اللہ کے گھر کا طواف


اگر آپ عمرہ کی یا حج قران کی نیت کرچکے ہیں تو اب آپ کو عمرے کا طواف کرنا ہے۔ اور اگر حج افراد کی نیت ہے تو طوافِ قدوم کرنا ہے۔ بہر حال آپ کی خوش قسمتی کہ اللہ کے گھر کا طواف آپ کو نصیب ہورہا ہےجو مقام شکر ہے۔کعبہ کی عظمت کا ادراک کرتے ہوئے حجر اسود کی جانب قدم بڑھائیے۔ چادر کو دائیں کندھے کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھے پہ ڈال دیں۔یہ اضطباع کی حالت ہے اور حالت ِطواف میں یہی کیفیت رہےگی۔

حجر اسود کےمقابل آنے سے پہلے طواف کی نیت کرلیں۔

میں طواف کی سات چکروں کی نیت کرتا ہوں۔ اے اللہ اس کو قبول فرما اور آسان فرما۔ اور ہاتھ کانوں تک اٹھاکر اللہُ اَکْبَرْ وَ لِلہِ الْحَمْدْ ۝ کہہ کر گرادیجئے۔یہ گویا طواف کاتکبیر تحریمہ ہوگیا۔ اب حجر اسود کا استلام کرنا ہے۔چاہيے تو یہ تھا کہ حجر اسود کو بوسہ دیا جاتا لیکن حجر اسود پہ خوشبو ہے جو احرام کی حالت میں استعمال کرنا منع ہے۔کیوں نہیں؟


آدابِ عشق اور ہیں آدابِ ہوش اور

دیوانگی کی بات تو لاتی ہے جوش اور


خوشبو کی دلفریبی تو سنت سے ہے ثابت

ہاں عشق کا جب جام ہو کیجئے نوش اور


تیرے لیے عشاق کا نظام دلفریب

سنت سے بھی ثابت ہے یہ جوش و خروش اور


دو چادریں جو تیرے زیب تن ہوئی یہاں

تیرا یہی کفن ہے محبت کا پوش اور


محبوب کے محبوب کے محبوب طریقے

لے ان پہ چلو چاہیے کیا تجھ کو دوش اور


استلام کے لیے اشارہ کی اجازت ہے۔ اپنے دونوں ہاتھ اس طرح سامنے کریں کہ یوں محسوس ہو کہ یہ جیسے حجر اسود پررکھے ہوئے ہیں۔ اب ان کو چوم کر دائیں جانب گھوم کر طواف شروع کر لیں لیکن یاد رہے اگر یہ آپ کے عمرہ کا طواف ہے تو اس میں رمل بھی کرنا ہے کیونکہ اس کے بعد سعی ہے اور اگر طواف قدوم کے بعد سعی کا بھی ارادہ ہو تو پھر بھی رمل کرنا پڑے گا۔رمل طواف میں قوت کا اظہار ہے ہاتھوں کی جھٹک اور پیروں کی لپک سے قوت کا اظہار کرنا ہوتا ہے۔یہ صرف پہلے تین چکروں میں کیا جاتا ہے۔

ایک اہم نکتہ۔بالائی منزل پر طواف کرتے وقت جو ابتدائے طواف کی جگہ کی نشانی بنی ہوتی ہے۔لوگ اس کا استلام کرتے ہیں حالانکہ وہ حجراسود نہیں ہوتا ہے۔ اس لیے استلام کرتے وقت ہاتھوں کا اشارہ اصلی حجرِاسود کی طرف کیا جائے یعنی ہتھیلیوں کو تھوڑا سا نیچے کی طرف موڑ کر استلام کیا جائے۔

دل مرا عشق سے بھرپور ہو اور صاف رہے

یا الٰہی مری قسمت میں یہ طواف رہے


جس طرح شمع کے گرد گھومتے پروانے ہیں

اس طرح میرا نہ اس گھر سے انحراف رہے


طواف کے دوران بیت اللہ شریف کی طرف دیکھنا منع ہے- کیوں؟


الٰہی تیری عظمت دل میں ہے اور۔۔کعبہ ساتھ

تو چاہے دل، لگاؤں مڑ کے میں اس کو ذرا ہاتھ


طواف اس کا کروں جس وقت اس کو دیکھنا مکروہ

عقل میں کیسے آئے یہ جو ہیں سنت کی تعلیمات


انہی سے سیکھنے ہیں جو کہ انداز ِ محبت ہیں

اگر وہ دن کہے تو دن اگر وہ رات کہے تو رات


صحابہ کا رمل معمول تھا ہم بھی رمل کرلیں

یہ مسجد اور یوں چلنا ؟ کیا سمجھے عقل یہ بات


ہم عقل خام کو اصلی عقل کے واسطے توڑیں

کہے شبیؔر گر سمجھو اصل حج کی ہے یہ سوغات


اضطباع کو ساتوں چکروں میں جاری رکھتے ہوئے ہر چکر کی ابتدا میں استلام کے ساتھ سات چکر پورے کرلیں۔یہ کل آٹھ استلام ہو جائیں گے۔ اس کے بعد دو رکعت واجب الطواف پڑھ لیجئے۔چونکہ آپ کا احرام جاری ہے اس لیے یہ نماز ننگے سر پڑھنی پڑے گی۔بڑوں کے سامنے ننگے سر ہونا بے ادبی ہے اور یہاں سب سے بڑے کے سامنے ننگے سر میں نماز ضروری ہے کیونکہ یہی انداز عاشقانہ انداز ہے۔جب اس وقت یہی انداز محبوب حقیقی کو پیارا ہے تو ہمیں بھی یہی طریقہ اپنانا ہے کیوں؟


کیا ٹھیک کیا غلط ہے کیا اس میں میں سمجھوں؟

محبوب اس میں جو بھی کہے میں وہی کہوں


عاشق کی اپنی سوچ کہاں وہ تو ہے فانی

محبوب ہی دل میں ہے اس کی بات میں مانوں


میری تو یہ سمجھ ہے کہ جو سامنے دیکھوں

محبوب سے پوچھوں میں کہ میں اس کو کیا کہوں


شیطان اپنی سوچ سے کیسا ہوا مردود

مردود کے اغوا سے میں مردود کیوں بنوں


میخانہ دل میں مرے تصویرِ یار ہے

جب چاہوں ذرا سر جھکا کے میں اسے دیکھوں


کثرت سے سفر جانب وحدت ہے اب شبیؔر

بس ایک ہی نظر میں ہے تو کیوں نہ ھُو کروں