیں جن کے قابل ہر ایک نہیں ہوتا اور جن کے بغیر امر بالعروف بجائے مفید ہونے کے موجب فتنہ و فساد ہو جاتا ہے۔
تعلّق مع اللہ اصل مقصود ہے اور مرجوعین خلائق کے لئے دستور العمل:
ارشاد: تعلّق مع اللہ اصل مقصود ہے تو ہم کو زیادہ اہتمام اس کا کرنا چاہئے اور جن کی طرف مخلوق کا رجوع ہو خواہ دین کی غرض سے یا دنیوی غرض سے ان کو تعلّق مع الخلق کا وقت منضبط کرنا چاہئے اور باقی وقت خدا کی یاد میں صرف کریں۔ خصوصاً وہ لوگ جن کو خدا تعالیٰ نے ملازمت وغیرہ سے مستغنیٰ کیا ہے۔ جن کے گھر میں کھانے پینے کا سامان موجود ہے ان کو اس کا اہتمام زیادہ کرنا چاہئے کیونکہ ان کو دوسروں سے زیادہ ذکرِ حق کا موقع مل رہا ہے۔
خوشا روز گارے کہ دارد کسے
کہ بازار حرصش نباشد بسے
بقدرِ ضرورت یسارے بود
کند کارے از مرد کارے بود
مرید کو شیخ کے خانگی معاملات میں نہ پڑنا چاہئے:
ارشاد: مشائخ کی وصیت ہے کہ مرید کو شیخ کے خانگی معاملات میں نہ گھسنا چاہئے کیونکہ جو شخص کسی کے خانگی معاملات سے واقف اور ان میں دخیل ہوتا ہے اس کے قلب سے دوسرے کی عظمت کم ہو جاتی ہے۔ اور مشائخ کو یہی مناسب ہے کہ مریدوں کو اپنے خانگی معاملات پر مطلع یا ان میں دخیل نہ کرے کہ اس سے تمام طبائع کو بجائے نفع کے ضرر ہوتا ہے۔
معالجۂ نفس میں تسہیل کا طریقہ بتلانا شیخ کے ذمہ نہیں:
ارشاد: طریق تسہیل کا بتلانا مُصلح کے ذمہ نہیں اگر بتلا دے تو محض تبرُّع ہے، سو طالب کو اپنے مُصلح سے اس کے مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں اور طالبین کثرت سے اس مسئلہ میں غلطی کرتے ہیں کہ معالجۂ اختیاری میں مشقت سے گبھراتے ہیں اور شیخ سے ایسی تدبیر کی درخواست کرتے ہیں جس میں مشقت نہ ہو۔ مثلاً شیخ نے کہا کہ باوجود تقاضا کے اپنی نظر کو روکو مگر اس پر اصرار کرتے ہیں کہ ایسی تدبیر بتلائی جائے کہ نفس میں تقاضا ہی نہ ہو، حالانکہ تقاضائے شدید نہ ہونا یہ خود موقوف ہے عملِ مدید پر تو عمل کو اس پر موقوف رکھنا دور کو جائز رکھنا ہے۔
تعلیمِ اقتصار بر ضروریات واقعیہ:
ارشاد: سالک بلکہ ہر مکلّف کو چاہئے کہ اپنی نظر کو ہر چیز میں صرف حاجت روائی کے درجہ تک مقتصر رکھے اور تزئین اور لذّت کے درپے نہ ہو، کیونکہ لذّت کی کوئی حد نہیں۔ سو جو اس کے درپے ہو گا اس کو کبھی تشویش سے نجات نہ ہو گی اور جو شخص حاجت پر کفایت کرے گا جس وقت حاجت پوری ہوجائے گی اس کو سکون ہو جائے گا۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ جب تم میں کوئی شخص کسی حسین عورت کو دیکھے اور وہ اس کو اچھی طرح معلوم ہو تو اس کو چاہئے کہ اپنی بی بی کے پاس چلا آوے یعنی اس سے ہمبستری کرے۔ اس لئے کی شرم گاہ دونوں کی جگہ ایک ہی سی ہے اور بیوی کے پاس بھی ویسی ہی چیز ہے جیسی اس اجنبی عورت کے پاس ہے۔ نیز اس حدیث میں معالجۂ نفس کو سہل کرنے کا طریقہ بھی بتلایا گیا ہے جو دلیل ہے رسول مقبول ﷺ کے کمال شفقت کی، ورنہ اصل علاج تو کفِّ نفس وغَضِّ بَصَر تھا۔
مبتدی کو اغیار سے اخفائے حال چاہئے:
ارشاد: مبتدی سالک کو اپنی کوئی حالت یا خواب بجز شیخ کے کسی معتمد یا غیر معتمد سے ہرگز بیان نہ کرنا چاہئے۔
اطاعت شیخ زینۂ کامیابی ہے:
ارشاد: اگر شیخ سے طریقِ تربیت میں غلطی بھی ہو جائے جس پر خواہ اس کو محبوبانہ عتاب بھی ہوجائے، لیکن پھر بھی مرید کو اس پر عمل کرنے سے نفع ہی ہو گا۔ کیونکہ نفع دینے والے تو حق تعالیٰ ہیں جب وہ طالب کی طلبِ صادق کو دیکھتے ہیں اور اس کو اپنے ولی کی اطاعت میں پختہ دیکھتے ہیں تو اس کے حال پر کرم فرما دیتے ہیں، چاہے شیخ سے غلطی ہی ہو۔ اس راستہ میں اطاعت و انقیاد بڑی چیز ہے، اطاعت شیخ کے ساتھ کسی کو محروم ہوتے ہوئے نہیں دیکھا اور خود رائی کے ساتھ کسی کو کامیاب ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔
فہم و خاطر تیز کردن نیست راہ
جو شکستہ می نگیر و فضل شاہ
حصولِ نسبت کو اصطلاح میں تکمیل کہتے ہیں:
ارشاد: حصولِ نسبت جس کو اصطلاح میں ’’تکمیل‘‘ کہتے ہیں۔ اسکو ’’تکمیل‘‘ کہنا ایسا ہے جیسے طلبہ کی دستار بندی کو ’’تکمیل‘‘ کہتے ہیں، کیا دستار بندی کے بعد سیر علمی ختم ہوجاتی ہے؟ ہرگز نہیں، بلکہ اب تو پہلے سے زیادہ سیر شروع ہوتی ہے۔ بلکہ کہنا چاہئے کہ راستہ تو اب کھلا ہے اور صحیح سیر تو اب ہو گی۔
اصطلاح میں جذب کے معنیٰ اور اس کی علامت:
ارشاد: اصطلاح میں جذب یہ ہے کہ حق تعالیٰ کو اس سے محبت ہو جائے جس کی علامت یہ ہے کہ سالک پر داعیۂ اضطرار غالب ہو جائے اور اس سے کوئی واصل خالی نہیں ہوتا۔
شیخ صاحبِ تمکین کی علامت:
ارشاد: شیخ ساحل رسیدہ اور گرداب طے کردہ و گرگ باراں دیدہ یعنی صاحبِ تمکین کو راہبر بنانا چاہئے اور جو شیخ خود صاحبِ تلوین ہو اس سے الگ ہونا چاہئے (مراد اس سے وہ تلوین ہے جو قبل از تمکین ہو اور تمکین کے بعد بھی تلوین پیش آتی ہے مگر وہ مشیخیت میں قادح نہیں) اور علامت ایسے شیخ کی یہ ہے کہ اس کی دو ہی باتوں سے سالک کی تسلّی ہو جاتی ہے اور صاحبِ تلوین تو باتیں بہت بناتا ہے مگر سالک کی ان سے تسلّی نہیں ہوتی۔
عدم رجعت و اصل کی مثال:
ارشاد: وصول بدونِ جذب کے نہیں ہوتا اور وصول کے بعد اندیشۂ ارتداد و رجعت کا نہیں رہتا۔ مولانا رومی رحمة الله علیہ نے اس کی مثال یوں دی ہے کہ جیسے بالغ نابالغ نہیں ہوسکتا اور پکا ہوا پھل کچا نہیں ہو سکتا۔
بالغ کی شناخت:
ارشاد: طبّی بالغ وہ ہے جس سے منی نکلے اور حقیقی بالغ وہ ہے جو منی سے نکل جائے یعنی خودی و کبر سے۔
وصول کا طریق:
ارشاد: دو چیزیں ہیں ان ہی میں لگنے سے سالک کا کام بنتا ہے اور جو بھی پہنچا ہے ان ہی سے پہنچا ہے، وہ باتیں یہ ہیں: ذکر اور اطاعت۔ مگر ان کا طریقہ کسی محقّق سے دریافت کرو اپنی رائے سے تجویز نہ کرو، باقی کیفیات و احوال کے درپے نہ ہو، وہ سب ان ہی دو کی باندیاں ہیں۔
بجائے کتابوں کے مطالعہ کے شیخ کا مطالعہ کرنا چاہئے:
ارشاد: جب تک محقّق مل سکے اس وقت تک کتاب سے سلوک طے نہ کرو۔ کتابیں بھی مفید ہیں مگر وہ شیخ کے لئے ہیں، مرید کو ان کتابوں کا مطالعہ مفید نہیں، اور ان کو مطالعہ کر کے شیخ سے معارضہ کرنا سمِ قاتل ہے، تمہاری کتاب تو انسان کامل یعنی شیخ ہے، تم کو جو مشکل حل کرنا ہو اسی کے مطالعہ سے حل کرو، ہاں اگر کسی کو شیخ محقّق نہ ملے تو پھر کتابوں کا مطالعہ کرو۔ مگر ان کتابوں کا جن میں علوم معاملہ کا بیان و اصلاحِ نفس کے طریق مذکور ہوں۔ اور جن کتابوں میں علوم مُکاشفہ اور اسرار ہوں ۔ ان کو ہرگز نہ دیکھا جائے۔
تحصیلِ جذب کا طریق:
ارشاد: طلب کے ساتھ ساتھ عجز و عبدیت کے اظہار سے جذب ہوتا ہے جیسے ہم کسی بچہ کو دور سے دیکھ کر ہاتھ پھیلا دیں کہ ہماری گود میں آجا اور وہ شوق میں دوڑے اور دو قدم دوڑ کر گر پڑے اس وقت ہم دوڑ کر اس کو اٹھا لیتے ہیں۔ اور اگر وہ چلے بھی نہیں تو ہم بھی نہیں لیتے۔ بس یہاں اس کی ضرورت ہے کہ تم اس طویل راستے کے طے کرنے کا قصد کر کے چلو اور گِر پڑو (یعنی عجز و عبدیت کا اظہار کرو) پھر حق تعالیٰ خود تم کو اٹھا کر منزل پر پہنچا دیں گے۔
وصول کی حقیقت اور اس کا طریقۂ حصول:
ارشاد: اپنے اوپر نظر کرنا چھوڑ دو اپنے کو نیست و نابود سمجھو، تکبّر کو دماغ سے نکال دو، حق تعالیٰ کے احکام میں منازعت نہ کرو بس واصل ہو گئے۔ اور تجربہ و مشاہدہ ہے کہ خودی وہ خود بینی محبت ہی سے نکلی ہے اس کے بغیر بہت کم نکلتی ہے۔ اسی لئے عراقی طریق محبت کی تمنا کرتے ہیں۔
صنما رہ قلندر سردار بمن نمائی
کہ دراز دور بینم رہ و رسم پارسائی
نفس کو رام کرنے اور سزا دینے کا طریقہ:
ارشاد: نفس کے ساتھ بچوں سا معاملہ کرو کہ بچوں سے جب کوئی کام لینا ہوتا ہے تو اوّل اس کو مٹھائی وغیرہ دے کر بہلاتے ہیں، اگر اس سے بھی نہ مانے تو دھمکی سے کامل لیتے ہیں اگر اس سے بھی نہ مانے تو بس دے چپت اسی طرح تم بھی نفس کے حظوظ پورا نہ کرو۔ باقی حقوق ادا کرتے رہو، خوب کھلاؤ، پلاؤ، اچھی طرح کام لو، کہ "مزدور خوش دل کند کار بیش" ہاں کسی طرح باز نہ آئے تو اب سزا دو مگر خود سزا نہ دو بلکہ کسی کے (یعنی شیخ کے) حوالہ کر دو۔ وہ مناسب سزا تجویز کرے گا۔ ورنہ جو لڑکا اپنے ہاتھ پر اپنے چپت مارے گا وہ تو آہستہ مارے گا اور محقّق سزا کافی دے گا مگر حقوق نہ تلف کرے گا۔