- اسلامی عقائد
عقائد
متفرق عقائد
- بندہ کے اختیار سے متعلق
- شریعت کے احکام سے متعلق
- صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے متعلق
- اہل بیت سے متعلق
- ولی،ولایت اور کرامت سے متعلق
- کافر کہنے یا لعنت کرنے سے متعلق
- قبر کے حالات سے متعلق
- ایصال ثواب سے متعلق
- گناہوں سے متعلق
- خاتمہ سے متعلق
- توبہ سے متعلق
بندہ کے اختیار سے متعلق
بندو ں کو اللہ تعالیٰ نے سمجھ اور ارادہ دیا ہے ۔ جس سے وہ گناہ اور ثواب کے کام اپنے اختیار سے کرتے ہیں ۔ مگر بندوں کو کسی کام کے پیدا کرنے کی قدرت نہیں ہے ۔ گناہ کے کام سے اللہ میاں ناراض اور ثواب کے کام سے خوش ہوتے ہیں ۔
شریعت کے احکام سے متعلق
اللہ تعالیٰ نے بندو ں کو ایسے کام کا حکم نہیں دیا جو بندوں سے نہ ہوسکے ۔ کوئی چیز خدا کے ذمہ ضرور ی نہیں ۔ وہ جو کچھ مہربانی کرے وہ اس کا فضل ہے ۔
صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے متعلق
ہمارے پیغمبر ﷺ کو جن جن مسلمانوں نے دیکھا ہے ان کو صحابی کہتے ہیں ۔ ان کی بڑی بڑی بزرگیاں آئی ہیں ۔ ان سب سے محبت اور اچھا گمان رکھنا چاہیے ۔ اگر ان کے آپس میں کوئی لڑائی جھگڑا سننے میں آئے تو اس کو بھول چوک سمجھے ۔ ان کی کوئی برائی نہ کریں ۔ ان سب میں سب سے بڑھ کر چار صحابی ہیں ۔ حضرت ابوبکر صدیق ،یہ رسول اللہ ﷺکے بعد ان کی جگہ پر تھے اور دین کا بندوبست کیا ، اس لئے وہ خلیفہ اول کہلاتے ہیں ۔ تمام امت میں یہ سب سے بہتر ہیں ۔ ان کے بعد حضرت عمر ہیں یہ دوسرے خلیفہ ہیں ۔ ان کے بعد حضرت عثمان ہیں یہ تیسرے خلیفہ ہیں ۔ ان کے بعد حضرت علی ہیں یہ چوتھے خلیفہ ہیں ۔ صحابی کا اتنا بڑا رتبہ ہے کہ بڑے سے بڑا ولی بھی ادنیٰ درجہ کے صحابی کے برابر نہیں پہنچ سکتا ۔
اہل بیت سے متعلق
پیغمبر صاحب کی اولاد اور بیبیاں سب تعظیم کے لائق ہیں ۔ اور اولاد میں سب سے بڑا رتبہ حضرت فاطمہ کا ہے ۔ اور بیبیوں میں حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ کا ہے ۔
ولی،ولایت اور کرامت سے متعلق
مسلمان جب خوب عبادت کرتا ہے اور گناہوں سے بچتا ہے اور دنیا سے محبت نہیں رکھتا اور پیغمبر صاحب کی ہر طرح تابعداری کرتا ہے تو وہ اللہ کا دوست اور پیارا ہوجاتا ہے ۔ ایسے شخص کو ولی کہتے ہیں ۔ اس شخص سے کبھی ایسی باتیں ہونے لگتی ہیں جو اور لوگوں سے نہیں ہوسکتی ، ان باتوں کو کرامت کہتے ہیں ۔ ولی کتنے ہی بڑے درجے کو پہنچ جائے مگر نبی کے برابر نہیں ہوسکتا ۔ وہ خدا کا کیسا ہی پیارا ہوجائے مگر جب تک ہوش و ہواس باقی ہوں ،شرع کاپابند رہنا فرض ہے ۔ نماز ، روزہ اور کوئی عبات معاف نہیں ہوتی ۔ جو گناہ کی باتیں ہیں وہ اس کے لئے درست نہیں ہوجاتیں ۔ جو شخص شریعت کے خلاف ہو وہ خدا کا دوست نہیں ہوسکتا ۔ اگر اس کے ہاتھ سے کوئی اچھنبے کی بات دکھائی دے تو یا تو وہ جادو ہے یا نفسانی اور شیطانی دھندہ ہے ۔ اس سے عقیدہ نہیں رکھنا چاہیے ۔ ولی لوگوں کو بعض بھید کی باتیں سوتے یا جاگتے میں معلوم ہوجاتی ہیں ۔ اس کو کشف اور الہام کہتے ہیں اگر وہ شرع کے موافق ہیں تو قبول ہیں اور اگر شرع کے خلاف ہیں تو رد ہے ۔
کافر کہنے یا لعنت کرنے سے متعلق
کسی کانام لیکر کافر کہنا یا لعنت کرنا بڑا گناہ ہے ۔ ہاں یوں کہہ سکتے ہیں کہ ظالموں پر لعنت ، جھوٹوں پر لعنت ۔ مگر جن کا نام لیکر اللہ اور رسولﷺ نے لعنت کی ہے یا ان کے کافر ہونے کی خبر دی ہے ان کوکافر یا ملعون کہنا گناہ نہیں ۔
قبر کے حالات سے متعلق
جب آدمی مر جاتا ہے ۔ اگر اس کو دفن کیا جائے تو دفن کرنے کے بعد اور اگر نہ دفنایا جائے تو جس حال میں ہو اس کے پاس دو فرشتے جن میں سے ایک کو منکر اور دوسرے کو نکیر کہتے ہیں آکر پوچھتے ہیں کہ تیرا پروردگار کون ہے ؟ تیرا دین کیاہے ؟ حضرت محمد رسو ل اللہ ﷺ کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ یہ کون ہیں ؟ اگر مردہ ایماندار ہوا تو ٹھیک ٹھیک جواب دیتا ہے ۔ پھر اس کے لئے سب طرح کی چین ہے ۔ جنت کی طرف کھڑکی کھول دیتے ہیں جس سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا اور خوشبو آتی رہتی ہے اور وہ مزے میں پڑ کر سو رہتا ہے ۔ اور اگر مردہ ایماندار نہ ہو تو وہ سب باتوں میں یہی کہتا ہے کہ مجھے کچھ خبر نہیں ۔ پھر اس پر بڑی سختی اور عذاب قیامت تک ہوتا رہتا ہے ۔ اور بعضوں کو اللہ تعالیٰ اس امتحان سے معاف کردیتا ہے ، مگر یہ سب باتیں مردے کو معلوم ہوتی ہیں ہم لوگ نہیں دیکھتے جیسے سوتا آدمی خواب میں سب کچھ دیکھتا ہے اور جاگتا آدمی اس کے پاس بے خبر بیٹھا رہتا ہے ۔مرنے کے بعد ہر دن صبح اور شام کے وقت مردے کا جو ٹھکانا ہے وہ اس کو دکھایا جاتا ہے ۔ جنتی کو جنت دکھا کر خوشخبری دیتے ہیں اور دوزخی کو دوزخ دکھا کر حسرت بڑھا دی جاتی ہے ۔
ایصال ثواب سے متعلق
مردے کے لئے دعا کرنے سے ، کچھ خیر خیرات دے کر بخشنے سے اس کو ثواب پہنچتا ہے۔ اور اس سے اس کو بڑا فائدہ ہوتا ہے۔
گناہوں سے متعلق
اللہ تعالیٰ کو اختیار ہے کہ چھوٹے گناہ پر سزا دے یا بڑے گناہ کو اپنی مہربانی سے معاف کردے ۔ اور اس پر بالکل سزا نہ دے ۔ شرک اور کفر کا گناہ اللہ تعالیٰ کبھی کسی کو معاف نہیں کرتا ۔ اور اس کے سوا اور گناہ جس کو چاہے گا اپنی مہربانی سے معاف کردے گا ۔
خاتمہ سے متعلق
عمر بھر کوئی کیسا ہی بھلا برا ہو مگر جس حالت پر خاتمہ ہوتا ہے اسی کے موافق اسکو اچھا اور برا بدلہ ملتا ہے ۔
توبہ سے متعلق
آدمی عمر بھی میں جب کبھی توبہ کرے یا مسلمان ہو ، اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہے ۔ البتہ مرتے وقت جب دم ٹوٹنے لگے اور عذاب کے فرشتے دکھائی دینے لگیں تو اس وقت نہ تو توبہ قبول ہوتی ہے اور نہ ایمان ۔