اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلَاۃُ وَ السَّلَامُ عَلیٰ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ
اَمَّا بَعْدُ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
سوال:
مُحرّمُ الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے۔ یہ حرمت والا مہینہ بھی ہے۔ اس مہینے کے حوالے سے آپ ﷺ نے امت کو کیا مسنون اعمال تعلیم فرمائے ہیں؟ کیا حرمت کے مہینوں میں کوئی خاص عمل بھی شامل ہے؟
جواب:
محرم الحرام کو اس کے نام کی مناسبت اور حرمت والے مہینے کے طور پر دیکھیں تو اس میں کچھ چیزوں کی پابندی ہوتی ہے۔ اگر کوئی اور پابندی نہ بھی کی جائے تو کم از کم گناہوں سے بچنے کا اہتمام بہت زیادہ ہونا چاہئے۔ بالکل ایسے ہی جیسے مسجد میں نیکیاں کمانے کا اھتمام ہونا چاہئے اور برائیوں سے بچنے کا التزام ہونا چاہئے۔ کئی کام جو عمومی طور پر جائز سمجھے جاتے ہیں لیکن مسجد میں ان کو نہیں کیا جاتا، اس لئے جو کام مسجد سے باہر منع ہیں وہ مسجد میں بالخصوص منع ہوں گے۔ مکہ مکرمہ میں کچھ پابندیاں ہیں مثلًا وہاں شکار نہیں کیا جا سکتا، کسی چیز کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ یہ تو خیر اضافی چیزیں ہیں۔ لیکن جس طرح وہاں ایک نیکی کا اجر ایک لاکھ نیکیوں کے برابر ہے اسی طرح کسی برے کام کا گناہ بھی ایک لاکھ برائیوں کے برابر ہے۔ اس وجہ سے وہاں بہت زیادہ خیال رکھنا ہوتا ہے۔ اسی طرح محرم الحرام یا جتنے بھی حرمت والے مہینے ہیں ان میں گناہوں سے بچنے کا خصوصی اہتمام ہونا چاہئے۔
دوسری بات یہ ہے کہ آپ ﷺ نے عاشورہ یعنی 10 محرم کے دن روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے۔ چونکہ یہود بھی یہ روزہ رکھتے تھے، بلکہ انہی سے اس روزہ کا تصور لیا گیا ہے، اس وجہ سے آپ ﷺ نے فرمایا: ہم یہود کی مشابہت سے بچنے کے لئے 10 محرم کے ساتھ ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کا روزہ ملائیں گے۔
تیسری بات یہ ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عاشورہ کے دن جو شخص اپنے عیال پر کھلے دل سے خرچ کرے گا تو ان شاء اللہ، اللہ تعالیٰ پورا سال اس کے رزق میں فراخی عطاء فرمائیں گے۔
یہ تو محرم الحرام کی اپنی خصوصیات ہیں۔ البتہ محرم کے مہینے میں کچھ ایسی باتیں پیش آئی ہیں جن کی وجہ سے محرم کے مہینے کو انہیں باتوں کے ساتھ خاص سمجھا جاتا ہے، حالانکہ اپنی اصل کے لحاظ سے محرم کا مہینہ ان واقعات کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ محرم کا مہینہ اپنی خصوصیات کے ساتھ پہلے سے چلا آ رہا ہے لیکن وہ واقعات چونکہ اس ماہ میں ہوئے ہیں اس لئے ان واقعات کا اثر اس مہینے میں اتنا غالب کر دیا گیا کہ محرم کا مہینہ اسی کے لئے مختص سمجھا جانے لگا یہاں تک کہ اب یہ مہینہ انہیں واقعات کی وجہ سے یاد رکھا جاتا ہے۔ لیکن یہ درست نہیں ہے۔ ہمیں سنت طریقے کے مطابق یاد رکھنا چاہئے۔ البتہ ہم ان واقعات سے صَرفِ نظر نہیں کر سکتے۔ بعض واقعات کے ساتھ ہمارے عقیدے کا تعلق ہے اور جن کے بارے میں ارشادات مبارکہ ہیں وہ ہمیں یاد رکھنے چاہیئں۔
مثلاً اس ماہ میں ایک واقعہ یہ ہوا کہ اہل بیت کے لئے چند دنیاوی مقاصد کی وجہ سے انتہائی مشکل حالات پیدا کئے گئے تھے۔ لہٰذا دنیا سے نفرت ہونی چاہئے۔ اندازہ کر لیں کہ اس کمینی دنیا کے لئے اتنے بڑے خاندان کو چھیڑا گیا جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اگر آدمی تصور کر لے تو حیران رہ جاتا ہے کہ آپ ﷺ کا زمانہ ابھی قریب ہی گذرا ہے اور نواسۂ رسول ﷺ کی حرمت کا خیال بھی نہیں رکھا گیا۔ یہ دنیا اتنی کمینی چیز ہے۔
پھر یہ لوگ دنیاوی مقاصد کے لئے اس حد تک دلیر ہوئے کہ خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ کی حرمت کی پروا بھی نہیں کی۔ ایسے لوگوں کو یقینًا ہم عزت کی نظر سے نہیں دیکھ سکتے۔ معافی کی نظر سے تو دیکھا جا سکتا ہے کہ شاید اللہ پاک ان کو معاف کر دیں۔ وہ اللہ پاک اور ان کے درمیان کا معاملہ ہے لیکن ہم ان کا احترام نہیں کر سکتے۔ کیونکہ فاسق و فاجر کا احترام کرنے سے دین پر بات آتی ہے۔ جو شخص فاسق و فاجر کا احترام کرتا ہے وہ اصل میں دین کی عظمت کی پروا نہیں کرتا۔ فسق و فجور دین کی مخالفت ہے۔ اگر کوئی دین کی مخالفت کرتا ہے اور دوسرا شخص اس کے باوجود اس کا احترام کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس کے دل میں دین کا کوئی احترام نہیں ہے۔ اس لئے کم از کم ایسے لوگوں کے لئے دل میں احترام نہیں ہونا چاہئے۔ البتہ اگر کوئی ان کے لئے دعائے مغفرت کر لے تو کوئی حرج بھی نہیں کیونکہ مسلمان کے لئے دعا کی جا سکتی ہے۔ بعض لوگ تو ان کو کافر سمجھتے ہیں (نعوذ باللہ من ذالک)۔ یہ رویہ بھی درست نہیں ہے۔ یہی تو مسلکِ اہلِ سنت و الجماعت کا اعتدال ہے کہ ایک طرف تو ایسے لوگوں کو احترام نہیں دے سکتے اور دوسری طرف ان کو کافر بھی نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ کفر ایک الگ چیز ہے۔ وہ ایمان کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور فسق و فجور کا تعلق اعمال کے ساتھ ہے۔ اعمال کا اثر ایمان پر اس لحاظ سے تو ہوتا ہے کہ ایمان کمزور ہو جائے یعنی اعمال خراب ہو جائیں۔ لیکن اعمال کی خرابی کی وجہ سے ہم ایمان کو متاثر نہیں سمجھتے یعنی ہم یوں نہیں کہہ سکتے کہ کسی کے اعمال خراب ہو گئے تو اس کا ایمان بھی چلا گیا (نعوذ باللہ من ذالک)۔ ایمان ختم ہونے کے لئے کفر کی بات صادر ہونا ضروری ہے۔ فسق و فجور والی حرکات صادر ہونے کی وجہ سے کوئی مسلمان کافر نہیں ہوتا۔ حجاج بن یوسف بہت ظالم تھا، اس نے مسلمانوں پر ظلم کی انتہا کر دی تھی، لیکن صحابہ کرام نے اس کے پیچھے نمازیں پڑھیں، حالانکہ صحابہ کرام کسی کافر کے پیچھے نماز نہیں پڑھ سکتے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے سامنے آپ ﷺ کا یہ ارشاد تھا: ’’صَلُّوْا خَلْفَ كُلِّ بِرٍّ وَّ فَاجِرٍ‘‘۔ (سنن دار قطنی، حدیث نمبر: 10) یعنی فاسق و فاجر کے پیچھے بھی اگر نماز پڑھنی پڑ جائے تو پڑھ سکتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فاسق و فاجر کے پیچھے نماز پڑھنے کی گنجائش ہے لہٰذا انہوں نے اس گنجائش کو استعمال کیا۔ لیکن کافر کے پیچھے نماز پڑھنے کی گنجائش نہیں ہے۔ اس لئے صحابہ رضی اللہ عنہم کو جن کے کفر کا یقین تھا، ان کی نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوئے، جیسے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ ﷺ نے منافقین کے نام بتائے تھے، تو وہ منافق کے جنازے میں شریک نہیں ہوتے تھے کیونکہ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کے کفر کا علم تھا اس لئے وہ جنازہ نہیں پڑھ سکتے تھے۔ دیگر لوگوں کو بتانے کی اجازت بھی نہیں تھی۔ لیکن باقی افراد پڑھ لیتے تھے کیونکہ انہیں اس بارے میں کچھ علم نہیں تھا جبکہ حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ منافقین کے جنازے سے کترا جاتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب کسی جنازے میں شریک ہوتے تو حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تلاش کرتے اگر وہ نظر نہ آتے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی آگے پیچھے ھو جاتے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک بار پوچھا تھا کہ میرا نام منافقوں میں تو نہیں ہے؟
یہ دین کے ادب کی باتوں میں سے ایک ہے کہ فاسق و فاجر کا احترام نہیں ہونا چاہئے۔ اگر کوئی یزید کو ”رحمۃ اللہ علیہۙ کہتا ہے تو یہ ناجائز ہے۔ کیونکہ چیزوں کا فیصلہ عرف پر ہوتا ہے اور عرف عام میں ”رحمۃ اللہ علیہ“ اولیاء اللہ کے لئے استعمال کرنا ایک اصطلاح بن چکی ہے لہذا اس کو یزید کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ ہم یزید کو کافر نہیں کہتے۔ یہ بات مُسَلَّمہ ہے۔
اس مہینہ میں مندرجہ بالا اعمال کے علاوہ اور کوئی مسنون اعمال ہمیں معلوم نہیں ہیں۔ البتہ بعض بزرگوں نے اپنے کچھ تجربات بتائے ہیں۔ وہ تجربات عملیات کے لحاظ سے ہوتے ہیں۔ جیسے تجربے سے کوئی چیز معلوم ہو جائے۔ اب اگر کسی نے وہ عمل کر لیا تو اس کو فائدہ بھی ہو سکتا ہے اور نہ کرنے پر نقصان بھی نہیں ہو گا۔ اگر ایسی بات پہ کوئی عمل کرے تو اسے مسنون عمل سمجھ کے نہیں کرنا چاہئے۔ مثال کے طور پر یکم محرم کو 113 مرتبہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم لکھتے ہیں، مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ”جواہر الفقہ“ میں لکھا ہے: اگر کوئی اس کو مسنون عمل نہ سمجھتے ہوئے لکھے اور کاغذ اپنے پاس رکھ لے تو ان شاء اللہ وہ اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں رہے گا۔ گویا کہ یہ تعویذ کی طرح ہے اور تعویذ کا جواز موجود ہے۔ البتہ سب سے بڑی چیز مسنون اعمال ہی ہیں۔ لہٰذا مسنون اعمال کے مقابلے میں اس عمل کو مسنون نہیں کہیں گے۔ لیکن اگر کوئی کرتا ہے تو مضائقہ نہیں ہے، اس کا حسنِ ظن ہے۔ ’’اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِيْ بِيْ‘‘ (بخاری شریف، حدیث نمبر: 6970) کے مطابق ہم اس کو کچھ نہیں کہیں گے۔ بہرحال محرم کے مہینے میں گناہوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے (اللہ تعالیٰ ہم سب کو گناہوں سے بچائے۔ آمین)۔
دوسری بات یہ ہے کہ ماہِ محرم کی نویں اور دسویں یا دسویں اور گیارہویں تاریخ کا روزہ رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یہ مسنون عمل ہے۔ اور تیسری بات یہ ہے کہ عاشورہ کے دن اپنے اہل و عیال پر خرچ میں وسعت اختیار کرنی چاہئے۔ چوتھی بات یہ ہے کہ ہم لوگ اہلِ بیت اور ان کے مقام کو اچھی طرح پہچانیں اور ان کے ساتھ ہوں۔ ان کے ساتھ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان سے محبت کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں ایک قرآن اور دوسرا میری اولاد۔ کیونکہ اس وقت وہ حضرات موجود نہیں ہیں لہٰذا ان کے ساتھ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان سے محبت رکھیں۔
ہم درود شریف میں پڑھتے ہیں: اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ۔ آلِ رسول ﷺ کی محبت بھی دل میں رکھنی چاہئے۔ محرم الحرام میں جیسے گناہ سے بچنا چاہئے، اسی طرح آلِ رسول ﷺ کی بے تعظیمی سے بھی بچنا چاہئے۔ یہ درود شریف کا تقاضا ہے۔ جب ہمیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو آپ ﷺ کے ساتھ تعلق کی وجہ سے اونچا مقام دیا ہے تو ہمیں ان کی تعظیم کرنی چاہئے، کیونکہ ہمارا جتنا زیادہ تعلق اہلِ بیت اور صحابہ رضی اللہ عنہم کرام کے ساتھ ہو گا، اتنا زیادہ آپ ﷺ کے ساتھ تعلق ہو گا اور جتنا زیادہ آپ ﷺ کے ساتھ تعلق ہو گا، اتنا ہی اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق مضبوط ہو گا۔ اس لئے ہمیں ان کی محبت، ان کے احترام، اور ان کے دفاع کو لازم رکھنا چاہئے۔ اگر کوئی ان کے اوپر کیچڑ اچھالنے کی جسارت کرتا ہے اور کسی کے دل میں دفاع کا خیال بھی پیدا نہیں ہوتا تو یہ خطرناک بات ہے، کیونکہ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کو اس بات سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ اس وجہ سے ہمیں ان کا دفاع ضرور کرنا چاہئے۔
حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا مکتوب نمبر 56 نظر سے گذرا۔ اس میں حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اٰلِ رسول ﷺ کی عظمت اور احترام، آپ ﷺ کے ساتھ ان کے تعلق اور آپ ﷺ کا اہل بیت کے حق میں متوجہ رہنے کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ بہت اہم بات اور ہمارے عقیدے کا حصہ ہے۔ تاریخ میں بھی متعدد واقعات درج ہیں کہ جنہوں نے اٰلِ رسول ﷺ کی قدر کی، ان کو اللہ نے بہت نوازا۔ ہمارے ائمہ نے بھی اہلِ بیت سے محبت کی ہے، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ ان سب کو اللہ نے بہت نوازا، بلکہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا تو ایک شعر بھی ہے۔ جس کا ترجمہ ہے۔ "اے منیٰ کو جانے والے حاجیو سن لو:
إِنْ كَانَ رَفْضاً حُبُّ آلِ مُحَمَّدٍ
فَلْيَشْهَدِ الثَّقَلَانِ اَنَّيْ رَافِضِیٌّ
”ثقلین (یعنی جنات و انسان) گواہ رہیں، اگر اہلِ بیت کی محبت رفض ہے تو میں رافضی ہوں۔“
اندازہ کیجئے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اہلِ بیت کی محبت میں اس حد تک چلے گئے کہ اپنے اوپر رافضی ہونے کا ٹائٹل لگا لیا، اس سے زیادہ اور کوئی کیا کر سکتا ہے۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں حقیقت میں رافضی ہی ہوں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں ان سے اتنی محبت کرتا ہوں کہ اگر تم مجھے رافضی بھی کہو تو مجھے کوئی پروا نہیں، میں ان سے محبت کرنا نہیں چھوڑوں گا۔ جیسا کہ ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ ذکر اتنا کرو کہ لوگ تمہیں پاگل کہیں۔ کیا پاگل کا لفظ انسان اپنے لئے برداشت کرتا ہے؟ اس کے علاوہ ارشاد فرمایا: اللہ کا ذکر اتنا کرو کہ لوگ تمہیں ریاکار کہیں۔ کیا ریا کار کا ٹائٹل کوئی برداشت کر سکتا ہے؟ نہیں کر سکتا۔ تو پھر ایسا کیوں فرمایا گیا کہ اگر آپ کو ریا کار بھی کہا جائے یا پاگل اور مجنون بھی کہا جائے تب بھی ذکر سے مت رکنا۔ در اصل اس کا مطلب یہ ہے کہ ذکر کی کثرت کرو اور اس معاملے میں کسی کے کچھ کہنے کی پروا مت کرو۔ جس طرح کوئی پاگل اور ریا کار نہیں بننا چاہتا لیکن لوگوں کے کہنے کے ڈر سے ذکر سے نہیں رکتا، اسی طرح یہاں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا مطلب بھی یہ ہے کہ لوگ حبِّ اہلِ بیت کی وجہ سے مجھے رافضی بھی کہیں تب بھی میں ان کے ذکر سے نہیں رکوں گا۔
امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ بڑے محدث گذرے ہیں، ان کو لوگوں نے اس بات پر ٹھوکریں مار مار کر شہید کر دیا تھا کہ وہ حبِّ اہل بیت کے قائل تھے۔ حبِّ اہلِ بیت کو ہماری رگوں میں رچا بسا ہونا چاہئے، اس کے لئے کسی کی پروا نہیں کرنی چاہئے کہ لوگ کیا کہیں گے۔ بے شک لوگ جلیں، لوگ ہمیں مختلف ٹائٹل دیں، ہمیں کوئی پروا نہیں۔ ہم تو کہتے ہیں کہ یہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ محبت کا بہت بڑا ذریعہ ہے اور روحانیت کو حاصل کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ہاں جو لوگ ان کا نام لے کر برے عقیدے رکھتے ہیں ہم ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ اگر وہ حبِّ اہل بیت کی بات یہ سوچ کر کرتے ہیں کہ لوگ انہیں برا بھلا مت کہیں تو وہ غلط ہیں، کیونکہ اہلِ بیت سے حقیقی محبت تو ہم کرتے ہیں۔ جیسے یہود عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے کیونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر یہ بات ہے تو پھر اس دن روزہ رکھنے کے ہم زیادہ حق دار ہیں اس لئے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ہمارے ہیں، کیونکہ وہ پیغمبروں کے سلسلے میں سے تھے اور آپ ﷺ بھی پیغمبروں کے سلسلے میں سے آئے تھے۔ بالکل اسی طریقے سے اہلِ بیت ہمارے ہیں۔
اس کا ایک اور بڑا ثبوت یہ ہے کہ مامونُ الرشید کے وقت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دشمنوں نے بغاوت کر دی۔ چونکہ اس کے ارد گرد جو لوگ تھے وہ بھی سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مخالف تھے اور اس حد تک camouflage کر دیا گیا تھا کہ مامونُ الرشید کو پتا ہی نہیں چلا۔ اہل سنت والجماعت بڑے پریشان ہوئے کہ اس کو کیسے سمجھایا جائے، کس طرح اس تک بات پہنچائی جائے، کیونکہ مامون الرشید تک جانے کے تمام راستے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دشمنوں سے ہو کر پہنچتے تھے۔ تو اہل سنت و الجماعت نے حضرت امام رضا رحمۃ اللہ علیہ کے ذریعے سے پیغام پہنچایا جو اہلِ بیت اور اٰلِ رسول میں سے تھے اور مامون الرشید کے دربار میں ان کا بڑا مرتبہ اور قدر و منزلت تھی۔ اہل سنت و الجماعت نے ان سے درخواست کی کہ حضرت آپ کے علاوہ کوئی اور مامون الرشید تک یہ بات نہیں پہنچا سکتا۔ حضرت امام رضا رحمۃ اللہ علیہ نے مامون کو اس بغاوت سے آگاہ کیا، خلیفہ مامون الرشید نے فوراً ان کے خلاف کاروائی کی اور ان کے سرغنہ کو حمام میں قتل کروا دیا۔ اس طرح یہ بغاوت فرو ہوئی۔ تو غور کیجئے کہ امام رضا رحمۃ اللہ علیہ اس وقت اہل سنت والجماعت کے ساتھ تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دشمنوں کے خلاف تھے۔
الحمد للہ۔ اہل بیت در اصل ہمارے ہی ہیں۔ ہم کسی کے خلاف نہیں، نہ ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے خلاف ہیں، نہ پیغمبروں کے، نہ اہل بیت کے، نہ امہات المٶمنین کے اور نہ ہی اولیاء کے خلاف ہیں۔ لیکن جو ان میں سے کسی ایک کی بھی مخالفت کرتا ہو، ہم اس کے سخت خلاف ہیں۔ یہ قانون اتنا حتمی ہے کہ اس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ minus multiplied by minus is positive۔ (یعنی منفی کی منفی سے ضرب کا جواب مثبت ہوتا ہے) یہ ہمارے پاس بہت بڑا نقطہ ہے۔ الحمد للہ ہم لوگ فرقہ پرستی میں نہیں پڑتے، بلکہ فرقہ پرستی کے خلاف ہیں۔ جو بھی فرقہ بنے گا ہم اس کے خلاف ہوں گے، کیونکہ ہم تو اصل کے ساتھ ہیں، ہم ان سب کو مانتے ہیں، اس لئے ہم پر فرقہ پرستی کا الزام لگانا درست نہیں۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ جو لوگ ان میں سے کسی ایک کے بھی خلاف ہوں گے ہم ان کی مخالفت کریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو سمجھ کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کو حق پر جمع فرمائے۔ (آمین)
وَ آخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ