کلمہ طیبہ کے نفی اور اثبات

درس نمبر 165،دفتر اول مکتوب نمبر ،173 کلام(نہ ہوں منزلوں کی تلاش میں)مجلس ذکر

حضرت شیخ سید عبید الرحمٰن صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

یہ بیان حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوب نمبر 173 دفتر اول کی تشریح پر مبنی ہے، جس کا مرکزی موضوع کلمہ "لا الہ الا اللہ" اور ذاتِ باری تعالیٰ انسانی فہم و ادراک سے ماوراء ہونا اور اسی کو مقصودِ اصلی بنانا ہے۔

حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ  نے کلمہ نفی اثبات کے دو اہم پہلو بیان کیے: ایک میں باطل معبودوں کی نفی ہے، اور دوسرے میں ممکنات اور باطل خواہشات کی نفی۔ انہوں نے واضح کیا کہ اصل مقصود صرف اللہ جل شانہ کی ذات ہے، جو انسانی فہم سے ماورا ہے۔

آپ نے رسول اللہ ﷺ کے مقام و مرتبے کی اہمیت بیان کی اور فرمایا کہ آپ ﷺ کا نور کائنات کی تخلیق کا ذریعہ ہے۔ آپ ﷺ کی بشریت کا ادراک ضروری ہے تاکہ الوہیت کا انکار کیا جا سکے، جیسا کہ عیسیٰؑ کے بارے میں ہوا۔ نبی کی معرفت کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا، اور محبت رسول ﷺ کا مقصد اللہ سے ملاپ ہونا چاہیے۔

فرمایا کہ انسان اپنے خالق کا مکمل ادراک نہیں کر سکتا، جیسے ایک کمپیوٹر پروگرام اپنے پروگرامر کے ارادے کو نہیں جان سکتا۔ علم کی حدوں کی وضاحت کرتے ہوئے، آپ نے انسانی علم کو ایک سمندر کے مقابلے میں پل کے چھوٹے حصے سے تشبیہ دی۔

حضرت  نے "لا مقصود الا اللہ" کی اصطلاح کی وضاحت کی، جس کا مطلب ہے کہ انسان کی تمام خواہشات اور ارادے اللہ کے لیے مخصوص ہوں۔ اسی طرح "لا موجود الا اللہ" کی کیفیت وحدت الوجود کی حالت کی نشاندہی کرتی ہے، جہاں انسان ہر چیز میں اللہ کا ظہور دیکھتا ہے۔

حضرت نے یہ بھی بیان کیا کہ ہر چیز اللہ کے ارادے سے وجود میں آئی ہے، اور انسان اگر اپنی زندگی کا ہر لمحہ اللہ کے لیے وقف کرے تو یہ "لا مقصود الا اللہ" کی عملی حالت ہوگی۔

فرمایا کہ اسم (نام) کا حصول آسان ہے، لیکن مسمی (جس کا نام ہے) کا ادراک حاصل کرنا مشکل ہے۔ جب انسان اللہ کی ذات کی طرف متوجہ ہوتا ہے، تو وہ صفات سے باہر نکل جاتا ہے، اور جتنا وہ اللہ کی حقیقت میں غرق ہوتا ہے، اتنا ہی وہ صفات سے دور ہوتا جاتا ہے۔