دنیا کی حقیقت اور عقیدے کی اہمیت – دائمی انجام کا تعین
درس نمبر 170، دفتر اول مکتوب نمبر 213، 214، 215، 216 - یہ درس 29 مارچ 2017 کو ہوا تھا جودوبارہ براڈکاسٹ کیا گیا
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے مکتوبات 213 اور 214 میں دنیا کو آخرت کی کھیتی قرار دیتے ہوئے اس کی اہمیت اور عارضی حیثیت کو واضح کیا۔ نیک اعمال اور عقیدے کی درستگی پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ دنیا کی فرصت کو آخرت کی تیاری کے لیے غنیمت سمجھنا چاہیے، نہ کہ ناپائیدار نعمتوں کے حصول کے لیے۔ آپ نے کفار کے دائمی عذاب کے فلسفے کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ کافروں کی نیت ہمیشہ کفر پر قائم رہنے کی ہوتی ہے، اس لیے ان کے دائمی عذاب کا فیصلہ اللہ کی حکمت پر مبنی ہے۔
حضرت شیخ شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتہم نے اس تشریح میں فرمایا کہ کفر اور ایمان دائمی نیت سے وابستہ ہیں۔ کافروں کا عقیدہ ہمیشہ کی بغاوت پر مبنی ہوتا ہے، اس لیے وہ دائمی عذاب کے مستحق ہیں، جبکہ مومن گناہ گار ہونے کے باوجود توبہ کا دروازہ کھلا رکھتے ہیں۔ عقل اور ایمان کے فرق کو واضح کرتے ہوئے بیان کیا کہ جہاں ایمان بالغیب مطلوب ہو، وہاں عقل کے شوشے چھوڑنے کے بجائے ایمان کے زور پر بات کو قبول کرنا ضروری ہے، کیونکہ ایمان کا امتحان مشاہدے کے بغیر ہی ہوتا ہے۔
یہ بات بھی بیان کی گئی کہ اللہ کے احکامات کا علم انسانی فہم سے باہر ہے، جیسے حدود و شرعی قوانین کی تعیین اللہ کی حکمت و مشیت پر ہے۔ بغاوت اور گستاخی سے بچتے ہوئے اپنے گناہوں کو تسلیم کرنا اور بندگی اختیار کرنا ہی نجات کا راستہ ہے۔