اغیار سے دوستی

اغیار کی اب دوستی سے ہے مری توبہ

کہ ان کی بے وفائی نے ہے مجھ پہ یہ کھولا

دنیا ہو جس کے دل میں تجھے دل میں کیا سمجھے

جو ہے غلام نفس کا کرے کیسے وہ وفا