باطنی نسبت کی حفاظت اور کشف و تقدیر کی حقیقت : مکتوب 217 کی روشنی میں

درس نمبر 89، دفتر اول مکتوب 217

حضرت شیخ سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب دامت برکاتھم
خانقاہ رحمکاریہ امدادیہ راولپنڈی - مکان نمبر CB 1991/1 نزد مسجد امیر حمزہ ؓ گلی نمبر 4، اللہ آباد، ویسٹرج 3، راولپنڈی

مکتوب 217 میں باطنی نسبت کی حفاظت، کشف کی حقیقت، اور تقدیر کے مختلف پہلوؤں کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ حضرت سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب (دامت برکاتہم) نے اس مکتوب کی تشریح میں ان موضوعات کو مزید وضاحت اور گہرائی سے پیش کیا ہے۔

باطنی نسبت اور اس کی اہمیت

حضرت مجدد الف ثانیؒ فرماتے ہیں کہ انسان کے لیے اپنی باطنی نسبت کی حفاظت نہایت ضروری ہے، کیونکہ یہ اللہ کے ساتھ بندے کے تعلق کا مظہر ہے۔ اس نسبت کی حفاظت انسان کو اللہ کی رضا اور قربت کی طرف لے جاتی ہے۔ حضرت سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب (دامت برکاتہم) نے اس کی وضاحت میں فرمایا کہ باطنی نسبت بندے کے ظاہری اور باطنی اعمال میں اخلاص اور اللہ کے احکام کی پابندی کے ذریعے پروان چڑھتی ہے۔ انہوں نے "من کان للہ کان اللہ لہ" کے فلسفے کو بیان کیا کہ جب بندہ خالصتاً اللہ کا ہو جاتا ہے، تو اللہ اس کا معاون و مددگار بن جاتا ہے۔

جہالت اور حیرت کی حقیقت

حضرت مجددؒ فرماتے ہیں کہ انسان جتنا اپنی لاعلمی اور حیرت کا اعتراف کرے، وہ معرفتِ الٰہی کے اتنا ہی قریب ہو جاتا ہے۔ اس حیرت کا مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ کی عظمت کے سامنے اپنی کم علمی کو پہچانے۔ حضرت سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب (دامت برکاتہم) نے اس بات کو مزید وضاحت کے ساتھ بیان کرتے ہوئے کہا کہ معرفتِ الٰہی کا راستہ اللہ کی صفات کو سمجھنے کے دوران اپنی محدودیت کا احساس کرنا ہے۔ انہوں نے حضرت تھانویؒ کا واقعہ نقل کیا کہ ایک عالم اپنی علمیت کے بارے میں کہے کہ "لوگ مجھے عالم سمجھتے ہیں"، کیونکہ اللہ کی ذات کے سامنے سب کچھ ہیچ ہے۔

کشف کی حقیقت اور اس میں خطا کا امکان

حضرت مجددؒ نے کشف کی حدود اور خطا کے اسباب کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ کشف اکثر مشروط ہوتا ہے، اور اگر ان شرائط کو نہ سمجھا جائے تو نتیجہ مختلف ہو سکتا ہے۔ حضرت سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب (دامت برکاتہم) نے اس نکتہ کی وضاحت میں مولانا یعقوب نانوتویؒ کے ایک واقعے کی مثال دی، جہاں کشف کی تعبیر غلط فہمی کا باعث بنی۔ انہوں نے کشف کو خواب کی تعبیر سے تشبیہ دی، جو اشاروں اور علامات کی بنیاد پر سمجھا جاتا ہے اور اس میں غلطی کا امکان رہتا ہے۔

قضا معلق اور مبرم

حضرت مجددؒ فرماتے ہیں کہ تقدیر کی دو اقسام ہیں: قضائے معلق اور قضائے مبرم۔ قضائے معلق میں تبدیلی ممکن ہے، جبکہ قضائے مبرم حتمی ہوتی ہے اور اس میں تبدیلی ممکن نہیں۔ حضرت سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب (دامت برکاتہم) نے شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے ایک واقعے کا ذکر کیا، جس میں دعا اور التجا سے ایک قضا معلق کو تبدیل کیا گیا۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ بعض اوقات قضائے معلق، قضا مبرم کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے، جو غلط فہمی کا سبب بنتی ہے۔

وحی اور کشف میں فرق

حضرت مجددؒ نے تاکید کی کہ وحی قطعی ہے اور کشف ظنی۔ وحی اللہ کی حفاظت میں ہے، جبکہ کشف میں خطا کا امکان رہتا ہے۔ حضرت سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب (دامت برکاتہم) نے اس نکتہ پر مزید روشنی ڈالی کہ کشف اور الہام کو کتاب و سنت کی کسوٹی پر پرکھا جائے۔ انہوں نے واضح کیا کہ وحی کی قطیعت کو کشف یا تاریخ کی بنیاد پر رد نہیں کیا جا سکتا۔

روحانی تجربات کی حقیقت

حضرت مجددؒ فرماتے ہیں کہ صوفیاء کے مشاہدات اور تجلیات اللہ کی ذات کا مکمل ادراک نہیں بلکہ ظلال اور اشارات ہیں۔ یہ تجربات انسان کو معرفت کے راستے پر رہنمائی فراہم کرتے ہیں۔ حضرت سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب (دامت برکاتہم) نے اس کی تشریح میں فرمایا کہ اللہ کی ذات کی معرفت دنیا میں مکمل ممکن نہیں، اور یہی حیرت انسان کی روحانی ترقی کا باعث بنتی ہے۔

اجتہاد اور اختلاف کی وسعت

حضرت مجددؒ نے اجتہادی معاملات کو ظنی قرار دیا اور اختلاف کو امت کے لیے رحمت بتایا۔ حضرت سید شبیر احمد کاکاخیل صاحب (دامت برکاتہم) نے اس کی وضاحت میں فرمایا کہ اجتہاد دین کی وسعت اور لچک کا مظہر ہے، اور اختلاف کو سختی یا ضد کا سبب نہیں بنانا چاہیے۔

نتیجہ

مکتوب 217 اور اس کی تشریح انسان کو یہ درس دیتے ہیں کہ اللہ کی معرفت اور روحانی ترقی کے لیے اپنی لاعلمی کا اعتراف اور کتاب و سنت کی روشنی میں اپنے اعمال کو ڈھالنا ضروری ہے۔ کشف اور الہام جیسے علوم کو ان کی حدود میں سمجھنا اور ان پر اندھا اعتماد نہ کرنا ضروری ہے۔ اس مکتوب کا پیغام انسان کو عاجزی، شریعت کی پابندی، اور اللہ کے حضور اپنی کمزوری کا اعتراف کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔