کینہ


ترے دل میں اگر یہ کینہ ہے

جس سے تاریک تیرا سینہ ہے

اس کی تاریکی کو تو دیکھ لے گا

دل کی گر آنکھ تری بینا ہے

دل کے امراض میں مرض ہے ایک

اور بد بختی کا اک زینہ ہے

دل میں رکھا ہے نفرتوں کا جب

گم گشتہ قصہ پارینہ ہے

ہو خبردار بدولت اس کے

ڈوبنے کو ترا سفینہ ہے

جو دعا آسرا ہے اپنا شبیر

یہ بھی ٹوٹے تو پھر کیا جینا ہے