چوٹ پر چوٹ کھلائے ہے تو
اور پھر خود ہی بچائے ہے تو
جو ہیں گم گشتہ راہِ منزل سے
ان کو رستہ بھی دکھائے ہے تو
غلطیاں اور گناہ جو کرلیں
ایک توبہ سے مٹائے ہے تو
ہم پہ ہے ہم سے مہربان زیادہ
خود سے خود سے ہی ملائے ہے تو
ہوکے ہر چیز میں ظاہر بھی تو
کس طرح خود کو چھپائے ہے تو
دل مرا تجھ پہ مر مٹا ہے جو
اس کو بھی کھینچ کے لائے ہے تو
میں کسی اور کا کیا ذکر کروں
جب سے دل میں مرے آئے ہے تو
کر قبول اب یہ بندگی میری
بندہ اپنا جو بنائے ہے تو
رستہ اپنے حبیب کا دے دے
اپنوں کو جس پہ چلائے ہے تو
جاگنے دینا نہ ان کو تو کبھی
جن رذائل کو سلائے ہے تو
اب کسی اور کی پرواہ کیا کروں
مرےدل میں جب سمائے ہے تو
کیا کہوں یہ جو ہیں اشعار ِ شبیر ؔ
فضل سے مجھ کو سکھائے ہے تو