دیباچہ

دیباچہ
الحمد للہ شاہرائے معرفت کا آٹھواں شمارہ آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے قبول فرمائے اور قارئین کے لئے مفید بنائے۔ آمین۔
شمارۂ ہٰذا کا آغاز ”مناجات“ اور ”نعت“ پر مشتمل خوبصورت شعری کلام سے کیا گیا ہے۔
اِس شمارہ میں ماہِ ربیع الاوّل کی مناسبت سے ایک عارفانہ کلام جبکہ دو نثری مضامین شامل کئے گئے ہیں۔ پہلا مضمون ایک مقالہ ہے جس میں ”نبی کریم ﷺ کی تاریخِ پیدائش میں اختلاف“ کے موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ جبکہ دوسرا مضمون حضرت سید شبیر احمد کاکا خیل صاحب دامت برکاتہم کا ایک خطبۂ جمعہ ہے جو حضرت نے ”آپ ﷺ کی محبت کی اہمیت و ضرورت“ کے موضوع پر ارشاد فرمایا تھا۔
جیسا کہ قارئین کو معلوم ہے کہ ہر شمارہ میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے مکتوبات میں سے منتخب مکتوب پیش کیا جاتا ہے۔ اِس شمارہ میں عقائد کی اہمیت پر لکھے جانے والے مکتوبات میں سے وہ مکتوب شامل کیا گیا ہے جس میں حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ نے عقائد کی تشریح فرمائی ہے۔ اس سلسلے میں عقیدہ نمبر 10 تا عقیدہ نمبر 19 پر مشتمل مکتوبات کا حصہ شامل کیا گیا ہے جس میں درج ذیل عقائد کی تشریح فرمائی گئی ہے:
قضا و قدر۔
جبر و اختیار۔
اہلِ ایمان کے ہمیشہ جنت میں رہنے اور کفار کے ہمیشہ جہنم میں محبوس رہنے کی وجوہات۔
انبیاءِ کرام کی بعثت سراپا رحمت ہے۔ ان ہستیوں کے بغیر ہماری ارتقا پذیر اور حوادث سے داغ دار عقل اللہ رب العزت کی معرفت، مرضیات اور نامرضیات کے بارے میں ہرگز رہنمائی نہ کر سکتی اور نہ ہی تزکیہ و تصفیہ کی حقیقت میسر آتی۔
جنت میں اللہ تعالیٰ کی بے جہت و بے کیف رویت۔
اس کے علاوہ دوسرے بنیادی عقائد مثلاً قبر، حشر، میزان، جنت، دوزخ کے بارے بھی سیر حاصل بحث فرمائی ہے۔ نیز واضح فرمایا ہے کہ ان چیزوں پر دل سے ایمان لانے اور زبان سے اقرار کرنے کے ساتھ کفر اور کافری کے لوازم سے بیزاری کا اظہار کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔
حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کے سلسلے میں، شمارۂ ہذا میں حضرت بابا حلیم گل رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ”مقاماتِ قطبیہ و مقالاتِ قدسیہ“ کا درس نمبر 5 پیش کیا گیا ہے۔ اس میں اولیاء کرام کے مراتب بیان کرتے ہوئے اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ قطبِ حقیقی تھے۔ تجلئِ ذات سے متحمل اور منور تھے اور نورِ ذات میں محو و فنا تھے۔ جو محو ہو جائے اس کو کیا خبر کہ وہ کون ہے اور کیا چیز ہے، اس کی زبان بند ہو جاتی ہے۔ اس حالت میں ”سُبْحَانِیْ“ اور ”اَنَا الْحَق“ کہنا نا مناسب ہے اور ہرگز جائز نہیں۔ البتہ جو سالک تجلئِ صفات میں مستغرق ہوتا ہے وہ صفات کے جمال کی وجہ سے اپنے آپ کو بھی انہی صفات میں موصوف دیکھتا ہے اور سالک کا وجود مجذوب ہو کر کلام کرنے لگ جاتا ہے، پس اہلِ ظاہر یہ کلام مجذوب کی جانب منسوب کر کے انہیں نقصان پہنچاتے ہیں۔
حضرت کاکا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مجاہدات کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ انہوں نے اپنے ایامِ طفولیت میں اتنی ریاضتیں، محنتیں اور مشقتیں اٹھائیں جو شمار اور گنتی سے باہر ہیں۔ جس کو ریاضت کی سعادت ہو جائے اسے ابدی نعمت اور سرمدی دولت نصیب ہو جاتی ہے۔
قارئین کرام سے گزارش ہے کہ شمارۂ ہذا کا بغور مطالعہ فرمائیں اور اپنی کیفیات و آراء سے مطلع فرمائیں۔ اللہ کریم ہماری کامل اصلاح فرمائے اور ہمیں دائمی رضا سے نوازے۔ آمین۔