حقیقتِ محمدی اور حقیقتِ احمدی: معرفت و مقام کا بیان

درس نمبر ،173 حقیقت محمدی صفحہ نمبر 102 تا 111یہ درس 19 اپریل 2017 کو ہوا تھا جودوبارہ براڈکاسٹ کیا گیا

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

یہ بیان حقیقتِ محمدی اور حقیقتِ احمدی کے اسرار کو بیان کرتا ہے۔ حضور ﷺ کی ذات کو عالم خلق اور عالم امر دونوں کی تربیت کے لئے واسطہ اور مبداء بتایا گیا ہے۔ حقیقتِ محمدی سے مراد حضور ﷺ کے وجود کا تعینِ وجوبی ہے، جبکہ حقیقتِ احمدی اس تعین کا مبداء ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ کے مکتوب نمبر 209 میں حقیقتِ محمدی کے مقام، اس کے عروج، اور حقیقتِ کعبہ سے اس کے اتحاد کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ بھی وضاحت کی گئی ہے کہ نزولِ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت حقیقتِ محمدی کے خالی مقام کو حقیقتِ عیسوی اپنائے گی اور حضور ﷺ کے دین کو تقویت حاصل ہوگی۔

بیان یہ وضاحت بھی کرتا ہے کہ تمام موجودات کی بنیاد حقیقتِ محمدی ہے اور ان کے حقائق کا اصل ذریعہ حضور ﷺ کی ذات ہے۔ حقیقتِ محمدی کے وسیلے سے تمام مخلوقات کو اللہ تعالیٰ کی صفات اور شان کے ذریعے فیض پہنچتا ہے۔

حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ کے مطابق، ذاتِ حق کا کامل ادراک محمدی مشرب کے ذریعے ممکن ہے، جس میں انسان تمام حجابات کو عبور کر کے اللہ تعالیٰ کی ذات سے فنا اور بقا حاصل کرتا ہے۔ اس کے برعکس وہ لوگ جو اللہ کی صفات میں فنا ہوتے ہیں، ان کا تعلق اللہ کی ذات کے بجائے اس کی صفات تک محدود رہتا ہے۔

یہ درس محمدی مشرب کے مقامِ عالی، اس کے نتائج، اور حقیقتِ محمدی کے مقام کو سمجھنے کا ایک عمدہ ذریعہ ہے۔