دل تو اب تیرا ہی شیدائی ہے
راہ کچھ یوں اسے دکھلائی ہے
دل کے خانے میں ہے تصویر یار
وہ ملے جو نظر جھکائی ہے
ہر طرف نور ہے سرور ہے بس
میں ہوں اور تو ہے اور تنہائی ہے
مجھے کیا کھینچے رونق دنیا
دل کو اک بات جو سمجھائی ہے
مرے دل میں بسا ہے تو جب سے
دل نے دنیا الگ بسائی ہے
جلوت و خلوت کی اب بات کہاں
اب تو تجھ سے ہی شناسائی ہے
سامنے تیرے ہیں اعضاء سجدہ ریز
سب کی خواہش یہی جو پائی ہے
حیات تھی وگرنہ مرجاتا
اب تو کچھ چوٹ ایسی کھائی ہے
بوجھ دن بھر مرے دل پر تو رہا
رات مستی پہ اتر آئی ہے
عشقِ نادان1کے اشاروں پہ شبیر ؔ
ہیں خموش جن کو سمجھ آئی ہے
مصلحتوں سے بے نیاز حقیقی محبت کے جو رموز ہیں وہ جن کو بھی سمجھ آۓ ہیں وہ خاموش ہیں