مثنوی میں کیا ہیں فرماتے جناب
جہد کن در بیخودی خود را بیاب
اس کا مطلب یہ ہے کہ خود کو مٹا
کرفنااپنی جو ہے یہ آب و تاب
نفس کی آلائشوں کو دور کر
چھائی تیرے دل پہ جو ہیں بے حساب
آنکھیں تیری سچ بھی پھر دیکھ لیں
دنیا ایسی ہو کہ جیسے خیال و خواب
کان تیرے حق سے رو گرداں نہ ہوں
اور نہ سنوائے غلط نفس ِ خراب
خود سے تو گم ہو صرف وہ یاد ہو
پھر وہاں سے آئے بھی کوئی جواب
تو سمجھ جائے کہ تو کچھ بھی نہیں
اور سب کچھ اس کا ہی ہے لاجواب
اپنے خود کو عشق میں معدوم کر
تو بقا کا پھر کھلے گا تجھ پہ باب
جس میں تو اس کا ہی ہے اور وہ ترا
ہر وقت سنتا ہو تو اس کا خطاب
تو کرے وہ جو اسے منظور ہو
وہ کرے گا جو کہ چاہیں آنجناب
خود کو پہچانو شبیر ؔ کہ کیا ہو تم
ختم شد واللہ اعلم بالصواب