Download PDF

زبدۃ التصوف

اَلْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمَ النَّبِیِّینْ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوذُ بِاﷲِمِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیِمِ ط بِسْمِ اﷲِالرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ۔قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا وَ قَد خَابَ مَنْ دَسّٰھَا
1. تصوف کا ایک مختصر تعارف
2. تصوف کا بنیادی مقصد
3. تصوف علیحدہ فن کیوں؟
4. تصوف متنازعہ کیوں؟
5. علمی اشکالات کا جواب
6. غالی صوفیاء کو جواب
7. چند اصطلاحات تصوف
  7.1.شریعت
  7.2.فقہ
  7.3.تصوف
  7.4.طریقت
  7.5.حقیقت
  7.6.معرفت
  7.7.نسبت
  7.8.بیعت
  7.9.شیخ
  7.10.مرُید
  7.11.سلسلہ
  7.12.تلوین
  7.13.تمکین
  7.14.سیر الی الله
  7.15.سیر فی الله
  7.16.علم الیقین
  7.17.عین الیقین
  7.18.حق الیقین
8. حاصل تصوف
9. ضرورت شیخ
10. مشائخ سے کیا پوچھنا چاہیئے؟
11. شیخ کامل کی پہچان
12. مناسبت شیخ
13. صحبت شیخ کامل کے فوائد
14. بیعت طریقت
15. حقیقت بیعت
16. بیعت کرنے کا طریقہ
17. بیعت کے وقت تعلیم
18. مرشد کے حقوق
19. شیخ اور مرید کا تعلق
20. شیخ کا مقام
21. سلاسل اربعہ کے مشائخ
22. بندہ کی نسبت
23. امور تصوف
  23.1. مقصود
  23.1.1. اعمال
  23.1.1.1. جلبی اعمال
  23.1.1.2. سلبی اعمال
  23.1.2. ثمرات
  23.1.2.1. بندگی
  23.1.2.2. اللہ تعالیٰ کیطرف سے رضا و قرب خاص
  23.2. غیرمقصود
  23.2.1. ذرائع
  23.2.1.1. مجاہدہ
  23.2.1.2. فاعلہ
  23.2.2. توابع
  23.2.2.1. جن میں نقصان کا احتمال ہے
  23.2.2.1.1. سکر کے ساتھ وحدۃ الوجود
  23.2.2.1.2. کشف الہٰی
  23.2.2.1.3. کشفِ کونی
  23.2.2.1.4. اِستغراق
  23.2.2.1.5. تصرف
  23.2.2.1.6. قبض و بسط
  23.2.2.1.7. کرامت
  23.2.2.1.8. مشاہدہ
  23.2.2.2. وہ توابع جن میں ضرر کا احتمال نہیں
  23.2.2.2.1. وجد
  23.2.2.2.2. رویائے صالحہ
  23.2.2.2.3. اجابت دعا
  23.2.2.2.4. الہام
  23.2.2.2.5. فناء و بقاء
  23.2.2.2.6. وحدۃ الوجود بغیر سکر
  23.2.2.2.7. فراستِ صادقہ
  23.2.3. موانع
  23.2.3.1. حسن پرستی
  23.2.3.2. تعجیل
  23.2.3.3. تصنع
  23.2.3.4. خالفت ِسنت
  23.2.3.5. مخالفت ِشیخ
24. حاصل مطالعہ
25. سالک کے لئے مفید کتابیں
26. متعلقین کے لیئے ابتدائی ہدایات

نفس کی اصلاح کی ضرورت کو ثابت کرنے کیلئے یہ آیت کریمہ کافی ہے اور اس موضوع پر ہمارے اکابر کے مبارک ہاتھوں سے لکھی ہوئی بیشمار کتابیں موجود ہیں جن کا مطالعہ انتہائی مفید ہے۔ان کتابوں کے سامنے یہ چند سطور کسی قابل نہیں البتہ ایک بات قابل غور ہے کہ مقصد کتاب لکھنا یا پڑھنا نہیں بلکہ جو اس میں لکھا ہو اس کا سمجھنا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ چونکہ ہر قسم کی تبدیلی آتی رہتی ہے اس لئے ان تبدیلیوں کو پیش نظر رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔یہ چند سطور اصل میں اپنے اکابر کی تحریروں تک قارئین کو پہنچانے کی ایک کوشش ہے تاکہ جو حضرات کسی غلط فہمی کا شکار ہوکر اکابر کی اس موضوع پر کتب سے بے نیاز ہوکر حقیقت سے دور جارہے ہیں ان کو اس طرف متوجہ کیا جاسکے۔ایک دفعہ کسی کو یہ پتہ چل جائے کہ اس موضوع کا مطالعہ بھی ضروری ہے تو پھر استفادہ کے لئے ماشاء اللہ ہزاروں راستوں میں سے کسی ایک کی طرف رہنمائی کرنے میں دیر نہیں لگے گی انشاء اللہ۔ اس میں اختصار اس لئے بھی مطلوب تھا کہ آج کل ضخیم کتابوں کا مطالعہ کم ہی لوگ کرتے ہیں۔حضرت مفتی عبد الرؤف سکھروی نے کراچی قیام کے دوران احقر کو یہی نصیحت کی تھی، یہ اسی نصیحت پر عمل ہے۔ جہاں تک اس کے نام کا تعلق ہے تو احقرکو حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی(رحمۃ اللہ علیہ) کی مناسک پر مختصر کتاب زبدۃ المناسک بہت پسند آئی تھی تو تصوف کے موضوع پر اس مختصر کتاب کیلئے نام حضرت گنگوہی (رحمۃ اللہ علیہ) کی اتباع میں زبدۃ التصوف تجویز ہوا۔ اللہ تعالیٰ اس کو اپنے فضل سے قبول فرمائے۔ الحمد للہ یہ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن ہے۔اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس کو علماءے کرام اور مشائخ نے پسند فرمایا اور مفید مشورے بھی دیئے۔ایک مشورہ تو یہ آیا کہ اس کا فونٹ سائز بڑا کیا جائے تاکہ پڑھنے میں سب کیلئے آسان ہو اور دوسرا یہ کہ اس کے مضامین کی فہرست دی جائے۔الحمد للہ اس ایڈیشن میں ان دونوں مشوروں پر عمل ہوگیا۔ نیز اس میں کچھ مفید اضافے بھی کئے گئے ہیں۔اس کے مضامین کی ترتیب بھی مزید بہتر کی گئی ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس کو مفید بنائے اور قبول فرمائے۔

آمین ثم آمین

سید شبیر احمد عفی عنہ

تصوف کا ایک مختصر تعارف

تصوف ایک متنازعہ لفظ ہے لیکن اس کا متنازعہ ہونا حقیقی نہیں بلکہ بعض حضرات نے ناسمجھی میں اس کے معنی غلط سمجھ لئے لہٰذا اس کی افادیت سے انکار کر بیٹھے۔ حقیقت میں کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں جو ظاہراً کرنے کے ہوتے ہیں جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ وغیرہ۔ اور کچھ اعمال ایسے ہوتے ہیں جو کہ دل کے اعمال ہوتے ہیں جن کا پتہ کسی اور کو نہیں چلتا اس کا پتہ صرف اللہ تعالیٰ کو یا کرنے والے کوہوتا ہے اور ان ہی اعمال پر ظاہری اعمال منحصر ہوتے ہیں۔اگر کسی کے یہ دل والے اعمال درست نہ ہوں تو چاہے اس کے ظاہر کے اعمال کتنے ہی درست ہوں وہ قبولیت کا درجہ نہیں پاتے۔ یا بعض دفعہ یہ ظاہری اعمال ان باطنی اعمال کی خرابی کی وجہ سے ضائع ہوجاتے ہیں۔ لہٰذا ان باطنی یعنی دل کے اعمال کا درست کرنا بھی ضروری بلکہ اشد ضروری ہوا۔ پس وہ طور طریقے اختیار کرنا جن سے یہ دل والے اعمال درست ہوجائیں تصوف کہلاتا ہے۔ شریعت کے طور طریقوں کو چونکہ فقہ بھی کہتے ہیں لہٰذا ان معنوںمیں تصوف کو فقہ الباطن بھی کہا جاتا ہے۔ ثبوت: اللہ تعالیٰ نے انسان کو جب پیدا فرمایا تو اس کو اپنے ارادے کا مختار بنایا اور اس میں خیر و شردونوں طرح کے مادے رکھے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰھَا فَاَلھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوٰھاً پس جب خیر کا مادہ استعمال ہوتا ہے تو کبھی کبھی اس پر فرشتے بھی رشک کرنے لگتے ہیں اور جب اس میں شر کے مادے کا پلڑا بھاری ہوجائے تو مجسم شیطان کی صورت میں بھی آجاتا ہے پھر فرمایا قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا یعنی مادے تو اللہ تعالیٰ نے اس میں دونوں رکھے لیکن ان دونوں میں سے کسی کو بھی اختیار کرنے کا اختیار اس کو دے دیا۔لیکن چونکہ یہ اُمتحان کے لئے تھا اس لئے یہ ارشاد فرمایا کہ کامیاب تو وہ ہے جو خیر کے مادے سے کام لے کر امور خیر انجام دے اور اپنے آپ کو نفس کے شر سے بچائے۔یہ اپنے آپ کو نفس کے شر سے بچانے کے لئے جوطریقے اور معمولات ہیں ان ہی کو تصوف کہتے ہیں۔چونکہ یہ ایک ضروری امر تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس میں ہمیں بغیر رہنمائی کے نہیں چھوڑا۔اس کے لئے انبیاء کرام کا مبارک سلسلہ جاری فرمایا۔ان کا جو فرض منصبی تھا ان میں ایک اپنی اُمت کا تزکیہ بھی تھا۔تزکیہ سے مراد یہی اپنے آپ کو نفس کے شر سے بچانا ہے۔سب سے آخر میں ہمارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بعثت مبارک ہوئی جن کو قُرآن عطا ہوا جس نے تمام ادیان کی تکمیل کی اور دوسری کتابیں جن کی حفاظت کا وعدہ نہیں تھا ان پر عمل منسوخ قرار دیا گیا اور قُرآن کو ہدایت کا سرچشمہ قرار دے کر اس پر عمل کا مطالبہ ہوا۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے خود بھی اس پر عمل فرمایا اور صحابہ (رضی اللہ عنہ) کو بھی اس پر عمل کے لئے تیار کیا۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے قُرآن کے مطابق اپنے فرائض منصبی کا خوب حق ادا کیا جس کی طرف اشارہ اس آیت مبارکہ میں ہے۔ کَمَا اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلاً مِّنْکُمْ یَتْلُوا عَلَیْکُمْ آیٰتِناوَ یُزَکِّیْکُمْ وَ یُعَلِّمُکُمُ الْکِتَابَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ یُعَلِّمُکُمْ مَالَمْ تَکُونُوا تَعْلَمُوْن۔بقرۃ 151 اس میں آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بارے میں ارشاد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنے صحابہ (رضی اللہ عنہ) کوقُرآن کی آیتوں کی تلاوت سے روشناس کیا۔ان کے دلوں میں للّٰہیت پیدا فرمائی اور ان کو کتاب وسنت کی تعلیم سے بہرہ ور فرمایا اور ان کو ایسے ان گنت علوم سے روشناس فرمایا جو وہ پہلے نہیں جانتے تھے۔ ان اُمور میں سے پہلے تلاوتِ قُرآن کی تعلیم ہے جس کی ذمہ داری بعد میں قُراء حضرات نے اٹھائی۔اس کے بعد تعلیم للّٰہیت ہے جس کا ذمہ تصوف کے ماہرین نے لیا اور اس کے ساتھ کتاب و سنت کی تعلیم ہے جس کی ذمہ داری علماءے اُمت نے اٹھائی۔پس اعمال کی دو قسمیں ہوئیں۔ جن میں ایک اعمال ظاہر یا اعمال جوارح ہیں اور دوسرے اعمال باطن یا اعمال قلب ہیں۔ علم ظاہر میں تلاوت ِقُرآن اور فقہ ظاہر کے علوم آئے اور علم باطن میں فقہ باطن یا اعمال قلب کے علوم آئے۔گو ان تمام علوم کی تدوین بعد میں ہوئی ہے لیکن یہ چونکہ اصل کارِ نبوت ہیں اس لئے ان کا سلسلہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم تک جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ تلاوت قُرآن اور تلاوت یا سماعت احادیث کے سلا سل کی طرح سلاسلِ تصوف بھی جاری ہوئے۔اگر چہ اس کا معروف نام تصوف ہے لیکن حضرت سید سلیمان ندوی (رحمۃ اللہ علیہ) کی تحقیق کے مطابق اس کا قُرآنی نام تقویٰ ہے جو کہ تمام علوم ہدایت کا دروازہ ہے جیسا کہ قُرآن کے بارے میں قُرآن ہی میں ارشاد ہے ذَالِکَ الْکِتَابُ لاَ رَیْبَ فِیْہِ ھُدیً لِّلْمُتَّقِیْنَ (بقرۃ۔ 2) اس کا مفہوم یہ ہے کہ اس عظیم الشان کتاب میں کوئی شک نہیں اور یہ متقین کے لئے ہدایت ہے۔پس ضروری نہیں کہ غیر متقین اس قُرآن سے ہدایت حاصل کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ غیر متقی اسا تذہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اسی قُرآن کے اعلیٰ مضامین کو کھول کھول کر بیان کررہے ہوتے ہیں لیکن خود ہدایت سے محروم رہ جاتے ہیں۔ بخاری شریف کی حدیثِ احسان میں ا س کا نام احسان ہے۔اس کو کوئی زہد کہہ دے یا تقویٰاحسان کہہ دے یا تصوف، اس میں کام دلوں کی صفائی کا کیا جاتا ہے۔دل میں کان ،زبان ،ناک اور ذہن کے ذریعے ہر دم جو آلودگیاں آتی ہیں ان کا تدارک اور تلافی کی جاتی ہے ،انسان کو انسان اور مسلمان کو مسلمان بنایا جاتا ہے۔دلوں سے تکبر ،عجب، حسد ،کینہ ، ریا ء،بدگمانی ،خود پسندی وغیرہ کو نکال کر اس میں تواضع ،مسکینی ،اخلاص، نیک گمانی، تفویض، توکل اور خو د احتسابی پیدا کی جاتی ہے۔دوسرے لفظوں میں انسان کے دل کو مادہ پرستی سے نکال کر خداپرستی کی طرف ڈالا جاتا ہے۔اس کو ہر دم یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ تو کہاں سے آیا ہے اور کہاں جانا ہے؟ اور جہاں جانا ہے وہاں کیا ہوگا اور اس کے لئے کیا کرنا ہے ؟بس کرنا تو وہی شریعت کی اتباع ہے کہ ہمیں اسی کے لئے تو پیداکیا گیا ہے لیکن تصوف میں اس پر زور دیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ صرف اللہ تعالیٰ کے لئے کرنا ہے۔ حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) خلیفہ مجاز حضرت تھانوی (رحمۃ اللہ علیہ) نے تصوف کی جو مختصر مگر جامع تعریف بیان فرمائی ہے وہ یہ ہے تصوف میں ساری ریاضتیں اور کوششیں اس لئے ہوتی ہیں کہ

اللہ تعالیٰ کے ساتھ دائمی تعلق حاصل ہوجائے اور ہر کام فقط اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے


آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے طریقے کے مطابق ہونے لگے۔

تصوف کا بنیادی مقصد

مندرجہ بالا جامع تعریف میں خط کشیدہ حصّہ تصوف کا بنیادی مقصد ہے۔اس کو اچھی طرح ذہن نشین کیا جائے۔کیونکہ اسی پر قُرآن میں ولایت کا وعدہ ہے بَلیٰ مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہ ِﷲِ وَ ھُوَ مُحْسِنٌ فَلَہ آَجْرُہ عِنْدَ رَبِّہٰ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ (بقرۃ ۔1 12) جس کا مفہوم یہ ہے کہ جس نے اپنا رخ اللہ تعالیٰ کی طرف پھیر دیا یعنی دل کا قبلہ درست کرلیا اور سب کام اللہ تعالیٰ کے لئے کرنے لگا اور تھا نیکی کرنے والا یعنی شریعت پر چلنے والا تھا تواس کو اللہ تعالیٰ اس کا اجر عطا فرمائیں گے اور نہ ان کو کوئی ڈر ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ نشانی ہے ولایت کی جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے اَلآ اِنَّ اَوْلِیَائَ اﷲِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ اس کا مفہوم یہ ہے کہ آگاہ ہوجاؤ کہ اولیاء اللہ کو نہ ڈر ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ یہ مضمون سورۃ اعراف میں اور بھی وضاحت کے ساتھ آیا ہے یٰبَنِیْ اٰدَمَ مَّا یَٲ تِیَنَّکُمْ رُسُلٌ مِّنْکُمْ یَقُصُّوْنَ عَلَیْکُمْ اٰیَاتِیْ فَمَنِ اتَّقٰی وَ ٲصْلَحَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ (الاعراف 35) یعنی اے بنی آدم (ہم نے عالم ارواح ہی میں تمہیں کہاتھا کہ) اگر تمھارے پاس پیغمبر آویں جو تم میں سے ہوں جو میرے احکام تم سے بیان کریں سو (ان کے آنے پر ) جو شخص (تم میں ان آیات کی تکذیب سے) پرہیز رکھے اور (اعمال کی) درستی کرے (مراد یہ کہ ان کی کامل اتباع کرے) سو ان لوگوں پر (آخرت میں) نہ کچھ اندیشہ کی بات (واقع ہونے والی) ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

تصوف کی ایک علیحدہ فن کے طور پر ضرورت

جیسا کہ اعمال ظاہر میں بعض چیزیں فرض ہیں ،بعض واجب ،بعض سنت اور بعض مستحب۔اسی طرح اعمال باطن میں بھی بعض چیزیں فرض ہیں ،بعض واجب بعض سنت اور بعض مستحب۔دوسری طرف اعمال ظاہر میں بعض چیزیں حرام ہیں ،بعض مکروہ تحریمی ہیں اور بعض مکروہ تنزیہی۔اسی طرح اعمال باطن میں بھی بعض چیزیں حرام ہیں، بعض مکروہ تحریمی اور بعض مکروہ تنزیہی۔ اس لئے ہر چیز کا اس کے مقام کے حساب سے مطالبہ ہوگا۔ جب بڑے بڑے لوگ اعمال باطن کے ایک حرام میں مبتلا ہونے کی وجہ سے جہنم جاتے ہوں تو پھراس سے بچنا ضروری نہیں تو کیا ہے ؟ سورۃ ھود میں ارشاد باری تعالیٰ ہے مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَھَا نُوَفِّ اِلَیْھِمْ اَعْمَالَھُمْ فِیْھَا وَھُمْ فِیْھَا لَا یُبْخَسُوْنَ۔ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ اِلَّا النَّارُ۔ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْھَا وَبٰطِلٌ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْن (ہود ۵۱۔۶۱) جو شخص(اپنے اعمال خیر سے) محض حیات دنیوی(کی منفعت)اوراس کی رونق(حاصل کرنا)چاہتا ہے( جیسے شہرت و نیک نامی و جاہ اور ثواب آخرت حاصل کرنے کی اس کی نیت نہ ہو) تو ہم ان لوگوں کے( ان )اعمال (کی جزا) ان کو دنیا ہی میں پورے طور سے بھگتا دیتے ہیں اور ان کے لئے دنیا میں کچھ کمی نہیں ہوتی( یعنی دنیا ہی میں ان کے اعمال کے عوض ان کو نیک نامی اور صحت و فراغ عیش و کثرتِ اموال و اولاد عنایت کردیا جاتا ہے جب کہ ان کے اعمال کا اثر ان کے اضداد پر غالب ہو اور اگر اضداد غالب ہوں تو پھر یہ اثر بھی نہیں ہوتا۔یہ تو دنیا میں ہوا۔رہا آخرت میں سو یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے لئے آخرت میں بجز دوزخ کے اور کچھ (ثواب وغیرہ )نہیں او ر انہوں نے جو جو کچھ کیا تھا وہ آخرت میں سب( کا سب) ناکارہ( ثابت) ہوگااور( واقع میں تو) جو کچھ کررہے ہیں وہ (اب بھی )بے اثر ہے( بوجہ فسادِ نیت کے مگر صورت ظاہری کے اعتبار سے ثابت سمجھا جاتا ہے۔آخرت میں یہ ثبوت بھی زائل ہوجائے گا۔) یہ ترجمہ بیان القُرآن سے یہ لیا گیا ہے اور اس میں قوسین میں تفسیری کلمات ہیں۔ بخاری شریف کی پہلی حدیث شریف ہے اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتْ جس کا مفہوم یہ ہے کہ اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے یعنی ظاہر شریعت کے جتنے اعمال بھی کئے جائیں ان کا نتیجہ اس پر موقوف ہوگا کہ وہ اعمال کس کیلئے کئے گئے۔ اسی طرح ترمذی شریف کی ایک طویل حدیث شریف کے مطابق تین آدمی جو اعلیٰ اعمال کو کرنے والے ہیں، ان میں ایک قاری ہے ایک سخی ہے اور ایک شہید۔لیکن چونکہ یہ اعمال انہوں نے اللہ تعالیٰ کے لئے نہیں کئے تھے تو نتیجتاً بجائے جنت کے جہنم پہنچ گئے۔اس حدیث شریف میں یہ بھی ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) پر اس کی روایت کے دوران باربار غشی طاری ہوجاتی تھی۔مسلم شریف کی ایک حدیث شریف کا مفہوم یہ ہے کہ ایک شخص کے دل میں اگر رائی برابر بھی تکبر ہو تو وہ جنت میں داخل نہیں ہوسکتا۔اس سے اندازہ لگانا چاہیے کہ ریاء اور تکبر سے بچنا کتنا ضروری ہے۔یہ دونوں اعمال قلب ہی تو ہیں۔پس اخلاق حمیدہ کا حاصل کرنا اور اخلاق ذمیمہ سے چھٹکارا پانا روحانی صحت کے لئے انتہائی ضروری ہے۔اور جس کو یہ صحت حاصل ہوجاتی ہے تو اس کا قلب، قلب ِسلیم کہلاتا ہے۔جیسا کہ سورۃ شعراء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَ اِلَّا مَنْ اَتَی اﷲَ بِقَلْبٍ سَلِیْم جس کا مفہوم یہ ہے کہ اس دن مال اور بیٹے کوئی نفع نہیں دیں گے مگر سلیم دل جو لے کے آیا ہو اس سے فائدہ ہوگا۔پس ان آیات مبارکہ اور احادیث شریفہ سے تصوف کی ضرورت خوب واضح ہوگئی۔آگے ہر ایک کی مرضی ہے کیونکہ یہاں تو اختیار دیا گیا اور اچھے بھلے کی تمیز سکھائی گئی ہے۔ہر ایک کو اپنے ارادے کا پھل ملے گا۔ اعمال ظاہرہ تو فقہ کی صورت میں کتابوں میں مدوّن ہوگئے۔ان کو کسی سے بھی سیکھ کر ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ان کی تشریح کسی بھی عالم سے لی جاسکتی ہے لیکن اپنے اپنے حالات میں اعمال قلبیہ پر کیسے عمل ہو یہ آسان بات نہیں۔مثلاً نماز کو لے لیا جائے اس کے فرائض، واجبات، سنن اور مستحبات پر اچھی اچھی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ان میں سے کسی کتاب کا بھی مطالعہ کر لیا جائے تو نماز کے مسائل معلوم ہوجائیں گے اور تھوڑی سی کوشش سے ان تمام امور کو سیکھا بھی جاسکتا ہے۔اس کے لئے کسی بڑے عالم کے پاس جانے کی ضرورت بھی نہیں جس نے بھی نماز اچھی طرح سیکھی ہو اس سے یہ نماز آسانی کے ساتھ سیکھی جاسکتی ہے کیونکہ اس میں اسے ہر ایک چیز نظر آرہی ہے اس لئے اس کی اصلاح کوئی مشکل نہیں۔لیکن نماز کے اندر اگر کسی میں خشوع یا اخلاص نہیں تواس کاپیدا کرنا آسان کام نہیں۔نہ تو یہ محض کتابوں سے سیکھنے کی چیزیں ہیں اور نہ ہی یہ آپ ہر ایک سے پوچھ پوچھ کر حاصل کرسکتے ہیں۔اس کے لئے باقاعدہ کسی کو اپنا رہنما بنانا پڑے گا جو اس راستے سے گزرا ہو۔ اور راستہ چونکہ نازک ہے اس لئے اس میں کسی خطرہ سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ رہنما اپنے فن میں طاق ہونے کے ساتھ ساتھ مستند بھی ہو۔ یعنی اس پر اعتماد کا سلسلہ حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم تک پہنچتا ہو۔اس کو سلسلہ کہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ حضرت تھانوی (رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا تھا کہ اگر کوئی نماز نہیں پڑھتا تومیں اس کے بارے میں اتنا فکرمند نہیں ہوتا۔کیونکہ یہ ابھی اگر نمازی ہونے کی نیت کرلے تو ایک سیکنڈ میں نمازی ہوجائے گا لیکن اگر کسی میں تکبر دیکھتا ہوں تو اس کے بارے میں ڈر جاتا ہوں۔ کیونکہ اگر اس نے اپنی اصلاح کی نیت کرکے کام شروع بھی کیا تو تکبر کو نکلتے نکلتے کافی عرصہ لگ سکتا ہے۔

تصوف متنازعہ کیوں ہے ؟

یہ امر واقعی پریشان کن ہے کہ اتنا اہم اور مفید فن متنازعہ کیسے بنا ؟ جب ہم اپنے اکابر کی کتابوں کو دیکھتے ہیں تو ہمارے سارے اکابر نہ صرف اس فن کے قدردان نظر آتے ہیں بلکہ ان میں بعض نے تو اس فن کی خدمت میں اپنی عمریں گزاردیں۔ لیکن آج ان ہی سے منسوب بعض حضرات اس فن کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتے ہیں جیسے کہ یہ گمراہی کا ایک دروازہ ہو۔ اس کی جو وجہ اس عاجز کی سمجھ میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ جو تصوف کے مقاصد ہیں ان سے تو کسی کو بھی انکار نہیں۔لیکن جو ان مقاصد کے ذرائع ہیں ان پر بعض لوگ کلام کرتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض ناسمجھوں نے ان ذرائع کو مقاصد کے طور پر پیش کرکے تصوف کا حلیہ بگاڑ دیا ۔ناسمجھوں کا تو خیر علاج ممکن ہے کیونکہ وہ جہالت سے ایسا کرتے ہیں اس لئے اگرجہالت دور ہوجائے تو ان کی اصلاح ہوجاتی ہے لیکن جو لوگ جان بوجھ کر اپنے چند ذاتی مفادات کی خاطر ذرائع کو مقاصد قرار دیتے ہیں ان کے ہاں سے اصل چیز رخصت ہوجاتی ہے اور چند رسومات رہ جاتی ہیں۔ جن میں وقت کے ساتھ مزید شدت آتی جاتی ہے جیساکہ بعض صحیح بزرگوں کی وفات کے بعد ان کے سجادہ نشینوں نے کیا۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رحمۃ اللہ علیہ) طریق قلندر میں فرماتے ہیں ’’تصوف کے اصول صحیحہ قُرآن و حدیث میں موجود ہیں۔اور یہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ تصوف قُرآن و حدیث میں نہیں بالکل غلط ہے۔غالی صوفیاء کا بھی یہ خیال ہے اور خشک علماء کا بھی کہ تصوف سے قُرآن و حدیث خالی ہیں ،مگر دونوں غلط سمجھتے ہیں۔خشک علماء تو یہ کہتے ہیں کہ تصوف کوئی چیز نہیں سب واہیات ہے بس نماز روزہ قُرآن و حدیث سے ثابت ہے ،اسی کو کرنا چاہیے۔ یہ صوفیوں نے کہاں کا جھگڑا نکالا ہے ؟تو گویا ان کے نزدیک قُرآن و حدیث تصوف سے خالی ہیں۔ اور غالی صوفی یہ کہتے ہیں کہ قُرآن و حدیث میں تو ظاہری احکام ہیں ،تصوف تو علم باطن ہے۔ان کے نزدیک تصوف میں قُرآن و حدیث ہی کی ضرورت نہیں۔غرض دونوں حضرات قُرآن و حدیث کو تصوف سے خالی سمجھتے ہیں ،پھر اپنے اپنے خیال کے مطابق ایک نے تو تصوف کو چھوڑ دیا اور دوسرے نے قُرآن و حدیث کو۔ ‘‘

علمی اشکالات کا جواب

حضرت تھانوی (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ جس طرح قُرآن میں وَاَقِیْمُوا لصَّلٰوۃَ وَاٰتُوالزَّکوٰۃ موجود ہے اس طرح یَاٰ اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاصْبِرُوْا یعنی اے ایمان والو صبر کرو اور وَاشْکُرُوْ ِﷲ اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاؤ موجود ہے۔اگر ایک مقام پر کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ او ر وَ ِﷲِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتَ پاؤگے تو دوسرے مقام پر یُحِبُّہُمْ وَ یُحِبُّوْنَہ اور وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَشَدُّ حُبًّا ِﷲِ بھی دیکھوگے۔جہاں اِذَا قَامُوْاِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوْ کُسَالیٰ ہے۔اس کے ساتھ ہی یُرَآؤُنَ النَّاسَ بھی موجود ہے۔اگر ایک مقام پر تارک صلوٰۃ اور تارک زکوٰۃ کی مذمت ہے تو دوسرے مقام پر تکبر اور عجب کی برائی ہے۔

اسی طرح احادیث شریفہ کو دیکھو جس طرح ابواب نماز و روزہ، بیع و شراء، نکاح و طلاق پاؤگے۔ابواب ریا ءو کبر بھی دیکھو گے۔اس بات سے کون مسلمان انکار کرسکتا ہے کہ جس طرح اعمال ظاہرہ حکم خداوندی ہیں اس طرح اعمال باطنی بھی حکم الٰہی ہیں۔کیا اَقِیْمُوا لصَّلٰوۃَ وَاٰتُوالزَّکوٰۃ امر کا صیغہ ہے اور وَاصْبِرُواوَاشْکُرُو امر کا صیغہ نہیں؟ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ سے روزہ کی مشروعیت اور مامور بہ ہونا ثابت ہوتا ہے اور وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَشَدُّ حُبًّا ِﷲِ سے محبت کا مامور بہ ہونا ثابت نہیں ؟ بلکہ اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ظاہری اعمال سب کے سب ہی باطن کی اصلاح کے لئے ہیں۔اور باطن کی صفائی موجب نجات ہے اور اس کی کدورت موجب ہلاکت ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں۔ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا وَ قَد خَابَ مَنْ دَسّٰھَا بے شک جس نے نفس کو صاف کیا کامیاب رہا اور جس نے اس کو میلا کیا ناکام رہا یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْن یعنی اس دن مال اور اولاد کام نہیں آئیں گے مگر جو شخص اللہ تعالیٰ کے پاس سلیم قلب لے کے آیا۔دیکھیں پہلی آیت میں تزکیہ باطن کو موجب فلاح اور دوسری میں سل اُمتی قلب کے بغیر مال و اولاد سب کو غیر نافع فرمایا ہے۔ایمان اور عقائد جن پر سارے اعمال کی مقبولیت منحصر ہے ،قلب ہی کا فعل ہے۔ اور ظاہر ہے کہ جتنے اعمال ہیں سب ایمان کی تکمیل کے لئے ہیں۔پس معلوم ہوا کہ اصل مقصود دل کی اصلاح ہے جس سے انسان مقبول بارگاہ اور صاحب مدارج و مقام ہوتا ہے اور اسی کا نام اصطلاح و عرف میں تصوف ہے۔ حضرت سید سلیمان ندوی (رحمۃ اللہ علیہ) نے ایک مستفسر کے جواب میں تحریر فرمایا ’’یہ فن ِسلوک نظری سے زیادہ عملی ہے۔اس کے لئے ایسے کاملین کی ضرورت ہے جو اپنے حسن اعتقاد اور عمل کے لحاظ سے اسوۂ نبوی پر ہوں۔جو اپنے آداب ، اخلاق، عادات اور اتباعِ اوامر و نواہی میں نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا نمونہ ہوں۔ جن کی صحبت میں پرتو نبوی کا اثر ہو، اور جن کا سلسلہ صحبت حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صحبت تک منتہی ہو،جس کا اصطلاحی نام شجرہ ہے۔ جس طرح فن روایت میں اس کا نام سلسلہ ہے۔اس مفہوم کو حضرت شاہ ولی اللہ صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) نے ان لفظوں میں بیان کیا ہے ،کہ علم حدیث جس طرح حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی روایت کا سلسلہ ہے، یہ سلوک حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صحبت کا سلسلہ ہے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا سارا فیض صحبت نبوت کی تاثیر کا نتیجہ تھا۔ان کے بعد صحابہ کے فیض سے تابعین اٹھے اور تابعین کے فیض صحبت سے تبع تابعین کا ظہور ہوا۔یہ تین دور ایسے ہیں جن میں پچھلی جماعت اگلی جماعت سے بحیثیت جماعت کے متاثر ہے۔مگر ہر دور میں جماعت، تعداد اور کیفیت میں کم ہوتی چلی گئی۔تبع تابعین کے بعد جب فتنوں کا ظہور ہوا تو تعداد بھی کم ہوگئی اب جماعت کی صحبت جماعت سے جاتی رہی۔اب اشخاص کاملین کی صحبت سے اشخاص بااستعداد کے پیدا ہونے کا سلسلہ ہوا جس کا نام متاخرین نے ارادت یا پیری مریدی رکھ دیا ہے ،ورنہ قدماء اور سلف صالحین کی اصطلاح صحبت ہی کی تھی۔ مرُیدکو صحبت یافتہ کہتے تھے جیسا امام محمد (رحمۃ اللہ علیہ) اور قاضی ابویوسف (رحمۃ اللہ علیہ) کو صاحب ابوحنیفہ کہتے ہیں۔اس طرح حضرت شبلی (رحمۃ اللہ علیہ) اور جنید (رحمۃ اللہ علیہ) بھی صحبت یافتہ کہلاتے تھے۔ جیسے یوں کہتے تھے کہ فلاں شخص نے شبلی(رحمۃ اللہ علیہ) کی صحبت اٹھائی ہے یا جنید (رحمۃ اللہ علیہ) کی صحبت اٹھائی ہے۔‘‘

غالی صوفیاء کو جواب

صوفیاء پر اپنے اکابر کے اقوال حجت ہیں اس لئے اگر غالی صوفیاء تصوف کے مدعی ہیں تو ان کو اپنے اکابر کے اقوال سامنے رکھنے چاہیے جن میں چند پیش کیے جاتے ہیں حضرت بایزید بسطامی (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ ’’ اگر تم کسی کو کرامات والا دیکھو کہ ہوا میں اڑتا ہو تو دھوکے میں نہ آجانا ،جب تک یہ نہ دیکھو کہ وہ امر و نہی، حفظ ِحدود اور پابندیء شریعت میں کیسا ہے ؟‘‘ حضرت جنید (رحمۃ اللہ علیہ) کا ارشاد ہے ’’ مخلوق پر سب راستے بند ہیں سوا ئے اس کے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے قدم بقدم چلے۔‘‘ حضرت ابولحسن نوری (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ ’’ جس کو دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی ایسی حالت کا دعویٰ کرتا ہے جو اس کو حد شرعی سے باہر کردیتی ہے تو اس کے پاس بھی نہ پھٹکو۔‘‘ حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی (رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا ’’ متابعت پیغمبر صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ضروری ہے قولاً، فعلاً و ارادتاً اس لئے کہ محبت ِخدا تعالیٰ بے متابعت حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نصیب نہیں ہوتی۔‘‘ حضرت خواجہ معین الدین چشتی (رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا ’’ جو آدمی شریعت پر قائم ہوا اور جو کچھ احکام شرع کے ہیں ان کو بجا لایا اور سر مو تجاوز نہیں کرتا تو اس کا مرتبہ آگے بڑھتا ہے یعنی تمام ترقیاں اس پر موقوف ہیں کہ شریعت پر ثابت قدم رہے۔ ‘‘ ایک بات جس کا سمجھنا ضروری ہے کہ بعض اوقات بزرگوں نے نااہلوں سے اپنے علوم کو چھپانے کے لئے ذو معنی الفاظ استعمال کئے ہیں۔جو اہل تھے انہوں نے اس سے اصل مطلب لے لئے اور دوسروں نے اس کو اپنے اپنے مطالب پر منطبق کیا جس سے مطلب کچھ کا کچھ ہوگیا۔ اس لئے اہل حق صوفیاء نے بعد میں یہ قانون بنالیا کہ صوفیاء کے کلام کو قُرآن وحدیث پر پیش کیا جائے اگر اس کے مطابق ہے تو اس کو تو من و عن لے لیا جائے۔اگر بظاہر قُرآن و حدیث سے متصادم ہو تو اگر اس کی تاویل کی جاسکتی ہو تو تاویل کے ساتھ اس کا وہ مفہوم لیا جائے جو کہ قُرآن و حدیث کے مطابق ہو اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو یا تو شطحیات میں سے ہوگا جس میں صوفی کو معذور سمجھا جائے گا لیکن اس کے قول کی تقلید نہیں کی جائے گی اور یا پھر اس کے کلام میں تحریف ہوچکی ہوگی جو کہ بعید نہیں۔آخر آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی احادیث شریفہ میں اگر لوگ موضوع روایتیں شامل کرسکتے ہیں ،جن کی نگرانی کے لئے اسماء الرجال کا عظیم فن موجود ہے، تو صوفیاء کے اقوال میں تحریف کیوں نہیں ہوسکتی؟ جس کے لئے اس قسم کا کوئی فن معرض وجود میں نہیں آیا۔ اگر کوئی مدعی مثلاً حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی (رحمۃ اللہ علیہ) کا کوئی ایسا قول سامنے کرے جو شریعت سے متصادم ہو تو بجائے اس کے کہ ہم نعوذ باللہ قُرآن و حدیث میں تحریف کے مرتکب ہوں یہ ضروری ہے کہ ہم اس کی کوئی ایسی تاویل کریں جس سے یہ شریعت کے ساتھ متصادم نہ رہے۔ اور اگر اس کی کوئی ایسی تاویل ممکن نہ ہو تو ہم اس کو حضرت شیخ (رحمۃ اللہ علیہ) کے کلام میں تحریف پر مبنی سمجھیں کیونکہ لوگوں کے لئے شیخ (رحمۃ اللہ علیہ) کے کلام میں تحریف کرنا حدیث رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں تحریف سے کہیں زیادہ آسان ہے۔ کیونکہ اس کو اسماءالرجال کی کسوٹی پر پیش کرنا ممکن نہیں جبکہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لئے ایسا انتظام موجود ہے۔اس سے نہ تو شریعت پر حرف آئے گا نہ حضرت شیخ (رحمۃ اللہ علیہ) پر کوئی تہمت آئے گی۔اکابر اُمت نے اس طرح کے اُمور میں یہی کیا جس پر تاویل پرستی کی پھبتی کسی گئی۔لیکن اس سے کیا ہوتا ہے ہمیں تو اپنا دین بچانے سے غرض ہے جو کہ کتاب اللہ اور رجال اللہ کی بیک وقت اتباع کا نام ہے۔ اس لئے نہ تو کتاب اللہ پر کوئی حرف آنا چاہیے اور نہ ہمیں رجال اللہ سے کٹنا چاہیے۔خوارج نے اپنے زعم میں کتاب اللہ کے ساتھ تمسک کیا تھا لیکن رجال اللہ کی ناقدری سے اتنے دور جاپڑے کہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ان کی گمراہی کی مستقل پیشنگوئی فرمائی اور حضرت علی کرم اللہ وجہ اپنے اس کارنامے پر فخر فرماتے تھے جو انہوں نے نہروان میں خوارج کو تہ تیغ کرکے کیا تھا۔دوسری طرف باطنیین نے رجال اللہ کے نام پر معانی کو اتنا بدلا کہ قُرآن و حدیث سے انکار کے مرتکب ہوئے۔اس طرح نہ ان کے عقائد محفوظ رہے اور نہ اعمال۔ اُمت کو بعد میں ایسے گمراہوں کو راہ راست پر لانے اور لوگوں کو ان کی شر سے محفوظ رکھنے کی بڑی قیمت ادا کرنی پڑی تھی۔قلعۃ الموت اور فاطمین کے دور میں عقلمندوں کے لئے کافی سامان موجود ہے۔ تصوف کا آخری مقام خالص بندگی ،فنائیت اور بقاء ءعند اللہ ہے جس کا لازمی نتیجہ محبوبیت عند اللہ ہے۔پس کسی کو اتنی بات اگر سمجھ میں آگئی تو اس کے لئے تصوف کو سمجھنا کوئی مشکل نہیں۔ وہ ان غالی متصوفین کے کہنے سے جو یہ کہتے ہیں کہ شریعت اور ہے اور طریقت اور ہے، گمراہ نہیں ہوں گے بلکہ طریقت کو تکمیل شریعت سمجھیں گے۔وہ خدا پرستی کے لبادے میں ان مادہ پرستوں کو بھی پہچان لیں گے جو دوسروں کو اکابر کے استغنا کی بڑی بڑی باتوں میں اس لئے مشغول کرتے ہیں کہ ان کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالیں۔وہ فکر کے مصلحین کے جامے میں فکرکی گمراہی کو فروغ دینے والے ان فلسفیوں کو بھی پہچان لیں گے جو اپنی کج بحثی کے ذریعے سیدھی سادھی طریقت کو چیستان بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔انہوں نے چونکہ خودتصوف کو فلسفہ کی عینک سے دیکھا ہوتاہے اس لئے دوسروں کو بھی یہ عینک لگانے پر مصر ہوتے ہیں۔وہ ہمارے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محبت میں بظاہر مرنے والے ان نفس پرستوں کو بھی پہچان لیں گے جنہوں نے اپنی نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے دین میں نت نئے طریقے وضع کئے اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا یہ ارشاد

کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃْ

کو نہ صرف خود پس پشت ڈالا بلکہ اپنے متعلقین کو ان اللہ والوں کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتے کہ مبادہ وہ ان کو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا یہ پیغام سنا دیں اور پھر وہ ان کی نفسانی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ نہ بن سکیں۔اگر کچھ کسر باقی ہو تو اس کے لئے حضرت مولانا محمد اشرف سلیمانی رحمۃ اللہ کی تصنیف سلوک سلیمانی سے ’’ غیر شرعی یا عجمی تصوف ‘‘ کے عنوان پر مشتمل تحریر پڑھی جاسکتی ہے جس کی تفصیل حضرت کی کتاب سلوک سلیمانی جلد اول میں ملے گی جس سے انشاء اللہ اچھی طرح تسلی ہوجائے گی۔

تصوف کی چند مفید اصطلاحات

ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق زندگی گزارے۔اس کے لئے جن علوم کا حاصل کرنا ضروری ہے وہ بھی فرض اور جن ذرائع پر یہ موقوف ہیں وہ بھی لازم ہیں۔اور یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ذریعہ فی نفسہ مقصود نہیں ہوتا لیکن اگر مقصد اس کے بغیر حاصل نہ ہوتا ہو تو وہ بھی لوازمات میں شامل ہوجاتا ہے۔ اسلام کی تمام تعلیمات کا سرچشمہ کتاب و سنت ہے جس کی ابتدائی تعلیم مجلس نبوی میں دی جاتی تھی اور چونکہ ابتدائی دور تھا حلقہ بگوشان اسلام اپنے اصلی مرکز میں موجود تھے جن کی تعداد بھی اس وقت اتنی زیادہ نہ تھی جتنی بعد میں ہو گئی اس لئے نبوی درسگاہ میں ان ضروری تعلیمات کو حاصل کرنے کے لئے علم حدیث ،علم فقہ ، علم تفسیر ، اور علم تصوف کے نام گو کہ معروف نہیں تھے لیکن بعد میں جن تعلیمات سے یہ مدون ہوئے ان کے اصل کی تعلیم یکجا دی جاتی تھی۔کوئی الگ الگ شعبے قائم نہ تھے۔پس ان تمام علوم کے مقاصد آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نگرانی میں حاصل ہورہے تھے اور ان سب مقاصد کو حاصل کرنے کا جو سب سے بڑا ذریعہ موجود تھا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صحبت تھی جس کے ہوتے ہوئے کسی اور ذریعے کی حاجت نہیں تھی۔ اس نبوی درسگاہ میں ایک اقا متی شعبہ ایسا بھی موجود تھا جس میں محبان خدا اور عاشقان رسول اللہ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم تزکیہ نفس و اصلاح باطن کی عملی تعلیم و تربیت کے لئے ہر وقت موجود رہتے تھے اور وہ اصحاب صفّہ کہلاتے تھے۔ بعد ازاں جب اسلام عالمگیر حیثیت اختیار کر گیا اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صحبت بھی موجود نہیں رہی اور نہ ہی ان کی صحبت جن کو براہ راست آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی صحبت حاصل رہی تھی اس لئے ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے علماء دین نے الگ شعبے قائم کئے۔ جنہوں نے علم حدیث کی خدمت کی وہ محدث کہلائے۔اور جنہوں نے علم تفسیر کا کام سنبھالا وہ مفسر کہلائے۔جو فقہ کا کام کرنے میں منہمک ہو گئے وہ فقیہ بن گئے اور جنہوں نے تزکیہ نفس و اصلاح باطن کا شعبہ سنبھالا وہ مشائخ اور صوفیاء مشہور ہوئے۔اسی لئے اکابر سلف میں سے کسی نے شریعت کو طریقت سے الگ نہیں کیا بلکہ ہمیشہ طریقت کو شریعت کے تابع رکھا۔درج ذیل میں چند ضروری اصطلاحات کا تعارف بیان کیا جاتا ہے جو کہ فی الحقیقت تو بہت آسان ہیں لیکن دکاندار پیروں نے ان کو باطل فلسفے کا ایسا گورکھ دھندہ بنایا ہو ا ہے کہ بعض مخلصین ان کے ناموں سے چڑنے لگے ہیں۔ اس لئے علم تصوف میں ان کے اصل مفاہیم کا سمجھنا سالک کے لئے بہت ضروری ہے تاکہ کسی مرحلے پر کوئی اس کو دھوکہ نہ دے سکے۔ایک بزرگ نے راقم سے فرمایا کہ اصطلاحات مبتدی کے لئے علم کی سیڑھی ہے اور منتہی کے لئے عیب ہے کیونکہ مبتدی اس کے بغیر سیکھ نہیں سکتا اور منتہی کو اس کی حاجت نہیں ہوتی وہ جس کے حسب حال جو مناسب سمجھتے ہیں ارشاد فرماتے ہیں کیونکہ اس کو سمجھا نا مقصود ہوتا ہے اصطلاحات مقصود نہیں ہوتے۔چند ضروری اصطلاحات کا تعارف یہاں ضروری ہے تاکہ آگے کے ابواب آسانی کے ساتھ سمجھ میں آسکیں۔

شریعت

شریعت احکام تکلفیہ کے مجموعہ کا نام ہے۔اس میں اعمال ظاہری و باطنی سب آگئے۔زندگی گزارنے کا جو طریقہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان کے لئے پسند فرمایا ہے اس کو شریعت کہتے ہیں۔اس کو ہم تک پہنچانے کے لئے چونکہ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات مبارک ذریعہ بنی ہے۔اس لئے اس کو آپ صلی اللہ علیہ والہ سلم کا طریقہ یا سنت بھی کہتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو شارع بھی کہتے ہیں یہ صرف اسی نسبت سے ہے ورنہ فی الحقیقت احکامات تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہیں۔

فقہ

متقدمین کی اصطلاح میں لفظ فقہ کو شریعت کا مترادف (ہم معنیٰ )سمجھا جاتا ہے۔ جیسا امام اعظم ابو حنیفہ (رحمۃ اللہ علیہ) سے فقہ کی تعریف ’’معرفت النفس ما لھا وما علیھا‘‘ منقول ہے یعنی نفس کے نفع و نقصان کی چیزوں کو پہچاننا پھر متاخرین کی اصطلاح میں شریعت کے صرف اس جز کا نام جو اعمال ظاہرہ سے متعلق ہیں فقہ ہو گیا۔

تصوف

شریعت کا وہ جزو جو اعمال باطنہ سے متعلق ہے متاخرین کے نزدیک اس کا نام تصوف ہو گیا۔یہ وہ فن ہے جس کے ذریعے دل کی بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے۔اس کے ذریعے دل کی صحت اور بیماری کا پتہ چلتا ہے اور بیمار دل کا علاج کیا جاتا ہے۔اسی کو حدیث شریف میں احسان کہا گیا اور قُرآن میں لفظ تقویٰ کا مفہوم اس کے قریب تر ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ تقویٰ تو دل کی ایک کیفیت کا نام ہے جو مقصود فی الاعمال ہیں اور تصوف اس کو بلکہ تمام اخلاق حمیدہ کی اصلاح کو حاصل کرنے کا اور اس کے اضداد سے بچنے کا علم و فن ہے۔

طریقت

ان اعمال باطنی کے طریقوں (Procedures)کو جس سے اخلاق حمیدہ حاصل ہوتے ہیں اور اخلاق رذیلہ سے چھٹکارہ حاصل ہوتا ہے ،اس کو طریقت کہتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے کیونکہ مقصد صحت ہے طریقہ نہیں پس جس وقت جن طریقوں سے روحانی اور قلبی صحت کا زیادہ امکان ہو اس وقت ان ہی طریقوں کو طریقت کہا جائے گا۔

حقیقت

طریقت سے جب اعمال کی درستگی ہوتی ہے تو اس سے قلب میں صفائی اور ستھرائی پیدا ہوتی ہے اس سے دل پر بعض اعمال اور اشیاء بالخصوص اعمال حسنہ و سیّہ کے حقائق و لوازمات منکشف ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اور اس کی صفات کا ادراک ہوتا ہے جس سے بندے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان جیسا تعلق ہونا چاہیے اس کا ادراک ہوتا ہے ان علوم و معارف تک سالک کی رسائی کو حقیقت کہتے ہیں۔

معرفت

بندے اور خدا کے درمیان اس تعلق کا ادراک ہی معرفت کہلاتا ہے کہ اس کے ذریعے سالک ہر وقت اپنے حال کے مطابق اللہ تعالیٰ کی منشاء کا بہتر طریقے سے ادراک کرلیتا ہے۔ اس لئے اس صاحب انکشاف کو محقق اور عارف کہتے ہیں اور اس نعمت کو معرفت۔ عارف چونکہ اپنی عجز اور بے ثباتی اور اللہ تعالیٰ کی عظمت کو بھی اچھی طرح جانتا ہے اس لئے باوجود دوسروں سے بہتر جاننے کے اپنے آپ کو ہمیشہ قاصر سمجھتا ہے۔اس کو سمجھنے کے لئے آدم علیہ السلام اور ابلیس کے واقعے کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔

نسبت

نسبت کے معنی تعلق کے ہیں۔یہ تعلق جانبین سے ہوتا ہے۔تصوف کی اصطلاح میں نسبت سے مراد اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندے کا ایسا تعلق ہے کہ اس کی وجہ سے وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنے آپ کو حاضر اور جوابدہ پاتا ہے اور ہمہ وقت اللہ تعالیٰ کو کسی نہ کسی صورت میں یاد کرتا ہے۔اس سے اس کو طاعات اور عبادات کی طرف طبعی رغبت یا ایسی کامل عقلی رغبت کہ وہ اس کی طبعیت ثانیہ بن جائے ہوجاتی ہے اور گناہوں سے اس کو ایسی نفرت ہو جاتی ہے جیسا کہ پیشاب پاخانے سے ہوتی ہے۔ایسے شخص کوہمہ وقت اتباع سنت کی فکر ہوتی ہے۔اس طرح اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کو ایسا قرب حاصل ہو جاتا ہے کہ اس کا معصیتوں سے حفاظت کا انتظام ہوجاتاہے اور طاعات کی توفیقات سے اس کو نوازا جاتا ہے جس پر رضائے الٰہی کا ترتب ہوتا ہے۔اس کے آثار مختلف ہوتے ہیں جن میں خود بخود روحانی تربیت کے اسباب کا بننا ،دینی کاموں کے لئے استعمال ہونا، اہل قلوب کے دلوں میں خود بخود اس کے لئے محبت کا پیدا ہونا اور اس کے پاس بیٹھنے سے اللہ تعالیٰ کا استحضار پیدا ہونا وغیرہ شامل ہیں۔

بیعت

بیعت تصوف کی اصطلاح میں شیخ اور مرُیدکے درمیان معاہدہ ہے کہ شیخ اس کو طریق تعلیم کرے گا اور مرُیداس پر عمل کرے گا۔اس کا مقصد اعمال ظاہری و باطنی کا اہتمام و التزام ہے جس کے لئے مرُیدشیخ کو اپنا نگران دل سے تسلیم کرلیتا ہے اور شیخ اس کو اپنا سمجھ کر اپنی تعلیم اور دعا سے اس کی مدد کا قصد کرتا ہے۔اس کو بیعت طریقت کہا جاتا ہے اور ہمارے بزرگوں کے ہاں بتواتر رائج ہے۔ اس کی شرعی حیثیت سنت مستحبہ کی ہے لیکن اس کی برکت سے فرائض واجبات اور سنن پر عمل نصیب ہوجاتا ہے اور سب سے بڑھ کر بعض خوش نصیبوں کو نسبت حاصل ہوجاتی ہے جس کے سامنے دنیا کی کوئی بھی دوسری چیز کچھ بھی نہیں۔نسبت کو حاصل کرنے کے لئے اپنی تربیت کروانا فرض عین ہے اور بیعت اس کا ایک ذریعہ ہے لیکن سنت مستحبہ ہے۔

شیخ

وہ عارف جو طالبین طریقت( جن کو سالک یا مرُیدکہا جاتا ہے ) کو تعلیم کرنے کا اہل ہو شیخ کہلاتا ہے۔شیخ کی پہچان کے بارے میں تفصیل سے آگے آرہا ہے۔

مرُید

وہ طالب جو شیخ کے ہاتھ پر توبہ کرتا ہے اور اپنی اصلاح کے لئے جو کہ فرض عین ہے یہ عہد کرتا ہے کہ وہ شیخ کی ہر بات کو بلا چون و چرا مانے گا۔

سلسلہ

اس سے مراد صحبت اور اعتماد کا وہ سلسلہ ہے جو موجودہ شیخ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم تک جاتا ہے۔ہند میں چار بڑے سلاسل چل رہے ہیں۔جو کہ چشتیہ ،نقشبندیہ ،قادریہ اور سہروردیہ ہیں۔جس شیخ سے آدمی بیعت ہوتا ہے تو اس کے ساتھ آدمی اس کے سلسلے میں داخل ہوجاتا ہے۔ان سلاسل کی مثال فقہ کے چار طریقوں حنفی ،مالکی ،شافعی اور حنبلی یا طب کے مختلف طریقوں یعنی ایلوپیتھی ،ہومیوپیتھی ،آکو پنکچر اوریونانی حکمت وغیرہ سے دی جاتی ہے۔ان کے اصولوں میں تھوڑا تھوڑا فرق ہے لیکن سب کا نتیجہ وہی روحانی صحت یعنی نسبت کا حاصل کرنا ہے۔

تلوین

احوال کا بدلنا تلوین کہلاتا ہے۔ چونکہ مرُیدکی جب تربیت ہوتی ہے تو اس پر عجیب عجیب انکشافات ہوتے ہیں جس سے اس کے احوال تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ چونکہ یہ ناپختگی کی علامت ہوتی ہے اس لئے سالک اس سے پناہ مانگتا ہے اور تمکین کی تلاش میں رہتا ہے۔ لیکن تمکین کے لئے تلوین لازمی ہے جیسا کہ منزل کے لئے راستے کا قطع کرنا۔چونکہ دوران تلوین مختلف احوال کا غلبہ ہوتا ہے اس لئے سالک گو کہ اس میں معذور ہے اور یہ لوازم طریق میں سے ہے اس لئے ماخوذ نہیں ہوتے۔ لیکن اس حال میں وہ قابل تقلید بھی نہیں ہوتے بلکہ ابھی راہ میں ہوتے ہیں اس لئے مشائخ بھی ان کے لئے تمکین کے انتظار میں ہوتے ہیں۔

تمکین

آخر میں حسب استعداد کسی حالت محمودہ پر استمرار نصیب ہوجاتا ہے اس کو تمکین کہتے ہیں اس وقت تمام اشیاء کے حقوق خوب ادا ہوتے ہیں۔اسی کو توسط اور اعتدال بھی کہتے ہیں صاحب تمکین حق شناس ہوتا ہے اور واصل ہوتا ہے اس لئے قابل تقلید اور مقتدا بننے کا اہل ہوتا ہے۔

سیر الی اللہ

سالک جو ابتدا ءمیں روحانی مریض ہوتا ہے ، علاج کے لئے مرشد کامل کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اور اس میں اطلاع و اتباع کے ذریعے سالک کی روحانی بیماریاں آہستہ آہستہ دور ہورہی ہوتی ہیں۔یہاں تک درجہ ضرورت میں سالک کا دل ان بیمایوں سے پاک ہوجاتا ہے۔یعنی اس کے نفس کا تزکیہ ہوجاتا ہے جس کی طرف قُرآن میں اشارہ ہے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا یعنی بے شک جس نے نفس کو پاک کیا کامیاب رہا۔اس کے ساتھ سالک کا قلب اخلاق حمیدہ سے آراستہ ہوا یعنی اس میں تواضع ،اخلاص ، تفویض، حب الٰہی و حب رسول اور انابت الی اللہ کی صفات پیدا ہوئیں اور اس میں رسوخ حاصل ہوا۔ یعنی ان صفات نے قلب میں جگہ پکڑ لی اور ان کو حاصل کرنے کی تدابیر سے آگاہی ہوئی تو کہا جاتا ہے کہ اس کی سیر الی اللہ کی تکمیل ہوئی۔اس کے بعد سالک کو علم الیقین اور فناءِ تام حاصل ہوجاتا ہے اور شیخ اس کو اکثر اجازت وخلافت دے دیتا ہے۔

سیر فی اللہ

سیر الی اللہ کے بعد قلب کے اندر تزکیہ اور تقویٰ سے ایک خاص جلاء اور نور پیدا ہوتا ہے اور سالک برابر قلب کو ماسواء اللہ سے فارغ کرتا رہتا ہے تو حق تعالیٰ کی ذات و صفات اور افعال نیز حقائق کونیہ اور حقائق اعمال شرعیہ سالک کے دل پر منکشف ہوجاتے ہیں، جس سے اس کا خالق کے ساتھ قرب میں اضافہ ہوتا رہتا ہے اور وہ عین الیقین سے حق الیقین تک سفر کرتا رہتا ہے اس کو سیر فی اللہ کہتے ہیں جس کی کوئی حد نہیں جتنا حصّہ جس نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی استعداد کے مطابق پایا وہ اس کا حصّہ ہے۔موت تک سالک کی یہ سیر جاری رہتی ہے اور تفرید اور تجرید کے ذریعے قرب میں ترقی کرتا رہتا ہے۔اس میں چاہے شیخ سے مرُیدبڑھ جائے۔یہ بھی ممکن ہے۔ اس تمام تفصیل سے یہ بات نوٹ کرنی چاہیے کہ بعض کتابوں میں سیر فی اللہ کے بعد بھی دو سیر لکھی گئی ہیں لیکن حقیقت میں یہ سیر فی اللہ کا ہی حصّہ ہیں۔ان کو الگ بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔جہاں تک شیخ کی نگرانی میں سالک کے سلوک طے کرنے کا تعلق ہے وہ سیرالی اللہ ہے جس کاجاننا ضروری ہے۔سیر فی اللہ سالک اور اللہ کے درمیان کا معاملہ ہے جس کے بارے میں ارشاد ہے

میان عاشق و معشوق رمزے ست

کراماً کاتبین را ہم خبر نیست

چاہے کسی کو اپنے جمال کے مشاہدہ میں مستغرق کردے جو اصطلاح میں "مُسْتَہْلِکِیْن "کہلاتے ہیں یا ان کو مخلوق کی اصلاح پر مامور کرکے صفت بقاء سے متصف کردے جو اصطلاح میں راجعین کہلاتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے جو بھی فیصلہ فرمادے۔ راجعین کو مرشدین بھی کہتے ہیں۔ان کے ظاہر کو عام مخلوق سے خلط ملط کرکے ان کے ذریعے احکام شرعیہ لوگوں تک پہنچاتے ہیں۔

علم الیقین

اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے مستند طریقوں سے کسی کو پتہ چلے کہ زہر سے آدمی مرتا ہے اور آگ اشیاء کو جلاتی ہے۔

عین الیقین

اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے کوئی کسی چیز کو آگ سے جلتا ہوا دیکھتا ہے یا زہر سے مرتا ہوا دیکھتا ہے۔

حق الیقین

اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے خود پر کوئی چیز گزرتی ہے جیسے آگ سے جلا یا زہر سے مرنے لگا تو اس کے لئے وہ حق الیقین ہے۔

حاصل تصوف

حضرت حکیم الاُمت حضرت تھانوی (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں ’’وہ ذرا سی بات جو حاصل ہے تصوف کا ، یہ ہے کہ جس طاعت میں سستی محسوس ہو ،سستی کا مقابلہ کرکے اس طاعت کو کرے ،اور جس گناہ کا تقاضا ہو ،تقاضے کا مقابلہ کرکے اس گناہ سے بچے ،جس کو یہ بات حاصل ہوگئی اس کو پھر کچھ بھی ضرورت نہیں کیونکہ یہی بات تعلق مع اللہ پیدا کرنے والی ہے اور یہی اس کی محافظ ہے اور یہی اس کو بڑھانے والی ہے۔‘‘ صحبت صالحین کے فوائد۔ سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے جو دعا تلقین فرمائی ہے اس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں۔ اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمْ وَلَا الضَّآ لِّیۡنَ ٪ اس میں ہم اللہ تعالیٰ سے مانگتے ہیں کہ اے اللہ ہمیں سیدھا راستہ عنایت فرما۔راستہ ان لوگوں کا جن پر تو نے انعام کیا ہے نہ کہ ان لوگوں کاراستہ جن پر تیرا غصّہ ہے اور نہ ان کا جو گمراہ ہوچکے ہیں۔انعام کن لوگوں پر ہوچکا ہے ان کے بارے میں ارشاد ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو انبیاء ہیں ،صدّیقین ہیں،شھداء ہیں اور صالحین ہیں۔نبوت کا سلسلہ ختم ہو چکاہے اور باقی تینوں ہر زمانے میں موجود رہیں گے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنْ یعنی صادقین کے ساتھ ہوجاؤ۔ صادقین کے ساتھ ہونے کا چونکہ حکم الٰہی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ قیامت تک صادقین پیدا کرتے رہیں گے۔شھداءبھی ہر دور میں ہیں اور صالحین بھی۔ صرف کتاب کے ذریعے حق اور باطل کا واضح ہونا بھی بہت مشکل ہے۔اگر یہ واضح ہوبھی جائے تو عمل کی توفیق اکثر تب ملتی ہے جب صالحین کی صحبت میسر ہو کیونکہ انسان پر صحبت کا اثر لازم ہے۔ ایک حدیث شریف ہے کہ بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر والدین اس کو یہودی یا نصرانی بنادیتے ہیں۔اس لئے صالحین کی صحبت کے حاصل کرنے پر بہت زور ہے اور اس کے بالمقابل صحبت بد سے بچنے کی تلقین بھی کی گئی ہے۔بقول مولانا روم (رحمۃ اللہ علیہ)

یک ساعت در صحبتے بااولیاء

بہتر از صد سالہ طاعت بے ریاء

اللہ والوں کی تھوڑی دیر کی صحبت سو سالہ بے ریاءطاعت سے بہتر ہے۔نیکوں کی صحبت اگر ایک گھڑی بھی نصیب ہو جائے تو وہ سو سالہ زہد و طاعت سے بہتر ہے۔ صحبت صالح کی مثال عطار کی دی گئی ہے کہ اور کچھ نہ ہو تو بھی عطر کی خوشبو تو نصیب ہوہی جاتی ہے۔ اور صحبت بد کی مثال لوہار کی دکان سے دی گئی ہے کہ اور کچھ نہ بھی ہو تودھواں تو پریشان کر تاہی ہے۔اس لئے انسان کو ہمیشہ اپنی صحبت کا خیال رکھنا چاہیے نہیں تو نتیجہ بہت خراب ہوسکتا ہے۔بقول مولانا روم (رحمۃ اللہ علیہ)

صحبت صالح ترا صالح کند

صحبت طالح تر ا طالح کند

مطلب یہ ہے کہ نیک آدمی کی صحبت تم کو نیک بنا دے گی ،اسی طرح بد بخت کی صحبت تم کو بد بخت بنا دے گی۔جو شخص خدا تعالیٰ کی ہم نشینی کا طالب ہو تو اس کو اولیائ کرام کی صحبت میں بیٹھنا چاہئے۔ صحبت ِنیکاں کے متعلق یہ قطعہ بہت عجیب اور مناسب ہے

رسید از دستے محبوبے بدستم

کہ از بوئے دل آویز تو ہستم

یعنی حمام میں ایک دن محبوب کے ہاتھ سے ایک خوشبو دار مٹی مجھ کو ملی ،میں نے اس سے کہا کہ تو مشک ہے کہ عنبر کہ تیری دل آویز خوشبو سے میں مست ہو گیا ہوں۔ اس نے جواب دیا کہ میں ناچیز اور معمولی مٹی ہی تھی مگر ایک مدت تک پھول کے ساتھ میری صحبت رہی۔میرے ہم صحبت کی خوبی نے مجھ پر اثر کیا۔ورنہ میں تو وہی خاک ہوں جیسی کہ پہلے تھی۔

ضرورت شیخ

جیسا کہ بتایا گیا کہ نیک ہونے کے لئے نیکوں کی صحبت ضروری ہے۔یہ ایک عام بات ہے جس کو ہر ایک جانتا ہے۔لیکن باقاعدہ تربیت کے لئے کسی ایک نیک کے ساتھ شخص جس کو تربیت کا فن بھی آتا ہو اور اس کی صحبت میں برکت بھی ہو ، تعلق ہونا ضروری ہوتا ہے۔عادت اللہ یوں ہی جاری ہے کہ کوئی کمال استاد سے سیکھے بغیر حاصل نہیں ہوتا پس جب اس راہ طریقت میں آنے کی توفیق ہو تواستاد ِطریق کو ضرور تلاش کرنا چاہئے۔جس کے فیض، تعلیم ،برکت وصحبت سے مقصود حقیقی تک پہنچے گا-

دامنِ رہبر بگیر و پس بیا

یعنی اے دل اگر اس سفر کی خواہش ہو تو رہبر کا دامن پکڑ کر چلو۔اس لئے کہ جو بھی عشق کی راہ میں بغیر رفیق کے چلا اس کی عمر گذر گئی اور وہ عشق سے آگاہ نہ ہوا۔ چنانچہ حضرت حکیم الاُمت فرماتے ہیں کہ ’’بھلا نری کتابوں سے بھی کوئی کامل مکمل ہوا ہے۔موٹی بات ہے کہ بڑھئی کے پاس بیٹھے بغیر کوئی بڑھئی نہیں بن سکتا۔حتٰی کے بسولہ بھی بطور خود ہاتھ میں لے کر اٹھائے گا تو وہ بھی قاعدہ سے نہ اٹھایا جا سکے گا۔بلا درزی کے پاس بیٹھے سوئی پکڑنے کا انداز بھی نہیں آتا۔بلا خوشنویس کے پاس بیٹھے اور بلا قلم کی گرفت اور کشش دیکھے ہر گز کوئی خوش نویس نہیں بن سکتا۔ایسی ہستی اگر کسی کو میسر ہو تو اس کو اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت سمجھ کر ان سے استفادہ کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔اسی ہستی کو طریقت میں شیخ کہتے ہیں۔ ویسے تو شیخ عربی میں بوڑھے کو کہتے ہیں لیکن اس سے مراد رہبر کامل ہے جس کا ہاتھ پکڑنے سے مقصود حاصل ہونے کی قوی امید ہوتی ہے‘‘۔

مشائخ سے کیا پوچھنا چاہیے ؟

بعض حضرات کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ جب کتابوں میں سب کچھ لکھا جاچکا ہے اور یہ معلوم ہو چکا ہے کہ جو چیز اختیاری ہے اس کے لئے ہمت سے کام لینا چاہیے اور جو اختیار میں نہیں اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے نیز مقصود اور غیر مقصود کا پتہ بھی لگ گیا توپھر شیخ کی کس لئے ضرورت ہے یا ان کی صحبت تو مفید ہے لیکن اس سے کن چیزوں کے بارے میں پوچھنا چاہیے؟ ایک طالب کے جواب میں حضرت تھانوی(رحمۃ اللہ علیہ) نے جو تحریر فرمایا اس کا لب لباب یہاں دیا جاتا ہے۔حضرت کے جواب کا مفہوم یہ ہے مقاصد ،یعنی جن کے کرنے کا حکم ہے یا جن سے رکنے کا حکم ہے وہ سب اختیاری اعمال ہیں۔باوجود اس کے سمجھ جانے کے کچھ غلطیاں سالک سے ایسی ہوسکتی ہیں کہ اصل مقصود حاصل نہیں ہوپاتا۔ مثلاً کبھی تو کوئی مقام حاصل ہوچکا ہوتا ہے اس کو غیر حاصل سمجھتا ہے مثلاً کسی کو مجاہدے سے خشوع کا مقصود درجہ حاصل ہوچکا ہے لیکن اس کو غیر اختیاری وساوس پیش آرہے ہیں اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ ابھی مجھے خشوع حاصل نہیں اور اس کے غم میں کڑھ رہا ہے۔ دوسری طرف بعض اوقات جو مقام حاصل ہوچکا ہوتا ہے وہ بدپرہیزی کی وجہ سے باقی نہیں رہتا لیکن یہ غفلت کی وجہ سے اس کا ادراک نہیں کررہا ہوتا ہے۔ مثلاً پہلے اس کو خشوع کا مقصود درجہ حاصل تھا لیکن اب یہ وساوس سے متاثر ہوکر اس میں اپنا ارادہ بھی شامل کرتا ہے جس سے وساوس غیر اختیاری نہیں بلکہ اختیاری بن جاتے ہیں لیکن سالک ان کو غیر اختیاری سمجھ رہا ہوتا ہے۔کبھی سالک کو یہ غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ اس نے کسی رذیلہ پر قابو پالیا ہے اس لئے وہ اس سے بے فکر ہوجاتا ہے حالانکہ موقع پر پتہ چل جاتا ہے کہ ایسا نہ تھا۔ مثلاً دو چار خفیف حادثوں میں رضا ءبالقضا ءکا احساس ہوا یہ سمجھا کہ رضا کا مقام حاصل ہوگیا ہے پھر کوئی بڑا حادثہ واقع ہوا اور اس میں رضا ءنہیں ہوئی ،یا درجہ مقصود تک نہیں ہوئی مگر یہ اسی دھوکے میں رہا کہ رضا ءحاصل ہے۔ اس طرح حاصل کو غیر حاصل سمجھنے میں یہ خرابی ہوتی ہے کہ مایوس ہو کر سالک کی ہمت جواب دے جاتی ہے اور اس کے حاصل کرنے کی کوشش ترک کردیتاہے پھر وہ حاصل کردہ نعمت بھی سچ مچ زائل ہو جاتی ہے۔ اور غیر حاصل کو حاصل سمجھنے میں یہ خرابی ہوتی ہے کہ اس کا اہتمام ہی نہیں کرتا اور محروم رہتا ہے۔غیر راسخ کو راسخ سمجھنے میں یہ خرابی ہوتی ہے کہ سالک تکمیل کا اہتمام ترک کردیتا ہے اور راسخ کو غیر راسخ سمجھنے کا نتیجہ پریشانی اور تعطل ہوتا ہے۔ مثلاً شہوت حرام کا مقابلہ کیا اور نئے نئے ذکر کی وجہ سے عالم شوق میں شہوت حرام کا تقاضا ایسا دب گیا کہ اس کی طرف التفات بھی نہیں ہوتا تھا۔ پھر ان آثا رکا جوش و خروش کم ہونے سے طبعی التفات گو درجہ ضعیفہ میں سہی ہونے لگا ،یہ شخص سمجھا کہ سارا مجاہدہ بے کار گیا پھر اصلاح سے مایوس ہو کر سچ مچ شہوت حرام میں مبتلا ہو گیا۔ہزارہا مثالیں دی جاسکتی ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ محض معلومات سے عمل حاصل نہیں ہوتا۔ بلکہ اس نظام اصلاح کی ایک عملی ترتیب ہوا کرتی ہے جس پر عمل اس وقت ہوسکتا ہے جب سالک کسی شیخ کی نگرانی میں ہو۔ اور اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ مر ید کو شیخ سے اپنی اصلاح کے لئے کیسے رابطہ رکھنا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ مرُید کو اپنا حال جو کچھ بھی ہے بلاکم و کاست اچھا ہے یا برا شیخ کو بتانا چاہیے۔سالک کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی چیز پر اچھے یا برے کا حکم لگا دے۔ یہ کام شیخ کا ہے کہ واقعات اور احوال کے تسلسل میں اس کو کیا سمجھتا ہے ؟وہ چاہے مرُیدکو اس کے بارے میں بتائے یا بغیر بتائے اس کو ایسا طریقہ بتادے کہ اس پر عمل کرنے سے اس کی بری حالت اچھی میں بدل جائے یا اچھی حالت میں مزید ترقی ہو۔ بعض دفعہ سالک کو علم تو ہوتا ہے لیکن تجربہ نہیں ہوتا اور اصلاح میں تجربہ کی افادیت سے کون منکر ہے؟ بعض دفعہ سالک اپنے لئے کوئی اچھی چیز تجویز بھی کرسکتا ہے لیکن اپنے نسخے پر عمل سے اس کو اطمینان نہیں ہوتا اور تشویش میں مبتلا رہتاہے۔شیخ سے جو بات معلوم ہوتی ہے اس سے تشویش ختم ہوجاتی ہے جو کہ یکسوئی کا ذریعہ ہوتا ہے۔ نیز طالب اگر مخلص ہے تو شیخ کی عدم موجودگی میں اپنے لئے مشکل طریقہ پسند کرسکتا ہے۔کیونکہ وہ جلد اصلاح چاہے گا جس کا تقاضا مجاہدہ زیادہ کرنا ہوگا۔حالانکہ یہ عین ممکن ہے کہ وہ اپنی برداشت کا صحیح اندازہ نہ لگا سکے اور اپنی حیثیت سے بڑھ کر مجاہدہ کرکے اور اس میں ناکام ہوکر ہمیشہ کے لئے مایوس ہوجائے۔جبکہ تجربہ کار شیخ راستے کی مشکلات کو جانتے ہوئے اس کی استعداد اور حالات کے مطابق زیادہ آسان طریقہ تعلیم کرے گا۔ جس سے مقصود میں کامیابی ہوگی اور بشاشت حاصل کرکے مزید ترقی کا بھی اہل ہوگا۔ جب کوئی سالک کام شروع کر کے شیخ کو اپنے احوال کی بالا لتزام اطلاع کرتا رہے اور اس کے مشورہ کی اتباع کرتا رہے اور یہ اتباع کامل اس وقت ہو سکتی ہے جب اس پر اعتماد ہو اور اس شیخ کی بات کے ماننے کا خود کو پابند کرے تو اس وقت اس کو محسوس ہوگا کہ شیخ کے بغیر مقصود تک رسائی عادۃتقریباً ناممکن ہے۔

شیخ کامل کی پہچان

شیخ کے بارے میں جب معلوم ہوا کہ اس کی صحبت کتنی اکثیرہے اور بغیر اس کی رہبری کے مقصود پانا بہت مشکل ہے تو یہ بھی لازم ہوگیا کہ شیخ کامل کی پہچان ہو۔ کیونکہ خدا نخواستہ کسی دنیادار یا اناڑی شیخ کے ہاتھ میں ہاتھ دے دیا تو اس کی مثال یوں ہوگی کہ کوئی اپنی گاڑی کے لئے اناڑی ڈرائیور یا کسی ڈاکو کا انتخاب کرلے۔ الحمد للہ بزرگوں نے اس کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے شیخ کامل کی پہچان کی نشانیاں کھول کھول کے بیان کی ہیں جو یہاں درج کی جاتی ہیں۔ شیخ وہ ہے جو امراضِ باطنہ اور اخلاق رذیلہ و حمیدہ سے پوری واقفیت رکھتا ہو اور سالک سے جو غلطیاں ہوسکتی ہوں ان کو بھی جانتا ہو اور ایسے غلطی کرنے والوں کی اصلاح بھی کرسکتا ہو۔ نیز سلوک کے مختلف مراحل میں عُروج و نُزول سے واقف ہو اور نفس و شیطان کے اثرات اور ملکوتی اور ربانی تصرّفات کی پوری واقفیت رکھتا ہو کہ ان کے درمیان تمیز کر سکے۔اسلئے شیخ کا صاحب فن اور صاحب ذوق اور مجتہد ہونا ضروری ہے۔اگر طریق کو محض کتب تصوف دیکھ کر یا لوگوں سے سن کر حاصل کیا ہو اور تربیت کرنے کے لئے بیٹھ گیا ہوتو وہ مرُیدکے لئے مہلک ہے۔ اس لئے کہ وہ طالب اورسالک کے حالات ا ور واردات و تغیرِ حالات کو نہیں سمجھتا جس کو ابن عربی (رحمۃ اللہ علیہ) نے شیخ کی علامات میں مختصراً تین چیزوں پر موقوف کیا ہے یعنی یہ کہ شیخ میں
(۱) دین انبیاء کا سا ہو۔۔ (۲) تدبیر اطباء کی سی ہو۔۔ (۳) سیاست بادشاہوں کی سی ہو
جس کی تفصیل یہ ہے
(1) اتنا علم رکھتا ہوکہ اس سے روزمرہ کے کام شریعت کے مطابق ہوسکیں خواہ کسی عالم سے پڑھا ہوا ہو یا صحبت ِعلماء محققین سے حاصل کیا ہو۔
(2) کسی شیخ کامل صحیح السلسلہ سے مجاز ہو۔
(3) خود متقی پرہیزگار ہو یعنی ارتکاب کبائر سے اور صغائر پر اصرار سے بچتا ہو۔
(4) وقت کے اہل علم و فہم اس کو اچھا سمجھتے ہوں اور اس کی طرف رجوع کرتے ہوں۔
(5) اس کی صحبت سے آخرت کی رغبت، محبت الٰہی کی زیادتی اور محبت دنیا سے نفرت محسوس ہوتی ہو۔
(6) اس کے مریدین میں سے اکثر کی حالت شریعت کے مطابق ہوتی جاتی ہو۔
(7) مریدین کو آزاد نہ چھوڑے بلکہ جب انکی کوئی نا مناسب بات دیکھے یا معتبر ذریعے سے معلوم ہو تو روک ٹوک کرے اور ہر ایک کو اس کی استعداد اور حال کے مطابق سمجھایا کرے۔ہر ایک کو ایک ہی لکڑی سے نہ ہانکے یعنی موقعہ شناسی اور مردم شناسی کی صفت سے بہرہ ور ہو۔
جس میں یہ علامات موجود ہوں اس کی صحبت کو اپنے لئے اکسیر اعظم سمجھے وہ شخص اس قابل ہے کہ اس کو شیخ بنایاجائے اور اس کی زیارت و خدمت کو اپنے لئے سعادت سمجھے۔ ان کمالات و علامات کے بعد پھر شیخ کامل میں کشف و کرامات، تصرف و خوارق وغیرہ کو ہر گز نہ دیکھے کہ ان کا ہونا شیخ کامل کے لئے ضروری نہیں۔

مناسبتِ شیخ

یہ امر تجربے سے ثابت ہو چکا ہے کہ فیوض باطنی کے لئے پیر و مرُیدکی باہمی مناسبتِ فطری شرط ہے۔کیونکہ نفع عادتاً الفت پر موقوف ہے۔جومناسبتِ فطری کی حقیقت ہے اور یہی مناسبت ہے جس کے نہ ہونے پر مشائخ طالب کو اپنے پاس سے بعض دفعہ دوسرے شیخ کے پاس جس کے ساتھ مناسبت ،ظن یا کشف سے معلوم ہو بھیج دیتے ہیں۔ کیونکہ اس طریق میں مصلح کے ساتھ مناسبت ہونا بڑی ضروری چیز ہے۔ مناسبت کے بغیر طالب کو نفع نہیں ہو سکتا اور مناسبت شیخ جو فیض لینے اور دینے کا مدار ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ شیخ سے مرُیدکو اس قدرانس ہو کہ شیخ کے کسی قول و فعل سے مرُیدکے دل میں طبعی نکیر پیدا نہ ہو گو عقلی پیدا ہو۔یعنی شیخ کی سب باتیں مرُیدکو پسند ہوں اور شیخ کو مرُیدسے انقباض نہ ہو اور یہی مناسبت بیعت کے لئے شرط ہے۔لہٰذا پہلے مناسبت پیدا کرنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔کہ اس کی سخت ضرورت ہے جب تک یہ نہ ہو مجاہدات، ریاضت مراقبات و مکاشفات سب بیکار ہیں۔کوئی نفع نہ ہو گا۔ اگر طبعی مناسبت نہ ہو تو عقلی پیدا کر لی جائے، اس پر نفع موقوف ہے۔اس لئے جب تک پوری مناسبت نہ ہو بیعت نہیں کرنی چاہئے۔

شیخ کامل کی صحبت کے فوائد

(1) شیخ کے اندر جو چیز ہے وہ آہستہ آہستہ مرُیدکے اندر آجاتی ہے۔

(2) اصلاح کامل نہ بھی ہو تو کم از کم اپنے عیوب نظر آجائیں گے جو اصلاح کی کنجی ہے۔

(3) آہستہ آہستہ مرُیدپر شیخ کا رنگ چڑھتا جاتا ہے جس سے وہ شیخ کے اخلاق و عادات میں اتباع کرنے لگتا ہے۔شیخ کی صحبت میں جو افادات زبانی سننے میں آتے ہیں وہ یا تو شیخ کے عمر بھر کے تجربے کا نچوڑ ہوتا ہے جس کا مفید ہونا ظاہر ہے یا شیخ کے قلب پر مریدین کے لئے ان کے مناسب مضامین القاء کئے جاتے ہیں جو تیر بہدف ثابت ہوتے ہیں۔

(4) شیخ کے سامنے اپنا ہیچ ہونا مکشوف ہوجاتا ہے جو تواضع کی کنجی ہے۔

(5) اہل محبت کی صحبت سے مرُیدکے دل میں بھی محبت پیدا ہوجاتی ہے۔

(6) مشائخ اعمال صالحہ کی وجہ سے بابرکت ہوتے ہیں اس لئے ان کی تعلیم میں برکت ہوتی ہے اس کے مقابلے میں خود کتابیں دیکھ کر علاج کرنا مفید نہیں ہوتا۔

(7) مقبولین ِالٰہی کی صحبت میں اگر آدمی اخلاص کے ساتھ رہ رہا ہو تو یاتو اس کی حالت اچھی ہوگی یا بری۔اگر اچھی ہوگی تو اس سے یہ حضرات خوش ہوں گے اور دل سے ان کے لئے دعا گو ہوں گے جس سے ان کو مزید ترقی حاصل ہوگی اور اگر ُمریدکی حالت بری ہے تو شیخ کو اس پر شفقت ہوگی وہ اس کی اصلاح کریں گے تعلیم سے اور دعا سے۔ اس لئے صحبت سے ہر صورت فائدہ ہوا۔

(8) مرُیدجب شیخ کی صحبت میں ہوتا ہے تو شیخ کے کمالات اس پر ظاہر ہوتے ہیں اور دین پر چلنے کا جو سلیقہ ان کو عطا ہوتا ہے وہ مرُیدکو بھی صحبت سے آہستہ آہستہ ملنے لگتا ہے۔ دوسری طرف شیخ پر مرُیدکے عیوب منکشف ہوتے رہتے ہیں اس لئے وہ مرُیدکے بارے میں بہتر سے بہتر رائے قائم کر لیتے ہیں جس سے مرُیدکی اصلاح کافی تیز ہوجاتی ہے۔

(9) ان حضرات کے دل خدا کی یاد سے روشن ہوتے ہیں۔ان کے پاس رہنے سے وہ نور آہستہ آہستہ مرُیدکے دل میں بھی آجاتا ہے۔نور جب آتا ہے تو ظلمت ختم ہوجاتی ہے اس لئے مرُیدپر اپنی حیثیت اور اللہ تعالیٰ کی عظمت منکشف ہونے لگتی ہے جس سے اس کی قلبی بیماریوں کی اصلاح خود بخود ہونے لگتی ہے اور اس کے اشکالات حل ہونے لگتے ہیں۔

(10) شیخ کی خدمت میں رہ کر بزرگوں کی خدمت کا موقع مل جاتا ہے۔بعض دفعہ قبولیت کی کوئی ایسی گھڑی مل جاتی ہے جس میں شیخ کے دل میں اس کے لئے ایسے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں جس سے یہ بہت جلدی واصل ہوجاتا ہے۔

(نوٹ )

شیخ کی صحبت کو حاصل کرنے پر حریص ہونا اچھی بات ہے جیسا کہ اوپر ذکر ہوا لیکن یہ اس صورت میں فائدہ مند ہوتی ہے جب اس سے شیخ کو تکلیف نہ دی جائے اور اس کے مزاج کے مطابق ان مواقع میں حاصل کی جائے جو مواقع شیخ نے مریدین کے لئے کسی ضابطے کے مطابق مقرر کئے ہیں۔ ورنہ مریدین کے لئے شیخ کی صحبت کو حاصل کرنے کی وہ کوششیں جس سے شیخ کو تکلیف ہو سخت مضر ہے۔اس لئے شیخ کے مزاج کی اچھی طرح تحقیق کی جائے کہ وہ مریدین کو اپنی صحبت کس طرح میسر کرنا چاہتے ہیں ،بس اسی طرح اس کو حاصل کیا جائے۔ان میں جو اوقات میسر ہوں تو اس وقت اپنے تقاضوں کو اگر ممکن ہو آگے پیچھے کرکے شیخ کی صحبت سے زیادہ سے زیادہ مستفید ہونے کی کوشش کی جائے۔

بیعتِ طریقت

جب کسی شیخ کامل کا پتہ چل جائے اور ان کے بارے میں اطمینان ہوجائے اور وہ شیخ بھی تربیت کرنے پر آمادگی کا اظہار فرمائے تو اس کے لئے ایک معاہدہ بہت مفید ہوتا ہے جس کو بیعت ہونا کہتے ہیں۔اس کا طریقہ یہ ہے کہ اس باشرع صاحبِ سلسلہ شیخ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر یہ عہد کیا جائے کہ اپنی تربیت کے لئے صرف اسی شیخ کے ساتھ رابطہ رکھوں گا اور شیخ اس کی تربیت کا ارادہ کرے۔یہ سنت مستحبہ ہے۔اس کے ذریعے اکثر وہ نعمت عظیم جس کو نسبت کہتے ہیں حاصل ہو جاتی ہے۔ آنحضرت صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم نے صحابہ(رضی اللہ عنہ) کو مخاطب فرما کر علاوہ بیعت ِجہاد و بیعت اسلام کے التزامِ احکام و اہتمامِ اعمال کے لئے بیعت فرمایا ہے متعدد احادیث سے ثابت ہے جیسا کہ عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث ہے : عن عوف ابن مالک الاشجعی(رضی اللہ عنہ) قال کنا عند النبی صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم تسعۃ او ثمانیۃ او سبعۃ فقال الا تبایعون رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم فبسطنا ایدینا وقلنا علیٰ ما نبایعک یا رسول اﷲ قال ان تعبدوا اﷲ ولا تشرکو ا بہٰ شئیا وتُصَلُّوْا صلوات الخمس وتسمعوا و تطیعوا (الحدیث اخرجہ مسلم و ابو داؤد و نسائی )

یعنی حضرت عوف ابن مالک اشجعی (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ ہم لوگ نبی کریم صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے۔نو آدمی تھے یا آٹھ یا سات۔ ارشاد فرمایا کہ تم رسول اللہ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم سے بیعت نہیں کرتے ؟ہم نے اپنے ہاتھ پھیلا دئیے اور عرض کیا کہ کس امر پر آپ صلی اللہ علیہ والہ سلم کی بیعت کریں یا رسول اللہ صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ان امور پر کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک مت کرو اور پانچوں نمازیں پڑھو اور احکام سنو اور مانو۔ (روایت کیا اس کو مسلم ،ابو داؤد و نسائی نے)


اس بیعت میں آنحضرت صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو خطاب کیا کہ یہ نہ بیعت اسلامی تھی نہ بیعت جہادی۔لہٰذا اس حدیث میں بیعت مروجہ فی المشائخ کا صریح ثبوت ہے۔جس طرح فقہ میں چار سلسلہ ہیں ،حنفی ،شافعی ،مالکی ،حنبلی اسی طرح فن تصوف میں بھی چار سلسلہ ہیں چشتیہ،قادریہ،نقشبندیہ،سہر وردیہ۔جس صاحب کو جس سلسلہ کے ساتھ بھی مناسبت ہو اس کے ذریعے اس کو نسبت حاصل ہوسکتی ہے۔ کافی تو ایک ہی سلسلہ ہوتا ہے لیکن ہمارے اکابر چاروں سلسلوں میں بیعت فرماتے ہیں تاکہ سب کا ادب ملحوظ رہے اور سلاسل کے تقابل سے، جیسا کہ بعض مغلوب الحال لوگ کرتے ہیں محفوظ رہے۔

حقیقت ِبیعت

بیعت جو کہ اپنے اندر بیع کا معنی لئے ہوئے ہے شیخ کے ہاتھ بک جانا ہے۔ جس میں اپنے کو شیخ کے ہاتھ احکام ظاہرہ و باطنہ کے التزام کے واسطے گویا بیچ دیا۔ جس کی حقیقت یہ ہے کہ طالب کو اپنے شیخ پر پورا اعتقاد اور کلی اعتماد ہو کہ یہ میرا خیر خواہ ہے جو مشورہ دے گا وہ میرے لئے نہایت نافع ہو گا۔اس پر پورا اطمینان ہو۔اس کی تجویز و تشخیص میں دخل نہ دے۔یوں یقین رکھے کہ دنیا بھر میں میری جستجو اور میری تلاش میں میرے نفع کے لئے اس سے بڑھ کر کوئی نہیں۔اس کو اصطلاح تصوف میں وحدتِ مطلب کہا جاتا ہے۔ اس کے بغیر بیعت ہونا نافع نہیں۔کیونکہ اصلاح نفس کے لئے شیخ سے مناسبت شرط ہے اور مناسبت کی پہچان یہی ہے کہ اس کی تعظیم اور قول و فعل اور حال پر قلب میں اعتراض نہ ہو۔بالفرض اگر قلب میں اعتراض آئے تواس سے رنجیدہ ہو ،اورگھٹن محسوس کرے۔عوام کے لئے بیعت کی صورت البتہ نافع ہوتی ہے۔بیعت سے ان کے قلب پر ایک عظمت اور شان ،شیخ کی طاری ہو جاتی ہے ۔جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ اس کے قول کو با وقعت سمجھ کر اس پر عمل کرنے کے لئے مجبور ہو جاتا ہے۔خواص کے لئے کچھ مدت کے بعد بیعت نافع ہوتی ہے۔بیعت سے جانبین میں ایک خلوص اور تعلق پیدا ہو جاتا ہے۔ شیخ سمجھنے لگتا ہے کہ یہ ہمارا ہے اور ُمریدسمجھتا ہے کہ یہ ہمارے ہیں۔ ڈانواں ڈول حالت نہیں رہتی۔

بیعت کرنے کا طریقہ

شیخ مرُیدکے داہنے ہاتھ کو اپنے داہنے ہاتھ میں لے کر بیعت کرتا ہے۔اور کثیر مجمع کو بذریعہ رومال ،چادر وغیرہ بیعت کیا جاتا ہے۔اور مستورات کو پردہ کے پیچھے کہ وہاں ان کا کوئی محرم بھی ہو رومال وغیرہ سے بیعت کیا جاتا ہے۔جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ : عن عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہمَا مَسّ رسول اﷲصلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم ید امراۃٍ قط اِلاّ اَنْ یاخذ علیھا فاذا اخذ علیھا فا عطتہ قال اذھبی فقد با یعتکَ رواہ الشیخان و ابو داؤد۔ اس سے ثابت ہوا کہ بدون عورت کا ہاتھ ہاتھ میں لئے آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم معاہدہ فرماتے تھے پھر فرماتے میں نے تم کو بیعت کر لیا ہے۔اس لئے مشائخ میں عورتوں کو بغیر ہاتھ میں ہاتھ لئے زبانی طور پر یا کسی کپڑے وغیرہ سے بیعت کرنا معمول ہے۔ یہ بیان تو شیخ کی خدمت میں حاضر ہو کر بیعت ہونے کا ہے اور جو شخص شیخ کی خدمت میں نہ پہنچ سکے وہ وہیں سے بذریعہ خط و کتابت، ٹیلی فون یا بواسطہ شخصِ معتبر بیعت ہو سکتا ہے اور اس کو بیعت عثمانی کہا جاتا ہے ،جیسا کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ والہٰ وسلم نے بموقع بیعت رضوان حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی غیر موجودگی میں اپنے بائیں ہاتھ پر دائیں دستِ مبارک کو رکھ کر فرمایا کہ میں نے عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو بیعت کر لیا۔

بیعت کے وقت تعلیم

مریدین کو یہ بتانا چاہیے کہ

(1) ہروقت اللہ تعالیٰ پر نظر ہو ، عبادت صرف اس کی ہو ،مانگنا صرف اس سے ہو ، اسی کو راضی کرنے کے لئے تمام کوششیں ہوں اور ہر حال میں اس سے راضی ہوں۔

(2) خوشی غمی یعنی ہر حال میں سنت کی تلاش اور اس پر عمل ہو۔ جس پر عمل نہ ہوسکے اس پر دل سے ند امت اور استعفار ہو۔ اپنی ہر رائے کو سنت کے مقابلے میں بودی اور نکمی سمجھنا اور سنت پر عمل کرنے اور اس کو پھیلانے کا عزم ہی اپنا شیوہ ہو۔

(3) تمام عبادات میں سنت طریقے کو جاننے کی اور پھر اس پر عمل کرنے کی کوشش ہو۔ معاملات کی صفائی کا خیال اور اہتمام ہو۔ا پنی معاشرت کو شریعت کے مطابق ڈھالنے کا عزم ہو۔ اور دل کے روحانی امراض مثلاً تکبر، عجب اور حسد وغیرہ کا علاج کرکے روحانی فضائل مثل تواضع ،تفویض اور اخلاص وغیرہ سے مزین کرنے کی نیت ہو اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ سے مدد کا خواستگار ہو نیز ہر وقت اپنی اصلاح کادھن اور اپنے رب کا دھیان ہو۔

(4) شریعت اور طریقت کو ایک سمجھا جائے۔ شریعت پر چلنے کے عزم کے ساتھ وقتی طور پر ماحول کی مشکلات کی پیش نظر اور شریعت پر چلنے کی منصوبہ بندی کی خاطر کچھ شرعی ضروریات کو آگے پیچھے کرنا پڑے تو اس کے لئے شیخ سے رابطے کی کوشش کی جائے تاکہ اس سلسلے میں رہنمائی حاصل ہوسکے کیونکہ یہ کام بہت نازک ہے۔

(5) شیخ کے بتائے ہوئے ذکر کی پوری پابندی کی جائے اور اگر اس میں کوئی مسئلہ یا مشکل پیش آرہی ہو تو شیخ کو اس کی اطلاع کی جائے۔

(6) نماز وں کی قضا اس طرح کرنا کہ ہر وقت کی نمازکے ساتھ نماز سے پہلے یا بعد اسی وقت کے قضا کے صرف فرض ادا کرنا اور عشاء میں وتر بھی اور فرصت اور ہمت کے ساتھ یا ایک دن میں کئی کئی وقت یا کئی کئی دن کی نمازوں کو ادا کر لینا۔اس طرح قضا شدہ روزوں اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا اہتمام کرنا،حج فرض ہو تو اس کی تیاری کرنا۔

(7) کسی کا مالی حق اپنے ذمے ہو اس کو ادا کرنا یا معاف کرانا۔

(8) بدنظری سے ایسے بچتا ہو جیسے سانپ بچھو سے۔ جن اخبارات اور رسائل میں تصویریں ہوں کوشش کی جائے کہ ان کو نہ پڑھا جائے۔ اگر کسی وجہ سے پڑھنا پڑھ جائے تو اس کا خیال رکھا جائے کہ تصویریں نہ دیکھیں۔ اسی طرح گانا سننے سے سخت پرہیز کیا جائے اگر روکنے پر قادر نہ ہوں تو "یا ھادی یا نور لاحول ولا قوۃ الا باﷲ" پڑھیں تاکہ اس کے شیاطین آپ کے اوپر حاوی نہ ہوں۔

(9) ہر قسم کے مال حرام سے بچتا ہو۔ سوال اور اشراف نفس ، نمود و نمائش ، شرکیہ اور بدعتی رسومات ، بے صبری اور ناشکری سے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کے لئے ایسی کتابیں پڑھنی چاہیئں جس میں ان چیزوں کی مذمت مؤثر انداز میں کی گئی ہو۔

(10) والدین کے تمام جائز حقوق کو پورا کرنے کی کوشش کرتا ہو۔ ان کی ناجائز باتوں سے اگر کسی کو تکلیف ہورہی ہو تو ان کو نہ ماننا چاہیےلیکن ادب اور خدمت کو نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اگر کوئی مشکل صورت ہو تو شیخ کے ساتھ مشورہ کرنا چاہیے اس کے علاوہ شیخ جو بھی تعیم فرمائے تو اس پر عمل کرنا۔اپنے احوال سے شیخ کو وقت پر ان کے پسندیدہ طریقے پر آگاہ کرنا اور اس کے مطابق پھر عمل کرنا۔اطلاع اور اتباع کا سلسلہ تا اصلاح جاری رہنا چاہیے۔

مرشد کے حقوق

(1) یہ اعتقاد رکھے کہ میرا مطلب اسی شیخ سے حاصل ہوگا اس لئے صرف اسی کی طرف متوجہ رہے اور اگر کسی اور سے جاگتے میں یا خواب میں فائدہ محسوس ہو تو اس کو بھی اپنے شیخ ہی کی برکت سمجھے۔

(2) اپنے شیخ کے ساتھ محبت کرے کیونکہ شیخ کے ساتھ عقیدت بھی گو کہ کافی ہے لیکن محبت اس سے زیادہ مفید ہے۔اصلاح میں شیخ کی محبت کو بہت دخل ہے کیونکہ محبوب کی بات میں کوئی عاشق بات نہیں نکالتا۔

(3) جو وظیفہ شیخ تعلیم کرے صرف اسے کرے۔ اگر کسی اور نے وظیفہ دیا ہو یا خود سے کوئی وظیفہ شروع کیا ہو تو اس پر شیخ کو مطلع کرے۔اگر شیخ اجازت دے تو ٹھیک ہے ورنہ بلا تکلف ان وظائف کو چھوڑ دے صرف وہی وظائف جو شیخ نے دیئے ہیں ان کو کافی سمجھے۔

(4) شیخ کی موجودگی میں ہمہ تن شیخ کی طرف متوجہ رہے۔فرائض ،واجبات اور سنتوں کے علاوہ نوافل شیخ کی تجویز سے ہی پڑھے۔اگر وہ روکیں تو بالکل رک جائے۔ اس میں اپنے دل کو سمجھائے کہ مریض کو بعض دفعہ ملائی سے بھی روکا جاتا ہے جو کہ صحت مند ی کے لئے بہت مفید ہے۔

(5) جو کچھ مرشد کہے اس پر نہ اعتراض کرے نہ شیخ کے ساتھ مناظرہ کرے۔دل میں پھر بھی تشویش ہو تو حضرت موسیٰ ، (علیہ السلام) اور حضرت خضر (علیہ السلام) کا واقعہ یاد کرلے۔

قلندر ہر چہ گوید دیدہ گوید

(6) مرشد کی آواز پر آواز بلند نہ کرے لیکن اتنی کم آواز سے بھی بات نہ کرے کہ سننے میں تکلیف ہو۔

(7) جو کچھ اپنا حال ہو برا یا بھلا، بلاکم و کاست بیان کرے اس پر شیخ جو تجویز کرے دل وجان سے قبول کرے۔

(8) اس کے پاس بیٹھ کر کسی وظیفہ وغیرہ میں مشغول نہ ہو اِلاّ یہ کہ شیخ خود ہی وظیفہ کرنے کو فرمائے۔

(9) کوئی بھی دینی خدمت کرنی ہو چاہے کتنا ہی اس کے ساتھ تعلق ہو یا اس کا شرح صدر ہو اگر شیخ اس سے روک دے تو بلا تکلف اس سے رک جائے کیونکہ شیخ کو مرُیدکے بارے میں زیادہ معلوم ہے کہ اس کو کس وقت کونسا کام کرنا چاہیے۔

شیخ اور مرُیدکا تعلق

آج کل چونکہ اسی تعلق کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کی وجہ سے اس طریق میں افراط اور تفریط کا بازار گرم ہے اس لئے اس کو واضح کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ ُمریدکے لئے مرشد کی مثال ایک طبیب کی سی ہے یا ایک شفیق راہبر کی۔شیخ مر یدکو اپنی بصیرت کے مطابق طریقہ تعلیم کرتا ہے۔ یعنی مریدکو کچھ کرنے کو بتاتا ہے اور کچھ کرنے سے روکتا ہے۔جس کے کرنے کے بارے میں بتاتا ہے اس میں کچھ کی مثال تو دوا کی سی ہوتی ہے کہ اس پر عمل اگر نہ ہو تو بیماری کا علاج نہیں ہوگا اور مرض بڑھے گا اور کچھ کی مثال غذا کی سی ہے جس سے روحانی قوت حاصل ہوتی ہے۔ اور جن سے روکتا ہے اس کی مثال پرہیز کی سی ہے پس اگر کوئی دوا اور غذا کا اہتمام تو کرے لیکن پرہیز نہ کرے تو اس کا بھی علاج نہیں ہو پاتا۔بلکہ اس سے عین ممکن ہے کہ دوا ہی آئندہ کے لئے غیر مؤثر ہوجائے اور شیخ کو بعد میں اپنی دوا تبدیل کرنی پڑے۔پس شیخ کا کام تعلیم کرنا ہے اور مرُیدکا کام اس پر عمل کرنا۔اگر مرُیدعمل کرنے کے لئے تیار ہو لیکن شیخ تعلیم نہ کرے تب بھی کام نہیں ہوسکتا اور شیخ تعلیم کرے لیکن مرُیداس پر عمل نہ کرے تب بھی کام نہیں چلے گا۔اس کے لئے شیخ کی صحبت کی ضرورت ہے اور اس کی غیر موجودگی میں مکاتبت یا کسی اور ذریعے سے رابطے کی ضرورت ہے۔کیونکہ ُمر یدکے ذمہ لازم ہے کہ شیخ کو اپنی حالت سے مطلع کرے جیسا کہ مریض ڈاکٹر کو مطلع کرتا ہے اور شیخ جو نسخہ تجویز کرے اس پر مرُیدکو عمل کرنا پڑتا ہے۔اس باہمی تعلق کو دو الفاظ کے ذریعے یاد رکھا جاسکتا ہے۔"اطلاع و اتباع "پس مرشد کو بروقت اطلاع کرنا اور شیخ کی تجویز کا اتباع کرنا مرُیدکے لئے انتہائی ضروری ہے۔ اس باہمی تعلق کو مضبوط کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اپنے شیخ کے بارے میں مرُیدکا یقین راسخ ہو کہ یہی شیخ میرے لئے سب سے زیادہ مفید ہے۔یہ نہیں کہ یہی شیخ سب سے افضل ہے کیونکہ اس کا پتہ تو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو نہیں اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اس شیخ کے ساتھ اپنے آپ کو مقید کرے گا اور کسی اور شیخ کی طرف ہرگز متوجہ نہیں ہوگا چاہے وہ دوسرا شیخ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔ اسی کو توحید مطلب کہتے ہیں۔اس کی مثال بھی بالکل ایسی ہے کہ علاج کے دوران کسی اور ڈاکٹر کی طرف رجوع کرنا علاج کو بگاڑ دیتا ہے۔شیخ کے ان چار حقوق کو حضرت خواجہ مجذوب(رحمۃ اللہ علیہ) نے یوں نظم کیا ہے۔

چار حق مرشد کے ہیں رکھ ان کو یاد

اطلاع و اتباع و اعتقاد و انقیاد

شیخ کا مقام

بعض حضرات بڑے بڑے مشائخ کی تلاش میں عمر بھر سر گرداں رہتے ہیں اور اپنے قریب کے مشائخ کے فیض سے محروم ہوجاتے ہیں۔شیخ سے فیض حاصل کرنے کا ذریعہ اس کا بڑ ا ہونا نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ مناسبت ہونا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ رابطے کا قائم ہونا ہوتاہے۔اگر کوئی شیخ بہت بڑا ہو لیکن اس کے ساتھ کسی کو مناسبت نہ ہو یا اس کے ساتھ مناسبت تو ہو لیکن اس کے ساتھ رابطے کے ذرائع کمزور ہوں تو اس سے فائدہ نہیں ہوگا۔شیخ اور مرُیدکے باہمی تعلق میں دو چیزیں مؤثر ہوتی ہیں۔ایک تو شیخ کا صاحب فن ہونا اور ایک اس کا صاحب برکت ہونا۔اب اگر کوئی شیخ بہت بڑا ہے تو وہ زیادہ صاحب برکت ہوگا لیکن ان کے فن سے مستفید ہونے کے لئے رابطہ قائم ہونا ضروری ہوتا ہے یعنی اطلاع اور اتباع کا انتظام ہونا ضروری ہے۔برکت چونکہ اس کی تعلیم میں ہوگی اس لئے اگر تعلیم ہی نہ ہو تو صرف برکت کس چیز میں آئے گی۔یہی وجہ ہے کہ گو حضرت اویس قرنی (رحمۃ اللہ علیہ) کا مقام بہت بڑا ہے لیکن کسی بھی صحابی سے کم ہے کیونکہ صحابی کو صحبت حاصل تھی جو کہ تمام چیزوں سے زیادہ اہم ہے۔ صاحب برکت ہونے کے لئے اتنا کافی ہے کہ شیخ صاحبِ سلسلہ ہو کیونکہ سلسلہ ہی برکت کا ماخذ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بڑے شیخ کے ہاں کچھ اور نزاکتیں بھی آجاتی ہیں۔ ان کے ساتھ نباہنا بھی ضروری ہوتا ہے اس لئے بعض لوگ بڑے بڑے مشائخ کے پاس رہ کر بھی محروم ہوجاتے ہیں، جس کی وجوہات ان گنت ہیں۔اس لئے قریب ترین جن مشائخ کے ساتھ مناسبت ہو، ان میں جس کے ساتھ مناسبت زیادہ ہو اور رابطہ آسان ہو، ان کی طرف رجوع کرنا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔بڑے مشائخ بھی بعض اوقات ان ہی وجوہات کی وجہ سے طالبین کو ان کے قریب کے مشائخ کی طرف رجوع کرادیتے ہیں۔بعض حضرات نے اس ضمن میں شیخ کی مثال بجلی کے کھمبے کے ساتھ بھی دی ہے۔ کہ جس کھمبے کے ساتھ بھی اپنے بلب کو لگایا جائے گا تو وہ جلے گا تو اتنا ہی جتنی بلب کی طاقت ہے چاہے وہ کھمبا پاور ہا وس میں ہو یا اس سے دور کسی اور جگہ۔پس مرُیدکی استعداد کے مطابق ہر اس شیخ سے جس کے ساتھ اس کو مناسبت ہے اتنا ہی فائدہ ہوگا جتنا بڑے مشائخ سے ہوتا ہے۔ بلکہ بعض اوقات مرُیداپنے شیخ سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ کیونکہ مربی حقیقی تو اللہ تعالیٰ کی ذات ہے وہ ہر طالب کی طلب کے مطابق اس کے شیخ کے قلب باصفا سے اس کی طلب کے بقدر چشمہ عرفان جاری کرتا ہے۔اس کا بعض اوقات کھلی آنکھوں مشاہدہ بھی ہوتا ہے کہ بعض طالبین کی مجلس میں موجودگی سے شیخ کے قلب پر ایسے عالی مضامین کا ورود ہوتا ہے کہ اس کے بارے میں پہلے خود شیخ کو بھی پتہ نہیں ہوتا اور اس وقت اس کے سامنے بھی آجاتے ہیں۔ اسی لئے بعض حضرات نے اپنے ملفوظات کے قلمبند کروانے کا بندوبست کیا ہوتا ہے کہ مبادا کسی طالب کی طلب صادق کے طفیل دنیاء عرفان کا کوئی موتی اچانک ہاتھ آجائے تو اس کو ضائع ہونے سے بچایا جاسکے۔ تصوف کے سلاسل۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا یہ سلاسل صحبت کے سلسلے ہیں۔ مقصد کے اعتبار سے سب ایک ہیں یعنی سب کے ہاں نفس کی اصلاح مقصود ہے لیکن ہر ایک نے اپنے اپنے ذ رائع اختیار کئے ہیں جن کے اپنے اپنے اصول ہیں۔مثلاً سلسلہ چشتیہ میں پہلے رذائل کو دور کرنے پر زور دیاجاتا ہے پھر فضائل پیدا کئے جاتے ہیں اور نقشبندیہ میں فضائل کے پیدا کرنے سے رذائل کو بھی دور کیا جاتا ہے۔سلسلہ قادریہ اور سہروردیہ کے بھی اپنے اصول ہیں۔جس طرح اپنے شیخ کو اپنے لئے سب سے زیادہ مفید سمجھنے کے ساتھ باقی مشائخ کی تنقیص سے بچنا ضروری ہے اسی طرح ا للہ تعالیٰ نے کسی کی مناسبت جس سلسلے کے ساتھ پیدا فرمائی ہو اس سلسلے سے استفادہ کرتے ہوئے باقی سلاسل کی تنقیص سے اپنے قلب و ذہن کو بچانا ضروری ہے۔

چاروں سلسلوں کے مشائخ کے اسمائے گرامی

سلسلہ چشتیہ کے سرخیل حضرت خواجہ معین الدین چشتی (رحمۃ اللہ علیہ) ہیں۔ان کے آگے پھر دو شاخ ہیں چشتیہ صابریہ کے سرخیل حضرت صابر کلیری (رحمۃ اللہ علیہ) ہیں اور چشتیہ نظامیہ کے سرخیل حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء (رحمۃ اللہ علیہ) ہیں،سلسلہ قادریہ کے سرخیل حضرت شیخ عبد القادر جیلانی (رحمۃ اللہ علیہ)،سلسلہ سہروردیہ کے حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی (رحمۃ اللہ علیہ) اور سلسلہ نقشبندیہ کے حضرت شیخ بہاؤالدین نقشبندی (رحمۃ اللہ علیہ) ہیں۔ شجرہ اور اس کی اہمیت۔آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے مناصب جو اللہ تعالیٰ نے قُرآن میں بیان فر مائے ہیں چار ہیں۔یعنی قُرآن کی تلاوت سکھانا،صحابہ کرام (رضی اللہ عنہ) کا تزکیہ کرنا، کتاب کی تعلیم دینا اور حکمت کی تعلیم دینا۔قُرآن کی تلاوت کے شعبے کی ذمہ داری قرّا ءحضرات نے ،تزکیہ کی صوفیاء کرام نے اور علم و حکمت کی علماءکرام نے۔علماء کرام میں محدثین کرام نے احادیث شریفہ کو اُمت تک محفوظ طریقے سے پہنچانے کا بیڑا اٹھایا ہے۔اس مقصد کے لئے وہ اپنی سندوں کی حفاظت کرتے ہیں اور اپنی سندوں کو اس ترتیب سے روایت کرتے ہیں جس ترتیب سے ان تک روایت پہنچی ہوتی ہے۔بعینہ اسی طرح صوفیاء کرام اپنی نسبت کو اسی ترتیب سے بیان کرتے ہیں جس ترتیب سے ان تک نسبت پہنچی ہوتی ہے۔نسبت کی اسی ترتیب کا بیان شجرہ کہلاتا ہے۔بعض حضرات نے اپنا شجرہ منظوم انداز میں چھاپا ہوتا ہے اور برکت کو حاصل کرنے کے لئے اس کو پڑھتے ہیں۔یہ دعائیہ شکل میں بھی ہوتی ہے اور مریدین اپنی دعا کی قبولیت کے لئے اس نسبت کو بطور وسیلہ ��کڑتے ہیں۔

بندہ کی نسبت

بندے کو حضرت صوفی محمد اقبال مدنی (رحمۃ اللہ علیہ) سے بواسطہ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا(رحمۃ اللہ علیہ) چاروں سلسلوں میں اور ان ہی سے بواسطہ حضرت مولانا ابوالحسن ندوی (رحمۃ اللہ علیہ) طریقہ قادریہ راشدیہ میں اور بواسطہ حضرت علی مرتضےٰ(رحمۃ اللہ علیہ) کے سلسلہ نقشبندیہ میں ،حضرت سید تنظیم الحق حلیمی مدظلہ سے بواسطہ حضرت مولانا فقیر محمد (رحمۃ اللہ علیہ) کے چاروں سلسلوں میں اور ان ہی سے بواسطہ حضرت سیف الرحمٰن گل بادشاہ المعروف میخ بند باباجی (رحمۃ اللہ علیہ) سلسلہ قادریہ، نقشبندیہ، معصومیہ مجددیہ میں اور حضرت ڈاکٹر فدا محمد صاحب مدظلہ سے بواسطہ مولانا محمد اشرف (رحمۃ اللہ علیہ)چاروں سلسلوں میں اجازت حاصل ہے۔اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کے اس حسن ِظن کو بندے کے حق میں قبول فرماکر اپنی خالص بندگی میں قبول فرمائے۔ آمین۔

امور تصوف

اب چند سطروں میں تصوف کا خلاصہ پیش کیا جارہا ہے جو کہ مشہور کتا ب "شریعت اور طریقت" سے لیا گیا ہے۔اس کو بلاشبہ تصوف کا نچوڑ کہا جاسکتا ہے۔

23.1. مقصود

یہ دو قسم کے ہیں:

23.1.1. اعمال

اعمال دو قسم کے ہیں۔

23.1.1.1. جلبی اعمال

جلب کسی چیز کے حاصل کرنے کو کہتے ہیں۔ پس اس سے اخلاق حمیدہ جیسے اللہ کی محبت ،صبر ،شکر ،اخلاص ،تفویض،تواضع ،رضا ،صدق وغیرہ کا حاصل کرنا مطلوب ہے۔

23.1.1.2. سلبی اعمال

سلب کسی چیز کے دور کرنے کو کہتے ہیں۔ پس اس سے اخلاق رذیلہ جیسے دنیا کی محبت ریاء ،تکبر ، حسد ،کینہ ،بغض ،بے صبری ،ناشکری و غیرہ سے چھٹکارہ حاصل کرنا مطلوب ہے۔

23.1.2. ثمرات

ثمرات (نتائج ) بھی دو قسم کے ہیں:

23.1.2.1. بندگی

بندے کی طرف سے ہمہ وقت بندگی

23.1.2.2. اللہ تعالیٰ کیطرف سے رضا و قرب خاص

اللہ تعالیٰ کی طرف سے رضا اور قرب خاص کا حاصل ہونا جس کو وصول بھی کہتے ہیں۔

23.2. غیرمقصود

یہ تین قسم کے ہیں:

23.2.1. ذرائع

ذرائع دو قسم کے ہوتے ہیں:

23.2.1.1. مجاہدہ

جس میں کم بولنا، کم کھانا ،کم سونااور ناجنس یعنی جن سے ملنے میں نقصان کا اندیشہ ہو ان سے کم یعنی صرف بضرورت ملنا جلنا شامل ہیں۔

23.2.1.2. فاعلہ

یہ بھی دو قسم کے ہوتے ہیں یعنی وہ جو مفید ہیں اور ان میں کوئی خطرہ بھی نہیں ان میں ذکر ، شغل اور مراقبہ آتے ہیں اور وہ جو مفید تو ہیں لیکن ان میں خطرہ بھی ہے۔ ان میں تصور شیخ ، عشق مجازی اور سماع آتے ہیں۔

23.2.2. توابع

یعنی سلوک میں ان سے کوئی چاہے یا نہ چاہے پالا پڑسکتا ہے اور یہ سب غیر اختیاری ہیں۔ یہ بھی دو قسم کے ہیں یعنی وہ جن میں نقصان کا احتمال ہے اور وہ جن میں کوئی نقصان نہیں۔

23.2.2.1. جن میں نقصان کا احتمال ہے

وہ یہ ہیں:

23.2.2.1.1. سکر کے ساتھ وحدۃ الوجود

یعنی وحدۃ الوجود میں بغیر قصد کے شرعی تشریحات کا ذہن میں نہ ہونا اور ایسی باتوں کا منہ سے نکل جانا جس پر شریعت گرفت کرتی ہو۔

23.2.2.1.2. کشف الہٰی

علوم و اسرار و معارف متعلق ذات و صفات الہٰی کا قلب پر ورود کرنا۔

23.2.2.1.3. کشفِ کونی

یعنی جن کو عام لوگ نہیں دیکھ سکتے ان کا نظر آنا ،چاہے وہ گزشتہ وقت کے حالات ہوں یا آئندہ کے واقعات، یا غائب چیزیں دور یا قریب کی ہوں۔

23.2.2.1.4. اِستغراق

کسی کیفیت میں ہمہ تن متوجہ رہ کر باقی چیزوں کو بھول جانا۔

23.2.2.1.5. تصرف

اپنی ہمت و توجہ سے کسی شخص یا چیز کو متاثر کرنا۔

23.2.2.1.6. قبض و بسط

واردات قلبی کا موجود نہ ہونا قبض اور اسکا موجود ہونا بسط کہلاتا ہے۔ دل پر منجانب اللہ جو کیفیات القاء کی جاتی ہیں ان کو واردات قلبی کہتے ہیں۔

23.2.2.1.7. کرامت

کسی نیک مسلمان کے ہاتھ سے ایسے کام کا ہوتے نظر آنا جو کہ عام فطری قوانین کے مطابق ممکن نہ ہو۔

23.2.2.1.8. مشاہدہ

کسی امر یا ہستی کا کامل استحضار۔ اس کو کیفیت حضوری بھی کہتے ہیں۔ اس میں سالک کو اپنے آپ کی خبر نہیں رہتی اس لئے اس سے ایسی حرکات کا ظہور ہوسکتا ہے جو عام لوگوں کی سمجھ میں نہ آئیں۔

23.2.2.2. وہ توابع جن میں ضرر کا احتمال نہیں

ان میں چند درج ذیل ہیں:

23.2.2.2.1. وجد

کسی عجیب و غریب محمود حالت کا طاری ہوجانا۔

23.2.2.2.2. رویائے صالحہ

اچھے خوابوں کا نظر آنا۔

23.2.2.2.3. اجابت دعا

دعاؤں کا قبول ہونا۔

23.2.2.2.4. الہام

کسی ولی کے دل میں حق تعالیٰ کی طرف سے کسی بات کا القا ء ہوجانا۔

23.2.2.2.5. فناء و بقاء

رذائل کا دل سے اتر جانا فناء ہے اور فناء کا بھی دل سے اتر جانا یعنی خود فناء کے حاصل ہونے کو نہ جاننا بقاء ہے۔ بعض لوگ اس کو فناء الفناء بھی کہتے ہیں۔

23.2.2.2.6. وحدۃ الوجود بغیر سکر

دل کا صر ف اللہ سے متعلق ہونا جیسے سورج ہو تو تارے نظر نہیں آتے۔

23.2.2.2.7. فراستِ صادقہ

یعنی سچی اٹکل جو واقع کے مطابق ہو۔ اس کو بصیرت بھی کہتے ہیں۔

23.2.3. موانع

وہ امور جن سے سالک اپنے مقصد سے دور ہٹ جاتا ہے اور اگر اس کی اصلاح نہ کی گئی تو عباد الرحمٰن کی بجائے عباد الشیطان میں سے ہوسکتا ہے۔ وہ یہ ہیں۔

23.2.3.1. حسن پرستی

کسی شخص کے حسن میں ایسا محو ہوجانا کہ شریعت کے احکامات کی پرواہ نہ رہے۔ یہ انتہائی مذموم حرکت ہے۔صوفیاء کے کلام سے بعض لوگوں کو اس کا شبہ ہوجاتا ہے جس کی نا سمجھی سے غلط تعبیر کرکے اپنی عاقبت خراب کر بیٹھتے ہیں۔ چاہے وہ شخص عورت ہو یا مرد یا امرد۔ اللہ تعالیٰ بچائے۔ آمین

23.2.3.2. تعجیل

کسی کیفیت کو حاصل کرنے کے ایسے درپے ہوجانا کہ راہ سلوک کی احتیاطیں پیش نظر نہ رہیں۔ اس سے سالک کا دل پریشان ہوکر ہمت ہار جاتا ہے۔ بسا اوقات شیخ کے ساتھ بدگمانی تک ہوجاتی ہے۔

23.2.3.3. تصنع

سالک کو جو حالت حاصل نہیں ہے اس کا حاصل کیا ہوا اپنے آپ کو دکھا نا۔

2.3.4. مخالفت ِسنت

سلوک کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جو سنت کا مخالف ہو اس لئے سنت کی مخالفت کا کوئی راستہ نہیں۔ سالک کا کسی امر میں قصداً سنت کی مخالفت اس کو سلوک سے بہت دور گرادیتا ہے۔

23.2.3.5. مخالفت ِشیخ

سلوک میں شیخ کے بتائے ہوئے طریقے کی مخالفت کرنا۔

حاصل مطالعہ

ان اصطلاحات کے تعارف سے اب پتہ چل چکا ہوگا کہ یہ سب امور متعلق شریعت ہی کے ہیں اور عوام میں جو یہ شائع ہو گیا ہے کہ طریقت اور چیز ہے اور شریعت اور چیز ، محض غلط اور بے بنیاد ہے۔جب حقیقت سلوک معلوم ہو گئی تو اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ اس میں نہ کشف و کرامات ضروری ہیں نہ قیامت میں بخشوانے کی ذمہ داری ہے ،نہ دنیا میں کار برآری کا وعدہ ہے کہ تعویذ گنڈوں سے کام بن جائیں یا مقدمات دعا سے فتح ہو جایں یا روزگار میں ترقی ہو یا جھاڑ پھونک تعویذات سے بیماری جاتی رہے یا ہونے والی بات بتا دی جایا کرے ،نہ تصرفات لازم ہیں کہ پیر کی توجہ سے مرُیدکی از خود اصلاح ہو جائے۔اس کو گناہ کا خیال بھی نہ آئے ،خود بخود عبادت کے کام ہوتے رہیں۔ مرُیدکو ارادہ نہ کرنا پڑے یا ذہن و حافظہ بڑھ جائے۔نہ ایسی باطنی کیفیات پیدا ہونے کی ضمانت کہ عبادت کے وقت لذت سے سر شار رہے ،عبادت میں کوئی خطرہ ہی نہ آئے یا یہ کہ خوب رونا آئے یا ایسی محویت ہو جائے کہ اپنی پرائی خبر نہ رہے ،اور نہ ذکر و شغل میں انوار وغیرہ کا نظر آنا نہ کسی آواز کا سنائی دینا ضروری ہے۔نہ اچھے خوابوں کا نظر آنا یا الہامات کا ہونا لازمی ہے۔بس اصل مقصود حق تعالیٰ کی رضا ہے اسی کو پیش نظر رکھنا چاہیے ،جو ان کے نصیب میں ہوتی ہے جن کو خشیت حاصل ہوتی ہے۔

سالک کے لئے مفید کتب

تفسیر

"معارف القُرآن" مؤلفہ حضرت مفتی محمد شفیع (رحمۃ اللہ علیہ) ، "تفسیر عثمانی" اور "تفسیر مظہری"۔

حدیث

"ریاض الصالحین" اور "معارف الحدیث" مؤلفہ مولانا منظور نعمانی، (رحمۃ اللہ علیہ)۔

فقہ

"بہشتی زیور" مؤلفہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رحمۃ اللہ علیہ) اور "تعلیم الاسلام" مؤلفہ مفتی کفایت اللہ (رحمۃ اللہ علیہ)۔

تصوف

بندہ کی کتاب "تصوف کا خلاصہ"

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رحمۃ اللہ علیہ) کے افادات پر مشتمل کتاب "شریعت و طریقت"

حضرت مولانا محمداشرف صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) کی کتاب "سلوک سلیمانی" 3جلدیں۔

بندہ کی زیر طبع کتاب "فہم التصوف" اور حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رحمۃ اللہ علیہ) کے "مواعظ" اور "ملفوظات"۔

فضائل

حضرت شیخ الحدیث (رحمۃ اللہ علیہ) کی "فضائل اعمال" ، "فضائل درود شریف" اور "فضائل حج"۔

معذرت

بندہ نے عوام کو پریشانی سے بچانے کے لئے اس کا اہتمام نہیں کیا کہ مضمون کا کونسا حصّہ کہاں سے لیا گیا ہے۔روانی اور اختصار کے لئے اس کوایسا لکھا ہے جیسا کہ ایک ہی شخص کے قلم سے لکھا گیا ہو۔بندہ کو اپنے الفاظ کے بارے میں بھی یہ دعویٰ نہیں کہ یہ بندہ کے اپنے ہیں بلکہ جو کچھ تحریر کیا اپنے شیخ حضرت مولانا محمد اشرف صاحب (رحمۃ اللہ علیہ)،حضرت صوفی محمد اقبال صاحب مدنی (رحمۃ اللہ علیہ) ،حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رحمۃ اللہ علیہ) اور حضرت شیخ الحدیث (رحمۃ اللہ علیہ) و دیگر اکابر کی برکت ہے۔اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

ضروری نوٹ

الف) اگر شرعی رکاوٹ نہ ہو تو اپنا حال بالمشافہ یا بذریعہ ٹیلیفون شیخ کو بتائے۔ ، نہیں تو خط کے ذریعے۔ (خواتین کے لئے بالمشافہ رابطہ زیادہ مناسب نہیں ہے۔)

ب) شیخ کی جو تحقیق ہو اس کو جاننے کے بعد اس پر پورا پورا عمل کرنے کی کوشش کی جائے اور اگر کوئی بات سمجھ میں نہ آرہی ہو تو پھر پوچھ لیا جائے۔

ج) اپنے شیخ کو کل عالم میں اپنے لئے سب سے بہتر سمجھیں۔ یہ نہیں کہ اس کو سب سے افضل سمجھیں کیونکہ اس کا علم توصرف اللہ تعالیٰ کوہی ہے اور فقیر تو بہت گنہگار ہے اللہ تعالیٰ ستاری فرمائے۔

د)۔ روحانی اصلاح کے لئے صرف اپنے شیخ سے تعلق رکھیں۔کبھی کسی اور پراپنا حال ظاہر نہ کریں اس سے بعض اوقات سخت نقصان ہوسکتا ہے۔ اسی کو توحید مطلب کہتے ہیں۔ بقول حضرت خواجہ عزیز الحسن مجذوب (رحمۃ اللہ علیہ )خلیفہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی (رحمۃ اللہ علیہ)

چار حق مرشد کے ہیں رکھ ان کو یاد

اطلاع و اتباع و اعتقاد و انقیاد

فقیر سے متعلق حضرات کے لئے ابتدائی ہدایات

بیعت کے وقت کی تعلیم میں جو کچھ بتایا گیا ہے اس کو فقیر کی طرف سے بھی سمجھا جائے۔ اس کے علاوہ مندرجہ ذیل باتوں کا بھی خیال رکھا جائے۔

(1) فقیرکے دئیے ہو ے ذکر کے ساتھ کلمہ سوم 100 بار ، درود شریف 100 بار ، استغفار 100 بار صبح شام ذکر کیا جائے۔ ہر نماز کے بعد 33 بار سبحان اللہ ، 33 بار الحمد للہ ، 34 بار اللہ اکبر۔ تین بار درود شریف پڑھیں۔ تین بار کلمہ طیبہ اور تین بار استغفار کا ذکر کیا جائے اور ایک بار آیت الکرسی کی تلاوت کی جائے۔

(2) نوافل کا جو معمول ہو اس کو پورا کرنے کی کوشش کی جائے اگر نہ ہوسکے تو فقیرکیساتھ اس کے بارے میں مشورہ کیا جائے۔ خود سے اپنے لئے نوافل یا نفلی عبادت کا معمول مقرر نہ کیا جائے۔

(3) جمعہ کے دن اور جمعہ کی رات درود شریف کی کثرت اور جمعہ کے روز سورۃ کہف کی تلاوت کا خاص خیال رکھاجائے اور جمعہ کے آخر وقت میں اپنے لئے ، فقیر کے لئے اور پوری اُمت کے لئے دعائیں کرنے کی کوشش کی جائے۔

(4) روزانہ کم از کم آدھا پارہ تلاوت کی جائے۔ اگر قرٲت نہ کرسکتا ہو تو جلد از جلد اس کو سیکھنے کی اور اگر مخارج درست نہ ہوں تو ان کی درستگی کا بندو بست کیا جائے۔

(5) اپنے ہاتھ ، زبان اور قلم کے شر سے ہر کسی کو بچائیں۔ جس چیز میں نہ دین کا فائدہ ہو نہ دنیا کا اس میں مشغول ہونے کو سب سے بڑی حماقت جانیں اور اس سے بچیں۔ کوشش کی جائے کہ بشرط تحمل ہر کسی کو فائدہ پہنچایا جائے اس کے لئےاللہ تعالیٰ سے دعا بھی کرے اور خود کوشش بھی۔ خط کشیدہ بات کے لئے فقیر سے مشورہ مفید ہوگا۔

(6) بیویوں اور بچوں کے بارے میں اس بات کی کوشش کی جائے کہ نہ تو ان پر ظلم ہو چاہے اس کے لئے کوئی بھی آمادہ کرے اور نہ ہی ان کے لئے کسی پر ظلم ہو۔ ان کو فتنہ کہا گیاہے۔ اس لئے ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈریں۔

(7) جس بات کی تحقیق نہ ہو اس کو آگے نہ پھیلائیں۔ بالخصوص جس میں کسی مسلمان کی تذلیل کا پہلو نکلتا ہو نیز مجلس میں یا کسی بھی موقعہ پر کسی کا مذا ق اڑانا ، اس کو برے نام سے پکارنا ، اس کی نسل یا پیشے پر انگلی اٹھانا سخت ممنوع ہے۔

(8) جو چیزیں اختیاری ہیں مثلاً نماز روزہ یا شریعت میں مطلوب دوسرے اعمال ،ان میں سستی نہ کریں اور جو چیزیں غیر اختیاری ہیں مثلاً مزہ ، شوق و ذوق یا دوسرے احوال وغیرہ جو محظ وہبی ہیں ان کی فکر نہ کریں پھر ان دونوں میں جو حاصل ہوں اس پر شکر کریں۔ اختیاری اعمال میں کوتاہی پر استغفار اور ندامت کے ساتھ آئندہ کوشش کا عزم ہو اور غیر اختیاری احوال میں جو محمود احوال حاصل نہ ہوں ان میں اپنے لئے خیر سمجھیں۔

(9) گھر میں بہشتی زیور کا رکھنا بہت مفید رہتا ہے۔اس میں اہل سنت و الجماعت کے عقائد لکھے گئے ہیں ان کے مطابق عقائد رکھے جائیں اور ضرورت کے وقت مسائل بھی معلوم ہوسکتے ہیں۔حضرت تھانوی (رحمۃ اللہ علیہ) کے مواعظ اور ملفوظات کا مطالعہ روحانی ترقی کے لئے بہت مفید ہے۔

(10) مرد متعلقین کو اپنی بیویوں کے حقوق واجبہ کا بہت خیال رکھنا چاہیے۔جو اولاد والے ہیں ان کو اولاد کی تربیت کی طرف خوب توجہ کرنا چاہیے۔جو شادی شدہ نہیں ان کو اپنی حفاظت کے لیئے فقیر سے فوراً مشورہ کرنا چاہیے۔اس طرح جن خواتین کا فقیر کے ساتھ اصلاح کا تعلق ہے اگر وہ شادی شدہ ہیں تو ان کو اپنے شوہروں کی دل سے خدمت کرنا چاہیے اور اولاد کی تربیت میں شوہر کی مدد کرنی چاہیے۔اگر وہ شادی شدہ نہیں ہے تو اپنے والدین اور بہن بھایئوں کے ساتھ اچھا وقت گزارنا چاہیے اور مناسب رشتہ ملے تو انکار نہیں کرنا چاہیے۔