حصہ 1 باب 1 ملفوظ 1: حقیقت طریقت

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ


باب اول

تعلیمات:

اس باب میں وہ علوم و مسائل ہیں جن سے طریق میں معتد بہ بصیرت حاصل ہوتی ہے۔

حقیقت طریقت:

ارشاد: اس طریق کے متعلق چند ضروری امور مثل اصول موضوعہ کے ہیں اگر تحقیقاً یا تقلیداً ان کا اعتقاد اور ان پر عمل رکھا جائے تو ہمیشہ کی پریشانی اور غلط فہمی و کج روی سے بچ جائے۔

اول: ہر مطلوب میں کچھ مبادی ہوتے ہیں، کچھ مقاصد، کچھ زوائد و توابع، اصل مقاصد ہوتے ہیں اور مبادی اس سے مقدم مگر مقصود بالعرض اور زوائد اس سے مؤخر مگر غیر مقصود، اسی طرح اس طریقہ میں بھی بعض مبادی ہیں اور وہ چند علوم و مسائل ہیں جو موقوف علیہ ہیں بصیرت فی المقصود کے اور بعض مقاصد ہیں کہ وہی مقصود بالتحصیل ہیں اور ان ہی پر مدار ہے کامیابی اور ناکامی کا اور بعض زوائد ہیں کہ ان کا نہ وجود معیار کامیابی ہے نہ فقدان معیار ناکامی۔

ثانی: منجملہ مبادی کے امر اوّل مذکورہ بالا ہے۔ غالباً اعظم المبادی و اجمع المبادی ہے اور دوسرے مبادی پر اثنائے سلوک میں وقتاً فوقتاً تنبیہ و اطلاع کی جاتی رہتی ہے اور مقاصد اعمالِ خاصہ ہیں جو افعال اختیاریہ ہیں۔ جن میں ایک حصہ اعمالِ صالحہ متعلق بجوارح ہیں جن کو سب جانتے ہیں۔ جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰة و دیگر طاعات واجبہ و مندوبہ اور دوسرا حصہ اعمال صالحہ متعلق بقلب و نفس ہیں۔ مثل اخلاص و تواضع و حُبّ حق و شکر و صبر و رضا و تفویض و توکل و خوف و رجاء وامثالہا اور ان کے اضداد کا ازالہ اور ان کے اعمال اختیاریہ کو مقامات کہتے ہیں۔ اور یہی نصوص میں مامور بالتحصیل ہیں اور ان کے اضداد مامور بالازالہ و الردع۔ اور ان اعمال کی غایت تعلق بحق (یعنی نسبت، و رضائے حق) ہے کہ روح اعظم سلوک کی یہی ہے اور زوائد احوال خاصہ ہیں مثل ذوق و شوق و قبض و بسط و صحو و سکر و غیبت و وجد و استغراق و اشباہہا۔ اور یہ امور غیر اختیاریہ ہیں، اعمال مذکورہ پر ان کا اکثر ترتب ہوتا ہے اور گاہ نہیں ہوتا یہ احوال نہ مامور بہا ہیں اور نہ ان کے اضداد مامور بالازالہ۔ اگر ترتب ہو جائے محمود ہے اگر نہ ہو تو مقصود میں کچھ خلل نہیں اسی لیے کہا گیا ہے: ﴿اَلْمَقَامَاتُ مُکَاسَبٌ وَ الْاَحْوَالُ مَوَاھِبُ پس خلاصہ یہ ہوا کہ طریقہ میں تین امر مبحوث عنہ ہیں۔

"علوم" جن سے مقصود میں بصیرت ہوتی ہے۔ اور "اعمال" جو کہ مقصود ہیں اور ان ہی کا اہتمام ضروری ہے۔اور "احوال" جو کہ مقصود نہیں گو محمود ہیں، ان کے درپے ہر گز نہ ہونا چاہیے۔

ثالث: یہ قواعد کلیہ ہیں باقی جزئیات کا ان پر انطباق ہوتا ہے، اس میں ابتداً شیخ کی ضرورت ہے کہ اس کا درجہ طبیب کا سا ہے اور طالب کا درجہ مریض کا سا۔ طبیب سے اپنا حال کہا جاتا ہے وہ نسخہ تجویز کرتا ہے اس کا استعمال کر کے اس کو اطلاع دی جاتی ہے وہ پھر جو رائے دیتا ہے اس پر عمل ہوتا ہے اسی طرح سلسلہ جاری رہتا ہے تا حصولِ صحت۔ اسی طرح سلوک میں بھی دو امر ہیں اطلاع اور اتباع تا حصولِ مقصد، یعنی رسوخ نسبت بحق۔

روحِ سلوک:

مقصود طلب ہے وصول مقصود نہیں۔

ارشاد: اہل طریق کے یہاں یہ مقرر ہے کہ طلب مقصود ہے وصول مقصود نہیں۔ شرح اس کی یہ ہے کہ مقصود کے حصول کا قلب میں تقاضہ نہ رکھے کہ یہ بھی حجاب ہے کیونکہ اس تقاضے سے تشویش ہوتی ہے اور تشویش برہم زن جمیعت و تفویض ہے اور جمیعت و تفویض ہی شرط وصول ہے اس کو خوب راسخ کرلیا جائے کہ روح سلوک ہے ﴿وَ ھُوَ مِنْ خَصَائِصِ الْمَوَاھِبِ الْاِمْدَادِیَۃِ قَلَّمَاتَنَبَّہَ لَہٗ شَیْخٌ مِنْ مَشَائِخِ الْوَقْتِ﴾۔

مجاہدہ کی حقیقت:

ارشاد: مجاہدہ کی حقیقت یہ ہے کہ معاصی کو تو مطلقاً ترک کرے اور یہ نفس کی مخالفت واجب ہے اور مباحات میں تقلیلاً مخالفت کرے اور یہ مخالفت مستحب ہے مگر ایسا مستحب ہے کہ مخالفت واجبہ کا حصول کامل اس مخالفت مستحبہ پر موقوف ہے جیسے بہت سونا، بہت کھانا، بہت عمدہ کپڑے پہننا، بہت باتیں کرنا، لوگوں سے زیادہ ملنا ملانا، سو ان میں تقلیل کرے۔

مجاہدہ اختیاریہ و اضطراریہ کا فرق اور دونوں کی ضرورت:

ارشاد: مجاہدہ اختیاریہ میں تو فعل کا غلبہ ہے اس لیے اس میں انوار زیادہ ہوتے ہیں کیونکہ انوار کا ترتب عمل پر ہوتا ہے اور مجاہدہ اضطراریہ میں فعل کم ہوتا ہے اس میں نورانیت کم ہوتی ہے۔ لیکن انفعال کا غلبہ ہوتا ہے اس سے قابلیت میں قوت بڑھتی ہے اور اس انفعال و قابلیت کی خود اعمال اختیاریہ کے راسخ ہونے کے لیے سخت ضرورت ہے اسی لیے بزرگوں نے ایسے مجاہدات بہت زیادہ کرائے ہیں۔

مجاہدہ اضطراریہ کا نفع:

تہذیب: مجاہدۂ اضطراریہ سے عمل میں قلت بھی ہو جائے اور محض فرائض و واجبات ہی پر اکتفا ہوتا رہے تب بھی مجاہدہ کاملہ کا ثواب ملتا ہے۔

مجاہدہ کی دو قسمیں:

ارشاد: مجاہدہ کی دو قسمیں ہیں، مجاہدہ حقیقیہ یعنی ارتکاب اعمال و اجتناب عن المعاصی۔ مجاہدہ حکمیہ یعنی ان مباحات کو ترک کرنا جو معاصی کی طرف مفضی ہیں۔

طریق الوصول الی اللہ بعدد انفاس الخلائق:

ارشاد: ﴿طَرِیْقُ الوُصُوْلِ اِلَی اللہِ بِعَدِدِ اَنْفَاسِ الَخَلائِقِ جس طرح وصول کی ایک صورت یہ ہے کہ حرم میں نماز پڑھو، یہ بھی ایک صورت ہے کہ کسی عذر سے گھر میں نماز پڑھو اور حرم کو ترستے رہو۔

عطر تصوف:

ارشاد: (1) اختیاری امور میں کوتاہی کا علاج بجز ہمّت اور استعمال اختیار کے کچھ نہیں اسی پر مدار ہے تمام اصلاحات کا اور یہی ہے اصل علاج تمام کوتاہیوں کا سارے افعال شرعیہ اختیاری ہیں ورنہ نصوص کی تکذیب لازم آتی ہے پس اختیار کا استعمال کرے گا تو کامیابی لازم ہے البتہ دشواری اور کلفت اول اول ضرور ہو گی۔ لیکن اس کا علاج بھی یہی ہے کہ باوجود کلفت کے ہمت سے اور اختیار سے برابر بہ تکلف کام لیتا رہے رفتہ رفتہ وہ کلفت مبدل بسہولت ہو جائے گی۔ سارے مجاہدے بس اسی لیے کیے جاتے ہیں کہ اختیار اوامر اور اجتناب نواہی میں سہولت پیدا ہو جائے۔ اور اوّل اوّل تو ہر کام مشکل ہوتا ہے مگر کرتے کرتے مشق ہو جاتی ہے اور پھر نہایت سہولت کے ساتھ ہونے لگتا ہے، جیسے حفظ کا سبق شروع میں دشوار ہوتا ہے مگر رٹتے رٹتے یاد ہو جاتا ہے اگر شروع کی کلفت اور تعب کو دیکھ کر ہمّت ہار دی تو پھر کوئی صورت ہی کامیابی کی نہیں۔

مسئلہ اختیار:

(2) مسئلہ اختیار کا اس قدر ظاہر ہے ہر شخص اپنے اندر صفت اختیار کو وجداناً اور طبعاً محسوس کرتا ہے چنانچہ جب وہ کوئی ناشائستہ حرکت کرتا ہے تو خجلت ہوتی ہے اگر وہ اپنے کو مجبور سمجھتا تو خجلت کیوں ہوتی۔ انسان تو انسان جانوروں تک کو اس اختیار کا ادراک ہوتا ہے۔ دیکھیے اگر کسی کتے کو لکڑی ماری جائے تو مارنے والے پر حملہ کرتا ہے نہ کہ لکڑی پر۔ اس کو بھی یہ امتیاز ہوتا ہے کہ کون مختار ہے اور کون مجبور۔ حضرت مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ نے نہایت سادہ اور سہل عنوان سے اس مسئلہ جبر و اختیار کو بیان فرمایا ہے۔

زارئی ما شد دلیل اضطرار

خجلت ما شد دلیل اختیار

غرض نہ خالص جبر ہے نہ خالص اختیار ہے۔ اختیار خالص نہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ وہ ماتحت ہے اختیار حق کے، مستقل اختیار نہیں ہے۔ غرض کہ سالک جب تک صفت اختیار کو استعمال نہ کرے گا۔ اصلاح ممکن نہ ہو گی، مثلًا کسی میں بخل ہے تو نرے ذکر و شغل یا شیخ کی دعا و توجہ و برکت سے یہ رذیلہ ہرگز زائل نہ ہو گا۔ بلکہ نفس کی مقاومت ہی سے زائل ہو گا گو ذکر و شغل وغیرہ معین ضرور ہو جائیں گے مگر کافی ہرگز نہیں ہو سکتے اس طریقہ میں تو کام ہی سے کام چلتا ہے نری تمناؤں یا نری دعاؤں سے کچھ نہیں ہوتا۔

کار کن کار بگذر از گفتار

کاندریں راہ کار باید کار

تصرف اور ہمت و اعمال کے اثر کا فرق:

(3) اگرچہ خیال ہو کہ بعض بزرگ کی توجہ سے بڑے بڑے بدکاروں کی خود بخود اصلاح ہو گئی ہے تو یہ ایک قسم کا تصرف ہے اور ایسا تصرف نہ اختیاری ہے نہ بزرگی کے لیے لازم ہے بہت سے بزرگوں میں تصرف مطلق نہیں ہوتا، نیز تصرف کے اثر کو بقاء نہیں ہوتا۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ کوئی شخص تنور کے پاس بیٹھ گیا تو جب تک وہاں بیٹھا ہوا ہے تمام بدن گرم ہے۔ مگر جیسے ہی وہاں سے ہٹا پھر ٹھنڈا کا ٹھنڈا۔ بخلاف اس کے جو ہمت اور اعمال کے ذریعہ سے اثر ہوتا ہے وہ باقی رہتا ہے اور اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے کشتہ طلا کھلا کر اپنے اندر حرارت غریزی پیدا کرلی ہو تو اگر وہ شملہ پہاڑ بھی چلا جائے گا تب بھی وہ حرارت بدستور باقی رہے گی۔

صفات رذیلہ کا مادہ تو جبلی ہوتا ہے مگر فعل اختیار میں ہے:

(4) اگر یہ شبہ ہو کہ جبلت تو کسی کی تبدیل نہیں ہو سکتی پھر جبلی صفات رذیلہ کی اصلاح کیوں کر ہو سکتی ہے؟ تو خوب سمجھ لو کہ مادہ جبلی ہوتا ہے مگر فعل اختیار میں ہے پس مادہ بیشک زائل نہیں ہوتا مگر اس کے مقتضا پر عمل کرنا، نہ کرنا اختیار میں ہے اور اسی کا انسان مکلّف ہے اور بار بار اس مقتضاء کی مخالفت کرنے سے وہ مادہ بھی ضعیف ہو جاتا ہے۔

شیخ کی دعا و برکت کا درجہ اعانت کا ہے نہ کہ کفایت کا:

(5) شیخ کی دعا اور برکت کو بھی بڑا دخل ہے اصلاح میں، لیکن اس کا درجہ محض ’’اعانت‘‘ کا ہے نہ کہ ’’کفایت‘‘ کا۔ جیسے عرق سونف کا مرتبہ مسہل میں، کہ محض عرق سونف بلا مسہل کے کار آمد نہیں یا طبیب اور مریض کی مثال لے لو اگر مریض دوا نہ پیے تو محض طبیب کی شفقت و توجہ سے مریض ہرگز اچھا نہ ہو گا۔ یا استاد و شاگرد کی مثال لو کہ محض استاد کی توجہ سے سبق یاد نہیں ہوتا بلکہ شاگرد کے یاد کرنے سے ہی یاد ہو گا۔ شیخ کا اصل کام تو صرف راستہ بتانا ہے باقی راستہ کا قطع کرنا تو سالک ہی کا کام ہے جیسے اندھے کو سوانکھا راہ بتاتا ہے، گود میں اٹھا کر اس کو نہیں لے جاتا راستہ تو خود اس کے چلنے ہی سے قطع ہو گا۔

استحضار و ہمت کا نسخہ اصلاح کے لیے اکسیر ہے:

(6) اخلاص و ہمت خلاصہ تصوف ہیں ان دونوں میں بھی اصل چیز ہمت ہے کیونکہ اخلاص پیدا کرنے کے لیے بھی ہمت کی ضرورت ہو گی اور ہمت کا معین استحضار ہے اور استحضار کی صورتیں مختلف ہیں جو صورت شیخ تجویز کردے اس پر عمل کرے، مثلًا ہر کوتاہی پر دس رکعت یا کم و بیش نفل بطور جرمانہ ادا کرنا تاکہ جب دوسرا موقع کوتاہی کا پیش آئے تو جرمانہ کے خوف سے استحضار کی کیفیت پیدا ہو جائے اور جب استحضار ہو جائے فوراً ہمت سے کام لے اور تقاضائے نفس کو مغلوب کرے اگر استحضار اور ہمت سے کام لے گا تو انشاء اللہ کوتاہیوں سے محفوظ رہے گا اور رفتہ رفتہ اصلاح ہو جائے گی اور ہر روز مطالعہ ’’نزھۃ البساتین‘‘ سے بھی قوت استحضار و ہمت کو پہنچتی ہے۔

جو گُر حضرت نے فرمایا ہے استحضار و ہمت کا

سراسر نسخۂ اکسیر ہے اصلاحِ امت کا

حال کی دو قسمیں ہیں:

(7) تصوف میں رسوخ اعمال اختیاریہ مطلوب ہے نیز مامور بہ محبت عقلی ہے نہ کہ طبعی۔ حال کے دو معنی ہیں۔ ایک تو کیفیت غیر اختیاریہ، دوسرے رسوخ اعمال اختیاریہ۔ دوسرے معنی میں حال کا ترتب لازم ہے کیونکہ وہ موعود ہے۔ ﴿فَفِی الْحَدِیْثِ: کَذَالِکَ الْاِیْمَانُ اِذَا خَالَطَہٗ بَشَاشَۃُ الْقُلُوْبِ﴾، ﴿وَ فِیْ کَلَامِ اللہِ: فَمَن يُرِدِ اللَّـهُ أَن يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ۔۔﴾ (الأنعام: 125) اور تصوف میں یہی حال مطلوب ہے۔ جب کوئی شخص اعمال صالح بہ تکلف اختیار کرتا ہے رفتہ رفتہ ان اعمال میں سہولت ہونے لگتی ہے اور کیفیت راسخہ پیدا ہو جاتی ہے اور گو یہ کیفیت صالحہ مثلًا محبت حق تعالیٰ کے ساتھ پیدا کرنا واجب ہے کیونکہ نصوص میں اس کی تحصیل کا امر ہے بخلاف شوق و ذوق کے اس کی تحصیل کا کہیں بھی امر نہیں۔ جس محبت کی تحصیل مامور بہ ہے وہ عقلی ہے اور محبت عقلی اختیاری ہے بخلاف محبت طبعی کہ وہ غیر اختیاری ہے اس لیے مامور بہ بھی نہیں ہے۔

طریقہ حصول یقین:

(8) اول بہ تکلف عمل کرنا چاہیے۔ اس کی برکت سے یقین پیدا ہو جاتا ہے۔ اور کوئی طریقہ حصول یقین کا نہیں۔

عقل و ایمان بڑی دولت ہے:

(9) کسی حال کا طاری ہونا اور چندے جاری رہنا یہ بھی بڑی دولت ہے۔ ہمیشہ رہنے کی چیز تو صرف عقل و ایمان ہے۔ باقی سب میں آمد و رفت رہتی ہے۔

حصول نسبت کی ترتیب و حقیقت:

(10) حصول نسبت کی ترتیب اور حقیقت یہ ہے کہ اول بہ تکلف اعمال ظاہرہ و باطنہ کی اصلاح کرے بالخصوص اعمال باطنہ کی اصلاح زیادہ اہم اور دشوار ہے جب اعمال صالحہ ظاہرہ و باطنہ پر ایک معتد بہ مدت تک مواظبت رہتی ہے تو رفتہ رفتہ ان اعمال میں سہولت پیدا ہونے لگتی ہے۔ اور ایک کیفیت راسخہ پیدا ہو جاتی ہے۔ اس میں سہولت کے لیے عام مراقبات، ریاضات، مجاہدات اذکار و اشغال مقرر کیے گیے ہیں۔ باقی اصل چیز اصلاح اعمال ظاہرہ و باطنہ ہی ہے۔ جس پر نسبت حقیقی مرتب ہوتی ہے جب بندہ اعمال صالحہ ظاہرہ و باطنہ پر مداومت کرتا ہے تو حق تعالیٰ کو اس کے ساتھ رضائے دائمی کا تعلق پیدا ہو جاتا ہے اور یہی حقیقت ہے نسبت مع اللہ کی۔ اور صرف ذکر دائم یا دوام حضور یا ملکۂ یاد داشت جس کو کہتے ہیں وہ نسبت کی حقیقت نہیں۔ البتہ حصول نسبت میں معین بہت ہے، کیونکہ جس کو ہر وقت حق تعالیٰ کا دھیان رہتا ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہونا مستعبد ہے۔ یہ تو نسبت کی حقیقت ہے حق تعالیٰ کو بندہ کے ساتھ ایک خاص تعلق رضا کا ہو جانا جس کا خاصہ ایک خاص انجذاب ہے جس کے لوازم میں سہولت اطاعت اور حضور دائم ہے اور یہ محض موہوب ہے کیونکہ کسی عمل صالح میں یہ قابلیت نہیں ہے کہ وہ رضائے الٰہی کے حصول کے لیے کافی ہو گا گو عادۃ اللہ یہ ہے کہ محض اپنے فضل سے اپنی رضا کو اعمال صالحہ پر مرتب فرما دیتے ہیں۔ جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہے کہ کوئی شخص اپنے اعمال کی وجہ سے جنت میں نہ جائے گا، بلکہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے جائے گا۔(صحیح مسلم حدیث نمبر: 7121)۔ اور یہ نسبت مع اللہ عادۃ پھر کبھی زائل نہیں ہوتی۔ جیسے بلوغ ہونے کے بعد صفت بلوغ کبھی زائل نہیں ہوتی۔ اس مسئلہ کو صوفیہ نے بعنوان فنا تعبیر کر کے فرمایا ہے کہ ﴿اَلْفَانِیْ لَا یُرَدُّ﴾ یعنی فانی و واصل کبھی مردود نہیں ہوتا۔ اگر یہ شبہہ ہو کہ بعد وصول و حصول نسبت کے بھی تو معاصی کا صدور ہو سکتا ہے بلکہ ہوتا ہے پھر رضائے دائمی کا تحقق کہاں رہا؟ تو سمجھیے کہ گہری دوستی کے بعد یہ ضروری نہیں کہ کبھی باہم شکرنجی بھی نہ ہو گاہے گاہے شکرنجی بھی ہو جاتی ہے لیکن تدارک کے بعد پھر ویسا ہی تعلق ہو جاتا ہے، بلکہ دراصل اس خفگی کے زمانہ میں بھی دوستی کا تعلق بدستور قائم رہتا ہے وہ زائل نہیں ہوتا۔ شکرنجی محض عارضی ہوتی ہے۔ مثلًا تکمیل صحت کے لیے ضروری نہیں کہ اس حالت میں کبھی زکام بھی نہ ہو یا کبھی اگر بد پرہیزی کر لے مثلًا گڑ کھا لے تو اسے نقصان نہ ہو بد پرہیزی سے نقصان ضرور ہو گا۔ لیکن محض عارضی تدارک کے بعد پھر وہی حالت غالبہ صحت کی عود کر آئے گی یا مثلًا درسیات کے فراغ کے بعد یہ ضروری نہیں کہ کبھی کسی مقام پر اٹکے ہی نہیں۔ کہیں کہیں بعد فراغ بھی اٹکتا ہے لیکن ذرا توجہ سے پھر چل نکلتا ہے۔

نسبت کے تحقق کے لیے رضائے تام شرط ہے:

نسبت متحقق ہوتی ہے کامل رضائے حق پر نہ کہ مطلق رضائے حق پر کیونکہ رضا تو ہر فعل حسن پر مرتب ہوتی ہے چنانچہ اگر کوئی شخص زنا کرے اس کے بعد نماز بھی پڑھے تو گو زنا پر ناراضی مرتب ہو گی لیکن نماز پر رضا بھی مرتب ہو گی افعال قبیحہ و حسنہ پر اپنی اپنی جگہ برابر ناراضی اور رضا مرتب ہو گی لیکن نسبت کے تحقق کے لیے رضائے تام شرط ہے، رضائے ناتمام کی بالکل ایسی مثال ہے جیسے مرض کی حالت میں عارضی افاقہ ہو جائے گو وہ بھی بسا غنیمت ہے۔

اتباع سنت کو خاص دخل ہے انجذاب میں:

(11) ہمارے حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلہ میں بہت ہی جلد نفع شروع ہو جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں بطریق جذب نفع پہنچتا ہے نہ بطریق سلوک اور اس جذب کی وجہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں اتباع سنت کا بڑا اہتمام ہے جب حق تعالیٰ کے محبوب کا اتباع کیا جاتا ہے تو محبوب کا اتباع کرنے والا بھی محبوب ہو جاتا ہے اور جب محبوب ہو جاتا ہے تو محبوب کا خاصہ ہے انجذاب حق تعالیٰ فوراً اس کو اپنی طرف منجذب فرما لیتے ہیں۔ چنانچہ حق تعالی کا ارشاد ہے۔ ﴿قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ﴾ (آل عمران: ٣١)

ارشاد: امور اختیاریہ کے اختیاری ہونے کا مبنیٰ یہ ہے کہ اس کا سبب انسان کے اختیار میں ہے۔ باقی یہ ہے کہ مسبب راہ راست اختیار میں ہو سو یہ کسی امر میں بھی نہیں۔ پس جنت و مغفرت اختیاری ہے کیونکہ اس کے اسباب اختیاری ہیں۔

نسبت کی حقیقت:

ارشاد: نسبت کے لغوی معنی ہیں لگاؤ اور تعلق اور اصطلاحی معنی ہیں بندہ کا حق تعالیٰ سے خاص قسم کا تعلق یعنی قبول و رضا، جیسا عاشق مطیع و وفادار معشوق میں ہوتا ہے۔

صاحب نسبت ہونے کی علامت:

ارشاد: صاحب نسبت ہونے کی علامت یہ ہے کہ اس شخص کی صحبت میں رغبت الی الآخرت اور نفرت عن الدنیا کا اثر ہو۔ اور اس کی طرف دینداروں کو زیادہ توجہ اور دنیا داروں کو کم، مگر یہ پہچان خصوص اس کا جزو اول عوام محجوبین کو کم ہوتی ہے اہل طریق کو زیادہ ہوتی ہے۔

سوال:

فاسق اور کافر صاحبِ نسبت ہوتا ہے یا نہیں۔

فاسق یا کافر صاحب نسبت نہیں ہو سکتا:

ارشاد: جب نسبت کے معنی اوپر معلوم ہو گیے تو ظاہر ہو گیا کہ فاسق و کافر صاحب نسبت نہیں ہو سکتا بعض لوگ غلطی سے نسبت کے معنی خاص کیفیات کو (جو ثمرہ ہوتا ہے ریاضت اور مجاہدہ کا) سمجھتے ہیں یہ کیفیت ہر مرتاض میں ہو سکتی ہے مگر یہ اصطلاح جہلاء کی ہے۔

تعلق مع اللہ کا نتیجہ:

ارشاد: بس اللہ تعالی ہی سے تعلق رکھو اور کسی سے بالذات تعلق نہ رکھو۔ یہی خلاصہ ہے سارے سلوک کا اور جب اللہ تعالی کے سوا کسی شئے سے تعلق نہ ہو گا تو پھر کسی شئے کے فوت ہونے سے زیادہ قلق بھی نہ ہو گا۔

وصول کے معنی:

ارشاد: وصول کا حاصل صرف یہ ہے کہ حق تعالیٰ اس شخص پر شفقت اور عنایت فرماتے ہیں یہ معنی نہیں کہ وہ نعوذ باللہ حق تعالیٰ کی گود میں جا بیٹھتا ہے یا قطرے کی طرح دریا میں مل جاتا ہے۔

طلب مطلوب ہے نہ کہ وصول:

ارشاد: طلب مطلوب ہے، وصول مطلوب نہیں کیونکہ طلب تو اختیاری ہے اور وصول غیر اختیاری۔

تصوف کا خلاصہ صرف علم مع العمل ہے:

ارشاد: تصوف کوئی نئی چیز نہیں بلکہ یہی نماز روزہ تصوف ہے اور یہی اعمال مقصود ہیں مجاہدہ کی ضرورت صرف نماز روزہ کو نماز روزہ بنانے کے لیے ہے، تصوف کا خلاصہ صرف علم مع العمل ہے۔

سالک کے دو سفر ہیں ایک الی الاحوال دوسرا من الاحوال:

ارشاد: سالک کا ایک سفر تو الی الاحوال ہے کہ اس پر احوال طاری ہوتے ہیں اور دوسرا من الاحوال ہے جس میں وہ سب احوال سلب ہو جاتے ہیں پھر اس کے بعد دوسری نوع کے احوال عطا ہوتے ہیں اس کی ایسی مثال ہے جیسے باغ میں درختوں پر دو قسم کے پھول ہوتے ہیں ایک جھوٹا پھول ہوتا ہے وہ چند روز کے بعد جھڑ جاتا ہے پھر سچا پھول آتا ہے وہ باقی رہتا ہے اب اس پر پھل لگنے شروع ہوتے ہیں یا جیسے صبح صادق ہوتی ہے ایک کاذب جس کا نور جلدی زائل ہوجاتا ہے دوسری صادق جس کا نور بڑھتا ہے اسی طرح سالک پر دو حالتیں گزرتی ہیں ایک میں احوال ناقصہ عطا ہوتے ہیں اور دوسری میں ناقصہ سلب ہو کر احوال کاملہ عطا ہوتے ہیں۔ اب یہ شخص پختہ ہو گیا اب اس کو حق ہے کہ لذائذ بھی کھائے اور عمدہ لباس بھی پہنے کیونکہ یہ ہر شئے میں تجلی حق کا مشاہدہ کرتا اور اس کا حق بھی ادا کرتا ہے۔

انسان کا کمال تحصیل عدالت ہے:

ارشاد: حکماء کا اس پر اتفاق ہے کہ انسان کا کمال یہ ہے کہ قوت عقلیہ اور قوت شہویہ و قوت غضبیہ میں اعتدال کا درجہ حاصل کرے اگر اس میں افراط کا درجہ ہو یا تفریط کا تو یہ کمال نہیں بلکہ نقص ہے، قوت عقلیہ میں تفریط کا درجہ حماقت ہے اور افراط کا درجہ جزیرہ (بہت تیزی) اور درجۂ اعتدال کا نام حکمت ہے قوت شہویہ سے مراد وہ قوت ہے جو منافع کو حاصل کرنا چاہتی ہے اور قوت غضبیہ سے وہ قوت مراد ہے جو مضرتوں کو دفع کرنا چاہتی ہے، اسی طرح قوۃ غضبیہ میں درجہ افراط کا نام تہور ہے، تفریط کا نام جبن ہے، اعتدال کا نام شجاعت اور قوۃ شہویہ درجہ افراط کا نام فجور ہے اور تفریط کا نام محمود ہے اور درجہ اعتدال کا نام عفت ہے اور حکمت و شجاعت اور عفت تینوں کے مجموعہ کا نام عدالت ہے۔

انسان کا کام طلب و فکر و سعی ہے:

ارشاد: کمال کسی کے اختیار میں نہیں ہے اور نہ انسان اس کا مکلّف ہے۔ انسان کا کام طلب و فکر اور سعی ہے اگر طلب کے ساتھ ساری عمر بھی ناقص رہے تو وہ انشاء اللہ کاملین ہی کے برابر ہو گا۔ بلکہ ممکن ہے بعض باتوں میں ان سے بڑھ جائے یعنی مشقت کے ثواب میں کیونکہ کاملین کو نفس کی مخالفت گراں نہیں ہوتی اور دلیل اس کی یہ حدیث ہے۔

اس طریق میں فکر و دھن بڑی چیز ہے:

ارشاد: اس طریق میں فکر و دُھن بڑی چیز ہے اسی سے سب کام بن جاتے ہیں، چنانچہ حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ کو کسی نے خواب میں دیکھا پوچھا کیا حال گزرا؟ فرمایا کہ مغفرت ہوگئی درجات ملے مگر ہمارا پڑوسی تھا جو ہم سے کم عمل کرتا تھا۔ وہ ہم سے بڑھا ہوا رہا کیونکہ صاحب عیال تھا، بال بچوں کی پرورش میں اس کو زیادہ عمل کا موقع نہ ملتا تھا مگر وہ ہمیشہ اس دُھن میں رہتا تھا کہ اگر مجھے فراغت نصیب ہو تو یاد خدا میں مشغول ہو جاؤں وہ اپنی مشقت اور نیت کی وجہ سے ہم سے بڑھ گیا۔

﴿الیمُّ فی السَّم﴾:

طاعات میں ترقی اور معاصی سے اجتناب میسر ہونے کا طریق:

ارشاد: طاعت اور معصیت دونوں اختیاری ہیں جن میں وظیفہ کو کچھ دخل نہیں۔ رہا طریقہ، سو طریقہ امور اختیاریہ کا بجز استعمال اختیار کے اور کچھ نہیں۔ ہاں سہولت اختیار کے لیے ضرورت ہے مجاہدہ کی جس کی حقیقت ہے مخالفت یعنی مقاومتِ نفس، اس کو ہمیشہ عمل میں لانے سے بتدریج سہولت حاصل ہو جاتی ہے اس میں تمام فن آگیا۔ آگے شیخ کے دو کام رہ جاتے ہیں ایک بعض امراض نفسانیہ کی تشخیص۔ دوسرے بعض طرق مجاہدہ کی تجویز جو ان امراض کا علاج ہے۔

﴿الطمّ فی السَّمّ﴾:

ارشاد: غیر اختیاری کے درپے نہ ہونا، اختیاری میں ہمت کرنا اس میں جو کوتاہی ہو جائے اس پر استغفار اور توفیق کی دعا کرنا یہی اصلاح ہے۔